This is what happens when you are too arrogant.

Nice2MU

President (40k+ posts)
رگ رگ میں سود بھرا ہے اور ملاتے ہو اپنے آپ کو صحابہ کرام سے۔؟
یہ وہی ڈر ہے جو حرام کھانے والی قوموں میں ہوتا ہے ۔ کاش تم لوگوں کی غیرت کشمیریوں کا خون دیکھ کر ہی جاگ جائے ۔بلکہ وہاں خندق کی جگہ باڑ لگوا دی ہے۔ اور تم بھی عمران کے سجدے آٹھ جاو ہر وقت لوٹا پکڑ کر اس کا گند صاف کرنے کے چکر میں نہ رہا کرو
۔

اپنے فلسفے اپنے پاس سنبھال کے رکھ اور میری سوال کے جواب دے۔
 

kingQ

Minister (2k+ posts)
Sooo Sorry, still feeling pains for the humiliation of Indians in February conflict. I thought that was an old news.
Take some rest or take some medication if the burn of that humiliation persists.
When PAF struck India on 27th February, I was the one who supported Pak's armed forces and expressed my hatred for the terrorist Hindus. You can check my threads and posts from those days. But gradually I learnt how coward and fraud our ISPR was, and how dubious our forces were. Certainly they don't believe in Allah, or have very weak faith in Allah. I have seen them licking Modi's ass. They are certainly scared of India. This is because America is not on their side now. America, Israel and West are on Indian side, and this is sufficient for them to lose the ground. Sorry they don't represent me. I don't own this coward army which relies on Americans more than Allah.
 

kingQ

Minister (2k+ posts)
Why the heck you keep licking Indian asses? Why can't you live with decency and with honour. Does Bangladesh have nukes? Is Bangladesh living like a slave of India?
You have nukes, you are a great missile power, you claim to have a great airforce, yet you behave like timid and coward people.
Seriously shame on you. I have no respect for these military generals. I believe they have hijacked my army which my people are financing from their hard earned money.
I demand army chief and his team must resign as they have disappointed Pakistan. They have brought us shame in front of India. We are the owners of this country. We pay you. And we demand you must resign from your posts. Let there be introduced a mechanism to allow young, energetic and honest military officers to lead our army. We don't want these chicken hearted westernised old asses in the army.
 

angryoldman

Minister (2k+ posts)
اپنے فلسفے اپنے پاس سنبھال کے رکھ اور میری سوال کے جواب دے۔
ارے ببواجواب ہی تو دیا تھا۔ چلو اور آسان کر دیتا ہوں۔ غزوہ خندق کی بات کی ہے ایک تو ہم ان حالات میں نہیں ہیں ۔ دوسرا تب اسلام اپنے ابتدائی دور میں تھا۔ تیسرا کہیں سے ثابت کردو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے امن کی بھیک مانگی ہو؟ بلکہ سب نے مل کر ان سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اور غزوہ خندق کے بعد کیا ہوا تھا وہ بھی تمہیں معلوم ہو گا۔
 

Nice2MU

President (40k+ posts)
ارے ببواجواب ہی تو دیا تھا۔ چلو اور آسان کر دیتا ہوں۔ غزوہ خندق کی بات کی ہے ایک تو ہم ان حالات میں نہیں ہیں ۔ دوسرا تب اسلام اپنے ابتدائی دور میں تھا۔ تیسرا کہیں سے ثابت کردو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے امن کی بھیک مانگی ہو؟ بلکہ سب نے مل کر ان سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اور غزوہ خندق کے بعد کیا ہوا تھا وہ بھی تمہیں معلوم ہو گا۔

ایسا نہیں ہے۔۔ وہ اسلام کے ابتدائی اوقات نہیں تھے بلکہ اسلام کا 16 یا 17 واں سال چل رہا تھا۔۔۔ حضور جنگ نہیں چاہتے تھے۔ اسلیے تو صلح حدیبیہ کی سخت شرائط بھی مان کے واپس ہوگئے حالانکہ بہت سے جید صحابہ کرام بھی اسکے حق میں نہیں تھے اور انکی تعداد بھی کافی زیادہ تھی اور خندق کے مقابلے میں زیادہ طاقتور بھی تھے۔ اسی امن معاہدہ کی وجہ سے صرف دو سال میں اسلام اتنا تیزی سے پھیلا جو 20 سالوں میں نہیں پھیلا تھا۔۔۔اسلیے آپکی بات صرف جذبات پہ مبنی ہے حقیقت نہیں ہے۔

خندق اس لیے کھودی گئی تھی تاکہ جنگ نہ ہو۔ امن مانگی ہو یا مانگی ہو یہ الگ مسئلہ یے۔ صلح معاہدہ اسکی ایک
مثال ہے کہ آپ ص کو جنگ پسند نہیں تھی۔

اور امن کی خواہش رکھنا بارے بقول آپ آجکل کے حالات اسطرح نہیں تھے۔ اسوقت اگر لڑائی ہوتی تو وہی لوگ متاثر ہوتے جو جنگ لڑ رہے ہوتے لیکن آج اگر ایک چھوٹی سے جھڑپ بھی ہو جائے تو سارے دنیا کے حالات پہ اثر پڑتا ہے۔ ۔۔ امریکہ صرف طبل جنگ بجا رہا ہے لیکن ساری دنیا میں ٹینشن میں ہوگئ ہے اور صرف ایک تیل کی قیمتیں بڑھنے سے تمام ممالک کی اکانومی پہ اثر پڑ رہا ہے۔۔۔ تو امن اگر اس وقت نہیں مانگی تو اسکی وجوہات بھی دوسری تھی۔

اور یہ وہن والی حدیث تو پوری ادھر پیش کرو۔ تاکہ وہ بھی کلیر ہو جائے ۔۔
 

kingQ

Minister (2k+ posts)
ایسا نہیں ہے۔۔ وہ اسلام کے ابتدائی اوقات نہیں تھے بلکہ اسلام کا 16 یا 17 واں سال چل رہا تھا۔۔۔ حضور جنگ نہیں چاہتے تھے۔ اسلیے تو صلح حدیبیہ کی سخت شرائط بھی مان کے واپس ہوگئے حالانکہ بہت سے جید صحابہ کرام بھی اسکے حق میں نہیں تھے اور انکی تعداد بھی کافی زیادہ تھی اور خندق کے مقابلے میں زیادہ طاقتور بھی تھے۔ اسی امن معاہدہ کی وجہ سے صرف دو سال میں اسلام اتنا تیزی سے پھیلا جو 20 سالوں میں نہیں پھیلا تھا۔۔۔اسلیے آپکی بات صرف جذبات پہ مبنی ہے حقیقت نہیں ہے۔

خندق اس لیے کھودی گئی تھی تاکہ جنگ نہ ہو۔ امن مانگی ہو یا مانگی ہو یہ الگ مسئلہ یے۔ صلح معاہدہ اسکی ایک
مثال ہے کہ آپ ص کو جنگ پسند نہیں تھی۔

اور امن کی خواہش رکھنا بارے بقول آپ آجکل کے حالات اسطرح نہیں تھے۔ اسوقت اگر لڑائی ہوتی تو وہی لوگ متاثر ہوتے جو جنگ لڑ رہے ہوتے لیکن آج اگر ایک چھوٹی سے جھڑپ بھی ہو جائے تو سارے دنیا کے حالات پہ اثر پڑتا ہے۔ ۔۔ امریکہ صرف طبل جنگ بجا رہا ہے لیکن ساری دنیا میں ٹینشن میں ہوگئ ہے اور صرف ایک تیل کی قیمتیں بڑھنے سے تمام ممالک کی اکانومی پہ اثر پڑ رہا ہے۔۔۔ تو امن اگر اس وقت نہیں مانگی تو اسکی وجوہات بھی دوسری تھی۔

اور یہ وہن والی حدیث تو پوری ادھر پیش کرو۔ تاکہ وہ بھی کلیر ہو جائے ۔۔
وہ اللہ کے نبی ﷺ تھے اور ان کے ساتھ اللہ کے برگزیدہ بندے، صحابہ کرام تھے۔
وہ لوگ بدر و احد لڑ چکے تھے، جب کہ تم مشرکوں اور منافقوں کا گروہ ہو۔ تمہارا لیڈر اپنی مشرکہ بیوی کے ساتھ ہندوؤں کی طرح مزاروں پر ماتھے ٹیکتا ہے، پتھر کی انگوٹھی پہن کر وزیراعظم بنا ہے۔ اور تمہارے سارے بھگوان 70 سالوں سے ہندوؤں کے پاؤں چاٹ رہے ہیں۔
اس لیے تم جیسے کھدڑے اور ہجڑے، صلح حدیبیہ کی مثال نہیں دے سکتے۔

 

Nice2MU

President (40k+ posts)
وہ اللہ کے نبی ﷺ تھے اور ان کے ساتھ اللہ کے برگزیدہ بندے، صحابہ کرام تھے۔
وہ لوگ بدر و احد لڑ چکے تھے، جب کہ تم مشرکوں اور منافقوں کا گروہ ہو۔ تمہارا لیڈر اپنی مشرکہ بیوی کے ساتھ ہندوؤں کی طرح مزاروں پر ماتھے ٹیکتا ہے، پتھر کی انگوٹھی پہن کر وزیراعظم بنا ہے۔ اور تمہارے سارے بھگوان 70 سالوں سے ہندوؤں کے پاؤں چاٹ رہے ہیں۔
اس لیے تم جیسے کھدڑے اور ہجڑے، صلح حدیبیہ کی مثال نہیں دے سکتے۔


تم جیسے حرامخورو اور گدھا صرف گدھوں اور بریانی کی باتیں کیا کر۔ یہ باتیں تم جاہلوں کی سمجھ نہیں آئینگی۔ تو بس یہ بتا کہ ایک دیگ بریانی میں کتنے چاول اور کتنے گدھے لگتے ہیں؟
 

angryoldman

Minister (2k+ posts)
ایسا نہیں ہے۔۔ وہ اسلام کے ابتدائی اوقات نہیں تھے بلکہ اسلام کا 16 یا 17 واں سال چل رہا تھا۔۔۔ حضور جنگ نہیں چاہتے تھے۔ اسلیے تو صلح حدیبیہ کی سخت شرائط بھی مان کے واپس ہوگئے حالانکہ بہت سے جید صحابہ کرام بھی اسکے حق میں نہیں تھے اور انکی تعداد بھی کافی زیادہ تھی اور خندق کے مقابلے میں زیادہ طاقتور بھی تھے۔ اسی امن معاہدہ کی وجہ سے صرف دو سال میں اسلام اتنا تیزی سے پھیلا جو 20 سالوں میں نہیں پھیلا تھا۔۔۔اسلیے آپکی بات صرف جذبات پہ مبنی ہے حقیقت نہیں ہے۔

خندق اس لیے کھودی گئی تھی تاکہ جنگ نہ ہو۔ امن مانگی ہو یا مانگی ہو یہ الگ مسئلہ یے۔ صلح معاہدہ اسکی ایک
مثال ہے کہ آپ ص کو جنگ پسند نہیں تھی۔

اور امن کی خواہش رکھنا بارے بقول آپ آجکل کے حالات اسطرح نہیں تھے۔ اسوقت اگر لڑائی ہوتی تو وہی لوگ متاثر ہوتے جو جنگ لڑ رہے ہوتے لیکن آج اگر ایک چھوٹی سے جھڑپ بھی ہو جائے تو سارے دنیا کے حالات پہ اثر پڑتا ہے۔ ۔۔ امریکہ صرف طبل جنگ بجا رہا ہے لیکن ساری دنیا میں ٹینشن میں ہوگئ ہے اور صرف ایک تیل کی قیمتیں بڑھنے سے تمام ممالک کی اکانومی پہ اثر پڑ رہا ہے۔۔۔ تو امن اگر اس وقت نہیں مانگی تو اسکی وجوہات بھی دوسری تھی۔

اور یہ وہن والی حدیث تو پوری ادھر پیش کرو۔ تاکہ وہ بھی کلیر ہو جائے ۔۔
جناب والی یہ یہ کسی عذر یا کمزوری کا سبب نہیں تھا کہ مسلمانوں نے خندق کھودی۔ اس سے پہلے تین سو تیرا بھی تو لڑ چکے تھے ایک ہزار کے مقابلے میں تب ایسا کیوں نہیں سوچا گیا ؟
خندق ایک جنگی حکمت عملی تھی جو فارس میں بہت کامیاب تھی ۔اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اس کے ماخذ تھے۔ اور صلح حدیبیہ خندق کے بعد کی ہے ۔اس کے اور خندق غزوہ کے درمیان بے شمار سر یہ ہیں جو مسلمانوں کی طاقت اور شجاعت کا ثبوت ہیں ۔اور میں نیچے ایک لنک دے رہا ہوں یہ ہے امن کی آشا۔

 

Nice2MU

President (40k+ posts)
پہلے خندق کیوں نہ کھودی کا جواب آپ نے خود ہی دے دیا کہ اگر سلیمان فارسی پہلے سے مسلمانوں کیساتھ ہوتے تو پہلے بھی جنگیں نہ ہوتیں اور خندق کھود کے ہی اپنی حفاظت کرتے۔۔اور خندق کے بعد تو مکہ کے کفار سے کوئی جنگ بھی نہیں ہوئی۔۔۔۔۔۔

جنگ بدر ایک مجبوری میں ہوئی تھی اور بدر، اُحد اور خندق تینوں جنگوں میں کفار نے مسلمانوں پہ حملہ کیا تھا مسلمانوں نے حملے نہیں کیے تھے۔۔۔۔۔۔ لیکن جب طاقت بنی تو پھر مسلمانوں نے حملے کیے ہیں۔ اور پاکستان کی حالت بھی کمزور ہے طاقتور نہیں۔۔۔۔

مجھے امن کی آشا کے لنک کی ضرورت نہیں، مجھے وہن کی حدیث کا لنک دو کیونکہ اسی پہ تو آپکے الزام کا دارومدار ہے۔۔۔


جناب والی یہ یہ کسی عذر یا کمزوری کا سبب نہیں تھا کہ مسلمانوں نے خندق کھودی۔ اس سے پہلے تین سو تیرا بھی تو لڑ چکے تھے ایک ہزار کے مقابلے میں تب ایسا کیوں نہیں سوچا گیا ؟
خندق ایک جنگی حکمت عملی تھی جو فارس میں بہت کامیاب تھی ۔اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اس کے ماخذ تھے۔ اور صلح حدیبیہ خندق کے بعد کی ہے ۔اس کے اور خندق غزوہ کے درمیان بے شمار سر یہ ہیں جو مسلمانوں کی طاقت اور شجاعت کا ثبوت ہیں ۔اور میں نیچے ایک لنک دے رہا ہوں یہ ہے امن کی آشا۔

 
Last edited:

angryoldman

Minister (2k+ posts)
پہلے خندق کیوں نہ کھودی کا جواب آپ نے خود ہی دے دیا کہ اگر سلیمان فارسی پہلے سے مسلمانوں کیساتھ ہوتے تو پہلے بھی جنگیں نہ ہوتیں اور خندق کھود کے ہی اپنی حفاظت کرتے۔۔اور خندق کے بعد تو مکہ کے کفار سے کوئی جنگ بھی نہیں ہوئی۔۔۔۔۔۔

جنگ بدر ایک مجبوری میں ہوئی تھی اور بدر، اُحد اور خندق تینوں جنگوں میں کفار نے مسلمانوں پہ حملہ کیا تھا مسلمانوں نے حملے نہیں کیے تھے۔۔۔۔۔۔ لیکن جب طاقت بنی تو پھر مسلمانوں نے حملے کیے ہیں۔ اور پاکستان کی حالت بھی کمزور ہے طاقتور نہیں۔۔۔۔

مجھے امن کی آشا کے لنک کی ضرورت نہیں، مجھے وہن کی حدیث کا لنک دو کیونکہ اسی پہ تو آپکے الزام کا دارومدار ہے۔۔۔
میرا مقصد بحث برائے بحث نہیں میں جو بات سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں وہ یہ ہے مسلمان ہجرت کے بعد کبھی مجبور نہیں ہوے اور مکی زندگی کی مجبوری ذاتی نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق تھی۔ بہت سے لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو مظلومیت سمجھتے ہیں لیکن میں اسے بہادری کی اعلی مثال سمجھتا ہوں ۔ذیل میں وہن کے متعلق پورا آرٹیکل اور مکمل حدیث مبارکہ ہے ۔امید ہے تشفی ہو گی۔



یہ رومی سلطنت کا فرمانرواں ’’ قیصر ‘‘ دنیا کا سپر پاور کہلانے والے کا دربار ہے۔ سونے ، ہیرے و جواہرات سے جڑے تخت شاہی آنکھوں کو خیرہ کیئے دے رہی ہے۔ وزراء و شرفاء دیدہ زیب لباس زیب تن کئیے ہوئے ہیں۔ لنگی تلواریں لئے سپاہی مستعد کھڑے ہیں۔

قیصر روم اپنے پورے جاہ و حشم کے ساتھ تخت شاہی پہ جلوہ افروز ہے۔ اور اُسکے سامنے سادگی کا مظہر ایک جفاکش عرب مسلم سپاہی قیدی بنے کھڑا ہے جس کا نام ہے حضرت عبداللہ بن حذافہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور کنیت ہے ابو حذافہ ۔

شاہ روم قیصرحضرت عبداللہ بن حذافہ ؓ کو منظر غائر دیکھا اور کہنے لگا: ’’ میری ایک تجویز ہے۔‘‘

ابو حذافہ ؓ : ’’ وہ کیا ‘‘

قیصر روم : میری تجویز یہ ہے کہ آپ عیسائیت قبول کر لیں۔ آپ کو میری یہ تجویز منظور ہے تو میں آپ کو آزاد کر دوں گا اور آپ کے ساتھ عزت و تکریم کا معاملہ روا رکھوں گا۔

حضرت عبداللہ بن حذافہ ؓ نے عزم و جراءت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: یہ ممکن نہیں ‘ جس شے کی طرف آپ مجھے دعوت دے رہے ہیں اس سے ہزار درجہ بہتر میں مر جانا پسند کروں گا۔

قیصر نے کہا: آپ مجھے بہادر انسان معلوم ہوتے ہیں‘ آپ میری یہ تجویز قبول کر لیں تو میں آپ کو اپنی آدھی سلطنت دینے پر بھی تیار ہوں۔

عزم و جراءت کا مجسم بیڑیوں میں جکڑا ہوا یہ قیدی مسکرایا اور گویا ہوا : اللہ کی قسم ! آپ مجھے اپنی ساری سلطنت اور پورے عرب کی حکمرانی دے کر بھی یہ اُمید نہ رکھیں کہ میں دین محمد ﷺ سے ایک لمحہ کے لئے بھی منحرف ہو جاوٴں۔

قیصر غضبناک ہو کر کہا : میں تمہیں قتل کر دوں گا۔

ابو حذافہ ؓ نے فرمایا : آپ جو چاہیں کر دیکھیں۔

تو اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس کو صلیب پر باندھ دیا جائے اور تیر اندازوں کو حکم دیا کہ اس كے ہاتھوں اور پیروں کے قریب قریب تیر چلاؤ ۔ شاید کہ ڈر کر ہی یہ عیسائیت قبول کرلے۔

اس نازک اور تکلیف دہ موقعہ پر قیصر نے ابو حذافہ ؓ کو تیسری دفعہ عیسائیت قبول کرنے کی دعوت دی لیکن آپؓ نے صاف انکار کر دیا۔

جب قیصر نے دیکھا کہ یہ کسی طرح بھی ماننے والا نہیں ہے اس نے حکم دیا کہ ایک بڑی دیگ لا کر اس میں تیل ڈال کر گرم کیا جائے جب تیل ابلنے لگا تو قیصر نے مسلمانوں کے دو قیدیوں کو یکے بعد دیگرے اس میں پھینکوا دیا ، وہ دونوں دیکھتے ہی دیکھتے جل کر کوئلہ بن گئے پھر ابو حذافہ ؓ کی طرف متوجہ ہو کر کہا :

عیسائیت قبول کر لو ورنہ تمہارا بھی یہی حال ہوگا۔

لیکن رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے تربیت یافتہ صحابی سیدنا عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ جن کا یقین ہے کہ

لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (سورة الحديد: آیت ۲)

’’ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اسی ( اللہ) کی ہے، وہی زندگی دیتا ہے اور موت بھی اور وه ہر چیز پر قادر ہے۔ ‘‘

وہ اس دنیا کے ایک چھوٹے سے ٹکرے کے عارضی بادشاہ قیصر روم کے ایک دو آدمی کو زندہ جلا کر مار دینے سے کیا ڈر تے۔

انہوں نے پہلے سے بھی زیادہ سختی کے ساتھ اُسکی عیسائیت کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔

اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان:

الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ(سورة المائدة: آیت ۳)

" آج کفار تمہارے دین سے نا امید ہو گئے، خبردار! تم ان سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا "

ثابت کر دکھایا ۔ کفار کو مایوس کیا اور یہ ثابت کیا کہ اللہ کے سوا وہ کسی سے ڈرنے والے نہیں۔

اور جب قیصر روم حد درجہ مایوس ہوگیا تو چار و ناچار انہیں بھی کھولتے ہوئے تیل میں پھینکنے کا حکم دیا۔

رومی سپاہی جب ابو حذافہ ؓ کو تیل کے پاس لے گئے تو آپؓ کے آنکھوں سے بے اختیار آنسو ٹپک پڑے‘ قیصر کے حواریوں نے جب یہ دیکھا تو عرض کی ’’ یہ تو سچ مچ رو رہا ہے‘‘انہوں نے گمان کیا کہ شاید اس تکلیف سے گھبرا گیا ہے۔

قیصر نے کہا : اسے میرے قریب لاؤ اور اس موقعے پہ پھرآپؓرضی اللہ عنہ کو عیسائیت کے سامنے سر جھکانے کی دعوت دی‘ آپؓ نے اس بار بھی انکار کر دیا۔

اس نے تعجب سے پوجھا ! ’’ ارے پھر کیوں رو رہے ہو ! ‘‘

تو انہوں نے جواب دیا کہ میں یہ سوچ کر رو رہا ہوں کہ ”کاش میرے پاس ایک جان کی بجائے میرے جسم کے بالوں کے برابر جانیں ہوتیں اور میں سب کو اس کھولتے ہوئے تیل میں ڈال کر اللہ کی راہ میں قربان کر دیتا ۔ “

یہ سن کر قیصرِ روم ان کی بہادری اور جرأت مندی پر بہت حیران ہوا اور کہنے لگا اگر تم میرے سر کا بوسہ لے لو تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا۔

ابو حذافہ ؓ نے پوچھا : کیا تم میرے ساتھ تمام مسلمان قیدیوں کو بھی رہا کر دوگے؟

اسنے کہا : ’’ ہاں! میں تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کر دوں گا۔

تو آپ رضی اللہ عنہ اس کے قریب آئے اور اس کے سر کا بوسہ لیا۔

قیصر روم نے حسب وعدہ حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو تمام مسلمان قیدیوں کے ساتھ رہا کر دیا۔

جب یہ لشکر واپس مدینہ پہنچا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اس واقعہ کے بارے میں بتایا گیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سن کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے :

حق علی کل مسلم ان یقبل رأس عبد اللہ بن حذافہ و أنا أبدأ بہ

’’ ہر مسلمان پر یہ ضروری ہے کہ وہ عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ كے سر کا بوسہ لے اور میں اس کی ابتداء کرتا ہوں۔‘‘
پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور ان کے سر کا بوسہ لیا۔

**** ** ****** ****** ******

اب اس تصور کے دنیا سے باہر آئیے ۔ آج کے مسلمانوں کے حالات پہ نظر دوڈائیے۔

مسلمان کیا حکمراں ہو کیا رعایا ۔۔۔ آج ہر میں کفار کا خوف ہی خوف ہے ۔ آج مسلمان اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علاوہ ہر کسی سے ڈرتا ہے۔

حالانکہ آج کے سپر پاور کہلانے ملک کے سربراہ (بش‘ اوباما وغیرہ ) قیصر روم کے مقابلے میں کویٴ طاقت ہی نہیں رکھتے، وہ کسی شخص کو منٹوں میں کھولتے ہوےٴ تیل میں ڈال کر کوئیلہ نہیں بنا سکتے۔ لیکن اس کے با وجود اُن (بش‘ اوباما وغیرہ ) کا ایک فون کال آتے ہی مسلمان ملکوں کے سربراہ اپنے آپ کو موت کی وادی میں گم ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔

دنیا کی بہترین قدرتی وسائل سے مالا مال‘ اہم زمینی‘ فضائی اور بحری دفائی نقطۂ نظر سے مزین‘ دولت و ثروت میں ترقی یافتہ ممالک سے بھی آگے ہونے کے باوجود پچاس سے زیادہ مسلم اکثریتی (اسلامی ) ممالک کے خوف کا یہ عالم ہے کہ امریکہ کے مظالم پر زبان کھولنے کو تیار نہیں ہیں۔

دنیا کی محبت اور موت کے خوف میں ہمارا یہ حال ہوگیا ہے کہ کافر کی موت سے بھی ہمارے دل لرز جاتے ہیں لیکن ہمارے اپنے چاہے کتنے ہی مار دیئے جائیں ہمارے کان پہ جوں تک نہیں رینگتے۔

اُمت مسلمہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کو بھلا کر دنیا کی چکاچوند میں کھو گئی ہے ۔ اپنے نصب العین سے ہٹ کر یہ اُمت مردہ ہو چکی ہے اور جس طرح گدھ مردار پر ٹوٹتے ہیں‘ آج سارے کفار اس پر اسی طرح ٹوٹ پڑیں ہیں۔اور کیوں نا ٹوٹ پڑیں کہ ان کے دلوں میں ’’ وھن ‘‘ ہو گیا ہے۔

اور ’’ وھن ‘‘ کیا ہے ۔ آئیے اس حدیث میں دیکھتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’ قریب ہے کہ (گمراہ) قومیں تمہارے خلاف اس طرح یلغار کریں گی جس طرح کھانے والے کھانے کھانے پہ ٹوٹ پڑتے ہیں ۔‘‘
کسی نے عرض کیا: ’’اس روز ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا؟‘‘
آپ ﷺنے فرمایا: ’’ نہیں ، بلکہ اس روز تم زیادہ ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ہو گے، اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دل میں وہن ڈال دے گا۔‘‘
کسی نے عرض کیا، اللہ کے رسول: ’’ وہن کیا ہے؟ ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔‘‘ . (رواه أبو داود ۴۲۹۷)

کیا ہم اس حدیث کو سن کر بس خاموش ہو جائیں ‘ چپ سادھ لیں یا اس ’’ وھن ‘‘ کی بیماری سے امت مسلمہ کو نجات دلانے کی فکر کریں۔ ہمارے نبی کریم ﷺ نے تو ہمیں ہمارے رب کا پیغام بھی دیا ہے:

إِنَّ اللَّ۔هَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُ وا مَا بِأَنفُسِهِمْ (سورة الرعد: آیت ۱۱)

’’بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔“

تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق اس ’’ وھن ‘‘ کے مرض میں مبتلا اُمت مسلمہ کی نجات کے لئے کیا ہم کچھ کر رہے ہیں اور اگر نہیں کر رہے ہیں تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وعید بھی سن لیں:

وَ إِذَا أَرَادَ اللَّ۔هُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ ۚ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ (سورة الرعد: آیت ۱۱)

’’ اور جب اللہ کسی قوم کی سزا کا اراده کر لیتا ہے تو وه بدﻻ نہیں کرتا ‘ نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مدد گار ہو سکتا ہے ۔ ‘‘

تو آئیے بہت دیر ہونے سے پہلے ، قرآن و احادیث کی تعلیمات پہ عمل کرکے قرآن کا کردار بنیں۔ نبی ﷺچلتے پھرتے قرآن تھے اور آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو قرآن کا کردار بنا دیا تھا ۔ جب مومن قرآن کا کردار بن جاتا ہے تو اس میں اتنی قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ پاوٴں میں جوتے اور تن پہ پورے کپڑے کے بغیر بھی دنیا میں سپر پاور کہلانے والے ملک کے سربراہ / حکمراں کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہے‘ اسے اللہ کے سوا کویٴ ڈرا نہیں سکتا جیسا کہ ہم اوپر دیکھ چکے ہیں۔

تو آئیے ہم بھی قرآن کا کردار بنیں، نبی کریم ﷺ کی سنتوں کو اپنائیں اور صحابہ کرامؓ کے نقش قدم پہ چلیں ۔۔۔ تاکہ ہمارے دلوں سے ’’ وھن ‘‘(حُبُّ الدُنيا وكراهيةُ الموت) دور ہو اور کفار کے دلوں میں ہماری ہیبت طاری ہو ۔۔۔ ہم بھی کفار کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں ۔۔۔ پھر اللہ بھی اپنے قول کے مطابق ہماری حالت بدل دے گا۔

اور آئیے دعا کریں:

اے اللہ ہم گناہ گار ہیں لیکن تیرے محبوب ﷺکے اُمتی ہیں ‘ ہمارے حال پر رحم فرما ۔ آج اغیار ہم پہ ہر ظرف سے ٹوٹ پڑیں ہیں کیوں کہ نبی ﷺ کے فرمان کے مظابق ہمارے دلوں میں ’’ وھن ‘‘ پیدا ہوگیا ہے یعنی ہم ’’ حُبُّ الدُنيا وكراهيةُ الموت ‘‘ میں پڑے ہوئے ہیں۔

اے اللہ ہمیں اس حالت سے نکالنے والا صرف تو ہے ‘ ہمارے دلوں سے دنیا کی محبت نکالنے والا تیرے سوا کویٴ نہیں اور موت کا خوف بھی ہم سے دور کرنے والا تیرے سوا کویٴ نہیں ۔

اے اللہ ہم سب اپنے تہی کوششیں کر رہے ہیں۔ اے اللہ ہمیں کامیابی سے ہم کنار کر۔آمین یا رب العالمین

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
” اے ہمارے اللہ! محمد اور آلِ محمد پر رحمت بھیج۔ جس طرح تو نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم پر رحمت بھیجی تھی۔ بے شک تو تعریف کیا گیا پاک ہے۔ اے ہمارے اللہ ! محمد اور آلِ محمد پر برکتیں بھیج۔ جس طرح تو نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم پر برکتیں بھیجی تھیں۔ بے شک تو تعریف کیا گیا پاک ہے
 

Nice2MU

President (40k+ posts)
مجھے حدیث کا معلوم تھا اور یہ بھی معلوم تھا کہ وہن کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن آپ سے کہنے کا مطلب تھا تاکہ پورے حدیث لکھے۔

اور یہ بات آپ نے پاکستان اور انڈیا کے تناظر میں کی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ باقی مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تناظر میں بھی دیکھے تو بھی یہ حدیث ٹھیک نہیں بیٹھتی کیونکہ کفار مسلمانوں سے تعداد ، طاقت اور پیسے کے لحاظ سے بہتر ہیں۔ جب کہ حدیث میں کہ 'اس روز تم زیادہ ہونگے'نہ تو ہم پاکستانی ہندوستانیوں سے زیادہ ہیں اور نہ سارے دُنیا کے مسلمان کفار سے زیادہ ہیں اور نہ طاقتور۔۔۔

جب مسلمانوں نے روم اور فارس کی طاقتوں کو شکست دی تھی تو اسکے پیچھے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی ایک 23 سال سےزیادہ کی محنت، ریاضت اور تربیت تھی۔۔۔اور اسکا اثر کافی عرصے تک موجود رہا اور مسلمان ایک سپر پاور بھی بنے۔۔۔۔اسلیے اسکا آجکل کے مسلمان سے مقابلہ بنتا ہی نہیں۔۔۔ اور جب مکی زندگی میں کمزور تھے تو کبھی لڑائی نہیں کی۔۔

باقی جب بات میں دم ہو تو لمبا لکھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اور نہ زیادہ فلسفے اور بھاشن کی۔ شکریہ



رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’ قریب ہے کہ (گمراہ) قومیں تمہارے خلاف اس طرح یلغار کریں گی جس طرح کھانے والے کھانے کھانے پہ ٹوٹ پڑتے ہیں ۔‘‘

کسی نے عرض کیا: ’’اس روز ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا؟‘‘
آپ ﷺنے فرمایا: ’’ نہیں ، بلکہ اس روز تم زیادہ ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ہو گے، اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دل میں وہن ڈال دے گا۔‘‘
کسی نے عرض کیا، اللہ کے رسول: ’’ وہن کیا ہے؟ ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔‘‘ . (رواه أبو داود ۴۲۹۷)