سندھ: ہسپتال بند ہونے کے باعث خاتون نے رکشہ ریڑھے پر بچے کو جنم دیدیا

sindh111.jpg


سندھ سرکار کے دوہرے معیار۔۔ ایک طرف مفلس خاتون نے سرکاری ہسپتال کو تالے لگنے کے باعث رکشاریڑھی پر ہی بچے کو جنم دیدیا تو دوسری طرف شاہزیب قتل کے مرکزی مجرم اور بااثر وڈیرے کو نجی ہسپتال میں پرتعیش سہولیات فراہم کی جاتی رہیں۔

اے آر وائے کے مطابق سندھ کے ضلع کندھکوٹ کی تحصیل تنگوانی میں سرکاری اسپتال کو تالے لگے ہونے کے باعث مفلس خاتون نے رکشا ریڑھی پر ہی بچے کو جنم دے دیا۔

صوبہ سندھ میں صوبائی حکومت بہترین طبی سہولتوں کی فراہمی کا دعویٰ کرتی ہے لیکن اندرون سندھ میں طبی سہولیات کا یہ عالم ہے کہ سرکاری اسپتالوں کو تالے لگے ہوئے ہیں جبکہ غریب خواتین سڑکوں اور رکشوں میں ہی بچوں کو پیدا کرنے پر مجبور ہیں۔

تفصیلات کے مطابق ضلع کندھکوٹ کی تحصیل تنگوانی میں حاملہ خاتون کو طبیعت خراب ہونے پر اسپتال لایا گیا۔ سرکاری اسپتال میں تالے لگے تھے جب کہ خاتون کی حالت بگڑتی ہی جارہی تھی، خاتون کے اہلخانہ اسے لیکر پہلے نجی اسپتال گئے مگر فیس زیادہ ہونے کے باعث وہاں علاج نہ ہو سکا۔

نجی اسپتال انتظامیہ نے انتہائی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاتون کو داخل کرنے سے انکار کردیا جس کے باعث مجبور خاندان واپس اپنے گھر روانہ ہوا۔

خاتون کے اہلخانہ کے مطابق جب وہ سرکاری اسپتال گئے تو وہاں لیڈی ڈاکٹر موجود نہ تھی اور تالے لگے تھے۔ واپس گھر جا رہے تھے کہ راستے میں بچے کی پیدائش ہوگئی۔

دوسری جانب شاہزیب خان قتل کیس کا مرکزی مجرم شاہ رخ جتوئی سینٹرل جیل کراچی کے بجائے گزری میں واقع ایک نجی اسپتال کی بالائی منزل پر گزشتہ 8 ماہ سے پُرتعیش زندگی بسر کرتارہا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔


اسپتال شاہ رخ جتوئی کے خاندان نے کرائے پر حاصل کر رکھا ہے۔ ملزم کو محکمہ داخلہ سندھ کےحکم پر جیل سے نجی اسپتال میں منتقل کیا گیا تھا۔

میڈیا رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ شاہ رخ جتوئی کی جیل سے نجی اسپتال منتقلی کے پیچھے سندھ کی اعلیٰ شخصیات کا ہاتھ ہے۔ عدالت سے سزا ملنے کے بعد شاہ رخ جتوئی سزا یافتہ مجرم ہے وہ قیدی کے بجائے شاہانہ انداز سے زندگی گزار رہا ہے۔

بعدازاں جب یہ خبر سامنے آئی تو ہسپتال انتظامیہ نے شاہ رخ جتوئی کو فرار کرواکر دوبارہ جیل منتقل کردیا
 

Mani Ehmad

Citizen
اس خبر پر بندا کیا لکھے ؟ سرکار کی نا اہلی پر گریہ کروں یا انسانیت کے مر جانے کا نوحہ لکھوں؟ یا پھر صرف افسوس کر کے آگے گزر جاؤں؟
 

Back
Top