میں نے بہت دعاییں کی تھیں کہ یہ شخص زندہ بچ جاے جب یہ ترک فلوٹیلا میں گیا تھا۔ میں نے ہمیشہ اسے بینچ مارک سمجھا۔ وہ کبھی بھی پی ٹی آیی کی حمایت کی وجہ سے نہیں تھا۔ بلکہ طلعت کے متوازن تجزیوں کی بدولت تھا۔ لیکن ماضی کہ ایک سال میں اس شخص نے یہ دکھا دیا کہ انسان بڑا کمزور ہے اس شخص نے پی ٹی آیی اور اسکے ورکر سے انتقام لینے کے لیے اپنی تمام ساکھ بالاے طاق رکھدی۔ یہ صحافت کی وہ مقدس گاے ہے جو سمجھتی ہے کہ اس پر کویی تنقید نہیں کرسکتا اور نہ ہی کسی کو اسکی ہمت کرنی چاہیے۔
یہ کویی لفافہ نہیں لیتا یہ تو مجھے ابھی بھی یقین ہے لیکن اس بے چارے کو یہ وہم ہو گیا ہے کہ پی ٹی آیی کے سپورٹر جو اسے برا بھلا کہتے ہیں وہ پی*ٹی آی خود کرواتی ہے۔ حالانکہ اسکو پتہ ہونا چاہیے کہ پی ٹی آیی کا سپورٹر آزاد ہے اور رضاکار ہے وہ پٹواریوں کی طرح پیسے لیکر فورمز پر بیٹھ کر اپنے مالکوں کے کہنے پر دوسروں پر بلاوجہ بھونکا نہیں کرتا بلکہ اپنے ضمیر کی آواز پر ایسا کرتا ہے۔ پی ٹی آیی اسکی سوچوں پر تالہ نہیں لگا سکتی۔ لیکن اس بے چارے کو کون سمجھاے انا کا ڈسا ہوا ہے اور انا ہوتی ہی ایسی چیز ہے۔ آپکی تمام ذہانت، صلاحیتوں کو سلب کر لیتی ہے اور آپ ایسے گھناونے کام کرتے ہو جو آپ کی ذات کا خاصہ کبھی بھی نہیں رہے ہوتے۔
طلعت تجزیے کرنے کا بڑا شوقین ہے لیکن اگر مجھے ملے تو میں اسے ایک مشورہ دوں کہ میرے بھایی آپ اپنی تمام ایک سال کی ویڈیوز نکالو اور خود تجزیہ کرو کہ تمھاری تنقید پی ٹی آیی کے لیے کتنے فیصد تھی اور حکومت کے لیے کتنی تھی تو تمھیں خود پتہ لگ جاے گا کہ تم نے کتنی اچھی صحافت کی ہے۔ تمھیں فیصد نکالنا تو بہت آتا ہے نا ذرا غیر جانبدار تجزیہ کرنا جسکا دعویّ تم ہمیشہ کرتے ہو۔
طلعت میاں اسوقت جو ملک کے حالات ہیں یا تو تمھاری نظر میں بہت اچھے ہیں اور اگر اس بات پر اتفاق نہیں ہے تو جناب ایسا پی ایم ایل این کی حکومت کی وجہ سے ہے پی ٹٰی آیی کیوجہ سے نہیں ہے۔ لیکن آپ تو ہاتھ دھو کر پی ٹی آیی کے پیچھے پڑ گییے ہیں۔ اور اگر تھک جاییں تو کے پی کے کی حکومت کی کارکردگی پر سوال کرنے لگتے ہو۔
تمھیں ایسے موقع پر انٹرویو دیا بھی تو عمران خان نے اور تم عمران سے انٹرویو میں اس طرح بات کرتے ہو جسطرح وہ تمھارے بچپن کادوست ہے۔ وہ تو اسکی فقیری طبیعت ہے کہ وہ تم کو کچھ کہتا نہیں ورنہ تم اپنا سٹیچر اور اسکے سٹیچر کا احاطہ بھی نہیں کرسکتے۔ عظیم کرکٹر، بہترین سوشل ورکر، بہترین سیاستدان اور کویی بھی شخص اسکی ذات پر فخر کرسکتا ہے حالانکہ وہ پاکستان کا وزیراعظم نہ بھی بنے تب بھی۔ دنیا میں اسکی بات سنی جاتی ہے۔ اسے عزت دی جاتی ہے وہ بریڈفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر رہا، دنیا ہاے سیاست میں اس نے اپنے بیوی بچوں کو قربان کرکے اپنا نام کمایا ایک پارٹی بنایی۔ اسکو دیکھو تو اللہ نے عزت کتنی دی اور تم رات کو دس سے گیارہ یا آٹھ سے نو تک کا پروگرام کرکے اور پی ٹٰی وی سے لیکر آج تک دس چینلز کو پیسوں ک لیے بدل کر عمران کی نیت پر پی ٹی آیی پر تنقید کرتے ہو۔
بس آخر پر اتنا کہوں گا کہ اللہ جسے چاہتے عزت دییتا ہے اور جسے چاہے ذلت دیتا ہے اور وہ اسی کے ہاتھ میں ہے اور اگر اللہ نے اسکی قسمت میں عزت لکھ رکھی ہے تو تم جو مرضی کر لو اسکا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے۔ تم ما سوایے پاش پاش ہونے کے کچھ نہی ہو گے۔
یہ کویی لفافہ نہیں لیتا یہ تو مجھے ابھی بھی یقین ہے لیکن اس بے چارے کو یہ وہم ہو گیا ہے کہ پی ٹی آیی کے سپورٹر جو اسے برا بھلا کہتے ہیں وہ پی*ٹی آی خود کرواتی ہے۔ حالانکہ اسکو پتہ ہونا چاہیے کہ پی ٹی آیی کا سپورٹر آزاد ہے اور رضاکار ہے وہ پٹواریوں کی طرح پیسے لیکر فورمز پر بیٹھ کر اپنے مالکوں کے کہنے پر دوسروں پر بلاوجہ بھونکا نہیں کرتا بلکہ اپنے ضمیر کی آواز پر ایسا کرتا ہے۔ پی ٹی آیی اسکی سوچوں پر تالہ نہیں لگا سکتی۔ لیکن اس بے چارے کو کون سمجھاے انا کا ڈسا ہوا ہے اور انا ہوتی ہی ایسی چیز ہے۔ آپکی تمام ذہانت، صلاحیتوں کو سلب کر لیتی ہے اور آپ ایسے گھناونے کام کرتے ہو جو آپ کی ذات کا خاصہ کبھی بھی نہیں رہے ہوتے۔
طلعت تجزیے کرنے کا بڑا شوقین ہے لیکن اگر مجھے ملے تو میں اسے ایک مشورہ دوں کہ میرے بھایی آپ اپنی تمام ایک سال کی ویڈیوز نکالو اور خود تجزیہ کرو کہ تمھاری تنقید پی ٹی آیی کے لیے کتنے فیصد تھی اور حکومت کے لیے کتنی تھی تو تمھیں خود پتہ لگ جاے گا کہ تم نے کتنی اچھی صحافت کی ہے۔ تمھیں فیصد نکالنا تو بہت آتا ہے نا ذرا غیر جانبدار تجزیہ کرنا جسکا دعویّ تم ہمیشہ کرتے ہو۔
طلعت میاں اسوقت جو ملک کے حالات ہیں یا تو تمھاری نظر میں بہت اچھے ہیں اور اگر اس بات پر اتفاق نہیں ہے تو جناب ایسا پی ایم ایل این کی حکومت کی وجہ سے ہے پی ٹٰی آیی کیوجہ سے نہیں ہے۔ لیکن آپ تو ہاتھ دھو کر پی ٹی آیی کے پیچھے پڑ گییے ہیں۔ اور اگر تھک جاییں تو کے پی کے کی حکومت کی کارکردگی پر سوال کرنے لگتے ہو۔
تمھیں ایسے موقع پر انٹرویو دیا بھی تو عمران خان نے اور تم عمران سے انٹرویو میں اس طرح بات کرتے ہو جسطرح وہ تمھارے بچپن کادوست ہے۔ وہ تو اسکی فقیری طبیعت ہے کہ وہ تم کو کچھ کہتا نہیں ورنہ تم اپنا سٹیچر اور اسکے سٹیچر کا احاطہ بھی نہیں کرسکتے۔ عظیم کرکٹر، بہترین سوشل ورکر، بہترین سیاستدان اور کویی بھی شخص اسکی ذات پر فخر کرسکتا ہے حالانکہ وہ پاکستان کا وزیراعظم نہ بھی بنے تب بھی۔ دنیا میں اسکی بات سنی جاتی ہے۔ اسے عزت دی جاتی ہے وہ بریڈفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر رہا، دنیا ہاے سیاست میں اس نے اپنے بیوی بچوں کو قربان کرکے اپنا نام کمایا ایک پارٹی بنایی۔ اسکو دیکھو تو اللہ نے عزت کتنی دی اور تم رات کو دس سے گیارہ یا آٹھ سے نو تک کا پروگرام کرکے اور پی ٹٰی وی سے لیکر آج تک دس چینلز کو پیسوں ک لیے بدل کر عمران کی نیت پر پی ٹی آیی پر تنقید کرتے ہو۔
بس آخر پر اتنا کہوں گا کہ اللہ جسے چاہتے عزت دییتا ہے اور جسے چاہے ذلت دیتا ہے اور وہ اسی کے ہاتھ میں ہے اور اگر اللہ نے اسکی قسمت میں عزت لکھ رکھی ہے تو تم جو مرضی کر لو اسکا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے۔ تم ما سوایے پاش پاش ہونے کے کچھ نہی ہو گے۔