خبریں

سوشل میڈیا کی خبریں

Threads
2.1K
Messages
18.8K
Threads
2.1K
Messages
18.8K

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
وزیرمملکت فرخ حبیب نے کہا کہ جب حقائق بالکل نہیں بدلے اور کاوے مساوی کا بیان تبدیل ہونا اس کے جھوٹا ثابت ہونے کیلئے کافی ہے۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے بیان میں فرخ حبیب نے کاوے مساوی کے ایک پرانے انٹرویو کا ویڈیو کلپ شیئر کیا جس میں کاوے مساوی کا کہنا تھا کہ اگر آپ نے علی بابا اور چالیس چوروں کی کہانی سنی ہے تو آپ نواز شریف اور آصف علی زرداری کو اسلام آباد کے چالیس چور سمجھیں۔ اپنے اس انٹرویو میں کاوے مساو ی بھٹو اور شریف خاندان کو چوروں کا ٹولہ قرار دیتے ہیں اور کہا کہ زرداری نے ہمیں رشوت دینے کی کوشش کی، ہمارے پاس پاکستان سے چرا کر بیرون ملک لائے گئے اربوں ڈالر کے نشانات ملے ہیں، ہمیں تحقیقات کرتے ابھی ایک سال نہیں ہوا تھا مگر ہمیں کہا گیا کہ نواز شریف کا نام فہرست میں سے نکال دیا جائے۔ فرخ حبیب نے کاوے مساوی کے ماضی کے اس انٹرویو کو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ کاوے موسوی نےکہا تھا کہ نواز شریف کرپٹ اور شریف فیملی نے انھیں رشوت دینے کی کوشش کی تھی اب حقائق کیسے تبدیل ہوگئے؟ انہوں نے مزید کہا کہ آیا ایون فیلڈ فلیٹس برطانیہ سےبلجیئم منتقل ہوگئےیانوازشریف اور اسکے بیٹےامریکہ چلے گئے ہیں۔جب حقائق تبدیل نہیں ہوئےتواس شخص کا بیان تبدیل ہونااسکے جھوٹےہونے کے لئے کافی ہے۔ واضح رہے کہ براڈ شیٹ کمپنی کے سی ای او اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے سابق ایسوسی ایشن کاوے مساوی نے نواز شریف پر کرپشن سے متعلق لگائے گئے الزامات واپس لیتے ہوئے معافی مانگ لی ہے۔ انہوں نےاپنے معافی نامے میں لکھا کہ احتساب کے نام پر نواز شریف کو نشانہ بنائے جانے کی کارروائیوں کا حصہ بننے پر شرمسارہوں، میں اس لیے معافی مانگنا چاہتا ہوں کیونکہ دو دہائیوں میں نواز شریف کے احتساب اور براڈ شیٹ کے فرانزک آڈٹ کے دوران نواز شریف یا ان کے خاندان پر ایک روپے کی کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
معروف پاکستانی اداکار عمران عباس کی وضع قطع سے ملتا جلتا ایک نیا کریکٹر پب جی موبائل نے اپنی گیم میں شامل کیا ہے جس سے متعلق خود عمران عباس نے پوسٹ شیئر کی اور اپنے مداحوں سے پوچھا کہ ان کا کیا خیال ہے۔ تفصیلات کے مطابق پلیئرز ان ناؤن بیٹل گراؤنڈ (پب جی) موبائل نے ایک نئے کریکٹر کو گیم کا حصہ بنایا ہے جس کی شکل اور اس کی اسکن (کپڑے) عمران عباس سے ملتے جلتے ہیں، اس کریکٹر کو دیکھ کر کھلاڑیوں کو بھی لگتا ہے کہ یہ اداکار عمران عباس جیسا کریکٹر ہے۔ خود عمران عباس نے بھی اس سے متعلق ایک ویڈیو انسٹاگرام پر پوسٹ کی اور اس کے کیپشن میں لکھا کہ کسی نے مجھے پب جی کا یہ نیا کردار بھیجا ہے (چونکہ میں اس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا) اس میں چہرہ اور لباس بھی میرے جیسا لگتا ہے آپ لوگ کیا کہتے ہیں؟ CbXlvAYo44e تاہم مداحوں سے رائے مانگنے پر سوشل میڈیا صارفین نے کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا کچھ لوگوں نے کہا ک یہ تو ایک کارٹون ہے اس کا ان کے مقابلہ نہیں، ایک صارف نے کہا کہ ان کا بھائی یہ گیم کھیلتا ہے اور وہ اس سے اس متعلق پوچھ رہی تھیں۔ کچھ صارفین نے ان کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ بالکل صحیح بات ہے یہ انہی جیسا لگتا ہے۔
انٹرنیٹ ٹریفک اب معمول کے مطابق بحال ہے، پی ٹی اے ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس کی معطلی سے متعلق پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے وضاحت دے دی،پی ٹی اے نے بیان میں کہا کہ پاکستان کے چند شہروں میں محدود سطح پر انٹرنیٹ سروسز آدھے گھنٹے تک متاثر رہی۔ پی ٹی اے حکام کے مطابق انٹرنیٹ سروسز متاثر ہونے کی وجہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن اب ملک میں انٹرنیٹ ٹریفک معمول کے مطابق بحال ہوچکی ہے،گزشتہ شب ملک کے کئی شہروں میں انٹرنیٹ سروس متاثر ہے جس کے باعث صارفین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ صارفین نے سوشل میڈیا پر انٹرنیٹ سروس کی سست روی کے حوالےسے بتایا، جس کے بعد فوری طور پر تو پی ٹی اے کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا، پی ٹی اے نے اب اپنا موقف پیش کردیا ہے۔
ملکی سیاست میں ہلچل مچی ہوئی ہے، ایسے میں سینئرتجزیہ کار نجم سیٹھی کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کیلئے یہ الفاظ کے عمران خان استعفیٰ دیدیں ورنہ انہیں جوتیاں مارکر نکالاجائےگا، اس صحافی برادری میں غصے کی لہر دوڑ گئی، صحافیوں کی جانب سے نجم سیٹھی کے بیان کی مذمت کی جارہی ہے۔ عامرمتین نے ٹویٹ کیا کہ سیٹھی صاب وہ آدمی ہیں جس نے فاروق لغاری کو بینظیر کی حکومت توڑنے پرقائل کیا، پھر یہ احتساب کے پہلے مامے بنے اور انُکا اصرار تھا کہ دو سال تک قومی حکومت بنا کر خونی احتساب ہو۔ اب یہ جمہوریت کے مامے ہیں۔ یہی پاکستان کی کہانی ہے۔ لوگ بھول جاتے ہیں انہوں نے ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ پھر آپ پرویز مشرف کی روشن خیالی کے مامے بن گئے۔ اور سافما کے غول لے کر صحافیوں کی پوری نسل کو گمراہ کیا۔ اب آپ پھر بیرونی دوستوں کے ایجنڈے پر جمہوریت کے مامے بن گئے ہیں۔ آخر آپ کیا چاہتے ہیں؟ عامر متین نے ایک اور ٹویٹ میں تنقید کی کہ ان کی بیگم جگنو محسن نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا اس امید پر کے ان کو کچھ ملے گا۔ مگر عمران خان اتنا بے لحاظ آدمی ہے کہ اس نے انُکو کچھ نہیں دیا سو اب یہ شکایت پر آُگئے ہیں۔ عمران ایک نالائق وزیراعظم ہوگا مگر آپ کے گلے اور ہیں، جوتیاں تو آپُکو نواز نے بھی ماری تھیں۔ عمران ریاض خان نے زیادہ تبصرہ کرنے کے بجائے سوال کیا اتنا غصہ؟ اویس منگل والا نے نے ٹویٹ پرلکھا کہ شہباز گل کی زبان بھی غلط تھی اور یہ بھی غلط ہے. ایسے تو بہت سارے میڈیا والوں کو بھی چینل سے ہٹا دینا چاہئے ورنہ انہیں۔ نجم سیٹھی نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں وزیراعظم عمران خان پر خوب تنقید کی تھی، انہوں نے وزیراعظم عمران خان استعفیٰ دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ ورنہ انہیں جوتیاں مارکر نکالاجائےگا۔ نجم سیٹھی نے کہاتھا کہ تحریک عدم کامیاب ہوچکی ہے، اور خان صاحب اس وقت آئین کی دھجیاں اڑانے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن اب کوئی فائدہ نہیں پاکستان کے عوام پہلے ہی ان کے خلاف ہیں،اسٹیبلشمنٹ دور ہوچکی ہے اور ان کے نمائندے بھی ان سے بغاوت کرچکے ہیں،اسلئے بہتر ہے خان صاحب خود استعفی دے دیں،نہیں تو آخر میں ان کی بے عزتی بھی ہوگی ان کو جوتوں کے ساتھ نکالا جائے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اعلان کردیا کہ عمران خان کے بعد ملک کا نیا وزیراعظم مسلم لیگ ن سے ہو گا،جیو نیوز کے پروگرام آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے واضح کیا کہ پیپلز پارٹی اپنا امیدوار نہیں لائے گی۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے واضح کیا کہ قومی حکومت شہباز شریف کی تجویز ہے، اس پر دیگر جماعتوں سے بات نہیں ہوئی جبکہ مائنس عمران کی تجویز حکومت کی اتحادی جماعتوں اور ان کے ایم این اے نے دی، اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ عمران خان ہے۔ بلاول بھٹو نےکہا کہ عمران خان نے آئندہ الیکشن میں دھاندلی کے لیے اصلاحات کرائی ہیں، ہم ان اصلاحات کو تبدیل کر کے صاف و شفاف الیکشن کرائیں گے، ہارس ٹریڈنگ کے سوال پر بلاول نے کہا کہ کیا ہم مسلم لیگ ن کا وزیراعظم لانے کے لیے پیسے استعمال کر رہے ہیں؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو ایک دوسرے پر بھروسہ ہے، عدم اعتماد کا انجام جو بھی ہو ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر کام کریں گے،گزشتہ روز تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی اور کارکنوں کی جانب سے سندھ ہاؤس اسلام آباد پر حملے کے معاملے پر بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ عمران خان نے سندھ پر لشکر کشی کرواکر اپنا اصل بغض ظاہر کردیا، ہم قانون کو ہاتھ میں لینے والے لوگ نہیں تاہم جانتےہیں سرکش عناصر سے کیسے نمٹا جاتا ہے۔؎ دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی یا توسیع کا فیصلہ ملک وقوم کے مفاد میں کریں گے،میرے ہر آرمی چیف کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں، اسلام آباد اور پنڈی کے درمیان ہمیشہ پُل کا کردار ادا کیا، یہ تعلقات ہمیشہ ملک وقوم کے مفاد میں رہے ہیں۔
ملک بھر میں ہارس ٹریڈنگ کی گونج جاری ہے، لیکن اب کہا جارہاہے کہ پی ٹی آئی ممبران کی خریداری پر ن لیگ میں انتشار پیدا ہوگیا ہے،ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے ضمیر فروشوں کو خریدنے کے معاملے پر مسلم لیگ ن اندرونی انتشار کا شکار ہوگئی ہے اورکئی سوالات اٹھنے لگے ہیں جسکے باعث ن لیگ کی مرکزی قیادت نے آج ہونیوالا پارٹی کا جنرل کونسل کا اجلاس ملتوی کردیا،مسلم لیگ ن کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس آج ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کے فارم ہاؤس پر منعقد ہونا تھا، ذرائع نے بتایا کہ مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے وفاداروں کی جگہ ضمیر فروشوں کو سے ٹکٹ دینے کے وعدے پر لیگی اراکین نے تشویش کا اظہار کیا اور لوگ اپنے ہم خیال لوگوں سے اس کا کھل کر اظہار کررہے ہیں،مرکزی قیادت نے ان ہی سوالوں اور کارکنوں کے ممکنہ ردعمل سے بچنے کیلیے اجلاس کو ملتوی کردیا ہے اور اس کی اطلاع متعلقہ رہنماؤں کو بھی دے دی گئی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت کو یہ خوف ہے کہ اجلاس میں اس حوالے سے جو سوالات کیے جائیں گے ان کے پاس ان سوالات کے جوابات نہیں ہوں گے، کیونکہ اس سے قبل بھی سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے ساتھیوں کو پارٹی میں لینے پر ن لیگ کے دیرینہ کارکنوں نے سوالات اٹھائے تھے تو اب کیسے ممکن تھا کہ اس پر کارکنوں کا کوئی ردعمل نہ آئے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے رہنما طارق فضل نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی نے جنرل کونسل اجلاس وکنونشن منسوخ کیاہے، جس کی اگلی تاریخ کااعلان بعدمیں کیاجائیگا،اس سے قبل اطلاعات تھیں کہ پی ٹی آئی ایم این اے ملک نواب شیر وسیر کو نواز شریف نے خود آئندہ الیکشن میں ٹکٹ کی گارنٹی دی۔ اے آر وائی نیوز نے پی ٹی آئی ایم این اے ملک نواب شیر وسیر کی ن لیگ سے ڈیل سے متعلق پتہ لگایا تھا،ذرائع کا کہنا تھا کہ نواب شیر وسیر کو آئندہ الیکشن میں ٹکٹ کی گارنٹی دی گئی،رانا ثنااللہ نے اس ڈیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے منحرف رہنما راجہ ریاض کی مبینہ آڈیو کال لیک ہو گئی، ووٹر نے پی ٹی آئی کے منحرف رکن اسمبلی راجہ ریاض کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کے منحرف رکن اسمبلی راجہ ریاض سندھ ہاؤس میں موجود ہیں، گزشتہ روز ان کا کہنا تھا کہ ہم عدم اعتماد کا ووٹ ڈال کر استعفیٰ دیں گے، تاہم اب ان کی مبینہ آڈیو لیک ہو گئی ہے جس میں ووٹر کی جانب سے ان کو پارٹی کا ساتھ نہ دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ سوشل میڈ یا پر سامنے آنے والی کال میں سنا جا سکتا ہے کہ راجہ ریاض کے حلقے کا ایک ووٹر ان سے سندھ ہاوس جا کر بیٹھنے پر اعتراض کر رہا ہے ۔مبینہ کال کے دوران حبیب اللہ نامی شخص نے راجہ ریاض سے کہا کہ میڈ یا پر آپ کی تصویریں دیکھ کر پریشان ہو گئے ہیں۔راجہ ریاض کی جانب سے وجہ دریافت کرنے پر حبیب اللہ نے کہا کہ ہم نے ووٹ عمران خان کو دیا اور آپ جا کر سندھ ہاوس بیٹھے ہوئے ہیں، ہم نے آپ کو اس لیے ووٹ نہیں دیا تھا کہ آپ ہمارا ووٹ زرداری کو بیچ دیں۔راجہ ریاض نے کہا کہ ہم تین سال تک حکومت کی منتیں کرتے رہے لیکن ہمارا کوئی کام نہیں ہو رہا تھا جس پر حبیب اللہ نے کہا کہ پھر آپ استعفیٰ دے دیتے جس پر راجہ ریا ض نے کہا کہ استعفیٰ بھی دے دوں گا۔ اس پر ووٹر نے کہا کہ آپ عدم اعتماد سے پہلے استعفیٰ دیں لوگ ہمیں برا بھلا کہہ رہے ہیں، آپ آج ہی استعفیٰ دیں۔ دوسری جانب معروف اینکر پرسن کامران خان نے جہانگیر ترین سے پاکستان سے بدلہ نہ لینے کی درخواست کردی، کہتے ہیں جہانگیر ترین صاحب عمران خان نے آپ سے بڑی زیادتی کی، براہ مہربانی بدلہ پاکستان سے نہیں لیجیئے گا۔ انہوں نے اپنی ٹوئٹر پوسٹ میں راجہ ریاض کی مبینہ آڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی منحرف راجہ ریاض سے فیصل آباد کے اس قابل فخر پاکستانی کی گفتگو میرے پاکستان پر اعتماد میں کئ گنا اضافہ کرگئی کب تک نوٹ کی چوٹ پر یا کسی گارنٹی پر قلابازیوں کا یہ سرکس جاری رہے گا جہانگیر ترین صاحب عمران خان نے آپ سے بڑی زیادتی کی بدلہ پاکستان سے نہیں لیجیئے گا پلیز۔
ملک میں نمبرگیمز پورے کرنے کا گیم جاری ہے، اپوزیشن اور حکومت اپنے نمبرز پورے ہونے پر پراعتماد ہیں، جیونیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ میں سینیئر صحافی سلیم صافی سے اس حوالے سے گفتگو کی گئی،سلیم صافی نے کہا کہ جہاں تک میری معلومات ہے اپوزیشن کامعاملہ جیسے وہ چاہتے ہیں ویسے ہی چل رہاہے۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے سوال کیا کہ حکومت سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا کہہ دیا، ایسی صورت میں جب نااہل کیا جاسکتا ہے کیا ایم این ایز کھڑے رہیں گے؟ سلیم صافی نے کہا اس کے بعد تو تعداد مزید بڑھ گئی ہے،اپوزیشن کی تینوں جماعتوں سے مزید لوگوں نے رابطے کئے ہیں،اسلئے مجھے نہیں یہ خوف ایم این ایز کو واپسی پرمجبور کرے گا۔ سلیم صافی نے کہا کہ اپوزیشن کے مسلم ق لیگ سے معاملات طے ہو چکے ہیں ، پرویز الہی کو وزیر اعلی بنایا جائے گا ، زرداری اور فضل الرحمان گارنٹر ہیں،ایم کیو ایم کے ساتھ بھی زرداری صاحب کے معاملات طے ہوچکے ہیں، ان کی قیادت کراچی واپس آکرمعاملات کو عملی شکل دے دی، ان معاملات میں شہباز شریف اور مولانا گارنٹر ہیں۔ سلیم صافی نے واضح کیا کہ معاملات اتنے آگے جاچکے ہیں کہ اب واپسی کا سوال نہیں،میزبان نے کہا کہ ایسا بھی ہوسکتا معاملہ پارلمنٹ تک نہ جائے، کیونکہ حکومت کہہ چکی ہے،اور اپوزیشن بھی کہہ چکی ہے دگنے افراد لانے کا تو کہیں آپس میں تصادم نہ ہوجائے، تو بات کیا پارلیمنٹ تک جائے گی؟ سلیم صافی نے کہا کہ اس طرح صورتحال عمران خان کے لئے مزید خطرناک ہوسکتی ہے،عمران خان کی ڈیمانڈ یہ ہی کہ ان کو بچانے کیلئے اسی طرح کی مداخلت کی جائے جس طرح کی ماضی میں کی گئی تھی،جبکہ عمران خان کو جواب ملا ہے کہ ادارے صرف اپنا آئینی کردار ادا کرینگے۔ سلیم صافی نے کہا کہ عمران خان جو صورتحال بنارہے ہیں،اور اس کو مارچ امر بالمعروف کا نام دے رہے ہیں،تو اپوزیشن اپنے مارچ کو نہی عن المنکر کا نام دے سکتی ہے،اور مولانا فضل الرحمان اور ان کے لوگ ان معاملوں میں پی ٹی آئی سے دو قدم آگے ہیں،تو مجھے نہیں لگتا عدلیہ اور دیگر ریاستی ادارے اسلام آباد میں اس طرح کا میدان سجنے دیں گے، مارچ ہونے پر ملک کا نقصان تو ہوگا ہی عمران خان کا بھی ہوگا،ہرصورت میں نقصان عمران خان کا ہوگا۔
وزیراعظم عمران خان نے امریکا اور مغرب کو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ غلامی نہیں کرینگے، اس بیان سے دنیا بھرمیں ہلچل مچی ہوئی ہےترجمان وائٹ ہاؤس نے بھی ردعمل دینے سے انکار کردیا۔ پریس بریفنگ کےدوران صحافی کےسوال پرترجمان وائٹ ہاؤس جین ساکی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں، سفارتی ذرائع سے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو جاری رکھیں گے۔ امریکی صدر، وزیراعظم عمران خان کی ٹیلی فون کال کی درخواست کیوں نہیں لے رہے کے سوال پر ترجمان وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ ان کے پاس فون کال کی درخواست کے حوالے سے تفصیلات نہیں ہیں۔ وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف کے حوالے سے ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں معید یوسف کی جانب سے شکایت کی گئی تھی کہ امریکی صدر نے افغانستان کے معاملے پر وزیراعظم عمران خان کو فون تک نہیں کیا،بعد میں معید یوسف نے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے اس قسم کی کوئی شکایت نہیں کی۔
پی ٹی آئی کے منحرف اراکین نے وزیراعظم عمران خان پر تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے دباؤ بڑھادیا ہے، پی ٹی آئی نے منحرف اراکین کے لئے حکمت عملی بھی تیار کرلی ہے، لیکن جیو نیوز کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں بینظیر شاہ، اطہر کاظمی، حفیظ اللہ نیازی اور مظہر عباس کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو اصولاً منحرف اراکین کو واپس نہیں لینا چاہئے۔ تجزیہ کاروں نے کہا کہ عمران خان اصولوں کی سیاست کرنا چاہتے ہیں تو منحرف اراکین کو سیاسی طور پر شکست دیں،پی ٹی آئی باغی اراکین کو واپس لانے میں کامیاب نہیں ہوگی،حکومت نے سندھ ہاؤس پر حملہ کر کے پیغام دیا کہ کچھ بھی ہوجائے ہم ووٹنگ نہیں ہونے دیں گے۔ میزبان علینہ فاروق شیخ نےسوال کیا پی ٹی آئی کسی بھی صورت میں باغی ارکان کو واپس لانے میں کامیاب ہوجائے گی؟ جس کا جواب دیتے ہوئے بینظیر شاہ نے کہا کہ سندھ ہاؤس پر حملہ اور پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کیخلاف جس طرح کی زبان استعمال کی جارہی ہے کون اس سیاسی جماعت میں رہنا چاہے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت میں موجود سیاسی جماعت آئین و قانون کو ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہے، حکومت نے سندھ ہاؤس پر حملہ کر کے پیغام دیا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے ہم ووٹنگ نہیں ہونے دیں گے۔ اطہر کاظمی کا کہنا تھا کہ تہذیب کے دائرے میں رہ کر احتجاج کرنا ہر کسی کا حق ہے ، سندھ ہاؤس میں بیٹھے ضمیر فروشوں پر بات ہونی چاہئے ،ہماری جمہوریت اب یہی رہ گئی ہے کہ ووٹ بیچ کر ٹی وی پر انٹرویو دیں گے۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے آج پھر سیاسی کمیٹی کی اہم بیٹھک بلالی ہے، منحرف اراکین سے متعلق ریفرنس پر مشاورت ہوگی،سندھ ہاؤس میں ہونے والے واقعے پر بھی تبادلہ خیال اور قومی اسمبلی اجلاس سے متعلق امور پر غور کیا جائے گا۔
اقوام متحدہ کی جانب سے خوشحال ترین ممالک کی فہرست جاری کر دی گئی، جبکہ پاکستان اس دوڑ میں بھارت پر سبقت لے گیا۔ تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سب سے خوش ترین ممالک کی فہرست میں اس سال بھی فن لینڈ پہلے نمبر پر ہے جب کہ افغانستان سب سے آخری نمبر پر ہے۔ ڈنمارک، آئس لینڈ سوئٹزرلینڈ اور ہالینڈ بالتریب دوم سے پانچویں نمبر پر ہیں۔ اس سال سربیا، بلغاریہ اور رومانیہ نے بھی اپنا درجہ بلند کیا ہے تاہم لبنان معاشی بدحالی کے باعث خوش ترین ممالک کی فہرست میں افغانستان سے ایک نمبر پہلے یعنی 145 پر آگیا۔ دوسری جانب پاکستان نے خوشحالی کے لحاظ سے اپنے پڑوسی ملک بھارت کو ایک بار پھر پیچھے چھوڑ دیا ہے، پاکستان کا نمبر 121واں ہے جبکہ بھارت اس فہرست میں 136 نمبر پر موجود ہے، دیگر ایشیائی ممالک میں بنگلادیش 99 ویں نمبر پر ہے۔ خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے ہر سال خوش ترین ممالک کی فہرست جاری کی جاتی ہے گزشتہ سال پاکستان 105 جبکہ بھارت 139 ویں نمبر پر تھا۔
تیئیس مارچ کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں، اس حوالے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے 23 مارچ کی مناسبت سے ملی نغمہ "شاد رہے پاکستان" ریلیز کردیا،ڈی جی آئی ایس پی آر کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جاری ملی نغمہ "شاد رہے پاکستان" 4 منٹ پر محیط ہے۔ نغمے میں ملکی افواج کے علاوہ کراچی سے لیکر خیبر تک پاکستان کے خوبصورت شہردوں، نیلگوں سمندر، کھیت کھلیانوں، پہاڑی سلسلوں اور برف پوش پہاڑوں کو دکھایا گیا،ملی نغمے میں شجاع حیدر اور یشال شاہد نے آواز کا جادو جگایا ہے، جبکہ اس کے ڈائریکٹر یاسر جسوال ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے سوشل میڈیا پر لکھا گیا کہ ملی نغمہ "شاد رہے پاکستان" قوم کے عزم کا اظہار ہے، ملی نغمہ قوم کو خوشحالی کے راستے پر اتحاد اور ثابت قدمی کی ترغیب دیتا ہے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ یہ گیت اس ارضِ پاک کے نام ایک ایسی دعا ہے جو ہر پاکستانی کے دل کی آواز بن کر اعلان کر رہا ہے کہ شاد تھا، شاد ہے اور شاد رہے یہ پاکستان،آئی ایس پی آر نے بتایا کہ یہ گیت شاندار ماضی، پرعزم حال اور خوشحال مستقبل جیسی نیک تمناؤں کا مظہر ہے۔ پاکستان کے معروف کمپوزر شجا ع حیدر نے اس گیت کو نا صرف لکھا بلکہ اس کی خوبصورت دُھن بھی ترتیب دی ہے۔ یشل شاہد اور شجاع حیدر کی بہترین آوازوں میں اس گانے کو بھرپور پذیرائی مل رہی ہے۔
ارشاد بھٹی نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بحیثیت پاکستانی شرم آ رہی ہے، ان کا کہنا تھا کہ ووٹ کو عزت دو اور جمہوریت بچانے کے نعرے مارنے والے بتائی کہ کیا کچھ بھی کرکے عمران خان کو گھر بھیجنا ہی جمہوریت اور ووٹ کو عزت دو ہے؟ تجزیہ کار نے کہا کہ جو ہو رہا ہے اس پر حق بنتا ہے کہ ان تحریک انصاف کے ارکان کو جلوس کی شکل میں شاہراہ دستور پر لیجایا جائے اور ان کے پیچھے جیئے بھٹو، یہ ہے بی بی کا مشن، یہ ہے بلاول بھٹو کی جمہوریت اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے مارنے چاہییں۔ انہوں نے کہا کہ جب 2018 میں یہ دھڑا دھڑ آ رہے تھے تو روتے تھے کہ ساتھ ملایا جائے کہا جاتا تھا کہ لوگوں کو توڑا جا رہا ہے، مجھے لگتا ہے کہ ان لوگوں نے پیٹریاٹ گروپ اور چھانگا مانگا کی سیاست سے کچھ نہیں سیکھا۔ میزبان نے کہا کہ تب عمران خان کو اعتراض نہیں تھا تو آج کیوں اعتراض ہے؟ ارشاد بھٹی نے اس سوال پر کہا کہ وہ عمران خان کے ترجمان نہیں ہیں بلکہ خود ذاتی حیثیت میں بطور ایک پاکستانی بات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں نے اتنے جلسے اور جلوس نکالے وہ سب کہاں گیا، ان بکنے والے ارکان کی مورتیاں بنا کر پاکستان میں جگہ جگہ لگانی چاہییں تاکہ پتہ چلے یہ ہیں وہ لوگ، یہ سب جدوجہد اس دن کیلئے کی جا رہی تھی؟ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ آئین پاکستان کی بات کرتے ہیں ذرا یہ تو بتائیں کہ آئیں اصول منطق اور اخلاقیات کے بغیر آئین رہتا ہے؟ اگر رہتا ہے تو ایسے آئین کی مجھے ضرورت نہیں ہے۔ ایسی جمہوریت اور پارلیمنٹ کا میں نے کیا کرنا ہے جو لوٹوں سے بھری ہوئی ہو۔
وفاقی حکومت نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی خبر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے ٹوئٹر پر دی۔ انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت آرٹیکل 186 کے تحت 63 اے کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے جا رہی ہے۔ وزیراطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ ‏حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ آرٹیکل 63-A کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ میں آرٹیکل 186 کے تحت ریفرنس فائل کیا جائیگا۔ فواد چوہدری نے کہا کہ سپریم کورٹ سے رائے مانگی جائیگی کہ جب ایک پارٹی کے ممبران واضح طور پر ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہوں اور پیسوں کے بدلے وفاداریاں تبدیل کریں تو ان کے ووٹ کی قانونی حیثیت کیا ہے۔ وزیراطلاعات نے کہا کہ کیا ایسے ممبران جو اپنی وفاداریاں معاشی مفادات کے باعث تبدیل کریں ان کی نااہلیت زندگی بھر ہو گی یا انہیں دوبارہ انتخاب لڑنے کی اجازت ہو گی؟ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ سے درخواست کی جائیگی کہ اس ریفرنس کو روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ سنایا جائے۔ یاد رہے کہ رکن اسمبلی کا اپنی جماعت کو چھوڑ کر دوسری جماعت کو ووٹ دینا فلور کراسنگ ہوتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت اس رکن کے خلاف انضباطی کارروائی ہو سکتی ہے۔ تاہم اس حوالے سے مختلف دعوے کیے جا رہے ہیں کہ یہ کارروائی ووٹ دینے کے بعد ہو گی یا پہلے؟
سینئر صحافی و اینکر پرسن حامد میر نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت کو اندزاہ نہیں، انہیں پتا ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے ، کون کون ان کے ساتھ ہے اور کون نہیں۔ انہوں نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام جیو پاکستان میں بتایا کہ آنے والے دنوں میں ایسے پی ٹی آئی ایم این ایز کے نام سامنے لاؤں گا جو پرویز الٰہی سے ڈیل کر چکے ہیں کہ عمران خان کا ساتھ چھوڑیں گے تو (ق) لیگ اگلے الیکشن کیلئے ٹکٹ دے۔ حامد میر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے بہت سے ممبران قومی اسمبلی اب سندھ ہاؤس میں نہیں وہ کسی اور جگہ پر ہیں، وہ عمران خان کے خلاف ہیں، میں کوشش کررہا تھا کہ وہ بھی کیمرے پر بات کرلیں لیکن وہ تیار نہیں ہو رہے، کیونکہ وہ خوفزدہ نظر آرہے تھے۔ سینئر صحافی نے یہ بھی کہا ہے کہ لگ رہا ہے اس بار جو سندھ ہاؤس، چک شہزاد اور ٹیکسلا میں بیٹھے ہیں انہوں نے پیسے کی بجائے بارگین کی ہے کہ وہ اگلے الیکشن میں (ن) لیگ، پی پی، (ق) لیگ اور جے یو آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اسپیکر شروع میں ہی اجلاس بلا لیتے تو میری اطلاع کے مطابق پی ٹی آئی کے باغی ارکان کی تعداد 16 سے اوپر نہ جاتی۔ مگر اب زیادہ ہے، عمران خان کی مخالفین کے خلاف زبان کے بعد ان کے وزرا اندر کچھ اور باہر کچھ کہہ رہے تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وزرا نے پی پی اور (ن) لیگ سے رابطے شروع کردیے ہیں، اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ (ن) لیگ بھر چکی ہے، انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ کتنے لوگ ایڈجسٹ کریں جبکہ پنجاب سے کچھ لوگوں نے (ق) لیگ سے رابطہ کرلیا، کراچی والے پی پی کی طرف جارہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے وزرا (ن) لیگ میں آنا چاہ رہے ہیں اس کے لیے (ن) لیگ کو قربانی دینا پڑے گی۔
اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی یاناکام اس کا فیصلہ تو جلد ہوجائے گا لیکن اس سے قبل نمبر گیمز کی جنگ جاری ہے، اور اب وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک اعتماد میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 20 اراکین قومی اسمبلی کا کردار انتہائی اہم ہوگیا ہے۔ قومی اسمبلی کے 343کے ایوان میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 20 اراکین ویسے تو اعداد و شمار کے حساب سے آٹے میں نمک کے برابر ہیں لیکن کبھی بھی صورتحال غیرمعمولی ہوسکتی ہے، جس سے ان اراکین کی اہمیت حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں کیلئے اہمیت اختیار کرجائیں گے۔ شہراقتدار میں اقتدار کی جنگ کیلئے ایسی ہی سیاسی گہما گہمی دیکھنے میں آرہی ہے، جہاں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے یہ بیس اراکین ایک دم عام سے خاص ہوچکے ہیں،دوسری جانب جمعیت علما اسلام ف اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے 10 اراکین پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے 3 اراکین اپنی جماعت کے ساتھ ہیں ،جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے 5 اراکین،جے ڈبلیو پی کا ایک اور ایک آزاد رکن قومی اسمبلی کا ووٹ فیصلہ کن ہو گا۔ دوسری جانب سندھ ہاؤس میں پولیس گردی کا معاملہ بھی زور پکڑ رہاہے،حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما راجہ ریاض کا کہنا ہے کہ حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے دو درجن ارکانِ قومی اسمبلی اس وقت اسلام آباد میں واقع سندھ ہاؤس میں موجود ہیں اور ان کے یہاں آنے کی وجہ پارلیمنٹ لاجز پر حملے کے بعد پیدا ہونے والے سیکیورٹی خدشات تھے۔ ادھر سابق وزرائے اعظم یوسف ر ضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف اور شاہد خاقان عباسی کہہ چکے ہیں کہ سندھ ہاؤس میں پولیس گردی ہوئی تو ذمہ دار وزیراعظم عمران خان اور وزیرداخلہ شیخ رشید ہونگے،مشترکہ بیان میں دونوں نے کہا کہ سیکریٹری داخلہ ، پولیس اور انتظامیہ کسی سیاسی عمل کا حصہ نہ بنیں، ارکان قومی اسمبلی کے خلاف پولیس گردی پارلیمنٹ پر حملہ تصور ہوگا۔
صوبے سندھ میں حکومت کی جانب سے گورنر راج کی صدائیں اٹھنے لگیں، لیکن وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے گورنر راج کی مخالفت کردی، وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اپنے بیان میں کہا کہ کراچی میں گورنر راج کی تجویز کے حق میں نہیں ہوں، آج وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت پولیٹیکل کمیٹی کا اجلاس ہے میں ماضی کے تجربات کی روشنی میں وہاں بھی اپنا نقطہ نظر پیش کروں گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ ہاؤس میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ میثاق جمہوریت کی روح کے منافی ہے، پارلیمنٹ کے محافظوں کے ہاتھوں اگر پارلیمنٹ کو نقصان پہنچے تو یہی کہا جائے گا کہ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے،ہر ممبر باوقار لوگوں کا چنا ہوا ہے اور وہ اپنے ضمیر کے مطابق اپنے فیصلے کرنے کا پابند ہے، شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ان توقعات کو ذہن میں رکھنا ہو گا جو حلقے کی عوام نے منتخب کرتے ہوئے، آپ سے وابستہ کیں، آج نوے کی سیاست کو دہرایا جا رہا ہے، اسی طرز سیاست کے خلاف میثاق جمہوریت لایا گیا تھا، میثاق جمہوریت میں کچھ اصول طے کیے گئے تھے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ حکمرانوں کو آئین و قانون کی پرواہ نہیں،اقتدار بچانے کے لئے ہر ہتھکنڈا اپنایا جارہا ہے،سندھ میں گورنر راج لگانے کی دھمکی دے رہے ہیں،وزیراعظم دھمکا رہا پارلیمان میں نہیں جانے دونگا،اسپیکر قومی اسمبلی جاننے لیں وہ آئین سے بالاتر نہیں ہیں،جمہوریت توڑنے پر آرٹیکل چھ لگتا ہے۔ کراچی انصاف ہاوس میں پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی کی پریس کانفرنس میں اراکین نے کہا تھا کہ ہم وزیر اعظم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سندھ میں فوری گورنر راج لگایا جائے، گورنر راج آئین کا آرٹیکل 234 یعنی صوبائی حکومت غیر فعال ہوگی تو تمام اختیارات گورنر کے پاس ہونگے۔
بھارت کو کشمیر اور پاکستان کے معاملے پر سبکی کا سامنا ہی کرنا پڑتا ہے، اس بار بھی بھارت نے منہ کی کھائی،پاکستان نے اسلامی تعاون تنظیم میں کشمیری قیادت کو دعوت پر بھارتی اعتراض مسترد کر دیا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے واضح طور پر کشمیری قیادت کو دعوت پر بھارتی اعتراض مسترد کرتے ہیں،اجلاس میں او آئی سی کی جانب سے کشمیری لیڈر شپ کو دعوت نامہ جاری کیا گیا،او آئی سی نے روایتی طور پر کشمیری قیادت کو شرکت کی دعوت دی، بھارت سے کہتے ہیں کہ او آئی سی کانفرنس میں رکاوٹیں ڈالنا بند کرے۔ دفتر خارجہ نے کہا کہ بھارت کے پاس مقبوضہ کشمیر کو اندرونی معاملہ قرار دینے کا جواز نہیں، مقبوضی جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل کی متعدد قراردادیں ہیں،بھارتی واویلا جموں و کشمیر پر غیر قانونی قبضے کو درست ثابت نہیں کر سکتا، او آئی سی نے ہمیشہ کشمیری عوام کی جدوجہد کی حمایت کی ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن کی وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے باعث ذرائع کا کہنا تھا کہ او آئی سی اجلاس میں وفد شرکت کرے گا،برادر ملک کی جانب سے پیغام بھجوا دیا ہے کہ ایسے حالات میں برادر ملک کے سربراہ نہیں آسکتے، ان حالات میں برادر ملک کے وزیر کی سربراہی میں وفد پاکستان آئے گا۔ اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس 22 اور 23 مارچ کو اسلام آباد میں منعقد ہوگا، جس میں 48 ممبر ممالک کے وزرا شرکت کریں گے۔
تحریک عدم اعتماد کامیاب ناکام بنانے کیلئے ووٹ ڈالنے سے روکنے یا تحریک کامیاب ہونے کے بعد کیا کارروائی ہوگی،جی این این کے پروگرام خبر ہے میں ماہر قانون اور رہنما پیپلز پارٹی اعتزاز احسن سے اس حوالے سے طویل گفتگو کی گئی،ان سے پوچھا گیا کہ کسی رکن کو ووٹ ڈالنے سے روکنا کریمنل ایکٹ ہے، جرم ہے ایف آئی آر ہو سکتی ہے؟ جس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ ایک ووٹر یا ایم این اے جسے قومی اسمبلی جاکر ووٹ ڈالنا ہے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ اعتزاز احسن نے مزید واضح کیا کی قومی اسمبلی میں ووٹ دینے کیلئے نہ اسپیکر روک سکتا نہ ہی کوئی آفیشل روک سکتا، یہ جو چل رہا ہے کہ روک لیںگے،ایسا کرنا کرمنل ایکٹ کے تحت جرم ہے،روکنے پر فوجداری مقدمہ ہوگا، چاہے پارلیمنٹ کے اندر کی کارروائی کا ہو۔ ماہرقانون نے کہا کہ انہوں نے واضح کیا کہ اگر پارلیمنٹ کے اندر کسی کو گولی مار دی جائے تو وہ پارلیمنٹ کی کارروائی کا حصہ نہیں ہوگا اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے،اسی طرح اگر کسی بھی رکن قومی اسمبلی کو اسپیکر یا کوئی بھی ووٹ ڈالنے سے نہیں روک سکتا،جس نے روکا اس کے خلاف باقاعدہ ایف آئی آر درج ہوگی۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ دوسری بات یہ کہ جب تک ایم این اے ووٹ ڈال نہیں دیتا حکومت کیخلاف اس کا ووٹ کاؤنٹ ہوجائے،جس کے بعد پارٹی پھر اسے شوکاز نوٹس جاری کرے گی،پھر وہ نوٹس کا جواب دے گا کہ کس وجہ سے اس نے خلاف ووٹ دیا، پھر پارٹی اسے نااہل قرار دینے کیلئے الیکشن کمیشن کو نوٹس بھیجے گی،پھر الیکشن کمیشن میں سماعت ہوگی اس ایم این اے کو بلایا جائے گا، ٹرائل ہوگا اس کے بعد الیکشن کمیشن دس پندرہ دن بعد نااہل قرار دے گی،اس دن سے وہ ایم این اے نہیں رہے گا۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ جب تک الیکشن کمیشن ایم این اے کے خلاف حتمی فیصلہ نہیں دیتا وہ ووٹ ڈال سکتا ہے کیونکہ وہ ایم این ہوگا،عارف حمید بھٹی کے اس سوال پر کہ اگر وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے توکیا عمران خان اس دن سے وزیراعظم نہیں رہیں گے؟ مزید کیاکارروائی ہوگی؟میزبان نے مزید کہا کہ کیا اسی سیشن میں نیا وزیراعظم منتخب کیا جاسکتا ہے؟ اعتزاز احسن نے بتایا کہ اسی سیشن میں نیا وزیراعظم منتخب نہیں کیا جاسکتا، اسی سیشن میں نئے وزیراعظم کے لئے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری ہوگا، جسے نیا وزیراعظم بنانا ہوگا اس کیلئے باقاعدہ ایجنڈا تیار ہوگا، پھر نیا وزیراعظم بنایا جائے گا۔ میزبان نے پوچھا کہ آرٹیکل 94کے تحت صدر پابند ہے کسی خاص وقت تک اجلاس بلائیں ،یا جب تک نیا وزیراعظم نہیں آتا تو پرانے وزیراعظم ہی رہیں گے؟ اعزاز احسن نے جواب دیا کہ اگر صدر پرانے وزیراعظم کو رہنے کا کہتے ہیں تو وہ ہی رہیں گے،یہ صدر کا اختیار ہے،پھر وہ اسی طرح سے اختیارات کے ساتھ وزیراعظم رہیں گے،صدر اس بات کا پابند نہیں کہ وہ تین دن کے اندر اندر اجلاس بلائے،یا نیا وزیراعظم منتخب کرائے۔ عارف حمید بھٹی نے مزید کہا کہ یہ بہت اہم پوائنٹ ہے کہ صدر کے پاس اختیار ہے کہ تحریک کامیاب ہونے بعد بھی وزیراعظم کو رکھیں اور دو مہینے تک اجلاس ہی نہ بلائیں، جس پر اعتزاز احسن نے واضح کیا کہ اتنے وقت تک تو ریکوزیشن بھی نہیں ہوتی،اگر صدر اجلاس نہیں بلاتے تو پھر ریکوزیشن دی جائے گی کہ ہاؤس کا اجلاس بلایا جائے،ہاؤس چودہ روز کے اندر اندر اجلاس بلانے کا پابند ہے،جس میں صدر کے مواخذے کا ایجنڈا ہوگا،پھر اکثریت سے صدر کا مواخذہ ہوگا۔ میزبان نے سوال کیا کہ جب وزیراعظم سیٹ سے ہٹ جائیں گے تو ان کے پاس کون سے اختیارات ہونگے کون سے نہیں؟ اعتزاز احسن نے بتایا کہ ان کے پاس اختیارات تو ہونگے لیکن نگران والے ہونگے،نگران وزیراعظم کی سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت اختیارات بہت محدود ہیں، وہ بڑے فیصلے نہیں کرسکتے،کوئی قانون کوئی آرڈینسس میں ترمیم نہیں کرسکتے،نہ ہی کسی کو عہدے پر فائز کرسکتے نہ تبدیل کرسکتے،صدر کو امانت کے طور پر دو دن یا دس دن میں اجلاس بلا کر وزیراعظم منتخب کرنا چاہئے۔ طاہرملک نے سوال کیا کہ فارن فنڈنگ کیس میں الزام ہے کہ پی ٹی آئی نے بینک اکاؤنٹس کی معلومات درست فراہم نہیں کی،کیا الیکشن کمیشن معلومات درست قرار نہ دینے پر پی ٹی آئی چیئرمین کو نااہل قرار دے سکتا ہے؟بغیر ٹرائل کے ایسا نہیں ہوسکتا پہلے چارج لگے گا، ثبوت پیش کرنے پڑیں گے، پروگرام میں اعتزاز احسن نے آگاہ کیا کہ ان کے نام سے ن لیگ یا پی ٹی آئی کی حمایت میں جتنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہیں وہ سب کے سب جعلی ہیں۔
وفاقی وزیر علی زیدی کی جانب سے سندھ حکومت کے وفاقی دارالحکومت میں 400 مسلح ایس ایس یو (اسپیشل سیکیورٹی یونٹ آف سندھ پولیس) اہلکاروں کی تعیناتی پر تنقید کی گئی ہے۔ علی زیدی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری ایک پیغام میں کہا ہے کہ سندھ حکومت نے کس بنیاد پر ایس ایس یو کے 400 مسلح اہلکاروں کو نجی حیثیت میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جمع کر رکھا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ آج سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو خط لکھیں گے جس میں ایس ایس یو کے ڈی آئی جی مقصود میمن سے پوچھیں گے کہ انہوں نے کس طرح اس بلاجواز عمل کی اجازت دی ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ وہ اس معاملے پر تحقیقات کا بھی مطالبہ کریں گے۔ علی زیدی کے اس ٹویٹ کے جواب میں سوشل میڈیا صارفین بھی اس معاملے پر تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں اور ان کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ آخر مقصود میمن جن کا کام کراچی میں ہے وہ اسلام آباد میں کیا کر رہے ہیں۔

Back
Top