ابراہیم علیہ سلام، جنہیں اللّٰہ سبحان و تعالٰی نے اپنا خلیل بنایا، جو محبوب سے بھی قریب ہوتا ہے، ، جیسا کہ رسول اللّٰہ ﷺ کی حدیث مبارکہ میں ہے کہ میں بھی اللّٰہ کا خلیل ہوں، ۔۔
ابراہیم کو اللّٰہ نے امت کہا، کہ ۔۔وہ اکیلے ہی ایک امت تھا، کیونکہ وہ تن تنہا اپنے خاندان، اپنی قوم ، اپنے ملک ، بلکہ ایک ایسے بادشاہ سے جا ٹکرائے تھے جس کی حکومت بہت بڑی تھی۔۔
جب ابراہیم علیہ سلام کو اللّٰہ رب العزت نے آگ سے سلامت نکالا، تو اس معجزے کو دیکھ کر بھی کوئی ایمان نہ لایا، سوائے دو کے، ان دونوں میں ایک ان کی شریک حیات سارہ علیہ سلام تھیں تو دوسرے لوط علیہ سلام ، جو ان کے بھتیجے تھے، ۔۔وہ ان کے ساتھ ہی جلا وطن ہوئے، ۔۔
ابراہیم علیہ سلام جیسے جلیل القدر انسان ، جن سے اللّٰہ سبحان و تعالٰی نے وعدہ فرمایا ،کہ میں تمہیں رہتی دنیا میں ایک اعلی مقام دونگا، (اسی لیئے یہودیوں اور عیسائیوں کے علاوہ وہ ہمارے لیئے بھی ایک احترام والی ہستی ہیں، جن پر ہر نماز پڑھنے والا مسلمان اپنی نماز میں، درود و سلام بھیجتا ہے،) ۔۔ پر ایمان لانے والوں میں اولین کے دو لوگوں میں سے ایک یعنی لوط علیہ سلام تھے ،۔۔قرآن کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اللّٰہ سبحان و تعالٰی نے انہیںکیا مقام دیا۔۔۔ ، ۔
جلا وطنی کے بعد ،انہوں نے اپنے چچا سے شام فلسطین و مصر میں گشت لگا کر تبلیغ کا تجربہ حاصل کیا اور پھر مستقل پیغمبری کے منصب پر سرفراز ہوکر اس بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح پر مامور ہوئے۔۔
جس قوم کی طرف وہ بھیجے گئے تھے، اس سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ وہ اسی قوم میں سے تھے، ..بلکہ اللّٰہ رب العزت نے انہیں اس قوم کی طرف بھیجا تھا۔۔( اور لوط کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا۔۔۔الاعراف )۔۔۔ان کا تعلق عراق سے تھا اور یہ قوم شام و اردن کے آس پاس تھی۔۔
اور پھرانکی قوم کا فیصلہ آگیا۔۔جو ابراہیم علیہ سلام کی التجا پر بھی نہ ٹلا۔۔۔کیونکہ اللّٰہ رب العزت کا یہ قانون ہے جس کے بارے میں قرآن میں کئی بار فرمایا گیا ہے کہ ہر قوم کو ایک وقت مقررہ تک مہلت دی جاتی ہے، مگر جب وہ وقت پورا ہوجائے تو کوئی اسے عزاب سے بچا نہیں سکتا، کوئی پیغمبر بھی نہیں۔۔
یہ تھا سرسری سا قصہ لوط علیہ سلام سے متعلق ، جن کا ذکر سورہ :الاعراف، ہود، الحجر، الانبیاہ، الشعرا، العنکبوت، الصافات اور قمر بھی آیا ہے، اور کہیں بھی ان کی تزلیل نہیں کی گئی بلکہ ان کو قابل احترام ہی فرمایا گیا ہے۔۔ تو پھر کیوں بعض بدبخت عیسائیوں و یہودیوں کے نقش قدم پر چل کر ان کی توہین کیے جا رہے ہیں۔۔انکی کتابوں میں ان کے بارے میں یہاں تک بکواس کی گئی ہے کہ ان کی بیٹیوں نے انہیں شراب پلا کر ان سے زنا کی ، استغفراللّٰہ۔۔۔
کیا تم بھی انہی کے نقش قدم پر چل نکلے ہو، کہ ہم جنس پرستی جیسے ذلیل مرض کو انکے نام سے منصوب کرکے اسےلواطت کہتے ہو۔۔۔ جیسے یہ ان کا متعارف کرایا گیا مرض ہو۔۔
ڈرو اللّٰہ سے ، اور فرقے بازی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں اتنے آگے نہ نکلو کہ اللّٰہ کے عزاب کو دعوت دو۔۔۔
پہلے کونسے تم اخلاقی و پاکباز ہو، جو اب شرماتے ہو۔۔۔بکنا ہی ہے تو صاف بکو ۔۔لونڈے بازی کہو،۔۔صاف طور پر اپنے پچھواڑے کا نام لو، گا۔۔۔و کردیا کہو۔۔فلاں نے فلاں کی گ مار دی کہو۔۔۔ مگر اس گندے عمل کو پیغمبر کے نام سے منسوب نہ کرو بے شرمو۔۔
ابراہیم کو اللّٰہ نے امت کہا، کہ ۔۔وہ اکیلے ہی ایک امت تھا، کیونکہ وہ تن تنہا اپنے خاندان، اپنی قوم ، اپنے ملک ، بلکہ ایک ایسے بادشاہ سے جا ٹکرائے تھے جس کی حکومت بہت بڑی تھی۔۔
جب ابراہیم علیہ سلام کو اللّٰہ رب العزت نے آگ سے سلامت نکالا، تو اس معجزے کو دیکھ کر بھی کوئی ایمان نہ لایا، سوائے دو کے، ان دونوں میں ایک ان کی شریک حیات سارہ علیہ سلام تھیں تو دوسرے لوط علیہ سلام ، جو ان کے بھتیجے تھے، ۔۔وہ ان کے ساتھ ہی جلا وطن ہوئے، ۔۔
ابراہیم علیہ سلام جیسے جلیل القدر انسان ، جن سے اللّٰہ سبحان و تعالٰی نے وعدہ فرمایا ،کہ میں تمہیں رہتی دنیا میں ایک اعلی مقام دونگا، (اسی لیئے یہودیوں اور عیسائیوں کے علاوہ وہ ہمارے لیئے بھی ایک احترام والی ہستی ہیں، جن پر ہر نماز پڑھنے والا مسلمان اپنی نماز میں، درود و سلام بھیجتا ہے،) ۔۔ پر ایمان لانے والوں میں اولین کے دو لوگوں میں سے ایک یعنی لوط علیہ سلام تھے ،۔۔قرآن کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اللّٰہ سبحان و تعالٰی نے انہیںکیا مقام دیا۔۔۔ ، ۔
جلا وطنی کے بعد ،انہوں نے اپنے چچا سے شام فلسطین و مصر میں گشت لگا کر تبلیغ کا تجربہ حاصل کیا اور پھر مستقل پیغمبری کے منصب پر سرفراز ہوکر اس بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح پر مامور ہوئے۔۔
جس قوم کی طرف وہ بھیجے گئے تھے، اس سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ وہ اسی قوم میں سے تھے، ..بلکہ اللّٰہ رب العزت نے انہیں اس قوم کی طرف بھیجا تھا۔۔( اور لوط کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا۔۔۔الاعراف )۔۔۔ان کا تعلق عراق سے تھا اور یہ قوم شام و اردن کے آس پاس تھی۔۔
اور پھرانکی قوم کا فیصلہ آگیا۔۔جو ابراہیم علیہ سلام کی التجا پر بھی نہ ٹلا۔۔۔کیونکہ اللّٰہ رب العزت کا یہ قانون ہے جس کے بارے میں قرآن میں کئی بار فرمایا گیا ہے کہ ہر قوم کو ایک وقت مقررہ تک مہلت دی جاتی ہے، مگر جب وہ وقت پورا ہوجائے تو کوئی اسے عزاب سے بچا نہیں سکتا، کوئی پیغمبر بھی نہیں۔۔
یہ تھا سرسری سا قصہ لوط علیہ سلام سے متعلق ، جن کا ذکر سورہ :الاعراف، ہود، الحجر، الانبیاہ، الشعرا، العنکبوت، الصافات اور قمر بھی آیا ہے، اور کہیں بھی ان کی تزلیل نہیں کی گئی بلکہ ان کو قابل احترام ہی فرمایا گیا ہے۔۔ تو پھر کیوں بعض بدبخت عیسائیوں و یہودیوں کے نقش قدم پر چل کر ان کی توہین کیے جا رہے ہیں۔۔انکی کتابوں میں ان کے بارے میں یہاں تک بکواس کی گئی ہے کہ ان کی بیٹیوں نے انہیں شراب پلا کر ان سے زنا کی ، استغفراللّٰہ۔۔۔
کیا تم بھی انہی کے نقش قدم پر چل نکلے ہو، کہ ہم جنس پرستی جیسے ذلیل مرض کو انکے نام سے منصوب کرکے اسےلواطت کہتے ہو۔۔۔ جیسے یہ ان کا متعارف کرایا گیا مرض ہو۔۔
ڈرو اللّٰہ سے ، اور فرقے بازی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں اتنے آگے نہ نکلو کہ اللّٰہ کے عزاب کو دعوت دو۔۔۔
پہلے کونسے تم اخلاقی و پاکباز ہو، جو اب شرماتے ہو۔۔۔بکنا ہی ہے تو صاف بکو ۔۔لونڈے بازی کہو،۔۔صاف طور پر اپنے پچھواڑے کا نام لو، گا۔۔۔و کردیا کہو۔۔فلاں نے فلاں کی گ مار دی کہو۔۔۔ مگر اس گندے عمل کو پیغمبر کے نام سے منسوب نہ کرو بے شرمو۔۔
- نوٹ: یہ کسی فرقے جماعت قوم یا نسل سے متعلق نہیں، کہ سارے ہی اس حمام میں ایک ہی پوزیشن میں ہیں۔۔لہٰذا کوئی خود پر نہ لے۔۔جیسا کہ ایک آدھ نے خود پر لے کر بکواس شروع کردی۔