صحابہ کرام اجمعین کے زیر استعمال بتائی جانے والی تلواریں اسلئے مستند نہیں ٹہرائی جاسکتیں کیونکہ منقش اور موتی و جواہر سے مزین ہیں جبکہ صحابہ کرام کا دور غربت اور سادگی کا بتایا جاتا ہے، نیز جس کرتے کو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہہ سے منسوب بتایا جارہا ہے اس میں بھی کچھ شبہ محسوس ہوتا ہے ۔ نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کمان بھی مشکوک ہے کیونکہ کمان کے یہ خدوخال اس زمانے سے مطابقت نہیں رکھتے۔
تاجکستان دوشبے میں ایسی مقدس اشیاء کی بھرمار ہے، خود یہاں بلوچستان میں بولان میں ایک جگہ ہے پیرپنجہ جسے حضرت علی کے قدموں کے نشان بتایا جاتا ہے، جانے حضرت علی رضی اللہ عنہ کب یہاں آئے کوئٹہ کے قریب؟؟
وہ ایک سردار نے کسی سیاح کو ایک کھوپڑی دکھائی اور بتایا کہ یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی کھوپڑی ہے، سیاح نے حیرانی سے کہا "لیکن یہ تو کسی بچے کی کھوپڑی ہے جس پر سردار نے اطمینان سے کہا کہ یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بچپن کی کھوپڑی ہے۔
اللہ جانتا ہے ان تمام اشیاء میں کتنی صداقت ہے، لیکن یہ عام مسلمانوں کو جذباتی کرنے کیلئے ایک عمدہ ہتھیار ہیں۔