آئی ایم ایف مشن کی پاکستان آنے میں غیرمعمولی تاخیر کی وجہ کیا ہے؟

1imfmissionakheer.jpg

سیلاب کے معاشی اثرات پر اختلافات سامنے آنے لگے، پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے بجٹ پر سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے اثرات پر اختلافات پیدا کر دیئے،جس کی وجہ سے پروگرام کے جائزے کے لیے عالمی قرض دہندہ آئی ایم ایف کے مشن کو اسلام آباد روانہ کرنے میں غیر معمولی تاخیر ہوئی۔

سینئر حکومتی اہلکار نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ دونوں فریقین وزارت خزانہ کے ایک جائزے کے درمیان اس فرق کو پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں بتایا گیا کہ قرضوں کی فراہمی کی زیادہ لاگت اور پیٹرولیم مصنوعات سے کم آمدنی کی وجہ سے اضافی اقدامات کے بغیر بنیادی بجٹ خسارہ رواں مالی سال میں تقریباً جی ڈی پی کا 2.8 فیصد یعنی 2.2 ٹریلین روپے تک کی بلند سطح پر جاسکتا ہے۔

https://twitter.com/x/status/1591480945030332423
تخمینہ شدہ اعداد و شمار سیلاب سے سے قبل آئی ایم ایف کے ساتھ متفقہ جی ڈی پی کے ابتدائی بجٹ سرپلس ہدف کے 0.2 فیصد سے کہیں زیادہ ہے، اس پر غیر سیلابی عوامل زیادہ اثر انداز ہیں کیونکہ بجٹ پر سیلاب کا اثر جی ڈی پی کے 0.2 فیصد سے زیادہ نہیں تھا۔

https://twitter.com/x/status/1591769608947748872
ریذیڈنٹ نمائندہ آئی ایم ایف ایستھر پیریزکے ساتھ حالیہ ملاقات میں بھی اختلاف برقرار رہا کہ رواں مالی سال میں تعمیر نو کی کل تخمینہ لاگت 16بلین ڈالر کا کتنا اثر ہونا چاہیے۔

پاکستان آئندہ ہفتے آئی ایم ایف کے ساتھ تازہ ڈیٹا شیئر کرے گا، جس سے یہ طے ہو گا کہ آیا آئی ایم ایف مشن کے رواں ماہ پاکستان آنے کا امکان ہے یا اس میں دسمبر تک تاخیر ہو سکتی ہے۔


پاکستان کو آئی ایم ایف سے تقریباً 3 ارب ڈالر قرض ملنا ابھی باقی ہے جسے تین جائزوں کی تکمیل کے بعد ریلیز کیا جا سکتا ہے تاہم مالیاتی فریم ورک پر اختلافات کے علاوہ پاکستان بجلی کی قیمتوں میں اضافے سمیت آئی ایم ایف کی کچھ دیگر شرائط کو پورا نہیں کر سکا۔

جون میں طے شدہ نظرثانی شدہ شیڈول کے تحت آئی ایم ایف کو اکتوبر میں نویں نظرثانی کے لئے مشن پاکستان بھیجنا تھا جس سے 3 نومبر کو تقریباً 1.2 ارب ڈالر کی ایک اور قسط جاری کرنے کی راہ ہموار ہوتی۔

وزیر مملکت ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا کہ وہ بجٹ اور معیشت پر سیلاب کے اثرات کا جائزہ لے اور جب مضمرات واضح ہوں گے،تب ہی آئی ایم ایف مشن کے پاکستان آنے کے حوالے سے تاریخ دی جا سکے گی،سیلاب کے اثرات کا تجزیہ نامکمل ہے،اس لیے آئی ایم ایف مشن دورے کی تاریخیں واضح نہیں تھیں۔

ذرائع کے مطابق 4 ٹریلین روپے سے کم کے بجٹ کی قرض کی لاگت کے مقابلے نظرثانی شدہ تخمینہ ظاہر کرتا ہے کہ قرض کی لاگت 4.7 ٹریلین روپے سے زیادہ ہو سکتی ہے،اسی طرح پیٹرولیم لیوی کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی 855 ارب روپے کے ہدف سے کم از کم 300 ارب روپے کم رہ سکتی ہے۔

پیٹرولیم لیوی کی کم وصولی اور زیادہ قرض کی خدمات کی لاگت کا اثر جی ڈی پی کا تقریباً 1.3 فیصد تھا، ایف بی آر کے ٹیکس 7.470 ٹریلین روپے کے سالانہ ہدف سے بھی کم ہو سکتے ہیں اور آئی ایم ایف پہلے ہی 600 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کا مطالبہ کر چکا ہے۔

اس کے علاوہ حکومت نے برآمد کنندگان کو 100 بلین روپے کا سبسڈی پیکج اور ایک زرعی پیکج کی پیشکش کی ہے جس کا اثر ابھی تک واضح نہیں ہوا،وزارت خزانہ کے لیے مسائل مزید پیچیدہ ہو گئے،اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے رواں مالی سال کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا تخمینہ 10 ارب ڈالر سے کم لگایا،جو عالمی بینک کے اندازوں سے نمایاں طور پر کم ہے۔