tariisb
Chief Minister (5k+ posts)

بلیو ایریا آفس سے نکلتے وقت ایک احساس بھی ساتھ ساتھ تھا ، شائد سایہ شائد کوئی پچھتاوا ؟ ، یا ندامت کا کوئی پرچم جو اس کے آنچل کی طرح قدم قدم لہراتا جاتا تھا ،
میں برابر ہوں ؟ تخصیص کوئی نہیں ، نا ہی کوئی تفریق ، کمتری کا کوئی طعنہ نہیں ، میں برابر ہوں ؟ تو میرا کسی کو احساس کیوں نہیں ،
سب کی آنکھیں کیوں میرا تعاقب کرتی رہتی ہیں ؟ ، مرد کی غلطی فقط خطا ، مجھ سے کچھ غلط ہوا تو میں ناقص العقل کیوں بنا دی جاتی ہوں ،
میں کنیز نہیں ، مگر میں کنیز ، میں کوئی جنس ، شے ، اوزار و مشین نہیں ، لیکن ہاں ؟ میں صرف ایک پرزہ ، جو تمام عمر چلتا رہتا ہے ، مرمت ہوتا رہتا ہے ،
آخر ناکارہ ہو کر تبدیل کر دیا جاتا ہے ، جو ناگزیر تھا وہ پھر کسی کباڑخانے میں جا ملتا ہے.
میٹرو سٹیشن زیادہ دور نہیں تھا ، چلتے چلتے ، خیال کی شاہراہ پر ذرا سا توقف ! بے اعتنائی سے بیس روپے ، شیشے کے پیچھے بیٹھی لڑکی کی طرف سرکا دئیے ، جواب میں پیلے رنگ کا ایک پلاسٹک کا سکہ ملا ، جلدی سے اٹھایا ، آگے کی طرف بڑھ دی ، کسی نے گزرتے اتنا کہہ دیا " واہ ! کیا چال ہے" ، کوفت میں کرختگی نے بھی اپنا حصہ ملا دیا ، دل میں بس اتنا ہی کہا ، ہو گا کوئی آوارہ ، شہر کی گنتی کروں تو کسی کو مرد نا کہوں سب کمینے ، لچر اور بھوکے ، خیر ! روز ہی تو ایسے بھکاری مجھ سے کیا کیا طلب کرتے ہیں ، میں کر بھی کیا کرسکتی ہوں ؟ شائد کے کسی کے ہاتھ ، کسی کی شکل پر تھوک سکتی ، کسی کی زبان کھینچ سکتی ، شکر ہے حال نا پوچھا ، چال پر ہی رال ٹپکا دی ، میں برابر نہیں ، پھر سے دماغ میں کسی نے یہ سوئی چبھو دی ، تبصرہ بھول کر پھر سے منقطع مکالمہ سامنے آکھڑا ہوا ، میں برابر نہیں ؟ راہ کا کیا ؟ راہ چلتوں کا کیا ؟ دفتر میں قیمتی لباس میں گھسا "بگ باس" بھی ایک آوارہ گرد ، مطلب پرست ، میں لنچ ، ڈنر نہیں کرنا چاہتی ، اور وہ لنگر میری ہی نذر کرنا چاہتا ہے ، کتنی دفعہ ؟ کتنی بار ؟ بس چند ، کچھ ، دو چار بار ، یہ مہمانداری صرف اور صرف ایک حیلہ ہے ، دسترخوان سے بستر تک لے جانے کا بہانہ ہے ، کتنا غلیظ کھانا ہے ، کتنا ہوس زدہ نذرانہ ہے ، میں برابر نہیں ، میں بس نیچے ہوں ، سب کچل دینے کو تیار بیٹھے ہیں ، کوئی آنکھوں سے ، کوئی لمبی زبان سے ، کوئی ہاتھوں سے ، کسی کے پاس حیلہ ، کسی کے پاس بہانہ ، کسی کی پیش کش ، کسی کی گزارش ، کوئی دھمکی سمیت ، کوئی خوش فہمی میں مبتلا ، میں برابر نہیں ، سب کی نظروں میں نیچے ہوں .
آپ کب تک کھڑی رہیں گی ؟ تیسری بس نکل چکی ہے ؟ وہ چونکی ، میٹرو سٹیشن پر خاتون ملازم نے اس کے خیال میں خلل کر دیا ، ہاں ! جانا تو ہے ، بس اب سوار ہوتی ہوں ، بس آتے ہی جلدی سے سوار ہوتے ہی ، نشست پر جا گری ، باہر کی گھٹن و حبس میں ، میٹرو کی ٹھنڈک نے ذرا سکون دیا ، کھڑکی سے باہر سب خوبصورت لگ رہا تھا ، چیڑھ کے درخت کتنے خوبصورت لگ رہے ہیں ؟ ہاں یاد آیا ، گھر میں بیٹا ، بیٹی تیار کھڑے ہوں گے ، آج ان کی سکول شاپنگ بھی کروانی ہے ، بہت دن سے ٹال چکی ، آج بہانہ مشکل ہو گا ، سامنے مارگلہ ، بارش کے بعد کتنا نکھرا نکھرا لگ رہا ہے ، ہاں ! یاد آیا ، شام گھر پہنچ کر کپڑے بھی دھونے ہیں ، بہت زیادہ جمع ہو چکے ہیں ، گزرتے گزرتے سینٹورس مال پر نظر پڑی ، کتنا رش ہے ، لوگوں کو شاپنگ کے سوا کوئی کام ہی نہیں ، ڈریسز بہت اچھے اور معیاری ہیں یہاں ، اس ہفتے ضرور لوں گی ، نہیں ، بہت مشکل ، اس بار لینا بہت مشکل ، حساب جمع خرچ میں پیشگی بہت سا ابھی کرنا ہے ، ہونہہ ! لوگوں کو پیسہ ضائع کرنے کے سوا کوئی کام ہی نہیں ، جس کو دیکھو منہ اٹھا کر یہاں چلا آیا ہے ، اس نے بیزاری سے اپنا منہ دوسری طرف کر لیا ، آج کیا پکاؤں ؟ نہیں ، بلکل ہمت نہیں ، باہر سے ہی لے جاؤں گی ، مجھ سے نہیں بنتی ہانڈی ، میں مشین تو نہیں ، نا ہی کوئی پرزہ ، آخر میں بھی انسان ہوں ، میں برابر ہوں ؟
___________________________________________________________________________
بس سے نکلتے ہی ، تیز تیز قدم بڑھاتے ہوے پرس سے دس روپے نکالے ، روز کا معمول یہی تھا ، پل کے ساتھ ، بیٹھے بوڑھے بابے کو دس روپے دینا ، اور گزرجانا ، لیکن آج ، بابا سے کچھ پوچھوں گی ، جواب لے کر جاؤں گی ، دس روپے کا نوٹ مٹھی میں بھینچ لیا ، رفتار تیز ہوتی گئی ، بابا کے قریب پہنچ کر ، پھیلی چادر پر ، دس روپے رکھ دئیے ، اور ساکت ؟ بت کی طرح کھڑی ہو گئی ، کیا پوچھنا تھا ؟ کیوں پوچھنا تھا ؟ انہیں کیا پتہ ؟ خیرات دیتی ہوں کوئی انعام تو نہیں دیتی رہی ، اس سوچ میں ، بابا نے سر اٹھا کر ، خود ہی پوچھ لیا ، کچھ کہنا ہے ؟ تو کہہ دو ؟ سوال چھپایا نہیں کرتے ، اگر چھپاؤ گی تو ، ہر وقت جسم پر کیڑوں کی طرح رینگتے رہیں گے ، بےچین ہی رکھیں گے ، کہو کیا کہنا ہے ؟ بابا ! ، بابا ؟ میں برابر نہیں نا ؟ میں رکھیل ہوں ، کنیز ہوں ، کمتر ہوں ، کمزور ہوں ، ناقص ہوں ، میں برابر تو نہیں نا ؟ سوال نے آنکھوں میں بہت سی مرچیں انڈیل دیں ، آنسو ایک ایک کر کے گرنے لگے ، مزید جرح ممکن نا رہی ، زمین پر بیٹھے بابا ، کو بھی زیادہ تفصیل کی ضرورت نا رہی
بیٹی ، آپ برابر ہو ، یہ برابری کسی منشور سے ماخوز نہیں ، فطرت سے منسوب ہے ، تم برابر ہو ، لیکن ؟ تم مجھ سے ، ہم سے مختلف بھی ہو ،
تم مختلف ہو ، تم خوبصورت ہو ، تم الگ ، تم بس ! مختلف ہو ، اسی لیے تضاد کو اختلاف سمجھ بیٹھی ہو ، فرق کو تضاد سمجھ لیتی ہو ، نہیں آپ ، الگ ہو ، آپ مختلف ہو ،
آپ خوبصورت ہو ، نرمی ، شگفتگی ، حسن و جمال ، حیا ، صبر ، برداشت و سراپا وفا ، سب مختلف ہے ، تم خوبصورت مگر مختلف ہو ،
بابا کی بات سنتے سنتے ، پھیکے چہرے پر سرخی چھا گئی ، مدھم آنکھیں چمکنے لگیں ، اچانک سے اس نے اپنا دوپٹہ درست کیا ، اور ہنس پڑی ، میں خوبصورت ہوں ؟ میں مختلف ہوں ، جلدی سے چل پڑی ، جلدی میں بابا کو جواب بھی نا دیا ، چلتے چلتے ، بار بار کوئی کان میں کہتا جاتا ، "تم خوبصورت ، تم مختلف ہو" ، وہ مسکرا پڑتی ، دائیں بائیں دیکھتی جاتی ، مسکراتی جاتی ، جسم میں سے تناؤ اترتا جاتا ، اکھڑی اکھڑی ، ناراض سی روح میں امنگ سی آتی جاتی ، میں خوبصورت ہوں ؟ میں مختلف ہوں ؟ ہاں میں خوبصورت ، ہاں میں مختلف ہوں .