مولویوں کا اپنی باری رونے کا رویہ کوئی نیا نہیں۔ خود امیرِ جماعتِ اِسلامی ہو کر بھی کِسی کی عزت کا احساس نہ کریں اور تہمت طرازی میں اِس حد تک چلے جائیں کہ دوسروں کو بِلا وجہ امریکی ایجنٹ اور غیر مُسلم قرار دے ڈالیں لیکن ہم ایسے گنہگاروں سے اعلیٰ اِسلامی اقدار و اوصاف کی تقاضا، منافقت اور کِس چڑیا کا نام ہے۔
جِنہوں نے پاکستان کو ناپاکستان اور قائدِ اعظم کو کافرِ اعظم کہا اور محمد علی جِناح ایسے کلین شیون کی قیادت میں چلنے والی "مُسلم تحریکِ آزادی" کو سازش ٹہرایا اپنی باری ذرا سی "شان افزائی" پر کیسے دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں۔ کیوں نہ پوچھیں کہ تُم نے حبیب بینک سے چوری میں حصہ وصول نہیں کیا؟ اگر نواز شریف پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں تو اِنکو رعایت اِسلیئے کہ داڑھی کا رنگ سفید ہے ۔ ۔ ۔ نواز شریف کو دو ہفتے دو اُسکی داڑھی بھی سفید ہی ہوگی اور منور حسن سے گھنی و بڑی بھی۔
ستر کے عشرے میں جماعتیے اپنے زیرِ اثر اخبارات میں آئے روز بھُٹو کی واٹ لگاتے تھے کارٹونوں سے لیکر ذاتی زندگی تک سب زیرِ بحث آتا۔ یہی رویہ جو آج کا میڈیا عمران خان کیساتھ رکھے ہے اِنکا بھُٹو کیساتھ بھی تھا۔ پھِر جواباً ایک دِن ہفت روزہ "شہاب" نے مودودی صاحب کے دھڑ پر اداکارہ نغمہ کا چہرہ لگا کر شائع کر دیا ۔ ۔ ۔ بس پھِر کیا تھا وہی رونا جو اِس تھریڈ پر جاری ہے۔ منصورہ میں ایک کہرام بپا تھا کہ اِسلام پر حملہ ہو گیا اور مملکت اسلامیہ (ناپاکستان) کا اخلاقی وجود وجود خطرے میں ہے، مشرقی تہذیب تار تار ہو گئی، بڑوں کا لِحاظ نہ کِسی شریف کی عِزت کا پاس جیسے واویلے تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے۔
اگر قائد اعظم کو گالی دینے پر اِنکے گریبان نہ پکڑو، ڈالروں کے عِوض پاکستانی بچوں کی فروخت کا حساب نہ مانگو، اِن کی بھاڑے پر لڑی جنگ کو جہاد مانو، بنگالی بھائیوں کی نسل کُشی میں اِن کے کردار پر سوالات نہ اُٹھاؤ، اِنکی وطن پرستی کی تعریف کو نصاب میں شامل رکھو تو سب ٹھیک، ہم اچھے پاکستانی اور نیک مسلمان ہیں۔
اِنکا جب جی چاہے جِسکو یہودی بنا ڈالیں، ہندوستانی ایجنٹ، امریکی پِٹھو، قادیانی، مُلک دُشمن ڈکلئیر کر دیں لیکن اِن پر بات کرو تو فوراً اِسلام کی اساس زد پر آ جائے، دو قومی نظریہ ویران ہونے جا رہا ہے، عِزتوں سے کھیلا جا رہا ہے، پگڑی اچھالی جا رہی ہے۔ کہاں کے مقدسین ہیں یہ؟ نواز شریف بھی ایک قومی لیڈر ہے سینئر سیٹیزن ہے دس بچوں کا باپ اور ایک خاندان کا سربراہ بھی، ایسی مِلتی جُلتی صورتِ احوال عمران خان، زرداری، ولی خان، فضل الرحمٰن، طاہر القادری، اسلم رئیسانی، قائم علی شاہ سمیت درجنوں قومی قائدین کی ہے۔ جِن القابات سے اُنکی آؤ بھگت یہاں کی جاتی ہے قابلِ برداشت ہے لیکن منور حسن کی عزت افزائی قومی و مِلی فریضہ ہے ذرا سی بھوُل چوُک نہ ہونے پائے۔ کیوں جی کیا گُن ہیں جو دوسروں میں نہیں؟ کم و بیش وہی لچھن، وہی چالبازیاں، وہی لین دین، وہی اقتدار کی سودے بازیاں، آمریتوں کی کفش برداریاں البتہ منافقت اِضافی وصف ہے جو چھُپائے نہ چھُپے۔
یہ رویہ کوئی نیا نہیں اِنکی زبانوں سے محمد علی جِناح ایسا عظیم رہنُما محفوظ نہیں رہا جِسے یہ "انگریز کا ایجنٹ" قرار دیتے تھے، ہُما شُما کی کیا اوقات۔