دینی مدارس میں طلبہ کے ساتھ معلم حضرات کی بعد فعلی کی خبریں اکثر اوقات آتی رہتی ہیں لیکن اس ہفتہ ایک مفتی عزیز الرحمان کی اپنے طالب علم کے ساتھ بد فعلی کی ویڈیو وائرل ہو گئی ہے۔ میری دانست میں وہ عوامل جو اس قبیح فعل کا سبب بن سکتے ہیں ان میں سب سے بڑا کردار وہ درس نظامی ہے جو ہمارے تقریبا تمام مدارس میں تدریس کیا جاتا ہے۔ نہ صرف اس درسی نظام میں قرآن و حدیث کا دورا نیہ انتہائی کم رکھا گیا ہے، بلکہ ایسے خود ساختہ فحش فقہی فتاویٰ پڑھاۓ جاتے ہیں، جن کا تذکرہ قرآن اور حدیث میں بلکل نہیں، جو بچوں کے نا پختہ ذہن سے معصومیت چھین لینے کا سبب بنتا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ ایسے فتاویٰ کا جائزہ لینے کے لئے اس لنک کو کلک کریں۔ انہی طلبہ سے آگے چل کر مفتی اور معلم بنتے ہیں اوران میں سے کچھ اپنے طالب علموں کو اپنی حوس کا نشانہ بناتے ہیں اور یہ شیطانی چکر اسی طرح نسل در نسل جاری رہتا ہے۔
موجودہ درس نظامی تزکیہ نفس‘ تقویٰ یا کردار سازی کی تعلیم وتربیت سے ”پاک“ ہے۔ قران و حدیث کی تعلیمات سے یہ نصاب بڑی حد تک محروم ہے۔المیہ یہ ہے کہ درس نظامی کی شکل میں نہ صرف ملانظام الدین اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی فکر سے بالکل متضاد نصاب مروج ہو گیا ، بلکہ اس میں عربی زبان کی اہمیت بھی ختم کر دی گئی ہے۔اس نصاب کے ”علماءوفضلا“عربی لکھ سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں۔ اس لیے کہ اس میں اصل اہمیت یونانیوں کے باطل اور فرسودہ فلسفے اور منطق کو حاصل ہے یا کچھ فقہی کتابوں اور علم کلام کی موشگافیوں کو ۔ حالانکہ قران کریم اور سیرت النبی ‘ کردارسازی یا تزکیہ نفس کے بنیادی مآخذ ہیں‘جب کہ موجودہ درس نظامی میں قران کی تعلیم برائے نام ہے اور سیرت النبی داخل ِنصاب ہی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ درس نظامی سے فراغت حاصل کرنے والے تزکیہ نفس‘روحانی بالیدگی‘اعلیٰ اخلاق ‘ بلند کردار اور بصیرت سے محروم ہوتے ہیں۔اس کی عملی مثالیں تاریخ میں بھی رقم ہیں اور موجودہ دور میں بھی بہت واضح اور نمایاں ہیں۔
درس نظامی میں شامل یونانی فلسفہ و منطق کے بارے میں امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی کی رائے بھی قابل توجہ ہے :۔
علمِ کلام و فقہ کا استاد صَرف و نحو کے استاد سے بہتر ہے اور صرف ونحو کا استاد فلسفے کے علوم کے استاد سے بہتر ہے کیونکہ فلسفے کی علوم سے کوئی نسبت نہیں ۔ اس کے اکثر مسائل بے مقصد ‘ لاحاصل بلکہ باطل ہیں۔ اس کے پڑھنے والے جہل مرکب کا شکار ہو جاتے ہیں۔
درس نظامی کا تجزیہ شاہ سلیمان سجادہ نشین پھلواری شریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:۔
درس نظامی ایک خودرونظام تعلیم ہے‘اس درس کو حضرت قبلہ ملانظام الدین رحمہ اللہ کا درس کہنا سراسر گستاخی اور بے ادبی ہے۔حضرت ملا صاحب رحمہ اللہ نے نہ یہ موجودہ کتابیں پڑھائیں‘نہ ہی اکثر کتابیں ان کے وقت میں تالیف ہوئی تھیں۔کچھ تو بعضے اساتذہ نے اپنے مذاق کے موافق کتابیں پڑھائیں اور کچھ طالب علموں کے مذاق نے اضافہ کیا۔ حضرت ملا صاحب رحمہ اللہ کا دامن اس سے پاک ہے۔ حضرت ملا صاحب رحمہ اللہ صوفی صافی عالی مشرب تھے ‘ اگر وہ اس نظام کو درست فرماتے توباطنی پاکیزگی یا اخلاق کی کوئی کتاب اس میں ضرور داخل کرتے۔ (بحوالہ رودِ کوثر)
حضرت شاہ ولی اللہ نے تاریخ کے مطالعے کو ”تذکیر بایّام اللہ “سے تعبیر کیا ہے‘جسے وہ قرآن کے پانچ علوم میں سے ایک علم سمجھتے ہیں۔مسلمانوں کے حکمران طبقے اور نام نہاد مذہبی گروہ جسے اسلام کی حقانیت ثابت کرنے سے کوئی غرض نہیں جدید علوم تو کیا یہ پرانے علوم کے بھی دشمن ہیں۔حد یہ ہے کہ درس نظامی میں مسلمانوں کی تاریخ بھی شامل نہیں۔
یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ درس نظامی سے فارغ ہونے والوں کو قرانی آیات کیوں یاد نہیں رہتیں؟ اس لیے کہ اس نصاب میں قران فہمی کو بنیادی اہمیت ہی نہیں دی گئی ہے۔درس نظامی کے نظام و نصاب کو لادینی (Secular) قراردینا بظاہر غلط معلوم ہوتا ہے، لیکن عملی جانچ سے پتہ چلتا ہے کہ درس نظامی ہر اعتبار سے لادینی نصاب ہے جو ماضی کے لادین حکمرانوں نے محض حکومتی تقاضوں کو پورا کرنے اور سرکاری کلرک وغیرہ تیار کرنے کے لیے وضع کیا تھا۔اس کی ایک واضح شہادت یہ ہے کہ اس نصاب میں قران و حدیث کا جو حصہ شامل ہے وہ ا س سے بھی کہیں کم ہے جتنا کہ موجودہ لادین تعلیمی نصاب میں شامل ہے۔سورہ الانفال اور سورہ احزاب کا ترجمہ اور تفسیر میٹرک کے نصاب میں شامل ہے۔ اسلام کے بنیادی عقائد ‘ ارکان اسلام کی تشریح و تفصیل ‘ 10آیات اور 10احادیث کی تشریح ایف اے کے نصاب میں شامل ہے۔ اس کے برعکس درس نظامی میں صرف سورہ بقرہ کی تفسیر بیضاوی شامل ہے‘ وہ بھی صرف برکت کے لیے ۔ اس کے بالالتزام اور تحقیقی مطالعے سے درس نظامی کے مدرسین اور طلبہ دونوں ہی محروم رہتے ہیں۔
حدیث نبوی کے ساتھ درس نظامی میں جو سلوک کیاجاتا ہے وہ بھی نہایت افسوس ناک ہے ۔ ان مدارس میں حدیث کا مطالعہ نہیں بلکہ محض ”دورہ“ کرایا جاتا ہے۔حدیث صرف آخری برس میں پڑھائی جاتی ہے اور وہ اس طرح کہ حدیث کی دس کتابوں کی تبرکاً ورق گردانی کے بعدسند فضیلت عطا کر دی جاتی ہے۔ایک برس میں ساری کتابوں کا پڑھنا ممکن ہی نہیں،حدیث کی دس کتب میں سے ہر کتاب جہازی سائز کے کم از کم سات سو صفحات پر مشتمل ہے؛جب کہ ”دورہ“ کا دورانیہ صرف نوماہ کا رکھا گیا ہے۔اتنے دنوں میں تو حدیث کی ان کتب کی ورق گردانی بھی ممکن نہیں۔ درس نظامی کے مدرسین بالعموم اور حدیث کے اساتذہ بالخصوص فروعی اور فرقہ وارانہ مسائل کی تفصیلات میں تو پوری توانائی خرچ کرتے ہیں لیکن اسلام کی بنیادی تعلیمات‘اس کے آفاقی اصول‘اس کے اجتماعی نظام اور اس کی روح کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ وہ نصاب جس میں قرآن و سنت کا تفصیلی اور تحقیقی مطالعہ ہی شامل نہ ہو،وہ کیسے دینی نصاب کہلا سکتا ہے!۔
درس نظامی کے منتظمین نے نہ اسلامی علوم کے اصل سرچشموں ‘ قرآن کریم اور حدیث نبوی کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ‘ آج امت مسلمہ اسی جرم کی سزا بھگت رہی ہے۔ کم وبیش تین صدیوں سے سامراجی طاقتوں کی غلامی میں جکڑی ہوئی ہے ۔ اسلامی ممالک وسائل سے معمور ہونے کے باوجود اذیت ناک غربت و افلاس کے عفریت کے پنجوں میں دبے ہوئے کراہ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہود کے بارے میں فرمایا تھا کہ انہوں نے جب احکام خداوندی سے روگردانی کی تو ان پر غربت ‘مسکنت‘ذلت و رسوائی کا عذاب مسلط کر دیاگیا۔آج امت مسلمہ اسی آیت کی مصداق بن چکی ہے۔ 1857ءسے 1947ءتک برصغیر ہند کے مسلمانوں کی گردنوں میں صرف ایک سامراجی طاقت کا طوقِ غلامی پڑا ہواتھا۔ آج تین سامراجی طاقتوں نے بیک وقت پاکستان کو اپنے قدموں میں گرا کر دبوچ رکھا ہے۔اس صورت حال کی بڑی ذمے داری مردہ علوم کی لاشیں اٹھانے والے علماءسو پرعاید ہوتی ہے۔انہیں خو د سے پوچھنا چاہیے کہ ان کے دعوے کے مطابق پاکستان میں ان کی تعداد لاکھوں میں ہے،تو ان بحرانوں میں امت کی ان لاکھوں”علماء“سے کیا امیدپوری ہوئی؟ان سے کیا گلہ کریں کہ مردہ علوم مردہ ضمیر ہی کو جنم دے سکتے ہیں۔انہیں ہنر ہی یہ سکھایا گیا ہے کہ اسلام کا نام لے کرپیٹ کے دھندے میں مصروف رہیں اوردین کی بدنامی کا سبب بنتے رہیں۔ان کے بوسیدہ نظام تعلیم و تربیت سے نجات کی ایک ہی صورت ہے کہ درس نظامی کی سیکو لر بنیادیں منہدم کر کے دینی نصاب کو ان بنیادی اصولوں کی روشنی میں نئے سرے سے مرتب کیا جائے جو حضر ت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ، شیخ الہندرحمہ اللہ اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کی روشن فکر کے مطابق ہو اور ان کے علمی ذخیرے سے استفادے پر مبنی ہو۔منطق و فلسفے کے مردہ پشتارے کو دریا برد کر کے نئے نصاب میں دین کے اصل ماخذ قرآن‘حدیث نبوی‘سیرت رسول‘عربی ادب اور عربی قواعدکی کتب شامل کی جائیں۔ کیوں کہ قرآن ہی وہ کتاب ہے ‘ جس کے سمجھنے سے ایمان نکھرتا اور بڑھتا ہے ، سیرت وکردار میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے‘جس سے حکمت ودانش کی راہیں کھلتی ہیں‘اظہار وبیان کے نئے اسلوب سامنے آتے ہیں اور آفاق وانفس کے دلائل سے دین کی ابدی سچائیوں کو ثابت کرنے کی صلاحیتیں فروغ پاتی ہیں‘جس سے ایمان کی روشنی پھیلتی اور کفروشرک کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں۔قرآن کریم کا نور عام کرنے کی ضرورت ہے ۔
ماخوز