Muslimonly
Senator (1k+ posts)
What Jamaat e Islami calls for?
18 DECEMBER JALSA COVERAGE
=========================
جماعت اسلامی کی دعوت
i have seen most of people on this forum dont know at all about motto of jamaat e Islami.Some consider it a political party,some only religious party.so i am posting this thread so people who are interested can read facts about jamaat
Offical Jamaat e Islami Website:
ہماری دعوت
فلسفہ جماعت
جماعت اسلامی ہی کیوں؟
آئین جماعت
جماعت میں شمولیت کیسے؟
-------------------
ہماری دعوت
ہماری دعوت کیاہے؟
ہماری دعوت کے متعلق عام طور پر جوبات کہی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم حکومت الٰہیہ کے قیام کی دعوت دیتے ہیں۔حکومت الٰہیہ کالفظ کچھ تو خود غلط فہمی پیدا کرتا ہے اور کچھ اسے غلط فہمی پیدا کرنے کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں اور انہیں ایسا سمجھایا بھی جاتا ہے کہ حکومت الٰہیہ سے مراد محض ایک سیاسی نظام ہے اور ہماری غرض اس کے سوااور کچھ نہیں ہے کہ موجودہ نظام کی جگہ وہ مخصوص سیاسی نظام قائم ہو۔ پھرچونکہ اس سیاسی نظام کے چلانے والے لامحالہ ہی مسلمان ہوں گے جو اس کے قیام کی تحریک میں حصہ لے رہے ہوں ، اس لیے خود بخود اس تصورمیں سے یہ معنی نکل آتے ہیں یا ہوشیاری سے نکال لیے جاتے ہیں کہ ہم محض حکومت چاہتے ہیں۔ اس کے بعد ایک دین دار وعظ ہوتا ہے اور ہم سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پیش نظر محض دنیا ہے۔ حالانکہ مسلمان کے پیش نظر دین اور آخرت ہونی چاہیئے اوریہ کہ حکومت طلب کرنے کی چیز نہیں ہے بلکہ ایک انعام ہے جو دین دار زندگی کے صلے میں اللہ کی طرف سے مل جاتا ہے ۔ یہ باتیں کہیں تو نافہمی کے ساتھ کی جاتی ہیں اور کہیں نہایت ہوشمندی کے ساتھ اس غرض کے لیے کہ اگر ہمیں نہیں تو کم سے کم خلق خدا کے ایک بڑے حصے کو بدگمانیوں اور غلط فہمیوں میں مبتلا کیاجائے، حالانکہ اگر کوئی شخص ہمارے لٹریچر کو کھلے دل کے ساتھ پڑھے تو اس پر باآسانی یہ بات کھل سکتی ہے کہ ہمارے پیش نظر صرف ایک سیاسی نظام کا قیام نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ پوری انسانی زندگی....انفرادی اور اجتماعی زندگی....میں وہ ہمہ گیر انقلاب رونما ہوجو اسلام رونما کرناچاہتا ہے، جس کے لیے اللہ نے اپنے انبیاءکو مبعوث کیا تھا اور جس کی دعوت دینے اور جدوجہد کرنے کے لیے ہمیشہ انبیاءعلیھم السلام کی امامت و رہنمائی میں امت مسلمہ کے نام سے ایک گروہ بنتا رہا ہے۔
دعوت اسلامی کے تین نکات
اگرہم اپنی اس دعوت کو مختصر طور پر صاف اورسیدھے الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو یہ تین نکات(Points)پر مشتمل ہوگی
(1)یہ کہ ہم بندگان خداکو بالعموم اور جوپہلے سے مسلمان ہیں،ان کو بالخصوص اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
(2) یہ کہ جو شخص بھی اسلام قبول کرنے یا اس کوماننے کادعویٰ یااظہار کرلے، اس کوہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اور تناقض کو خارج کر دے اور جب وہ مسلمان ہے ، یا بنا ہے تو مخلص مسلمان بنے،اوراسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہوجائے۔
(3)یہ کہ زندگی کانظام جوآج باطل پرستوں اور فساق و فجار کی رہنمائی اور قیادت و فرمانروائی میں چل رہاہے اور معاملات دنیا کے نظام کی زمام کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے،ہم یہ دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور رہنمائی و امامت نظری و عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین وصالحین کے ہاتھ میں ہو۔
یہ تینوں نکات اگرچہ اپنی جگہ بالکل صاف ہیں، لیکن ایک مدت دراز سے ان پر غفلتوں اورغلط فہمیوں کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔اس لیے بدقسمتی سے آج غیر مسلموں کے سامنے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے سامنے بھی ان کی تشریح کی ضرورت پیش آگئی ہے۔
ہماری دعوت
مسلمانوں کو ہم جس چیز کی طرف بلاتے ہیںوہ یہ ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں کوسمجھیں اور ادا کریں جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان پر عائد ہوتی ہیں ۔ وہ ذمہ داریاں کیا ہیں؟وہ صرف یہی نہیں ہیں کہ آپ نکاح ،طلاق،وراثت وغیرہ کے معاملات میں اسلام کے مقرر کیے ہوئے ضابطے پر عمل کریں۔بلکہ ان سب کے علاوہ ایک بڑی اور بہت بھاری ذمہ داری آپ پر یہ بھی عائد ہوتی ہے کہ آپ تمام دنیا کے سامنے اس حق کے گواہ بن کر کھڑے ہوں جس پر آپ ایمان لائے ہیں۔مسلمان کے نام سے آپ کو ایک مستقل امت بنانے کی واحد غرض جو قرآن میں بیان کی گئی ہے کہ وہ یہی ہے کہ آپ تمام بندگان خدا پرشہادت حق کی حجت قائم کریں۔
اسی شہادت کے لیے انبیاءعلیھم السلام دنیا میں بھیجے گئے تھے اور اس کا ادا کرنا ان پر فرض تھا۔پھر یہی شہادت تمام انبیا ءکے بعد ان کی امتوں پر فرض ہوتی رہی اور اب خاتم النبیینﷺ کے بعد یہ فرض اب امت مسلمہ پر بحثیت مجموعی اسی طرح عائد ہوتا ہے جس طرح حضورﷺ پر آپ زندگی میں شخصی حیثیت سے عائد ہوا تھا۔حق کی یہی وہ ذمہ داری ہے جس کے لیے جماعت اسلامی قائم ہوئی۔انفرادی طور پر افراد اور مختصر سے دائرے کے اندرادارے پہلے بھی نیکی اور اصلاح کا کام کررہے ہیں، لیکن جماعت کی دعوت یہ ہے یہ کام محدودسے دائرے میں نہیں بلکہ زندگی کے وسیع میدانوں میں اجتماعی طور پر پوری امت ادا کرے۔اور اپنے قول وعمل سے شہادت حق کی ذمہ داری کو پورا کرے جو اس کو خاتم النبیینﷺ کی طرف سے سونپی گئی ہے۔ یہ قولی و عملی شہادت اس وقت مکمل ہوسکتی ہے جب کہ ایک اسٹیٹ انہی اصولوں پر قائم ہوجائے اور وہ پورے دین کو عمل میں لاکر اپنے عدل اورانصاف سے اپنے اصلاحی پروگرام سے، اپنے حسن انتظام سے، اپنے امن سے ،اپنے باشندوں کے فلاح و بہبودسے، اپنے حکمرانوں کی نیک سیرت سے، اپنی صالح داخلی سیاست سے ، اپنی راست بازانہ خارجہ پالیسی ، اپنی شریفانہ جنگ سے اور اپنی وفادارانہ صلح سے ساری دنیا کے سامنے اس بات کی شہادت دے کہ جس دین نے اس اسٹیٹ کو یہ سب کچھ دیا ہے وہ درحقیقت انسانی فلاح کا ضامن ہے اور اسی کی پیروی میں نوع انسانی کی بھلائی ہے۔
یہ ہے وہ حکومت الٰہیہ جسے جماعت اسلامی نے اپنا نصب العین بنایااورشہادت حق کا وہ فریضہ جس کی ادائیگی کی طرف مسلمانوں کو دعوت دے رہی ہے ۔ یہی دعوت انبیاءکرام لے کر آئے تھے ، اسی کی شہادت نبی ﷺ نے حجة الوداع کے موقع پر مجتمع امتیوں سے لی تھی اور پوچھا تھا کہ کیا میں نے حق کا پیغام آپ لوگوں تک پہنچا دیا ہے ۔ اور جب انہوں نے جواب دیا کہ پہنچا دیا ہے۔
تو آپ نے فرمایا"اے اللہ گواہ رہنا"۔
جماعت اسلامی کی دعوت کے بنیادی نکات
اس مقصد اور نصب العین تک پہنچنے کے لیے جماعت اسلامی مسلمانوں کو جو دعوت دیتی ہے وہ تین امور پر مبنی ہے۔
اول یہ کہ بندگان خدا بالخصوص مسلمان اللہ کی بندگی اختیار کریں۔
دوسرا یہ کہ اسلام قبول کرنے اور اس کو ماننے کا دعویٰ کرنے و الے اپنی زندگیوں کو تناقض ،تضادات اور منافقت سے پاک کریں اور مخلص مسلمان بن کر اسلام کے رنگ میں یک رنگ ہوجائیں۔
تیسرا یہ کہ زندگی کے باطل نظام کو جو باطل پرستوں اور فساق و فجار کی قیاد ت میں چل رہا ہے اورمعاملات کی زمامِ کارجو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے اسے بدلا جائے اور رہنمائی اور امامت ،نظری اورعلمی دونوں حیثیتوں سے مومنین صالحین کے ہاتھ میں منتقل ہوجائے۔یہ تیسرا اور آخری کام اسی وقت انجام دیا جاسکتا ہے جب اہل اسلام کا ایک ایسا گروہ منظم کیاجائے جو نہ صرف اپنے اپنے ایمان میں پختہ اور نہ صرف اپنے اسلام میں مخلص اور یک رنگ اور نہ صرف اپنے اخلاق میں صالح و پاکیزہ ہوبلکہ اس کے ساتھ ان تمام اوصاف اور قابلیتوں سے بھی آراستہ ہو جو دنیا کی کارگاہِ حیات کو بہترین طریقے پر چلانے کے لیے ضروری ہیں،صرف آراستہ ہی نہ ہوبلکہ موجودہ کارفرماؤں اورکارکنوں سے ان اوصاف اور قابلیتوں میں اپنے آپ کو فائق ثابت کردے
جماعت اسلامی مستقل طریقہ کار
۱۔وہ کسی امر کا فیصلہ کرنے یا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ دیکھے گی کہ خدا اور رسول ﷺ کی ہدائت کیا ہے۔دوسری ساری باتوں کو ثانوی حیثیت سے صرف اس حد تک پیش نظر رکھے گی جہاں تک اسلام میں اس کی گنجائش موجود ہو۔
۲۔اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لےے جماعت کبھی ایسے ذرائع اور طریقوں کواستعمال نہیں کرے گی جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں، یا جن سے فساد فی الارض رونما ہونے کا اندیشہ ہو۔
۳۔جماعت اپنے پیش نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی۔یعنی یہ کہ تبلیغ و تلقین اور اشاعت افکار کے ذریعے سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور رائے عامہ کو ان تغیرات کے لیے ہموارکیاجائے جوجماعت کے پیش نظر ہیں۔
۴۔جماعت اپنے نصب العین کے حصول کے لیے جدوجہد خفیہ تحریکوں کی طرز پر نہیں کرے گی،بلکہ کھلم کھلا اور اعلانیہ کرے گی۔
جماعت اسلامی کا مقصد
یہ مقصد اول روز سے ہمارے پیش نظر رہا ہے اور آج بھی یہی ایک مقصد ہے جس کے لئے ہم کام کر رہے ہیں۔ اس کے سوا کوئی دوسرا مقصد نہ ہمارے پیش نظر کبھی تھا نہ آج ہے، نہ ان شاءاللہ کبھی ہوگا۔آج تک جس کام سے بھی ہم نے دلچسپی لی ہے اسی مقصد کے لئے لی ہے،اور اسی حدتک لی ہے جس حد تک ہماری دانست میں اس کا تعلق اس مقصد سے تھا۔
جس چیزکو ہم قائم کرناچاہتے ہیں اس کاجامع نام قرآن کی اصطلاح میںدین حقہے،یعنی وہ نظامِ زندگی (دین)جو حق (پیغمبروں کی لائی ہوئی ہدایت کے مطابق اللہ کی بندگی واطاعت پر مبنی ہو۔مگر اس کےلئے کبھی کبھی ہم نے حکومت الٰہیہ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے جس کا مفہوم دوسروں کے نزدیک چاہے جو کچھ بھی ہو، ہمارے نزدیک صرف یہ ہے کہ اللہ کو حاکمِ حقیقی مان کر پوری انفرادی و اجتماعی زندگی اس کی محکومیت میں بسر کرنا۔ اس لحاظ سے یہ لفظ بالکل اسلام کا ہم معنی ہے۔ اسی بنا پر ہم ان تینوں اصطلاحوں(دین حق، حکومت الٰہیہ اور اسلام ) کو مترادف الفاظ کی طرح بولتے رہے ہیں۔ اور اس مقصد کے حصول کی جدوجہد کانام ہم نے اقامتِ دین، شہادتِ حق اور تحریک اسلامی رکھا ہے ۔ جن میں سے پہلے دو لفظ قرآن سے ماخوز ہیں اور دوسرا لفظ عام فہم ہونے کی وجہ سے اختیار کیاگیا ہے۔ ان الفاظ میں سے کسی پر اگر لوگوں نے ناک بھوں چڑھائی ہے تو اس لئے کہ انہوں نے ہماری اصطلاح سے اپنا مفہوم مراد لے لیا،ہمارا مفہوم مراد لیتے تو امید نہ تھی کہ اس پر وہ ناراض ہوتے۔
(جماعت اسلامی کا مقصد ،تاریخ اور لائحہ عمل:ص ۱)
ہماری دعوت تمام انسانوں کے لیے ہے
ہمارے نزدیک اسلام ان لوگوں کی جائیداد نہیں ہے جو پہلے سے مسلمان ہیں بلکہ خدا نے یہ نعمت ان سب کے لئے بھیجی ہے جو انسان پید ا ہوئے ہیں خواہ وہ روئے زمین کے کسی خطے میں بستے ہوں۔ اس بنا پر ہمارا مقصد محض مسلمانوں ہی کی نہیں بلکہ پوری نوعِ انسانی کی زندگی کو دین حق پر قائم کرناہے۔ مقصد کی یہ وسعت آپ سے آپ تقاضا کرتی ہے۔ کہ ہماری اپیل عام رہے اور کسی مخصوص قوم کے مفاد کو مدِ نظر رکھ کر کوئی ایسا طرزِ عمل نہ اختیار کیاجائے جواسلام کی اس عام اپیل کو نقصان پہنچانے والا ہو یااس کی نقیض واقع ہوتا ہو۔ مسلمانوں سے ہم کودلچسپی اس بنا پر نہیں ہے کہ ہم ان میں پید اہوئے ہیں اور وہ ہماری قوم ہیں بلکہ ان کے ساتھ ہماری دلچسپی کہ وجہ صرف یہ ہے کہ وہ اسلام کو مانتے ہیں، دنیا میں اس کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں،نوعِ انسانی تک اس کا پیغام پہنچانے کےلئے انہی کو ذریعہ بنایاجاسکتا ہے ،اور دوسروں کےلئے اس پیغام کو موثر بنانا اس کے بغیر ممکن بھی نہیں ہے کہ جولوگ پہلے سے مسلمان ہیں وہ اپنی انفرادی اجتماعی زندگی میں پورے اسلام کا صحیح نمونہ پیش کریں۔ اس بنا پر ہمارا راستہ ان لوگوں کے راستہ سے ہمیشہ الگ رہا ہے اور آج بھی الگ ہے جنہیں مسلمانوں سے اصل دلچسپی اس لئے ہے کہ وہ ان کی قوم ہیں اور اسلام سے یا تو کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے یا ہے تو اس وجہ سے ہے کہ وہ ان کی قوم و مذہب ہے۔ (جماعت اسلامی کا مقصد ،تاریخ اور لائحہ عمل:ص ۲
ہمارا تصور دین
دین حق اور اقامت دین کے تصور میںبھی ہمارے اور بعض دوسرے لوگوں کے درمیان اختلاف ہے ہم دین کومحض پوجا پاٹ اور چند مخصوص مذہبی عقائد ورسوم کا مجموعہ نہیں سمجھتے بلکہ ہمارے نزدیک یہ لفظ طریقِ زندگی اور نظامِ حیات کا ہم معنی ہے اور اس کا دائرہ انسانی زندگی کے سارے پہلوؤں اورتمام شعبوں پرحاوی ہے۔ ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ زندگی کوالگ لگ حصوں میں بانٹ کر الگ الگ اسکیموں کے تحت چلایا جاسکتاہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ اس طرح کی تقسیم اگر کی بھی جائے تو وہ قائم نہیں رہ سکتی۔ کیونکہ انسانی زندگی کے مختلف پہلو انسانی جسم کے اعضا کی طرح ایک دوسرے سے ممیز ہونے کے باوجود آپس میں اس طرح پیوستہ ہیں کہ و ہ سب مل کر ایک کل بن جاتے ہیں اور ان کے اندر ایک ہی روح جاری و ساری ہوتی ہے۔یہ روح اگر خدااور آخرت سے بے نیازی اورتعلیمِ انبیاءسے بے تعلقی کی روح ہوتو پوری زندگی کانظام ایک دین باطل بن کر رہتا ہے اور اس کے ساتھ خدا پرستانہ مذہب کا ضمیمہ اگر لگا کر رکھا بھی جائے تو مجموعی نظام کی فطرت بتدریج اس کو مضمحل کرتے کرتے آخر کار بالکل محو کردیتی ہے۔ اور اگر یہ روح خدااور آخرت پر ایمان اورتعلیم ِانبیاءکے اتباع کی روح ہوتو اس سے زندگی کا پورا نظام ایک دین حق بن جاتا ہے۔ جس کے حدود عمل میں ناخدا شناسی کافتنہ اگر کہیں ر ہ بھی جائے تو زیادہ دیر تک پنپ نہیں سکتا۔ اس لئے ہم جب اقامت دین کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ہمارا مطلب محض مسجدوں میں دین قائم کرنا، یا چند مذہبی عقائد اور اخلاقی احکام کی تبلیغ کردینا نہیں ہوتا۔بلکہ اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ گھراور مسجد ، کالج اور منڈی ، تھانے اورچھاؤنی ،ہائیکورٹ اور پارلیمنٹ، ایوان وزارت اور سفارت خانے، سب پر اس ہی ایک خدا کادین قائم کیاجائے جس کوہم نے اپنارب اور معبود تسلیم کیا ہے اور سب کا انتظام اسی ایک رسو ل کی تعلیم کے مطابق چلایا جائے جسے ہم اپنا ہادی برحق مان چکے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہماری ہر چیز کو مسلمان ہونا چاہیے ۔ اپنی زندگی کے کسی پہلوکو بھی ہم شیطان کے حوالے نہیں کرسکتے۔ ہمارے ہاں سب کچھ خدا کا ہے۔ شیطان یا قیصر کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
(جماعت اسلامی کا مقصد ،تاریخ اور لائحہ عمل:ص ۳)
مذہب اور سیاست
کوئی کہتا ہے کہ تم مذہب کی تبلیغ کرو۔ سیاست میں کیوں دخل دیتے ہو۔مگر ہم ا س بات کے قائل ہیں کہ جدا ہودین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی اب کیا یہ لوگ ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ ہماری سیاست پر چنگیزی مسلط رہے اور ہم مسجد میں مذہب کی تبلیغ کرتے رہیں؟اور آخر وہ مذہب کون سا ہے جس کی تبلیغ کے لیے وہ ہم سے کہہ رہے ہیں؟اگر وہ پادریوں والا مذہب ہے جو سیاست میں دخل نہیں دیتا تو ہم اس پر ایمان نہیں رکھتے۔ اور اگر وہ قرآن و حدیث کا مذہب ہے جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں۔ تو وہ سیاست میں محض دخل ہی نہیں دیتا بلکہ اس کو اپنا ایک جزو بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔
کوئی کہتا ہے کہ تم پہلے مذہبی لوگ تھے، اب سیاسی گروہ بن گئے ہو۔ حالانکہ ہم پر کبھی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب ہم غیر سیاسی مذہب کے لحاظ سے مذہبی رہے ہوں ، اور آج خدا کی لعنت ہو ہم پر اگر ہم غیر مذہبی سیاست کے لحاظ سے سیاسی بن گئے ہوں۔ ہم توا سلام کے پیرو ہیں اور اسی کوقائم کرنا چاہتے ہیں۔ و ہ جتنا مذہبی ہے اتنے ہی ہم مذہبی ہیں اور ابتدا سے تھے۔ تم نے نہ کل ہمیں سمجھا تھا جب کہ ہم کو مذہبیگروہ قراردیا۔اور نہ آج سمجھا ہے جب کہ ہمارا نام سیاسی جماعترکھا۔ سیاست اور مذہب میں تمہارا استاد یورپ ہے۔ اس لئے نہ تم نے اسلام کو سمجھا اور نہ ہمیں۔
کوئی کہتا ہے کہ الٰہ تو صرف معبود ہے تم نے یہ سیاسی حاکمیت اس کے لیے کہاں سے ثابت کردی ؟ اور اس پرغضب یہ ہے کہ تم اس حاکمیت کو اللہ کے لئے مخصوص کرتے ہو اور انسانی حاکمیت کے منکر ہو۔ یہ تو خالص خارجیت ہے۔ کیونکہ تمہاری طرح خارجی بھی یہی کہتے تھے کہ انِ الحُکم اِلا للہ مگر ہمارے نزدیک قرآن و حدیث کی رو سے خدا کا حق صرف عبادت و پرستش ہی نہیں بلکہ طاعت و عبدیت بھی ہے۔ ان میں سے جس حق میں بھی خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کیاجائے گا،شرک ہوگا، بندوں میںسے کسی کی اطاعت اگر کی جاسکتی ہے تو صرف خدا کے اذنِ شرعی کی بنا پر کی جاسکتی ہے اور وہ بھی خدا کی مقرر کردہ حدود کے اندر۔ رہا خدا سے بے نیاز ہوکر مستقل بالذات مطاع ہوناتو وہ تو رسول کا حق بھی نہیں ہے کجا کہ کسی انسانی ریاست یا سیاسی و تمدنی ادارے کا حق ہو۔ جس قانون ، عدالت اور حکومت میں خدا کی کتاب اوراس کے رسول کی سنت کو مسند نہ مانا جائے، جس کا بنیادی اصول یہ ہو کہ اجتماعی زندگی کے جملہ معاملات میں اصول اور فروع تجویز کرنا انسانوں کا اپنا کام ہے اور جس میں قانون ساز مجلسیں خدائی احکام کی طرف رجوع کرنے کی سرے سے ضرورت ہی نہ تسلیم کرتی ہوں اور عملا ان کے خلاف قوانین بناتی ہوں اس کے اطاعت کے لزوم تو درکنار جواز تک کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث میں موجود نہیں ہے۔ اس بلا کو زیادہ سے زیادہ صرف برداشت کیاجاسکتا ہے جب کہ انسان اس کے پنجہ اقتداد میں گرفتار ہوجائے۔ مگر جوشخص ایسی حکومتوں کے حقِ فرمانروائی کو تسلیم کرتا ہے اور اس بات کو ایک اصول برحق کی حیثیت سے مانتا ہے۔ کہ خدائی ہدایت کوچھوڑ کرانسان بطور خود اپنے تمدن،سیاست اورمعیشت کے اصول و قوانین وضع کرلینے کے مجاز ہیں۔ وہ اگر خدا کومانتا ہے تو شرک میں مبتلا ہے ورنہ زندقہ میں۔ ہمارے مسلک کوخارجیت سے تعبیر کرنا مذہب اہل سنت اور مذہبِ خوارج ،دونوں سے ناواقفیت کاثبوت ہے۔ علماءاہل سنت کی لکھی ہوئی کتب اصو ل میں سے جس کو چاہے اٹھا کر دیکھ لیجئے۔
اس میں یہی لکھا ملے گا کہ حکم دینے کا حق اللہ کے لئے خاص ہے۔مثال کے طور پر علامہ آمدی اپنی کتاب الاحکام فی اصول الاحکام میں لکھتے ہیں کہ اعلم انہ لا حاکم سوی اللہ ولاحکم الا ماحکم بہ جان لو کہ حاکم اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے اور حکم صرف وہ ہے جو اللہ نے دیا ہے۔
اسلامی حکومت
کچھ اور لوگ ہیں جو چند راچندرا کر پوچھتے ہیں کہ حکومت الٰہیہ یا اسلامی حکومت کا قیام کس نبی کی دعوت کا مقصود رہا ہے؟مگر ہم پوچھتے ہیں کہ یہ قرآن اور توراة میں عقائد و عبادات کے ساتھ دیوانی اور فوجداری قوانین اور صلح جنگ کے احکام، اور معیشت و معاشرت کے قواعد وضوابط، اور سیاسی تنظیم کے اصول بیان ہوئے ہیں۔ کیا یہ سب محض تفنن طبع کے لیے ہیں؟کیا یہ آپ کے اختیارتمیزی پر چھوڑا گیا ہے کہ کتاب اللہ کی تعلیمات میں سے جس چیز کو چاہیں جزو دین مانیں اور جسے چاہیں غیر ضروری زوائد میں شمار کریں؟کیا انبیاءبنی اسرائیل علیھم السلام اور خاتم النبیین محمدﷺ نے جو سیاسی نظام قائم کیے وہ ان کی پیغمبرانہ دعوت کے مقاصد میں سے نہ تھے؟محض ملاقات سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے اپنا شوق فرمانروائی پورا کیا تھا۔کیا دنیامیں کوئی قانون اس لئے بھی بنایا جاتا ہے کہ صرف اس کی تلاوت کرلی جائے، اس کا نفاذ سرے سے مقصود ہی نہ ہو؟کیاواقعی ایمان اسی چیز کا نام ہے کہ ہم روز اپنی نمازوں میں کتاب اللہ کی وہ آیات پڑھیں جن میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کے متعلق اصول اور احکام بیان ہوئے ہیں اور رات دن ہماری زندگی کے اکثر و بیشتر معاملات ان کے خلاف چلتے رہیں۔
ہمارا مسلک
خدا کی بندگی جس پر ہم پورے نظام زندگی کوقائم کرناچاہتے ہیں،اس کے بارے میں بھی ہمارا ایک واضح مسلک ہے اور وہ مختلف گروہوں کو مختلف وجوہ سے پسند نہیں آتا۔ہمارے نزدیک ہر شخص اس کا مختار نہیں ہے کہ اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق جس طرح چاہے خدا کی بندگی کرے بلکہ اس کی ایک ہی صحیح صورت ہے اور وہ اس شریعت کی پابندی ہے جو محمد ﷺ لے کر آئے ہیں۔ اس شریعت کے معاملے میں کسی مسلمان کے اس حق کو ہم تسلیم نہیں کرتے کہ اس کی جن باتوں کوچاہے قبول کرے اور جن باتوں کو چاہے رد کردے۔ بلکہ ہم اسلام کے معنی ہی اطاعت حکمِ خداوندی اوراتباع شریعتِ محمدی ﷺ کے سمجھتے ہیں۔ شریعت کے علم کا ذریعہ ہمارے نزدیک صرف قرآن پاک نہیں ہے بلکہ حدیث رسولﷺ بھی ہے اور قرآن و حدیث سے استدلال کا صحیح طریقہ ہمارے نزدیک یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنے نظریات پر خداور رسول کی ہدایات کو ڈھالے بلکہ یہ ہے کہ آدمی اپنے نظریات کو خدا اور رسول کی ہدایات پر ڈھالے پھر ہم نہ تو تقلید جامد کے قائل ہیں جس میں اجتہاد کی جگہ نہ ہو اور نہ ایسے اجتہاد کے قائل ہیں کہ ہر بعد کی نسل اپنے سے پہلے کی نسلوں کے سارے کام پر پانی پھیر دے اور بالکل نئے سرے سے ساری عمارت اٹھانے کی کوشش کرے۔
اس مسلک کا ہر جزو ایسا ہے جس سے ہماری قوم کا کوئی نہ کوئی گروہ ہم سے ناراض ہے۔ کوئی سرے سے خدا کی بندگی کا قائل ہی نہیں ہے۔ کوئی شریعت سے بے نیاز ہو کر اپنی صواب دید کے مطابق خدا کی بندگی کرنا چاہتا ہے۔ کوئی شریعت میں اپنا اختیار چاہتا ہے اور اس کا مطالبہ یہ ہے کہ جوکچھ اسے پسند ہے وہ اس شریت میں رہے اور جو اسے پسند نہیں ہے وہ شریعت سے خارج ہوجائے۔ کوئی قرآن و حدیث سے قطع نظر کر کے اپنے من گھڑت ا اصولوں کا نام اسلام رکھے ہوئے ہے کوئی حدیث کو چھوڑ کر صرف قرآن کو مانتا ہے ۔کوئی اصول اور نظریات کہیں باہر سے لے آیا ہے یا اپنے دل سے گھڑ لایا ہے اور پھر زبردستی قرآن و حدیث کے ارشادات کو ان پر ڈھالنے کی کوشش کررہا ہے۔ کسی کوتقلید جامد پر اصرار ہے اور کوئی تمام پچھلے آئمہ کے کارناموں کودریا برد کرکے نیا اجتہاد کرنا چاہتا ہے۔
اختلاف مسلک کا حق
ہماراراستہ ان سب گروہوں سے الگ ہے اور ہم مجبور ہیں کہ ان سے اختلاف بھی کریں اور ان کے علی الرغم اپنے مسلک کی تبلیغ بھی کریں اسی طرح دوسرے کے بھی اس حق کو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ وہ جس معاملے میں بھی ہم کوغلطی پر سمجھتے ہیں اس میں ہم سے اختلاف کریں اور ہمارے علی الرغم اپنے مسلک کی تبلیغ کریں۔ اب ہر شخص جو ہندوستان و پاکستان میں رہتا ہے اور مختلف گروہوں کے لٹریچر پر نظر رکھتا ہے ۔ خود ہی یہ دیکھ سکتا ہے کہ اپنی تنقید و تبلیغ میں ہمارا رویہ کیارہا ہے اور ہمارے مخالفین نے جواب میں کس تہذیب و دیانت اور معقولیت کاثبوت دیا ہے۔
جماعت اسلامی کا مقصد ،تاریخ اور لائحہ عمل:ص ۲۰
جماعت اسلامی جس مقصد کے لیے قائم کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کے پورے نظام کو اس کے تمام شعبوں (فکر و نظر،عقیدہ و خیال، مذہب واخلاق،سیرت و کردار ،تعلیم وتربیت ، تہذیب و ثقافت، تمدن و معاشرت ، معیشت وسیاست ،قانون و عدالت،صلح و جنگ اور بین الاقوامی تعلقات) سمیت خدا کی بندگی اور انبیاءعلیھم السلام کی ہدایت پر قائم کیا جائے۔
جماعت اسلامی ہی کیوں
جماعت اسلامی کا ساتھ کیوں دیں؟
جماعت اسلامی کانام آپ نے ضرور سنا ہوگا، لیکن جب بھی سنا ہوگا شاید یہسوچ کرگزر گئے ہوں گے: ایسی مذہبی اور سیاسی جماعتیں تو بہت سی ہیں کیاضروری ہے کہ میں اس میں شامل ہونے اور کچھ کرنے کاسوچوں؟
آپ جماعت اسلامی کا ساتھ کیوں دیں؟
آیئے! بات یہاں سے شروع کریں کہ زندگی آپ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ زندگیہے تو دنیا کی ہرنعمت سے آپ لطف اندوز ہوسکتے ہیں، اور آخرت کی ساریلازوال نعمتیں بھی کما سکتے ہیں۔ اگر زندگی ہی اصل نعمت ہے تو پھر زندہرہنا ایک خوش گوار تجربہ اور لذت بخش کام ہونا چاہیے۔لیکن............سوچیے، تو آپ کاد ل خود پکاراٹھے گا کہ آج زندگیپریشانیوں کے بوجھ تلے پسی جا رہی ہے اور زندہ رہنا ایک تلخ تجربہاورتکلیف دہ کام بن گیا پیٹ بھرنے کی فکر میں، اور جن کا بھرتا ہے ان کواور بھرنے کی فکر میں تگ و دو کرتے صبح سے شام ہوجاتی ہے۔ پھر بھی ساریعمران ہی فکروں میں گزر جاتی ہے کہ دن دوگنی رات چوگنی بڑھتی ہوئی قیمتوںکے ساتھ خرچ نہیںپورا ہوتا، رہنے کے لیے صاف ستھرا مکان میسرنہیں،بچوں کوداخلے نہیںملتے اور مل جائیں تو روزگار کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھاتےپھرتے ہیں،علاج کے لیے کمرتوڑ اخراجات اور ہسپتالوں کے چکر بس سے باہر ہیں۔
وطن عزیز کو دیکھیے تو ہر طرف ظلم اورفسادکاراج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سبانسانوں کو برابر بنایا ہے، لیکن چند لوگوں نے اپنے حق سے زیادہ زر، زمیناورطاقت حاصل کر لی ہے۔ اپنے جیسے انسانوں کی گردن پرسوار ہو کر ان پرغربت و جہالت مسلط کررکھی ہے۔ اپنے ہم وطنوں کو کمزور بنا کر ان کے حقوقدبالیے ہیں اور ان کو زندگی کی معمولی خوشیوں سے بھی محروم کررکھا ہے۔بددیانتی اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے اور جائز سے جائز کام بھی سفارشاوررشوت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ پولیس کے ہاتھوں عزت محفوظ نہیں، جیبیں خالیکرکے بھی عدالتوں میںانصاف نصیب نہیں ہوتا ، تعلیم کا معیار پست ہے اوراخلاق کااس سے بھی کہیں زیادہ گرا ہوا۔ گھر کے اندر ہوں یا باہر، دل ونگاہ کو پاک رکھنا محال ہے ۔ فوجیں دشمن کو فتح کرنے کے بجاے اپنی قوم کوہی مارشل لا کے ذریعے بار بار فتح کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور سرکاری افسرعوام کے خادم بننے کے بجائے ان کے آقا بن بیٹھے ہیں۔
امت کو دیکھیے،تواگرچہ دنیا کا ہر پانچواں آدمی مسلمان ہے، مگرمسلمان کادنیا میں وزن ہے نہ عزت۔ دنیا کی غالب قومیں دونوں ہاتھوں سے اس کولوٹنےاوردبانے میں لگی ہوئی ہیں، مگر وہ بے بس تماشا ئی ہے یا خوشی خوشی ان کےدام میں پھنستا ہے۔
آپ اکثر سوچتے ہوں گے کہ مسائل کا یہ جنگل کیسے صاف ہوسکتا ہے اورزندگی اطمینان کاگہوارہ کس طرح بن سکتی ہے۔
جماعت اسلامی کا پیغام اور پروگرام اسی سوال کا جواب ہے۔
ہمارا پیغام
اگرمسلمان آج دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں اور ان کے مصائب سب سے بڑھکر ہیں تو وجہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ہم نے وہ مشن فراموش کردیا ہے، جسکے لیے یہ امت بنی تھی۔ ہم ا للہ اور اس کے رسولﷺ سے بے وفائی کررہے ہیں۔ہم نے اس دنیا کوہی اپنا محبوب ومطلوب بنا لیا اور خدا کے دین کے لیے اپنےوقت اور مال کاکوئی حصہ صرف کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مسلمان قرآن پڑھتےاوررسولﷺ کی محبت کادم بھرتے ہیں ،لیکن ان کے احکام کی خلاف ورزی کرنے سےبالکل نہیں جھجکتے۔جماعت اسلامی ہر مسلمان کویہ پیغام دیتی ہے کہ خداکوخدااوررسول کورسول مان کرتمہارے لیے جائز نہیں کہ تم زندگی کے کسی حصے میں انکے خلاف چلو بلکہ تمہارا فرض ہے کہ پوری زندگی میں اللہ کے دین کو غالبکرنے کے لیے جان و مال سے جہاد کرو۔ اور یہ کام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جبتک تم جمع ہوکرایک جماعت نہ بن جاو۔
اس کارِرسالت کے فرض کو اداکرنے کے لیے جماعت اسلامی بنی ہے۔یہ محض ایکسیاسی جماعت نہیں جس کی سرگرمیاں انتخابات تک محدود ہوں، نہ ایک مذہبیجماعت ہے جس کی دلچسپیاں صرف اعتقادی و فقہی اور روحانی مسائل ہی کے لیےمخصوص ہوں۔بلکہ ہماری ساری جدوجہد کامقصد صرف ایک ہی ہے کہ ہم اللہ کےمطیع اورفرمانبردار بن جائیں اور اس کی رضا اورقربت حاصل کریں۔ یہ رضا اورقربت ایک ایسے انقلاب کے لیے جدوجہد سے ہی حاصل ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میںدلوں پر بھی اللہ کی حکومت قائم ہوجائے اور پوری زندگی پر بھی وہ پرائیویٹہوں یاپبلک۔ یہ اعلان کہ زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ کی ملکیت ہےاس ہمہگیرانقلاب کی دعوت ہے۔
ہماراپروگرام
جماعت اسلامی کاپروگرام یہی ہے کہ اپنے پیغام سے غافل لوگوں کوجگائے۔جوساتھ دیں ان کی تربیت کرکے ان کو منظم قوت بنادے، معاشرے میں صحیحاسلامی فکر، اسلامی سیرت اور سچے مسلمان کی سی عملی زندگی پیداکرنے کیکوشش کرے اورعوام کی قوت سے زندگی کے ہر شعبہ میں بالخصوص حکومت میں،خدااور رسول کے باغیوں کے ہاتھوں سے قیادت اورفرماں روائی چھین کر اس کے مطیعفرماں بردار بندوں کے حوالے کردے۔ جماعت اسلامی اپنی ساری قوت پاکستانکوایسی ایک فلاحی واسلامی ریاست بنانے میں لگارہی ہے:
٭ جو خلافت راشدہ کانمونہ ہو
٭ جوہرشہری کوا س کی بنیادی ضروریات(روٹی،کپڑا ،مکان،علاج،تعلیم،انصاف) کی ضمانت دے اوروسائل کی منصفانہ تقسیم کرے۔
٭ جہاں تمام بنیادی انسانی حقوق محفوظ ہوں۔
٭ جہاں عوام انتخابات کے ذریعے اپنی مرضی سے جسے اقتدار میں لاناچاہیں لاسکیں اور جسے ہٹانا چاہیں ہٹا سکیں۔
آپ کادل کیا کہتا ہے؟
اگرجماعت اسلامی کاپیغام اور پروگرام آپ کوبرحق لگتا ہے تو ہم آپ کودعوتدیتے ہیں کہ آپ اس جدوجہد میں ہمارے ساتھی بنیں اور جماعت اسلامی میںباقاعدہ شامل ہوں، جماعت اسلامی چندمخصوص لوگوں کا گروہ نہیں بلکہ عوامالناس کی جماعت ہے۔ وہ عوا م الناس جو ظلم اور ناانصافی پرکڑھتے ہیں اوراسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ظلم کاشکنجہ گھر بیٹھ کر کڑھنے یازبانی جمعخرچ سے نہیں ٹوٹ سکتا۔ یہ شکنجہ تبھی ٹوٹے گا جب آپ خودجدوجہد میں شاملہوں گے۔لہٰذا آپ خود اٹھ کراپنے وقت اورمال کاایک معقول حصہ اللہ کے کا ممیں لگا دیں۔ جب آپ کی طرح سب لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے تو وہ دن دور نہیں جبظلم اور بے انصافی کے اندھیرے چھٹ جائیں گے، عدل کاسورج طلوع ہوگا اور ہمسب پر صرف اللہ کی حکومت ہوگی۔
آپ کا ضمیر ،آپ کاملک، آپ کی ملت، دکھی انسانیت ، سب آپ کو پکار رہے ہیں ۔ دنیا میں عزت و سربلندی اورآخرت میں جنتآپ کی منتظر ہے۔
کونو انصار اللہ اللہ کے مددگار بن جاو
نحن انصار اللہ ہم اللہ کے مددگار ہیں
18 December-Jamaat e Islami Jalsa e Inqelab -Peshawar-All updates here
18 DECEMBER JALSA COVERAGE
BIGGEST JALSA EVER IN THE HISTORY OF KHYBER PROVINCE



BEFORE JALSA



TODAY













=========================
جماعت اسلامی کی دعوت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
i have seen most of people on this forum dont know at all about motto of jamaat e Islami.Some consider it a political party,some only religious party.so i am posting this thread so people who are interested can read facts about jamaat
Offical Jamaat e Islami Website:
ہماری دعوت
فلسفہ جماعت
جماعت اسلامی ہی کیوں؟
آئین جماعت
جماعت میں شمولیت کیسے؟
-------------------
ہماری دعوت
ہماری دعوت کیاہے؟
ہماری دعوت کے متعلق عام طور پر جوبات کہی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم حکومت الٰہیہ کے قیام کی دعوت دیتے ہیں۔حکومت الٰہیہ کالفظ کچھ تو خود غلط فہمی پیدا کرتا ہے اور کچھ اسے غلط فہمی پیدا کرنے کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں اور انہیں ایسا سمجھایا بھی جاتا ہے کہ حکومت الٰہیہ سے مراد محض ایک سیاسی نظام ہے اور ہماری غرض اس کے سوااور کچھ نہیں ہے کہ موجودہ نظام کی جگہ وہ مخصوص سیاسی نظام قائم ہو۔ پھرچونکہ اس سیاسی نظام کے چلانے والے لامحالہ ہی مسلمان ہوں گے جو اس کے قیام کی تحریک میں حصہ لے رہے ہوں ، اس لیے خود بخود اس تصورمیں سے یہ معنی نکل آتے ہیں یا ہوشیاری سے نکال لیے جاتے ہیں کہ ہم محض حکومت چاہتے ہیں۔ اس کے بعد ایک دین دار وعظ ہوتا ہے اور ہم سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پیش نظر محض دنیا ہے۔ حالانکہ مسلمان کے پیش نظر دین اور آخرت ہونی چاہیئے اوریہ کہ حکومت طلب کرنے کی چیز نہیں ہے بلکہ ایک انعام ہے جو دین دار زندگی کے صلے میں اللہ کی طرف سے مل جاتا ہے ۔ یہ باتیں کہیں تو نافہمی کے ساتھ کی جاتی ہیں اور کہیں نہایت ہوشمندی کے ساتھ اس غرض کے لیے کہ اگر ہمیں نہیں تو کم سے کم خلق خدا کے ایک بڑے حصے کو بدگمانیوں اور غلط فہمیوں میں مبتلا کیاجائے، حالانکہ اگر کوئی شخص ہمارے لٹریچر کو کھلے دل کے ساتھ پڑھے تو اس پر باآسانی یہ بات کھل سکتی ہے کہ ہمارے پیش نظر صرف ایک سیاسی نظام کا قیام نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ پوری انسانی زندگی....انفرادی اور اجتماعی زندگی....میں وہ ہمہ گیر انقلاب رونما ہوجو اسلام رونما کرناچاہتا ہے، جس کے لیے اللہ نے اپنے انبیاءکو مبعوث کیا تھا اور جس کی دعوت دینے اور جدوجہد کرنے کے لیے ہمیشہ انبیاءعلیھم السلام کی امامت و رہنمائی میں امت مسلمہ کے نام سے ایک گروہ بنتا رہا ہے۔
دعوت اسلامی کے تین نکات
اگرہم اپنی اس دعوت کو مختصر طور پر صاف اورسیدھے الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو یہ تین نکات(Points)پر مشتمل ہوگی
(1)یہ کہ ہم بندگان خداکو بالعموم اور جوپہلے سے مسلمان ہیں،ان کو بالخصوص اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
(2) یہ کہ جو شخص بھی اسلام قبول کرنے یا اس کوماننے کادعویٰ یااظہار کرلے، اس کوہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اور تناقض کو خارج کر دے اور جب وہ مسلمان ہے ، یا بنا ہے تو مخلص مسلمان بنے،اوراسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہوجائے۔
(3)یہ کہ زندگی کانظام جوآج باطل پرستوں اور فساق و فجار کی رہنمائی اور قیادت و فرمانروائی میں چل رہاہے اور معاملات دنیا کے نظام کی زمام کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے،ہم یہ دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور رہنمائی و امامت نظری و عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین وصالحین کے ہاتھ میں ہو۔
یہ تینوں نکات اگرچہ اپنی جگہ بالکل صاف ہیں، لیکن ایک مدت دراز سے ان پر غفلتوں اورغلط فہمیوں کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔اس لیے بدقسمتی سے آج غیر مسلموں کے سامنے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے سامنے بھی ان کی تشریح کی ضرورت پیش آگئی ہے۔
ہماری دعوت
مسلمانوں کو ہم جس چیز کی طرف بلاتے ہیںوہ یہ ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں کوسمجھیں اور ادا کریں جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان پر عائد ہوتی ہیں ۔ وہ ذمہ داریاں کیا ہیں؟وہ صرف یہی نہیں ہیں کہ آپ نکاح ،طلاق،وراثت وغیرہ کے معاملات میں اسلام کے مقرر کیے ہوئے ضابطے پر عمل کریں۔بلکہ ان سب کے علاوہ ایک بڑی اور بہت بھاری ذمہ داری آپ پر یہ بھی عائد ہوتی ہے کہ آپ تمام دنیا کے سامنے اس حق کے گواہ بن کر کھڑے ہوں جس پر آپ ایمان لائے ہیں۔مسلمان کے نام سے آپ کو ایک مستقل امت بنانے کی واحد غرض جو قرآن میں بیان کی گئی ہے کہ وہ یہی ہے کہ آپ تمام بندگان خدا پرشہادت حق کی حجت قائم کریں۔
اسی شہادت کے لیے انبیاءعلیھم السلام دنیا میں بھیجے گئے تھے اور اس کا ادا کرنا ان پر فرض تھا۔پھر یہی شہادت تمام انبیا ءکے بعد ان کی امتوں پر فرض ہوتی رہی اور اب خاتم النبیینﷺ کے بعد یہ فرض اب امت مسلمہ پر بحثیت مجموعی اسی طرح عائد ہوتا ہے جس طرح حضورﷺ پر آپ زندگی میں شخصی حیثیت سے عائد ہوا تھا۔حق کی یہی وہ ذمہ داری ہے جس کے لیے جماعت اسلامی قائم ہوئی۔انفرادی طور پر افراد اور مختصر سے دائرے کے اندرادارے پہلے بھی نیکی اور اصلاح کا کام کررہے ہیں، لیکن جماعت کی دعوت یہ ہے یہ کام محدودسے دائرے میں نہیں بلکہ زندگی کے وسیع میدانوں میں اجتماعی طور پر پوری امت ادا کرے۔اور اپنے قول وعمل سے شہادت حق کی ذمہ داری کو پورا کرے جو اس کو خاتم النبیینﷺ کی طرف سے سونپی گئی ہے۔ یہ قولی و عملی شہادت اس وقت مکمل ہوسکتی ہے جب کہ ایک اسٹیٹ انہی اصولوں پر قائم ہوجائے اور وہ پورے دین کو عمل میں لاکر اپنے عدل اورانصاف سے اپنے اصلاحی پروگرام سے، اپنے حسن انتظام سے، اپنے امن سے ،اپنے باشندوں کے فلاح و بہبودسے، اپنے حکمرانوں کی نیک سیرت سے، اپنی صالح داخلی سیاست سے ، اپنی راست بازانہ خارجہ پالیسی ، اپنی شریفانہ جنگ سے اور اپنی وفادارانہ صلح سے ساری دنیا کے سامنے اس بات کی شہادت دے کہ جس دین نے اس اسٹیٹ کو یہ سب کچھ دیا ہے وہ درحقیقت انسانی فلاح کا ضامن ہے اور اسی کی پیروی میں نوع انسانی کی بھلائی ہے۔
یہ ہے وہ حکومت الٰہیہ جسے جماعت اسلامی نے اپنا نصب العین بنایااورشہادت حق کا وہ فریضہ جس کی ادائیگی کی طرف مسلمانوں کو دعوت دے رہی ہے ۔ یہی دعوت انبیاءکرام لے کر آئے تھے ، اسی کی شہادت نبی ﷺ نے حجة الوداع کے موقع پر مجتمع امتیوں سے لی تھی اور پوچھا تھا کہ کیا میں نے حق کا پیغام آپ لوگوں تک پہنچا دیا ہے ۔ اور جب انہوں نے جواب دیا کہ پہنچا دیا ہے۔
تو آپ نے فرمایا"اے اللہ گواہ رہنا"۔
جماعت اسلامی کی دعوت کے بنیادی نکات
اس مقصد اور نصب العین تک پہنچنے کے لیے جماعت اسلامی مسلمانوں کو جو دعوت دیتی ہے وہ تین امور پر مبنی ہے۔
اول یہ کہ بندگان خدا بالخصوص مسلمان اللہ کی بندگی اختیار کریں۔
دوسرا یہ کہ اسلام قبول کرنے اور اس کو ماننے کا دعویٰ کرنے و الے اپنی زندگیوں کو تناقض ،تضادات اور منافقت سے پاک کریں اور مخلص مسلمان بن کر اسلام کے رنگ میں یک رنگ ہوجائیں۔
تیسرا یہ کہ زندگی کے باطل نظام کو جو باطل پرستوں اور فساق و فجار کی قیاد ت میں چل رہا ہے اورمعاملات کی زمامِ کارجو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے اسے بدلا جائے اور رہنمائی اور امامت ،نظری اورعلمی دونوں حیثیتوں سے مومنین صالحین کے ہاتھ میں منتقل ہوجائے۔یہ تیسرا اور آخری کام اسی وقت انجام دیا جاسکتا ہے جب اہل اسلام کا ایک ایسا گروہ منظم کیاجائے جو نہ صرف اپنے اپنے ایمان میں پختہ اور نہ صرف اپنے اسلام میں مخلص اور یک رنگ اور نہ صرف اپنے اخلاق میں صالح و پاکیزہ ہوبلکہ اس کے ساتھ ان تمام اوصاف اور قابلیتوں سے بھی آراستہ ہو جو دنیا کی کارگاہِ حیات کو بہترین طریقے پر چلانے کے لیے ضروری ہیں،صرف آراستہ ہی نہ ہوبلکہ موجودہ کارفرماؤں اورکارکنوں سے ان اوصاف اور قابلیتوں میں اپنے آپ کو فائق ثابت کردے
جماعت اسلامی مستقل طریقہ کار
۱۔وہ کسی امر کا فیصلہ کرنے یا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ دیکھے گی کہ خدا اور رسول ﷺ کی ہدائت کیا ہے۔دوسری ساری باتوں کو ثانوی حیثیت سے صرف اس حد تک پیش نظر رکھے گی جہاں تک اسلام میں اس کی گنجائش موجود ہو۔
۲۔اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لےے جماعت کبھی ایسے ذرائع اور طریقوں کواستعمال نہیں کرے گی جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں، یا جن سے فساد فی الارض رونما ہونے کا اندیشہ ہو۔
۳۔جماعت اپنے پیش نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی۔یعنی یہ کہ تبلیغ و تلقین اور اشاعت افکار کے ذریعے سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور رائے عامہ کو ان تغیرات کے لیے ہموارکیاجائے جوجماعت کے پیش نظر ہیں۔
۴۔جماعت اپنے نصب العین کے حصول کے لیے جدوجہد خفیہ تحریکوں کی طرز پر نہیں کرے گی،بلکہ کھلم کھلا اور اعلانیہ کرے گی۔
جماعت اسلامی کا مقصد
یہ مقصد اول روز سے ہمارے پیش نظر رہا ہے اور آج بھی یہی ایک مقصد ہے جس کے لئے ہم کام کر رہے ہیں۔ اس کے سوا کوئی دوسرا مقصد نہ ہمارے پیش نظر کبھی تھا نہ آج ہے، نہ ان شاءاللہ کبھی ہوگا۔آج تک جس کام سے بھی ہم نے دلچسپی لی ہے اسی مقصد کے لئے لی ہے،اور اسی حدتک لی ہے جس حد تک ہماری دانست میں اس کا تعلق اس مقصد سے تھا۔
جس چیزکو ہم قائم کرناچاہتے ہیں اس کاجامع نام قرآن کی اصطلاح میںدین حقہے،یعنی وہ نظامِ زندگی (دین)جو حق (پیغمبروں کی لائی ہوئی ہدایت کے مطابق اللہ کی بندگی واطاعت پر مبنی ہو۔مگر اس کےلئے کبھی کبھی ہم نے حکومت الٰہیہ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے جس کا مفہوم دوسروں کے نزدیک چاہے جو کچھ بھی ہو، ہمارے نزدیک صرف یہ ہے کہ اللہ کو حاکمِ حقیقی مان کر پوری انفرادی و اجتماعی زندگی اس کی محکومیت میں بسر کرنا۔ اس لحاظ سے یہ لفظ بالکل اسلام کا ہم معنی ہے۔ اسی بنا پر ہم ان تینوں اصطلاحوں(دین حق، حکومت الٰہیہ اور اسلام ) کو مترادف الفاظ کی طرح بولتے رہے ہیں۔ اور اس مقصد کے حصول کی جدوجہد کانام ہم نے اقامتِ دین، شہادتِ حق اور تحریک اسلامی رکھا ہے ۔ جن میں سے پہلے دو لفظ قرآن سے ماخوز ہیں اور دوسرا لفظ عام فہم ہونے کی وجہ سے اختیار کیاگیا ہے۔ ان الفاظ میں سے کسی پر اگر لوگوں نے ناک بھوں چڑھائی ہے تو اس لئے کہ انہوں نے ہماری اصطلاح سے اپنا مفہوم مراد لے لیا،ہمارا مفہوم مراد لیتے تو امید نہ تھی کہ اس پر وہ ناراض ہوتے۔
(جماعت اسلامی کا مقصد ،تاریخ اور لائحہ عمل:ص ۱)
ہماری دعوت تمام انسانوں کے لیے ہے
ہمارے نزدیک اسلام ان لوگوں کی جائیداد نہیں ہے جو پہلے سے مسلمان ہیں بلکہ خدا نے یہ نعمت ان سب کے لئے بھیجی ہے جو انسان پید ا ہوئے ہیں خواہ وہ روئے زمین کے کسی خطے میں بستے ہوں۔ اس بنا پر ہمارا مقصد محض مسلمانوں ہی کی نہیں بلکہ پوری نوعِ انسانی کی زندگی کو دین حق پر قائم کرناہے۔ مقصد کی یہ وسعت آپ سے آپ تقاضا کرتی ہے۔ کہ ہماری اپیل عام رہے اور کسی مخصوص قوم کے مفاد کو مدِ نظر رکھ کر کوئی ایسا طرزِ عمل نہ اختیار کیاجائے جواسلام کی اس عام اپیل کو نقصان پہنچانے والا ہو یااس کی نقیض واقع ہوتا ہو۔ مسلمانوں سے ہم کودلچسپی اس بنا پر نہیں ہے کہ ہم ان میں پید اہوئے ہیں اور وہ ہماری قوم ہیں بلکہ ان کے ساتھ ہماری دلچسپی کہ وجہ صرف یہ ہے کہ وہ اسلام کو مانتے ہیں، دنیا میں اس کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں،نوعِ انسانی تک اس کا پیغام پہنچانے کےلئے انہی کو ذریعہ بنایاجاسکتا ہے ،اور دوسروں کےلئے اس پیغام کو موثر بنانا اس کے بغیر ممکن بھی نہیں ہے کہ جولوگ پہلے سے مسلمان ہیں وہ اپنی انفرادی اجتماعی زندگی میں پورے اسلام کا صحیح نمونہ پیش کریں۔ اس بنا پر ہمارا راستہ ان لوگوں کے راستہ سے ہمیشہ الگ رہا ہے اور آج بھی الگ ہے جنہیں مسلمانوں سے اصل دلچسپی اس لئے ہے کہ وہ ان کی قوم ہیں اور اسلام سے یا تو کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے یا ہے تو اس وجہ سے ہے کہ وہ ان کی قوم و مذہب ہے۔ (جماعت اسلامی کا مقصد ،تاریخ اور لائحہ عمل:ص ۲
ہمارا تصور دین
دین حق اور اقامت دین کے تصور میںبھی ہمارے اور بعض دوسرے لوگوں کے درمیان اختلاف ہے ہم دین کومحض پوجا پاٹ اور چند مخصوص مذہبی عقائد ورسوم کا مجموعہ نہیں سمجھتے بلکہ ہمارے نزدیک یہ لفظ طریقِ زندگی اور نظامِ حیات کا ہم معنی ہے اور اس کا دائرہ انسانی زندگی کے سارے پہلوؤں اورتمام شعبوں پرحاوی ہے۔ ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ زندگی کوالگ لگ حصوں میں بانٹ کر الگ الگ اسکیموں کے تحت چلایا جاسکتاہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ اس طرح کی تقسیم اگر کی بھی جائے تو وہ قائم نہیں رہ سکتی۔ کیونکہ انسانی زندگی کے مختلف پہلو انسانی جسم کے اعضا کی طرح ایک دوسرے سے ممیز ہونے کے باوجود آپس میں اس طرح پیوستہ ہیں کہ و ہ سب مل کر ایک کل بن جاتے ہیں اور ان کے اندر ایک ہی روح جاری و ساری ہوتی ہے۔یہ روح اگر خدااور آخرت سے بے نیازی اورتعلیمِ انبیاءسے بے تعلقی کی روح ہوتو پوری زندگی کانظام ایک دین باطل بن کر رہتا ہے اور اس کے ساتھ خدا پرستانہ مذہب کا ضمیمہ اگر لگا کر رکھا بھی جائے تو مجموعی نظام کی فطرت بتدریج اس کو مضمحل کرتے کرتے آخر کار بالکل محو کردیتی ہے۔ اور اگر یہ روح خدااور آخرت پر ایمان اورتعلیم ِانبیاءکے اتباع کی روح ہوتو اس سے زندگی کا پورا نظام ایک دین حق بن جاتا ہے۔ جس کے حدود عمل میں ناخدا شناسی کافتنہ اگر کہیں ر ہ بھی جائے تو زیادہ دیر تک پنپ نہیں سکتا۔ اس لئے ہم جب اقامت دین کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ہمارا مطلب محض مسجدوں میں دین قائم کرنا، یا چند مذہبی عقائد اور اخلاقی احکام کی تبلیغ کردینا نہیں ہوتا۔بلکہ اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ گھراور مسجد ، کالج اور منڈی ، تھانے اورچھاؤنی ،ہائیکورٹ اور پارلیمنٹ، ایوان وزارت اور سفارت خانے، سب پر اس ہی ایک خدا کادین قائم کیاجائے جس کوہم نے اپنارب اور معبود تسلیم کیا ہے اور سب کا انتظام اسی ایک رسو ل کی تعلیم کے مطابق چلایا جائے جسے ہم اپنا ہادی برحق مان چکے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہماری ہر چیز کو مسلمان ہونا چاہیے ۔ اپنی زندگی کے کسی پہلوکو بھی ہم شیطان کے حوالے نہیں کرسکتے۔ ہمارے ہاں سب کچھ خدا کا ہے۔ شیطان یا قیصر کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
(جماعت اسلامی کا مقصد ،تاریخ اور لائحہ عمل:ص ۳)
مذہب اور سیاست
کوئی کہتا ہے کہ تم مذہب کی تبلیغ کرو۔ سیاست میں کیوں دخل دیتے ہو۔مگر ہم ا س بات کے قائل ہیں کہ جدا ہودین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی اب کیا یہ لوگ ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ ہماری سیاست پر چنگیزی مسلط رہے اور ہم مسجد میں مذہب کی تبلیغ کرتے رہیں؟اور آخر وہ مذہب کون سا ہے جس کی تبلیغ کے لیے وہ ہم سے کہہ رہے ہیں؟اگر وہ پادریوں والا مذہب ہے جو سیاست میں دخل نہیں دیتا تو ہم اس پر ایمان نہیں رکھتے۔ اور اگر وہ قرآن و حدیث کا مذہب ہے جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں۔ تو وہ سیاست میں محض دخل ہی نہیں دیتا بلکہ اس کو اپنا ایک جزو بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔
کوئی کہتا ہے کہ تم پہلے مذہبی لوگ تھے، اب سیاسی گروہ بن گئے ہو۔ حالانکہ ہم پر کبھی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب ہم غیر سیاسی مذہب کے لحاظ سے مذہبی رہے ہوں ، اور آج خدا کی لعنت ہو ہم پر اگر ہم غیر مذہبی سیاست کے لحاظ سے سیاسی بن گئے ہوں۔ ہم توا سلام کے پیرو ہیں اور اسی کوقائم کرنا چاہتے ہیں۔ و ہ جتنا مذہبی ہے اتنے ہی ہم مذہبی ہیں اور ابتدا سے تھے۔ تم نے نہ کل ہمیں سمجھا تھا جب کہ ہم کو مذہبیگروہ قراردیا۔اور نہ آج سمجھا ہے جب کہ ہمارا نام سیاسی جماعترکھا۔ سیاست اور مذہب میں تمہارا استاد یورپ ہے۔ اس لئے نہ تم نے اسلام کو سمجھا اور نہ ہمیں۔
کوئی کہتا ہے کہ الٰہ تو صرف معبود ہے تم نے یہ سیاسی حاکمیت اس کے لیے کہاں سے ثابت کردی ؟ اور اس پرغضب یہ ہے کہ تم اس حاکمیت کو اللہ کے لئے مخصوص کرتے ہو اور انسانی حاکمیت کے منکر ہو۔ یہ تو خالص خارجیت ہے۔ کیونکہ تمہاری طرح خارجی بھی یہی کہتے تھے کہ انِ الحُکم اِلا للہ مگر ہمارے نزدیک قرآن و حدیث کی رو سے خدا کا حق صرف عبادت و پرستش ہی نہیں بلکہ طاعت و عبدیت بھی ہے۔ ان میں سے جس حق میں بھی خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کیاجائے گا،شرک ہوگا، بندوں میںسے کسی کی اطاعت اگر کی جاسکتی ہے تو صرف خدا کے اذنِ شرعی کی بنا پر کی جاسکتی ہے اور وہ بھی خدا کی مقرر کردہ حدود کے اندر۔ رہا خدا سے بے نیاز ہوکر مستقل بالذات مطاع ہوناتو وہ تو رسول کا حق بھی نہیں ہے کجا کہ کسی انسانی ریاست یا سیاسی و تمدنی ادارے کا حق ہو۔ جس قانون ، عدالت اور حکومت میں خدا کی کتاب اوراس کے رسول کی سنت کو مسند نہ مانا جائے، جس کا بنیادی اصول یہ ہو کہ اجتماعی زندگی کے جملہ معاملات میں اصول اور فروع تجویز کرنا انسانوں کا اپنا کام ہے اور جس میں قانون ساز مجلسیں خدائی احکام کی طرف رجوع کرنے کی سرے سے ضرورت ہی نہ تسلیم کرتی ہوں اور عملا ان کے خلاف قوانین بناتی ہوں اس کے اطاعت کے لزوم تو درکنار جواز تک کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث میں موجود نہیں ہے۔ اس بلا کو زیادہ سے زیادہ صرف برداشت کیاجاسکتا ہے جب کہ انسان اس کے پنجہ اقتداد میں گرفتار ہوجائے۔ مگر جوشخص ایسی حکومتوں کے حقِ فرمانروائی کو تسلیم کرتا ہے اور اس بات کو ایک اصول برحق کی حیثیت سے مانتا ہے۔ کہ خدائی ہدایت کوچھوڑ کرانسان بطور خود اپنے تمدن،سیاست اورمعیشت کے اصول و قوانین وضع کرلینے کے مجاز ہیں۔ وہ اگر خدا کومانتا ہے تو شرک میں مبتلا ہے ورنہ زندقہ میں۔ ہمارے مسلک کوخارجیت سے تعبیر کرنا مذہب اہل سنت اور مذہبِ خوارج ،دونوں سے ناواقفیت کاثبوت ہے۔ علماءاہل سنت کی لکھی ہوئی کتب اصو ل میں سے جس کو چاہے اٹھا کر دیکھ لیجئے۔
اس میں یہی لکھا ملے گا کہ حکم دینے کا حق اللہ کے لئے خاص ہے۔مثال کے طور پر علامہ آمدی اپنی کتاب الاحکام فی اصول الاحکام میں لکھتے ہیں کہ اعلم انہ لا حاکم سوی اللہ ولاحکم الا ماحکم بہ جان لو کہ حاکم اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے اور حکم صرف وہ ہے جو اللہ نے دیا ہے۔
اسلامی حکومت
کچھ اور لوگ ہیں جو چند راچندرا کر پوچھتے ہیں کہ حکومت الٰہیہ یا اسلامی حکومت کا قیام کس نبی کی دعوت کا مقصود رہا ہے؟مگر ہم پوچھتے ہیں کہ یہ قرآن اور توراة میں عقائد و عبادات کے ساتھ دیوانی اور فوجداری قوانین اور صلح جنگ کے احکام، اور معیشت و معاشرت کے قواعد وضوابط، اور سیاسی تنظیم کے اصول بیان ہوئے ہیں۔ کیا یہ سب محض تفنن طبع کے لیے ہیں؟کیا یہ آپ کے اختیارتمیزی پر چھوڑا گیا ہے کہ کتاب اللہ کی تعلیمات میں سے جس چیز کو چاہیں جزو دین مانیں اور جسے چاہیں غیر ضروری زوائد میں شمار کریں؟کیا انبیاءبنی اسرائیل علیھم السلام اور خاتم النبیین محمدﷺ نے جو سیاسی نظام قائم کیے وہ ان کی پیغمبرانہ دعوت کے مقاصد میں سے نہ تھے؟محض ملاقات سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے اپنا شوق فرمانروائی پورا کیا تھا۔کیا دنیامیں کوئی قانون اس لئے بھی بنایا جاتا ہے کہ صرف اس کی تلاوت کرلی جائے، اس کا نفاذ سرے سے مقصود ہی نہ ہو؟کیاواقعی ایمان اسی چیز کا نام ہے کہ ہم روز اپنی نمازوں میں کتاب اللہ کی وہ آیات پڑھیں جن میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کے متعلق اصول اور احکام بیان ہوئے ہیں اور رات دن ہماری زندگی کے اکثر و بیشتر معاملات ان کے خلاف چلتے رہیں۔
ہمارا مسلک
خدا کی بندگی جس پر ہم پورے نظام زندگی کوقائم کرناچاہتے ہیں،اس کے بارے میں بھی ہمارا ایک واضح مسلک ہے اور وہ مختلف گروہوں کو مختلف وجوہ سے پسند نہیں آتا۔ہمارے نزدیک ہر شخص اس کا مختار نہیں ہے کہ اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق جس طرح چاہے خدا کی بندگی کرے بلکہ اس کی ایک ہی صحیح صورت ہے اور وہ اس شریعت کی پابندی ہے جو محمد ﷺ لے کر آئے ہیں۔ اس شریعت کے معاملے میں کسی مسلمان کے اس حق کو ہم تسلیم نہیں کرتے کہ اس کی جن باتوں کوچاہے قبول کرے اور جن باتوں کو چاہے رد کردے۔ بلکہ ہم اسلام کے معنی ہی اطاعت حکمِ خداوندی اوراتباع شریعتِ محمدی ﷺ کے سمجھتے ہیں۔ شریعت کے علم کا ذریعہ ہمارے نزدیک صرف قرآن پاک نہیں ہے بلکہ حدیث رسولﷺ بھی ہے اور قرآن و حدیث سے استدلال کا صحیح طریقہ ہمارے نزدیک یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنے نظریات پر خداور رسول کی ہدایات کو ڈھالے بلکہ یہ ہے کہ آدمی اپنے نظریات کو خدا اور رسول کی ہدایات پر ڈھالے پھر ہم نہ تو تقلید جامد کے قائل ہیں جس میں اجتہاد کی جگہ نہ ہو اور نہ ایسے اجتہاد کے قائل ہیں کہ ہر بعد کی نسل اپنے سے پہلے کی نسلوں کے سارے کام پر پانی پھیر دے اور بالکل نئے سرے سے ساری عمارت اٹھانے کی کوشش کرے۔
اس مسلک کا ہر جزو ایسا ہے جس سے ہماری قوم کا کوئی نہ کوئی گروہ ہم سے ناراض ہے۔ کوئی سرے سے خدا کی بندگی کا قائل ہی نہیں ہے۔ کوئی شریعت سے بے نیاز ہو کر اپنی صواب دید کے مطابق خدا کی بندگی کرنا چاہتا ہے۔ کوئی شریعت میں اپنا اختیار چاہتا ہے اور اس کا مطالبہ یہ ہے کہ جوکچھ اسے پسند ہے وہ اس شریت میں رہے اور جو اسے پسند نہیں ہے وہ شریعت سے خارج ہوجائے۔ کوئی قرآن و حدیث سے قطع نظر کر کے اپنے من گھڑت ا اصولوں کا نام اسلام رکھے ہوئے ہے کوئی حدیث کو چھوڑ کر صرف قرآن کو مانتا ہے ۔کوئی اصول اور نظریات کہیں باہر سے لے آیا ہے یا اپنے دل سے گھڑ لایا ہے اور پھر زبردستی قرآن و حدیث کے ارشادات کو ان پر ڈھالنے کی کوشش کررہا ہے۔ کسی کوتقلید جامد پر اصرار ہے اور کوئی تمام پچھلے آئمہ کے کارناموں کودریا برد کرکے نیا اجتہاد کرنا چاہتا ہے۔
اختلاف مسلک کا حق
ہماراراستہ ان سب گروہوں سے الگ ہے اور ہم مجبور ہیں کہ ان سے اختلاف بھی کریں اور ان کے علی الرغم اپنے مسلک کی تبلیغ بھی کریں اسی طرح دوسرے کے بھی اس حق کو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ وہ جس معاملے میں بھی ہم کوغلطی پر سمجھتے ہیں اس میں ہم سے اختلاف کریں اور ہمارے علی الرغم اپنے مسلک کی تبلیغ کریں۔ اب ہر شخص جو ہندوستان و پاکستان میں رہتا ہے اور مختلف گروہوں کے لٹریچر پر نظر رکھتا ہے ۔ خود ہی یہ دیکھ سکتا ہے کہ اپنی تنقید و تبلیغ میں ہمارا رویہ کیارہا ہے اور ہمارے مخالفین نے جواب میں کس تہذیب و دیانت اور معقولیت کاثبوت دیا ہے۔
جماعت اسلامی کا مقصد ،تاریخ اور لائحہ عمل:ص ۲۰
جماعت اسلامی جس مقصد کے لیے قائم کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کے پورے نظام کو اس کے تمام شعبوں (فکر و نظر،عقیدہ و خیال، مذہب واخلاق،سیرت و کردار ،تعلیم وتربیت ، تہذیب و ثقافت، تمدن و معاشرت ، معیشت وسیاست ،قانون و عدالت،صلح و جنگ اور بین الاقوامی تعلقات) سمیت خدا کی بندگی اور انبیاءعلیھم السلام کی ہدایت پر قائم کیا جائے۔
جماعت اسلامی ہی کیوں
جماعت اسلامی کا ساتھ کیوں دیں؟
جماعت اسلامی کانام آپ نے ضرور سنا ہوگا، لیکن جب بھی سنا ہوگا شاید یہسوچ کرگزر گئے ہوں گے: ایسی مذہبی اور سیاسی جماعتیں تو بہت سی ہیں کیاضروری ہے کہ میں اس میں شامل ہونے اور کچھ کرنے کاسوچوں؟
آپ جماعت اسلامی کا ساتھ کیوں دیں؟
آیئے! بات یہاں سے شروع کریں کہ زندگی آپ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ زندگیہے تو دنیا کی ہرنعمت سے آپ لطف اندوز ہوسکتے ہیں، اور آخرت کی ساریلازوال نعمتیں بھی کما سکتے ہیں۔ اگر زندگی ہی اصل نعمت ہے تو پھر زندہرہنا ایک خوش گوار تجربہ اور لذت بخش کام ہونا چاہیے۔لیکن............سوچیے، تو آپ کاد ل خود پکاراٹھے گا کہ آج زندگیپریشانیوں کے بوجھ تلے پسی جا رہی ہے اور زندہ رہنا ایک تلخ تجربہاورتکلیف دہ کام بن گیا پیٹ بھرنے کی فکر میں، اور جن کا بھرتا ہے ان کواور بھرنے کی فکر میں تگ و دو کرتے صبح سے شام ہوجاتی ہے۔ پھر بھی ساریعمران ہی فکروں میں گزر جاتی ہے کہ دن دوگنی رات چوگنی بڑھتی ہوئی قیمتوںکے ساتھ خرچ نہیںپورا ہوتا، رہنے کے لیے صاف ستھرا مکان میسرنہیں،بچوں کوداخلے نہیںملتے اور مل جائیں تو روزگار کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھاتےپھرتے ہیں،علاج کے لیے کمرتوڑ اخراجات اور ہسپتالوں کے چکر بس سے باہر ہیں۔
وطن عزیز کو دیکھیے تو ہر طرف ظلم اورفسادکاراج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سبانسانوں کو برابر بنایا ہے، لیکن چند لوگوں نے اپنے حق سے زیادہ زر، زمیناورطاقت حاصل کر لی ہے۔ اپنے جیسے انسانوں کی گردن پرسوار ہو کر ان پرغربت و جہالت مسلط کررکھی ہے۔ اپنے ہم وطنوں کو کمزور بنا کر ان کے حقوقدبالیے ہیں اور ان کو زندگی کی معمولی خوشیوں سے بھی محروم کررکھا ہے۔بددیانتی اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے اور جائز سے جائز کام بھی سفارشاوررشوت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ پولیس کے ہاتھوں عزت محفوظ نہیں، جیبیں خالیکرکے بھی عدالتوں میںانصاف نصیب نہیں ہوتا ، تعلیم کا معیار پست ہے اوراخلاق کااس سے بھی کہیں زیادہ گرا ہوا۔ گھر کے اندر ہوں یا باہر، دل ونگاہ کو پاک رکھنا محال ہے ۔ فوجیں دشمن کو فتح کرنے کے بجاے اپنی قوم کوہی مارشل لا کے ذریعے بار بار فتح کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور سرکاری افسرعوام کے خادم بننے کے بجائے ان کے آقا بن بیٹھے ہیں۔
امت کو دیکھیے،تواگرچہ دنیا کا ہر پانچواں آدمی مسلمان ہے، مگرمسلمان کادنیا میں وزن ہے نہ عزت۔ دنیا کی غالب قومیں دونوں ہاتھوں سے اس کولوٹنےاوردبانے میں لگی ہوئی ہیں، مگر وہ بے بس تماشا ئی ہے یا خوشی خوشی ان کےدام میں پھنستا ہے۔
آپ اکثر سوچتے ہوں گے کہ مسائل کا یہ جنگل کیسے صاف ہوسکتا ہے اورزندگی اطمینان کاگہوارہ کس طرح بن سکتی ہے۔
جماعت اسلامی کا پیغام اور پروگرام اسی سوال کا جواب ہے۔
ہمارا پیغام
اگرمسلمان آج دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں اور ان کے مصائب سب سے بڑھکر ہیں تو وجہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ہم نے وہ مشن فراموش کردیا ہے، جسکے لیے یہ امت بنی تھی۔ ہم ا للہ اور اس کے رسولﷺ سے بے وفائی کررہے ہیں۔ہم نے اس دنیا کوہی اپنا محبوب ومطلوب بنا لیا اور خدا کے دین کے لیے اپنےوقت اور مال کاکوئی حصہ صرف کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مسلمان قرآن پڑھتےاوررسولﷺ کی محبت کادم بھرتے ہیں ،لیکن ان کے احکام کی خلاف ورزی کرنے سےبالکل نہیں جھجکتے۔جماعت اسلامی ہر مسلمان کویہ پیغام دیتی ہے کہ خداکوخدااوررسول کورسول مان کرتمہارے لیے جائز نہیں کہ تم زندگی کے کسی حصے میں انکے خلاف چلو بلکہ تمہارا فرض ہے کہ پوری زندگی میں اللہ کے دین کو غالبکرنے کے لیے جان و مال سے جہاد کرو۔ اور یہ کام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جبتک تم جمع ہوکرایک جماعت نہ بن جاو۔
اس کارِرسالت کے فرض کو اداکرنے کے لیے جماعت اسلامی بنی ہے۔یہ محض ایکسیاسی جماعت نہیں جس کی سرگرمیاں انتخابات تک محدود ہوں، نہ ایک مذہبیجماعت ہے جس کی دلچسپیاں صرف اعتقادی و فقہی اور روحانی مسائل ہی کے لیےمخصوص ہوں۔بلکہ ہماری ساری جدوجہد کامقصد صرف ایک ہی ہے کہ ہم اللہ کےمطیع اورفرمانبردار بن جائیں اور اس کی رضا اورقربت حاصل کریں۔ یہ رضا اورقربت ایک ایسے انقلاب کے لیے جدوجہد سے ہی حاصل ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میںدلوں پر بھی اللہ کی حکومت قائم ہوجائے اور پوری زندگی پر بھی وہ پرائیویٹہوں یاپبلک۔ یہ اعلان کہ زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ کی ملکیت ہےاس ہمہگیرانقلاب کی دعوت ہے۔
ہماراپروگرام
جماعت اسلامی کاپروگرام یہی ہے کہ اپنے پیغام سے غافل لوگوں کوجگائے۔جوساتھ دیں ان کی تربیت کرکے ان کو منظم قوت بنادے، معاشرے میں صحیحاسلامی فکر، اسلامی سیرت اور سچے مسلمان کی سی عملی زندگی پیداکرنے کیکوشش کرے اورعوام کی قوت سے زندگی کے ہر شعبہ میں بالخصوص حکومت میں،خدااور رسول کے باغیوں کے ہاتھوں سے قیادت اورفرماں روائی چھین کر اس کے مطیعفرماں بردار بندوں کے حوالے کردے۔ جماعت اسلامی اپنی ساری قوت پاکستانکوایسی ایک فلاحی واسلامی ریاست بنانے میں لگارہی ہے:
٭ جو خلافت راشدہ کانمونہ ہو
٭ جوہرشہری کوا س کی بنیادی ضروریات(روٹی،کپڑا ،مکان،علاج،تعلیم،انصاف) کی ضمانت دے اوروسائل کی منصفانہ تقسیم کرے۔
٭ جہاں تمام بنیادی انسانی حقوق محفوظ ہوں۔
٭ جہاں عوام انتخابات کے ذریعے اپنی مرضی سے جسے اقتدار میں لاناچاہیں لاسکیں اور جسے ہٹانا چاہیں ہٹا سکیں۔
آپ کادل کیا کہتا ہے؟
اگرجماعت اسلامی کاپیغام اور پروگرام آپ کوبرحق لگتا ہے تو ہم آپ کودعوتدیتے ہیں کہ آپ اس جدوجہد میں ہمارے ساتھی بنیں اور جماعت اسلامی میںباقاعدہ شامل ہوں، جماعت اسلامی چندمخصوص لوگوں کا گروہ نہیں بلکہ عوامالناس کی جماعت ہے۔ وہ عوا م الناس جو ظلم اور ناانصافی پرکڑھتے ہیں اوراسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ظلم کاشکنجہ گھر بیٹھ کر کڑھنے یازبانی جمعخرچ سے نہیں ٹوٹ سکتا۔ یہ شکنجہ تبھی ٹوٹے گا جب آپ خودجدوجہد میں شاملہوں گے۔لہٰذا آپ خود اٹھ کراپنے وقت اورمال کاایک معقول حصہ اللہ کے کا ممیں لگا دیں۔ جب آپ کی طرح سب لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے تو وہ دن دور نہیں جبظلم اور بے انصافی کے اندھیرے چھٹ جائیں گے، عدل کاسورج طلوع ہوگا اور ہمسب پر صرف اللہ کی حکومت ہوگی۔
آپ کا ضمیر ،آپ کاملک، آپ کی ملت، دکھی انسانیت ، سب آپ کو پکار رہے ہیں ۔ دنیا میں عزت و سربلندی اورآخرت میں جنتآپ کی منتظر ہے۔
کونو انصار اللہ اللہ کے مددگار بن جاو
نحن انصار اللہ ہم اللہ کے مددگار ہیں
Last edited: