کیا صرف منظم جرم ہی قابل سزا ہے
میں قانون کا طالبعلم نہیں ہوں، لیکن جانتا ہوں کہ قانون اندھا ہوتا ہے، لیکن کیا کوئی اندھا جج بھی بن سکتا ہے، قانون کی کتب میں صراحت کے ساتھ کچھ درج نہیں ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جج اس طرح فیصلہ کرنے لگیں کہ لوگ چلا اٹھیں کہ کیا اندھے ہوگئے ہو۔
جمہوریت کی راگنی گانے والے جانتے ہیں کہ بغیر منصفانہ الیکشن کے، دھونس و دھاندلی والا ایکشن میں جمہوریت ایک خام خیال ہے۔ لیکن ہمارا ج کیشن کہتا ہے، کہ غیر منظم دھاندلی والا الیکشن چلے گا۔ اب سنئے غیر منظم دھاندلی والا ایکشن کیا ہو تا ہے۔
ایکسٹرا بیلٹ پیپر مخصوص حلقوں بھیجے گئے، اسکا مطلب ہوا غیر منظم دھاندلی،
تقریبا7000 پولنگ بیگ بغیر سیل کے تھے، اسکا مطلب ہوا غیر منظم دھاندلی،
تقریبا 700 پولنگ بیگ لا پتہ تھے، اسکا مطلب ہوا غیر منظم دھاندلی،
فارم پندرہ موجود نہیں تھے، اسکا مطلب ہوا غیر منظم دھاندلی0،
ڈھائی کروڑ بیلٹ پیپر جعلی تھے، اسکا مطلب ہوا غیر منظم دھاندلی،
پنجاب کی پاور بیس ماڈل ٹاؤن منتقل ہوگئی، اسکا مطلب ہوا غیر منظم دھاندلی
بلوچستان میں چیف سیکریٹری الیکشن کروارہا تھا، اسکا مطلب ہوا غیر منظم دھاندلی،
اسکا مطلب ہوا غیر منظم دھاندلی، اسکا مطلب ہوا غیر منظم دھاندلی، اسکا مطلب ہوا غیر منظم دھاندلی، یہ صدائیں اس قوم کا پیچھا کرتی رہیں گی، یہ فیصلہ ایک نظیر بن جائے گا بالکل اسی طرح جیسے جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت والا فیصلہ،۔۔۔
عدالت نے اپنی تاریخ نہیں بدلی ہے۔ برسر اقتدار کے خلاف بے لاگ فیصلہ کرنے سے معذوری۔
کمیشن کا فیصلہ نافذ ہو چکا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ ایک طوفان بدتمیزی اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ مزید بات کی طوالت سے گریز اختیارکرتے ہوئے ہم اس فیصلہ کی گہرائی اور دور رس اثرات پربحث نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ غیر منظم دھاندلی کے نظریہ کے متعلق شکوک وشبہات اورحقائق کاچند لفظوں میں تجزیہ کرتے ہیں۔ اس کاسکرپٹ لکھنے والاکون ہے اسکاتو نہیں پتالیکن اس ضمن میں ایک اللہ والے کی زبانی سنے جانے والاواقعہ میرے ذہن میں کلبلارہاہے۔
اس سے پہلے کے صحراکی تیزہواٹیلوں کوذروں میں بدلے واقعہ عرض کرتاچلوں۔ہندوستان کا ایک بادشاہ کسی آستانے کا گرویدہ تھا۔اُس نے اپنے اعلی حضرت کے ہاں گزارش کی کہ جناب والا میں آپ کامرید ہوں اور اس ملک کابادشاہ ہوں ۔آپ حکم کیجئے کہ آپ کیلئے آسانیاں پیداکردوں۔اللہ والے دنیاجہان کی آسائش سے بے نیاز ہونے کےساتھ ساتھ علم و حکمت کے خزانے ہوتے ہیں۔فرمایا:”مجھے اور تو کوئی مسئلہ نہیں البتہ یہ مکھیاں تنگ کرتی ہیں انہیں منع کردو “۔بادشاہ ہکابکارہ گیاکہ اب کیاجواب دے۔بالاآخر لب کھولے اور عرض کیا حضرت صاحب مکھیوں پر تو میرااختیارنہیں۔ علم وحکمت کے خزانے نے جواب دیا”جب خداکی ادنی سی مخلوق پرتمہاراحکم نہیں چلتاتو پھرتم ہمیں کیاراحت بخش سکتے ہو‘ہمارے لیئے اللہ ہی کافی ہے“۔اس روایت سے یہ نتیجہ اخذ ہوتاہے کہ انسان کااختیار لامحدود ہونے کے باوجود کس قدرمحدود ہے۔اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس کے بعد وہ مختیارکل بن جائے گی تو یہ توناممکن ہے-
یا اللہ تو دیکھ رہا ہے، یہ لوگ بے خوف ہوگئے ہیں، اس بات سے، کہ انھیں ایکدن تیرے حضور حاضر ہونا ہے، انھیں اگر خوف ہےتو ریٹائرمنٹ کے بعد کی لائف کا۔