M.Sami.R
Minister (2k+ posts)

مطمئن بے غــــــــــــــیرت
میں ٹی وی پر عمران خان کی طلاق کے بعد ہونے والے مختلف دانشوروں کے تبصرے سن رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی، بادل ناخواستہ اٹھ کر دروازہ کھولا ، سامنے پھجو میراثی کھڑا اپنے پیلے پیلے دانتوں کی نمائش کررہا تھا، پھجو میراثی ہمارے علاقے کا مشہور و معروف ”آئٹم “ تھا، شیر کا جیالا تھا، ہر جلسے ریلی میں ”شیر آیا ، شیر آیا “ کے نعرے لگانے والوں میں سب سے آگے ہوتا تھا۔ پھجو میراثی کو دیکھتے ہی مجھے پتا چل گیا کہ وہ کیوں آیا تھا۔ میں نے دروازہ کھول کر پھجو میراثی کو اندر آنے کے لئے کہا، اندر آتے ہی وہ جھٹ سے بولا، ”دیکھا ، دیکھا، میں نہ کہتا تھا یہ شخص کسی قابل نہیں“۔ بات کرتے ہوئے پھجو میراثی سردی سے کانپ رہا تھا، اس کے تن پر صرف بنیان اور دھوتی ہی تھی،مجھے پھجو میراثی کی حالت پر ترس آگیا، میں نے اسے جواب دینے کی بجائے ، پاس پڑی ہوئی چادر اٹھا کر اس پر ڈال دی، تاکہ اس کی کپکپاہٹ تو کم ہو ۔ پھجو میراثی نے ممنون نظروں سے میری طرف دیکھا، اور پھر اپنے موضوع کی طرف لپکا، ” جو شخص اپنا گھر نہیں چلا سکا، وہ ملک کیسے چلائے گا“۔ پھجو میراثی جواب طلب نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا۔ اس کی صحت پہلے کی نسبت بہت کمزور ہوگئی تھی، دور سے ہڈیوں کا ڈھانچا ہی لگتا تھا۔ اکثر اوقات وہ بھوکا ہی ہوتا تھا، میں نے اس سے کھانے کے لئے پوچھا، اس نے زور زور سے اثبات میں سر ہلا دیا۔ میں نے کچن میں جا کر اس کے لئے کچھ کھانے کا بندوبست کیا اور لاکر اس کے سامنے رکھ دیا، وہ کھانا دیکھتے ہی اس پر ٹوٹ پڑا اور تھوڑی دیر میں ہی سب ختم کرکے پھر میری طرف متوجہ ہوا۔میری نظریں ٹی وی کی طرف تھیں۔ پھجو میراثی بولا،”دیکھو پوری دنیا تھو تھو کررہی ہے، تم اس شخص کی حمایت کرتے رہے، جو شخص چار دن بیوی کو نہ سنبھال سکا، وہ ملک کیا سنبھالے گا“،۔
کھانا کھا کر پھجو میراثی کے جوش و ولولے میں اضافہ ہوگیا تھا ، میں نے پھجو میراثی کی طرف غور سے دیکھا، اس کی شکل سے ہی خستہ حالی عیاں تھی، کرائے کے ایک جھونپڑی نما مکان میں اکیلا رہتا تھا، پچھلے سال اس کی بیوی اس کو چھوڑ کرپڑوس والے میدو نائی کے ساتھ بھاگ گئی تھی، پھر بھی وہ اپنی حالت سے خوش تھا، پھجو کی بے چینی دیکھ کر میں نے کہا،” تمہاری بیوی پچھلے سال بھاگ گئی تھی، اس کی کچھ خیر خبر ملی“، میں نے پھجو میراثی کے چہرے پر شرمندگی کے آثار ڈھونڈنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہا، پھجو میراثی دانت نکال کر بولا، ”دفع کرو اسے، میری طرف سے جہنم میں جائے، تم آج کے موضوع پر بات کرو،“ پھجو پھر مجھے اپنے من پسند موضوع کی طرف متوجہ کرنے لگا، جس کے لئے وہ میرے پاس آیا تھا۔ میں نے پھجو میراثی کی بات کو اگنور کرتے ہوئے پوچھا، ” تمہارے بھائی چھیدو میراثی کا کیا بنا، کب تک چھوٹ جائے گا“۔ پھجو میراثی کا بھائی ایک جھوٹے کیس میں پولیس نے داب لیا تھا اور پچھلے تین مہینوں سے پھجو میراثی تھانوں کے چکر لگا لگا کر خوار ہوگیا تھا، ہر بار پولیس پھجو میراثی کو فری میں چھترول کرکے تھانے سے باہر پھینک دیتی تھی، پولیس کی مانگی گئی رقم نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک اس کا بھائی اندر ہی سڑ رہا تھا۔ “ اپنے بھائی کا ذکر سن کر پھجو میراثی کے چہرے پر اداسی نمودار ہوئی ، اس کی خاموشی سے پتا چل رہا تھا کہ ابھی اس کے بھائی کی رہائی کے دور دور تک کوئی امکانات نہیں، بہر حال پھجو میراثی کی اداسی دیکھ کر مجھے اس پر ترس آگیا اور میں نے موضوع بدل لیا، ”پھجو میاں ! پورا ایک ماہ ہوگیا ہے مگر تم نے ابھی تک میرے چار ہزار روپے نہیں لوٹائے“، پھجو میراثی کو گزشتہ ماہ اچانک ہی چار ہزار روپے بل بجلی آگیا تھا ، حالانکہ اس کے گھر میں سوائے ایک پنکھے اور دو بلب کے اور کچھ نہ تھا، پورے محلے میں ہر گھر کا چکر لگا لیا، مگر کسی نے پھجو میراثی کو ایک روپیہ تک نہ دیاتھا۔ آخر مجھ سے ادھار لے کر اس نے اپنا بل ادا کیا، میری بات سن کر وہ بولا، ” آپ فکر نہ کریں، اگلے دس پندرہ دن تک ضرور دے دوں گا، “ حالانکہ مجھے پتا تھا کہ اگلے دس پندرہ ماہ تک بھی وہ چار ہزار روپے نہیں لوٹا سکے گا،۔
پھجو میراثی پھر پرانے موضوع کی طرف لوٹا، ”اب تو تمہیں میری بات کا یقین ہوگیا ہوگا، یہ شخص اس قابل نہیں کہ اس کے حوالے ملک کیا جائے، “ ۔ پھجو میراثی نے گویا فیصلہ سنا دیا، میں نے ٹی وی کی آواز بند کی اور پھجو میراثی سے پوچھا، ”پھجو کیا تم اپنی موجودہ حالت سے مطمئن ہو، تمہاری غربت ، بدحالی کی وجہ سے تمہاری بیوی بھاگ گئی، تمہارا بھائی جیل میں سڑرہا ہے،پولیس تمہاری بات نہیں سنتی، لوڈشیڈنگ نے تمہارا کاروبارتباہ کردیا ہے،تمہارے پاس بجلی کا بل اداکرنے کے لئے پیسے نہیں ہیں، تن پر ڈھنگ کے کپڑے تک نہیں ہیں، کیا تم اس صورتِ حال سے مطمئن ہو؟“ میرے ان تمام سوالات کو پھجو میراثی نے بڑے آرام سے اگنور کیا اور بڑی ڈھٹائی سے بولا، ” تم اب بات گھماؤ مت، جو میں کہہ رہا ہوں اس کا جواب دو،“ ۔ میرے پاس وقت کی کمی تھی، میں نے گھڑی دیکھی اور پھر پھجو میراثی کی طرف دیکھا، وہ اپنے آپ جانے والا تو تھا نہیں، میں نے اس سے کہا، ”پھجو، اس وقت مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے، پھر کسی دن اس موضوع پر بات کریں گے، چلو میں تمہیں دروازے تک چھوڑ آؤں، “ پھجو میری بات سن کر بادلِ ناخواستہ اٹھا اور میرے ساتھ چل دیا۔
پھجو کو باہر نکال کر میں دروازہ بند کرنے ہی والا تھا کہ ایک طرف سے پھجو میراثی کا مکان مالک آیا اور پھجو کو گریبان سے پکڑ لیا اور کرائے کا مطالبہ کرنے لگا، پھجو تھر تھر کانپنے لگا، اس کی منت سماجت کرنے لگا، مگر اس نے پھجو کی ایک نہ سنی اور تین چار ہاتھ اس کی گردن کے نیچے جما دیئے، پھجو میراثی نیچے گر پڑا، میری دی ہوئی چادر ایک طرف گرگئی۔ مکان مالک نے وہ چادر اٹھائی اور پھجو کو کھڑا ہونے کا اشارہ کیا، پھجو کھڑا ہوگیا، مکان مالک نے اس سے کہا کہ اپنی بنیا ن اور دھوتی اتار کر اس کے حوالے کردے، پھجو ہکا بکا کھڑا رہا، مکان مالک آگے بڑھا اور پھجو کی دھوتی کھینچ لی، پھر زبردستی اس کی بنیان بھی اتار لی، اور اسے جلد از جلد کرایہ ادا کرنے کی وارننگ دیتا ہوا چلا گیا، پھجو میراثی بیچ سڑک میں الف ننگا کھڑا تھا، میں ابھی تک دروازے میں ہی کھڑا تھا،اس نے میرے گھر کی طرف قدم بڑھایا، مگر میرے گھر میں ایک مطمئن بے غیرت کے لئے کوئی جگہ نہ تھی، میں نے جھٹ سے دروازہ بند کردیا۔
کھانا کھا کر پھجو میراثی کے جوش و ولولے میں اضافہ ہوگیا تھا ، میں نے پھجو میراثی کی طرف غور سے دیکھا، اس کی شکل سے ہی خستہ حالی عیاں تھی، کرائے کے ایک جھونپڑی نما مکان میں اکیلا رہتا تھا، پچھلے سال اس کی بیوی اس کو چھوڑ کرپڑوس والے میدو نائی کے ساتھ بھاگ گئی تھی، پھر بھی وہ اپنی حالت سے خوش تھا، پھجو کی بے چینی دیکھ کر میں نے کہا،” تمہاری بیوی پچھلے سال بھاگ گئی تھی، اس کی کچھ خیر خبر ملی“، میں نے پھجو میراثی کے چہرے پر شرمندگی کے آثار ڈھونڈنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہا، پھجو میراثی دانت نکال کر بولا، ”دفع کرو اسے، میری طرف سے جہنم میں جائے، تم آج کے موضوع پر بات کرو،“ پھجو پھر مجھے اپنے من پسند موضوع کی طرف متوجہ کرنے لگا، جس کے لئے وہ میرے پاس آیا تھا۔ میں نے پھجو میراثی کی بات کو اگنور کرتے ہوئے پوچھا، ” تمہارے بھائی چھیدو میراثی کا کیا بنا، کب تک چھوٹ جائے گا“۔ پھجو میراثی کا بھائی ایک جھوٹے کیس میں پولیس نے داب لیا تھا اور پچھلے تین مہینوں سے پھجو میراثی تھانوں کے چکر لگا لگا کر خوار ہوگیا تھا، ہر بار پولیس پھجو میراثی کو فری میں چھترول کرکے تھانے سے باہر پھینک دیتی تھی، پولیس کی مانگی گئی رقم نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک اس کا بھائی اندر ہی سڑ رہا تھا۔ “ اپنے بھائی کا ذکر سن کر پھجو میراثی کے چہرے پر اداسی نمودار ہوئی ، اس کی خاموشی سے پتا چل رہا تھا کہ ابھی اس کے بھائی کی رہائی کے دور دور تک کوئی امکانات نہیں، بہر حال پھجو میراثی کی اداسی دیکھ کر مجھے اس پر ترس آگیا اور میں نے موضوع بدل لیا، ”پھجو میاں ! پورا ایک ماہ ہوگیا ہے مگر تم نے ابھی تک میرے چار ہزار روپے نہیں لوٹائے“، پھجو میراثی کو گزشتہ ماہ اچانک ہی چار ہزار روپے بل بجلی آگیا تھا ، حالانکہ اس کے گھر میں سوائے ایک پنکھے اور دو بلب کے اور کچھ نہ تھا، پورے محلے میں ہر گھر کا چکر لگا لیا، مگر کسی نے پھجو میراثی کو ایک روپیہ تک نہ دیاتھا۔ آخر مجھ سے ادھار لے کر اس نے اپنا بل ادا کیا، میری بات سن کر وہ بولا، ” آپ فکر نہ کریں، اگلے دس پندرہ دن تک ضرور دے دوں گا، “ حالانکہ مجھے پتا تھا کہ اگلے دس پندرہ ماہ تک بھی وہ چار ہزار روپے نہیں لوٹا سکے گا،۔
پھجو میراثی پھر پرانے موضوع کی طرف لوٹا، ”اب تو تمہیں میری بات کا یقین ہوگیا ہوگا، یہ شخص اس قابل نہیں کہ اس کے حوالے ملک کیا جائے، “ ۔ پھجو میراثی نے گویا فیصلہ سنا دیا، میں نے ٹی وی کی آواز بند کی اور پھجو میراثی سے پوچھا، ”پھجو کیا تم اپنی موجودہ حالت سے مطمئن ہو، تمہاری غربت ، بدحالی کی وجہ سے تمہاری بیوی بھاگ گئی، تمہارا بھائی جیل میں سڑرہا ہے،پولیس تمہاری بات نہیں سنتی، لوڈشیڈنگ نے تمہارا کاروبارتباہ کردیا ہے،تمہارے پاس بجلی کا بل اداکرنے کے لئے پیسے نہیں ہیں، تن پر ڈھنگ کے کپڑے تک نہیں ہیں، کیا تم اس صورتِ حال سے مطمئن ہو؟“ میرے ان تمام سوالات کو پھجو میراثی نے بڑے آرام سے اگنور کیا اور بڑی ڈھٹائی سے بولا، ” تم اب بات گھماؤ مت، جو میں کہہ رہا ہوں اس کا جواب دو،“ ۔ میرے پاس وقت کی کمی تھی، میں نے گھڑی دیکھی اور پھر پھجو میراثی کی طرف دیکھا، وہ اپنے آپ جانے والا تو تھا نہیں، میں نے اس سے کہا، ”پھجو، اس وقت مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے، پھر کسی دن اس موضوع پر بات کریں گے، چلو میں تمہیں دروازے تک چھوڑ آؤں، “ پھجو میری بات سن کر بادلِ ناخواستہ اٹھا اور میرے ساتھ چل دیا۔
پھجو کو باہر نکال کر میں دروازہ بند کرنے ہی والا تھا کہ ایک طرف سے پھجو میراثی کا مکان مالک آیا اور پھجو کو گریبان سے پکڑ لیا اور کرائے کا مطالبہ کرنے لگا، پھجو تھر تھر کانپنے لگا، اس کی منت سماجت کرنے لگا، مگر اس نے پھجو کی ایک نہ سنی اور تین چار ہاتھ اس کی گردن کے نیچے جما دیئے، پھجو میراثی نیچے گر پڑا، میری دی ہوئی چادر ایک طرف گرگئی۔ مکان مالک نے وہ چادر اٹھائی اور پھجو کو کھڑا ہونے کا اشارہ کیا، پھجو کھڑا ہوگیا، مکان مالک نے اس سے کہا کہ اپنی بنیا ن اور دھوتی اتار کر اس کے حوالے کردے، پھجو ہکا بکا کھڑا رہا، مکان مالک آگے بڑھا اور پھجو کی دھوتی کھینچ لی، پھر زبردستی اس کی بنیان بھی اتار لی، اور اسے جلد از جلد کرایہ ادا کرنے کی وارننگ دیتا ہوا چلا گیا، پھجو میراثی بیچ سڑک میں الف ننگا کھڑا تھا، میں ابھی تک دروازے میں ہی کھڑا تھا،اس نے میرے گھر کی طرف قدم بڑھایا، مگر میرے گھر میں ایک مطمئن بے غیرت کے لئے کوئی جگہ نہ تھی، میں نے جھٹ سے دروازہ بند کردیا۔
- Featured Thumbs
- http://s5.postimg.org/vyk8v2whz/gaaama.jpg
Last edited: