ق لیگ کی حمایت کے بعد حکومت کا پلڑابھاری، حسن نثار کا تجزیہ

hsnasi1i1i1.jpg

سینئر تجزیہ کارحسن نثار نے کہا کہ اس وقت ملک میں جو صورتحال چل رہی ہے یہ کوئی جمہوریت نہیں ہے، یہ بہت ہی 'بیہودہ' ہے، اور یہ آج کا نہیں بلکہ پچھلے 40سال سے ایسا ہی چل رہا ہے، سب ایک کھیل ہے، ایک پتلی تماشہ ہے، سیاستدانوں کی ضمیر فروشی جاری ہے۔

تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام 'رپورٹ کارڈ' میں پنجاب میں حالیہ پیشرفت کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں کوئی جمہوریت نہیں ہے، معذرت کے ساتھ یہ سب 'ولگر' ہے، جوڑ توڑ، لینا دینا، خرید و فروخت، ضمیر بیچے جارہے ہیں، سب چل رہا ہے، پچھلے 40 سالوں سے یہی کچھ چلتا آرہا ہے، وہی پرانے چہرے وہی پرانے لوگ ہیں، بڑی بڑی باتیں سوچیں انتہائی چھوٹی۔

تجزیہ کار حسن نثار کا مزید کہنا تھا کہ میرے لئے یہ سب ایک کھیل ہے، ایک پتلی تماشہ ہے، جس دن سے رولا شروع ہوا ہے میں نے لاتعلقی اختیار کر لی ہے، مجھے کراہیت آتی ہے، گھن آتی ہے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے، 74 سال گزر گئے یہ ملک کہا ہے اور یہ لوگ کہاں کھڑے ہیں، کیا کررہے ہیں، کیا پیچ رہے ہیں ملک کے وسیع تر مفاد کے نام پر۔

اینکر علینا فاروق شیخ کی جانب سے سوال کیا گیا کہ پنجاب میں ہونے والی بڑی پیشرفت کے بعد کس کا پلڑا بھاری ہے، حکومت کا یا اپوزیشن کا، پنجاب میں ہونے والی پیشرفت کو کس طرح دیکھتے ہیں، اس سے قبل چوہدری پرویز الہی کی جانب سے ایک انٹرویو میں سخت ریمارکس بھی آئے تھے

اس کے جواب میں حسن نثار کا کہنا تھا کہ پلڑے تو دکاندار دیکھتا ہے کہ ہلکا ہے یا بھاری ہے، موجودہ سیاسی صورتحال کو ایکشن تھرلر فلم کے ساتھ مشابہت دیتے ہوئے کہا کہ ایکشن، تھرلر اور انٹرٹینمنٹ سے بھر پور ہفتے کے بعد اب صورتحال کچھ اپنے منطقی انجام کی طرف جارہی ہے، یہی ہمارا مقدر ہے، ہماری روشن روایات کے مطابق فلم سپر ہٹ اور عوام مسلسل سپر فلاپ ہو رہی ہے، لیکن پھر بھی ہم وہ لوگ ہیں، جو بازی گروں کو مسیحا، رہنما، لیڈر اور قائدسمجھتے ہیں، لیکن بہرحال جو بھی ہوا اس پر مجھے افسوس ہے، میں عثمان بزدار جیسے شاہکار کو بہت مس کروں گا، یہ پنجاب کی تاریخ کا بہت روشن باب تھا ۔

دوسری جانب حسن نثار کے اس سخت تجزیے پر تجزیہ کار ریما عمر کا کہنا تھا کہ یہی حسن نثار تھے جو مسلم لیگ ق کی تعریف کرتے تھے، انہیں چاہیئے کہ امید کو بھی زندہ رکھیں اور دیکھیں کہ آگے کیا ہونے جارہا ہے، یہ سب جانتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کیسے حکومت میں آئے، اس کا ایسا انجام تو ہونا ہی تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اب اسی بات کو دیکھ لیں کہ جیسی باتیں پرویز الہی نے عمران خان کو کہیں تھیں اس کے باوجود بھی انہوں نے ق لیگ کے سربراہ کو پنجاب کا وزیراعلی بنانے کا مطالبہ پورا کرنے کی حامی بھری، اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان صاحب کے جو اصول تھے جن کی ہر شخص داد دیتا تھا وہ کہاں گئے اگر ان کو صرف طاقت ہی چاہیئے تو وہ باقی سیاستدانوں سے کس طرح مختلف ہیں۔

ریماعمر کا کہنا تھا کہ کیسے یہ معیار تبدیل ہو جاتا ہے جب وہ اپنے آپ کو اقتدار میں رکھنے کے لئے اپنے اصولوں کو پس پشت ڈال کر ایسے سمجھوتے کررہے ہیں، جس ولگیریٹی کی حسن نثار صاحب بات کررہے تھے کیا وہ انہیں مسلم لیگ ق میں نظر نہیں آتی، معیار تو ایک جیسے رکھیں۔

ریماعمر کے ریمارکس پر ان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے حسن نثار نے کہا کہ انہوں نے ولگر والی بات میکرو لیول پر کی تھی، بھٹو کیسے اقتدار میں آیا تھا، یہ تو آپ کی پیدائش سے پہلے کا چل رہا ہے، سیاست کا یہ طریق کار تو آغاز سے ہی ایسا ہے۔
 

Back
Top