کوئی ملک دھمکی دیتا ہےتو اسے خفیہ نہیں رکھا جا سکتا۔ جنرل (ر) اعجاز اعوان

offii111.jpg


آفیشل سیکریٹ ایکٹ کیا ہے؟ کیا ملکی دفاع ،خود مختاری،سالمیت اور استحکام کیلئے انیس سو تیئیس چوبیس کے اس سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق اب بھی ہوسکتا ہے، اے آر وائی نیوز کے پروگرام میں میزبان ارشد شریف نے دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل اعجاز اعوان ریٹائرڈ سے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے حوالے سے سوال پوچھا۔

میجر جنرل اعجاز اعوان ریٹائرڈ نے کہا کہ میں نے بھی اس ایکٹ کو پڑھا ہے اورجب وردی پہنی تو چونتیس سال اس پر عمل بھی کیا ہے، آج بھی کررہے ہیں،اگر سنگین نتائج کی دھکمی ایک ملک کو ملتی ہے تو اس دھمکی کو خفیہ رکھنا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ذمہ داری نہیں بنتی،وزیراعظم ہو یا کوئی بھی ریاستی حکام اس کو اس دھمکی کو بتانا ہوتا ہے۔

دفاعی تجزیہ کار نے کہا کہ دشمن کے عزائم کو بے نقاب کرنا وزیراعظم، آرمی چیف اور تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے،تاکہ پوری قوم اس کیلئے تیار ہوسکے، میڈیا کو بتانا اس لئے ضروری ہے کہ لوگوں کی ذہن سازی میڈیا کے ذریعے ہوتی ہے،بائیس کروڑعوام کو دھمکی کے حوالے سے وزیراعظم کان میں جاکر نہیں بتائیں گے۔

میجر جنرل اعجاز اعوان ریٹائرڈ نے کہا کہ آرمی چیف کی اس لئے ذمہ داری ہے کہ اگر دھمکی عسکری نوعیت کی ہے تو تمام افواج اپنی تیاری کریں،اگر معاشی دھمکی ہے تو پوری قوم نے معیشت کا بوجھ اٹھانا ہے،اس لئے ہر طبقے کو بتانا ضروری ہے کہ یہ مشکلات آسکتی ہیں۔

دفاعی تجزیہ کار نے کہا کہ مختصر یہ کہ دشمن کی جو دھمکیاں ہیں، جو ریاست کو دی جارہی ہے جو پاکستان کے استحکام کو متاثر کرسکتی ہے،اس دھمکی کا دفاع کرنا ذمہ داری نہیں ہے،اس سے آشکار اور قوم کو آگاہ کرنا ذمہ داری ہے۔

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے خفیہ دستاویز پبلک کرنے کے حوالے سے دائر درخواست پر اپنے تحریری حکم نامے میں کہ توقع ظاہر کردی کہ وزیر اعظم اپنے حلف کے عین مطابق آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی میں کوئی بھی خفیہ معلومات پبلک نہیں کریں گے۔

ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شہری نعیم خان ایڈووکیٹ کی درخواست پر سماعت کی تھی،جس میں وزیراعظم عمران خان، سیکرٹری قانون اور سیکریٹری خارجہ کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کو سیکریٹ دستاویز پبلک کرنے سے روکا جائے۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وزیر اعظم کا بیان آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی سیکشن 5 کی خلاف ورزی ہے ۔ انہیں سیکریٹ دستاویز یا اس کا متن جاری کرنے سے روکا جائے،عدالت نے درخواست ہدایات کے ساتھ نمٹاتے ہوئے چار صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا۔
 
Last edited:

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
آفیشل سیکریٹ ایکٹ کیا ہے؟ کیا ملکی دفاع ،خود مختاری،سالمیت اور استحکام کیلئے انیس سو تیئیس چوبیس کے اس سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق اب بھی ہوسکتا ہے، اے آر وائی نیوز کے پروگرام میں میزبان ارشد شریف نے دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل اعجاز اعوان ریٹائرڈ سے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے حوالے سے سوال پوچھا۔

میجر جنرل اعجاز اعوان ریٹائرڈ نے کہا کہ میں نے بھی اس ایکٹ کو پڑھا ہے اورجب وردی پہنی تو چونتیس سال اس پر عمل بھی کیا ہے، آج بھی کررہے ہیں،اگر سنگین نتائج کی دھکمی ایک ملک کو ملتی ہے تو اس دھمکی کو خفیہ رکھنا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ذمہ داری نہیں بنتی،وزیراعظم ہو یا کوئی بھی ریاستی حکام اس کو اس دھمکی کو بتانا ہوتا ہے۔

دفاعی تجزیہ کار نے کہا کہ دشمن کے عزائم کو بے نقاب کرنا وزیراعظم، آرمی چیف اور تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے،تاکہ پوری قوم اس کیلئے تیار ہوسکے، میڈیا کو بتانا اس لئے ضروری ہے کہ لوگوں کی ذہن سازی میڈیا کے ذریعے ہوتی ہے،بائیس کروڑعوام کو دھمکی کے حوالے سے وزیراعظم کان میں جاکر نہیں بتائیں گے۔

میجر جنرل اعجاز اعوان ریٹائرڈ نے کہا کہ آرمی چیف کی اس لئے ذمہ داری ہے کہ اگر دھمکی عسکری نوعیت کی ہے تو تمام افواج اپنی تیاری کریں،اگر معاشی دھمکی ہے تو پوری قوم نے معیشت کا بوجھ اٹھانا ہے،اس لئے ہر طبقے کو بتانا ضروری ہے کہ یہ مشکلات آسکتی ہیں۔

دفاعی تجزیہ کار نے کہا کہ مختصر یہ کہ دشمن کی جو دھمکیاں ہیں، جو ریاست کو دی جارہی ہے جو پاکستان کے استحکام کو متاثر کرسکتی ہے،اس دھمکی کا دفاع کرنا ذمہ داری نہیں ہے،اس سے آشکار اور قوم کو آگاہ کرنا ذمہ داری ہے۔

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے خفیہ دستاویز پبلک کرنے کے حوالے سے دائر درخواست پر اپنے تحریری حکم نامے میں کہ توقع ظاہر کردی کہ وزیر اعظم اپنے حلف کے عین مطابق آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی میں کوئی بھی خفیہ معلومات پبلک نہیں کریں گے۔

ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شہری نعیم خان ایڈووکیٹ کی درخواست پر سماعت کی تھی،جس میں وزیراعظم عمران خان، سیکرٹری قانون اور سیکریٹری خارجہ کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کو سیکریٹ دستاویز پبلک کرنے سے روکا جائے۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وزیر اعظم کا بیان آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی سیکشن 5 کی خلاف ورزی ہے ۔ انہیں سیکریٹ دستاویز یا اس کا متن جاری کرنے سے روکا جائے،عدالت نے درخواست ہدایات کے ساتھ نمٹاتے ہوئے چار صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا۔
offii111.jpg
جب ملک کے اندر موجود اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ امریکہ کی غلام بنی ہو تو خط پبلک کر دینا چاہیے
https://twitter.com/x/status/1509450437862490116
 

feeneebi

MPA (400+ posts)
اگر غیر رسمی گفتگو میں کوئی ایسی بات کہی جائے تو اسے دھمکی نہیں کہتے۔ دھمکیاں وہ ہوتی ہیں جو 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد انڈیا سترہ دن تک ہمیں دیتا رہا۔ اگر امریکہ کو دھمکی دینی ہوتی تو وہ کبھی بھی عدم اعتماد کی بات، جیسا کہ دعوی کیا جا رہا ہے، بالکل نہ کرتا۔ یا جس انداز میں حکومت بتا رہی ہے، ویسے تو بالکل یہ پیغام نہ پہنچایا جاتا۔ ویسے بھی عدم اعتماد 8 مارچ کو جمع ضرور ہوئی تھی، لیکن اس سے کئی دن پہلے اس پر ممبران کے دستخط لیے جا چکے تھے۔ اور اس سے بھی کم و بیش دو مہینے قبل سے اس سلسلے میں اپوزیشن نے مشاورت اور انتظامات شروع کر دئیے تھے۔
اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک فائل ہونے اور مبینہ دھمکی والا خط ملنے میں بمشکل ایک دن کا فرق تھا، لیکن اس کے تین دن بعد وزیراعظم نے شکر ادا کیا کہ یہ ان کی دعاؤں کا نتیجہ ہے ۔ کیا انہیں خط کی "سنگینی" کا اندازہ نہیں تھا؟ اس کے دو ہفتے بعد او آئی سی کی وزرائے خارجہ کانفرنس میں اسی امریکہ کی طرف سے نمائندے مبصر کے طور پر بھیجے گئے اور ہمارے وزیراعظم صاحب ان سے خوش گپیاں لگاتے دیکھے گئے۔ اس وقت تک کیا ہماری حکومت کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ امریکہ نے ہمیں دھمکی دی ہے؟؟ اور ہم نے تب تک کوئی احتجاج ریکارڈ کیوں نہیں کروایا؟ کیا ہم نے امریکی حکومت کو کھلے عام نہ سہی، بیک ڈور رابطوں یا سفارتی سطح پر اپنی ناراضی سے آگاہ کیا یا کسی قسم کی ناپسندیدگی کا اظہار کیا؟؟ نہیں یقینا نہیں۔ لیکن اب جب کہ حکومت ہتھ سے جاتی نظر آ رہی ہے تو وہ چورن بیچنے کی کوشش کی جا رہی ہےجو ہمارے ہاں بڑے آرام سے بلکہ دھڑا دھڑ بکتا ہے۔
 

Back
Top