لہندا پنجاب کے نسلی اور فصلی ٹھگوں نے پاکستان کو کتنا نقصان پونھچایا

jani1

Chief Minister (5k+ posts)

''ظاہر ہے ہر کمیونٹی کا عام آدمی معصوم ہوتا ہے لھذا وہ ہدف تنقید نہیں ہیں''
?
اس ایک جملے سے یہ بحث یا اعتراض تو ختم ہوجانا چاہیئے تھا، کہ یہ تحریرسارے پنجابیوں کو کیوں نشانے پر لے رہی ہے، ۔



لہندا پنجاب کے نسلی اور فصلی ٹھگوں نے پاکستان کو کتنا نقصان پونھچایا ؟

Logo.png


ارتغل غازی کے مکمل دو سیزن دیکھ کر جو اساس سمجھ میں آئی ،اس پر چار مفصل بلاگ لکھوں گا . ایک لکھ چکا ہوں . اسی لڑی کا دوسرا بلاگ حاضر خدمت ہے . اگر کسی موضوع پر کوئی پیٹرن دریافت کر لوں تو میں زیرو ٹالرنس کے تحت دھماکہ دار بلاگ لکھ مارتا ہوں . ایک قوم کی ریشہ دوانیوں ، غداریوں ، طاقت اور ذاتی مفادات کی حوس نے پورے پاکستان کو اپنے اہنی شکنجہ میں جکڑا ہوا ہے. یہ بلاگ پڑھ کر متعلقہ لوگوں کو غصہ تو ضرور آئے گا مگر وہ صرف کھسیانی بلی بن کر کھمبا ہی نوچ سکتے ہیں. قومیت کی بنیاد پر جب اپ تیسرا بلاگ پڑھیں گے تو آپ پنجابی مافیہ کو دل کھول کر گالی دیں گے ( بشرط .....رائی کے ایک دانے کے برابر اپکا ضمیر زندہ ہو )

میری عمر ٥٢ سال ہے . کم سنی اور بلوغت کے اٹھارہ سال نکال دیں تو ٣٤سال بچتے ہیں . ان چونتیس سالوں میں میری نسل کے لوگوں نے لہندا پنجابی کمیونٹی کے کرتا دھرتا کو صرف لوٹ مار ہی کرتا دیکھا ہے . لہندا پنجاب ہی دراصل پاکستان ہے .ظاہر ہے ہر کمیونٹی کا عام آدمی معصوم ہوتا ہے لھذا وہ ہدف تنقید نہیں ہیں . لہندا پنجابی کمیونٹی کا سیاستدان ہو یا افسر ، جج ہو یا جرنل ، ڈاکٹر ہو یا وکیل ، صحافی ہو یا مذہبی عالم ......سب کے سب غضب کی لوٹ مار میں مصروف عمل نظر اتے تھے . یہ لوگ قومی دولت پاکستان سے نکال کر لے جا رہے تھے اور قومی قرضوں کا انبار اپنی قوم پر اکھٹا کر رہے تھے . ہر فرد انجانے میں لاکھوں کا مقروض اور مہنگائی سے قرضوں اور سود کی ادائیگی بھی انجانے میں کرتا ہے . ہوتا یہ آیا ہے کے انکے کھلاڑی بھی اپنے ، امپائر بھی اپنے ،کمینٹٹر بھی اپنے اور تماشائی بھی اپنے . قسمت کی ستم ظریفی یہ ہے انکی لوٹ مار سے پنجاب کا عام ادمی ہی سب سے زیادہ پستا ہے جسے انہوں نے نسلوں سے جاہل رکھ کر ان میں سے انسانی شعور اور سوچ بچار کی رمز ہی نکال دی ہے . عقل نہیں تے موجاں ہی موجاں . یہ لوگ تمام حالات میں آپکو حقیقی طور پر موج ہی کرتے نظر اتے ہیں . اگر انہیں حکومت سو چتھر بھی مارنے شروع کرے تو یہ لوگ چھتروں پر اعتراض نہیں کرتے بلکے مین پاور کی کمی کا رونا روتے ہیں . میں نے اہل قلم کو دیکھا کے وہ مسلسل ٣٥ سالوں سے زیادہ ایک کھوتے کو شیر بنانے پر مصر ہیں اور وہ کھوتا ہر مرتبہ سب کو دلتی مار کر پاکستان سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے . پنجابی اہل قلم پھر بھی اپنا حوصلہ نہیں ہارتے کیونکے اسکے دم سے ہی ہے چاپلوس قوم کےلکھاریوں کی ہیں عیاشیاں . یاد رہے کے کتے کی کھال میں شیر پہلے سائیکل تھا مگر پنجاب والے الیکشن کے نشان کو کسی انسان کا پرتو سمجھتے ہیں . یہ جہالت دنیا کے کسی دوسرے خطہ میں نہیں ہوتی . اگر شیر کو جانور کہا جائے تو ناراض ہو جاتے ہیں اور شیر کہا جائے تو خوش ہو کر تالیاں بجاتے ہیں . اصل جانور کون ہے ، انسان ہے یا شیر .. فیصلہ اپ خود کریں . اس قوم کے کرتا دھرتا قائد اعظم کے اقوال کی مکمل زد ہیں اور اس بات کے بھی داعی ہیں کے مسلم لیگ کے حقیقی وارث یہی ہیں . اس قوم کے لوگوں نے " الف سے لے کر ے" تک مسلم لیگ کی شاخیں بنائی ہوئی ہیں مگر انکے ذاتی مفادات سے پاکستان کی بقاء ایسے غائب ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ
صاحب .....اب تو پورا گدھا ہی غائب ہے




ایک پنجابی چودھری مسلم لیگ کا داعی ایسا بھی ہے جو تمام قومی رہزنی پر " مٹی پاؤ " " پالیسی پر کامیابی سے "قے " کر کے نکل جاتا ہے . . پنجاب کے چودھری غریب کا گریبان اور طاقتور کے پیر پڑنے میں ید طولا رکھتے ہیں . گجرات کے سیاسی جادوگر " امب چوپنے اور چو پانے " کی پالیسی پر گزشتہ ٤٠ سالوں سے کمر بند ہیں .. پنجاب کے چودھری پاکستانی جنرلوں کے کونڈوم ہیں . جب بھی کوئی جنرل " جمہوریت " میں وردی سمیت "داخل" ہونا چاہتا ہے تو وہ چودھری مارکہ " کونڈوم پہن" کر با حفاظت داخل ہو جاتا ہے . کونڈوم چوھدریوں کو اتنے مزے اتے ہیں کے وہ پارلیمنٹ میں نعرہ مستانہ لگاتے ہیں . ....ایک نہیں سو مرتبہ .... یہ لوگ نسلی اور فصلی گھرانوں کے امین ہونے پر فخر کرتے ہیں . گزشتہ ٣٥ سالوں سے پنجاب کے دانشور ہمیں گجرات کے چودھریوں کی سیاسی دانست اور بصیرت کی قصیدہ گوئی کرتے نظر اتے ہیں اور کیوں نہ کریں ، آخر انہیں ہر سال فری میں "امب چوپنے " کا موقع جو ملتا ہے . باری لگا کر مل کر کھاؤ ...... اس فلسفہ میں کونسی سیاسی بصیرت اور کہاں کی سیاسی بصیرت ؟
تحریک انصاف میں ایک کونڈوم چودھری بھی مچل رہا ہے کے کسطرح وہ خود ہی چڑھ جائے . دوسری مرتبہ کی حوس قائم ہے . ٹھگ لیگ پنجاب سے بھی متعد چھوٹے چودھری بھی مچل رہے ہیں کب انہیں استعمال کیا جائے . ٢ سال ہو گئے ، انہیں خطرہ ہے کے کونڈوم میں لبریکشن ختم ہو گئی تو وہ کس کام کے رہیں گے ؟

چڑھدا پنجاب سے تعلق رکھنے والے جناب منموہن سنگھ ایک ممتاز معشیت داں اور سیاستدان ہیں . عشروں پر محیط کیریئر میں وہ ریزرو بینک آف انڈیا کے گوورنر ، پلاننگ کمیشن میں ڈپٹی چیئرمین اور منسٹر آف فنانس رہے . منموہن سنگھ لگاتار ١٠ سالوں ( ٢٠٠٤ -٢٠١٤ ) تک انڈیا کے وزیراعظم رہے مگر ایک بھی کرپشن کے کیسز ان پر نہیں بنے . منموہن سنگھ صاحب کی نیٹ ورتھ صرف دس کڑوڑ بتائی جاتی ہے . میری نسل کے لوگوں نے پاکستان میں دیکھا کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے تمام سیاسی لیڈر کے ذاتی اثاثوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا جب یہ لوگ آفس ہولڈر تھے . پوچھنے پر کہتے تھے ، اگر آمدن سے زیادہ اثاثہ ہیں تو تمہیں کیا . ارشد ملک اور جسٹس قیوم جیسے بیشمار پنجابی جج ان مافیہ سے پوچھ کر فیصلے لکھتے . نشان حیدر خاندان کے سپوت جنرل راحیل ڈا ن لیکس کیس ختم کرنے پر خود سے مریم صفدر کو مبارک باد دیتے

پاکستان میں نسلی قومیتی رہزنی نے مجھے کافی رنجیدہ کیا . میں نے پاکستان میں بسنے والی دوسری قوموں کے اخلاقی اور معاشرتی اقدار کا جائزہ لیا . کم و بیش سب میں یہی آفاقی رجحانات نظر آئے . ان چونتیس سالوں میں پنجابی لیڈرشپ نے اقتدار کی ہولی کھیلی اور سب کو ہی اپنے رنگ میں رنگ کر اپنا ہمنوا بنا کر قوالوں کا ایک سیاسی گروہ بنا لیا ہے جسے ہم لوگ علی بابا چالیس چور کے نام سے جانتے ہیں . الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق یہ لوگ اپنی توپوں کا رخ اسکی طرف کرتے ہیں جو ارتغل غازی جیسے کردار کا پرتو ہو . ٢٢ سالہ جدوجہد کے بعد پاکستانی ٹھگوں کے ہوش ربا کمالات پاکستانی ارتغل غازی کے دور میں والیوم کے والیوم بن کر ایک ایک کر کے سامنے ا رہے ہیں . پنجابی اور سندھی ٹھگوں کی طلسم ہوش ربا ایک جیسی وارداتوں نے دنیا کو جہاں ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے وہاں پنجابی دانشوروں کی آبائی ذہنی مفلسی پر منبی عیار یوں نے عمرو عیار کی کہانیوں کو بھی مات دے دی ہے


اس دور کے ممتاز ادیبوں کو بتا دو
تاریخ میں شاہوں کے ثناء خواںنہ رہیں گے

لعنت الله الا الکاذبین المنافقین
پنجاب کا دانشور اس بات پر مصر نظر اتا ہے کے نواز زرداری کے خلاف تمام کیسز کریمنل نہیں بلکے سیاسی ہیں . یہ اپنے آقاؤں کے لئے فرضی کہانیوں کو بنیاد بنا کر مکڑی کا جال بناتا ہے . ایک مرتبہ تو کہانی نویسی کی کاریگری پر پر انسان دم بخود ہوتا ہے مگر بعد میں ہنس ہنس کر پیٹ میں بل پڑ جاتے ہیں . اس قوم میں ایک پروفیسر ایسا بھی تھا جو اپنے آقا کو گندے لطیفے سنا کر " ویاگرا " خریدتا تھا . ایک وقت تھا کے پنجاب کے اہل علم درویش لکھاریوں کو کوئی خرید نہ سکا . مگر افسوس میری نسل کے حصے میں پنجاب کی وہ صحافتی طوائفیں آئیں جو لوگوں کے اذہان میں شک کے بیج بو کر اپنے عالی شان گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں اور عالیشان محلات میں رہتے ہیں . پنجاب کا صحافتی مافیہ نواز شریف اور عمران خان کی حکومت میں تقابلی جائزہ پیش کر کے عمران خان کو کبھی بھی ناکام ثابت نہیں کر سکتا . یہ لوگ محض در فتنی چھوڑنے میں مہارت رکھتے ہیں . پنجاب کے معروف دانشور صحافت کا الم تو اٹھاتے ہیں مگر عام صحافیوں کی حالت زار اور انکے حقوق کے لئے ہمیشہ غافل رہتے ہیں . معروف صحافی عامر متین صاحب کے مطابق، پنجاب کے چار دہایوں کے تجربہ پر مشتمل ڈنگر صحافیوں کو عوامی مسائل ، زراعت ، معیشیت اور پٹرولیم جیسے موضوعات پر کسی قسم کی کوئی گرفت نہیں ہے. انکی صحافت محض سیاستدانوں کے سیاسی بیانیہ کے باندر کلہ کے ارد گردد گھومتی ہے . اس نے یہ کہا ، اس نے وہ کہا . موصوف بھی صحافت کا الم اٹھائے ہوے ہیں .ایک انہیں پینڈو پروڈکشن کی یاری لے کر بیٹھ گئی . دوسرا انکی برادری کو پروفیشنل اور صاحب کردار صحافی کی ضرورت ہی نہیں ہے . کسی ٹالک شو میں بیٹھے عامر متین صاحب جب ڈھنگ کی بات کرنے لگتے ہیں تو انہیں فوری ٹوک کر انکے مونہ میں وہ بات گھسائی جاتی ہے جسکی رقمیں اینکر کو ملتی ہیں . ممتاز صحافی صرف اور صرف اپنے مالکوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں . پنجاب کے دانشوروں کا بنیادی کام لوگوں کو گمراہ کرنا ہے .جو رہتے ہی عالم گمراہی میں ہیں ، انکا کیا....... وہ تو پیدا ہی موجیں کرنے کے لئے ہیں

شو مئی قسمت، میں نے پاکستان ٹیلی ویژن کا عروج دیکھا ہے . اس وقت کے ادیب اور تخلیق کار دیکھے ، سنے اور پڑھے ہیں جسکا شائبہ میری تحریر میں شائد جھلکتا ہو. آجکل پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز پر پنجابی میڈیا گروپس کا غلبہ ہے . میڈیا گروپس میں " تنوع / ڈ آئیور سیفکشن " نہ ہونے کے برابر ہے . تمام معروف دانشوروں کا تعلق پنجاب سے ہے اور اپنے ڈی این اے کے مطابق مافیہ کو سپورٹ کرتے ہیں . چونکے میں پاکستان ٹیلی ویژن کا اعلی معیار دیکھ چکا ہوں لھذا پنجابی دانشوروں کو کھلے عام ٹالک شوز کے قومی پروگرامز میں پنجابی بولتا دیکھ کر حیران ہو جاتا ہوں . لگتا ہے یہ مافیہ کسی بھی ملکی قانون اور ضابطے کا پابند نہیں ہے . دنیا بھر میں پنجابی صحافی ، صحافی ہونے کے ساتھ کاروباری بھی ہے .

پنجاب کے معروف علمی گھرانے سے تعلق رکھنے والے " ادب کا یزید ،آفتاب اقبال " کو بھی ٹیلی ویژن پراگندہ کرتے دیکھا . دنیا گروپ کے میاں عامر اور اس ادبی یزید نے تھیٹر کے پنجابی بھانڈوں کو قومی ٹیلی ویژن پر لا کر رہی سہی قصر پوری کر دی . یہ سودا اتنا بکا کے دوسروں نے بھی اس بھیڑ چال کو اپنایا . ایک کے بعد دوسرا چینل چینل چھوڑنے کے بعد اس نے اپنا میڈیا گروپ قائم کر لیا مگر چونکے اس کے ڈی این اے میں ڈکیتی پنہا تھی لھذا یہ ادبی اژدہا اپنا چینل خود کھا گیا . اس پروگرام میں معروف لکھاریوں اور تخلیق کاروں کا ٹھٹھا مذاق اڑا کر اپنی ریٹنگ بڑھوائی گئی . چڑھدا پنجاب کے" کپل شرما " شو کرنے والے دونوں ( کپل شرما / نوجوت سنگھ سدھو ) ٹیٹھ پنجابی ہیں مگر انہوں نے ہندی /اردو کو ہی سونی ٹیلی ویژن پر بطور میڈیم اپنایا . یہ شو دنیا بھر میں دیکھا اور پسند کیا گیا تھا . پنجابی ایک شاندار زبان ہے مگر پاکستان قومی ٹیلی ویژن پر اسے بھانڈ وں کے حوالے کر دیا گیا

جسطرح پنجاب کے میراثی سیاستدان ، جرنل ، جج ، افسر اور صحافی بن گئے ہیں وہاں پنجاب کے علماء بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے . کوئی ٹک ٹاک پر مشہور ہے اور کوئی " توہاڈی پین دی سری ، کوئی پھونکوں سے تمام وبائیں ختم کر رہا ہے اور کوئی جنسی درندہ بنا ہوا ہے . پھونکوں والے نے ٹک ٹاک والے کی پھینٹی لگوائی مگر مجال ہے اسکی غیرت جاگ جاتی اور وہ قانون کو اپنا کام مکمل کرنے دیتا

لہندا پنجاب کے ایک فلم پروڈیوسر کو ڈرامہ ارتغل سے اتنا بغض کے اس نے محمد بن قاسم پر ڈرامہ سیریز بنانے کی ٹھانی . اس بیچارے کو ٹھگوں کے قبیلے سے کوئی مقامی ہیرو ہی میسر نہیں ہو سکا . موصوف کو چاہئے وہ " پنجاب کا زوال " کے نام پر ایک فلم بنائیں اور اس میں چڑھدا پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی شخصیت کو بطور ہیرو پیش کریں ، مقامی سیاستدان ، جج ، جنرل ، افسر ، صحافی ، کو بطور غدار ، ولن اور اینٹر ٹینر ڈال لیں . مزاح کے لئے ادبی یزید سے اسکے میراثی مستعار لیں اور مقامی عوام کی مدد سے فلم بندی کریں

بھلا ہو سوشل میڈیا کا جو پنجابی ٹھگی کے زہر کا تریاق ہے . جو قوم لکڑ ہضم ، پتھر ہضم کے عینی شاہد ہیں ، کھا ندا آئے تے لاندا وی آئے فلسفہ کے امین ہیں اور ٣٥ سالہ بے غیرتی ٹرین کے مسافر ہوں . انھیں چاہئے کے میری اس زہریلی قصہ گوئی سے بھڑک کر اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھنے کی بجائے عقل و دانش کے بچے کھچے دانوں پر اکتفا کر کے میری لکھائی کی روح کو سمجھیں . میں زیرو ٹالرنس کے زیر اثر لکھتا ہوں لھذا کیا جج اور کیا جنرل . میرے قلمی شمشیر کے نیچے ہر وہ گردن بلا امتیاز آئے گی جو انسانیت کی دشمن ہو گی

ہر سرجن آپریشن تھیٹر میں انسانی جسم پر نشتر چلاتا ہے تاکے اسکا مریض بے ہوشی کی حالت میں میں تکلیف سہہ کر........ہوش میں ا کر زندہ رہ سکے




حیدر! بلاشبہ یہ تحریر اس معیار کی ہے کہ اسے فریم کر کے پاکستان کی بڑی صحافتی طوائفوں کے کوٹھوں، میرا مطلب ہے ان کے دفتروں میں لٹکایا جانا چاہئیے
عام عوام کی بہترین ترجمانی کی ہے


???
 

peaceandjustice

Chief Minister (5k+ posts)
لہندا پنجاب کے نسلی اور فصلی ٹھگوں نے پاکستان کو کتنا نقصان پونھچایا ؟

Logo.png


ارتغل غازی کے مکمل دو سیزن دیکھ کر جو اساس سمجھ میں آئی ،اس پر چار مفصل بلاگ لکھوں گا . ایک لکھ چکا ہوں . اسی لڑی کا دوسرا بلاگ حاضر خدمت ہے . اگر کسی موضوع پر کوئی پیٹرن دریافت کر لوں تو میں زیرو ٹالرنس کے تحت دھماکہ دار بلاگ لکھ مارتا ہوں . ایک قوم کی ریشہ دوانیوں ، غداریوں ، طاقت اور ذاتی مفادات کی حوس نے پورے پاکستان کو اپنے اہنی شکنجہ میں جکڑا ہوا ہے. یہ بلاگ پڑھ کر متعلقہ لوگوں کو غصہ تو ضرور آئے گا مگر وہ صرف کھسیانی بلی بن کر کھمبا ہی نوچ سکتے ہیں. قومیت کی بنیاد پر جب اپ تیسرا بلاگ پڑھیں گے تو آپ پنجابی مافیہ کو دل کھول کر گالی دیں گے ( بشرط .....رائی کے ایک دانے کے برابر اپکا ضمیر زندہ ہو )

میری عمر ٥٢ سال ہے . کم سنی اور بلوغت کے اٹھارہ سال نکال دیں تو ٣٤سال بچتے ہیں . ان چونتیس سالوں میں میری نسل کے لوگوں نے لہندا پنجابی کمیونٹی کے کرتا دھرتا کو صرف لوٹ مار ہی کرتا دیکھا ہے . لہندا پنجاب ہی دراصل پاکستان ہے .ظاہر ہے ہر کمیونٹی کا عام آدمی معصوم ہوتا ہے لھذا وہ ہدف تنقید نہیں ہیں . لہندا پنجابی کمیونٹی کا سیاستدان ہو یا افسر ، جج ہو یا جرنل ، ڈاکٹر ہو یا وکیل ، صحافی ہو یا مذہبی عالم ......سب کے سب غضب کی لوٹ مار میں مصروف عمل نظر اتے تھے . یہ لوگ قومی دولت پاکستان سے نکال کر لے جا رہے تھے اور قومی قرضوں کا انبار اپنی قوم پر اکھٹا کر رہے تھے . ہر فرد انجانے میں لاکھوں کا مقروض اور مہنگائی سے قرضوں اور سود کی ادائیگی بھی انجانے میں کرتا ہے . ہوتا یہ آیا ہے کے انکے کھلاڑی بھی اپنے ، امپائر بھی اپنے ،کمینٹٹر بھی اپنے اور تماشائی بھی اپنے . قسمت کی ستم ظریفی یہ ہے انکی لوٹ مار سے پنجاب کا عام ادمی ہی سب سے زیادہ پستا ہے جسے انہوں نے نسلوں سے جاہل رکھ کر ان میں سے انسانی شعور اور سوچ بچار کی رمز ہی نکال دی ہے . عقل نہیں تے موجاں ہی موجاں . یہ لوگ تمام حالات میں آپکو حقیقی طور پر موج ہی کرتے نظر اتے ہیں . اگر انہیں حکومت سو چتھر بھی مارنے شروع کرے تو یہ لوگ چھتروں پر اعتراض نہیں کرتے بلکے مین پاور کی کمی کا رونا روتے ہیں . میں نے اہل قلم کو دیکھا کے وہ مسلسل ٣٥ سالوں سے زیادہ ایک کھوتے کو شیر بنانے پر مصر ہیں اور وہ کھوتا ہر مرتبہ سب کو دلتی مار کر پاکستان سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے . پنجابی اہل قلم پھر بھی اپنا حوصلہ نہیں ہارتے کیونکے اسکے دم سے ہی ہے چاپلوس قوم کےلکھاریوں کی ہیں عیاشیاں . یاد رہے کے کتے کی کھال میں شیر پہلے سائیکل تھا مگر پنجاب والے الیکشن کے نشان کو کسی انسان کا پرتو سمجھتے ہیں . یہ جہالت دنیا کے کسی دوسرے خطہ میں نہیں ہوتی . اگر شیر کو جانور کہا جائے تو ناراض ہو جاتے ہیں اور شیر کہا جائے تو خوش ہو کر تالیاں بجاتے ہیں . اصل جانور کون ہے ، انسان ہے یا شیر .. فیصلہ اپ خود کریں . اس قوم کے کرتا دھرتا قائد اعظم کے اقوال کی مکمل زد ہیں اور اس بات کے بھی داعی ہیں کے مسلم لیگ کے حقیقی وارث یہی ہیں . اس قوم کے لوگوں نے " الف سے لے کر ے" تک مسلم لیگ کی شاخیں بنائی ہوئی ہیں مگر انکے ذاتی مفادات سے پاکستان کی بقاء ایسے غائب ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ
صاحب .....اب تو پورا گدھا ہی غائب ہے




ایک پنجابی چودھری مسلم لیگ کا داعی ایسا بھی ہے جو تمام قومی رہزنی پر " مٹی پاؤ " " پالیسی پر کامیابی سے "قے " کر کے نکل جاتا ہے . . پنجاب کے چودھری غریب کا گریبان اور طاقتور کے پیر پڑنے میں ید طولا رکھتے ہیں . گجرات کے سیاسی جادوگر " امب چوپنے اور چو پانے " کی پالیسی پر گزشتہ ٤٠ سالوں سے کمر بند ہیں .. پنجاب کے چودھری پاکستانی جنرلوں کے کونڈوم ہیں . جب بھی کوئی جنرل " جمہوریت " میں وردی سمیت "داخل" ہونا چاہتا ہے تو وہ چودھری مارکہ " کونڈوم پہن" کر با حفاظت داخل ہو جاتا ہے . کونڈوم چوھدریوں کو اتنے مزے اتے ہیں کے وہ پارلیمنٹ میں نعرہ مستانہ لگاتے ہیں . ....ایک نہیں سو مرتبہ .... یہ لوگ نسلی اور فصلی گھرانوں کے امین ہونے پر فخر کرتے ہیں . گزشتہ ٣٥ سالوں سے پنجاب کے دانشور ہمیں گجرات کے چودھریوں کی سیاسی دانست اور بصیرت کی قصیدہ گوئی کرتے نظر اتے ہیں اور کیوں نہ کریں ، آخر انہیں ہر سال فری میں "امب چوپنے " کا موقع جو ملتا ہے . باری لگا کر مل کر کھاؤ ...... اس فلسفہ میں کونسی سیاسی بصیرت اور کہاں کی سیاسی بصیرت ؟
تحریک انصاف میں ایک کونڈوم چودھری بھی مچل رہا ہے کے کسطرح وہ خود ہی چڑھ جائے . دوسری مرتبہ کی حوس قائم ہے . ٹھگ لیگ پنجاب سے بھی متعد چھوٹے چودھری بھی مچل رہے ہیں کب انہیں استعمال کیا جائے . ٢ سال ہو گئے ، انہیں خطرہ ہے کے کونڈوم میں لبریکشن ختم ہو گئی تو وہ کس کام کے رہیں گے ؟

چڑھدا پنجاب سے تعلق رکھنے والے جناب منموہن سنگھ ایک ممتاز معشیت داں اور سیاستدان ہیں . عشروں پر محیط کیریئر میں وہ ریزرو بینک آف انڈیا کے گوورنر ، پلاننگ کمیشن میں ڈپٹی چیئرمین اور منسٹر آف فنانس رہے . منموہن سنگھ لگاتار ١٠ سالوں ( ٢٠٠٤ -٢٠١٤ ) تک انڈیا کے وزیراعظم رہے مگر ایک بھی کرپشن کے کیسز ان پر نہیں بنے . منموہن سنگھ صاحب کی نیٹ ورتھ صرف دس کڑوڑ بتائی جاتی ہے . میری نسل کے لوگوں نے پاکستان میں دیکھا کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے تمام سیاسی لیڈر کے ذاتی اثاثوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا جب یہ لوگ آفس ہولڈر تھے . پوچھنے پر کہتے تھے ، اگر آمدن سے زیادہ اثاثہ ہیں تو تمہیں کیا . ارشد ملک اور جسٹس قیوم جیسے بیشمار پنجابی جج ان مافیہ سے پوچھ کر فیصلے لکھتے . نشان حیدر خاندان کے سپوت جنرل راحیل ڈا ن لیکس کیس ختم کرنے پر خود سے مریم صفدر کو مبارک باد دیتے

پاکستان میں نسلی قومیتی رہزنی نے مجھے کافی رنجیدہ کیا . میں نے پاکستان میں بسنے والی دوسری قوموں کے اخلاقی اور معاشرتی اقدار کا جائزہ لیا . کم و بیش سب میں یہی آفاقی رجحانات نظر آئے . ان چونتیس سالوں میں پنجابی لیڈرشپ نے اقتدار کی ہولی کھیلی اور سب کو ہی اپنے رنگ میں رنگ کر اپنا ہمنوا بنا کر قوالوں کا ایک سیاسی گروہ بنا لیا ہے جسے ہم لوگ علی بابا چالیس چور کے نام سے جانتے ہیں . الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق یہ لوگ اپنی توپوں کا رخ اسکی طرف کرتے ہیں جو ارتغل غازی جیسے کردار کا پرتو ہو . ٢٢ سالہ جدوجہد کے بعد پاکستانی ٹھگوں کے ہوش ربا کمالات پاکستانی ارتغل غازی کے دور میں والیوم کے والیوم بن کر ایک ایک کر کے سامنے ا رہے ہیں . پنجابی اور سندھی ٹھگوں کی طلسم ہوش ربا ایک جیسی وارداتوں نے دنیا کو جہاں ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے وہاں پنجابی دانشوروں کی آبائی ذہنی مفلسی پر منبی عیار یوں نے عمرو عیار کی کہانیوں کو بھی مات دے دی ہے


اس دور کے ممتاز ادیبوں کو بتا دو
تاریخ میں شاہوں کے ثناء خواںنہ رہیں گے

لعنت الله الا الکاذبین المنافقین
پنجاب کا دانشور اس بات پر مصر نظر اتا ہے کے نواز زرداری کے خلاف تمام کیسز کریمنل نہیں بلکے سیاسی ہیں . یہ اپنے آقاؤں کے لئے فرضی کہانیوں کو بنیاد بنا کر مکڑی کا جال بناتا ہے . ایک مرتبہ تو کہانی نویسی کی کاریگری پر پر انسان دم بخود ہوتا ہے مگر بعد میں ہنس ہنس کر پیٹ میں بل پڑ جاتے ہیں . اس قوم میں ایک پروفیسر ایسا بھی تھا جو اپنے آقا کو گندے لطیفے سنا کر " ویاگرا " خریدتا تھا . ایک وقت تھا کے پنجاب کے اہل علم درویش لکھاریوں کو کوئی خرید نہ سکا . مگر افسوس میری نسل کے حصے میں پنجاب کی وہ صحافتی طوائفیں آئیں جو لوگوں کے اذہان میں شک کے بیج بو کر اپنے عالی شان گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں اور عالیشان محلات میں رہتے ہیں . پنجاب کا صحافتی مافیہ نواز شریف اور عمران خان کی حکومت میں تقابلی جائزہ پیش کر کے عمران خان کو کبھی بھی ناکام ثابت نہیں کر سکتا . یہ لوگ محض در فتنی چھوڑنے میں مہارت رکھتے ہیں . پنجاب کے معروف دانشور صحافت کا الم تو اٹھاتے ہیں مگر عام صحافیوں کی حالت زار اور انکے حقوق کے لئے ہمیشہ غافل رہتے ہیں . معروف صحافی عامر متین صاحب کے مطابق، پنجاب کے چار دہایوں کے تجربہ پر مشتمل ڈنگر صحافیوں کو عوامی مسائل ، زراعت ، معیشیت اور پٹرولیم جیسے موضوعات پر کسی قسم کی کوئی گرفت نہیں ہے. انکی صحافت محض سیاستدانوں کے سیاسی بیانیہ کے باندر کلہ کے ارد گردد گھومتی ہے . اس نے یہ کہا ، اس نے وہ کہا . موصوف بھی صحافت کا الم اٹھائے ہوے ہیں .ایک انہیں پینڈو پروڈکشن کی یاری لے کر بیٹھ گئی . دوسرا انکی برادری کو پروفیشنل اور صاحب کردار صحافی کی ضرورت ہی نہیں ہے . کسی ٹالک شو میں بیٹھے عامر متین صاحب جب ڈھنگ کی بات کرنے لگتے ہیں تو انہیں فوری ٹوک کر انکے مونہ میں وہ بات گھسائی جاتی ہے جسکی رقمیں اینکر کو ملتی ہیں . ممتاز صحافی صرف اور صرف اپنے مالکوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں . پنجاب کے دانشوروں کا بنیادی کام لوگوں کو گمراہ کرنا ہے .جو رہتے ہی عالم گمراہی میں ہیں ، انکا کیا....... وہ تو پیدا ہی موجیں کرنے کے لئے ہیں

شو مئی قسمت، میں نے پاکستان ٹیلی ویژن کا عروج دیکھا ہے . اس وقت کے ادیب اور تخلیق کار دیکھے ، سنے اور پڑھے ہیں جسکا شائبہ میری تحریر میں شائد جھلکتا ہو. آجکل پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز پر پنجابی میڈیا گروپس کا غلبہ ہے . میڈیا گروپس میں " تنوع / ڈ آئیور سیفکشن " نہ ہونے کے برابر ہے . تمام معروف دانشوروں کا تعلق پنجاب سے ہے اور اپنے ڈی این اے کے مطابق مافیہ کو سپورٹ کرتے ہیں . چونکے میں پاکستان ٹیلی ویژن کا اعلی معیار دیکھ چکا ہوں لھذا پنجابی دانشوروں کو کھلے عام ٹالک شوز کے قومی پروگرامز میں پنجابی بولتا دیکھ کر حیران ہو جاتا ہوں . لگتا ہے یہ مافیہ کسی بھی ملکی قانون اور ضابطے کا پابند نہیں ہے . دنیا بھر میں پنجابی صحافی ، صحافی ہونے کے ساتھ کاروباری بھی ہے .

پنجاب کے معروف علمی گھرانے سے تعلق رکھنے والے " ادب کا یزید ،آفتاب اقبال " کو بھی ٹیلی ویژن پراگندہ کرتے دیکھا . دنیا گروپ کے میاں عامر اور اس ادبی یزید نے تھیٹر کے پنجابی بھانڈوں کو قومی ٹیلی ویژن پر لا کر رہی سہی قصر پوری کر دی . یہ سودا اتنا بکا کے دوسروں نے بھی اس بھیڑ چال کو اپنایا . ایک کے بعد دوسرا چینل چینل چھوڑنے کے بعد اس نے اپنا میڈیا گروپ قائم کر لیا مگر چونکے اس کے ڈی این اے میں ڈکیتی پنہا تھی لھذا یہ ادبی اژدہا اپنا چینل خود کھا گیا . اس پروگرام میں معروف لکھاریوں اور تخلیق کاروں کا ٹھٹھا مذاق اڑا کر اپنی ریٹنگ بڑھوائی گئی . چڑھدا پنجاب کے" کپل شرما " شو کرنے والے دونوں ( کپل شرما / نوجوت سنگھ سدھو ) ٹیٹھ پنجابی ہیں مگر انہوں نے ہندی /اردو کو ہی سونی ٹیلی ویژن پر بطور میڈیم اپنایا . یہ شو دنیا بھر میں دیکھا اور پسند کیا گیا تھا . پنجابی ایک شاندار زبان ہے مگر پاکستان قومی ٹیلی ویژن پر اسے بھانڈ وں کے حوالے کر دیا گیا

جسطرح پنجاب کے میراثی سیاستدان ، جرنل ، جج ، افسر اور صحافی بن گئے ہیں وہاں پنجاب کے علماء بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے . کوئی ٹک ٹاک پر مشہور ہے اور کوئی " توہاڈی پین دی سری ، کوئی پھونکوں سے تمام وبائیں ختم کر رہا ہے اور کوئی جنسی درندہ بنا ہوا ہے . پھونکوں والے نے ٹک ٹاک والے کی پھینٹی لگوائی مگر مجال ہے اسکی غیرت جاگ جاتی اور وہ قانون کو اپنا کام مکمل کرنے دیتا

لہندا پنجاب کے ایک فلم پروڈیوسر کو ڈرامہ ارتغل سے اتنا بغض کے اس نے محمد بن قاسم پر ڈرامہ سیریز بنانے کی ٹھانی . اس بیچارے کو ٹھگوں کے قبیلے سے کوئی مقامی ہیرو ہی میسر نہیں ہو سکا . موصوف کو چاہئے وہ " پنجاب کا زوال " کے نام پر ایک فلم بنائیں اور اس میں چڑھدا پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی شخصیت کو بطور ہیرو پیش کریں ، مقامی سیاستدان ، جج ، جنرل ، افسر ، صحافی ، کو بطور غدار ، ولن اور اینٹر ٹینر ڈال لیں . مزاح کے لئے ادبی یزید سے اسکے میراثی مستعار لیں اور مقامی عوام کی مدد سے فلم بندی کریں

بھلا ہو سوشل میڈیا کا جو پنجابی ٹھگی کے زہر کا تریاق ہے . جو قوم لکڑ ہضم ، پتھر ہضم کے عینی شاہد ہیں ، کھا ندا آئے تے لاندا وی آئے فلسفہ کے امین ہیں اور ٣٥ سالہ بے غیرتی ٹرین کے مسافر ہوں . انھیں چاہئے کے میری اس زہریلی قصہ گوئی سے بھڑک کر اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھنے کی بجائے عقل و دانش کے بچے کھچے دانوں پر اکتفا کر کے میری لکھائی کی روح کو سمجھیں . میں زیرو ٹالرنس کے زیر اثر لکھتا ہوں لھذا کیا جج اور کیا جنرل . میرے قلمی شمشیر کے نیچے ہر وہ گردن بلا امتیاز آئے گی جو انسانیت کی دشمن ہو گی

ہر سرجن آپریشن تھیٹر میں انسانی جسم پر نشتر چلاتا ہے تاکے اسکا مریض بے ہوشی کی حالت میں میں تکلیف سہہ کر........ہوش میں ا کر زندہ رہ سکے



پنجاب کے لوگ جاگ چ
لہندا پنجاب کے نسلی اور فصلی ٹھگوں نے پاکستان کو کتنا نقصان پونھچایا ؟

Logo.png


ارتغل غازی کے مکمل دو سیزن دیکھ کر جو اساس سمجھ میں آئی ،اس پر چار مفصل بلاگ لکھوں گا . ایک لکھ چکا ہوں . اسی لڑی کا دوسرا بلاگ حاضر خدمت ہے . اگر کسی موضوع پر کوئی پیٹرن دریافت کر لوں تو میں زیرو ٹالرنس کے تحت دھماکہ دار بلاگ لکھ مارتا ہوں . ایک قوم کی ریشہ دوانیوں ، غداریوں ، طاقت اور ذاتی مفادات کی حوس نے پورے پاکستان کو اپنے اہنی شکنجہ میں جکڑا ہوا ہے. یہ بلاگ پڑھ کر متعلقہ لوگوں کو غصہ تو ضرور آئے گا مگر وہ صرف کھسیانی بلی بن کر کھمبا ہی نوچ سکتے ہیں. قومیت کی بنیاد پر جب اپ تیسرا بلاگ پڑھیں گے تو آپ پنجابی مافیہ کو دل کھول کر گالی دیں گے ( بشرط .....رائی کے ایک دانے کے برابر اپکا ضمیر زندہ ہو )

میری عمر ٥٢ سال ہے . کم سنی اور بلوغت کے اٹھارہ سال نکال دیں تو ٣٤سال بچتے ہیں . ان چونتیس سالوں میں میری نسل کے لوگوں نے لہندا پنجابی کمیونٹی کے کرتا دھرتا کو صرف لوٹ مار ہی کرتا دیکھا ہے . لہندا پنجاب ہی دراصل پاکستان ہے .ظاہر ہے ہر کمیونٹی کا عام آدمی معصوم ہوتا ہے لھذا وہ ہدف تنقید نہیں ہیں . لہندا پنجابی کمیونٹی کا سیاستدان ہو یا افسر ، جج ہو یا جرنل ، ڈاکٹر ہو یا وکیل ، صحافی ہو یا مذہبی عالم ......سب کے سب غضب کی لوٹ مار میں مصروف عمل نظر اتے تھے . یہ لوگ قومی دولت پاکستان سے نکال کر لے جا رہے تھے اور قومی قرضوں کا انبار اپنی قوم پر اکھٹا کر رہے تھے . ہر فرد انجانے میں لاکھوں کا مقروض اور مہنگائی سے قرضوں اور سود کی ادائیگی بھی انجانے میں کرتا ہے . ہوتا یہ آیا ہے کے انکے کھلاڑی بھی اپنے ، امپائر بھی اپنے ،کمینٹٹر بھی اپنے اور تماشائی بھی اپنے . قسمت کی ستم ظریفی یہ ہے انکی لوٹ مار سے پنجاب کا عام ادمی ہی سب سے زیادہ پستا ہے جسے انہوں نے نسلوں سے جاہل رکھ کر ان میں سے انسانی شعور اور سوچ بچار کی رمز ہی نکال دی ہے . عقل نہیں تے موجاں ہی موجاں . یہ لوگ تمام حالات میں آپکو حقیقی طور پر موج ہی کرتے نظر اتے ہیں . اگر انہیں حکومت سو چتھر بھی مارنے شروع کرے تو یہ لوگ چھتروں پر اعتراض نہیں کرتے بلکے مین پاور کی کمی کا رونا روتے ہیں . میں نے اہل قلم کو دیکھا کے وہ مسلسل ٣٥ سالوں سے زیادہ ایک کھوتے کو شیر بنانے پر مصر ہیں اور وہ کھوتا ہر مرتبہ سب کو دلتی مار کر پاکستان سے بھاگ کھڑا ہوتا ہے . پنجابی اہل قلم پھر بھی اپنا حوصلہ نہیں ہارتے کیونکے اسکے دم سے ہی ہے چاپلوس قوم کےلکھاریوں کی ہیں عیاشیاں . یاد رہے کے کتے کی کھال میں شیر پہلے سائیکل تھا مگر پنجاب والے الیکشن کے نشان کو کسی انسان کا پرتو سمجھتے ہیں . یہ جہالت دنیا کے کسی دوسرے خطہ میں نہیں ہوتی . اگر شیر کو جانور کہا جائے تو ناراض ہو جاتے ہیں اور شیر کہا جائے تو خوش ہو کر تالیاں بجاتے ہیں . اصل جانور کون ہے ، انسان ہے یا شیر .. فیصلہ اپ خود کریں . اس قوم کے کرتا دھرتا قائد اعظم کے اقوال کی مکمل زد ہیں اور اس بات کے بھی داعی ہیں کے مسلم لیگ کے حقیقی وارث یہی ہیں . اس قوم کے لوگوں نے " الف سے لے کر ے" تک مسلم لیگ کی شاخیں بنائی ہوئی ہیں مگر انکے ذاتی مفادات سے پاکستان کی بقاء ایسے غائب ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ
صاحب .....اب تو پورا گدھا ہی غائب ہے




ایک پنجابی چودھری مسلم لیگ کا داعی ایسا بھی ہے جو تمام قومی رہزنی پر " مٹی پاؤ " " پالیسی پر کامیابی سے "قے " کر کے نکل جاتا ہے . . پنجاب کے چودھری غریب کا گریبان اور طاقتور کے پیر پڑنے میں ید طولا رکھتے ہیں . گجرات کے سیاسی جادوگر " امب چوپنے اور چو پانے " کی پالیسی پر گزشتہ ٤٠ سالوں سے کمر بند ہیں .. پنجاب کے چودھری پاکستانی جنرلوں کے کونڈوم ہیں . جب بھی کوئی جنرل " جمہوریت " میں وردی سمیت "داخل" ہونا چاہتا ہے تو وہ چودھری مارکہ " کونڈوم پہن" کر با حفاظت داخل ہو جاتا ہے . کونڈوم چوھدریوں کو اتنے مزے اتے ہیں کے وہ پارلیمنٹ میں نعرہ مستانہ لگاتے ہیں . ....ایک نہیں سو مرتبہ .... یہ لوگ نسلی اور فصلی گھرانوں کے امین ہونے پر فخر کرتے ہیں . گزشتہ ٣٥ سالوں سے پنجاب کے دانشور ہمیں گجرات کے چودھریوں کی سیاسی دانست اور بصیرت کی قصیدہ گوئی کرتے نظر اتے ہیں اور کیوں نہ کریں ، آخر انہیں ہر سال فری میں "امب چوپنے " کا موقع جو ملتا ہے . باری لگا کر مل کر کھاؤ ...... اس فلسفہ میں کونسی سیاسی بصیرت اور کہاں کی سیاسی بصیرت ؟
تحریک انصاف میں ایک کونڈوم چودھری بھی مچل رہا ہے کے کسطرح وہ خود ہی چڑھ جائے . دوسری مرتبہ کی حوس قائم ہے . ٹھگ لیگ پنجاب سے بھی متعد چھوٹے چودھری بھی مچل رہے ہیں کب انہیں استعمال کیا جائے . ٢ سال ہو گئے ، انہیں خطرہ ہے کے کونڈوم میں لبریکشن ختم ہو گئی تو وہ کس کام کے رہیں گے ؟

چڑھدا پنجاب سے تعلق رکھنے والے جناب منموہن سنگھ ایک ممتاز معشیت داں اور سیاستدان ہیں . عشروں پر محیط کیریئر میں وہ ریزرو بینک آف انڈیا کے گوورنر ، پلاننگ کمیشن میں ڈپٹی چیئرمین اور منسٹر آف فنانس رہے . منموہن سنگھ لگاتار ١٠ سالوں ( ٢٠٠٤ -٢٠١٤ ) تک انڈیا کے وزیراعظم رہے مگر ایک بھی کرپشن کے کیسز ان پر نہیں بنے . منموہن سنگھ صاحب کی نیٹ ورتھ صرف دس کڑوڑ بتائی جاتی ہے . میری نسل کے لوگوں نے پاکستان میں دیکھا کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے تمام سیاسی لیڈر کے ذاتی اثاثوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا جب یہ لوگ آفس ہولڈر تھے . پوچھنے پر کہتے تھے ، اگر آمدن سے زیادہ اثاثہ ہیں تو تمہیں کیا . ارشد ملک اور جسٹس قیوم جیسے بیشمار پنجابی جج ان مافیہ سے پوچھ کر فیصلے لکھتے . نشان حیدر خاندان کے سپوت جنرل راحیل ڈا ن لیکس کیس ختم کرنے پر خود سے مریم صفدر کو مبارک باد دیتے

پاکستان میں نسلی قومیتی رہزنی نے مجھے کافی رنجیدہ کیا . میں نے پاکستان میں بسنے والی دوسری قوموں کے اخلاقی اور معاشرتی اقدار کا جائزہ لیا . کم و بیش سب میں یہی آفاقی رجحانات نظر آئے . ان چونتیس سالوں میں پنجابی لیڈرشپ نے اقتدار کی ہولی کھیلی اور سب کو ہی اپنے رنگ میں رنگ کر اپنا ہمنوا بنا کر قوالوں کا ایک سیاسی گروہ بنا لیا ہے جسے ہم لوگ علی بابا چالیس چور کے نام سے جانتے ہیں . الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق یہ لوگ اپنی توپوں کا رخ اسکی طرف کرتے ہیں جو ارتغل غازی جیسے کردار کا پرتو ہو . ٢٢ سالہ جدوجہد کے بعد پاکستانی ٹھگوں کے ہوش ربا کمالات پاکستانی ارتغل غازی کے دور میں والیوم کے والیوم بن کر ایک ایک کر کے سامنے ا رہے ہیں . پنجابی اور سندھی ٹھگوں کی طلسم ہوش ربا ایک جیسی وارداتوں نے دنیا کو جہاں ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے وہاں پنجابی دانشوروں کی آبائی ذہنی مفلسی پر منبی عیار یوں نے عمرو عیار کی کہانیوں کو بھی مات دے دی ہے


اس دور کے ممتاز ادیبوں کو بتا دو
تاریخ میں شاہوں کے ثناء خواںنہ رہیں گے

لعنت الله الا الکاذبین المنافقین
پنجاب کا دانشور اس بات پر مصر نظر اتا ہے کے نواز زرداری کے خلاف تمام کیسز کریمنل نہیں بلکے سیاسی ہیں . یہ اپنے آقاؤں کے لئے فرضی کہانیوں کو بنیاد بنا کر مکڑی کا جال بناتا ہے . ایک مرتبہ تو کہانی نویسی کی کاریگری پر پر انسان دم بخود ہوتا ہے مگر بعد میں ہنس ہنس کر پیٹ میں بل پڑ جاتے ہیں . اس قوم میں ایک پروفیسر ایسا بھی تھا جو اپنے آقا کو گندے لطیفے سنا کر " ویاگرا " خریدتا تھا . ایک وقت تھا کے پنجاب کے اہل علم درویش لکھاریوں کو کوئی خرید نہ سکا . مگر افسوس میری نسل کے حصے میں پنجاب کی وہ صحافتی طوائفیں آئیں جو لوگوں کے اذہان میں شک کے بیج بو کر اپنے عالی شان گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں اور عالیشان محلات میں رہتے ہیں . پنجاب کا صحافتی مافیہ نواز شریف اور عمران خان کی حکومت میں تقابلی جائزہ پیش کر کے عمران خان کو کبھی بھی ناکام ثابت نہیں کر سکتا . یہ لوگ محض در فتنی چھوڑنے میں مہارت رکھتے ہیں . پنجاب کے معروف دانشور صحافت کا الم تو اٹھاتے ہیں مگر عام صحافیوں کی حالت زار اور انکے حقوق کے لئے ہمیشہ غافل رہتے ہیں . معروف صحافی عامر متین صاحب کے مطابق، پنجاب کے چار دہایوں کے تجربہ پر مشتمل ڈنگر صحافیوں کو عوامی مسائل ، زراعت ، معیشیت اور پٹرولیم جیسے موضوعات پر کسی قسم کی کوئی گرفت نہیں ہے. انکی صحافت محض سیاستدانوں کے سیاسی بیانیہ کے باندر کلہ کے ارد گردد گھومتی ہے . اس نے یہ کہا ، اس نے وہ کہا . موصوف بھی صحافت کا الم اٹھائے ہوے ہیں .ایک انہیں پینڈو پروڈکشن کی یاری لے کر بیٹھ گئی . دوسرا انکی برادری کو پروفیشنل اور صاحب کردار صحافی کی ضرورت ہی نہیں ہے . کسی ٹالک شو میں بیٹھے عامر متین صاحب جب ڈھنگ کی بات کرنے لگتے ہیں تو انہیں فوری ٹوک کر انکے مونہ میں وہ بات گھسائی جاتی ہے جسکی رقمیں اینکر کو ملتی ہیں . ممتاز صحافی صرف اور صرف اپنے مالکوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں . پنجاب کے دانشوروں کا بنیادی کام لوگوں کو گمراہ کرنا ہے .جو رہتے ہی عالم گمراہی میں ہیں ، انکا کیا....... وہ تو پیدا ہی موجیں کرنے کے لئے ہیں

شو مئی قسمت، میں نے پاکستان ٹیلی ویژن کا عروج دیکھا ہے . اس وقت کے ادیب اور تخلیق کار دیکھے ، سنے اور پڑھے ہیں جسکا شائبہ میری تحریر میں شائد جھلکتا ہو. آجکل پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز پر پنجابی میڈیا گروپس کا غلبہ ہے . میڈیا گروپس میں " تنوع / ڈ آئیور سیفکشن " نہ ہونے کے برابر ہے . تمام معروف دانشوروں کا تعلق پنجاب سے ہے اور اپنے ڈی این اے کے مطابق مافیہ کو سپورٹ کرتے ہیں . چونکے میں پاکستان ٹیلی ویژن کا اعلی معیار دیکھ چکا ہوں لھذا پنجابی دانشوروں کو کھلے عام ٹالک شوز کے قومی پروگرامز میں پنجابی بولتا دیکھ کر حیران ہو جاتا ہوں . لگتا ہے یہ مافیہ کسی بھی ملکی قانون اور ضابطے کا پابند نہیں ہے . دنیا بھر میں پنجابی صحافی ، صحافی ہونے کے ساتھ کاروباری بھی ہے .

پنجاب کے معروف علمی گھرانے سے تعلق رکھنے والے " ادب کا یزید ،آفتاب اقبال " کو بھی ٹیلی ویژن پراگندہ کرتے دیکھا . دنیا گروپ کے میاں عامر اور اس ادبی یزید نے تھیٹر کے پنجابی بھانڈوں کو قومی ٹیلی ویژن پر لا کر رہی سہی قصر پوری کر دی . یہ سودا اتنا بکا کے دوسروں نے بھی اس بھیڑ چال کو اپنایا . ایک کے بعد دوسرا چینل چینل چھوڑنے کے بعد اس نے اپنا میڈیا گروپ قائم کر لیا مگر چونکے اس کے ڈی این اے میں ڈکیتی پنہا تھی لھذا یہ ادبی اژدہا اپنا چینل خود کھا گیا . اس پروگرام میں معروف لکھاریوں اور تخلیق کاروں کا ٹھٹھا مذاق اڑا کر اپنی ریٹنگ بڑھوائی گئی . چڑھدا پنجاب کے" کپل شرما " شو کرنے والے دونوں ( کپل شرما / نوجوت سنگھ سدھو ) ٹیٹھ پنجابی ہیں مگر انہوں نے ہندی /اردو کو ہی سونی ٹیلی ویژن پر بطور میڈیم اپنایا . یہ شو دنیا بھر میں دیکھا اور پسند کیا گیا تھا . پنجابی ایک شاندار زبان ہے مگر پاکستان قومی ٹیلی ویژن پر اسے بھانڈ وں کے حوالے کر دیا گیا

جسطرح پنجاب کے میراثی سیاستدان ، جرنل ، جج ، افسر اور صحافی بن گئے ہیں وہاں پنجاب کے علماء بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے . کوئی ٹک ٹاک پر مشہور ہے اور کوئی " توہاڈی پین دی سری ، کوئی پھونکوں سے تمام وبائیں ختم کر رہا ہے اور کوئی جنسی درندہ بنا ہوا ہے . پھونکوں والے نے ٹک ٹاک والے کی پھینٹی لگوائی مگر مجال ہے اسکی غیرت جاگ جاتی اور وہ قانون کو اپنا کام مکمل کرنے دیتا

لہندا پنجاب کے ایک فلم پروڈیوسر کو ڈرامہ ارتغل سے اتنا بغض کے اس نے محمد بن قاسم پر ڈرامہ سیریز بنانے کی ٹھانی . اس بیچارے کو ٹھگوں کے قبیلے سے کوئی مقامی ہیرو ہی میسر نہیں ہو سکا . موصوف کو چاہئے وہ " پنجاب کا زوال " کے نام پر ایک فلم بنائیں اور اس میں چڑھدا پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی شخصیت کو بطور ہیرو پیش کریں ، مقامی سیاستدان ، جج ، جنرل ، افسر ، صحافی ، کو بطور غدار ، ولن اور اینٹر ٹینر ڈال لیں . مزاح کے لئے ادبی یزید سے اسکے میراثی مستعار لیں اور مقامی عوام کی مدد سے فلم بندی کریں

بھلا ہو سوشل میڈیا کا جو پنجابی ٹھگی کے زہر کا تریاق ہے . جو قوم لکڑ ہضم ، پتھر ہضم کے عینی شاہد ہیں ، کھا ندا آئے تے لاندا وی آئے فلسفہ کے امین ہیں اور ٣٥ سالہ بے غیرتی ٹرین کے مسافر ہوں . انھیں چاہئے کے میری اس زہریلی قصہ گوئی سے بھڑک کر اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھنے کی بجائے عقل و دانش کے بچے کھچے دانوں پر اکتفا کر کے میری لکھائی کی روح کو سمجھیں . میں زیرو ٹالرنس کے زیر اثر لکھتا ہوں لھذا کیا جج اور کیا جنرل . میرے قلمی شمشیر کے نیچے ہر وہ گردن بلا امتیاز آئے گی جو انسانیت کی دشمن ہو گی

ہر سرجن آپریشن تھیٹر میں انسانی جسم پر نشتر چلاتا ہے تاکے اسکا مریض بے ہوشی کی حالت میں میں تکلیف سہہ کر........ہوش میں ا کر زندہ رہ سکے



آپ کی تحریر سے کیسی کو انکار نہیں ھے لیکن میں یہ کہوں گا کہ پاکستان کی باشعور عوام کی تعداد بڑھ چکی ھے اور کراچی سے پیشاور تک عوام نے اپنے آپ کو تبدیل کر لیا ھے یقیناً اس میں ایک بڑا حصہ پنجاب یوتھ کا بھی ھے اور اب آمید سب پاکستان سے یوتھ کو شیر اور کھوتے میں فرق معلوم ہوگیا ھے ایسی طرح جعلی بھٹو اور اسلام کی نام نہاد جماعتیں اور لسانی گروہ پارٹیوں صوبائیت پرستی کے نعرے اور مذہب کی آڑ میں بیٹھے ذاتی مفادات کے لیڈران اور ملک دشمنوں کے ایجنڈوں پر کام کرنے والوں کا علم ہوگیا ھے اور سب سے بڑھ کر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ آئیندہ نواز شریف اور زارداری الطاف حسین مہاجر کارڈز سندھی کارڈز بلوچی کاردڈز پنجابی کارڈز پشتون کارڈز اور کوئی مذہبی فرقہ پرستی اور قومیت پرستی کی سیاست کو کبھی چلنے نہیں دے گی۔
 

Haideriam

Senator (1k+ posts)

حیدر! بلاشبہ یہ تحریر اس معیار کی ہے کہ اسے فریم کر کے پاکستان کی بڑی صحافتی طوائفوں کے کوٹھوں، میرا مطلب ہے ان کے دفتروں میں لٹکایا جانا چاہئیے
عام عوام کی بہترین ترجمانی کی ہے


???

بہت ہی بڑی فلم ہے تو ویسے
???