مارشل لاء ملک کیلئے ناگزیر۔۔ جاوید چوہدری

remykhan

Chief Minister (5k+ posts)
He is first one on media accountability. most corrupt asking for marshal law, he will be first one to be hanged by military courts.
 

Galaxy

Chief Minister (5k+ posts)
This man sold his sole completely. He should jump from a very high cliff some where.
 

P@triot

Senator (1k+ posts)
Javed chawal ki chawlana koshish. Lekin kiya karay beychara..har doosray mahinay muft ka foreign tour lagta tha.. ?
 

ikaxhif

Citizen
میں خاموشی ہو گئی‘ گہری خاموشی۔
اور پھر جاوید چودری نہ اپنی شلوار اتار کر .......?
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)
Yeh harram zaada bhi NAB key grift may aanay wala hay.
HARRAM kha kar yeh HARRAM zaada bohat bhoonk raha hay.
 

taban

Chief Minister (5k+ posts)
ملک کے لئے مارشل لاء تو ضروری نہیں ہے .مگر حرامزدگی جیدے کنجر کے بچے کے لئے بہت ضروری ہے
 

TahiraUmmemomina

MPA (400+ posts)
ان کی اپنی بیان کی ہوئی حکایت کے مطابق ۔۔۔ یہ نونی چور کی حکومت میں ہر ۔۔شہری پہ ایک جوتے کی ۔۔۔۔لازمی سزا کی شرط پوری کرنے میں ۔۔۔ لائن میں سب سے آگے ہوتے ۔۔۔ یہ گفتار کے غازی ۔۔۔ عملا چوروںکے حامی ۔۔۔۔ زہنی معزور ۔۔۔۔۔ کرپٹ معاشروں کی پہچان ٹائپ نالائق تجزیہ کار ۔۔۔ جو بڑے مجرموں
کی پشت پناہی کرتے ہیں ۔۔۔۔ اس ملک پہ منظم ڈاکوؤں کا گرو ہ آدھی صدی تک ایویں ہی نہیں راج کرتا رہا ۔۔۔۔۔
 

AhmadSaleem264

Minister (2k+ posts)
Agar Marshall law laganay k baad bhi nro or lifafa na mila to kia kahay ga k india take over kar lai Pakistan ko?
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
بات یہ بھی وہی کر رہا ہے جو ڈاکٹر شاہد مسعود عرصے سے کرتا آ رہا ہے۔

خیر یہ کچھ زیادہ پھوہڑ ہونے کی وجہ سے لفظ مارشل لا استعمال کر رہا ہے۔
شاہد مسعود نظام کی تبدیلی کا لفظ استعمال کرتا ہے۔

اور اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے، تو یہ بات تو درست ہے کہ عمران خان کی ٹیم کے قابو میں کچھ نہیں آرہا، ماسوائے چند شعبدے بازیوں کے یہ کوئی ایسا ٹھوس اقدام نہیں اٹھا پا رہے جس سے کچھ بہتری کی صورتحال پیدا ہو۔

خیر میں اس لفافے کی اقتصادی دانش پر سوائے سر دھننے کے کچھ اور کر نہیں سکتا، جو رئیل اسٹیٹ، موبائل فون کمپنیوں اور میڈیا چینلز کو اکانومی کا پہیّہ چلانے کا ذمہّ دار ٹھہراتا ہے۔ جسے شہباز شریف کی برساتی اور لانگ بوٹ والی تصویریں بھول گئی ہیں اور یہ لاہورمیں حالیہ بارشوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کو پی ٹی آئی کے کھاتے میں ڈال رہا ہے۔

معیشت کا پہیّہ ہمیشہ صنعت، تجارت اور زراعت سے چلتا ہے۔

جس ملک میں بھی یہ تین سیکٹر مستحکم ہوتے ہیں، وہیں پر ہمیشہ سروسز سیکٹر چلنا شروع ہوتے ہیں۔
اگر ملک میں صنعت و تجارت کے ذریعے پیسہ آئے گا، تب ہی لوگ گھر بھی بنائیں گے، پلاٹ بھی خریدیں گے، ٹی وی چینلز کو اشٹہار بھی ملیں گے اور لوگوں کے پاس پیسہ ہونے کی وجہ سے لوگ موبائل فون کا بھی استعمال کریں گے۔

اسد عمر پاکستان کو آئی ایم ایف سے بچانے کی خاطر جو بیوقوفی کر گیا، وہ بہت مہنگی پڑ گئی عوام کو۔
یہ بات درست ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضوں کی شرائط میں ہمیشہ ملکی معیشت کا کچومر نکالا جاتا ہے۔ لہٰذا اس بچنا ہی صحت کے لیئے بہتر ہے۔ اب ٹیکس بڑھانا عمران خان کے ہاتھ میں نہیں رہا۔ بجلی، گیس اور پیٹرول مہنگا کرنا عمران خان کا شعبہ نہیں رہا۔ اب انکو وہی کچھ کرنا ہے جو آئی ایم ایف نے کہنا ہے۔

اگر اسد عمر عقل کو ہاتھ مارتا، اور پہلے دن ہی آئی ایم ایف کے پروگرام میں چلا جاتا اور بعد میں دوست ممالک کے پاس چکر لگاتا تو اقتصادی خسارہ اتنا اوپر نہ پہنچتا، اور نہ ہی اتنا قرض لینے کی ضرورت پڑتی۔ بس اسد عمر یہاں اندازے کی غلطی کر گیا۔
دوسری جانب عمران خان ڈٰم بنانے کے علاوہ جن منصوبوں پر کام کر رہا ہے، وہ نرا خرچہ ہیں، میٹرو بس اور اوریننج لائن ٹرین کی طرح۔
سستے گھر بنا لیں، لیکن جب لوگوں کے پاس روزگار ہی نہیں ہوگا تو پھر لوگ کیسے یہ گھر خریدیں گے؟ جب روٹی، کپڑا اور دیگر سہولیات زندگی مہنگی ہونگی تو کون بچت کر پائے گا اتنی کہ اپنا ذاتی گھر خرید سکے؟
جبکہ اسکے برعکس، اگر آپ صنعت، تجارت اور زراعت کے شعبوں کو ترقی دیں، تو لوگوں کے پاس روزگار کی فراہمی کے باعث اتنا پیسہ اکٹھا ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے گھر خود تعمیر کر لیں، اپنے بچوں کو پڑھا لیں اور صحت کی سہولیات سے مستفیض ہوسکیں۔
انکو صحت اور تعلیم کب تک قرضوں کے پیسے سے مفت میں دیں گے۔ اگر ٹیکس کے پیسے سے بھی یہ سہولیات دیں گے تو صنعت و حرفت کے انجماد کے باعث کیا ٹیکس اتنا اکٹھا کر سکیں گے؟

مجھے کافی حد تک صورتحال اس طرف جاتی نظر آرہی ہے۔ جس دن نواز شریف اور زرداری کے کیس کسی منطقی انجام تک پہنچے تو عوام کا منہ ان کی ناکامیوں کی طرف مڑجانا ہے۔ شائد ابھی تک یہ عوام اس خواب خرگوش میں محو ہے کہ زرداری اور نواز کی ساری جائیداد فروخت کے بعد ان سب کے حالات امریکہ یا یورپ جیسے ہو جائیں گے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سے پیسہ نکال بھی لیا جائے تو کل ملا کر تین یا چار سو ارب سے زیادہ نہیں بنے گا۔
جبکہ اتنا نقصان تو صرف ایک ہفتے میں سٹاک مارکیٹ کر لیتی ہے۔
 

NCP123

Minister (2k+ posts)
Javed-Chaudhry-Age-Education-Family-Father-Children-Marriage-Wife-Career-Achievements-Awards-TV-Show-Contact-Facebook-Twitter-Instagram.jpg

’’یہ مارشل لاء کے لیے آئیڈیل صورت حال ہے‘‘ صاحب نے سگار سلگایا‘ کافی کا کپ ناک کے قریب لا کر لمبی سانس لی اور میز پر پڑی ریت گھڑی کو الٹا دیا‘ ریت اوپری خانے سے نیچے سرکنے لگی‘ وہ مسکرائے اور پھر آہستہ سے بولے ’’آپ حالات دیکھ لیں‘ پورا ملک بند ہو چکا ہے‘ فیکٹریاں رک گئی ہیں‘ پیداوار سلو ہو گئی ہے‘ درآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں اور برآمدات منجمد ہیں۔

آپ کسی دکان دار سے پوچھ لیں‘ آپ صنعت کاروں‘ تاجروں اور ڈسٹری بیوٹرز سے ان کے حالات پوچھ لیں‘ وہ سر پر ہاتھ رکھ کر دہائی دیں گے‘ ملک میں معیشت کے تین پہیے تھے‘ یہ تین پہیے پورے ملک کو چلا رہے تھے‘ رئیل اسٹیٹ‘ پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز اور موبائل فون کمپنیاں‘ یہ تینوں شعبے ملک کی جڑوں تک پہنچ چکے تھے‘ آپ کو 2017-18ء میں ہر تیسرا خوش حال شخص پراپرٹی ڈیلر ملتا تھا‘ ملک کے بڑے بڑے گروپوں نے باپ دادا کا کام چھوڑ کر ہاؤسنگ سوسائٹیاں‘ ہاؤسنگ کمپلیکس اور بلڈنگز بنانا شروع کر دی تھیں۔

رئیل اسٹیٹ دنیا میں مدر انڈسٹری کہلاتی ہے‘ یہ اکیلی انڈسٹری ساٹھ انڈسٹریز کو چلاتی ہے‘ یہ دنیا میں جابز کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے‘ آپ دو مرلے کا گھر بنائیں‘ آپ 260 لوگوں کا چولہا جلائیں گے چناں چہ ملک میں رئیل اسٹیٹ بوم آیا اور اس بوم کی وجہ سے ملک میں چار ماہ اینٹ نہیں ملتی تھی‘ آپ کو ٹائلیں لگانے والے اور پلمبر تک دستیاب نہیں ہوتے تھے‘ تعمیراتی میٹریلز میں بھی نئی نئی اختراعات آ رہی تھیں‘ آپ نے ملک میں جتنی قسم کا کنسٹرکشن میٹریل پچھلے پانچ سالوں میں دیکھا ہو گا آپ کو یہ پوری زندگی نہیں ملا ہوگا لیکن پھر یہ حکومت آئی اور رئیل اسٹیٹ کی پوری انڈسٹری بیٹھ گئی‘ کنسٹرکشن‘ ڈویلپمنٹ اور سیل پرچیز تینوں بند ہو گئیں‘ کیوں ہوئیں؟

تین وجوہات تھیں‘ حکومت نے رئیل اسٹیٹ ٹائی کونز کے کیس کھول دیے اور یہ لوگ ڈویلپمنٹ کا کام چھوڑ کر عدالتوں اور ایف بی آر میں دھکے کھانے لگے‘ لوگوں کی پرچیزنگ پاور کم ہو گئی‘ لوگ اب بل دیں‘ بچوں کو تعلیم دلائیں‘ گھر کا راشن پورا کریں یا پھر مکان یا دکان بنائیں چناں چہ لوگ اپنے خوابوں کے پاؤں سمیٹ کر بیٹھ گئے اور تیسری وجہ لوگوں نے ملک کے غیر یقینی معاشی حالات کی وجہ سے اپنا سرمایہ بینکوں سے نکال کر ڈالرز اور پاؤنڈز میں تبدیل کیا اور گھروں میں چھپا دیا چناں چہ بیڑہ غرق ہو گیا‘ صرف رئیل اسٹیٹ کے انجماد کی وجہ سے پچاس لاکھ لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔

آپ کو جن دفتروں میں روزانہ لوگوں کی قطاریں ملتی تھیں وہ اب سنسان اور بیابان دکھائی دیتے ہیں‘ آپ جن کاریگروں سے کام کرانے کے لیے راتوں کے وقت ان کے گھروں کے چکر لگاتے تھے وہ اب دن کے وقت بھی اپنی دہلیز پر بیٹھے ہوتے ہیں‘ دوسرا پہیا موبائل فون کمپنیاں تھیں‘ یہ کمپنیاں بھی زوال کا شکار ہو گئیں‘ ان کا ریونیو 40 فیصد کم ہو گیا ‘ لوگ اب صرف ضرورت کے تحت کال کرتے ہیں‘ یہ اب واٹس ایپ بھی استعمال کرتے ہیں اور یہ انٹرنیٹ کی راشنگ بھی کرتے ہیں اور پیچھے رہ گئے پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز ‘یہ بھی ڈاؤن سائزنگ کے عمل سے گزر رہے ہیں۔

تنخواہیں کم ہو چکی ہیں‘ ریونیو ڈاؤن سے ڈاؤن ہو رہا ہے اور ورکرز کو تین تین ماہ معاوضہ نہیں ملتا‘ ملک کے دس نیوز چینلز بندش کے قریب پہنچ چکے ہیں اور یہ سارے حالات مارشل لاء کے لیے آئیڈیل ہیں‘‘ وہ خاموش ہو گئے‘ کمرے میں کافی اور سگار کی ملی جلی خوشبو پھیلی ہوئی تھی اور میں خوف کے عالم میں انھیں دیکھ رہا تھا‘ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے خوف پھیلانے کی بے تحاشا صلاحیت دے رکھی تھی‘ یہ کسی بھی وقت کسی بھی اچھے بھلے شخص کا پیشاب خشک کر سکتے ہیں‘ آپ بس ان کے ساتھ گفتگو شروع کریں اور پھر تماشا دیکھیں‘ میں بھی اس وقت اسی عمل سے گزر رہا تھا۔

وہ رکے اور بولے ’’ملک کا سرکاری نظام بھی پوری طرح بیٹھ چکا ہے‘ حکومت کو سرکاری اداروں کے ڈی جی‘ چیئرمین اور سیکریٹری نہیں مل رہے‘ وزراء فائل سیکریٹریوں کو بھجواتے ہیں اور یہ ان پر سائن کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے‘ نیچے سے آنے والی فائلیں بھی مختلف دفتروں‘ مختلف محکموں میں دھکے کھاتی رہتی ہیں اور کوئی ان پر آرڈر لکھنے کے لیے راضی نہیں ہوتا‘ عدلیہ کے حالات بھی ایسے ہیں‘ ججوں کی ٹیپس نکل رہی ہیں‘ عدالتوں میں مقدمے جاتے ہیں اور دس دس سال فیصلے نہیں ہوتے‘ نیب ریفرنس تیار کرتی ہے‘ مجرموں کو پکڑتی ہے اور پھر نیب کے وکلاء مجرم کو عدالت میں مجرم ثابت نہیں کر پاتے‘ مجرم آسانی سے نکل جاتے ہیں۔

عوامی بہبود کے ادارے بھی بدترین دور سے گزر رہے ہیں‘ کراچی کی سڑکیں کچرہ کنڈی بن چکی ہیں‘ آپ روشنیوں کے شہر میں سانس نہیں لے سکتے‘ پانی‘ صحت اور بجلی کی حالت بھی پتلی ہے‘ ڈی ایچ اے کے رہائشی بھی پانی کے ٹینکرز خریدنے پر مجبور ہیں‘ سرکاری دفتروںمیں بھی پانی نہیں ہوتا‘ آپ بلدیہ کی عمارت میں جا کر دیکھ لیں آپ کو اس کے گٹڑ بھی ابلتے ملیں گے‘ پنجاب کے حالات بھی خراب ہیں‘ لاہور میں بارش ہوئی اور پورا شہر ڈوب گیا‘ آپ کسی شہر میں نکل جائیں آپ کو گلیوں‘ سڑکوں اور چوکوں میں گندگی کے ڈھیر ملیں گے۔

سینٹری ورکرز پورے پنجاب سے غائب ہو چکے ہیں‘ پشاور میں حکومت نے ایڑی چوٹی کا زور لگالیا‘ 57 ارب روپے اضافی بھی خرچ کردیے لیکن اس کے باوجود میٹرو مکمل نہیں ہو سکی‘ آرمی کے بغیر اب فاٹا اور بلوچستان میں امن ممکن نہیں رہا‘ آپ جس دن فوج کی چوکیاں ختم کرتے ہیں صوبے میں اس دن قتل و غارت گری شروع ہو جاتی ہے اور آپ کو فاٹا کے الیکشن بھی فوج کے پہروں میں کرانا پڑے اور یہ حالات بھی مارشل لاء کے لیے آئیڈیل ہیں‘‘ وہ رکے‘ سگار کا لمبا کش لیا اور بولے ’’اور آپ انٹرنیشنل ریلیشنز بھی دیکھ لیجیے‘ چین اور روس دونوں پاکستان کو بے یقینی کے عالم میں دیکھ رہے ہیں۔

ہمارے وزیراعظم بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو فون کرتے ہیں اور وہ کال ریسیو نہیں کرتا‘ وزیراعظم امریکا میں جا کر دھرنے کی تقریر کر کے واپس آ جاتے ہیں‘ امریکی حکومت نے وزیراعظم عمران خان کو بس پر بٹھا کر طیارے سے لاؤنج تک پہنچایا لیکن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فل پروٹوکول دیا‘ پینٹا گان میں انھیں گارڈ آف آنر بھی دیا گیا اور 21 توپوں کی سلامی بھی ‘ امریکا میں 21 توپوں کی سلامی پروٹوکول کا سب سے بڑا اعزاز ہوتی ہے‘ یہ سلامی جنرل باجوہ سے پہلے آخری بار بے نظیر بھٹو کو دی گئی تھی۔


یہ سلامی ثابت کرتی ہے امریکا وزیراعظم کے بجائے ہمارے آرمی چیف کو زیادہ اہمیت دیتا ہے‘ یہ حالات بھی مارشل لاء کے لیے آئیڈیل ہیں‘‘ صاحب رکے‘ کافی کا سپ لیا اور پھر سگار کے لمبے لمبے کش لینے لگے‘ میں نے کرسی پر پہلو بدلا اور ڈرتے ڈرتے پوچھا ’’کیا یہ حالات مارشل لاء کے لیے کافی ہیں‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’آپ اگر ان میں پارلیمنٹ کو بھی شامل کر لیں تو تصویر مزید واضح ہو جائے گی‘ پارلیمنٹ نہیں چل پا رہی‘ سال ہو چکا ہے لیکن ابھی تک پارلیمانی کمیٹیاں مکمل نہیں ہوئیں‘ پارلیمنٹ کا ہر سیشن ہلڑ بازی کی نذر ہو جاتا ہے۔


وزیراعظم اپوزیشن اور اپوزیشن وزیراعظم سے ہاتھ ملانے کے لیے تیار نہیں‘ سلیکٹڈ کا لفظ باقاعدہ گالی بن چکا ہے اور پارلیمنٹ نے ایک سال میں کوئی قانون سازی‘ کوئی تعمیری کام نہیں کیا‘ رہی سہی کسر چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کے دوران پوری ہو گی‘ سیاست مزید ننگی ہو کر قوم کے سامنے آ گئی اور یہ بھی مارشل لاء کے لیے آئیڈیل حالات ہیں‘‘ وہ رک گئے‘ میں نے عرض کیا ’’کیا یہ کافی ہے‘‘ وہ بولے نہیں ’’بس عوام باقی ہیں‘ حکومتی پالیسیوں کے بدترین اثرات نومبر دسمبر میں کھل کر سامنے آ جائیں گے جس کے بعد لوگ باہر آنا شروع کر دیں گے‘ یہ منتخب نمایندوں اور وزراء کا گھیراؤ کریں گے۔

حکومت دفتروں اور گھروں تک محدود ہو کر رہ جائے گی‘ وزراء عوام کا سامنا نہیں کر سکیں گے‘ یہ جہازوں کے اندر بھی عوامی غیظ و غضب کا نشانہ بننے لگیں گے اور لوگ انھیں سڑکوں اور پارکوں میں بھی روک کر کھڑے ہو جائیں گے اور یہ وہ ٹائم ہو گا جب فوج آگے بڑھنے پر مجبور ہو جائے گی‘ عوام کے پاس بھی اس وقت انھیں ویل کم کہنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچے گا‘ وہ وقت نازک ترین ہو گا‘‘ وہ رک گئے۔

میں نے پوچھا ’’کیا فوج معاملات کو درست کر لے گی‘‘ وہ قہقہہ لگا کر بولے ’’سو فیصد‘ فوج چند ماہ میں ملک کو ٹریک پر لے آئے گی‘‘ میں نے پوچھا ’’کیسے؟‘‘ وہ بولے ’’ یہ شرح سود کو ساڑھے تیرہ سے ساڑھے سات فیصد پر لے آئے گی‘ رئیل اسٹیٹ‘ موبائل فون اور میڈیا انڈسٹری کو دس سال کے لیے ٹیکس ایمنسٹی دے دے گی‘حکومت ایکسپورٹس پر ٹیکس کی چھوٹ بڑھا دے گی‘ یہ اسٹاک ایکسچینج کو شوکت عزیز ماڈل پر لے جائے گی‘ یہ پشاور میٹرو سمیت تمام ترقیاتی منصوبے دو تین ماہ میں مکمل کر دے گی‘ یہ روپے کو ڈالر کے مقابلے میں مستحکم کر دے گی‘یہ ٹروتھ اینڈ ری کنسی لیشن کمیشن بنا کر جیلوں میں قید تمام سیاست دانوں کو رہا کردے گی‘ یہ لوگ پوری دنیا میں جہاں جانا چاہیں یہ چلے جائیں بس یہ سیاست نہیں کر سکیں گے‘ یہ ایف بی آر اور نیب دونوں کا سسٹم سادہ اور شفاف کر دے گی۔

یہ ادارے ناقابل تردید ثبوتوں کے بغیر کسی شخص کو گرفتار نہیں کر سکیں گے‘یہ بلوچستان اور فاٹا کے ناراض لوگوں کو قومی دھارے میں لے آئے گی اور یہ انڈیا کے ساتھ مذاکرات شروع کر دے گی اور یوں ملک چند ماہ میں ٹریک پر آ جائے گا‘ وہ رکے‘ سگار منہ سے لگایا اور شرارتی نظروں سے میری طرف دیکھنے لگے‘ میں نے عرض کیا ’’یہ چیزیں اگر اتنی ہی سادہ ہیں تو یہ پھر یہ حکومت کیوں نہیں کر لیتی‘ ملک بچ جائے گا‘‘ وہ ہنسے اور دیر تک ہنستے چلے گئے اور میں حیرت سے ان کی طرف دیکھتا چلا گیا‘ وہ شاید جواب نہیں دینا چاہتے تھے۔

میں نے آخری سوال پوچھا’’آپ کس کو اس صورت حال کا ذمے دار سمجھتے ہیں‘‘ وہ رکے‘ لمبی سانس لی اور بولے ’’عمران خان معصوم ہیں‘ یہ ٹریپ ہو گئے ہیں‘ ان کے دوست صورت حال کو وہاں لے آئے ہیں جہاں اب مکمل ٹیک اوور کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا‘ ملک کو اب نیشنل گورنمنٹ اور شاہ محمود قریشی بھی نہیں چلا سکیں گے‘‘۔ کمرے میں خاموشی ہو گئی‘ گہری خاموشی۔

aur ubb ye Javed Choudhary samjh raha hey ye bhi philosopher hey...............
 

Saboo

Prime Minister (20k+ posts)
Koi maha kanjar insan hae ye Jaeda.... es ne kese dhake chupe lafzon maen Nawaz Sharif aur Zardari ki chori muaaf karne ki baat ki.... jab tak esi qalmi tawaaifen media maen rahengay to log TV dekhna hi chor dengay.... sab log Social Media ka rukh es lie kar rahe haen....

Lanat ho es ki gande zehan aur kirdar par
جیسے مارشل لاء ملک کے لیے ناگزیر ہے ویسے ہی
اب بہت سارے جوتے اس کمینے چودھری کے لیے
بھی ناگزیر ہو چکے؟......
تمہاری طرح یہ صورت حال بھی سنگین ہے؟..... ?
 

back to the future

Chief Minister (5k+ posts)
بات یہ بھی وہی کر رہا ہے جو ڈاکٹر شاہد مسعود عرصے سے کرتا آ رہا ہے۔

خیر یہ کچھ زیادہ پھوہڑ ہونے کی وجہ سے لفظ مارشل لا استعمال کر رہا ہے۔
شاہد مسعود نظام کی تبدیلی کا لفظ استعمال کرتا ہے۔

اور اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے، تو یہ بات تو درست ہے کہ عمران خان کی ٹیم کے قابو میں کچھ نہیں آرہا، ماسوائے چند شعبدے بازیوں کے یہ کوئی ایسا ٹھوس اقدام نہیں اٹھا پا رہے جس سے کچھ بہتری کی صورتحال پیدا ہو۔

خیر میں اس لفافے کی اقتصادی دانش پر سوائے سر دھننے کے کچھ اور کر نہیں سکتا، جو رئیل اسٹیٹ، موبائل فون کمپنیوں اور میڈیا چینلز کو اکانومی کا پہیّہ چلانے کا ذمہّ دار ٹھہراتا ہے۔ جسے شہباز شریف کی برساتی اور لانگ بوٹ والی تصویریں بھول گئی ہیں اور یہ لاہورمیں حالیہ بارشوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کو پی ٹی آئی کے کھاتے میں ڈال رہا ہے۔

معیشت کا پہیّہ ہمیشہ صنعت، تجارت اور زراعت سے چلتا ہے۔

جس ملک میں بھی یہ تین سیکٹر مستحکم ہوتے ہیں، وہیں پر ہمیشہ سروسز سیکٹر چلنا شروع ہوتے ہیں۔
اگر ملک میں صنعت و تجارت کے ذریعے پیسہ آئے گا، تب ہی لوگ گھر بھی بنائیں گے، پلاٹ بھی خریدیں گے، ٹی وی چینلز کو اشٹہار بھی ملیں گے اور لوگوں کے پاس پیسہ ہونے کی وجہ سے لوگ موبائل فون کا بھی استعمال کریں گے۔

اسد عمر پاکستان کو آئی ایم ایف سے بچانے کی خاطر جو بیوقوفی کر گیا، وہ بہت مہنگی پڑ گئی عوام کو۔
یہ بات درست ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضوں کی شرائط میں ہمیشہ ملکی معیشت کا کچومر نکالا جاتا ہے۔ لہٰذا اس بچنا ہی صحت کے لیئے بہتر ہے۔ اب ٹیکس بڑھانا عمران خان کے ہاتھ میں نہیں رہا۔ بجلی، گیس اور پیٹرول مہنگا کرنا عمران خان کا شعبہ نہیں رہا۔ اب انکو وہی کچھ کرنا ہے جو آئی ایم ایف نے کہنا ہے۔

اگر اسد عمر عقل کو ہاتھ مارتا، اور پہلے دن ہی آئی ایم ایف کے پروگرام میں چلا جاتا اور بعد میں دوست ممالک کے پاس چکر لگاتا تو اقتصادی خسارہ اتنا اوپر نہ پہنچتا، اور نہ ہی اتنا قرض لینے کی ضرورت پڑتی۔ بس اسد عمر یہاں اندازے کی غلطی کر گیا۔
دوسری جانب عمران خان ڈٰم بنانے کے علاوہ جن منصوبوں پر کام کر رہا ہے، وہ نرا خرچہ ہیں، میٹرو بس اور اوریننج لائن ٹرین کی طرح۔
سستے گھر بنا لیں، لیکن جب لوگوں کے پاس روزگار ہی نہیں ہوگا تو پھر لوگ کیسے یہ گھر خریدیں گے؟ جب روٹی، کپڑا اور دیگر سہولیات زندگی مہنگی ہونگی تو کون بچت کر پائے گا اتنی کہ اپنا ذاتی گھر خرید سکے؟
جبکہ اسکے برعکس، اگر آپ صنعت، تجارت اور زراعت کے شعبوں کو ترقی دیں، تو لوگوں کے پاس روزگار کی فراہمی کے باعث اتنا پیسہ اکٹھا ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے گھر خود تعمیر کر لیں، اپنے بچوں کو پڑھا لیں اور صحت کی سہولیات سے مستفیض ہوسکیں۔
انکو صحت اور تعلیم کب تک قرضوں کے پیسے سے مفت میں دیں گے۔ اگر ٹیکس کے پیسے سے بھی یہ سہولیات دیں گے تو صنعت و حرفت کے انجماد کے باعث کیا ٹیکس اتنا اکٹھا کر سکیں گے؟

مجھے کافی حد تک صورتحال اس طرف جاتی نظر آرہی ہے۔ جس دن نواز شریف اور زرداری کے کیس کسی منطقی انجام تک پہنچے تو عوام کا منہ ان کی ناکامیوں کی طرف مڑجانا ہے۔ شائد ابھی تک یہ عوام اس خواب خرگوش میں محو ہے کہ زرداری اور نواز کی ساری جائیداد فروخت کے بعد ان سب کے حالات امریکہ یا یورپ جیسے ہو جائیں گے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سے پیسہ نکال بھی لیا جائے تو کل ملا کر تین یا چار سو ارب سے زیادہ نہیں بنے گا۔
جبکہ اتنا نقصان تو صرف ایک ہفتے میں سٹاک مارکیٹ کر لیتی ہے۔
mujhay tu IK aik dream main nazar aarha hay aur shay ad ground realities say na waqif hay.
asad umar nay time waste kia aur shay ad yehi difference daal day gaa
investment kay liay govt kay paas paisay nahi hay.saway FDI kay haalat drust krnay ka tareen nahin hay.
IK ko sona chor kr industry pr tawajah deni chahyay
 

tansarbh

Senator (1k+ posts)
Senate ka chairman bhi nahin change kar sakay. Ab in k haath main kuch nahin, Marshal Law nahin to aor kia lagna chahiyay.

They are like ' hum nahin to kuchh nahin'.....Lanat!