Should Like/Dislike be replaced with Agree/Disagree? (Poll added)

Should Like/Dislike be replaced with Agree/Disagree?

  • Yes

    Votes: 61 35.3%
  • No

    Votes: 112 64.7%

  • Total voters
    173
  • Poll closed .

saeenji

Minister (2k+ posts)
نہ جی نہ ..یہ واحد بریڈ کا پیس ہے جو میں سارے دن میں کھاتی ہوں ........یہ نہ کھایا تو میرا سویم چہلم ہونے میں دیر نہیں لگے گی

Who's preventing you to eat that dear slice of yours? I am merely asking you to eat Yogurt aswell, it will resolve your thirst complain.
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
Who's preventing you to eat that dear slice of yours? I am merely asking you to eat Yogurt aswell, it will resolve your thirst complain.

میرے بیچارے پیٹ میں اتنی جگہ نہیں ہوتی ..پہلے روزے میں ڈر کے مارے انڈا بھی فرائی کر لیا تھا ..کھانا مشکل ہو گیا ..ٹو مچ ہوجاتا ہے
 

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)
Who's preventing you to eat that dear slice of yours? I am merely asking you to eat Yogurt aswell, it will resolve your thirst complain.

سوئم اور چہلم پر کیا کھانا ہوگا؟ یا پھر ایک بریڈ ہی ملے گا۔
 

_Dictator_

Politcal Worker (100+ posts)
Re: ایک گزارش




ڈکٹیٹر صاحب، معزرت چاہتا ہوں. یہاں آپ سے کچھ باتوں سے اتفاق نہیں کر سکتا ہوں. کسی کو پرکھنے کیلیے میرے کچھ اصول ہیں جن میں سر فہرست آئین و قانون کی بالا دستی اور جمہوریت کا فروغ ہے


پہلی بات تو یہ ہے کہ ملک کے انتظامی معاملات میں فوج کا کوئی کردار نہیں ہے. آئین کے تحت فوج کو سول انتظامیہ کے تحت کام کرنا ہوتا ہے. ملک کے انتظامی معاملات میں مداخلت نہ صرف آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے بلکہ فرمان قائد اعظم سے رو گردانی بھی. قائد اعظم نے فوج کو واشگاف الفاظ میں تاکید کی تھی کہ


مت بھولو کہ تم ریاست کے ملازم ہو۔ تم پالیسی نہیں بناتے ۔ عوام کے نمائندے فیصلہ کرتے ہیں کہ ملک کو کیسے چلانا ہے؟ تمہارا کام صرف اپنے سول حاکموں کے فیصلوں پر عمل کرنا ہے


سیاستدان جو بھی کردار ادا کریں اور حکومتی وزراء رات کی سیاہی میں یا دن کی روشنی میں جرنیلوں سے ملیں، چند ضمیر فروش سیاستدانوں یا وزرا کے جرنیلوں سے ملنے کو جواز بنا کر فوج کو آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے. اس بات کا الزام جرنیلوں سے ملنے والے سیاستدانوں یا وزرا سے زیادہ جنریلوں پر آتا ہے کہ وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرکے سیاستدانوں اور وزرا سے کیوں خفیہ ملاقاتیں کرتے ہیں اور کیوں امور ریاست میں مداخلت کے مرتکب ہوتے ہیں؟


فوج کا کام نہ صرف سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے بلکہ حکومت آئین کے تحت اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے فوج کو ملک میں امن و امان قائم کرنے کیلیے بلا سکتی ہے. حکومت کا فوج کو ڈکیتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے یا دہشتگردوں کو ختم کرنے کیلیے بلانا فوج کو سیاست میں اپنا حق جمانے کی قطعی اجازت نہیں دیتا ہے. حکومت نے آئین کے تحت اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے فوج کو امن و امان کیلیے مدد کرنے کی خاطر بلایا ہے نہ کہ امور ریاست میں مداخلت کیلیے. فوج اپنا کام کرکے واپس بیرکوں میں جانے کی پابند ہے


فوجی عدالتوں کے قیام کی اجازت دینا حکومت، پارلیمنٹ اور عدلیہ کا ایک انتہائی غلط فیصلہ تھا جس کی میں نے ہمیشہ مذمت کی ہے. آخر فوجیوں کی عدالتوں کی ضرورت کیا تھی؟ کیا فوجی قانون کو بلڈی سویلین سے زیادہ جانتے ہیں؟ کیا سویلین ججوں کی زیر نگرانی سپیڈی کورٹ نہیں بنائی جا سکتی تھیں؟ فوجی عدالتوں کا قیام یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم مہذب دنیا میں شامل ہوئے ہی نہیں ہیں اور ابھی تک غیر مہذب اور پس ماندہ ملکوں کی طرح فوجیوں کے ما تحت ہیں. ہمیں اپنی عدالتوں کا امیج تباہ کرنے کی بجائے اپنی عدالتوں کو با وقار بنانا چاہئیے تھا. فوج نے پارلیمنٹ سے یہ فیصلہ اسکا بازو مروڑ کر کروایا تھا اور اسی مقصد کیلیے عمران خان کو فوری طور پر دھرنہ چھوڑ کر پارلیمنٹ میں پہنچنے کا حکم دیا گیا تھا تاکہ یہ آئینی ترمیم متفقہ طور پر پارلیمنٹ سے پاس ہو سکے. پوری دنیا میں دہشتگردی کے واقعات ہوتے ہیں لیکن کون سا ملک ہے جس نے اپنی عدالتوں پر عدم اعتماد کرکے ملٹری کورٹس قائم کی ہیں؟ یہ صرف آئینی طور پر فوجیوں کی بالادستی قائم کرنے کی ابتدا تھا. سیاسی قیادت کو ڈرا دھمکا کر کروائی گئی حالیہ اکیسویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کا قیام فوج کو آئینی طور پر شریک اقتدار کرنے کی طرف پہلا قدم ہے. آنے والے دنوں میں آپ دیکھیں گے کہ فوج عربی کے اس اونٹ کی طرح جسے عربی نے سردی کی وجہ سے ترس کھا کر گردن خیمے کے اندر کرنے کی اجازت دی تھی، پوری کی پوری آئینی ترمیم کے ذریعے اقتدار کے خیمے میں زبردستی داخل ہو جائے گی. جب فوج کو آئینی تحفظ مل جائے گا تو پھر کسی کے پاس فوج کے سیاست اور ریاستی امور میں مداخلت پر اعتراض کا جواز بھی نہیں رہے گا


جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ فوج بد معاش ہے اور جدید ترین اسلحہ سے مسلح ہے. حکمران یا پارلیمنٹ نہتے ہیں اور اتنے کمزور ہیں کہ فوج کی ایک جیپ اور دو ٹرک ہی انکا بوری بستر لپیٹنے کیلیے کافی ہیں. ان بد معاشوں کا مقابلہ امریکی بد معاش جو دندناتے ملک میں داخل ہوتے ہیں، جتنی دیر چاہیں رک کر کاروائی کرتے ہیں، جسے چاہیں مارتے ہیں اور جسے چاہیں اٹھا کر لے جاتے ہیں. ان بد معاشوں کے ریمنڈ ڈیوس جیسے کمی کمینوں کو بھی یہ جرنیل عدالتوں سے رہائی دلوا کر مکمل پرٹوکول اور با عزت طریقے سے اور با حفاظت جہاز میں بٹھا کر امریکہ روانہ کرکے آتے ہیں. ہمارے حکمران فرشتے بھی بن جائیں اور ہم دنیا کی بہترین جمہوریت کا اعزاز بھی حاصل کر لیں تب بھی حکومت اور پارلیمنٹ فوج کی بد معاشی کا مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں. بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہم بیرونی اور اندرونی دہشتگردوں کی دہشتگردی سے تو جان چھڑا لیں گے لیکن با وردی دہشتگردوں (فوجیوں) سے کبھی نہیں، فوج کسی نہ کسی بہانے بد معاشی کرکے ہمارے سر پر سوار ہی رہے گی. مجھے امید ہے کہ اس فوج کی بد معاشی یہ بلڈی سویلین (عوام) ہی ختم کر سکتے ہیں. وقت بدل رہا ہے، آج نہیں تو کل یہ بلڈی سویلینز ان بدمعاش چوکیداروں سے اپنے گھر کا قبضہ ضرور واپس لیں گے اور یہاں آئین و قانون کی بالا دستی اور جمہوریت کا بول بالا ہوگا، انشاء الله







سویلین صاحب!، جواب میں تاخیر پر معذرت، آپ کی اکثر باتوں سے اتفاق کرتا ہوں اور کچھ باتوں سے اختلاف کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ آپ نے شروع میں جو کچھ بیان کیا وہ تو مسئلہ ہے، جبکہ میں مسئلے کی وجوہات کی بات کررہا ہوں۔ فوج سیاست میں دخیل ہوچکی ہے یہ تو سب جانتے ہیں، لیکن دخیل کیوں ہوئی ہے، بات تو اس پر ہونی چاہئے۔ آپ سیاستدانوں سے زیادہ فوج کو قصور وار گردانتے ہیں جبکہ میرا نظریہ اس کے برعکس ہے۔ ہم عوام سیاستدانوں کو ووٹ دے کر/ اختیار تھما کر کرسی پر بٹھاتے ہیں، فوج کو نہیں۔ اگر وہ اپنی نا اہلیوں سے فوج کو خود پر سوار کرلیتے ہیں تو اس میں عوام کا قطعاً کوئی قصور نہیں۔ یہ تو ایسے ہی جیسے کسی بس کی سواریاں ایک شخص پر اعتماد کرکے اسے ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھائیں اور وہ شخص اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرنے کی بجائے کسی اور کے اشارے پر بس چلانے لگانے اور آخر کار بس کو کھائی میں جا گرائے۔ اس صورتِ حال میں زیادہ تر قصور اس شخص کا ہے جو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا، کیونکہ اس کے پاس آپشن تھا کہ اگر اس کو بس چلانے کے لئے اپنی صلاحیتیں استعمال نہیں کرنے دی جارہیں تو وہ جن سواریوں کا اعتماد حاصل کرکے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہے، ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی بجائے ڈرائیونگ سیٹ سے اٹھ کھڑا ہو اور سواریوں کو اصل صورت حال سے آگاہ کردے۔ جبکہ یہاں تو یہ صورتِ حال ہے کہ فوج چاہے ان سے سارا اختیار چھین لے، لیکن ملکی دولت لوٹنے کے لئے یہ کرسی سے چمٹے رہتے ہیں ۔

آپ کی آخری بات سے متفق نہیں، سیاستدان خود کو سدھاریں تو فوج کی جرات نہیں سیاست کے ایوانوں میں قدم رکھے۔
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
Re: ایک گزارش

سویلین صاحب!، جواب میں تاخیر پر معذرت، آپ کی اکثر باتوں سے اتفاق کرتا ہوں اور کچھ باتوں سے اختلاف کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ آپ نے شروع میں جو کچھ بیان کیا وہ تو مسئلہ ہے، جبکہ میں مسئلے کی وجوہات کی بات کررہا ہوں۔ فوج سیاست میں دخیل ہوچکی ہے یہ تو سب جانتے ہیں، لیکن دخیل کیوں ہوئی ہے، بات تو اس پر ہونی چاہئے۔ آپ سیاستدانوں سے زیادہ فوج کو قصور وار گردانتے ہیں جبکہ میرا نظریہ اس کے برعکس ہے۔ ہم عوام سیاستدانوں کو ووٹ دے کر/ اختیار تھما کر کرسی پر بٹھاتے ہیں، فوج کو نہیں۔ اگر وہ اپنی نا اہلیوں سے فوج کو خود پر سوار کرلیتے ہیں تو اس میں عوام کا قطعاً کوئی قصور نہیں۔ یہ تو ایسے ہی جیسے کسی بس کی سواریاں ایک شخص پر اعتماد کرکے اسے ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھائیں اور وہ شخص اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرنے کی بجائے کسی اور کے اشارے پر بس چلانے لگانے اور آخر کار بس کو کھائی میں جا گرائے۔ اس صورتِ حال میں زیادہ تر قصور اس شخص کا ہے جو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا، کیونکہ اس کے پاس آپشن تھا کہ اگر اس کو بس چلانے کے لئے اپنی صلاحیتیں استعمال نہیں کرنے دی جارہیں تو وہ جن سواریوں کا اعتماد حاصل کرکے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہے، ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی بجائے ڈرائیونگ سیٹ سے اٹھ کھڑا ہو اور سواریوں کو اصل صورت حال سے آگاہ کردے۔ جبکہ یہاں تو یہ صورتِ حال ہے کہ فوج چاہے ان سے سارا اختیار چھین لے، لیکن ملکی دولت لوٹنے کے لئے یہ کرسی سے چمٹے رہتے ہیں ۔

آپ کی آخری بات سے متفق نہیں، سیاستدان خود کو سدھاریں تو فوج کی جرات نہیں سیاست کے ایوانوں میں قدم رکھے۔


آپ کے ایک ایک لفظ سے متفق ہوں ..... شروع سے میرا یہ کہنا ہے .....اصل قصور وار ہمارے نا اہل سیاستدان ہی ہیں
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
پیارے اڈمن ..ہمارے اڈمن ..
آپ سے گزارش کریں یا حکم جیسی کوئی بات کریں....ڈس لائیک کا بٹن فل فور ختم کیا جائے ..خدا کی پناہ ..اتنے ڈس لائیک تو اپنی پوری فورمی زندگی میں نہیں ملے جتنے اس ایک تھریڈ میں کما لئے

ہم کہہ رہے ہیں کہ ہماری طبع نازک پر گراں گزرتے ہیں .. یہاں انہوں نے تو ہماری جان لے لینے کی جیسے ٹھان لی .

اب اس سے پہلے کے ڈس لائیک کی موسلا دھار بارش ہو ..یہ آپشن ہی ختم کر دیں ..کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ..
 

Democrate

Chief Minister (5k+ posts)
Re: ایک گزارش

آپ کے ایک ایک لفظ سے متفق ہوں ..... شروع سے میرا یہ کہنا ہے .....اصل قصور وار ہمارے نا اہل سیاستدان ہی ہیں


آپ کی اس بات سے متفق ہووے بنا چارہ نہیں بلکہ آپ کی اسی بات کو آگے بڑھاتے ہووے مثال دونگا تاکہ سند رہے اور آپ کو بوقت ضرورت کام بھی آ سکے
سب سے زیادہ نا اہل سیاستدان تو محترمہ فاطمہ جناح تھیں جنکو انکی نا اہلی کے پیش نظر ایک ڈکٹیٹر نے بندری ،کتیا کا خطاب دیا تھا اور انکی اس نا اہلی کا اسے بڑا ثبوت کیا ہو گا کے انکو ذلیل کر کہ وہ دس سال تک حکمرانی کرتا رہا
لیکن آپ کی بات سے متفق ہوں وہ ہیں ہی نا اہل تھیں اور قائد اعظم سب سے بڑے بے وقوف جو فاطمہ پر اعتماد کرتے رہے
متفق ہوں

 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
Re: ایک گزارش



آپ کی اس بات سے متفق ہووے بنا چارہ نہیں بلکہ آپ کی اسی بات کو آگے بڑھاتے ہووے مثال دونگا تاکہ سند رہے اور آپ کو بوقت ضرورت کام بھی آ سکے
سب سے زیادہ نا اہل سیاستدان تو محترمہ فاطمہ جناح تھیں جنکو انکی نا اہلی کے پیش نظر ایک ڈکٹیٹر نے بندری ،کتیا کا خطاب دیا تھا اور انکی اس نا اہلی کا اسے بڑا ثبوت کیا ہو گا کے انکو ذلیل کر کہ وہ دس سال تک حکمرانی کرتا رہا
لیکن آپ کی بات سے متفق ہوں وہ ہیں ہی نا اہل تھیں اور قائد اعظم سب سے بڑے بے وقوف جو فاطمہ پر اعتماد کرتے رہے
متفق ہوں




میں ذرا بھول رہی ہوں ..ذرا مجھے یاد تو کرانا ..کس نون لیگی وزیر کے والد تھے جنہوں نے کتیا کے گلے میں محترمہ فاطمہ جناح کے نام کی تحتی ڈال کر گلی گلی پھرایا تھا
 

Malangi

Banned
Re: ایک گزارش

میں ذرا بھول رہی ہوں ..ذرا مجھے یاد تو کرانا ..کس نون لیگی وزیر کے والد تھے جنہوں نے کتیا کے گلے میں محترمہ فاطمہ جناح کے نام کی تحتی ڈال کر گلی گلی پھرایا تھا



حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کیا کرتے تھے؟ کیا لوگوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس لیے نبی ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ انکے والد آذر نہ
صرف [FONT=&amp]پرست تھے بلکہ بت گر بھی تھے [/FONT]

خرم دستگیر کے والد غلام دستگیر جنرل ایوب خان کے آدمی تھے اور اس نے یہ غلیظ حرکت ایوب خان کی ایما پر یا اسے خوش کرنے کیلیے کی تھی جس طرح آج کے بوٹ چاٹییے فوجیوں کی خوشامد کرتے ہیں. کسی باپ کے غلط کام کی زمہ داری بیٹے پر نہیں
ڈالی [FONT=&quot]جا سکتی ہے [/FONT]







 

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)
پیارے اڈمن ..ہمارے اڈمن ..
آپ سے گزارش کریں یا حکم جیسی کوئی بات کریں....ڈس لائیک کا بٹن فل فور ختم کیا جائے ..خدا کی پناہ ..اتنے ڈس لائیک تو اپنی پوری فورمی زندگی میں نہیں ملے جتنے اس ایک تھریڈ میں کما لئے

ہم کہہ رہے ہیں کہ ہماری طبع نازک پر گراں گزرتے ہیں .. یہاں انہوں نے تو ہماری جان لے لینے کی جیسے ٹھان لی .

اب اس سے پہلے کے ڈس لائیک کی موسلا دھار بارش ہو ..یہ آپشن ہی ختم کر دیں ..کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ..

آپ ڈس لائیک اتنا زیادہ ڈس لائیک کیوں کرتی ہیں، یہ سب بحث و مباحثہ کے رنگ ہیں، ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے، یہ تو آپ کی مہربانی ہے کہ لائیک دیدیتی ہیں، ورنہ بندہ اس قابل کہاں؟

،
 

The Great Bloody Civilian

Voter (50+ posts)
Re: ایک گزارش

سویلین صاحب!، جواب میں تاخیر پر معذرت، آپ کی اکثر باتوں سے اتفاق کرتا ہوں اور کچھ باتوں سے اختلاف کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ آپ نے شروع میں جو کچھ بیان کیا وہ تو مسئلہ ہے، جبکہ میں مسئلے کی وجوہات کی بات کررہا ہوں۔ فوج سیاست میں دخیل ہوچکی ہے یہ تو سب جانتے ہیں، لیکن دخیل کیوں ہوئی ہے، بات تو اس پر ہونی چاہئے۔ آپ سیاستدانوں سے زیادہ فوج کو قصور وار گردانتے ہیں جبکہ میرا نظریہ اس کے برعکس ہے۔ ہم عوام سیاستدانوں کو ووٹ دے کر/ اختیار تھما کر کرسی پر بٹھاتے ہیں، فوج کو نہیں۔ اگر وہ اپنی نا اہلیوں سے فوج کو خود پر سوار کرلیتے ہیں تو اس میں عوام کا قطعاً کوئی قصور نہیں۔ یہ تو ایسے ہی جیسے کسی بس کی سواریاں ایک شخص پر اعتماد کرکے اسے ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھائیں اور وہ شخص اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرنے کی بجائے کسی اور کے اشارے پر بس چلانے لگانے اور آخر کار بس کو کھائی میں جا گرائے۔ اس صورتِ حال میں زیادہ تر قصور اس شخص کا ہے جو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا، کیونکہ اس کے پاس آپشن تھا کہ اگر اس کو بس چلانے کے لئے اپنی صلاحیتیں استعمال نہیں کرنے دی جارہیں تو وہ جن سواریوں کا اعتماد حاصل کرکے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہے، ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی بجائے ڈرائیونگ سیٹ سے اٹھ کھڑا ہو اور سواریوں کو اصل صورت حال سے آگاہ کردے۔ جبکہ یہاں تو یہ صورتِ حال ہے کہ فوج چاہے ان سے سارا اختیار چھین لے، لیکن ملکی دولت لوٹنے کے لئے یہ کرسی سے چمٹے رہتے ہیں ۔

آپ کی آخری بات سے متفق نہیں، سیاستدان خود کو سدھاریں تو فوج کی جرات نہیں سیاست کے ایوانوں میں قدم رکھے۔



ڈکٹیٹر صاحب، معزرت کی ضرورت نہیں ہے. میں سمجھ سکتا ہوں کہ ہر بندہ اپنے فرائض سے فارغ ہو کر ہی فورم کا رخ کرتا ہے. آپ سے ایک بار پھر اختلاف کرنے کی جرات کر رہا ہوں، امید ہے آپکو ناگوار نہیں گزرے گی


آپ بات بغیر کسی لاجک یا اصول کے کر رہے ہیں. کسی کو غلط اور صحیح قرار دینے کیلیے اپنا اصول بنائیں اور پھر ان اصولوں کی بنیاد پر کسی کو پرکھیں. آپ کس اصول، آئین یا قانون یا کسی اور ٹھوس بنیاد پر فوج کی سیاست میں مداخلت کو جائز مان رہے ہیں؟ ہمارا بنیادی مسئلہ ہی یہی ہے کہ ہم نے اصولوں کی بجائے کسی ایک کے غلط کاموں کو بنیاد بنا کر دوسرے کے غلط کام کو جائز ماں لیا ہے. سیاستدانوں نے نہ تو فوج کی طرح اپنے حلف کی خلاف ورزی کی تھی اور نہ ہی آئین شکنی کی تھی. ایک آئین اور قانون پسند بلڈی سویلین کی حیثیت سے میں سیاستدانوں کے جھگڑوں کو بنیاد بنا کر میں فوج کو آئین، قانون اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کو جائز قرار نہیں دے سکتا ہوں، آپ ایک ڈکٹیٹر کی حیثیت سے بے شک ایسا سوچ سکتے ہیں


جب تک ہم بنیادی مسئلے کو ہی نہیں سمجھیں گے تو مسئلے کا حل کیا نکالیں گے؟ کتا کنویں میں گر جائے تو پانی کی چند بالٹیاں نکالنے سے کنواں پاک نہیں ہو جاتا ہے. کنویں کو پاک کرنے کیلیے کتے کو کنویں سے نکالنا لازم ہے ورنہ کتے کی کنویں میں موجودگی میں سارا پانی بھی کنویں میں سے نکال دیں تو کنواں پاک نہیں ہوگا. یہی میرا پوانیٹ ہے کہ ہمارے حکمران فرشتے بھی بن جائیں اور ہم دنیا کی بہترین جمہوریت کا اعزاز بھی حاصل کر لیں لیکن جب تک فوج خود کو کو آئین اور قانون کا پابند نہیں بناتی ہے اور وردی پہن کر اپنی بد معاشی جاری رکھتی ہے تب تک حکومت، پارلیمنٹ اور دیگر ادارے فوج کی بد معاشی اور دہشتگردی کا مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں


یہ کوئی جواز نہیں ہے اور نہ ہی اسکی کوئی منطق ہے کہ سیاستدانوں کی وجہ سے فوج آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیرتی ہے اور سیاستدان خود کو ٹھیک کر لیں تو فوج آئین اور قانون کا احترام کرنے لگے گی. ہاں، اس بات کا قائل ضرور ہوں کہ ہر ادارے کو آئین اور قانون کے اندر رہ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے لیکن اس شرط کی میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے کہ فوج خود کو تب ٹھیک کرے گی جب سیاستدان اپنے آپ کو ٹھیک کر لیں گے. فوج کے خود کو ٹھیک کرنے اور سیاستدانوں کے خود کو ٹھیک کرنے کے درمیان کوئی ایسوسی ایشن نہیں ہے. آئین نے ہر ایک ادارے کی حدود واضح طور پر مقرر کر رکھی ہے. ہر ادارے کو آزادانہ طور پر خود کو ٹھیک کرنا ہے


آئین کے تحت پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے اور ہر ادارہ اسے جوابدہ ہے. پارلیمنٹ عوام کے منتخب لوگوں پر مشتمل ہے اور عوام کو جوابدہ ہے. آئین کے تحت اس ملک میں حاکمیت اعلی الله تعالیٰ کی ہے اور عوام الله تعالیٰ کے نائب کی حیثیت سے اس ملک کی حاکم ہے. عوام اپنی منتخب پارلیمنٹ کے ذریعے فوج سمیت دیگر اداروں کو کنٹرول کرتی ہے


فوج کی طرف سے آئین کی مسلسل خلاف ورزی اور ملک پر ناجائز قبضے کی وجہ سے ہم مشرقی پاکستان کھو چکے ہیں. اب بھی اگر فوج کو شرم نہ آئی اور اس نے آئین کی خلاف ورزی اور ریاستی امور میں مداخلت جاری رکھی تو خدا نخواستہ وہ دن دور نہیں جب اس فوج کے منہ پر ڈھاکہ کے پلٹن گراونڈ میں لگنے والے رسوائی کے داغ سے بھی بڑی ذلت کا داغ لگے گا


 

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)
الله پاک صحت تندرستی دے (آمین)

ویسے سوئم اور چہلم پر بھی کھانے کی ہی فکر ہے


اللہ صحتمند و تندرست رکھے، اندازہ یہی ہے کہ محترمہ جان و جثہ میں کسی پہلوان کم نہ ہوں گی، کھانے کی بات ازرہ تفنن کی ہے برا نہ مانئے گا، طبیعت میں چلبلا پن کا اعتراف کرتا ہوں، اسے ہماری شخصیت کا ایک رنگ سمجھ کر نظر انداز کردیں۔
 

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)
Re: ایک گزارش




حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کیا کرتے تھے؟ کیا لوگوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس لیے نبی ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ انکے والد آذر نہ
صرف [FONT=&amp]پرست تھے بلکہ بت گر بھی تھے [/FONT]



یہاں میں ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا چاہوں گا، بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مشرک آذر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا والد تھا لیکن تحقیق اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تارخ تھا اور وہ موحد (توحید پرست مسلمان) تھے اور مشرک آذر آپ کا چچا تھا۔
قرآن میں ہے: ترجمہ: اور (اے محبوبﷺ یاد کرو) جب ابراہیم نے اپنے باپ آذر سے کہا: کیا تم بتوں کو خدا بناتے ہو؟ بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں۔
اس آیت سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ مشرک آذر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا والد تھا لیکن تحقیق اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تارخ تھا اور وہ موحد (توحید پرست مسلمان) تھے اور مشرک آذر آپ کا چچا تھا۔ حافظ ابن کثیر دمشقی البدایہ و النہایہ جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 142۔ پر لکھتے ہیں: جمھور علماء نسب بشمول حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سب اس پر متفق ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تارخ تھا، اور اہل کتاب بھی تارخ بتاتے ہیں جبکہ حدیث نبوی بھی اس پر قوی دلیل ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ترجمہ: یعنی ہمیشہ سے مجھے پاک باپوں کی پشتوں سے پاک ماؤں کے رحموں میں منتقل کیا گیا۔ (دلائل النبوۃ)
 
Last edited:

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
Re: ایک گزارش




حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کیا کرتے تھے؟ کیا لوگوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس لیے نبی ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ انکے والد آذر نہ
صرف [FONT=&amp]پرست تھے بلکہ بت گر بھی تھے [/FONT]

خرم دستگیر کے والد غلام دستگیر جنرل ایوب خان کے آدمی تھے اور اس نے یہ غلیظ حرکت ایوب خان کی ایما پر یا اسے خوش کرنے کیلیے کی تھی جس طرح آج کے بوٹ چاٹییے فوجیوں کی خوشامد کرتے ہیں. کسی باپ کے غلط کام کی زمہ داری بیٹے پر نہیں
ڈالی [FONT=&amp]جا سکتی ہے [/FONT]










اچھا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

جو غلط کام ہو اس کے پیچھے آپ کو فوج کا نا دیدہ ہاتھ نظر آجاتا ہے ..بلکل اسی طرح جیسے پاکستان میں ہونے والی ہر تباہی کے پیچھے کچھ لوگوں کو امریکہ ، انڈیا اور اسرئیل کا ہاتھ نظر آتا ہے ..

کب اپنی غلطیاں اون کرنا شروع کریں گے ...جب تک ایسا نہیں ہو گا دوسرے کی طرف اشارہ کرتی ایک ہی انگلی ہوگی اور چار آپ کی اپنی طرف ہی اشارہ کر رہی ہونگی .
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)

آپ ڈس لائیک اتنا زیادہ ڈس لائیک کیوں کرتی ہیں، یہ سب بحث و مباحثہ کے رنگ ہیں، ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے، یہ تو آپ کی مہربانی ہے کہ لائیک دیدیتی ہیں، ورنہ بندہ اس قابل کہاں؟

،



مذاق کرتی ہوں ..جتنے مرضی ڈس لائیک دیں











ویسے اتنا مذاق بھی نہیں ہے ..ڈس لائیک دیا ہے تو وجہ بھی بتائیں ...یہ کیا کہ دے کر چلتے بنے
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
Re: ایک گزارش




ڈکٹیٹر صاحب، معزرت کی ضرورت نہیں ہے. میں سمجھ سکتا ہوں کہ ہر بندہ اپنے فرائض سے فارغ ہو کر ہی فورم کا رخ کرتا ہے. آپ سے ایک بار پھر اختلاف کرنے کی جرات کر رہا ہوں، امید ہے آپکو ناگوار نہیں گزرے گی


آپ بات بغیر کسی لاجک یا اصول کے کر رہے ہیں. کسی کو غلط اور صحیح قرار دینے کیلیے اپنا اصول بنائیں اور پھر ان اصولوں کی بنیاد پر کسی کو پرکھیں. آپ کس اصول، آئین یا قانون یا کسی اور ٹھوس بنیاد پر فوج کی سیاست میں مداخلت کو جائز مان رہے ہیں؟ ہمارا بنیادی مسئلہ ہی یہی ہے کہ ہم نے اصولوں کی بجائے کسی ایک کے غلط کاموں کو بنیاد بنا کر دوسرے کے غلط کام کو جائز ماں لیا ہے. سیاستدانوں نے نہ تو فوج کی طرح اپنے حلف کی خلاف ورزی کی تھی اور نہ ہی آئین شکنی کی تھی. ایک آئین اور قانون پسند بلڈی سویلین کی حیثیت سے میں سیاستدانوں کے جھگڑوں کو بنیاد بنا کر میں فوج کو آئین، قانون اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کو جائز قرار نہیں دے سکتا ہوں، آپ ایک ڈکٹیٹر کی حیثیت سے بے شک ایسا سوچ سکتے ہیں


جب تک ہم بنیادی مسئلے کو ہی نہیں سمجھیں گے تو مسئلے کا حل کیا نکالیں گے؟ کتا کنویں میں گر جائے تو پانی کی چند بالٹیاں نکالنے سے کنواں پاک نہیں ہو جاتا ہے. کنویں کو پاک کرنے کیلیے کتے کو کنویں سے نکالنا لازم ہے ورنہ کتے کی کنویں میں موجودگی میں سارا پانی بھی کنویں میں سے نکال دیں تو کنواں پاک نہیں ہوگا. یہی میرا پوانیٹ ہے کہ ہمارے حکمران فرشتے بھی بن جائیں اور ہم دنیا کی بہترین جمہوریت کا اعزاز بھی حاصل کر لیں لیکن جب تک فوج خود کو کو آئین اور قانون کا پابند نہیں بناتی ہے اور وردی پہن کر اپنی بد معاشی جاری رکھتی ہے تب تک حکومت، پارلیمنٹ اور دیگر ادارے فوج کی بد معاشی اور دہشتگردی کا مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں


یہ کوئی جواز نہیں ہے اور نہ ہی اسکی کوئی منطق ہے کہ سیاستدانوں کی وجہ سے فوج آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیرتی ہے اور سیاستدان خود کو ٹھیک کر لیں تو فوج آئین اور قانون کا احترام کرنے لگے گی. ہاں، اس بات کا قائل ضرور ہوں کہ ہر ادارے کو آئین اور قانون کے اندر رہ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے لیکن اس شرط کی میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے کہ فوج خود کو تب ٹھیک کرے گی جب سیاستدان اپنے آپ کو ٹھیک کر لیں گے. فوج کے خود کو ٹھیک کرنے اور سیاستدانوں کے خود کو ٹھیک کرنے کے درمیان کوئی ایسوسی ایشن نہیں ہے. آئین نے ہر ایک ادارے کی حدود واضح طور پر مقرر کر رکھی ہے. ہر ادارے کو آزادانہ طور پر خود کو ٹھیک کرنا ہے


آئین کے تحت پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے اور ہر ادارہ اسے جوابدہ ہے. پارلیمنٹ عوام کے منتخب لوگوں پر مشتمل ہے اور عوام کو جوابدہ ہے. آئین کے تحت اس ملک میں حاکمیت اعلی الله تعالیٰ کی ہے اور عوام الله تعالیٰ کے نائب کی حیثیت سے اس ملک کی حاکم ہے. عوام اپنی منتخب پارلیمنٹ کے ذریعے فوج سمیت دیگر اداروں کو کنٹرول کرتی ہے


فوج کی طرف سے آئین کی مسلسل خلاف ورزی اور ملک پر ناجائز قبضے کی وجہ سے ہم مشرقی پاکستان کھو چکے ہیں. اب بھی اگر فوج کو شرم نہ آئی اور اس نے آئین کی خلاف ورزی اور ریاستی امور میں مداخلت جاری رکھی تو خدا نخواستہ وہ دن دور نہیں جب اس فوج کے منہ پر ڈھاکہ کے پلٹن گراونڈ میں لگنے والے رسوائی کے داغ سے بھی بڑی ذلت کا داغ لگے گا





جتنی پاسداری ہمارے سیاستدان اپنے حلف کی کرتے ہیں ..اتنی ہی پاسداری فوج کرتی ہے ..آخر ایک ہی خمیر سے اٹھے ہیں .

جب تک سب کو برابر کا الزام نہیں دیا جائے گا ..میری حمایت ڈکٹیٹر کے لئے جاری رہے گی ..یہ ملک ہمارا بھی اتنا ہی ہے ..ہمیں بھی جمہوریت اتنی ہی اچھی لگتی ہے ....لیکن خالص جمہوریت ..جمہوریت کے پردے میں لپٹی بادشاہی آمریت نہیں
 

عام آدمی

MPA (400+ posts)
Re: ایک گزارش

برابر کا الزام کہاں آپکو نظر آتا ہے
کیا میں سٹریم میڈیا میں جرنیلوں کی مٹی بھی اسی طرح پلید ہوتی ہے جیسے سیاستدانوں کی
آپکے خیال میں کیا وجہ ہے کہ میڈیا جرنیلوں پر ہاتھ نرم رکھتا ہے

جتنی پاسداری ہمارے سیاستدان اپنے حلف کی کرتے ہیں ..اتنی ہی پاسداری فوج کرتی ہے ..آخر ایک ہی خمیر سے اٹھے ہیں .

جب تک سب کو برابر کا الزام نہیں دیا جائے گا ..میری حمایت ڈکٹیٹر کے لئے جاری رہے گی ..یہ ملک ہمارا بھی اتنا ہی ہے ..ہمیں بھی جمہوریت اتنی ہی اچھی لگتی ہے ....لیکن خالص جمہوریت ..جمہوریت کے پردے میں لپٹی بادشاہی آمریت نہیں
 

Malangi

Banned
Re: ایک گزارش


یہاں میں ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا چاہوں گا، بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مشرک آذر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا والد تھا لیکن تحقیق اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تارخ تھا اور وہ موحد (توحید پرست مسلمان) تھے اور مشرک آذر آپ کا چچا تھا۔
قرآن میں ہے: ترجمہ: اور (اے محبوبﷺ یاد کرو) جب ابراہیم نے اپنے باپ آذر سے کہا: کیا تم بتوں کو خدا بناتے ہو؟ بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں۔
اس آیت سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ مشرک آذر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا والد تھا لیکن تحقیق اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تارخ تھا اور وہ موحد (توحید پرست مسلمان) تھے اور مشرک آذر آپ کا چچا تھا۔ حافظ ابن کثیر دمشقی البدایہ و النہایہ جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 142۔ پر لکھتے ہیں: جمھور علماء نسب بشمول حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سب اس پر متفق ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تارخ تھا، اور اہل کتاب بھی تارخ بتاتے ہیں جبکہ حدیث نبوی بھی اس پر قوی دلیل ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ترجمہ: یعنی ہمیشہ سے مجھے پاک باپوں کی پشتوں سے پاک ماؤں کے رحموں میں منتقل کیا گیا۔ (دلائل النبوۃ)



اچھا ضیاء حیدری صاحب، آپ مولوی بہتر جانتے ہیں


پھر ممکن ہے (نعوز باللہ) الله تعالیٰ کو غلطی لگ گئی ہوگی جو الله تعالیٰ نے قران میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا کو انکے والد کہہ دیا ہے


اور قران میں کیا کیا غلطیاں ہیں جو مولویوں نے تحقیق کرکے درست کی ہیں؟


----------


کوئی عقل کو ہاتھ مارا کرو اور خدا کا خوف کیا کرو. کم از کم بات کرنے سے پہلے تھوڑا سوچ ہی لیا کرو