میں آج اپنے ان تحریک انصاف کے دوستوں کے ساتھ مخاطب ہونا چاہتا ہوں جو عمران کے فیصلہ سے مایوس ہو گیے ہیں۔ مجھے اپنے ان بھاییوں سے اس کی توقع ہے۔ کیونکہ میں نے انکو کرکٹ دیکھتے ہوے بھی دیکھا ہے۔ جب کویی کھلاڑی آہستہ کھیل رہا ہو تو پورے میچ میں اسے گالیاں پڑتی رہیں گی کہ اتنا سکور پڑا ہے اور یہ ٹک ٹک کر رہا ہے اور پھروہی کھلاڑی جب پورے میچ میں ٹک ٹک کرکے وکٹیں بچا کر جب آخر پر چھکے چوکے مار کر ایوریج ٹھیک کر لیتا ہے اور نتییجہ جیت کی صورت میں نکلتا ہے تو وہی کھلاڑی جسکو تھوڑی دیر پہلے گالیاں پڑرہی ہوتیں ہیں وہی انکا ہیرو بن جاتا ہے۔ اسکی تعریفوں کی اور بیٹنگ کی تعریفیں اگلے دن ہر جگہ ہو رہی ہوتی ہیں۔ اسی طرح جب کویی کھلاڑی کسی اہم میچ میں آوٹ ہو جاتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ اس نے کبھی اچھا کھیلا ہی نہیں اور آگے کھیلے گا بھی نہیں اور پھر اسکے ٹیم میں ہونے سے لیکر، آج تک نہ نکالے جانے پر اور اس پر سفارشی ہونے کے الزام تک لگا دیے جاتے ہیں جو سب اگلے میچ کی اچھی پرفارمنس رفو کر دیتی ہے۔ ہماری ٹیم جب بھی کسی ٹورنامنٹ میں کھیلنے جاتی ہے اس بے چاری کے پاس فاینل جیت کر آنے کے سوا کویی چارہ نہیں ہوتا گالیوں اور لعن طعن سے بچنے کا۔
یہ جذبات صرف ہمارے کرکٹ میں نہیں بلکہ یہ ہمارا ایک قوم کے طور پر مزاج ہے۔ ہم مستقل مزاج نہیں۔ جب کسی پیروی کی تو اندھی پیروی شروع کر دی اور جب کسی کو دل سے اتارا تو فورا اتاردیا۔
مسلہ صرف ان لوگوں کے ساتھ ہے جو سمجھتے ہیں عمران کبھی کچھ غلط نہیں کرسکتا۔ ( میں یہاں یہ قطعا نہیں کہہ رہاکہ عمران نے جو آج تقریر میں کہا ہے وہ غلط کہا ہے “ عمران انسان ہے اور وہ غلط بھی کرسکتا ہے۔ ایک عام کارکن اور نظریاتی کارکن میں فرق یہ ہوتا ہے کہ عام کارکن لیڈر یا فیصلہ کو اپنی پسشند اور نا پسند کی کسوٹی پر پرکھتا ہے اور اگر اسے اچھا لگے تو ٹھیک ورنہ رد کر دیتا ہے اور پھر مایوس ہو جاتا ہے۔ جبکہ نظریاتی ورکر لیڈر یا پارٹی کے نظریے سے محبت رکھتا ہے اور لیڈر یا پارٹی کے ہر فیصلہ کو
اس نظریہ یا پارٹی کی کسوٹی پر پرکھتا ہے۔ اسلیے وہ تب تک پارٹی سے منسلک رہتا ہے جبتک نظریہ زندہ ہے۔ لیڈر اگر فیصلہ غلط کر ے لیکن اسکا مقصد اپنے نظریات کو عملی شکل دینا ہو تو ہمیں اس پر اسوجہ سے الزام نہیں دھرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ورکر کو اپنی لیڈر کی صلاحیتوں پر اعتماد ہونا چاہیے اور اسے کچھ وقت دینا جاہیے تاکہ وہ اپنے فیصلوں کو صحیح ثابت کرے۔
میرے خیال میں عمران نے کل جو تقریر کی ہے وہ اسکی کیریر کی سب سے اہم تقریر تھی اور وہ بہت اچھا کھیلا ہے۔ اب جب یہ کسی کو سمجھ آے گا تو وہ خود ہی منہ بسور کر بیٹھ جاے گا۔ آییے دیکھتے ہیں عمران نے کیا کہا۔ نمبر ایک سول نا فرمانی کی تحریک کا آغاز جسکا پاکستان میں کامیاب ہو یا نہ ہو لیکن پوری دنیا میں اسکا اثر بہت زیادہ ہو گا۔ خلیج ٹایمز اور اکنامک ٹایمز میں تو ابھی بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس سے حکومت پر آیی ایم ایف اور ورلڈ کا پریشر پڑے گا جو کہ کم نہیں ہو گا۔ دوسرا اس نے 48 گھنٹوں کی کال دیکر ایک طرف تو نواز حکومت کو انٹرنل تھریٹ سے دو چار کر دیا ہے اور دوسری طرف طاہرالقادری کے ہاتھوں میں نیی بال دے دی ہے۔ کیونکہ قادری صاحب بھی دو دنوں سے عمران کی کمزوریوں کا فایدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے کبھی کارکنوں میں نہ رہنے کی صورت میں اور کبھی مڈٹرم الیکشن پر۔ اب قادری صاحب کو عمران نے کہہ دیا ہے کہ ”قادری صاحب پہلے آپ‘‘ اب قادری صاحب کو تو کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ اگر وہ کچھ نہیں کرتے تو وہ تو بولڈ ہو جاییں گے اور اگر وہ کچھ کرتے ہیں تو انکا تصادم حکومت ک ساتھ ہو گا۔ اب آگے آپ خود سیانے ہیں کہ ماڈل ٹاون کے بعد اور لاشوں اور زخمیوں کی تاب ن لیگ تو نہیں لا سکتی۔
تو دوستو کچھ صبر اور دیکھیں کہانی تو اب شروع ہویی ہے۔ کل ورکنگ ڈے ہے اور تمام دفاتر، دکانیں بھی کھلیں گی تو کیا ہو گا۔
آخر پر اتنا ہی کہوں گا ’’ پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست‘‘ عمران کو ابھی سلو اننگ کھیلنے دو۔
یہ جذبات صرف ہمارے کرکٹ میں نہیں بلکہ یہ ہمارا ایک قوم کے طور پر مزاج ہے۔ ہم مستقل مزاج نہیں۔ جب کسی پیروی کی تو اندھی پیروی شروع کر دی اور جب کسی کو دل سے اتارا تو فورا اتاردیا۔
مسلہ صرف ان لوگوں کے ساتھ ہے جو سمجھتے ہیں عمران کبھی کچھ غلط نہیں کرسکتا۔ ( میں یہاں یہ قطعا نہیں کہہ رہاکہ عمران نے جو آج تقریر میں کہا ہے وہ غلط کہا ہے “ عمران انسان ہے اور وہ غلط بھی کرسکتا ہے۔ ایک عام کارکن اور نظریاتی کارکن میں فرق یہ ہوتا ہے کہ عام کارکن لیڈر یا فیصلہ کو اپنی پسشند اور نا پسند کی کسوٹی پر پرکھتا ہے اور اگر اسے اچھا لگے تو ٹھیک ورنہ رد کر دیتا ہے اور پھر مایوس ہو جاتا ہے۔ جبکہ نظریاتی ورکر لیڈر یا پارٹی کے نظریے سے محبت رکھتا ہے اور لیڈر یا پارٹی کے ہر فیصلہ کو
اس نظریہ یا پارٹی کی کسوٹی پر پرکھتا ہے۔ اسلیے وہ تب تک پارٹی سے منسلک رہتا ہے جبتک نظریہ زندہ ہے۔ لیڈر اگر فیصلہ غلط کر ے لیکن اسکا مقصد اپنے نظریات کو عملی شکل دینا ہو تو ہمیں اس پر اسوجہ سے الزام نہیں دھرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ورکر کو اپنی لیڈر کی صلاحیتوں پر اعتماد ہونا چاہیے اور اسے کچھ وقت دینا جاہیے تاکہ وہ اپنے فیصلوں کو صحیح ثابت کرے۔
میرے خیال میں عمران نے کل جو تقریر کی ہے وہ اسکی کیریر کی سب سے اہم تقریر تھی اور وہ بہت اچھا کھیلا ہے۔ اب جب یہ کسی کو سمجھ آے گا تو وہ خود ہی منہ بسور کر بیٹھ جاے گا۔ آییے دیکھتے ہیں عمران نے کیا کہا۔ نمبر ایک سول نا فرمانی کی تحریک کا آغاز جسکا پاکستان میں کامیاب ہو یا نہ ہو لیکن پوری دنیا میں اسکا اثر بہت زیادہ ہو گا۔ خلیج ٹایمز اور اکنامک ٹایمز میں تو ابھی بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس سے حکومت پر آیی ایم ایف اور ورلڈ کا پریشر پڑے گا جو کہ کم نہیں ہو گا۔ دوسرا اس نے 48 گھنٹوں کی کال دیکر ایک طرف تو نواز حکومت کو انٹرنل تھریٹ سے دو چار کر دیا ہے اور دوسری طرف طاہرالقادری کے ہاتھوں میں نیی بال دے دی ہے۔ کیونکہ قادری صاحب بھی دو دنوں سے عمران کی کمزوریوں کا فایدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے کبھی کارکنوں میں نہ رہنے کی صورت میں اور کبھی مڈٹرم الیکشن پر۔ اب قادری صاحب کو عمران نے کہہ دیا ہے کہ ”قادری صاحب پہلے آپ‘‘ اب قادری صاحب کو تو کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ اگر وہ کچھ نہیں کرتے تو وہ تو بولڈ ہو جاییں گے اور اگر وہ کچھ کرتے ہیں تو انکا تصادم حکومت ک ساتھ ہو گا۔ اب آگے آپ خود سیانے ہیں کہ ماڈل ٹاون کے بعد اور لاشوں اور زخمیوں کی تاب ن لیگ تو نہیں لا سکتی۔
تو دوستو کچھ صبر اور دیکھیں کہانی تو اب شروع ہویی ہے۔ کل ورکنگ ڈے ہے اور تمام دفاتر، دکانیں بھی کھلیں گی تو کیا ہو گا۔
آخر پر اتنا ہی کہوں گا ’’ پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست‘‘ عمران کو ابھی سلو اننگ کھیلنے دو۔