نیب میں سابق وزیراعظم نوازشریف اور لیگی رہنمائوں کے کیسز ختم کرنے کے اشارے مل رہے ہیں: سینئر صحافی
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی وتجزیہ نگار اعزاز سید کا کہنا تھا کہ جب تک اقتدار میں غلط لوگ ہوتے ہیں تو سیاسی درجہ حرارت کیسے کم ہو سکتا ہے؟
چیئرمین پی ٹی آئی کے جیل میں ہونے کی وجہ سے 2006ء کے بعد حالیہ سیاست میں گالم گلوچ کا جو کلچر متعارف کروایا گیا تھا اس کا اور سیاست میں نفرتوں کا خاتمہ ہوا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے دو رہنما علی محمد خان اور اسد قیصر کی مولانافضل الرحمن سے ملاقات ہوئی ہے۔
ماضی میں بھی شاہ محمود قریشی ، اسد قیصر، پرویز خٹک ودیگر تحریک انصاف کے رہنما اپوزیشن کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے لیکن اس وقت مسئلہ صرف عمران خان تھے۔ گزشتہ برس فروری، مارچ میں عمران خان کے خلاف جب تحریک عدم اعتماد اپنے عروج پر تھی تو اس وقت پی ٹی آئی کا پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ رابطہ ہوا تھا جس میں عمران خان کا پیغام تھا کہ آصف علی زرداری پی ٹی آئی کو سپورٹ کریں۔
آصف علی زرداری نے انکار کر دیا تھا لیکن اس وقت پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کا اتحاد کروانے کے لیے جو اجزاء درکار ہیں وہ پورے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے وکلاء اعتزاز احسن، لطیف کھوسہ ودیگر عمران خان کی وکالت کر رہے ہی، یہ بھی ایک رابطہ ہے۔
مولابخش چانڈیو کی طرف سے پیپلزپارٹی کے سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اجلاس میں اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ لطیف کھوسہ عمران خان کی وکالت کیوں کر رہے ہیں؟ جس پر بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہےگوکہ بعدازاں لطیف کھوسہ کو پارٹی کی طرف سے شوکاز نوٹس بھی جاری کیا گیا لیکن ماضی میں یہ ہو چکا ہے۔
پیپلزپارٹی کی نظریں اس وقت پنجاب پر ہیں اور تحریک انصاف کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں کوئی امیدوار ہی نہیں مل رہا، ہو سکتا ہے پیپلزپارٹی اپنی شرائط کے اوپر ان سے کوئی سیاسی اتحاد قائم کر لے۔ میری خبر کے مطابق نیب میں سابق وزیراعظم نوازشریف اور لیگی رہنمائوں کے کیسز ختم کرنے کے اشارے مل رہے ہیں۔
دوسری طرف آصف علی زرداری کا جعلی اکائونٹس کیس ہے جس میں بلاول بھٹو، آصف زرداری کی بہن، مراد علی شاہ کا نام بھی شامل ہے اسےابھی ختم نہیں کیا جا رہا۔ سندھ سے بھی کچھ اچھی خبریں نہیں آرہیں، پیپلزپارٹی کے خلاف کیسز ختم ہوتے نظر نہیں آرہے۔
میرے خیال میں سیاست میں نفرت اور تقسیم کے حوالے سے پتا تب چلے گا جب عمران خان جیل سے باہر آئیں گے۔ عمران خان کی غیرموجودگی رواداری کی سیاست کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، یہ مسئلہ ان سے ہی شروع ہوا تھا۔ نوازشریف دو دفعہ چل کر ان کے پاس گئے، پیپلزپارٹی بھی ان کے حق میں بیان دے دیا کرتی تھی لیکن مسئلہ تب ہوا جب عمران خان نے اپنے مخالفین کو چور، ڈاکو کے خطاب سے نوازا۔