Should Like/Dislike be replaced with Agree/Disagree? (Poll added)

Should Like/Dislike be replaced with Agree/Disagree?

  • Yes

    Votes: 61 35.3%
  • No

    Votes: 112 64.7%

  • Total voters
    173
  • Poll closed .

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)
Re: ایک گزارش

..


طبع نازک پر کیا کیاگراں گزرتا ہے، جان رکھو دنیا کبھی ایک رائے پر جمع نہیں ہوسکتی ہے۔ ڈکٹیٹر شپ کی بجائے، اختلاف رائے برداشت کرو کیونکہ اس سے روادوری پیدا ہوتی ہے۔
آپ کی سولہ ہزار پوسٹ ہیں اور ڈس لائیک صرف ساڑھے پانسو۔ یعنی تین اعشاریہ تین فیصد۔ جبکہ میری تیرہ فیصد بنتی ہیں۔ لگتا ہے فیمیل فیکٹر کی وجہ سے فورم آپ کے ساتھ سوفٹ ہے۔
میں اگر راز صاحب کو کچھ کہہ دوں، تو ہر پوسٹ کو ڈس لائیک کرنا شروع کردیتے ہیں، جبکہ آپ کی ہر بات برداشت کرکے کورنش بجا لاتے ہیں۔


 

eye-eye-PTI

Chief Minister (5k+ posts)
پول کے نتیجے سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام لائیک ، ڈس لائیک اور تھینکس کے بٹنوں سے خوش ہے ۔۔۔ فلحال عوام ان بٹنوں میں تبدیلی کی خواہاں نہیں ہے

اس پول کے نتیجے میں 70 اعشاریہ 10 فیصد سے زیادہ لوگوں نے " نو " کے حق میں ووٹ دیا ہے

امید کرتا ہوں ایڈمن زبان خلق کو ناکارہ خدا سمجھ کر ان بٹنوں کو اپنی اصلی حالت میں ہی رہنے دے گی۔
 

aamir_uetn

Prime Minister (20k+ posts)
Re: ایک گزارش

میں نے تو خود اس سروے میں اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا


:lol:



میں تو ڈکٹیٹر شپ کے حق میں ہوں ....ثبوت کے لئے میری پوسٹ نمبر دو سو سرسٹھ دیکھ لیں





پیارے اڈمن ..ہمارے اڈمن ..
آپ سے گزارش کریں یا حکم جیسی کوئی بات کریں....ڈس لائیک کا بٹن فل فور ختم کیا جائے ..خدا کی پناہ ..اتنے ڈس لائیک تو اپنی پوری فورمی زندگی میں نہیں ملے جتنے اس ایک تھریڈ میں کما لئے

ہم کہہ رہے ہیں کہ ہماری طبع نازک پر گراں گزرتے ہیں .. یہاں انہوں نے تو ہماری جان لے لینے کی جیسے ٹھان لی .

اب اس سے پہلے کے ڈس لائیک کی موسلا دھار بارش ہو ..یہ آپشن ہی ختم کر دیں ..کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ..

اس پول کا رزلٹ بھی ویسے ٢٠١٣ کے الیکشن کی طرح آ رہا ہے ، شروع میں بٹن ختم کرنے کے زیادہ ووٹس تھے رفتہ رفتہ مخالف ووٹ بڑھ گئے ، کمیشن بٹھانا پڑے گا اس کے لئے بھی
 

aamir_uetn

Prime Minister (20k+ posts)
Re: ایک گزارش

خبر تو جان بوجھ کر ہی دی گئی تھی ..اسی کا اثر ہے کہ وزیر ازم گھر ہی نہیں لوٹ رہے


:lol:

ویسے کیا کمال سین ہو ، وزیر اعظم کی واپسی کے لئے انٹر پول سے رابطہ کر لیا جائے

:lol:
 

The Great Bloody Civilian

Voter (50+ posts)
Re: ایک گزارش




سویلین صاحب! آپ کو میری کس بات سے تاثر ملا کہ میں فوج کی سیاست میں مداخلت کو جائز قرار دے رہا ہوں۔ میں تو فوج کے سیاست میں دخیل ہونے کی وجوہات بیان کررہا ہوں، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں دو گروپ ہیں، ایک وہ جو سیاستدانوں کی سائیڈ پر کھڑے ہیں، ان کو ہر خرابی فوج میں نظر آئے گی اور وہ سیاستدانوں کو بالکل کلین چٹ دیتے ہیں، دوسرا گروپ وہ ہے جو فوج کی سائیڈ پر کھڑا ہے، ان کو فوج فرشتہ لگتی ہے اور وہ ہر خرابی کا ذمہ دار سیاستدانوں کو ٹھہراتے ہیں، یہ دونوں گروپ انتہا پسندی کا شکار ہیں، ایک گروپ ایک انتہا پر کھڑا ہے اور دوسرا گروپ دوسری انتہا پر کھڑا ہے، ان دونوں گروپس میں سے مسائل کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کوئی بھی نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس کے نتیجے میں اپنے اپنے بت پاش ہونے کا خدشہ ہے۔

میں ان میں سے کسی گروپ سے تعلق نہیں رکھتا، اس لئے حقیقت پسندانہ انداز میں دونوں کو قصور وار ٹھہراتا ہوں۔ نہ تو سیاستدانوں کو کلین چٹ دیتا ہوں، نہ فوج کو۔ آپ کا نظریہ یہ ہے کہ سیاستدان چاہے جو مرضی کرتے رہیں، عوام کے مال سے جیبیں بھریں ، ڈیلیور کرنے کی بجائے لوٹ کھسوٹ کریں، لیکن فوج ہرگز ان کے کاموں میں مداخلت نہ کرے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ خاص کر ایسی فوج کے لئے جس کے منہ کو پہلے ہی اقتدار کا چسکا لگ چکا ہے۔ فوج کوسیاست سے بے دخل کرنے کے لئے بہرصورت سیاستدانوں کو ہی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ڈیلیور کرنا ہوگا، قوم کے اندر اپنا اخلاقی قد اونچا کرنا ہوگا۔ یہی اس مسئلے کا حل ہے۔

کیا وجہ ہے کہ عوام نے ہمیشہ سیاستدانوں کا ساتھ دیا، ان کو بھاری اکثریت میں ووٹ دے کر اقتدار کی مسندوں پر بٹھایا اور پھروہی سیاستدان عوام کا وہ حال کرتے ہیں کہ جب کوئی آمر اقتدار پر قابض ہوتا ہے تو ان سیاستدانوں کے لئے ایک آدمی بھی باہر نہیں نکلتا، الٹا مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں۔ اگر عوام کو ان کے مسائل کا حل مل رہا ہو تو وہ کیونکر برداشت کرسکتے ہیں کہ ان کی منتخب شدہ حکومت کو کوئی فوجی آمر آکر ٹھوکر ماردے۔

فوج کو سیاست سے بے دخل کرنے کے لئے سیاستدانوں کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا، عوام کے دل میں اپنی جگہ بنانی ہوگی، سیاستدانوں کو فرشتہ بننے کی بالکل ضرورت نہیں، صرف بندے کا پتر بننے کی ضرورت ہے۔ تب کسی فوجی جرنیل کی جرات نہیں ہوگی کہ کسی منتخب جمہوری حکومت کو گھر بھیجنے کا سوچ بھی سکے ۔اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ سیاستدانوں کے سدھرے بغیر فوج خود بخود گھر چلی جائے تو خواب حقیقت کا روپ دھارنے والا نہیں۔

اگر آپ کے خیمے میں اونٹ گھس آئے تو اس اونٹ سے یہ توقع کرنا کہ وہ خود بخود باہر نکل جائے گا، سراسر بے وقوفی ہوگی، اونٹ کو باہر نکالنے کے لئے خیمے والے کو خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔

آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ فوج جو پچھلی کئی دہائیوں سے سیاست میں دخیل ہے، خود بخود سیاست سے باہر ہوجائے، یہ سراسر خام خیالی ہے، فوج کو سیاست سے باہر کرنے کے لئے سیاستدانوں کو وہی کرنا ہوگا جو میں پہلے عرض کرچکا ہوں،۔




ڈکٹیٹر صاحب، آپ نے اپنے آپ کو غیر جانبدار ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے لیکن حقیقت میں آپ کا واضح جھکاو فوج کی طرف ہے کیونکہ آپ فوج کے غلط کاموں کو وجوہات اور اسباب کی آڑ چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں. آپ فوج کے سیاست میں ملوث ہونے کی جو وجوہات بیان کر رہے ہیں، اصل میں وہ آپ فوج کی آئین شکنی کا جواز فراہم کر رہے ہیں. وجوہات یا اسباب تو بہانہ ہوتے ہیں اور بہانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے. فوج کی آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور سیاست میں مداخلت، جسے آئین میں غداری کہا گیا ہے، کا کوئی بھی جواز فوج کے اس سنگین جرم کو کم نہیں کر سکتا ہے. فوج کی مسلسل آئین شکنی کے باوجود فوجیوں کے بوٹ پالش کرنے والوں نے اس عادی مجرم فوج کو مقدس گائے بنا دیا ہے


ہمارے اصول سیدھے سیدھے ہونے چاہئیں. حالات کچھ بھی ہوں یا وجوہات جو بھی ہوں، آئین کی خلاف ورزی سنگین جرم ہے اور ایسا کرنے والا غدار ہے. جو آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ مجرم ہے اور قابل نفرت اور قابل سزا ہے، قطع نظر اسکے کہ اسکا تعلق فوج سے ہے، عدلیہ سے ہے، بیوروکریسی سے ہے یا سیاست سے ہے


فوج نے قیام پاکستان کے فوری بعد سے ملک اور حکومت پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے. کبھی یہ براہ راست حکومت کر رہی ہوتی ہے اور کبھی پس پردہ رہ کر. فوج نے ملک میں جمہوریت کو کبھی چلنے ہی نہیں دیا ہے اور اسکے نتیجے میں خالص سیاسی ذہن رکھنے والے لوگ جنم نہیں لے سکے ہیں. جن سیاستدانوں کو بنیاد بنا کر آپ فوج کی سیاست میں مداخت کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ بھی اصل میں فوج کی بھٹی سے نکلے ہوئے ہی لوگ ہیں. جب کوئی نیم جمہوری حکمران پر نکالنے لگتا ہے یا فوجیوں سے بغاوت یا حکم عدولی کی کوشش کرتا ہے تو اسے یا تو نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے یا پھر اسے میڈیا، عدلیہ. مذہبی جماعتوں اور فوج کی غلام سیاسی پارٹیوں کی مدد سے سبق سکھایا جاتا ہے اور فوج کے قدموں میں جھکنے پر مجبور کیا جاتا ہے


میں آپکی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا ہوں کہ فوج کو سیاست سے نکالنے کیلیے سیاستدانوں کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا. فوج اپنے اعمال کیلیے جوابدہ ہے اور دیگر ادارے اپنے اعمال کیلیے. فوج نے پہلے ائین شکنی کرکے ملک گنوایا ہے اور ہتھیار ڈالنے والی ذلت و رسوائی اپنے نام لکھوائی ہے. اگر اتنا منہ کالا کروانے کے باوجود فوج آئین شکنی اور سیاست میں مداخلت سے باز نہیں آئی ہے تو اس سے آئیندہ بھی باز آنے کی کوئی توقع نہیں ہے. جب فوجیں سیاست میں ملوث ہو کر عوام کے حقوق غضب کرتی ہیں تو پھر مشرقی پاکستان جیسے سانحات جنم لیتے ہیں. اس فوج نے ایک سانحے سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے اور سیاست میں مداخلت نہیں چھوڑی ہے. کچھ بعید نہیں ہے کہ اسے ایک بار پھر کسی نئے پلٹن گراونڈ میں اسی ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے جس کا داغ اسکے چہرے سے ابھی مٹا نہیں ہے. کل مشرقی پاکستان کی عوام نے ان فوجیوں کے منہ پر جوتے میرے تھے اور اب اگر اس فوج نے اپنی روش نہ بدلی تو وہ دن اب زیادہ دور نہیں ہیں جب یہ فوج مغربی پاکستان کی عوام سے بھی منہ پر جوتے کھائے گی. فوج نے اگر عوام میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا ہے تو اسے آئیں، قانون، حلف کی پاسداری اور فرایض کی ادائیگی کو اولیت دینا ہوگی. فوج کے علاوہ دیگر تمام لوگ اور ادارے آئین و قانون کا احترام کریں گے تو ملک چلے گا ورنہ بیرونی طاقتیں اسے شام، لیبیا اور عراق بنانے میں دیر نہیں کریں گی


 

The Great Bloody Civilian

Voter (50+ posts)
Re: ایک گزارش

جتنی پاسداری ہمارے سیاستدان اپنے حلف کی کرتے ہیں ..اتنی ہی پاسداری فوج کرتی ہے ..آخر ایک ہی خمیر سے اٹھے ہیں .

جب تک سب کو برابر کا الزام نہیں دیا جائے گا ..میری حمایت ڈکٹیٹر کے لئے جاری رہے گی ..یہ ملک ہمارا بھی اتنا ہی ہے ..ہمیں بھی جمہوریت اتنی ہی اچھی لگتی ہے ....لیکن خالص جمہوریت ..جمہوریت کے پردے میں لپٹی بادشاہی آمریت نہیں



پہلی بات یہ ہے کہ سیاستدانوں کا کوئی حلف نہیں ہوتا ہے. دوسری بات یہ ہے کہ حلف کی خلاف ورزی اور آئین توڑنے میں بہت فرق ہے


کبھی کسی سیاستداں یا سیاسی حکمران نے آئین نہیں توڑا ہے. آئین توڑنا غداری ہے اور فوج اس ملک کے ساتھ چار بار غداری کر چکی ہے


جس ملک کی فوج ہی ملک سے غدار ہو اس سے ملک کے دفاع کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟


ویسے بھی اس فوج کو ملک توڑنے اور ہتھیار ڈالنے کا "اعزاز" حاصل ہے. سیاستدانوں کا اتنے "عظیم اعزاز" کی حامل فوج سے کیا مقابلہ؟


 

_Dictator_

Politcal Worker (100+ posts)
Re: ایک گزارش



ڈکٹیٹر صاحب، آپ نے اپنے آپ کو غیر جانبدار ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے لیکن حقیقت میں آپ کا واضح جھکاو فوج کی طرف ہے کیونکہ آپ فوج کے غلط کاموں کو وجوہات اور اسباب کی آڑ چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں. آپ فوج کے سیاست میں ملوث ہونے کی جو وجوہات بیان کر رہے ہیں، اصل میں وہ آپ فوج کی آئین شکنی کا جواز فراہم کر رہے ہیں. وجوہات یا اسباب تو بہانہ ہوتے ہیں اور بہانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے. فوج کی آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور سیاست میں مداخلت، جسے آئین میں غداری کہا گیا ہے، کا کوئی بھی جواز فوج کے اس سنگین جرم کو کم نہیں کر سکتا ہے. فوج کی مسلسل آئین شکنی کے باوجود فوجیوں کے بوٹ پالش کرنے والوں نے اس عادی مجرم فوج کو مقدس گائے بنا دیا ہے


ہمارے اصول سیدھے سیدھے ہونے چاہئیں. حالات کچھ بھی ہوں یا وجوہات جو بھی ہوں، آئین کی خلاف ورزی سنگین جرم ہے اور ایسا کرنے والا غدار ہے. جو آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ مجرم ہے اور قابل نفرت اور قابل سزا ہے، قطع نظر اسکے کہ اسکا تعلق فوج سے ہے، عدلیہ سے ہے، بیوروکریسی سے ہے یا سیاست سے ہے


فوج نے قیام پاکستان کے فوری بعد سے ملک اور حکومت پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے. کبھی یہ براہ راست حکومت کر رہی ہوتی ہے اور کبھی پس پردہ رہ کر. فوج نے ملک میں جمہوریت کو کبھی چلنے ہی نہیں دیا ہے اور اسکے نتیجے میں خالص سیاسی ذہن رکھنے والے لوگ جنم نہیں لے سکے ہیں. جن سیاستدانوں کو بنیاد بنا کر آپ فوج کی سیاست میں مداخت کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ بھی اصل میں فوج کی بھٹی سے نکلے ہوئے ہی لوگ ہیں. جب کوئی نیم جمہوری حکمران پر نکالنے لگتا ہے یا فوجیوں سے بغاوت یا حکم عدولی کی کوشش کرتا ہے تو اسے یا تو نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے یا پھر اسے میڈیا، عدلیہ. مذہبی جماعتوں اور فوج کی غلام سیاسی پارٹیوں کی مدد سے سبق سکھایا جاتا ہے اور فوج کے قدموں میں جھکنے پر مجبور کیا جاتا ہے


میں آپکی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا ہوں کہ فوج کو سیاست سے نکالنے کیلیے سیاستدانوں کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا. فوج اپنے اعمال کیلیے جوابدہ ہے اور دیگر ادارے اپنے اعمال کیلیے. فوج نے پہلے ائین شکنی کرکے ملک گنوایا ہے اور ہتھیار ڈالنے والی ذلت و رسوائی اپنے نام لکھوائی ہے. اگر اتنا منہ کالا کروانے کے باوجود فوج آئین شکنی اور سیاست میں مداخلت سے باز نہیں آئی ہے تو اس سے آئیندہ بھی باز آنے کی کوئی توقع نہیں ہے. جب فوجیں سیاست میں ملوث ہو کر عوام کے حقوق غضب کرتی ہیں تو پھر مشرقی پاکستان جیسے سانحات جنم لیتے ہیں. اس فوج نے ایک سانحے سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے اور سیاست میں مداخلت نہیں چھوڑی ہے. کچھ بعید نہیں ہے کہ اسے ایک بار پھر کسی نئے پلٹن گراونڈ میں اسی ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے جس کا داغ اسکے چہرے سے ابھی مٹا نہیں ہے. کل مشرقی پاکستان کی عوام نے ان فوجیوں کے منہ پر جوتے میرے تھے اور اب اگر اس فوج نے اپنی روش نہ بدلی تو وہ دن اب زیادہ دور نہیں ہیں جب یہ فوج مغربی پاکستان کی عوام سے بھی منہ پر جوتے کھائے گی. فوج نے اگر عوام میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا ہے تو اسے آئیں، قانون، حلف کی پاسداری اور فرایض کی ادائیگی کو اولیت دینا ہوگی. فوج کے علاوہ دیگر تمام لوگ اور ادارے آئین و قانون کا احترام کریں گے تو ملک چلے گا ورنہ بیرونی طاقتیں اسے شام، لیبیا اور عراق بنانے میں دیر نہیں کریں گی






سویلین صاحب! آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ یہاں ہم فوج کی سیاست میں مداخلت کے اسباب و علل پر ہی بحث کررہے ہیں، اور اس حقیقت کی گولی آپ کو نگلنی ہی ہوگی چاہے آپ کو کتنی ہی کڑوی لگے۔

چلیے لمبی بحث کی بجائے ٹو دی پوائنٹ بات کرتے ہیں، آپ ایک سیدھے سیدھے سوال کا جواب دیجئے۔ کیا آپ اس بات کی توقع کررہے ہیں کہ فوج خود بخود سیاست سے نکل کر بیرکوں میں چلی جائے گی۔۔۔۔۔۔َ؟

نوٹ: سوال یہ نہیں ہے کہ کیا فوج کو واپس چلے جانا چاہئے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا فوج اس طرح واپس جائے گی یا نہیں، برائے مہربانی پاکستان کے حالات و تاریخ کو مدنظر رکھ کر حقیقت پسندانہ جواب دیجئے۔



 

_Dictator_

Politcal Worker (100+ posts)
Re: ایک گزارش




پہلی بات یہ ہے کہ سیاستدانوں کا کوئی حلف نہیں ہوتا ہے. دوسری بات یہ ہے کہ حلف کی خلاف ورزی اور آئین توڑنے میں بہت فرق ہے


کبھی کسی سیاستداں یا سیاسی حکمران نے آئین نہیں توڑا ہے. آئین توڑنا غداری ہے اور فوج اس ملک کے ساتھ چار بار غداری کر چکی ہے


جس ملک کی فوج ہی ملک سے غدار ہو اس سے ملک کے دفاع کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟


ویسے بھی اس فوج کو ملک توڑنے اور ہتھیار ڈالنے کا "اعزاز" حاصل ہے. سیاستدانوں کا اتنے "عظیم اعزاز" کی حامل فوج سے کیا مقابلہ؟







سویلین صاحب! اپنی معلومات تو اپ ڈیٹ کریں، آپ سے کس نے کہا کہ سیاستدان حلف نہیں لیتے، کیا ایک ایم این اے منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں حلف نہیں اٹھاتا، کیا ایک وزیر حلف نہیں اٹھاتا، کیا وزیراعظم حلف نہیں اٹھاتا۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا بات کررہے ہیں آپ۔۔۔ حقائق کو مسخ تو مت کریں۔
 

Bawa

Chief Minister (5k+ posts)
Who's preventing you to eat that dear slice of yours? I am merely asking you to eat Yogurt aswell, it will resolve your thirst complain.





السلام و علیکم سائیں جی


امید ہے آپ خیریت سے ہیں اور روزے اچھے گزر رہے ہیں. فورم پر آپکی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں


سب سے پہلے تو آپ نے ذبیحہ حلال کے سلسلے میں میری جو رہنمائی فرمائی تھی اس پر ایک بار پھر آپکا مشکور ہوں کیونکہ یہ میرا وہ مسئلہ تھا جس پر بڑے بڑے مذہبی عالم بھی مجھے مطمئین نہیں کر پائے تھے


اب ایک اور الجھن ذہن میں رہتی ہے اور اس سلسلے میں آپکی رہنمائی درکار ہے


اگر میں جاب کے سلسلے میں کسی ایسے شہر میں جاتا ہوں جہاں مجھے کھانے کیلیے سبزیاں، ڈالیں اور چاول وغیرہ میسر نہیں ہیں. شہر میں ایک کے ایف سی ہے جہاں غیر ذبیحہ چکن فروخت ہوتا ہے اور ایک لوکل ریسٹورنٹ ہے جہاں سے مجھے فش مل سکتی ہے. مجھے شک بلکہ یقین ہے کہ لوکل ریسٹورنٹ والے فش اور پورک وغیرہ کیلیے ایک ہی آئیل اور برتن استعمال کرتے ہونگے


آپ مجھے چکن کھانے کا مشورہ دیں یا فش کھانے کا یا پھر بھوکے رہنے کا؟



 

The Great Bloody Civilian

Voter (50+ posts)
Re: ایک گزارش

سویلین صاحب! اپنی معلومات تو اپ ڈیٹ کریں، آپ سے کس نے کہا کہ سیاستدان حلف نہیں لیتے، کیا ایک ایم این اے منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں حلف نہیں اٹھاتا، کیا ایک وزیر حلف نہیں اٹھاتا، کیا وزیراعظم حلف نہیں اٹھاتا۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا بات کررہے ہیں آپ۔۔۔ حقائق کو مسخ تو مت کریں۔



ڈکٹیٹر صاحب، کیا بات کررہے ہیں آپ۔۔۔ حقائق کو مسخ تو مت کریں، آپ اپنی معلومات اپ ڈیٹ کریں، نہ خود کنفیوز ہوں اور نہ دوسروں کو کنفیوز کریں. آپ سے کس نے کہا کہ سیاستدان حلف لیتے ہیں؟ ایک ایم این اے منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں ایم این اے کے عہدے کا حلف اٹھاتا ہے، ایک وزیر، وزیر کے عہدے کا حلف اٹھاتا ہے اور ایک وزیراعظم, وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھاتا [FONT=&quot]ہے[/FONT][FONT=&quot]، ....... ضروری نہیں ہے کہ ایم این اے، وزیر یا وزیراعظم سیاستدان ہو، وہ ٹیکنوکریٹس بھی ہو سکتے ہیں [/FONT]



آپ سیاستدانوں اور پارلیمنٹیرینز اور حکومتی عہدیداروں میں فرق کریں


ہر ایم این اے، وزیر اور وزیراعظم سیاستدان نہیں ہوتا ہے. یہ غیر سیاسی لوگ بھی ہو سکتے ہیں. یہ لوگ سیاستدان ہونے کا نہیں بلکہ ایم این اے، وزیر یا وزیراعظم ہونے (عہدے) کا حلف اٹھاتے ہیں


غفار خان اور اصغر خان نے سیاستدان کی حثیت سے کب حلف اٹھایا تھا؟ الطاف حسین سیاستدان ہیں، انہوں نے کونسا حلف اٹھایا ہوا ہے؟ معین قریشی اور شوکت عزیز نے وزیراعظم اور سرتاج عزیز اور طارق فاطمی نے وزیر کا حلف اٹھایا، انکا سیاست سے کیا تعلق تھا/ہے؟


 
Last edited:

The Great Bloody Civilian

Voter (50+ posts)
Re: ایک گزارش

سویلین صاحب! آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ یہاں ہم فوج کی سیاست میں مداخلت کے اسباب و علل پر ہی بحث کررہے ہیں، اور اس حقیقت کی گولی آپ کو نگلنی ہی ہوگی چاہے آپ کو کتنی ہی کڑوی لگے۔

چلیے لمبی بحث کی بجائے ٹو دی پوائنٹ بات کرتے ہیں، آپ ایک سیدھے سیدھے سوال کا جواب دیجئے۔ کیا آپ اس بات کی توقع کررہے ہیں کہ فوج خود بخود سیاست سے نکل کر بیرکوں میں چلی جائے گی۔۔۔۔۔۔َ؟

نوٹ: سوال یہ نہیں ہے کہ کیا فوج کو واپس چلے جانا چاہئے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا فوج اس طرح واپس جائے گی یا نہیں، برائے مہربانی پاکستان کے حالات و تاریخ کو مدنظر رکھ کر حقیقت پسندانہ جواب دیجئے۔




ڈکٹیٹر صاحب، کان سیدھے پکڑ لیں یا پورے جسم کے گرد ہاتھ گھما کر پکڑیں، بات ایک ہی ہے. آپ فوج کی ہوس اقتدار کو لاکھ اسباب اور وجوہات کے پیچھے چھپانے کی کوشش کریں لیکن حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ فوج قیام پاکستان سے ہی اقتدار کی بھوکی تھی اور اسی وقت سے اسکی نظریں پاکستان کے اقتدار پر جمی ہوئی تھیں. قائد اعظم کی عقابی نظریں فوج کی ہوس اقتدار کو دیکھ چکی تھیں. یہی وجہ تھی کہ انہوں نے فوجیوں کو انکا نہ صرف حلف پڑھکر سنایا تھا بلکہ انہیں صاف صاف الفاظ میں بتایا تھا کہ


مت بھولو کہ تم ریاست کے ملازم ہو۔ تم پالیسی نہیں بناتے ۔ عوام کے نمائندے فیصلہ کرتے ہیں کہ ملک کو کیسے چلانا ہے؟ تمہارا کام صرف اپنے سول حاکموں کے فیصلوں پر عمل کرنا ہے


انہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا تھا بلکہ فوجی افسروں کو امور ریاست میں مداخلت پر نہ صرف زبردست ڈانٹ پلائی تھی بلکہ سیاست اور امور ریاست میں دلچسپی رکھنے والے فوجی افسروں کے سٹارز اتروا کر انکے وردی پہننے پر پابندی لگا دی تھی. قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی وفات کے بعد فوج کو گندہ کھیل کھیلنے اور اسلحہ کے زور پر ملکی اقتدار پر غیر آئینی اور غیر قانونی قبضہ کرنے کا موقع گیا. سیاستدان فرشتے بھی ہوتے تب بھی فوج نے بدمعاشی کے زور پر اقتدار پر قبضہ کرنا ہی تھا کیونکہ اقتدار کی ہوس شروع دن سے انکی آنکھوں سے جھلک رہی تھی


اب آپکے سوال کی طرف آتا ہوں کہ کیا آپ اس بات کی توقع کررہے ہیں کہ فوج خود بخود سیاست سے نکل کر بیرکوں میں چلی جائے گی۔۔۔۔۔۔َ؟ میرا جواب نہیں میں ہے. فوج اقتدار کی بھوکی ہے اور کچھ بھی ہو، اقتدار کے بھوکے کبھی اقتدار نہیں چھوڑا کرتے ہیں. اس فوج کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہ فوج کبھی اقتدار نہیں چھوڑے گی. اس فوج نے تو اقتدار کی ہوس میں ملک دو لخت ہونا قبول کر لیا تھا لیکن اقتدار نہیں چھوڑا تھا. اقتدار خون کی طرح فوج کے منہ کو لگا ہوا ہے. جیسے جانور خونخوار ہو جائے تو خون کے بغیر نہیں رہ سکتا اسی طرح فوج اقتدار کے بغیر نہیں رہ سکتی. اسے اقتدار چھوڑنے پر اسی طرح مجبور کیا جائے گا جس طرح بنگالیوں نے اسے چھتر مار کر اور انکے منہ پر تھوک کر نہ صرف ایک لاکھ کی تعداد میں ہتھیار ڈالنے بلکہ بھارت کی قید میں دھکیل کر ذلت آمیز طریقے سے ملک سے نکلنے پر مجبور کیا تھا


فوج کی قیادت کے سامنے اب دو راستے ہیں. ایک یہ کہ آئین و قانون کے دائرے میں رہنے اور سویلینز کی بالا دستی قبول کرنے کا با عزت راستہ اختیار کرے اور دوسرے یہ کہ اسی طرح ذلیل و خوار ہونے کیلیے ایک بار پھر خود کو ذہنی طور تیار کرے جس طرح ماضی میں بنگالیوں کے ہاتھوں ہو چکی ہے


فیصلہ فوج کے ہاتھ میں ہے کہ وہ عزت چاہتی ہے یا پھر ماضی کی طرح ذلیل ہونا؟



 

_Dictator_

Politcal Worker (100+ posts)
Re: ایک گزارش


ڈکٹیٹر صاحب، کان سیدھے پکڑ لیں یا پورے جسم کے گرد ہاتھ گھما کر پکڑیں، بات ایک ہی ہے. آپ فوج کی ہوس اقتدار کو لاکھ اسباب اور وجوہات کے پیچھے چھپانے کی کوشش کریں لیکن حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ فوج قیام پاکستان سے ہی اقتدار کی بھوکی تھی اور اسی وقت سے اسکی نظریں پاکستان کے اقتدار پر جمی ہوئی تھیں. قائد اعظم کی عقابی نظریں فوج کی ہوس اقتدار کو دیکھ چکی تھیں. یہی وجہ تھی کہ انہوں نے فوجیوں کو انکا نہ صرف حلف پڑھکر سنایا تھا بلکہ انہیں صاف صاف الفاظ میں بتایا تھا کہ


مت بھولو کہ تم ریاست کے ملازم ہو۔ تم پالیسی نہیں بناتے ۔ عوام کے نمائندے فیصلہ کرتے ہیں کہ ملک کو کیسے چلانا ہے؟ تمہارا کام صرف اپنے سول حاکموں کے فیصلوں پر عمل کرنا ہے


انہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا تھا بلکہ فوجی افسروں کو امور ریاست میں مداخلت پر نہ صرف زبردست ڈانٹ پلائی تھی بلکہ سیاست اور امور ریاست میں دلچسپی رکھنے والے فوجی افسروں کے سٹارز اتروا کر انکے وردی پہننے پر پابندی لگا دی تھی. قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی وفات کے بعد فوج کو گندہ کھیل کھیلنے اور اسلحہ کے زور پر ملکی اقتدار پر غیر آئینی اور غیر قانونی قبضہ کرنے کا موقع گیا. سیاستدان فرشتے بھی ہوتے تب بھی فوج نے بدمعاشی کے زور پر اقتدار پر قبضہ کرنا ہی تھا کیونکہ اقتدار کی ہوس شروع دن سے انکی آنکھوں سے جھلک رہی تھی


اب آپکے سوال کی طرف آتا ہوں کہ کیا آپ اس بات کی توقع کررہے ہیں کہ فوج خود بخود سیاست سے نکل کر بیرکوں میں چلی جائے گی۔۔۔۔۔۔َ؟ میرا جواب نہیں میں ہے. فوج اقتدار کی بھوکی ہے اور کچھ بھی ہو، اقتدار کے بھوکے کبھی اقتدار نہیں چھوڑا کرتے ہیں. اس فوج کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہ فوج کبھی اقتدار نہیں چھوڑے گی. اس فوج نے تو اقتدار کی ہوس میں ملک دو لخت ہونا قبول کر لیا تھا لیکن اقتدار نہیں چھوڑا تھا. اقتدار خون کی طرح فوج کے منہ کو لگا ہوا ہے. جیسے جانور خونخوار ہو جائے تو خون کے بغیر نہیں رہ سکتا اسی طرح فوج اقتدار کے بغیر نہیں رہ سکتی. اسے اقتدار چھوڑنے پر اسی طرح مجبور کیا جائے گا جس طرح بنگالیوں نے اسے چھتر مار کر اور انکے منہ پر تھوک کر نہ صرف ایک لاکھ کی تعداد میں ہتھیار ڈالنے بلکہ بھارت کی قید میں دھکیل کر ذلت آمیز طریقے سے ملک سے نکلنے پر مجبور کیا تھا


فوج کی قیادت کے سامنے اب دو راستے ہیں. ایک یہ کہ آئین و قانون کے دائرے میں رہنے اور سویلینز کی بالا دستی قبول کرنے کا با عزت راستہ اختیار کرے اور دوسرے یہ کہ اسی طرح ذلیل و خوار ہونے کیلیے ایک بار پھر خود کو ذہنی طور تیار کرے جس طرح ماضی میں بنگالیوں کے ہاتھوں ہو چکی ہے


فیصلہ فوج کے ہاتھ میں ہے کہ وہ عزت چاہتی ہے یا پھر ماضی کی طرح ذلیل ہونا؟


سویلین صاحب! آپ کے تجزیے کے مطابق فوج کو خود ہی واپس بیرکوں میں جانا ہوگا اور سیاستدانوں کا اس میں کوئی کردار نہیں ۔ یعنی سیاستدانوں کو خود کو سدھارنے کی ضرورت نہیں اور وہ اسی طرح لوٹ مار کرتے رہیں۔ سویلین صاحب آپ اس سوچ کے ساتھ خود فوج کی مدد کررہے ہیں، ایک طرف آپ فوج کی سیاست میں مداخلت کے خلاف ہیں، دوسری طرف آپ سیاستدانوں کو کلین چٹ دیتے ہیں تاکہ فوج کو سیاست میں مداخلت کا بھرپور موقع ملتا رہے۔ آپ کا یہ بیان کہ فوج سیاست سے کبھی واپس نہیں جائے گی + فیصلہ فوج کے ہاتھ میں ہے، یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ اس میں سیاستدانوں کا کردار قبولنے کا تیار نہیں،۔ اور برائے مہربانی یہ جوآپ بار بار پاکستان کے دو لخت ہونے کی بات کررہے ہیں کیا میرے علم میں اضافہ کریں گے کہ آج کے بلوچستان اور کل کے بلوچستان کے حالات میں کچھ فرق ہے یا نہیں۔۔۔۔۔؟ امید ہے تازہ ترین حقائق کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں گے۔

 

_Dictator_

Politcal Worker (100+ posts)
Re: ایک گزارش

ڈکٹیٹر صاحب، کیا بات کررہے ہیں آپ۔۔۔ حقائق کو مسخ تو مت کریں، آپ اپنی معلومات اپ ڈیٹ کریں، نہ خود کنفیوز ہوں اور نہ دوسروں کو کنفیوز کریں. آپ سے کس نے کہا کہ سیاستدان حلف لیتے ہیں؟ ایک ایم این اے منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں ایم این اے کے عہدے کا حلف اٹھاتا ہے، ایک وزیر، وزیر کے عہدے کا حلف اٹھاتا ہے اور ایک وزیراعظم, وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھاتا [FONT=&amp]ہے[/FONT][FONT=&amp]، ....... ضروری نہیں ہے کہ ایم این اے، وزیر یا وزیراعظم سیاستدان ہو، وہ ٹیکنوکریٹس بھی ہو سکتے ہیں [/FONT]

آپ سیاستدانوں اور پارلیمنٹیرینز اور حکومتی عہدیداروں میں فرق کریں

ہر ایم این اے، وزیر اور وزیراعظم سیاستدان نہیں ہوتا ہے. یہ غیر سیاسی لوگ بھی ہو سکتے ہیں. یہ لوگ سیاستدان ہونے کا نہیں بلکہ ایم این اے، وزیر یا وزیراعظم ہونے (عہدے) کا حلف اٹھاتے ہیں

غفار خان اور اصغر خان نے سیاستدان کی حثیت سے کب حلف اٹھایا تھا؟ الطاف حسین سیاستدان ہیں، انہوں نے کونسا حلف اٹھایا ہوا ہے؟ معین قریشی اور شوکت عزیز نے وزیراعظم اور سرتاج عزیز اور طارق فاطمی نے وزیر کا حلف اٹھایا، انکا سیاست سے کیا تعلق تھا/ہے؟




سویلین صاحب! اپنا مذاق مت اڑوائیں، کیا آپ ایم این ایز، وزیروں ، وزیراعظم، وزیراعلیٰ وغیرہ کو سیاستدان نہیں سمجھتے۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اگر پانی میں مدھانی ڈالنی ہے تو بحث بہت طویل ہوسکتی، بہتر ہے اپنی غلطی مان لیں۔ کسی بھی سیاستدان کو جب بھی کوئی ملکی عہدہ سنبھالنا ہوتا ہے اسے حلف اٹھانا پڑتا ہے، رہ گئے وہ سیاستدان جو کوئی عہدہ نہیں سنبھالتے ، وہ کوئی حلف بھی نہیں اٹھاتے، یہ بات بچے بھی جانتے ہیں۔

اور ویسے بھی اگر آپ کے نزدیک صرف ان لوگوں کو وطن سے وفادار ہونا چاہئے جو حلف اٹھاتے ہیں تو آپ کو اپنی سوچ درست کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے ہر شہری پر وطن کی حفاظت فرض ہے، چاہے اس نے حلف اٹھایا ہو یا نہ ہو۔
 

saeenji

Minister (2k+ posts)



السلام و علیکم سائیں جی


امید ہے آپ خیریت سے ہیں اور روزے اچھے گزر رہے ہیں. فورم پر آپکی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں


سب سے پہلے تو آپ نے ذبیحہ حلال کے سلسلے میں میری جو رہنمائی فرمائی تھی اس پر ایک بار پھر آپکا مشکور ہوں کیونکہ یہ میرا وہ مسئلہ تھا جس پر بڑے بڑے مذہبی عالم بھی مجھے مطمئین نہیں کر پائے تھے


اب ایک اور الجھن ذہن میں رہتی ہے اور اس سلسلے میں آپکی رہنمائی درکار ہے


اگر میں جاب کے سلسلے میں کسی ایسے شہر میں جاتا ہوں جہاں مجھے کھانے کیلیے سبزیاں، ڈالیں اور چاول وغیرہ میسر نہیں ہیں. شہر میں ایک کے ایف سی ہے جہاں غیر ذبیحہ چکن فروخت ہوتا ہے اور ایک لوکل ریسٹورنٹ ہے جہاں سے مجھے فش مل سکتی ہے. مجھے شک بلکہ یقین ہے کہ لوکل ریسٹورنٹ والے فش اور پورک وغیرہ کیلیے ایک ہی آئیل اور برتن استعمال کرتے ہونگے


آپ مجھے چکن کھانے کا مشورہ دیں یا فش کھانے کا یا پھر بھوکے رہنے کا؟



وعلیکم السلام وا رحمتہ الله

میں خیریت سے ہوں اور رمضان مبارک زبردست گزر رہا ہے، الحمدلله، آپ اپنے حال احوال سنائیں؟...... جواب سے پہلے ایک بات میں بلکل واضح کر دوں کہ میں فتویٰ نہیں دے رہا، بلکہ صرف وہی بات بیان کرونگا جس پر میں خود عمل کرتا ہوں.... اگر میرا جانا کسی ایسے شہر میں ہو جہاں غیر ذبیحہ گوشت ہی صرف دستیاب ہو اور فش ایسے تیل میں تیار ہو جو پورک کے لئے استعمال ہوتی ہو تو میں دونوں صورتوں میں اجتناب ہی کرونگا اور سبزیوں کا استعمال کرونگا، ویسے میرے مشاہدے میں یہ بات ابھی تک نہیں آئی کہ دنیا میں کوئی بھی ایسا شہر ہو جہاں سبزیاں ، دالیں یا چاول دستیاب نہ ہوں، اگر آپکے علم میں ہے تو ضرور بتائیں، میں کوشش کرونگا کہ آپ کے قریب کوئی ذبیحہ گوشت کی دکان تلاش کی جائے، تاکہ آپ مطمئن ہو کر کھانا تو کھا سکیں... ذاتی طور پر جس معاملے میں شک پڑ جاؤں ، اسے چھوڑنا ہی مناسب سمجھتا ہوں اور اس عمل کا استدلال اس حدیث سے واضح ہے

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَبِي الْحَوْرَاءِ السَّعْدِيِّ، قَالَ قُلْتُ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رضى الله عنهما مَا حَفِظْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ حَفِظْتُ مِنْهُ ‏ "‏ دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لاَ يَرِيبُكَ ‏"‏ ‏.‏


It was narrated that Abu Al-Hawra' As-Sa'di said:

"I said to Al-Hasan bin 'Ali, may Allah be pleased with him: 'What did you memorize from the Messenger of Allah [SAW]?' He said: I memorized from him: 'Leave that which makes you doubt for that which does not make you doubt.'"

Grade: Sahih (Darussalam)
Reference : Sunan an-Nasa'i 5711
In-book reference : Book 51, Hadith 173
English translation : Vol. 6, Book 51, Hadith 5714
الله پاک آپکے آسانیاں پیدا کرے (آمین)

دعاؤں میں یاد رکھیں، فی امان الله
:)

 
Last edited:

The Great Bloody Civilian

Voter (50+ posts)
Re: ایک گزارش

سویلین صاحب! اپنا مذاق مت اڑوائیں، کیا آپ ایم این ایز، وزیروں ، وزیراعظم، وزیراعلیٰ وغیرہ کو سیاستدان نہیں سمجھتے۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اگر پانی میں مدھانی ڈالنی ہے تو بحث بہت طویل ہوسکتی، بہتر ہے اپنی غلطی مان لیں۔ کسی بھی سیاستدان کو جب بھی کوئی ملکی عہدہ سنبھالنا ہوتا ہے اسے حلف اٹھانا پڑتا ہے، رہ گئے وہ سیاستدان جو کوئی عہدہ نہیں سنبھالتے ، وہ کوئی حلف بھی نہیں اٹھاتے، یہ بات بچے بھی جانتے ہیں۔

اور ویسے بھی اگر آپ کے نزدیک صرف ان لوگوں کو وطن سے وفادار ہونا چاہئے جو حلف اٹھاتے ہیں تو آپ کو اپنی سوچ درست کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے ہر شہری پر وطن کی حفاظت فرض ہے، چاہے اس نے حلف اٹھایا ہو یا نہ ہو۔



ڈکٹیٹر صاحب، مذاق تو آپ اپنا اڑوا رہے ہیں. میں نے تو آپکو مثالیں دے کر واضح کر دیا ہے کہ حلف عہدے کا اٹھایا جاتا ہے، سیاستدان ہونے کا نہیں. عہدے کا حلف سیاستدان بھی اٹھا سکتا ہے اور غیر سیاسی شخص بھی. اگر سیاستدان ہونے کا حلف اٹھایا جاتا تو خان عبدالغفار خان، اصغر خان اور الطاف حسین بھی اپنے سیاستداں ہونے کا حلف اٹھاتے. معین قریشی، شوکت عزیز اور سینکڑوں دیگر غیر سیاسی لوگوں نے وزیر اعظم، وزیر اور ایم این اے ہونے کے حلف اٹھائے ہیں. آپ میں نہ مانوں والی ہٹ دھرمی پر قائم رہنا چاہتے ہیں تو میرے پاس آپکو مجبور کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے


وطن سے وفادار ہونا تو ایک اخلاقی فرض ہے. کوئی چیز آپکو زبردستی وطن سے وفادار ہونے پر مجبور نہیں کر سکتی ہے لیکن آپکا حلف آپکو پابند کرتا ہے کہ آپ نے اپنے خدا سے جو وعدہ کیا ہے، اسے نبھائیں


اصل بات جسے میں اپنے ابتدائی کومنٹس میں زیر بحث لایا تھا وہ یہ تھا کہ اپنے ملک کے آئین کو توڑنا سنگین جرم ہے اور غداری تصور کیا جاتا ہے اور یہ سعادت صرف ہماری فوج کے ہی حصے میں آئی ہے. اس فوج نے ایک بار نہیں چار بار ملک کا آئین توڑ کر ملک پر قبضہ کیا ہے. دوسرے لفظوں میں فوج چار بار غداری کی مرتکب ہوئی ہے. میرا سوال یہ ہے کہ


ایک غدار فوج کس طرح ملک کی حفاظت کر سکتی ہے؟


پھر اس فوج کی تاریخ بھی گواہ ہے کہ یہ ملک کی حفاظت کرنے والی نہیں بلکہ ملک توڑنے والے اور اپنی زمین بغیر لڑے ہمسایوں کے حوالے کرنے والی فوج ہے. اس فوج کو تربیت دشمن ملک پر قبضہ کرنے کی نہیں بلکہ اپنے ملک پر قبضہ کرنے کی دی جاتی ہے


 

The Great Bloody Civilian

Voter (50+ posts)
Re: ایک گزارش

سویلین صاحب! آپ کے تجزیے کے مطابق فوج کو خود ہی واپس بیرکوں میں جانا ہوگا اور سیاستدانوں کا اس میں کوئی کردار نہیں ۔ یعنی سیاستدانوں کو خود کو سدھارنے کی ضرورت نہیں اور وہ اسی طرح لوٹ مار کرتے رہیں۔ سویلین صاحب آپ اس سوچ کے ساتھ خود فوج کی مدد کررہے ہیں، ایک طرف آپ فوج کی سیاست میں مداخلت کے خلاف ہیں، دوسری طرف آپ سیاستدانوں کو کلین چٹ دیتے ہیں تاکہ فوج کو سیاست میں مداخلت کا بھرپور موقع ملتا رہے۔ آپ کا یہ بیان کہ فوج سیاست سے کبھی واپس نہیں جائے گی + فیصلہ فوج کے ہاتھ میں ہے، یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ اس میں سیاستدانوں کا کردار قبولنے کا تیار نہیں،۔ اور برائے مہربانی یہ جوآپ بار بار پاکستان کے دو لخت ہونے کی بات کررہے ہیں کیا میرے علم میں اضافہ کریں گے کہ آج کے بلوچستان اور کل کے بلوچستان کے حالات میں کچھ فرق ہے یا نہیں۔۔۔۔۔؟ امید ہے تازہ ترین حقائق کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں گے۔





ڈکٹیٹر صاحب، یہاں آپ نے فوج کی محبت میں کھل کر ڈنڈی مار دی ہے. میں نے کہیں بھی نہیں کہا ہے کہ صرف فوج کو واپس بیرکوں میں جانا ہوگا اور سیاستدانوں کو خود کو سدھارنے کی ضرورت نہیں اور وہ اسی طرح لوٹ مار کرتے رہیں اور نہ ہی میں نے سیاستدانوں کو کوئی کلین چٹ دی ہے. اپنے الفاظ میرے منہ میں ڈالنے کی کوشش نہ کریں. میں نے یہ کہا ہے کہ فوج کی بیرکوں میں واپسی سیاستدانوں کے سدھرنے سے مشروط نہیں ہے. فوج کا بیرکوں میں واپس جانا اور سیاستدانوں کا خود کو سدھارنا دو الگ الگ معاملات ہیں. آئین پاکستان نے ہر ادارے کی حدود مقرر کر رکھی ہے اور سب اداروں کو اپنی آئینی حدود کے اندر رہنا ہوگا. آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ فوج سیاستدانوں کی لوٹ مار کو جواز بنا کر آئین توڑ سکتی ہے. سیاستدان اگر لوٹ مار کرتے ہیں تو انکی لوٹ مار کو روکنے اور انہیں سزا دینے کیلیے ادارے موجود ہیں. سب سے بڑھکر عوام خود بھی اپنے ووٹ سے کرپٹ سیاستدانوں کو سزا دے سکتی ہے


اصل میں فوج نے اقتدار پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کیلیے تمام دوسرے اداروں کا بیڑہ غرق کیا ہے. فوج نے اپنے ادارے کے سوا کسی اور ادارے کو مضبوط ہونے ہی نہیں دیا ہے اور ہر ادارہ فوج کی لونڈی بن کر رہ گیا ہے. اوپر سے ستم یہ کہ آپ جیسے ڈکٹیٹروں اور فوج کے میڈیا، مذہبی جماعتوں اور سیاسی جماعتوں کے اندر موجود بوٹ پالشیوں نے فوج کو مقدس گائے بنا دیا ہے جس پر ملک توڑنے، ہتھیارڈالنے، دہشتگردی پھیلانے اور سیاچن اور انگور اڈا بھارت اور افغانستان کے حوالے کرنے پر بھی تنقید نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ اس سے ہماری نرم و نازک فوج کا مورال ڈاون ہوتا ہے


فوج کے سوا دوسروں اداروں کو انکی آئینی حدود کے اندر رکھنا کوئی خاص مشکل نہیں ہے. اصل مسئلہ اس بدمعاش فوج کا ہے جسے ہم نے اپنے گھر کی چوکیداری کیلیے اسلحہ دیا ہوا ہے اور وہ اس اسلحے کے زور پر ہمارے گھر پر ناجائز قبضہ کرکے یہ اسلحہ ہم گھر کے مالکوں پر ہی تان کر کھڑی ہے. اس فوج سے گھر کا قبضہ لینا ناممکن نہیں ہے. اس سے پہلے بنگالی اس فوج کا اچھی طرح منہ کالا کرکے اس سے اپنے گھر کا قبضہ واپس کے کر مثال قائم کر چکے ہیں کہ بلڈی سویلینز فوجیوں سے اپنے گھر کا قبضہ واپس لینے کا فیصلہ کر لیں تو بڑی بڑی فوجوں کا "پلٹن گراونڈ" بنا دیتے ہیں اور "آخری گولی اور آخری سپاہی تک لڑنے: کی بھڑکیں مارنے والوں کو لاکھوں مسلح فوجیوں کے ساتھ ہتھیار ڈالنے والی ذلت و رسوائی سے دو چار کر سکتے ہیں


اسی لیے میں نے پچھلے کومنٹس میں لکھا تھا کہ فوج کی قیادت کے سامنے اب دو راستے ہیں. ایک یہ کہ آئین و قانون کے دائرے میں رہنے اور سویلینز کی بالا دستی قبول کرنے کا با عزت راستہ اختیار کرے اور دوسرے یہ کہ اسی طرح ذلیل و خوار ہونے کیلیے ایک بار پھر خود کو ذہنی طور تیار کرے جس طرح ماضی میں بنگالیوں کے ہاتھوں ہو چکی ہے. فیصلہ فوج کے ہاتھ میں ہے کہ وہ عزت چاہتی ہے یا پھر ماضی کی طرح ذلیل ہونا؟ ابھی فوج کے پاس بلڈی سویلینز کی ما تحتی میں واپس آنے اور سرحدوں کی حفاظت تک محدود ہونے کا ایک سنہری موقع ہے. وہ دن زیادہ دور نہیں ہے جب یہ فوج کے پاس یہ مہلت ختم ہو جائے گی


ساز کی شوخیاں بتاتی ہیں کوئی نغمہ مچلنے والا ہے
اب بھی اچھا ہے گر سنبھل جاو، وقت کروٹ بدلنے والا ہے


رہی بات بلوچستان کی تو ذرا بتا دیجیے کہ بلوچستان میں کیا بہتری آئی ہے؟ کیا علیحدگی کی تحریک ختم ہو گئی ہے یا فوج نے بلوچوں کو اٹھانا اور قتل کرکے چوراہوں میں پھینکنا بند کر دیا ہے؟ کسی کو وہاں قومی پرچم لہرانے اور قومی ترانہ تک گانے کی جرات نہیں ہوتی ہے. آخر فوج کب تک بلوچستان پر قبضہ کرکے بیٹھی رہے گی؟


 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
Re: ایک گزارش




پہلی بات یہ ہے کہ سیاستدانوں کا کوئی حلف نہیں ہوتا ہے. دوسری بات یہ ہے کہ حلف کی خلاف ورزی اور آئین توڑنے میں بہت فرق ہے


کبھی کسی سیاستداں یا سیاسی حکمران نے آئین نہیں توڑا ہے. آئین توڑنا غداری ہے اور فوج اس ملک کے ساتھ چار بار غداری کر چکی ہے


جس ملک کی فوج ہی ملک سے غدار ہو اس سے ملک کے دفاع کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟


ویسے بھی اس فوج کو ملک توڑنے اور ہتھیار ڈالنے کا "اعزاز" حاصل ہے. سیاستدانوں کا اتنے "عظیم اعزاز" کی حامل فوج سے کیا مقابلہ؟





آئین نہ توڑا ، آئین پر عمل نہ کیا ..مجھے تو زیادہ فرق نظر نہیں آتا اس بات میں ...
اباقی رہی کون غدار ہے اور کون محب وطن ..اگلے شمارے تک انتظار کیجئے ..رمضان ختم ہونے دیں ..پھر اس پر بات ضرور ہو گی ..انشاء الله
 

_Dictator_

Politcal Worker (100+ posts)
Re: ایک گزارش


ڈکٹیٹر صاحب، مذاق تو آپ اپنا اڑوا رہے ہیں. میں نے تو آپکو مثالیں دے کر واضح کر دیا ہے کہ حلف عہدے کا اٹھایا جاتا ہے، سیاستدان ہونے کا نہیں. عہدے کا حلف سیاستدان بھی اٹھا سکتا ہے اور غیر سیاسی شخص بھی. اگر سیاستدان ہونے کا حلف اٹھایا جاتا تو خان عبدالغفار خان، اصغر خان اور الطاف حسین بھی اپنے سیاستداں ہونے کا حلف اٹھاتے. معین قریشی، شوکت عزیز اور سینکڑوں دیگر غیر سیاسی لوگوں نے وزیر اعظم، وزیر اور ایم این اے ہونے کے حلف اٹھائے ہیں. آپ میں نہ مانوں والی ہٹ دھرمی پر قائم رہنا چاہتے ہیں تو میرے پاس آپکو مجبور کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے


وطن سے وفادار ہونا تو ایک اخلاقی فرض ہے. کوئی چیز آپکو زبردستی وطن سے وفادار ہونے پر مجبور نہیں کر سکتی ہے لیکن آپکا حلف آپکو پابند کرتا ہے کہ آپ نے اپنے خدا سے جو وعدہ کیا ہے، اسے نبھائیں


اصل بات جسے میں اپنے ابتدائی کومنٹس میں زیر بحث لایا تھا وہ یہ تھا کہ اپنے ملک کے آئین کو توڑنا سنگین جرم ہے اور غداری تصور کیا جاتا ہے اور یہ سعادت صرف ہماری فوج کے ہی حصے میں آئی ہے. اس فوج نے ایک بار نہیں چار بار ملک کا آئین توڑ کر ملک پر قبضہ کیا ہے. دوسرے لفظوں میں فوج چار بار غداری کی مرتکب ہوئی ہے. میرا سوال یہ ہے کہ


ایک غدار فوج کس طرح ملک کی حفاظت کر سکتی ہے؟


پھر اس فوج کی تاریخ بھی گواہ ہے کہ یہ ملک کی حفاظت کرنے والی نہیں بلکہ ملک توڑنے والے اور اپنی زمین بغیر لڑے ہمسایوں کے حوالے کرنے والی فوج ہے. اس فوج کو تربیت دشمن ملک پر قبضہ کرنے کی نہیں بلکہ اپنے ملک پر قبضہ کرنے کی دی جاتی ہے




سویلین صاحب! پانی میں مدھانی پھیرنے سے صرف وقت ضائع ہوگا۔، سیاستدان حلف لیتے ہیں یا نہیں، میں نے اپنی بات کہہ دی، آپ نے اپنی بات کہہ دی۔ فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہیں وہ خود جج کرلیں گے کون صحیح ہے اور کون غلط۔۔

 

_Dictator_

Politcal Worker (100+ posts)
Re: ایک گزارش


ڈکٹیٹر صاحب، یہاں آپ نے فوج کی محبت میں کھل کر ڈنڈی مار دی ہے. میں نے کہیں بھی نہیں کہا ہے کہ صرف فوج کو واپس بیرکوں میں جانا ہوگا اور سیاستدانوں کو خود کو سدھارنے کی ضرورت نہیں اور وہ اسی طرح لوٹ مار کرتے رہیں اور نہ ہی میں نے سیاستدانوں کو کوئی کلین چٹ دی ہے. اپنے الفاظ میرے منہ میں ڈالنے کی کوشش نہ کریں. میں نے یہ کہا ہے کہ فوج کی بیرکوں میں واپسی سیاستدانوں کے سدھرنے سے مشروط نہیں ہے. فوج کا بیرکوں میں واپس جانا اور سیاستدانوں کا خود کو سدھارنا دو الگ الگ معاملات ہیں. آئین پاکستان نے ہر ادارے کی حدود مقرر کر رکھی ہے اور سب اداروں کو اپنی آئینی حدود کے اندر رہنا ہوگا. آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ فوج سیاستدانوں کی لوٹ مار کو جواز بنا کر آئین توڑ سکتی ہے. سیاستدان اگر لوٹ مار کرتے ہیں تو انکی لوٹ مار کو روکنے اور انہیں سزا دینے کیلیے ادارے موجود ہیں. سب سے بڑھکر عوام خود بھی اپنے ووٹ سے کرپٹ سیاستدانوں کو سزا دے سکتی ہے


اصل میں فوج نے اقتدار پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کیلیے تمام دوسرے اداروں کا بیڑہ غرق کیا ہے. فوج نے اپنے ادارے کے سوا کسی اور ادارے کو مضبوط ہونے ہی نہیں دیا ہے اور ہر ادارہ فوج کی لونڈی بن کر رہ گیا ہے. اوپر سے ستم یہ کہ آپ جیسے ڈکٹیٹروں اور فوج کے میڈیا، مذہبی جماعتوں اور سیاسی جماعتوں کے اندر موجود بوٹ پالشیوں نے فوج کو مقدس گائے بنا دیا ہے جس پر ملک توڑنے، ہتھیارڈالنے، دہشتگردی پھیلانے اور سیاچن اور انگور اڈا بھارت اور افغانستان کے حوالے کرنے پر بھی تنقید نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ اس سے ہماری نرم و نازک فوج کا مورال ڈاون ہوتا ہے


فوج کے سوا دوسروں اداروں کو انکی آئینی حدود کے اندر رکھنا کوئی خاص مشکل نہیں ہے. اصل مسئلہ اس بدمعاش فوج کا ہے جسے ہم نے اپنے گھر کی چوکیداری کیلیے اسلحہ دیا ہوا ہے اور وہ اس اسلحے کے زور پر ہمارے گھر پر ناجائز قبضہ کرکے یہ اسلحہ ہم گھر کے مالکوں پر ہی تان کر کھڑی ہے. اس فوج سے گھر کا قبضہ لینا ناممکن نہیں ہے. اس سے پہلے بنگالی اس فوج کا اچھی طرح منہ کالا کرکے اس سے اپنے گھر کا قبضہ واپس کے کر مثال قائم کر چکے ہیں کہ بلڈی سویلینز فوجیوں سے اپنے گھر کا قبضہ واپس لینے کا فیصلہ کر لیں تو بڑی بڑی فوجوں کا "پلٹن گراونڈ" بنا دیتے ہیں اور "آخری گولی اور آخری سپاہی تک لڑنے: کی بھڑکیں مارنے والوں کو لاکھوں مسلح فوجیوں کے ساتھ ہتھیار ڈالنے والی ذلت و رسوائی سے دو چار کر سکتے ہیں


اسی لیے میں نے پچھلے کومنٹس میں لکھا تھا کہ فوج کی قیادت کے سامنے اب دو راستے ہیں. ایک یہ کہ آئین و قانون کے دائرے میں رہنے اور سویلینز کی بالا دستی قبول کرنے کا با عزت راستہ اختیار کرے اور دوسرے یہ کہ اسی طرح ذلیل و خوار ہونے کیلیے ایک بار پھر خود کو ذہنی طور تیار کرے جس طرح ماضی میں بنگالیوں کے ہاتھوں ہو چکی ہے. فیصلہ فوج کے ہاتھ میں ہے کہ وہ عزت چاہتی ہے یا پھر ماضی کی طرح ذلیل ہونا؟ ابھی فوج کے پاس بلڈی سویلینز کی ما تحتی میں واپس آنے اور سرحدوں کی حفاظت تک محدود ہونے کا ایک سنہری موقع ہے. وہ دن زیادہ دور نہیں ہے جب یہ فوج کے پاس یہ مہلت ختم ہو جائے گی


ساز کی شوخیاں بتاتی ہیں کوئی نغمہ مچلنے والا ہے
اب بھی اچھا ہے گر سنبھل جاو، وقت کروٹ بدلنے والا ہے


رہی بات بلوچستان کی تو ذرا بتا دیجیے کہ بلوچستان میں کیا بہتری آئی ہے؟ کیا علیحدگی کی تحریک ختم ہو گئی ہے یا فوج نے بلوچوں کو اٹھانا اور قتل کرکے چوراہوں میں پھینکنا بند کر دیا ہے؟ کسی کو وہاں قومی پرچم لہرانے اور قومی ترانہ تک گانے کی جرات نہیں ہوتی ہے. آخر فوج کب تک بلوچستان پر قبضہ کرکے بیٹھی رہے گی؟






سویلین صاحب! لہذا آپ کی رائے میں فوج کو سیاسی ایوانوں سے نکال کر واپس بیرکوں میں بھیجنے میں سیاستدانوں کا کوئی کردار نہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ فوج کی مرضی ہے کہ وہ سیاست سے نکلے یا نہ نکلے ، سیاستدانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ اگر ایسی بات ہے تو پھر یہ فوج کبھی سیاست سے نہیں نکلے گی۔ پھر آپ کے اس رونا رونے سے کوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ آپ خیمے میں گھسے ہوئے اونٹ کے سامنے گڑگڑا رہے ہیں کہ خدا کے لئے باہر چلے جاؤ اور خود کچھ کرنے پر تیار نہیں۔ میری بات لکھ لیجئے یہ اونٹ خیمے سے نکلنے والا نہیں۔

پاکستان کوئی مریخ پر واقع نہیں، یہاں بھی وہی اصول چلتے ہیں جو باقی دنیا میں کارفرما ہیں،میں اب بھی کہتا ہوں، جب تک پاکستان میں نا اہل سیاستدانوں کو گٹر برد نہیں کیا جاتا اور ان کی جگہ قابل لوگوں کو آگے نہیں لایا جاتا ، فوج اسی طرح ان کرپٹ سیاستدانوں پر سواری کرتی رہے گی، آپ چاہے لاکھ واویلہ مچائیں۔

سویلین صاحب! یہ سوال تو میں نے آپ سے پوچھا تھا، آپ نے الٹا مجھ پر ہی پلٹ دیا، کیا آپ مجھے بلوچستان میں حال ہی میں کتنے لوگوں کو اور کب قتل کرکے بلوچستان میں لاشیں پھینکی گئی ہیں۔