
اسلام آباد ہائی کورٹ نےآڈیو لیکس کیس میں کال ریکاڈنگ اور سرویلنس سسٹم کو بادی النظر میں غیر قانونی قرار دیدیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے آڈیو لیکس کیس میں بڑا فیصلہ جاری کردیا ہے، جسٹس بابرستار نے شہریوں کی سرویلنس اور کال ریکارڈنگ کے "لافل انٹرسپٹ مینجمنٹ سسٹم "کو بادی النظر میں غیر قانونی قرار دیدیا ہے، اور کہا ہے کہ پی ٹی اے کی جانب سے ہدایت پر موبائل فون کمپنیز نے یہ سسٹم لگارکھا ہے جس میں دو فیصد موبائل صارفین یعنی 40 لاکھ موبائل صارفین کے فو ن کالز اور میسجز کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
ان صارفین میں حکومتی شخصیات، سیاستدان، ججز، بزنس مین اور دیگر اہم شخصیات و ان کے اہلخانہ شامل ہیں۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس ڈیٹا تک رسائی کس کو دی جاتی ہے اس بارے میں کچھ پتا نہیں ہے، وفاقی حکومت یا پی ٹی اے کے بقول انہیں یہ اجازت کسی کو نہیں دی ہے۔
جسٹس بابرستار نے فیصلے میں کہا کہ پی ٹی اے نے دوران سماعت مختلف اوقات میں عدالت کے ساتھ غلط بیانی کی اور کہا کہ انہوں نے کسی کو سرویلنس کی اجازت نہیں دی، جبکہ موبائل کمپنیز کے مطابق یہ سسٹم پی ٹی اے کی ہدایت پر لگایا گیا ہے، عدالت نے غلط بیانی پر پی ٹی اے چیئرمین و ممبران کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا ہے۔
https://twitter.com/x/status/1807474133099556974
جسٹس بابرستار نے وفاقی حکومت کی اس معاملے پر چیمبر سماعت کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ شہریوں کی کال ریکارڈ کرکے لیک کرنے کا نیشنل سیکیورٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے، 2022 میں عمران خان، عمر عطاء بندیال، شہباز شریف، بشریٰ بی بی، مریم نواز سمیت اہم شخصیات کی کالز ریکارڈ ہوئیں اور انہیں سوشل میڈیا پر مخصوص اکاؤنٹس سے لیک کیا گیا جہاں سے مین اسٹریم میڈیا پر یہ ریکارڈنگ نشر ہوئیں۔
https://twitter.com/x/status/1807477098195435643
فیصلے میں اسلام آباد و پاکستان بھر کی پولیس کی جانب سےکی گئی استدعا کو منظور کرتے ہوئے ملزمان کی سی ڈی آر اور لائیو لوکیشن پولیس کے ساتھ شیئر کرنے پر عائد پابندی ختم کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ٹیلی کام کمپنیا ں آئندہ سماعت تک وزارت داخلہ کے ایس او پیز کے مطابق ملزمان کی لائیو لوکیشن اور سی ڈی آر پولیس، ایف آئی اے کے ساتھ شیئر کرسکتی ہیں۔
https://twitter.com/x/status/1807422648139329591
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج بابرستار نے نے موبائل فون کمپنیز کو آئندہ سماعت تک سروسیلنس سسٹم تک رسائی نا دینے کی یقین دہانی کروانے کی ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ ٹیلی کام کمپنیز کا غیر قانونی طور پر شہریوں کے ڈیٹا تک کسی کو رسائی دینا غیر آئینی ہے، اس نظام کو کوئی لیگل بیکنگ نہیں ہے۔
فیصلے میں وفاقی حکومت سے 6 ہفتے میں رپورٹ طلب کرتے ہوئے عدالت نے استفسار کیا ہے کہ فیئر ٹرائل ایکٹ کی خلاف ورزی میں کس نے یہ سسٹم لگایا ہے؟ اس سسٹم کے آپریشنز کو کون دیکھ رہا ہے اور شہریوں کی پرائیویسی بریچ کا ذمہ دار کون ہے؟