راولپنڈی کے تھانہ آر اے بازار کے علاقے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ان لینڈ ریونیو سروس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر رحمت اللہ خان کے اغواء ہونے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ایف بی آر میں 18 ویں گریڈ کے افسر رحمت اللہ خان 12 اپریل 2024ء کو اپنے دوستوں سے عید ملنے کیلئے گھر سے نکلے تھے لیکن اب تک واپس اپنے گھر نہیں پہنچے۔ انکشاف ہوا ہے کہ انہیں راولپنڈی سے تاوان کے لیے اغوا کر کے کچے کے علاقے میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ رحمت اللہ خان کو اغواکاروں نے تاوان لینے کے مقصد سے اغوا کیا گیا اور ان کے اہل خانہ سے 1 کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا ہے۔ رحمت اللہ خان سے موبائل فون پر بارہا رابطہ کی کوشش کی گئی لیکن کالز ریسیو نہ ہوئیں بعد میں موبائل بند ہو گیا، تاوان کے مطالبہ پر رحمت اللہ خان کے سالے محمد شفیق کی مدعیت میں مقدمہ درج کروا دیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق رحمت اللہ خان ان لینڈ ریونیو سروس کے 18 ویں گریڈ کے افسر ہیں اور وہ ایف بی آر ہیدکوارٹرز میں ایف بی آر مینجمنٹ ونگ میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔ رحمت اللہ خان کو 12 اپریل کو نامعلوم افراد نے 12 اپریل کی صبح ساڑھے گیارہ بجے کے قریب اغوا کیا تھا، وہ اپنے گھر کہہ کر گئے تھے کہ دوستوں سے عید ملنے کے لیے جا رہا ہوں۔
درخواست میں رحمت اللہ کے سالے محمد شفیق نے بتایا کہ ان سے بارہا رابطہ اور سراغ لگانے کی تمام تر کوششیں کی گئی لیکن موبائل فون بند ہو جانے کے بعد رابطہ نہیں ہو سکا اور نہ ہی ان کا کچھ پتا چلا۔ پولیس نے رحمت اللہ خان کے اغوا کی ایف آئی آر گزشتہ روز ہی محمد شفیق کی مدعیت میں درج کی ہے۔
رحمت اللہ خان کے بہنوئی کا کہنا ہے کہ ایک سندھی زبان بولنے والے شخص کی طرف سے انہیں کال کر کے مغوی کی رہائی کے بدلے 1 کروڑ روپے دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ کچے کے علاقے میں ان کی تحویل میں ہے۔ رحمت اللہ خان کی اغواکاروں سے بازیابی چیئرمین ایف بی آر کیلئے ایک چیلنج ہے کیونکہ ادارے کے دیگر افسران میں واقعہ کے بعد شدید بے چینی پائی جا رہی ہے۔