خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
پاکستان تحریک انصاف کے منحرف رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے اپنی تیسری بیوی دانیہ شاہ سے طلاق کی خبروں کی تردید کردی، کہا طلاق کی خبریں حقیقت کے منافی ہیں، ٹوئٹر پیغام میں عامر لیاقت نے کہا کہ پی ٹی آئی اور اس کے کرائے کے لوگ میری اور دانیہ شاہ کی علیحدگی کی جھوٹی خبریں پھیلا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں اور میری بیوی ایک دوسرے سے بے حد محبت کرتے ہیں،رکن قومی اسمبلی نے پی ٹی آئی ارکان کو خبردار کیا کہ وہ ان کے گھریلو معاملات میں مداخلت نہ کریں اور نہ ان کے گھر میں داخل ہوں، ورنہ کچھ بھی نہیں بچے گا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ وہ ایف آئی آے اور متعلقہ اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان نام نہاد صحافیوں اور سوشل میڈیا کے اکاؤنٹس چلانے والے جھوٹوں کو گرفتار کیا جائے جو ان کی خدانخواستہ علیحدگی کی خبریں پھیلا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی پوسٹ میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور اہلیہ دانیہ شاہ کو بھی مینشن کیا،اہلیہ دانیہ شاہ کی مختصر ویڈیو بھی انسٹاگرام پر شیئر کی، جس میں وہ شوہر سے علیحدگی کی خبروں کو مسترد کرتی دکھائی دیں۔ دانیہ شاہ نے ویڈیو میں کہا کہ ان میں اور عامر لیاقت میں کوئی علیحدگی نہیں ہوئی، وہ دونوں ایک ہیں، ان سے متعلق افواہیں پھیلانا بند کی جائیں۔ گزشتہ روز سے سوشل میڈیا پر خبریں زیر گردش تھیں کہ عامر لیاقت کی پہلی اور دوسری بیوی کی طرح تیسری بیوی دانیہ شاہ بھی ان سے الگ ہوگئیں ہیں،عامر لیاقت حسین نے خود سے 31 سال کم عمر دانیہ شاہ سے دو ماہ قبل ہی فروری میں شادی کی تھی۔ دانیہ شاہ سے قبل فروری میں ہی عامر لیاقت کی سابق اہلیہ طوبیٰ عامر نے ان سے خلع لینے کی تصدیق کی تھی، انہوں نے جولائی 2018 میں اسکالر سے شادی کی تھی اور وہ بھی ان سے کم عمر تھیں،عامر لیاقت کی پہلی شادی بھی طلاق پر ختم ہوئی تھی اور ان کی سابق اہلیہ سیدہ بشریٰ نے دسمبر 2020 میں طلاق کی تصدیق کی تھی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کی کمان سنبھالتے ہی بڑے اعلانات کا آغاز کر دیا، پینشنرز کی پینشن میں 10 فیصد اضافے کے اعلان کے بعد اب ایک اور بڑا اعلان سامنے آگیا ہے، پشاور موڑ سے اسلام آباد ایئر پورٹ تک میٹرو بس سروس فوری طور پر شروع کرنے کے احکامات جاری کردیئے گئے۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نکی جانب سے میٹرو بس سروس شروع کرنے کے حکم کے بعد سی ڈی اے اور این ایچ اے حکام کی دوڑیں لگ گئیں، تحریک انصاف حکومت کی جانب سے شروع کئے گئے میٹرو بس سروس منصوبے کی ٹیسٹ سروس شروع کردی گئی ہے۔ احکامات جاری ہونے کے فوری بعد حکام نے ہدایت جاری کیں،بعدازاں پشاور موڑ سے اسلام آباد ایئرپورٹ تک میٹرو بس کو چلا دیا گیا۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف ہفتے کے دن میٹرو بس سروس کا باقاعدہ افتتاح کریں گے۔ دوسری جانب، صحافی عمران محمد کی جانب سے اس فیصلے پر رد عمل سامنے آیا ہے، صحافی نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ یہ پچھلے ماہ کی خبر ہے، پشاور موڑ تا ائیرپورٹ میٹرو، نئی بسیں 15مارچ کو چین سے پاکستان روانہ کی جائیں گی، سی ڈی اےکی جانب سے بتایا گیا کہ بسیں پاکستان 20دن میں پہنچیں گی، ٹرائل رن اپریل میں ہو گا ، نئے روٹ پر 30 بسیں اورنج کلر میں چلائی جائیں گی۔ صحافی نے مزید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اور مزید عرض ہے کہ شیڈول کے مطابق آج میٹرو روٹ پر ٹیسٹ رن کا آغاز بھی ہوچکا ہے ، ٹھیک ہے ہمیں معلوم ہے کہ مسلم لیگ ن کا میڈیا سیل بہت تیز ہے لیکن خبروں اور حقائق تو مسخ نہیں کیا جاسکتا۔ سھافی نے ایک اور ٹوئٹ میں لکھا کہ سی ڈی اے حکام پشاور موڑ سے نیو اسلام آباد میٹرو بس سروس کو 5 روز میں شروع کر دیں گے، راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس اتھارٹی سے 20 بسیں لی جائیں گی، منصوبے کیلئے چین سے منگوائی گئی بسیں مئی کے پہلے ہفتے میں پاکستان پہنچیں گی۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے نئی حکومت کے آتے ہی پارٹی کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن پر قانونی معاونت فراہم کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان نے یہ اعلان انصاف لائرز فورم کے ذمہ داران سے ملاقات کے موقع پر کیا، اجلاس میں ملک کی سیاسی صورتحال سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو ہوئی۔ اس موقع پر عمران خان نے حکومت کے ختم ہوتے ہی پارٹی کی سوشل میڈیا ٹیم اور ورکرز کے خلاف کریک ڈاؤن اور ہراسگی کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ متاثرہ کارکنان کو فوری طو رپر قانونی معاونت فراہم کی جائے۔ اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ امپورٹڈ حکومت کی جانب سے تنقیدی آوازوں کو ہدف بنانا قابل تشویش ہے، انصاف لائرز فورم کارکنان کو معاونت فراہم کرے، پی ٹی آئی آئین و قانون کی بالادستی کی مضبوط آواز ہے، فلاحی ریاست کا قیام عدل وانصاف پر مبنی معاشرے کے بغیر ناممکن ہے۔ کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن کے حوالے سے اسد عمرنے بھی اپنی ٹویٹ میں بتایا کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ورکرز کو ہراساں کرنے کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس کیلئے پٹیشن بھی تیار کرلی گئی ہے۔ اظہر مشہوانی نے کہا کہ یہ پٹیشن صبح ہائی کورٹس میں جمع کروادی جائے گی۔
اینکر پرسن ڈاکٹر معید پیر زادہ کا ایک ویڈیو کلپ وائرل ہو رہا ہے جس میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ نومنتخب حکومت ان سمیت دیگر چند اینکر پرسنز کے خلاف کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ تفصیلات کے مطابق معروف صحافی عدیل راجہ نے ایک ویڈیو کلپ شیئر کیا جس میں معید پیر زادہ انکشاف کرتے ہیں کہ اسلام آباد کے ایک سرکاری محکمے سے خبر نکلی ہے کہ ارشد شریف، عمران خان ریاض اور معید پیر زادہ کو سیدھا کرنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر معید پیر زادہ نے کہا کہ مین اسٹریم میڈیا پر چلنے والی خبروں کا تو کوئی مسئلہ نہیں البتہ ان لوگوں کو ہمارے وی لاگز اور ٹوئٹر پر کہ جانے والی تنقید سے مسئلہ ہے۔ انہوں نے شدید کرب کی سی صورتحال میں اس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کہیں سے اس خواہش کا اظہار کیا گیا ہے کہ ان اینکرز کے خلاف کچھ ڈھونڈا جائے اور ان کو سیدھا کیا جائے ابھی یہ خبر مصدقہ تو نہیں بہرحال یہ خبر ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ابھی دیکھ رہے ہیں کہ اس سے متعلق کیا کر سکتے ہیں کیونکہ جب کچھ ہوگا پھر ہی تو اس پر ایکشن بھی لیا جا سکے گا۔ مگر ہم تیار ہیں کیونکہ اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہنا ہے تو اس کی یہ قیمت تو ادا کرنا ہو گی۔ معید پیر زادہ کا کہنا تھا کہ ابھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ ہمارے لیے کیا حالات پیدا کرتے ہیں پھر اسی حساب سے اگلا لائحہ عمل بنایا جائے گا۔
عامر عثمان عادل مولانا کی لاٹھی اور اقتدار کی بھینس ! ملکی سیاست کا ہر باب مولانا کے ذکر کے بغیر ادھورا رہتا ہے ۔ حضرت جی کی معاملہ فہمی سیاسی بصیرت اور جرات کا ایک زمانہ معترف ہے بات کرنے کو لب کھولتے ہیں تو علم و فضل کے موتی جھڑنے لگتے ہیں لگی لپٹی رکھے بغیر بڑی سے بڑی بات اس آسانی سے کہہ جاتے ہیں کہ مخاطب مارے حیرت کے انگلیاں دانتوں تلے دبانے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ مستقل مزاجی مزاحمت اور جہد مسلسل دیکھیئے 2018 میں جب سے یہ حکومت بنی اسے گرانے کے لئے کمر بستہ ہو گئے ان کے ولولے اور جوش کو دیکھتے ہوئے متحدہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے انہیں اپنا سیاسی امام مقرر کر دیا اور بالآخر یہ اپنے مقصد میں کامیاب ٹھہرے ،کئی عشروں پہ مشتمل اقتدار ان کی جھولی میں پڑا رہا اور پہلی بار ایسا ہوا جب یہ کسی بھی ایوان کا حصہ نہ تھے ۔ لیکن یہ عرصہ انگاروں پہ لوٹتے گذرا ۔ عمران خان کے خوب لتے لئے اسے یہودی ایجنٹ کا لقب دیا اور اس کی حکومت کو ناجائز قرار دے دیا ،اس سارے عرصہ میں مولانا نے اسٹیبلشمنٹ کو بھی خوب سنائیں ،ایک جلسہ میں فوج کو مخاطب کر کے اس قدر دلکش اسلوب میں اسے حدود و قیود اور اوقات یاد دلائی کہ مخاطب جھوم اٹھے " آپ کی حیثیت ہمارے لئے ایسے ہی ہے جیسے آنکھ کی حفاظت پہ مامور پلکیں لیکن جب آنکھوں کی حفاظت پہ مامور پلکوں کا کوئ بال ٹوٹ کر آنکھ میں چلا جائے تو اسے نکال پھینکنا ہی نجات کا راستہ ہوتا ہے "۔ تحریک عدم اعتماد پیش ہوئ تو مولانا فضل الرحمان ایک لمحے کو بھی اپنے فرض سے غافل نہ ہوئے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو واضح پیغام پہنچا دیا کہ اگر ہماری منشا کے مطابق فیصلہ نہ ہوا تو دم مست قلندر ہو گا عاصمہ شیرازی کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کر دیا کہ وہ فوج کے بارے میں کھل کر بات کریں گے اسی طرح ایک موقع پر حضرت جی نے اسٹیبلشمنٹ کو ان الفاظ میں جنجھوڑا ۔ " ہم اسٹیبلشمنٹ سے کہتے ہیں کہ وہ اس گندے کیڑے کے پیچھے سے نکل جائے ورنہ جو پتھر اسے ماریں گے وہ آپ کے سینے پر لگیں گے " لگتا ہے یہ قبولیت کی گھڑی تھی ،دھمکی کار گر ثابت ہوئی ،اسٹیبلشمنٹ نہ صرف عمران خان کی حمایت سے ,دستبردار ہوئ بلکہ اس کی مشکیں کس کر اکھاڑے سے ہی باہر پھینک دیا ثابت ہوا کہ اب کی بار متحدہ اپوزیشن کو جو کامیابی ملی ہے اس کے پیچھے مولانا کا ہاتھ ہے اقتدار کی بھینس کو مولانا ہی اپنی لاٹھی سے ہانک کر وزارت عظمی کی کھرلی تک لے جانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مولانا کا اسلوب اس قدر دلکش لہجہ ایسا اٹل اور پیغام اتنا واضح ہوتا ہے کہ کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب گالیاں کھا کے بھی بے مزا نہ ہوا۔
سابق وزیراعظم و پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے واضح کردیا کہ انہیں اقتدار کے جانے کا دکھ نہیں ہے، اصل دکھ انہیں اپنے ساتھیوں کی جانب سے دیئے گئے دھوکے کا ہے، تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اقتدار جانے کا دکھ نہیں اپنے ہی افراد کے دھوکہ دینے سے دکھ ہوا، پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر ایوان میں آ کر بیٹھیں گے۔ عمران خان نے کہا کہ اسمبلی سے استعفے دے دیے، اب پارلیمنٹ نہیں جائیں گے،اتحادی حکومت میں بلیک میل ہوتے رہے لہٰذا آئندہ اتحادیوں کو ساتھ ملا کر حکومت نہیں بنائیں گے،بیساکھیوں کے سہارے حکومت ملی، کھل کر کام کرنے کا موقع نہیں ملا،تحریک انصاف اب عوامی سطح پر نئے انتخاب کا دباؤ ڈالے گی، تحریک انصاف کی مقبولیت سے تمام جماعتیں خوفزدہ ہیں، دوبارہ پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت لے کر جائیں گے۔ ان کا کہنا تھاکہ اب پارٹی سے وفاداروں کو ہی ٹکٹ دے کر کامیاب بنائیں گے، دوبارہ اقتدار میں آ کر ہارس ٹریڈنگ کا ہمیشہ کیلئے راستہ بند کروں گا، اقتدار جانے کا دکھ نہیں اپنے ہی افراد کے دھوکہ دینے سے دکھ ہوا، پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر ایوان میں آ کر بیٹھیں گے۔ تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں ملکی سیاسی صورتحال پر گفتگو ہوئی اور عوامی رابطہ مہم اور جلسے کرنے کا فیصلہ کیا گیا،ٹویٹ میں عمران خان نے لکھا کہ عوام کو فیصلے کا موقع دیا جائے وہ کسے وزیر اعظم منتخب کرتے ہیں،پاکستان غیرملکی طاقتوں کی کٹھ پتلی نہیں،بدھ کو پشاور میں اجتماعِ عام سےخطاب کروں گا،حکومت کو ہٹائے جانے کے بعد یہ پہلا جلسہ ہوگا۔ عمران خان نے اقتدار سے جانے کے بعد قومی اسمبلی کی نشست سے بھی استعفیٰ دے دیا،قومی اسمبلی کے اجلاس میں نئے قائد ایوان کا انتخاب کیا گیا،متحدہ اپوزیشن کی جانب سے شہباز شریف اور پی ٹی آئی کی جانب سے شاہ محمود قریشی وزیر اعظم کے امیدوار تھے۔ قومی اسمبلی سے خطاب میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں قائد ایوان کے انتخاب میں حصہ لینا ایک ناجائز حکومت کو قانونی حیثیت دینے کے مترادف ہے، اس لیے ہم اس گناہ میں شریک نہیں ہونا چاہتے، اس لیے میں وزیراعظم کے انتخاب کے عمل کے بائیکاٹ کا اعلان کرتا ہوں۔
صوبائی وزیر جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان نے ٹوئٹ کیا ہے کہ پاکستانی جمہوریت کی بدصورتی یہ ہے کہ یہاں جو وزیراعظم بن رہا ہے وہ پچھلے 10 ماہ سے کرپشن اور منی لانڈرنگ کے اوپن اینڈ شٹ کیسز میں ضمانت پر ہے۔ تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری ایک پیغام میں پنجاب سے تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی اور وزیر جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ پاکستان کی جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ 150 سیٹوں والا اپوزیشن میں اور 84 سیٹوں والا اقتدار میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس جمہوریت کی بدصورتی یہ ہے کہ جو وزیراعظم بن رہا ہے وہ پچھلے 10 ماہ سے کرپشن اور منی لانڈرنگ کے اوپن اینڈ شٹ کیسز میں ضمانت پر ہے۔ فیاض چوہان نے مزید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کے حسن کو دیکھ لیں یا بدصورتی کو یہ جمہوریت ہر کسی کی رکھیل ہے۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف کی 150 سیٹوں کے مقابلے میں 84 سیٹوں کے ساتھ اقتدار میں آنے کیلئے تیار بیٹھی مسلم لیگ ن کے ساتھ دیگر اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ہے جنہوں نے تحریک عدم اعتماد پر 174 ووٹ کاسٹ کر کے اس حکومت مخالف تحریک کو کامیاب بنایا ہے۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ 13جماعتوں کو ملا کر 174 ووٹ بنے جب کہ ان لوگوں کو 5 ججز اور سپر پاور امریکا کی بھی حمایت حاصل رہی ہے۔ یہی نہیں اس کے علاوہ مین اسٹریم میڈیا کی 90 فیصد حمایت بھی اسی اپوزیشن اتحاد کے ساتھ تھی صرف عمران خان کی حکومت ختم کرنا واحد مقصد تھا۔
پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کردی،ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے 7 اپریل کے فیصلے پر نظر ثانی کے لئے حکومت نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرلیا ہے۔ درخواست میں استدعا کی گئی کہ آرٹیکل 69 آئین کا حصہ ہے، سپریم کورٹ اسمبلی کے اختیارات نہیں لے سکتی،سپریم کورٹ کا 7 اپریل کا فیصلہ معطل کیا جائے اور قومی اسمبلی کو رولز کے مطابق کام کرنے دیا جائے۔ دوسری جانب قومی اسمبلی کا ہنگامہ خیز اجلاس وقفے وقفے سے جاری ہے،وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ضمیر بک رہے ہیں،اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جارہا ہے، یہ ابھی نہیں ہوا،عدم اعتماد کی تحریک سے پہلے بھی تحریک انصاف اس پر سوال اٹھاچکی ہے،ہمیں فیصلہ کرنا ہے، خودمختاری یا غلامی۔ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ رات آٹھ بجے ہوگی،حکومت اور اپوزیشن کے درمیان معملات طے پاگئے ہیں، اسپیکراسد قیصر اور اپوزیشن کے درمیان اجلاس چلانے پراتفاق ہوگیا،اپوزیشن مبینہ دھمکی آمیز خط پر تقاریرسننے کوتیار ہوگئی ہے۔ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے 8 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلے میں ڈپٹی اسپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا اور وزیراعظم کی قومی اسمبلی توڑنے کی سفارش جبکہ صدر مملکت کے اسمبلی تحلیل کرنے کے حکم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے تین اپریل کی حیثیت سے بحال کردیا۔ سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کا اجلاس 9 اپریل 2022 صبح 10 بجے بلانے کی ہدایت کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کی کارروائی جاری رکھنے کا حکم دیا تھا اور ہدایت کی کہ اگر عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو قومی اسمبلی نئے وزیراعظم کا انتخاب کرے اور اگر ناکام ہوتی ہے تو عمران خان بطور وزیراعظم اپنا کام جاری رکھیں، اسپیکر سمیت تمام ارکان فیصلے پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔ مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے پر عدالتی فیصلے کا کوئی اثر نہیں پڑے گا، حکومت کسی صورت اراکین کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روک سکتی، سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم اسمبلی تحلیل کرنے کے اہل نہیں تھے لہذا ایوان کو پرانی حیثیت سے بحال کیا جائے اور اسپیکر ہفتے کو دوبارہ اجلاس طلب کریں۔ عدم اعتماد کامیاب ہو تو فوری نئے وزیراعظم کا الیکشن کرایا جائے،عمران خان بطور وزیراعظم جبکہ اُن کی کابینہ کے اراکین کی حیثیت بھی بحال ہوگئی، اسی طرح معاونین اور مشیر بھی عہدوں پر بحال ہوگئے۔
ملکی سیاست میں ہلچل ہی ہلچل ہے ، شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں،ایسے میں شہبازشریف کیخلاف کیسز کی تحقیقات کرنے والے ایف آئی اے ڈائریکٹر کو چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے۔ ایف آئی اے کے افسر ڈاکٹر رضوان شہبازشریف، حمزہ شہباز، جہانگیرترین سمیت اہم کیسز کی تحقیقات کر رہے تھے،ڈاکٹر رضوان کی چھٹی کا11 اپریل سے آغاز ہوگا،ڈائریکٹر ایف آئی اے پنجاب زون ون ڈاکٹر رضوان کی جگہ ڈپٹی ڈائریکٹر نازیہ امبرین کوڈائریکٹر کا چارج دے دیا گیا ہے۔ ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا ، جس کے مطابق ڈاکٹر رضوان کی چھٹی کا11اپریل سے آغاز ہو گا،رواں سال فروری میں شوگراسکینڈل سے متعلق تحقیقات کرنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے کے اہم افسران کا تبادلہ کردیا گیا تھا۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے ڈاکٹر رضوان بھی تبادلوں سے لاعلم تھے،افسران کے تبادلوں پر چند وفاقی وزرا نے تشویش کا اظہار کیا تھا، تبادلوں سے متعلق وزیراعظم عمران خان سے رابطہ کیا تھا۔ اس خبر پر صحافیوں کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے
وزیراعظم عمران خان کے گزشتہ روز کے خطاب کو الوداعی خطاب کہاجارہاہے،اس حوالے سے جی این این کے پروگرام میں میزبان ثمینہ پاشا نے سینیئر تجزیہ کار ظفر ہلالی سے پوچھا کی کیا عمران خان کی یہ اسٹریٹیجی کارآمد ثابت ہوگی۔ ظفر ہلالی نے کہا کہ میں تو بڑا مایوس ہوں، ایک ایماندار شخص کو جس کو آپ کبھی بھی الیکشن میں لے جائیں کامیاب ہونگے عوام کی سپورٹ کے ساتھ،عمران خان ایماندار آدمی ہے ،عمران خان کواب دوتہائی اکثریت ملےگی اس لئے تو یہ الیکشن میں نہیں جانا چاہتے،اس لئے تو ڈر رہے ہیں۔ سینیئر تجزیہ کار نے کہا کہ عمران خان جیسے ایماندار شخص کو کہنا پڑ رہاہے کہ تم کس قسم کے قوم ہو،جو ہارس ٹریڈنگ کرتے ،جھوٹ ، کرپشن سب کرتے،وہ گنتے ہو جو نہیں گننا چاہئے وہ نہیں جو گننا چاہئے،امریکی سفارتکار ایک دن میں سات ن لیگ کے لوگوں سے ملے ہیں،ہمیں پتا ہے ایسے امریکی آفیشلز سے ملے ہیں جن کا کوئی عہدہ نہیں لیکن کیوں ملے۔ ظفر ہلالی نے کہا کہ عمران خان صحیح کہہ رہے کہ سازش ہوئی ہے، اس لئے تحقیقات کی جائیں،کوئی ایسا قانون ہے جہاں آپ کو رشوت ،کرپشن اور ہارس ٹریڈنگ سے روکا جائے،رولنگ کے بارے میں سپریم کورٹ نے سوموٹونوٹس لیا بلدیہ فیکٹری میں تین سو لوگ مارے گئے کسی نے سوموٹو نہیں لیا،ماڈل ٹاؤن میں اتنے لوگ مرے کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ وزیراعظم عمران خان نےسپریم کورٹ کے فیصلے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ امپورٹڈ حکومت کو کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے، اتوار کو پرامن احتجاج کی کال بھی دے دی،عوام ہی مجھے لے کر آئے اور میں نے اُن ہی میں جانا ہے، میں جدوجہد کے لیے تیار ہوں، میں اب قوم کے ساتھ ہوں۔ انہوں نےاتوار احتجاج کی کال دی اور عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سب نے اتوار کو عشاء کی نماز کے بعد نکلنا ہے اور زندہ قوم کی طرح احتجاج کرنا ہے، سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ منظور ہے لیکن اس سے مایوسی ہوئی ہے، سپریم کورٹ اور پاکستان کی عدلیہ کی عزت کرتا ہوں، میں آزاد عدلیہ کی تحریک کے دوران جیل جاچکا ہوں۔
اداکارہ عائشہ عمر نے نجی ٹی وی کے پروگرام جی سرکار میں شرکت کے دوران پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور ٹی وی میزبان ورکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین کو مشورہ دیا ہے۔ اداکارہ عائشہ عمر نے ایک آن لائن شو میں شریک ہوئیں۔ جہاں انٹرویو کے دوران میزبان نے ان سے کہا کہ آپ بلاول بھٹو زرداری کو کیا مشورہ دینا چاہیں گی؟ عائشہ عمر نے بلاول کو مشورہ دیتے ہوئے کہا آپ کی اردو بہتر ہو رہی ہے اور بہتر کریں کیونکہ یہی کامیابی کی چابی ہے۔ CcD-44ZgPYu میزبان نعمان اعجاز نے کہا سب کے ہر دلعزیز عامر لیاقت صاحب کو کیا مشورہ دیں گی؟ تو عائشہ عمر نے کہا مجھے لگتا ہے کہ انہیں اپنی نجی زندگی کی چیزیں عوامی سطح پر نہیں بتانی چاہئیں اور ان کا تماشہ نہیں بنانا چاہئے۔
سینیٹر فیصل جاوید نے اپنے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ وزیراعظم عمران خان آج شام قوم سے خطاب میں ایک اہم اعلان کرنے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو چیلنجز کا سامنا کرنا آتا ہے، بظاہر اپوزیشن کو لگ رہا ہے کہ وہ جیت چکے ہیں مگر ایسا ہے نہیں، وہ ہار چکے ہیں، مٹھائی پھر ضائع ہوگئی، الفاظ یاد رکھیے گا۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری پیغام میں سینیٹر فیصل جاوید نے کہا ہے کہ عمران خان کو چیلنجز کا سامنا کرنا آتا ہے، بظاہر اپوزیشن کو لگ رہا ہےکہ وہ جیت چکے ہیں مگر ایسا ہے نہیں، وہ ہار چکے ہیں، مٹھائی پھر ضائع ہوگئی، الفاظ یاد رکھیے گا۔ آنے والا وقت بتائے گا انشاءاللہ قوم نے فیصلہ کر لیا ہے۔ حکومتی جماعت کے رہنما فیصل جاوید نے مزید کہا کہ کپتان آج شام ایک اہم اعلان کریں گے، وہ اپنی قوم کو کبھی مایوس نہیں کریں گے۔ دوسری جانب یاد رہے کہ وزیراعظم کی زیرصدارت قانونی ٹیم کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لیا جائے گا اور موجودہ صورتحال میں قانونی آپشنز پر غور ہوگا۔ یہی نہیں وزیراعظم کی زیر صدارت کابینہ کا خصوصی اجلاس بھی آج ہوگا، جس میں ملکی سیاسی صورتحال پر غور ہوگا، اجلاس میں مبینہ غیر ملکی دھمکی آمیز خط کے اوپر مشاورت ہوگی اور اجلاس کے دوران آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ اس کے بعد وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت سیاسی کمیٹی کا اجلاس آج دن ایک بجے ہوگا۔اجلاس میں موجودہ سیاسی صورتحال پر غور کیا جائے گا، وزیراعظم آئندہ انتخابات سے متعلق پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کریں گے۔ سب سے آخر میں وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس آج ہوگا، اجلاس آج دوپہر 3 بجے وزیر اعظم ہاؤس میں ہوگا۔ جس کے بعد وزیراعظم آج شام قوم سے خطاب کریں گے اور موجودہ سیاسی صورتحال سے قوم کو آگاہ کریں گے اس دوران پی ٹی آئی کا پلان بی سامنے آنے کی توقع ہے۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل واوڈا کہہ چکے ہیں کہ تحریک انصاف کے پاس تین پلان اے، بی اور سی موجود ہیں، انہوں نے کہا تھا کہ اگر سپریم کورٹ سے فیصلہ ہمارے خلاف بھی آتا ہے تو ہم تیار ہیں اس کے بعد پلان بی سامنے لایا جائے گا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر گلوکارہ قرۃ العین بلوچ ناخوش سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیرقانونی قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی اور کابینہ کو بحال کردیا،سپریم کورٹ نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ بھی غیرآئینی قرار دے دیا، نئے انتخابات سمیت تین اپریل کے تمام حکومتی احکامات کالعدم قرار دیئے گئے،نو اپریل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد گلوکارہ قرۃ العین بلوچ بھی عمران خان کی حمایت میں میدان میں آگئیں،ٹویٹ کیا کہ کیا ہم سب باہر نکل کر اس فیصلے کو مسترد کر سکتے ہیں؟ یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں عوام کے ووٹوں کی ان ایم این ایز کے درمیان کوئی قدر نہیں ہے جو اپنا ضمیر اور اپنے ملک کے عوام کو آسانی سے بیچ سکتے ہیں،میں عمران خان کے ساتھ کھڑی ہوں آپ بھی اپنے لئے کھڑے ہوں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کے اس لارجر بینچ کی سربراہی کی جس نے تین ‎اپریل 2022 کو قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ رولنگ میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو سازش اور آئین کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا گیا تھا اور اس کے فوری بعد وزیراعظم کی تجویز پر صدر مملکت نے قومی اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ اور کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر ہماری شہبازشریف اور بلاول بھٹو سے بات ہوئی ہے اس معاملے پر پوری قوم کو ساتھ ہونا چاہیے اور اب آپ دیکھیں گے کہ اس معاملے پر عدالتی کمیشن بنے گا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے قومی اسمبلی کو بحال کیے جانے کے فیصلے پر متحدہ اپوزیشن کے رہنماؤں نے اسلام آباد می پریس کانفرنس کی ۔ اس میں خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ اس فیصلے سے اللہ تعالی نے ہمارا نظام انصاف پر اعتماد بڑھایا ہے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس نے پاکستان کے عوام اور ایوان کو، معیشت اور معاشرت سب کے حق میں یہ فیصلہ گیا ہے۔ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ امید ہے کہ نئی قیادت ایسا پاکستان دے گی جس میں تمام زبانیں بولنے والوں کو برابر کا موقع ملے گا۔ انہوں نے اس فیصلے کی حمایت کرنے والی بار کونسل کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یاد رکھا جائے گا کہ ہم لوگ تاریخ میں صحیح وقت میں صحیح سمت میں کھڑے تھے۔ شہباز شریف نے کہا کہ یہ انصاف، آئین اور قانون کی جیت ہے ۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ آج کسی فرد یا جماعت کی نہیں بلکہ پاکستان کے آئین کی جیت ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن سے گزارش ہے بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات چند دن کیلئے مؤخر کر دیں، عمران کے سارے سرپرائز جعلی نکلے، اب کسی جعلسازی کی ضرورت نہیں ہے۔ جے یو آئی کے رہنما اسعد محمود، بی این پی مینگل اور محسن داوڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین اور پاکستان کی فتح ہے یہ انصاف پر یقین رکھنے والوں کی جیت ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ طور پر تاریخی فیصلہ دیا کہ تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی 3 اپریل کی رولنگ اور وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر کی جانب سے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنا آئین سے متصادم تھا جس کے بعد سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی بحال کردی۔ عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں کہا کہ اسپیکر فوری طور پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلائیں، قومی اسمبلی اجلاس ہر صورت 9 اپریل صبح 10:30 بجے سے پہلے بلایا جائے۔
مسلم لیگ (ن) نے وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخابات کرانے کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا۔ پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز نے اس مقصد کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی جس میں اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور آئی جی پنجاب کو فریق بنایا گیا ہے۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پنجاب میں وزیراعلیٰ کا عہدہ خالی ہے اس پرجلد از جلد الیکشن کرائے جائیں۔ سیکرٹری اسمبلی اور انتظامی افسران پرویز الٰہی کے غیر قانونی احکامات مان رہے ہیں اور پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے بلا جواز تاخیر کی جا رہی ہے۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب تک صوبے کے وزیراعلیٰ کا انتخاب نہ ہو تب تک آئین کے آرٹیکل130 کے تحت اسمبلی کا اجلاس ملتوی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ درخواست دیئے گئے فریقین کے ناموں سے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہے ہیں لہٰذا عدالت جلد حکم جاری کرے تاکہ وزارت اعلیٰ کے انتخاب کو ممکن بنایا جا سکے۔ یاد رہے کہ درخواست میں دیئے گئے فریقین میں اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہٰی، ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری اور آئی جی پنجاب پولیس شامل ہیں۔
فلپائن اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا دفاعی معاہدے پر خطرے کے سایے منڈلانے لگے ہیں کیونکہ فلپائن نے بھارت سے پاکستان میں میزائل گرنے سے متعلق معاملے پر وضاحت مانگ لی ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق فلپائن کی جانب سے بھارتی میزائل کے پاکستانی علاقے میں گرنے کے معاملے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وضاحت طلب کرلی ہے۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق فلپائن کے سینئر وزیراور سیکریٹری دفاع نےفلپائن میں بھارتی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے اس معاملے پر جواب طلب کیا ہے، بھارتی سفیر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات جاری ہیں جس کی رپورٹ فلپائن کے ساتھ بھی شیئر کریں گے۔ بھارت کی جانب سے اس معاملے کو غلطی قرار دینے کے بعد فلپائن سے براہموس میزائل کی فروخت کا 37 کروڑ50لاکھ ڈالر کا معاہدہ خطرے میں پڑگیا ہے۔ کیونکہ بھارتی سپر سانک میزائل9 مارچ کو 250 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے پاکستانی علاقے میں گر کرتباہ ہوگیا تھا، دوران پروازمیزائل کی بلندی چالیس ہزار فٹ ریکارڈ کی گئی تھی،بھارت نے اس واقعہ کو حادثاتی واقعہ قرار دیا تھا۔
انٹربینک میں امریکی ڈالر ایک روپے 14پیسے مہنگا ہوکرملکی تاریخ میں پہلی بار 186 روپے سے بھی تجاوز کرگیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے کا سلسلہ جاری ہے، کاروباری دن کے اختتام پر امریکی ڈالر ایک روپے سے زائد کے اضافے کے ساتھ 186 روپے 30 پیسے ہو گیا، جبکہ انٹربینک میں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 185 روپے 23 پیسے کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق انٹربینک میں امریکی ڈالر ملکی تاریخ میں پہلی بار 186 روپے سے بھی تجاوز کرگیا ہے۔انٹربینک میں ڈالر 186 روپے 13 پیسے کی نئی بلند ترین سطح پر بند ہوا ہے۔ایک ماہ میں ڈالر 7 روپے 82 پیسے مہنگا ہوچکا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال روپے کو لے ڈوبی ۔مسلسل بڑھتا درآمدی بل اور بیرونی قرض کی ادائیگی پر روپیہ شدید دباو کا شکار ہوگیا ہے ۔ دوسری جانب سٹارک مارکیٹ میں کاروبار کے آغاز کے کچھ دیر بعد 100 انڈیکس میں 183۔2 پوائنٹس کا اضافہ ہوا جس کے بعد مارکیٹ 44 ہزار کی نفسیاتی حد عبور کرتے ہوئے 44 ہزار 111 پوائنٹس پر پہنچ گئی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ عمران نیازی کے عارضی وزیراعظم بننے کا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا ، منصوبہ بندی کے تحت ملک کا آئین توڑ کر عمران خان کو پھر سے وزیراعظم بنایا گیا۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مفتاح اسماعیل کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی بدنصیبی ہے کہ ملک میں ایسے لوگ برسراقتدار تھے اور ہیں کہ جنہیں آئین اور ملک کے مستقبل کی پرواہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر، وزیراعظم اور وزراء نے منصوبہ بندی کرکے آئین توڑا، سپریم کورٹ میں وزیراعظم کو اقامہ کی بنیاد پر ناہل قرار دیا گیا، آج جب آئین توڑا جارہا ہے تو کیا سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں کہ اس معاملے کا ازخود نوٹس لے؟ انہوں نے کہا کہ آج پنجاب اسمبلی پر تالے لگے ہوئے ہیں، خار دار تاریں لگی ہوئی ہیں، پولیس کھڑی ہوئی ہے تاکہ اسمبلی کا اجلاس نہ ہوسکے، کیا اقتدار کی ہوس میں اتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ ہمیں نا عوام کے نمائندوں کی پروا رہی، نہ آئین اور ان اسمبلیوں کی پروا رہی جو عوام کی نمائندہ ہے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ کیا اس بات کو جاننے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس ملک کی قومی اسمبلی کی اکثریت پر الزام لگا ہے کہ وہ بیرونی ملک کے ساتھ مل کر ملک کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے کہا کہ فیصلے میں عسکری حکام شامل تھے، اسمبلی تحلیل کرکے عمران خان کو دوبارہ وزیراعظم بنادیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے دوبارہ وزیراعظم بننے کا نوٹی فکیشن ابھی تک جاری نہیں کیا گیا ، عمران خان کس حیثیت میں وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھے ہیں۔ گزشتہ روز مسلم لیگ ن کے مرکزی نائب صدر شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ اگر ہم سازش میں ملوث ہیں تو آرٹیکل 6 لگادیں، عسکری قیادت بتادے کیا سازش میں اپوزیشن ملوث ہے، حکومت کی ملی بھگت سے آئین توڑا گیا ہے ان پر آرٹیکل 6 لگائیں۔ انہوں نے کہا کہ بات صرف ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ تک محدود نہیں ہے، سپریم کورٹ کو عسکری قیادت کو بھی بلانا چاہیے، تمام محرکات دیکھنے ہوں گے کہ آئین کو کیسے توڑا گیا۔
سابق وفاقی وزیر مونس الہٰی نے دعوی کیا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں ہمارے نمبرز پورے ہیں ، وزیراعلی کے انتخاب کے لئے آئینی ہدف 186 ہے جبکہ ہمارے پاس 189 ووٹ ہیں۔ تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام "آپس کی بات" میں وزیراعلی پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہٰی نے کہا کہ ان کے پاس نمبرز پورے ہیں، وزیراعلی کے انتخاب کے لئے آئینی طور پر 186 ووٹ درکار ہوتے ہیں جبکہ ہمارے پاس، مسلم لیگ ق اور پاکستان تحریک انصاف کے ملا کر ، 189 ووٹ ہیں۔انہوں نے مسلم لیگ ن کی جانب سے لگائے گئے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس تو نمبرز پورے ہیں ہم کیوں اجلاس بلانے میں رکاوٹ ڈالیں گے۔ مونس الہٰی کا مزید کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم تو آغاز سے ہی نمبرز پورے ہونے کے دعوے کررہے ہیں، کبھی کہتے 201 نمبر ہیں کبھی 210، کہنے کو تو کوئی بھی نمبر دیا جاسکتا ہے جبکہ سب جانتے ہیں ان کے پاس لوگ ہی کتنے ہیں، ہمارے پاس دونوں پارٹیز کے مشترکہ کل نمبر 193 ہیں۔ ق لیگ کے رہنما نے کہا کہ ایک طرف تو مسلم لیگ ن کا بیانیہ ہے کہ ووٹ کو عزت دو دوسرے طرف وہ 200 کیا 500 ووٹ ہونے کو دعوی کرہی ہے، دعوے تو وہ کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں، تاہم ہمارے پاس نمبر پورے ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار عارف حمید بھٹی نے دعوی کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان عمران خان الیکشن مہم میں سب سے آگے ہیں، تحریک عدم اعتماد پر حکومت کے اقدام کے بعد اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکل گئی، سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آئے قبول کرنا ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام "خبر ہے" میں بات کرتے ہوئے تجزیہ کار عارف حمید بھٹی کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد پر پر حکومت کے اقدام اور ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر سپریم کورٹ کی سماعت میں جو بھی فیصلہ عدالت کرے گی، وہ حتمی فیصلہ سب کو قبول کرنا ہو، کسی کو اچھالگے یا برا، کسی کی جرات نہیں کہ اس فیصلے سے انحراف کر جائے۔ تجزیہ کار عارف حمید نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ماضی میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ جو سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے کی بجائے اس پر حملہ کروا دیتے تھے، جج صاحبان کو، وکلاء کو اپنی جان بچانے کے لئے کرسیوں دروازوں کے پیچھے چھپنا پڑا تھا، ہمارے ملک کے ماضی میں اس طرح کے واقعات ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دن بدن حالات مزید خراب ہوتے جارہے ہیں، اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکل گئی، وہ جس جوش و جذبے سے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لئے اٹھے تھے وہ ماند پڑ گیا ہے، وزیراعظم عمران خان نے الیکشن مہم بھی شروع کر دی ہے اور اب وزیراعظم یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح سب کے دماغ میں یہ بات پختہ کر دیں کہ تمام اپوزیشن امریکہ کی غلامی میں چلی گئی ہے جبکہ نجات دہندہ صرف عمران خان ہی ہیں۔ عارف حمید بھٹی کا کہنا تھا کہ اگر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا مان لیا جائے اور اگر تو انہوں نے سازش کی ہے، تو غداری والے معاملے میں ان پر آرٹیکل 5 عائد ہوتا ہے ، تو ایسے لوگوں کو سزا ضرور ملنی چاہیئے، کل کو اگر وہی لوگ حکومت میں آجاتے ہیں تو کیا ہو گا، جو الزامات لگائے گئے ہیں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ان پر تحقیقات تو ضروری ہیں۔ منی لانڈرنگ اور کرپشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہ ہمارے ملک میں کرپشن برائی نہیں ہے، کیونکہ ہمارے تمام لیڈر سیستدانوں پر منی لانڈرنگ کے، کرپشن کے کیسز چل رہے ہیں، اس طرح تو شہباز شریف بھی منی لانڈرنگ کیس کی پیشیاں بھگتا رہے ہیں، ضمانت ان کو ملی ہوئی ہے، کبھی کوئی غریب آدمی ضمانت میں توسیع کروا کے دکھا دے، مقصود چپڑاسی بھی جوابدہ ہے، ہمارے ملک میں کپشن کا نظام بہت منظم ہے، اس کو برائی نہیں سمجھا جاتا بلکہ کسی کو حصہ نہ دین تو وہ غلط ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح تو علیم خان اور چوہدری محمد سرور کی جانب سے عثمان بزدار پر لگائے گئے کرپشن کے الزامات کوئی بھی ثابت نہیں کر سکتا، سٹنگ وزیر اعظم پر الزام لگایا گیا ہے کہ ان کی بیگم کو انتہائی بیش قیمت زیورات دیئے گئے ہیں، جس پر انہوں نے ایک سرکاری افسر کو نکال دیا تھا۔

Back
Top