قاضی حسین احمد کے لئے اورنگزیب عالمگیر کا &#16

moazzamniaz

Chief Minister (5k+ posts)
قاضی حسین احمد کے لئے اورنگزیب عالمگیر کا پیغام

Published on 29. Jul, 2011
رؤف کلاسرا




قاضی حسین احمد کے اسلام آباد میں واقع گھر پر ملک کے موجودہ مسائل کا حل ڈھونڈنے کے نام پر ہونے والے دانشوروں اور فوجی مبصرین کے اجتماع کی خبریں پڑھ کر مجھے 2003ء کا ایک دن یاد آگیا جب قومی اسمبلی میں پہلے قاضی صاحب نے ایک دھواں دھار تقریر کی اور کرپشن کے خلاف گرجتے برستے رہے۔ قاضی صاحب نے جوش و خطابت میں جنرل مشرف کے کورکمانڈروں کو کروڑ کمانڈر کا خطاب بھی دے دیا جس سے اُن کی مراد یہ تھی کہ آرمی کمانڈرز جنرل مشرف سے پیسے لے کر اُس کا اقتدار میں ساتھ دے رہے تھے۔

اُس وقت کی فوجی قیادت پر شدید تنقید کر کے وہ ابھی بیٹھے ہی تھے کہ اُس وقت کے وفاقی وزیر مرحوم عبدالستار لالیکا کھڑے ہو گئے۔ لالیکا صاحب بہت کم جذباتی ہو کر تقریر کرتے تھے لیکن اُس دن انہوں نے قاضی صاحب کو صرف اتنا کہا کہ دوسروں پر اس طرح کے حملے کرنے سے پہلے وہ اپنے گریبان میں جھانک لیں کہ انہوں نے کیسے کشمیر میں اپنی جماعت کے ذریعے بندے بھرتی کر کے لڑنے کے لئے بھیجنے کے عوض نقد 5 کروڑ روپے لئے تھے۔ لالیکا نے کہا کہ پہلے بہتر ہو گا کہ اُن کروڑوں روپے کا آڈٹ کر لیا جائے جو وہ پاکستانی عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اور کسی سے نہیں نوازشریف سے لے کر گئے تھے۔ میرا خیال تھا کہ قاضی حسین احمد کھڑے ہو کر کروڑوں روپے لینے کی بات سے فوراً انکار کریں گے لیکن اتنی شرافت قاضی صاحب میں ضرور تھی کہ اگر پیسے لئے تھے تو بہت سارے روایتی سیاستدانوں کی طرح جھوٹ بولنے یا مُکرنے کی ہمت نہیں ہوئی اور چپ کر کے لالیکا کے حملے کو برداشت کر گئے۔ یا شاید سمجھدار تھے کہ اگر انہوں نے آگے سے کوئی اور بات کی تو لالیکا صاحب جنہیں پاکستان آرمی کا بچہ جمہورا سمجھا جاتا تھا اُن کے خلاف مزید ثبوت لے آئیں گے اور پھر بات نکلے گی تو دُور تک جائے گی لہٰذا بہتر سمجھا کہ بات وہیں دب جائے تو بہتر ہے اور پھر وہ بات واقعی ہی وہیں دب گئی اور آج کسی کو یاد تک نہ ہو کہ قاضی حسین احمد پر بھی اس بات کا الزام ہے کہ انہوں نے کشمیر کے نام پر 5 کروڑ روپے نقد وصول کئے تھے۔

سن دو ہزار تین کا ایک اور دن بھی مجھے یاد آتا ہے جب اسی قومی اسمبلی میں قاضی حسین احمد ایک دفعہ پھر کھڑے ہوئے اور انہوں نے جنرل مشرف اور ان کے لیگل فریم ورک آرڈر کے خلاف ایک لمبی تقریر کی۔ جب انہیں احساس ہوا کہ اس کے باوجود بھی اسمبلی میں بیٹھا ہوا مجمع اور پریس گیلری میں اُکتائے ہوئے صحافی اُن کی تقریر کے نوٹس نہیں لے رہے تھے اور کل صبح شاید اخبار میں کوئی خبر نہ بن سکے تو جوش و خطابت میں یہ دعویٰ کر دیا کہ اگر اس ایوان نے جنرل مشرف کے لیگل فریم ورک آرڈر کی منظوری دی تو وہ قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیں گے۔

ایک لمحے کے لئے تو پورے ایوان میں سناٹا چھا گیا۔ قاضی صاحب بھی یہی چاہتے تھے۔اگلے دن کے تمام اخبارات میں سُرخیاں چھپیں۔
اور اسی آسمان نے پھر یہ بھی منظر دیکھا کہ وہی قاضی صاحب چند ماہ بعد فاروق لغاری کے پیچھے ایک قطار میں سر جھکائے اُس جنرل مشرف کے لیگل فریم ورک آرڈر کو پارلیمنٹ سے پاس کرانے کے لئے ووٹ ڈال رہے تھے۔ اس آرڈر کے تحت جنرل مشرف وردی کے ساتھ اس ملک پر حکمرانی کر سکتے تھے اور 12 اکتوبر 1999ء سے لیکر 2002ء تک انہوں نے پاکستان میں مارشل لاء لگانے سے لے کر افغانستان میں حملے کے لئے امریکی افواج کو دیئے گئے اڈوں اور سہولتوں کے فیصلے کو بھی قانونی شکل دے دی گئی۔ وہ طالبان جن کے خون کا نعرہ مار کر ایم ایم اے اقتدار میں آئی تھی اُسی نے ہی اُن کے خون کا وہاں سودا کیا اور جنرل مشرف کے اقتدار کو نہ صرف دوام بخشا بلکہ اُن کے طالبان سے متعلقہ تمام فیصلوں کو بھی من و عن تسلیم کیا۔ قاضی صاحب نے استعفیٰ تو دیا لیکن دو برس بعد جب پارلیمنٹ میں یہ قانون لایا گیا کہ حدود آرڈیننس میں کوئی تبدیلیاں کی جائیں تاکہ بے گناہ عورتیں پولیس کے ظلم کا شکار نہ ہوں اور ساتھ میں اکبر بگٹی کی ہلاکت کو بھی بہانہ بنایا گیا۔ اُن سے کسی نے نہ پوچھا کہ قاضی صاحب آپ نے تو ایل ایف او منظور ہونے کی شکل میں پارلیمنٹ سے استعفیٰ دینے کا دعویٰ کیا تھا تو پھر آپ نے ہی اُس کے حق میں ووٹ ڈالا۔

ایس ایم ظفر نے بعد میں اپنی کتاب ڈائیلاگ میں یہ انکشاف کیا کہ کیسے قاضی حسین احمد، فضل الرحمن، لیاقت بلوچ اور دیگر ایم ایم اے لیڈروں نے قومی اسمبلی کے اندر ایل ایف او جنرل مشرف کے خلاف آسمان سر پر اُٹھایا تھا اور رات کے وقت لیاقت بلوچ اپنے ایک دو ساتھیوں کے ساتھ آئی ایس آئی کے سیف ہاؤس میں ڈیل کرنے کے لئے خفیہ ملاقاتیں کرتے تھے۔ انہی خفیہ ملاقاتوں میں ہی ایم ایم اے نے طالبان کا خون بیچا اور کچھ قیمتیں مانگی۔ کچھ سیاسی اور کچھ مالی قیمت ادا کر دی گئی اور یوں جنرل مشرف کا اقتدار حرام سے حلال ہو گیا۔ آئی ایس آئی کے ڈپٹی ڈی جی جنرل ذکی یہ مذاکرات کر رہے تھے۔ ایم ایم اے نے صوبہ سرحد میں اپنی حکومت بلوچستان میں اقتدار میں شراکت، اور قومی اسمبلی میں اپنا اپوزیشن لیڈر بنوا لیا۔ یہ تفصیلات کبھی سامنے آئیں گی کہ اس ڈیل میں مال کتنا کھایا گیا کیونکہ مولانا فضل الرحمن نے تو اپنے صوبے میں کئی مربے سرکاری زمین آلاٹ کرا لی تھی۔ کچھ عرصے بعد میں ایک انکشاف ہوا کہ ایم ایم اے کو بے وقوف بنایا گیا تھا اور لیاقت بلوچ نے مجھے خود بتایا تھا کہ انہوں نے جنرل ذکی کو خط لکھا ہے جس میں اُن سے اس بات پر احتجاج کیا گیا تھا کہ انہیں ان کے ساتھ کئے گئے خفیہ وعدے پورے نہیں کئے گئے تھے۔ لیاقت بلوچ اتنے سمجھدار ضرور تھے کہ یہ خط انہوں نے ایل ایف او پارلیمنٹ سے پاس کرانے کے بعد لکھا تاکہ اپنی معصومیت کا یقین دلایا جاسکے۔ میں نے ہنستے ہوئے لیاقت بلوچ کو سرائیکی میں کہا تھا کہ سائیں اتنے بھولے آپ بھی نہیں ہیں۔ لیاقت بلوچ اپنی روایتی مٹھاس کے ساتھ مسکرا پڑے تھے۔

آج وہی قاضی حسین احمد اور ان کے پسندیدہ آرمی جرنیل اور دانشور ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ ملک خطرے میں ہے اور اس کا واحد حل یہ تھا کہ فوج عدلیہ کے ساتھ مل کر ملک کے موجودہ حکمرانوں کی چھٹی کرا دے اور نئے انتخابات میں اُن جیسے صاف شفاف کردار کے لوگوں کو اُسی طرح اقتدار میں لایا جائے جیسے 2002ء کے انتخابات کے بعد ایم ایم اے کو لایا گیا تھا۔ ایم ایم اے کو اقتدار میں لانے کی اس ملک اور قوم نے بہت بڑی قیمت ادا کی ہے۔ ایم ایم اے کے دور میں صوبہ سرحد میں شدت پسندوں اور طالبان کے لئے تمام پولیس چوکیوں کے گیٹ کھول دیئے گئے وہ جو چاہے اسلحہ جہاں سے لائیں جدھر لے جائیں اُن کو کوئی روک ٹوک نہیں تھی اور اس کا نتیجہ ہم نے سوات اور مالاکنڈ میں بھگتا۔ جمہوریت کے نام پر دہشت گردی اور قاتلوں کو کھلی چھٹی دی گئی اور یوں اسلام کا نام ایک خوف کی علامت بنا ناکہ محبت اور پیار کی جو کہ اس کی اصل روح ہے۔ اگر کبھی قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمن اکیلے بیٹھ کر اپنے گریبان میں جھانکیں تو اُنہیں احساس ہو گا کہ صوبہ سرحد میں بہنے والا خون اُن کی گردنوں پر ہے۔
آج وہی قاضی صاحب ہمیں پھر بتا رہے ہیں کہ ملک خطرے میں ہے اور فوج کو عدلیہ کے ساتھ مل کر اپنا رول ادا کرنا چاہیے۔ قاضی صاحب کو یہ احساس تھا کہ اُن کے گھر پر ہونے والے اجتماع کی خبر اُس وقت تک نہیں بنے گی جب تک اُن کے پرانے محسن اور مربی جناب عزت مآب اسلم بیگ صاحب وہاں جلوہ فیروز نہیں ہوں گے، جو کسی دور میں نوازشریف سے لے کر مصطفی جتوئی، پیرپگاڑا، عابدہ حسین جیسے لوگوں میں جنرل اسد درانی اور جنرل حمید گل کے ذریعے کروڑوں روپے تقسیم کراتے تھے تاکہ پیپلزپارٹی کو ہرایا جاسکے۔ جنرل بیگ نے بھی قاضی حسین احمد کو مایوس نہیں کیا اور اپنے روایتی انداز میں دو چار بونگیاں ماریں جن کی وجہ سے وہ جانے جاتے ہیں۔ اور یوں اگلے دن خبر بن گئی جس کے لئے قاضی حسین احمد نے اتنی محنت کی تھی۔

قاضی حسین احمد کو اپنے گھر کے بڑے ڈرائنگ روم میں اس طرح کے دربار لگانے کا شوق بڑا پرانا ہے۔ بڑا عرصہ ہوا میں بھی اس دربار میں ایک دفعہ حاضر ہوا تھا۔ تاہم قاضی صاحب کو اس وقت بڑی مایوسی ہوئی جب اسلام آباد کے دو بڑے ٹی وی اینکرز اُن کا خطاب سننے کی بجائے آپس میں لڑ پڑے اور عورتوں کی طرح ایک دوسرے کو طعنے دینے لگ گئے۔ جب ایک دوسرے کو طعنے دے کر تھکے تو پھر اپنے مالکان تک پہنچے۔ قاضی صاحب کو یہ سارا کھیل بگڑتا ہوا محسوس ہوا تو مداخلت کر کے اپنی بات پر لوٹ آئے۔
قاضی صاحب کے گھر سجنے والے اس دربار سے مجھے مغل حکمران اورنگزیب کا قیدخانے میں قید اپنے باپ شاہ جہاں کو بھیجا گیا ایک جواب یاد آتا ہے۔
شاہ جہاں نے اپنے سپوت کو ایک پیغام بھیجا تھا کہ برخودار قیدخانے میں تنہائی بڑی کاٹتی ہے۔ سارا دن بیکار رہتا ہوں۔ تم ایسے کرو اپنے بچوں کو روزانہ میرے پاس بھیج دیا کرو۔ میں انہیں آداب سلطنت سکھاؤں گا۔
اورنگزیب یہ پیغام سن کر مسکرا پڑا تھا اور آگے جھک کر اس نے اُس پیغام رساں کے کان میں یہ سرگوشی کی تھی کہ جاکر میرے بابا جانی کو کہو کہ قیدخانے میں بھی ان کی انسانوں پر حکومت کرنے کی عادت ابھی تک نہیں گئی تھی۔

نہ میں اورنگزیب ہوں اور نہ قاضی صاحب شاہ جہاں لیکن اس دور میں کم از کم اور کچھ نہیں ایک پیغام رساں تو ضرور ڈھونڈا جاسکتا ہے جو قاضی صاحب کے کان میں جاکر یہی صدیوں پرانا پیغام پھونکے جو اورنگزیب نے قیدخانے میں اپنے ہاتھ سے قتل ہونے والے اپنے بھائی اور اپنے باپ کے لاڈلے بیٹے دارالشکوہ کے لئے رات کی تاریکیوں میں ماتم کرتے اس بوڑھے حکمران کے لئے بھیجا تھا کہ ابا حضور اقتدار چلا گیا تھا لیکن قیدخانے میں بھی آپ کے اندر سے اقتدار اور حکمرانی کی ہوس ختم نہیں ہوئی تھی
 

moazzamniaz

Chief Minister (5k+ posts)
Re: قاضی حسین احمد کے لئے اورنگزیب عالمگیر کا

06_08.gif
لچ تل پارٹی
 
Last edited: