یار وہ کون بندہ ھے جویہ کہتا ھے کہ یہ گل امریکہ سے پڑھا ھوا ھے یہ بندہ تو لگتا ھے کبھی فیصل آباد سے باھر نہی گیا۔ یہ تو عام گاوں کی پھپے کٹنیوں کی طرح حقائیق کو توڑ مڑوڑ ایسے بیان کر رھا ھے جیسےاس کو چھوٹ بولنے کی شیطان کی طرف سے خاص اجازت ھے۔
کہاں سے ایک سال کو لیا پھر اسکو دوسرے سالوں سے ملا دیا اس دوران دو حکومتیں بدل گئیں اور پھر جب بیس سال گزر گئے جس میں سے دس سال مشرف کے بھی گزرے جس میں ان ھسپتالوں میں کوئی مرمت وغیرہ نہی ھوئی۔ اور پھر بھی بضد ھے کہ ھر بات کو پھپے کٹنیوں کی طرح تور مڑوڑ کر پیش کرے۔ پرانے زمانے میں لوگ چھوٹ بولنے کے لیے پانچ دس سال کا انتظار کر لیتے تھے لیکن یہ تو کچھ ایسے لوگ ھیں یہ آپ کے منہ پر جھوٹ بولیں گے اور ان کے منہ لال نہی ھوں گے۔
پوری دنیا میں ھسپتالوں میں باقاعدہ مرمتیں چلتی رھتی ھیں دو کمرے بند ھوتے ھیں اس میں کام ھوتا ھے اور انکو پھر مریضوں کو دوبارہ شفٹ کر دیا جاتا اسکے بعد پھر دو کمرے مرمت کے لیے بند کرتے ھیں اور اس میں کام ھوتا ھے۔ لیکن ھمارے ملکوں میں ایڈمینیشٹریشن ھوتی نہی نا کسی ھسپتال کا فائینسنس ڈائیکٹر ھوتا ھے نا اسکو کوئی بجٹنگ ھوتی ھے نا اس میں مرمت اور دوسری مینٹینینس کے لیے کو پیسہ مختصص کیا جاتا ھے۔
پچھلی حکومتوں نے تو چلو چو بھی کچھ کیا لیکن کچھ کیا۔ لیکن یہ بندروں کا ٹولہ پچھلے چھ ماہ سے ملامتیں ھی کر رھا ھے لیکن ایک بھی پراجیکٹ شروع نہی کر سکا، یہ وہ لوگ ھیں جو پچلھ چھ سال
سے کلین سویپ کے دعوے کر رھے تھے لیکن پراجیکٹ ایک نہی چلا سکتے،
اسکو میں اسکی اوقات ٹویٹر پر دیکھا دیتا تھا لیکن اس نے مجھے وھاں بلاک کر دیا ھے اس لیے اسکی اوقات آج یہاں دیکھا رھا ھوں،بنتا لیڈرشب کا ڈاکٹر ھےلیکن اصل میں نیانیا مینجمنٹ سیکھ رھا ھے اس لیے یہ اسکو ضرور پڑھے گا۔
پنجابیوں کے لیے یہ ایک انتہائی الیمہ کا مقام ھے کہ ایسے شہباز گل جیسے گھٹیا معیار کے لوگ پنجاب کی ترجمانی کر رھے ھیں۔ اس پنجاب کو دشمنوں کی ضرورت نہی اس کو اپنے ھی اندر سے تباہ کر دیں گے۔