خبریں

سوشل میڈیا کی خبریں

Threads
2.1K
Messages
18.8K
Threads
2.1K
Messages
18.8K

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
کامران خان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان معاہدے سے کئی دہائیوں پر محیط خلیج ختم ہونے جا رہی ہے۔ ماضی میں دونوں جماعتوں نے صرف عوام کو لوٹا ہے۔ سینئر اینکر پرسن اور صحافی کامران خان نے اپنے ایک وی لاگ میں موجودہ سیاسی صورتحال پر تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے حکومت مخالف اتحاد کی حمایت کے اعلان نے عمران خان حکومت کے خاتمے کو یقینی بنا دیا ہے۔ سینئر اینکر پرسن نے کہا کہ اس معاہدے سے 34 سال میں چوتھی بار شہری سندھ اور دیہہ سندھ کے درمیان حائل خلیج ختم ہونے کا ایک موقع پھر سے آیا ہے۔ کامران خان کا کہنا ہے کہ آج کی اس پیشرفت سے قبل ہی کراچی کا پی ٹی آئی سے رومانس ختم ہو چکا تھا کیونکہ2018 کے انتخابات میں شہری سندھ نے تحریک انصاف کو بڑی کامیابی دلائی مگر عمران خان 4 سال میں ایک بار بھی کراچی میں رات نہیں رکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب سے پہلے بھی پی پی اور ایم کیو ایم اتحادی رہ چکے ہیں مگر وسائل کی تقسیم بڑا مسئلہ رہا ہے۔ اب میں امید کرتا ہوں کہ دونوں جانب سے ایسے اقدامات اٹھائے جائیں گے جن سے سندھ کے لوگوں کے مسائل ختم ہونگے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پیدائشی سندھی ہونے کے اعتبار سے میں اس معاہدے کا حامی اور اس کی بہتری کیلئے دعاگو ہوں۔ ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ نے سندھ باسیوں کو صرف دھوکہ دیا اپنی جیبیں گرم کیں اللہ کرے اب کی بار ایسا نہ ہو میں محتاط خوش ہوں۔
وزیراعظم عمران خان نے ستائیس مارچ کو جلسے میں بتایا کہ ان کی حکومت گرانے کیلئے عالمی سازشیں ہورہی ہیں، جبکہ دھمکی آمیز خط بھی موصول ہوا ہے، خط کے پیچھے کتنی سچائی ہے اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا گیا ہے،ایڈووکیٹ ذوالفقار بھٹہ نے سپریم کورٹ سے تحقیقات کیلئے درخواست دائرکردی ہے۔ درخواست گزار نے استدعا کی کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے دکھائے گئے خط کی تحقیقات کا حکم دیا جائے،اس خط کے حوالے سے عوام کو ذہنی تناؤ سے نکالنے کیلئے فوری مداخلت کی ضرورت ہے،دھمکی آمیزخط متعلقہ سول اورفوجی قیادت کوبھجوا کرتحقیقات کروائی جائیں،دھمکی آمیزخط انتہائی حساس اورسنجیدہ معاملہ ہے۔ گزشتہ روز پارٹی ترجمانوں کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ خط 7 مارچ کو موصول ہوا، جیسے ہی خط ملا تحریک عدم اعتماد بھی فوری پیش کردی گئی،خط میں براہ راست تحریک عدم اعتماد کا ذکر ہے،دھمکی دی گئی کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی طاقتیں ہمیشہ سے حکومتوں پر اثر انداز ہوتی آئی ہیں مگر وہ کسی کے سامنے نہیں جھکيں گے۔ گزشتہ روز ہی پریس کانفرنس میں وفاقی وزیراسد عمر نے بتایا تھا کہ وزیراعظم کو موصول ہونے والے خط ميں لکھا ہے کہ عدم اعتماد کامياب نہيں ہوتی ہے تو اس کے نتائج خوفناک ہوںگے،جس سے واضع تھا کہ عدم اعتماد کی تحريک ميں بيرونی ہاتھ بھی ہے۔ اسدعمر نے مزید بتایا تھا کہ حکومت نے یہ خط چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ شئیرکرنے پررضامندی ظاہر کی ہے،واضع قوانين ہيں کہ يہ راز کس کے ساتھ شيئر کيےجاسکتےہيں، ہماراخیال ہےکہ اگر کسی کو شک ہے تو ہم مراسلہ چيف جسٹس کودکھاسکتےہيں۔ وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم چيف جسٹس آف پاکستان سے بطور چيف جسٹس يہ مراسلہ شيئرنہيں کرناچاہتے بلکہ پاکستان کے بڑے ہونے کی حیثیت سے شئیر کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستانی حکومت کے ٹین بلین سونامی ٹری پراجیکٹ کو عالمی سطح کی پذیرائی مل رہی ہے اور اس کا اعتراف اقوام متحدہ کے پروگرام برائے ماحولیات کی جانب سے بھی کیا گیا ہے۔ پاکستانی کوششوں کو سراہے جانے پر وزیراعظم عمران خان نے اپنی ٹیم کو مبارکباد پیش کی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ "مجھے اپنی ٹیم پر فخر ہے۔ ہم تاریخ کے اس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہمیں اِقدام کرنے کی ضرورت ہے اور اس اہم محاذ پر پاکستان قائدانہ کردار ادا کررہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے پروگرام برائے ماحولیات (UNEP) کا اعتراف" وزیراعظم نے اس کے ساتھ جو لنک شیئر کیا ہے اس کے مطابق ماحولیاتی اقدامات کو جانچنے اور اس کیلئے مختلف منصوبوں اور اقدامات پر نظر ڈالنے کیلئے رواں سال 23 جون کو دنیا بھر میں اسٹاک ہوم ففٹی پلس کے نام سے جائزہ لینے کا منصوبہ موجود ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں پاکستان کی جانب سے دس بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کو سرفہرست رکھا گیا ہے کیونکہ اقوام متحدہ کے مشن 2030 میں ماحولیات کی بہتری کیلئے اس سے بڑا کوئی منصوبہ نظر نہیں آتا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیات کے ایشیا اور پیسفک ممالک کے ڈائریکٹر ڈیکن تسیرنگ کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر ماحولیات کی بہترین کیلئے کیے گئے اقدامات میں دس بلین ٹری سونامی پراجیکٹ اقوام متحدہ کی ماحولیات کیلئے مختص اس دہائی میں اہم کردار ادا کر دہا ہے اور اس کی مرکزی حیثیت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ "ہم تاریخ کے اس موڑ پر ہیں جہاں ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے، اور پاکستان اس اہم کوشش کی قیادت کر رہا ہے" یاد رہے کہ پاکستان نے 2021 میں عالمی یوم ماحولیات کی میزبانی کی، خاص طور پر ہم خود بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کا شکار ہیں۔ دس بلین ٹری سونامی پراجیکٹ شروع ہونے سے پہلے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی تحقیق سے پتا چلا کہ پاکستان کا صرف پانچ فیصد حصہ جنگلات کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ 5 فیصد جنگلات عالمی اوسط 31 فیصد کے مقابلے میں ہے، جو اسے آب و ہوا کے لیے سب سے زیادہ حساس چھ ممالک میں سے ایک بناتا ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید لطیف نے کہا ہے کہ اتحادی ہونے کی وجہ سے کچھ باتیں مجبوری میں قبول کرنا پڑتی ہیں ق لیگ اپوزیشن کا ہی ساتھ دے گی، ان کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی میں ہماری اکثریت ہے ہم وزارت اعلیٰ کیلئے علیم خان کو امیدوار نامزد کر سکتے ہیں۔ جاوید لطیف نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام "آف دی ریکارڈ" میں گفتگو کرتے ہوئے مسل لیگ (ق) کی حکومت کی حمایت میں جانے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں چودھری شجاعت کا فیصلہ حتمی تصور ہو گا اور امید ہے کہ وہ اپوزیشن کا ہی ساتھ دیں گے۔ اُدھر فرخ حبیب نے کہا کہ اپوزیشن کوسرپرائزاتنا بڑاملا ہے کہ انہیں کچھ سمجھ ہی نہیں آرہی، پہلے پرویزالٰہی کی بات تھی اب علیم خان کی بات کررہےہیں۔ اپوزیشن تومٹھائیاں کھا کربیٹھی تھی حکومت نےسرپرائز دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اتحادی ہمارے ساتھ تھے، ہیں اور ہمارے ساتھ رہیں گے، اتحادیوں کووزارت دینےکاہمیں ہی فائدہ ہے۔ یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان اور ق لیگ کے وفد کی ملاقات کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے۔ جس کے مطابق وزیراعظم نے چوہدری پرویز الٰہی سے کہا کہ میں نےعثمان بزدار سے استعفیٰ لے لیا ہے، میں آپ کو اپنی پارٹی کی طرف سے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب نامزد کرتا ہوں، میں آپ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اعلامیے کے مطابق چوہدری پرویز الٰہی نے وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کرنے پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ کے اعتماد پر انشااللہ پورا اتروں گا۔ وزیراعظم سے ملاقات میں پرویز الٰہی نے کہا کہ مسلم لیگ ق بطور اتحادی آپ کےساتھ بھرپور تعاون کرے گی، اتحادی کی حیثیت سے مل کر عوام کی خدمت کریں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے ناراض رکن علیم خان نے پارٹی سے ناراضگی کا بھرپور اظہار کردیا، علیم خان نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پی ٹی آئی ہی ہٹا دیا، سوشل میڈیا پر نام تبدیل کرنے پر علیم خان کے اکاؤنٹ سے بلیو ٹک بھی ہٹادیا گیا ہے،علیم خان کے ٹوئٹر پر فالوورز کی تعداد 10 لاکھ سے زائد ہے،عبدالعلیم خان کا فیس بک اکاؤنٹ اب تک ویریفائیڈ یعنی بلیو ٹک والا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کرنے کے معاملے پر تحریک انصاف کے علیم خان گروپ نے مشاورت کے بعد جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ علیم خان گروپ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے کے لیے پرویز الٰہی کی حمایت کرنی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ علیم خان کریں گے،علیم خان نے کل اپنے ساتھیوں سے مشاورت کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد پرویز الٰہی سے متعلق جواب دیا جائے گا۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت ان دنوں مرکز اور صوبہ پنجاب میں سیاسی مشکلات کا شکار ہے،مرکز میں وزیراعظم عمران خان کو حزبِ اختلاف کی جانب سے پارلیمان میں پیش کی گئی تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا ہے۔ صوبہ پنجاب میں اپنی ہی جماعت کے اندر بننے والے گروپس کا سامنا ہے جو ناراض ممبران پر مشتمل ہیں،حکومتی جماعت کے ناراض رہنما جہانگیر ترین ایک گروپ بنا چکے تھے جس میں صوبائی اور قومی اسمبلی کے کئی ممبران ان کی حمایت میں ساتھ کھڑے تھے۔
ناظم جوکھیو قتل کیس کے نامزد ملزم پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم نے آج کے دن پاکستان آنے کا اعلان کیا تھا وہ آج صبح غیر ملکی ایئرلائن کی پرواز سے پاکستان آنے والے تھے مگر پی پی رہنما اپنے اعلان کے باوجود وطن واپس نہیں آئے۔ جام عبدالکریم نے آج صبح 7 بجے کی غیر ملکی ایئرلائن ای کے 612 سے پاکستان آنا تھا تاہم اب نئی اطلاعات کے مطابق وہ شام 7 بجے پاکستان پہنچیں گے۔ ان کا پاکستان آنے کا مقصد حکومت مخالف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کیلئے ووٹ ڈالنا ہے۔ تفصیلات کے مطابق جام عبدالکریم عبدالکریم اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد میں ووٹ دینے کیلئے آ رہے تھے مگر فی الحال عدم اعتماد پر ووٹنگ کچھ روز کیلئے مؤخر ہوئی ہے اس لیے جام کریم نے آنے کا فیصلہ بدل دیا ہے۔ دوسری جانب ناظم جوکھیو قتل کیس کے نامزد ملزم رکن قومی اسمبلی جام عبد الکریم نے وطن واپسی سے متعلق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید اور گورنر سندھ عمران اسماعیل کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی جس میں موقف اپنایا گیا کہ ناظم جوکھیو قتل کیس میں 25 مارچ کو حفاظتی ضمانت حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ ٹرائل کورٹ میں پیش ہوکر سرینڈر کرنا چاہتا ہوں۔ وفاقی وزیر داخلہ نے عدالتی احکامات کے باوجود گرفتار کرنے کا اعلان کرکے عدالت عالیہ کے حکم کا مذاق اڑایا ہے۔ گورنر سندھ نے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے وفاق کو خط لکھا ہے۔ استدعا ہے کہ شیخ رشید اور گورنر سندھ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل سندھ کے دلائل سننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے حفاظتی ضمانت منظور کی ہے، پہلے ملزم کو آنے تو دو۔ اگر گرفتاری ہوتی ہے تو پھر توہین عدالت کی درخواست دائر کریں۔ جب کچھ ہوا ہی نہیں تو ہم کیسے توہین عدالت کے نوٹسز جاری کریں؟ عدالت نے درخواست واپس لینے پر نمٹا دی۔
عمران خان دھمکی کے حوالے سے جھوٹ نہیں بول رہے،میجر جنرل اعجاز اعوان ریٹائرڈ سما ٹی وی کے پروگرام آواز میں میزبان بیرسٹر احتشام امیرالدین نے ملکی سیاسی صورتحال پر میجر جنرل اعجاز اعوان ریٹائرڈ سے گفتگو کی، اور سوال کیا کہ ایک طرف قومی سطح پر سیاست ہورہی ہے، دوسری طرف سیاسی جوڑ توڑ اور مذاکرات چل رہے ہیں،کچھ دو کچھ لو کی بات چل رہی ہے، وزیراعظم نےدھمکی آمیز خط لہرایا، آپ کے پاس کوئی خاص اطلاعات ہیں اس حوالے سے؟ میجر جنرل اعجاز اعوان ریٹائرڈ نے کہا ملکی سیاست میں جو کچھ ہورہاہےاس میں کچھ نیا نہیں ہے،بیرونی مداخلت بھی ہوتی رہی ہے،طاقتور ملک کی کوئی لیڈر بات نہ مانےتو وہاں وہ حکومت بدلنے کی کوشیش کرتے ہیں،یہ بھی کوئی بات نہیں ہے،انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں تمام سیاستدان یقیناً سیاست کرتے ہیں اقتدار میں آنے کیلئے تو ہر آدمی نے اپنا پرائز ٹیگ لگا رکھا ہے،میرا خیال ہے ملک میں جو کچھ ہورہاہے وہ بہت نارمل ہے،کوئی ایسی نئی چیز نہیں ہے۔ میزبان نے پوچھا کہ کوئی نئی سازش ہورہی ہے؟ تجزیہ کار میجر جنرل اعجاز اعوان ریٹائرڈ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اگر لاکھوں لوگوں کے سامنے کہتے ہیں، اور یہ بھی کہتے ہیں کہ میں نے جو اہم حلقے ہیں اور دیگر کے ساتھ یہ اہم تفصیل شیئر کی ہے، تو مجھے یقین ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہے ہونگے۔ بیرسٹر احتشام امیرالدین نے سوال کیا کہ کیا آپ کے پاس ایسی کوئی تفصیلات ہیں،بعض صحافی تو دعویٰ کررہے ہیں کہ ان کے پاس خط کی کاپی موجود ہے، جبکہ اس خط کا ذریعہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی صاحب بنے، یعنی خارجی سطح پر وزیراعظم کو کسی ملک کی طرف سے دھکمی دی گئی، تجزیہ کار میجر جنرل اعجاز اعوان ریٹائرڈ نے کہا کہ جو صحافی دعویٰ کررہے کہ وہ یہ خط نہیں جس کی وزیراعظم بات کررہے ہیں،یہ خط مختل چیلنز سے آتے ہیں۔
مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت نے خاندان میں اختلافات کی خبروں کی تردید کردی، اپنے بیان میں چوہدری شجاعت نے کہا کہ تمام سیاسی فیصلے ان کی مشاورت سے ہوئے ہیں۔ چوہدری شجاعت نے مزید کہاکہ تمام فیصلوں کو ان کی مکمل حمایت حاصل ہے، خاندان اور جماعت ایک ہی پیج پر ہیں،، اس لیے جو افواہیں چل رہی ہیں اور چلوائی جارہی ہیں وہ غلط ہیں،وضاحت پریقین نہیں رکھتا، کہنا چاہوں گاکہ مجھے خاندان کا سربراہ سمجھا جاتا ہے۔ صدرق لیگ نے کہا کہ مجھے بتایا گیا کہ آپ کےخاندان میں اختلافات ہیں،اس بات میں کوئی صداقت نہیں، ہمارا خاندان 50 سال سے پنجاب ہی نہیں پاکستان کے تمام اضلاع میں پھیلا ہوا ہے، اللہ کو حاضر وناظرجان کر کہتا ہوں فیصلے میری رضامندی سے کیے جاتے ہیں،اختلافات کا پروپیگنڈا کرکےجو سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں انہیں مایوسی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں پر الزام لگانا اور شک کرنا غلط بات ہے،پیسے کے لین دین کے لفظ کا استعمال نہیں ہونا چاہیے،رائے کو فیصلہ سمجھ کر پروپیگنڈا نہیں کرنا چاہیے،حقائق کوجوڑ توڑ کرپیش کرنا یا کروانا بھی نہایت نامناسب ہے۔ گزشتہ روز عثمان بزدار وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے سے مستعفی ہوئے اور اسپیکر قومی اسمبلی پرویز الہیٰ کو وزیراعلیٰ کا عہدہ سونپا گیا، جس کے بعد ملکی سیاست میں نئی ہلچل مچ گئی، جبکہ کہا جارہا تھا کہ اس فیصلے سے چوہدری برادران میں اختلافات سامنے آگئے ہیں۔
مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر اور سابق وزیر قانون رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ انصارالاسلام کو پرائیویٹ ملیشیا کہتے ہیں تو ٹائیگرفورس کیا ہے جو کہ ڈنڈے تیارے کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حکومت میں ہونے کی وجہ سے ان کے چونچلے ہیں، حکومت کے ختم ہونےکی دیر ہے اس ٹائیگر فورس کو 3 دن میں گیدڑ فورس نہ بنایا تو ہمارا نام بدل دینا۔ مسلم لیگ ن کے زیر انتظام ہونے والے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے سابق چیف جسٹس سے متعلق کہا کہ اب اگر وہ کسی تقریب میں شریک ہوں تو لوگ ان سے ہاتھ نہیں ملاتے نفرت کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے موجودہ حکومت کے ساتھ ملکر ایک سازش کے تحت نوازشریف کو نااہل کیا اور حکومت سے علیحدہ کیا تھا۔ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ عمران خان نے ایک کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ گھروں کا وعدہ کیا تھا بتایا جائے وہ کہاں ہیں، انہیں بس ایک بات آتی ہے میں اس کو نہیں چھوڑوں گا میں اس کو نہیں چھوڑوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ 4 سال میں ایسی پالیسیاں بنائی گئیں جس سے عام آدمی کا جینا مشکل نہیں ناممکن ہو گیا ہے۔ رانا ثنااللہ نے کہا کہ عدم اعتماد مسلم لیگ ن یا پی ڈی ایم نہیں بلکہ عوام لائے ہیں کیونکہ ہم جب بھی کہیں جاتے تو لوگ ہم سے پوچھتے تھے کہ اس نااہل ٹولے سے ہماری جان کب چھڑائیں گے۔ عدم اعتماد ایک جمہوری طریقہ ہے مگر اس میں بھی رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں لوگوں کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈرانے کیلئے ٹائیگر فورس موجود ہے جو کہ ڈنڈے تیار کر رہی ہے ان کو آنے دیں ہم ان کے ڈنڈوں پر انہیں بٹھا دیں گے شیخ رشیدنے جے یو آئی کے ایم این ایز کو گرفتار کرایا اور پارلیمنٹ لاجز پر حملہ کیا گیا ہے۔ انصارالاسلام کو پرائیویٹ ملیشیا کہا جاتا ہے تو بتایا جائے کہ یہ ٹائیگر فورس کیا ہے؟ رانا ثنا اللہ نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت جانے کی دیر ہے 3 دن میں اس ٹائیگر فورس کو گیدڑ فورس بنا دیں گے اگر ایسا نہ ہوا تو ہمارا نام بدل دینا۔
قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان انضمام الحق نے نائنٹی ٹو کے ورلڈ میں خودپر گزرنے والی ایک تلخ کہانی سے آگاہ کردیا،ویب سائٹ کو دئیے گئے انٹرویو میں فاتح ٹیم کے رکن سابق کپتان انضمام الحق نے انکشاف کیا کہ ورلڈ کپ کے ایک میچ میں پانچ رنز پر آؤٹ ہونے پر ٹیم کے ایک سینئر کر کٹر نے انہیں گالیاں دیں اور کہا کہ تم سفارش سے ٹیم میں آگئے ہو، مگر میں آج بھی ان کی عزت کرتا ہوں،ورلڈ کپ کے دوران پاکستانی ٹیم ایک دعوت میں مدعو تھی،کپتان عمران خان نے میری جانب اشارہ کرتے ہوئے میزبان سے کہا کہ یہ نوجوان بہت باصلاحیت ہے اور مجھے یقین ہے کہ جس دن یہ چل پڑا یہ ہمیں جتوادے گا۔ اس سے قبل سابق کپتان جاوید میانداد بھی بتاچکے ہیں کہ1992 ورلڈکپ کے دوران عمران خان کیخلاف بغاوت کی گئی تھی،نجی چینل کو دئیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ سیمی فائنل سے قبل کئی اہم کھلاڑی کپتان عمران خان کے فیصلوں سے ناخوش تھے اور اس میچ میں ان کی شر کت مشکوک لگ رہی تھی،میں نے تمام کھلاڑیوں سے بات کی اور انہیں سمجھایا کہ وہ عمران خان کی قیادت میں کھیلنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔ گزشتہ روز نائنٹی ٹو کے ورلڈ کپ کی تیسویں سالگرہ تھی، اس موقع پر ٹرافی لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں سجا دی گئی ہے، لاہور ٹیسٹ کے آخری اور فیصلہ کُن دن قومی کرکٹرز نے ورلڈ کپ ٹرافی کے ساتھ تصاویر بنوائیں،منجمنٹ کے اراکین نے بھی پویلین کے سامنے رکھی ٹرافی کے ساتھ تصاویر بنوائیں،25مارچ تمام پاکستانیوں خصوصا ًشائقین کرکٹ کے لیے ایک یادگار دن ہے، اس دن پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف میچ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور کرکٹ کا عالمی چیمپئن بنا تھا۔
آسٹریلوی کھلاڑیوں نے کیا حسن علی اور شاہین آفریدی وکٹری اسٹائل کاپی لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں تیسرے ٹیسٹ کے آخری روز مہمان ٹیم کے کھلاڑیوں نے پاکستانی کرکٹرز کا جشن کا اسٹائل اپنا کر سب کو حیران کردیا،ہوا کچھ یوں کہ جب پاکستان کے بولرز کو آسٹریلوی بولرز نے آؤٹ کیا تو آسٹریلین فیلڈر ڈیوڈ وانر، عثمان خواجہ، سواپسن نے پاکستانی بولرز کے انداز میں وکٹری کی خوشی منائی۔ آسٹریلیا کے خلاف دوسری اننگز میں حسن علی کے آؤٹ ہونے پر کینگروز فیلڈر ڈیوڈ وارنر نے قومی فاسٹ بولر کے ہی جنریٹر اسٹائل میں خوشی منائی،عثمان خواجہ نے ساجد خان کا پہلوانی انداز اپنایا، سواپسن نے شاہین آفریدی کا کیچ لیکر انہیں کے اسٹائل میں جشن منایا۔ سوشل میڈیا پر مہمان ٹیم کے یوں اچانک دیے جانے انداز سب کی توجہ مرکز بن گئے،ہر کوئی دلچسپ تبصرے کررہا ہے،مزمل نے لکھا اس کے بدلے ہار بھی منظورہے ایک صارف نے لکھا ٹیم آسٹریلیا مزاح سے بھرپور ہے۔ ایک اور صارف نے لکھا کاپی نہیں کررہے مذاق اڑا رہے ہیں۔ ناصر نے لکھا حسن علی کی نقل زیادہ اچھی تھی،وارنر نے شاید پہلے سے تیاری کررکھی تھی۔ شعیب غفار نے لکھا یہ ری مکس ہے۔ آسٹریلیا نے پاکستان کو لاہور میں کھیلے جانے والے تیسرے کرکٹ ٹیسٹ میچ میں 115 رنز سے شکست دے کر تین میچوں کی سیریز ایک صفر سے جیت لی،پاکستان کو اس میچ میں فتح کے لیے 351 رنز کا ہدف دیا تھا جس کے تعاقب میں پاکستانی ٹیم کھیل کے آخری دن 235 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔
وفاقی حکومت نے رمضان المبارک کے دوران شہریوں کو ریلیف دینے کے لیے خوردنی تیل کی درآمدپر10 فیصد ٹیکس چھوٹ کی منظوری دے دی، ٹیکس چھوٹ کے باعث تیل کی قیمت کم ہونے کا امکان ہے۔ تفصیلات کے مطابق اس ضمن میں وزارت خزانہ کی جانب سے اعلامیہ بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی زیر صدارت خوردنی تیل کے حوالے سے اجلاس ہوا، جس میں وزیر صنعت و پیداوار مخدوم خسرو بختیار، سیکریٹری صنعت و پیداوار، چئیرمین ایف بی آر اور دیگر سینئر افسران شریک ہوئے۔ اجلاس میں جس میں پام آئل کی قیمتوں میں اضافے اور رمضان میں تیل کی متوقع کمی سے نمٹنے کے لیے اہم فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس کے شرکاء کو بریفنگ دی گئی کہ عالمی مارکیٹ میں پام آئل کی ماہانہ خوردہ قیمتیں نہایت غیر مستحکم ہیں، خوردہ قیمتیں گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً دو گنا بڑھ چکی ہیں، جنوری میں قیمتوں میں تقریباً 1351 ڈالر فی ٹن نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اجلاس میں وزیر خزانہ کو آگاہ کیا گیا کہ آر بی ڈی پام آئل کی ماہانہ اوسط ریٹیل قیمت انتہائی غیر مستحکم ہے اور گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال اس کی قیمت میں تقریباً دگنا اضافہ ہواہے۔ وزیر خزانہ کو بتایا گیا کہ جنوری کے مہینہ میں پام آئل کی قیمت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور فی ٹن قیمت 1351 ڈالرتک پہنچ گئی ہے۔ اس موقع پر وزیر خزانہ شوکت ترین نے قیمت میں اضافہ کی وجہ سے رمضان المبارک میں متوقع شارٹ فال سے بچنے کے لیے اپریل اور مئی کے مہینوں کے لیے پام آئل کی درآمد پر ٹیکس میں 10 فیصد چھوٹ دینے کی منظوری دے دی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ ٹیکس ریلیف کا یہ فیصلہ مختصرمدت کے لیے ہے تاکہ ملک میں صارفین کو خورنی تیل کی آسان فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ گھی اور کھانے کے تیل کی سالانہ طلب کا 90 فیصد درآمدات پر منحصر ہے ۔ خیال رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں رمضان ریلیف پیکج کے لیے 19 اشیا خورونوش پر 8 ارب 28 کروڑ روپے اور کامیاب پاکستان پروگرام سے مستفید ہونے کے خواہش مند سمندر پار پاکستانیوں کے لیے 3 ارب روپے کی سبسڈی کی منظوری کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ بنچ میں جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس مظہر عالم خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔ ایکسپریس نیوز کا کہنا ہے کہ آج اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے کہ پارلیمنٹ میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں ہوتی ہیں، مخصوص نشستوں والے ارکان نے عوام سے ووٹ نہیں لیا ہوتا، مخصوص نشستوں والے ارکان بھی سندھ ہاؤس میں موجود تھے، مخصوص نشستیں پارٹی کی جانب سے ملتی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اراکین اسمبلی صرف چار مواقع پر آزادی سے ووٹ نہیں دے سکتے، بطور ایڈووکیٹ جنرل سندھ ہاؤس میں رہتا تھا، سندھ ہاؤس میں ایسی کوئی ڈیوائس نہیں تھی جو ضمیر جگائے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ذاتی مفاد کے لیے اپنے لوگوں کو چھوڑ جانا بے وفائی ہے، پارٹی کے اندر جمہوریت ہو تو آرٹیکل 63 اے کی ضرورت نہیں رہتی، آرٹیکل 63 اے کی خوبصورتی ہے کہ اسے استعمال کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ امانت میں خیانت کرنا بہت بڑا گناہ ہے، خیانت کی قرآن میں بہت سخت سزا ہے اور اعتماد توڑنے والے کو خائن کہا جاتا ہے آپ کے مطابق پارٹی کو ووٹ نہ دینے والے خیانت کرتے ہیں؟ کیا کوئی رکن ڈکلریشن دیتا ہے کہ پارٹی ڈسپلن کا پابند رہے گا، آئین میں کہیں واضح نہیں کہ پارٹی سے وفادار رہنا ہے یا نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی کہا کہ کیا ممبر شپ فارم میں رکن ڈکلریشن دیتا ہے کہ ڈسپلن کا پابند رہے گا؟ اگر پارٹی ممبر شپ میں ایسی یقین دہانی ہے تو خلاف ورزی خیانت ہوگی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ہوتا ہے، اگر وزیراعظم آئین کی خلاف ورزی کرے تو کیا ممبر پھر ساتھ دینے کا پابند ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا کوئی بھی رکن وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کرسکتا ہے؟ پارٹی سے انحراف کرنے والے کے خلاف الیکشن کمیشن کا فورم موجود ہےجس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی کی بھوک مٹانے کے لیے چوری کرنا بھی جرم ہے۔ جسٹس جمال نے کہا کہ کوئی چوری کرنے والے کے ساتھ جائے تو کیا ہوگا؟ صدر مملکت کو ایسا مسئلہ کیا ہے؟ جو رائے مانگ رہے ہیں؟ صدر کے سامنے ایسا کون سا مواد ہے جس پر سوال پوچھے؟ اٹارنی جنرل بولے کہ عدالت صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کی پابند ہے۔ جسٹس جمال بولے کہ کیا عدالت آئین میں کسی فل سٹاپ کا بھی اضافہ کرسکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ میں براہ راست تعلق ثابت کروں گا۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ آئین کے کسی آرٹیکل کو الگ سے نہیں پڑھا جاسکتا باسٹھ اور تریسٹھ کو ملا کر پڑھا جاتا ہے، پارلیمانی بحث میں ہارس ٹریڈنگ کو کینسر قرار دیا گیا ہے۔ عدالت کو آرٹیکل 63 A کے تحت انحراف کے نتائج کا تعین کرنا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارٹی سے اختلاف کرنے والا شخص کیا دوبارہ مینڈیٹ لے سکتا ہے؟ عدالت نے ارٹیکل 63 A کے تحت اعتراف کے نتائج کا تعین کرنا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل بولے کہ کیا عدالت ریفرنس میں جوڈیشل اختیارات استعمال کرسکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے اٹھارہویں ترمیم پر ہونے والے پارلیمانی بحث عدالت میں پیش کردی اور کہا کہ عدالت نے آرٹیکل باسٹھ ون ایف کی تشریح کر دی ہے آرٹیکل باسٹھ ون ایف میں بھی خالی جگہ موجود ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا خالی جگہ عدالت پُر کرنی ہے؟ جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ابھی تو کسی نے انحراف کیا ہی نہیں آپ ریفرنس لے آئے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جرم کو ہونے سے روکنا مقصد ہے۔ جسٹس مظہر نے کہا کہ جرم ہونے سے پہلے سزا کیسے دی جا سکتی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل بولے کہ قانون واضح کرنے کے لیے عدالت آئے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو بتانا ہوگا کہ رکن تاحیات نااہل کب ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جرم ہو تو سزا دینے کے لیے قانون واضح ہونا چاہیے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین کی تشریح کرنا ہی اس سپریم کورٹ کا کام ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا مناسب نہ ہوتا کہ صدر پارلیمانی جماعتوں کا بلا کر مشورہ کرتے، کیا عدالت سے پہلے سیاسی جماعتوں سے مشورہ کرنا مناسب نہیں ہوتا؟ پارلیمانی جماعتوں سے مل کر آئین میں ترمیم ہو سکتی تھی۔ جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ پارٹی پالیسی سے اختلاف کرنے والا استعفی کیوں دے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والا جماعت کے ڈسپلن کا بھی پابند ہوتا ہے۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل بولے کہ آئین پاکستان ہر شخص کو اپنے خیالات کے آزادانہ اظہار کا حق دیتا ہے تو کیا خیالات کے اظہار پر تاحیات نااہلی ہونی چاہیے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ ایک سرٹیفیکٹ ہے جس پر انتحابی نشان ملتا ہے، وزیراعظم اور رکن اسمبلی کے حلف میں فرق ہے۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ووٹر انتحابی نشان پر مہر لگاتے ہیں کسی کے نام پر نہیں، پارٹی کے نشان پر الیکشن لڑنے والے جماعتی ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں۔
سپریم کورٹ بار نے عدم اعتماد کی تحریک میں رکن پارلیمان کے ووٹ کے حق کو انفرادی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ ڈالنا رکن قومی اسمبلی کا انفرادی حق ہے یہ کسی سیاسی جماعت کا حق نہیں۔ سپریم کورٹ بار نے جواب میں کہا کہ آرٹیکل 95 کے تحت ڈالا گیا ہر ووٹ گنتی میں شمار ہوتا ہے، ہر رکن قومی اسمبلی اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے میں خودمختار ہے۔ کسی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکا نہیں جاسکتا، عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے نظام حکومت چلاتے ہیں۔ بار نے اپنے جواب میں یہ بھی کہا کہ آرٹیکل 63 کے تحت کسی بھی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے پہلے نہیں روکا جاسکتا، آرٹیکل 63 اے میں پارٹی ڈائریکشن کیخلاف ووٹ ڈالنے پر کوئی نااہلی نہیں۔ جب کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے صدارتی ریفرنس سے متعلق جمع کرائے گئے جواب میں جماعت نے مؤقف دیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس عدالت کا قیمتی وقت کا ضائع کرنے کے مترادف ہے، آئین کا آرٹیکل 63 اے اور 95واضح ہے، ہر رکن کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے، جو گنتی میں شمار بھی ہوگا۔ ن لیگ نے یہ بھی کہا ہے کہ صدارتی ریفرنس قبل از وقت اور غیر ضروری مشق ہے، سپریم کورٹ کے پاس آئین کی تشریح کا اختیار ہے آئینی ترمیم کا نہیں۔ دوسری جانب جے یو آئی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی میں پارٹی الیکشن نہیں ہوئے جماعت سلیکٹڈ عہدیدار چلا رہے ہیں، جو آرٹیکل 63 اے کے تحت ووٹ ڈالنے یا نہ ڈالنے کی ہدایت نہیں کر سکتے۔ جے یو آئی نے مزید کہا ہے کہ اسپیکر کو اراکین کے ووٹ مسترد کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا اور آرٹیکل 63 اے پہلے ہی غیر جمہوری ہے، آزاد جیت کر پارٹی میں شامل ہونے والوں کی نشست بھی پارٹی کی پابند ہو جاتی ہے۔ جواب میں کہا گیا کہ ریفرنس سے لگتا ہے صدر ، وزیراعظم اور اسپیکر ہمیشہ صادق اور امین ہیں اور رہیں گے، پارٹی کیخلاف ووٹ پر تاحیات نااہلی کمزور جمہوریت کو مزید کم تر کرے گی۔ لازمی نہیں کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے ہی ریفرنس پر رائے دی جائے، کسی رکن کیخلاف نااہلی کا کیس بنا تو سپریم کورٹ تک معاملہ آنا ہی ہے۔ سپریم کورٹ نے پہلے رائے دی تو الیکشن کمیشن کا فورم غیر موثر ہو جائے گا، عدالت پارلیمنٹ کی بالادستی ختم کرنے سے اجتناب کرے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63A کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔ پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن، جے یو آئی اور سپریم کورٹ بار نے صدارتی ریفرنس کے تحریری جوابات جمع کرادیے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق جے یو آئی کے وکیل نے کہا کہ ہمارا جلسہ اور دھرنا پُرامن ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سے حکومت والے ڈرتے ہیں۔ جس پر عدالت میں موجود ججز سمیت تمام لوگ قہقہے لگانے لگے۔ اٹارنی جنرل نے کہا جے یو آئی پر امن رہے تو مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا۔ جس کے بعد جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے ڈنڈا بردار ٹائیگر فورس بنانا افسوس ناک ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جے یو آئی بھی اپنے ڈنڈے تیل سے نکالے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت چاہتی ہے کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں، معلوم نہیں عدم اعتماد پر ووٹنگ کب ہو گی، تمام جماعتیں جہموری اقدار کی پاسداری کریں۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد سے بات ہو گئی ہے، پولیس کے اقدامات سے مطمئن ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اچھی بات یہ ہے کہ پولیس قانون کے مطابق کارروائی کر رہی ہے، صوبائی حکومتیں بھی تحریری طور پر اپنے جوابات جمع کروائیں، تحریری جوابات آنے پرصدارتی ریفرنس پرسماعت میں آسانی ہو گی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے ممبران غلط سرگرمیوں میں ملوث ہوئے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ جے یو آئی کی مانگی گئی جگہ سڑک پر ہے؟ خالد جاوید خان نے بتایا کہ جے یو آئی کی طرف سے سڑک کے قریب جگہ مانگی گئی ہے، جے یو آئی نے نہ صرف احتجاج بلکہ جلسے کی کال دی ہے، عدالت اس طرح کی کارروائیاں روکنے کی ہدایت کرے، وکلا محاصرہ کیس اور دیگرکیسز میں سپریم کورٹ منحرف اراکین پر آبزرویشن دے چکی ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاداریاں تبدیل کرنے والے اراکین اسمبلی نے آج تک استعفی نہیں دیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا کام ہے کہ سیاسی جماعتوں کو قائل کریں۔
لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ٹیسٹ میچ کے تیسرے روز فاسٹ بولر شاہین آفریدی اور مہمان ٹیم کے اوپنر ڈیوڈ وارنر کا ٹکراؤ ہوا،آخری ٹیسٹ میچ کے تیسرے روز کا کھیل جب اختتامی مراحل میں تھا تب وارنر نے شاہین آفریدی کی گیند پر چوکا لگایا، اگلی ہی گیند پر شاہین نے باؤنسر کرایا تو وارنر نے اسے سمجھداری سے روکا۔ گیند پھیکتے ہی شاہین دوڑ لگاتے ہوئے وارنر کے بالکل قریب جاکر رکے اور دونوں ایک دوسرے کو گھورتے رہے،جسے دیکھ کر محسوس ہوا جیسے دونوں ایک دوسرے پر غصہ ہوں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے،ویڈیو میں دیکھا گیا کہ دونوں خوشگوار موڈ میں ہیں اور ہنس رہے ہیں۔ اس واقعے کے بعد ڈیوڈ وانر نے شاہین آفریدی کے ہمراہ ایک تصویر انسٹاگرام اسٹوری پر پوسٹ کی اور اس پر لو ایموجی بنایا، جسے دیکھ کر سوشل میڈیا صارفین بھی میدان میں آئے، صارفین نے فیلڈ پر دونوں کرکٹرز کے درمیان اس منظر کو خوبصورت قرار دیا اور میمز کے ساتھ دلچسپ تبصرے بھی کئے۔ سابق انگلش کرکٹر این پونٹ نے دونوں کی تصویر شیئر کی اور صارفین سے کہا کہ آپ اس پر کوئی کیپشن درج کریں۔ ارسلان نے شاہین اور ڈیوڈ وارنر کے قد میں فرق کو واضح کیا اور صورتحال کو اپنے اخراجات اور ماہانہ تنخواہ سے ملایا۔ پاکستان سپر لیگ کے نام سے منسوب کرکٹ کے میم پیج نے اس صورتحال کو بالی وڈ شہنشاہ امیتابھ بچن اور ان کی اہلیہ اداکارہ جیا بچن سے موازنہ کیا۔ شہزاد اعوان نے لکھا حد میں رہے حد ادب۔ پریم نے شاہین اور وارنر کے قد کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا اس کیس میں لڑکی کا قد زیادہ لمبا ہے۔ دیگر صارفین کی جانب سے بھی مزیدار میمز کی بھرمار کی جارہی ہے۔
پاکستان کے نامور اداکار فیصل قریشی کی اہلیہ ثنا فیصل نے اہم مسئلے پر توجہ مرکوز کروادی، بھارتی فلم ’83‘ میں اس دورکے پاکستانی کرکٹر عمران خان کے کردار کو دیکھ کرپی ٹی آئی سے نوٹس لینے کی درخواست کردی۔ ثناء فیصل نے فلم کے ایک منظرمیں کھیل کے میدان میں مصافحہ کرنے والے بھارتی کپتان کی گرم جوشی کے جواب میں نقلی عمران خان کو “کپل، کی حال( کیاحال )؟ ” کہتے دکھایا گیا ہے، ثنا فیصل نے اس حوالے اپنا ردعمل دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل اکاؤنٹ کو ٹیگ کرتے ہوئے ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ ثناء فیصل نے انسٹااسٹوریزمیں لکھا، ‘یہ غلط ہے، پلیزاس کے خلاف کارروائی کریں۔ خان صاحب کے ساتھ یہ ظلم کیسے کرسکتے ہیں؟” ثناء کے تحفظات پرانسٹاصارفین نے ملے جلے ردعمل کااظہار کیا، کسی کو لگا کہ اپنے ملک میں بھی تو ٹی وی چینلزپرکامیڈین یہی کچھ کررہے ہوتے ہیں تو بیشترنے لکھا کہ بھارتی اپنے ہرپراجیکٹ میں ہمارے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں۔ CbaNkfvh9sM ڈائریکٹرکبیرخان کی یہ فلم 1983 کے کرکٹ ورلڈ کپ پرمبنی ہے،جس کی کاسٹ میں دپیکا پڈوکون اوررنویر سنگھ کے ساتھ راج بھسین، پنکج ترپاٹھی، ثاقب سلیم، جتن سرنا، ایمی ورک، ہارڈی سندھو سمیت دیگر شامل ہیں،فلم میں اس دورکے بھارتی کپتان کپل دیو کا کرداررنویرسنگھ نے اداکیا جبکہ حقیقی زندگی میں بھی ان کی ساتھی دپیکا بطوررومی بھاٹیہ (کپل دیو کی اہلیہ ) کا کردار نبھارہی ہیں،جبکہ فلم کی پروڈیوسر بھی ہیں۔ دسمبرمیں فلم کی تشہیری مہم کے دوران دبئی میں پریس کانفرنس کے دوران رنویرسنگھ کا کہنا تھاکہ ’فلم میں ایک خاص سین ہے، جسےدیکھ کرپاکستانی شائقین بہت خوش ہوں گےابھی اُس سین سے متعلق کچھ نہیں بتا سکتامگریقینی طورپرکہتاہوں کہ وہ بہت خوش ہوں گے، پاکستانیوں کو ’83‘ ہرحال میں دیکھنی چاہیے،فلم 24 دسمبرکوریلیزکی گئی تھی، اسے ہندی کے علاوہ، تامل، تیلگو،کناڈا اورملیالم زبان میں بھی پیش کیا گیاہے۔
سلیم صافی کا کہنا ہے کہ 2018 میں عمران خان آج کی نسبت کہیں زیادہ پاپولر تھے پھر بھی طاقتوں نے ان کے ساتھ اتحادیوں کو جبری طور پر شامل کیا، مگر اب وہ طاقتیں نیوٹرل ہو گئی ہیں اور انہوں نے ان سب لوگوں کو آزاد چھوڑ دیا ہے۔ نجی ٹی وی چینل کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں تجزیہ کار و اینکر پرسن سلیم صافی کا کہنا تھا کہ 1997، 2002، 2008 اور 2018 کو دیکھا جائے تو تب عمران خان آج سے زیادہ مقبول تھے، تب ان کے چہرے سے کئی نقاب نہیں اترے تھے۔ سلیم صافی نے کہا کہ عمران خان کے ساتھ تب شہبازگل اور اس طرح کے دیگر نمونے بھی نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے اتنے یوٹرن لیے تھے، وہ وقت ایسا تھا کہ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر جیسے لوگ کہتے تھے کہ وہ عمران خان کو کبھی اپنا لیڈر نہیں مانیں گے حتیٰ کہ وہ ان کو سیاست دان ہی نہیں مانتے تھے، مگر پھر طاقتوں نے فیصلہ کیا کہ عمران خان کو لیڈر بنانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جب یہ قوتیں فیصلہ کرتی ہیں تو پھر لوگ ساتھ ملتے ہیں، سلیم صافی نے کہا کہ ان اتحادیوں کو جبراً ان کے ساتھ شامل کیا گیا پھر کسی نے ان کیلئے آر ٹی ایس فیل کرایا اور کسی نے کسی اور طریقے سے ان کی مدد کی۔ سلیم صافی نے کہا کہ وہ طاقت ابھی تک ان لوگوں کو ان کے ساتھ رکھےہوئے تھی مگر اب اس طاقت نے ان لوگوں کو چھوڑ دیا ہے اور اب وہ آزادنہ اپنے فیصلے کر رہے ہیں، جس پر اینکر علینہ فاروق شیخ نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ وہ آزادنہ فیصلے کر رہے ہیں مگر وہ سب لوگ آزانہ طریقے سے سندھ ہاؤس میں جا کر بیٹھ گئے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے رہنما اور سینئر قانون دان اعتزاز احسن نے بڑی پیش گوئی کردی،میڈیا سے گفتگو میں اعتزاز احسن نے باور کروایا کہ مسلم لیگ نواز اپوزیشن کو نقصان پہنچائے گی،نواز شریف لندن گئے اور چار سال سے بیٹھے ہوئے ہیں، ان کے علاج کی کوئی معتبر رپورٹ نظر نہیں آتی،پوری اپوزیشن کو نقصان پہنچانے والی جماعت مسلم لیگ ن ہے، آئندہ انتخابات میں عوام نوازشریف سےپوچھیں گےوہ باہرکیوں گئے؟ نواز شریف 2 ہفتے کا بول کر ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور ڈھائی سال لگادیے ہیں، ان سے پوچھا تو جائے گا۔ رہنما پیپلزپارٹی نے کہا کہ موجودہ صورتحال سے لگ رہا ہے کہ وزیراعظم اکثریت سے محروم ہوگئے ہیں، اتحادی خود کو آزاد محسوس کررہے ہیں،عمران خان الیکشن مہم کے لیے نکلے ہیں،انہوں ںے سوچ لیا ہے کہ ان کا اہم پوائنٹ کرپشن ہے، عمران خان کی کوشش ہے کہ کرپشن کی بات کرلو لوگ مہنگائی بھول جائیں گے،اس دوران فضل الرحمان، پیپلز پارٹی اور ن لیگ عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے میں مصروف ہیں۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ عدم اعتماد پاس ہوئی تو میں سمجھتا ہوں عمران خان خوش قسمت ہیں، مہنگائی و بیروزگاری کا پہاڑ آنے والے وزیراعظم پر پڑے گا اور آئندہ حکومت سلیکٹڈ نہیں ہوگی،جب اپوزیشن کی کابینہ بنی تو ان کو پتہ لگے گا کہ کس کو کہاں لگانے میں دشواری اور مشکلات ہیں،عمران خان کے مشیروں نےاپنےکیس کوخراب کیا۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ منحرک رکن کو لوٹا نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے، ووٹ پارٹی کا ہے یا ممبر کا اس کے درمیان باریک لکیر ہے، میری ذاتی رائے میں ووٹ ممبر کا اپنا حق ہوتا ہے،شیخ رشید نے کہا پانچ ووٹ ہیں اور بلیک میل کرتے ہیں ان کی باتوں سے اتحادیوں کو تکلیف پہنچی ہے۔ سینیئرقانون دان نے کہا کہ سپریم کورٹ میں جاکرحکومت نےاچھا اقدام کیا ہے، سپریم کورٹ یقینی بنائےگی کہ تصادم نہ ہو، مولانا نےکہا کہ وہ نیوٹرل ہوگئےہیں یہ غلط ہے، سیاسی کھیل میں امپائرکبھی نیوٹرل نہیں ہوتے،مولانا فضل الرحمان کے ایمپائر نیوٹرل ہونےکے بیان کا مطلب یہ ہے کہ ایمپائر ہمارے ساتھ ہو گیا ہے۔
آج سے اسلام آباد میں شروع ہونے والی او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس کے دوران پاکستان کو ایک سال کیلئے اسلامی تعاون تنظیم کے اہم فورم کی سربراہی سونپی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق او آئی سی وزرائے خارجہ سربراہی کونسل کے اجلاس میں مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ، اوآئی سی سیکریٹری جنرل اور وفود شریک ہیں، جہاں نائجر کے وزیر خارجہ نے باضابطہ طور پر پاکستان کو اہم ذمہ داری سونپے جانے کا اعلان کیا۔ نائجروزیرخارجہ نے اوآئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کے آغاز میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہائیوں پہلے اوآئی سی کی بنیاد رکھی گئی، اوآئی سی کے 48ویں اجلاس میں سب کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ نائجر کے وزیرخارجہ نے اوآئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کی صدارت پاکستان کو سونپنے کا باقاعدہ اعلان کیا۔ نائجر وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ اوآئی سی کا مقصد تمام ممالک میں استحکام کا فروغ ہے، اوآئی سی اجلاس کے پاکستان میں انعقاد پر مبارکباد دیتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ انصاف اور مساوات کی بنیاد پر شراکت داری پائیدار ہوتی ہے ، مسلم امہ کو دہشت گردی اور انتہاپسندی جیسے چیلنجز کا سامنا ہے، خطے میں کشیدگی کے خاتمے کےلئے پرعزم ہیں۔ یاد رہے کہ چین کے وزیر خارجہ بطور مہمان خصوصی اجلاس میں شرکت کررہے ہیں، اجلاس کے افتتاحی سیشن سے وزیراعظم پاکستان عمران خان بھی خطاب کریں گے۔

Back
Top