سوشل میڈیا کی خبریں

رکن پنجاب اسمبلی اشرف رسول کی جانب سے سیکرٹری پنجاب اسمبلی محمد خان بھٹی،سیکریٹری کورڈینشن عنایت اللہ اور ڈی جی پارلیمانی امور رائے ممتاز کے خلاف جو مقدمہ درج کروایا ہے اس کی تفصیلات منظر عام پرآگئی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب اسمبلی کے افسران کے خلاف پنجاب اسمبلی کےہی رکن کی جانب سے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویزالہیٰ کے مبینہ فرنٹ مین ہونے کا پر لاہور کے تھانہ شاہدرہ مقدمہ درج کروایا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں تینوں افسران پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے گئے ہیں ایم پی اے اشرف رسول نے موقف اپنایا کہ محمد خان، عنایت اللہ اور رائے ممتاز2 نامعلوم افراد کے ہمراہ میرے گھرآئے ، یہ سب لوگ اسلحہ سے لیس تھے اور انہوں نے میرے گھر آکر مجھ پر پستول تان لیے۔ رکن پنجاب اسمبلی نے الزام عائد کیا کہ اس موقع پر محمد خان بھٹی نے مجھ سے کہا کہ آپ میرا پیچھا اور میری مخالفت چھوڑ دیں ورنہ میں آپ جو جان سے ماردوں گا،اس کے بعد دیگر افراد نے بھی مجھے دھمکیاں دیں اور وہاں سے چلے گئے۔ سوشل میڈیا صارفین نے مقدمہ کو انتہائی بھونڈا قرار دیدیا اور کہا کہ یہ مقدمہ تو بھینس چوری والے مقدموں سے بھی زیادہ مضحکہ خیز مقدمہ ھے پی ٹی آئی لاہور کے رہنما یاسر گیلانی نے ایف آئی آر کی نقل شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر خود چیخ چیخ کرکہہ رہی ہے کہ اس میں درج سب کچھ بکواس ہے، کرائم منسٹر شہباز شریف اور خود ساختہ وزیراعلی حمزہ نے ماضی سےکچھ نہیں سیکھا، مگر یاد رکھیں یہ 90 کی دہائی نہیں ہے۔ یادرہے کہ اس مقدمے کو جواز بناکر گزشتہ روز ڈی جی پارلیمانی امور رائے ممتاز کو گرفتار کرلیا گیا تھا جبکہ پنجاب اسمبلی کا کنٹرول پولیس نے سنبھال لیا تھا اور کسی کو اندر جانے کی جازت نہیں تھی۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری سوشل میڈیا پر شوہر کے خلاف تنقید پر دلبرداشتہ ہوگئی ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ جو کچھ کہا جارہا ہے وہ سن کر بہت افسوس ہوا۔ تفصیلات کے مطابق آج پنجاب اسمبلی میں اسپیکر پرویز الہیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک محرک کی عدم موجودگی کے باعث نمٹادی گئی ہے، دوران اجلاس پینل آف چیئرمین نے با ر بار محرک سمیع اللہ خان کا نام پکارا مگر وہ اسمبلی میں موجود نہیں تھے جس کی وجہ سے قرار داد نمٹا دی گئی۔ سوشل میڈیا پر سمیع اللہ خان کے اس عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں غدار کہا گیا ، صارفین نے کہا کہ سمیع اللہ خان عظمیٰ بخاری کے شوہر ہیں جو پارٹی کی طرف اپنی اہلیہ کو نظر انداز کیے جانے پر ناراض تھے۔ سوشل میڈیا تنقید کا جواب دیتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے اپنی ٹویٹ میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت میں آنے کے بعد ایسی باتیں سننا ہی باقی رہ گیا تھا، ہمیں پارٹی کی طرف سے جب جب ایوان میں جانے کا کہا گیا ہم گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج ایوان میں جو کچھ ہوا اس سے متعلق میں نے بھی پارٹی سے سوال پوچھا ہے، جو یہ فیصلہ کررہے تھے سوال ان سے ہونا چاہیے،لگتا ہے ہم نے ساڑھے نو سال ضائع کردیئے ہیں ،آج ہمارا دل ٹوٹ گیا ہے، پرویز الہیٰ کے چار سال بھی انہی2 غداروں نے بھگتے ہیں۔ عظمیٰ بخاری اور ان کے شوہر پر تنقید کے حوالے سے پارٹی رہنما عطاللہ تارڑ نے ایک بیان جاری کیااور وضاحت کی کہ سمیع اللہ خان اور عظمی بخاری کی پارٹی کے لئے گراں قدر خدمات ہیں۔ دونوں مشکل دور کے صف اول کے ساتھیوں میں شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ قیاس آرائیوں اور الزام تراشیوں سے پرہیز کیا جائے۔ آج جو کچھ ہوا اس کے ذمہ دار صرف اور صرف پرویز الٰہی ہیں جنہوں نے کارروائی کو بل ڈوز کیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد مارچ کی حتمی تاریخ کا اعلان آج کرنا ہے،انہوں نے کہا تھا کہ لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کا اعلان اتوار کو پارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد کریں گے۔ مارچ کے حوالے سے سینیئر تجزیہ کار سلیم صافی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کی طرف عمران خان کے مارچ والےدن اگرجے یو آئی، جے یو پی اورٹی ایل پی نےبھی اپنےلوگوں کواسلام آبادپہنچنے کا کہہ دیا تو پھر کیا ہوگا؟ سلیم صافی نے کہا کہ ایک طرف سوشل میڈیا کے سرفروش اور دوسری طرف زمین پر سونے والےمدرسہ کے سرفروش، اس لئےخونی مارچ کی دھمکیاں سوچ سمجھ کردی جائیں۔ اس سے قبل وقار سیٹھی نے ٹویٹ کیا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کے ناقدین دوربین لگائیں،زوم کریں ،خوربین سے دیکھیں نہیں تو ناسا سے تصدیق کروا لیں ، نادرا سے تسلی کر لیں اور گنتی بھی کروا لیں اور “ان”کے کسی بھی جلسے سے موازنہ کر لیں،لگتاہے اب مولانا کا صبر جواب دے رہاہے،جلسے میں شریک ہرجانثارمولانا کے ایک اشارے کامنتظر ہے۔ اس پر سوشل میڈیا صارفین نے سلیم صافی کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ کیا سلیم صافی مولانا اور ٹی ایل پی کو عمران خان کا لانگ مارچ خونی مارچ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں؟ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ سلیم صافی کی خواہش ہے کہ ملک میں افراتفری اور فساد پھیلے لیکن انکی یہ خواہش پوری نہیں ہوگی عمران خان نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ وہ اتوار کو کور کمیٹی کےاجلاس کے بعد اپنے لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔ اس سے قبل ملتان میں ہونے والے جلسے میں انھوں نے اسلام آباد لانگ مارچ کی ممکنہ تاریخ رواں ماہ کی 25 سے 29 کے درمیان بتاتے ہوئے کہا تھا کہ پارٹی کی کور کمیٹی کے پشاور میں ہونے والے اجلاس میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کے حتمی پلان پر غور کیا جائے گا۔ اس سے قبل عمران خان نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ملتان میں ہونے والے جلسے میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کا اعلان کریں گے۔
ارشد شریف سے اختلافات کے باوجود صدیق جان ارشد شریف کی حمایت میں آگئے۔۔ ارشد شریف کی تصویر پروفائل پکچر بنالی گزشتہ روز اے آروائی کے صحافی ارشد شریف کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا جس میں یہ جواز پیش کیا گیا کہ ارشد شریف نے ریاستی اداروں کے خلاف گفتگو کی ہے۔ مقدمہ حیدرآباد کےتھانہ بی سیکشن میں درج کیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مقدمہ ریاستی اداروں کےخلاف گفتگو کرنے کے تحت درج کیاگیا، پولیس نے بتایا کہ طیب حسین نامی نوجوان نے گزشتہ روزمقدمہ درج کرایا ہے۔ اس شریف کے خلاف مقدمہ پر سوشل میڈیا صارفین ارشد شریف کی حمایت میں آگئے، جن میں صحافی صدیق جان بھی تھے۔ صدیق جان اور ارشد شریف کے درمیان اختلافات تھے اور ارشد شریف نے اپنے ساتھیوں سمیت صدیق جان کو اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا جب اس وقت کے وزیراعظم گوادر کے اہم دورہ پر تھے۔ اپنے ایک ٹویٹ میں صدیق جان کا کہنا تھا کہ آزادی اظہارِ رائے کے چیمپئن بلاول بھٹو زرداری کے صوبے میں ارشد شریف صاحب کے خلاف مقدمے کا اندراج، یہ ہے ان کا اصل چہرہ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بلاول کو اپنے باپ سے زیادہ احترام دینے والی خواتین اینکرز اب کیا کہیں گی؟؟ اوقات یہ ہے کہ حیدر آباد میں مقدمہ درج کروا رہے ہیں، ارشد شریف سے اظہاریکجہتی اور اسکی تصویر کو پروفائل پکچر بنانے کو سوشل میڈیا صارفین نے سراہا اور اسے صدیق جان کی اعلیٰ ظرفی قرار دیا ہے۔
کیا شیریں مزاری کی گرفتاری کے بعد بھی ان کا وٹس ایپ استعمال ہوتا رہا؟ اظہر مشوانی کاانکشاف وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے سابق فوکل پرسن جن کے وٹس ایپ پر شیریں مزاری کا نمبر ایڈ ہے، انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ شیریں مزاری کا وٹس ایپ اکاؤنٹ انکی گرفتاری کے بعد بھی استعمال ہوتا رہا۔ اظہرمشوانی کے مطابق ڈاکٹر شیریں مزاری تقریباً ایک بجے گرفتار کی گئیں ان کا موبائل چھین لیا گیا اور کوئی مسلسل 4:07 تک ان کا وٹس ایپ اور موبائل استعمال کر رہا تھا جس طرح سیالکوٹ جلسے میں ڈرامہ کر کے عمران خان کی سیکیورٹی کمپرومائز کر کے موبائل چوری کیے گئے ۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا اس حرکت کا بھی یہی مقصد تھا؟ واضح رہے کہ شیریں مزاری گزشتہ روز گرفتار ہوئیں تو انکا موبائل فون بھی پولیس نے قبضے میں لیا تھا اور تاحال شیریں مزاری کا موبائل واپس نہیں کیا گیا۔ اس پر سوشل میڈیا صارفین نے بھی سوال اٹھایا کہ کیا شیریں مزاری کو گرفتار کرنے کا مقصد اسکا موبائل قبضے میں لیکر اس سےا ہم انفارمیشن لینا تھا؟ سوشل میڈیا صارفین اس پر حکومت پر خوب طنز کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس وقت تحریک انصاف کے رہنماؤں سے زیادہ انکے موبائل فونز کو خطرہ ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انٹی کرپشن والوں کا شیریں مزاری کے موبائل فون سے کیا تعلق ہے؟ کیا شیریں مزاری کا موبائل فون حاصل کرنے کا مقصد وہ ویڈیو حاصل کرنا ہے جو عمران خان نے ریکارڈ کرائی؟
تحریک انصاف کے منحرف رکن قومی اسمبلی راجا ریاض قائد حزب اختلاف بن گئے ہیں ، سوشل میڈیا پر صارفین نے ان کے اپوزیشن لیڈر بننے پر دلچسپ تبصرے کر ڈالے۔ تفصیلات کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے ایم این اے راجا ریاض کے اپوزیشن لیڈر بننے کی منظوری دیدی ہے، اپوزیشن لیڈر بننے کیلئے راجا ریاض کو قومی اسمبلی کے 16 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ راجا ریاض کے بطور اپوزیشن لیڈر تقرری کے حوالے سے نوٹیفکیشن کچھ دیر میں قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری کردیا جائے گا۔ واضح رہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے آج اپوزیشن لیڈر بننے کے خواہش مند ارکان سے درخواستیں طلب کی تھیں، جو درخواستیں موصول ہوئیں ان کی جانچ پڑتال کے بعد سب سے زیادہ ارکان کی حمایت رکھنے والے راجا ریاض کو اپوزیشن لیڈر مقرر کردیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر اپوزیشن لیڈر کیلئےچار ارکان نے اپنے حامی اراکین اسمبلی کے دستخط کے ساتھ درخواستیں اسپیکر قومی اسمبلی کو جمع کروائی تھیں، ان میں راجا ریاض کے علاوہ تحریک انصاف کے نور عالم خان، جی ڈی اے کے غوث بخش مہر اور ق لیگ کے حسین الہیٰ شامل تھے۔ راجا ریاض کی بطور اپوزیشن لیڈر تقرری پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار ہارون رشید نے کہا کہ راجا ریاض سے بہتر تھا احسن اقبال کو اپوزیشن لیڈر بنادیا جاتا، شعبدے بازی اور مسخرے پن کی بھی حد ہوتی ہے۔ سینئر وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ ایک اور بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے، ملی بھگت ثابت ہوگئی، سپریم کورٹ میں قومی اسمبلی کے منحرف اراکین کو کام کرنےسے روکنے کیلئے بھی درخواست دی جانی چاہیے۔ قدسیہ ممتاز نامی صارف نے کہا کہ راجا ریاض کی بطور اپوزیشن لیڈر 17 لوٹوں نے حمایت کا اعلان کردیا، انسافیو کو سمجھ آگیا ہوگا سپریم کورٹ کا فیصلہ کہ ووٹ شمار بھی نہیں ہوگا اور نااہلی بھی نہیں ہوگی۔
تحریک انصاف کے منحرف رکن صوبائی اسمبلی عبدالعلیم خان نے الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈی سیٹ کیے جانے کے فیصلے کے بعد ایک ٹوئٹ کیا جس میں "الحمداللہ" لکھا۔ سابق رکن صوبائی اسمبلی علیم خان نے ایک اور ٹوئٹ کیا جس میں کہا کہ "اللہ کا شکر ہے آج وہ واحد احسان بھی میرے سر سے اتر گیا جو صوبائی اسمبلی کی سیٹ کی صورت میں مجھ پر کیا گیا تھا۔" ان کا مزید کہنا تھا کہ "باقی رہا وہ دس سال کے احسانات کا معاملہ جو میں نے عمران خان کی ذات اور پی ٹی آئی پر کئے اُس کو میں نے اللہ پہ چھوڑ دیا ہے کیونکہ اللہ بہترین انصاف کرنے والا ہے۔" تاہم علیم خان کی جانب سے اس ٹوئٹ کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے مختلف تبصرے سامنے آ رہے ہیں اور سابق ایم پی اے کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک شخص کی بیوی نے اس کے دانت توڑ دیے دوستوں کے پوچھنے پر کہا یہ تو میں نے ویسے بھی نکلوانے تھے۔ احمد ناز نے کہا کہ بھائی تیری بے عزتی ہوئی ہے محسوس کر لو۔ اتنی اخلاقی جُرآت نہیں نااہل لوٹے میں کہ کمنٹس لے سکے اس صارف نے شدید الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا۔ شکیل نامی صارف نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کیونکہ آپ بہت بے تاب تھے۔ مگر شکر کرنےکا یہ وقت نہیں ہے کیونکہ آپ کو چنا گیا، گھسیٹا گیا اور پھر پھینک دیا گیا۔ سچائی کا سامنا کریں مریم نواز نہ بنیں۔ اسامہ نامی صارف نے ایک میم شیئر کی جس میں لکھا کہ بولنے دو بے چارے کو تکلیف ہوئی ہے۔ الیاس نے کہا کہ مکس اچار جلدی خراب ہو گیا ہے بنانے والے نے جلدی میں تیل کی جگہ ڈیزل ڈال دیا۔ عرفان نے کہا کہ الحمداللہ آج ان لوٹوں کو پڑنے والی لعنتیں قبول ہو گئیں۔ طحہٰ نے کہا کہ کمنٹس کو بند کر کے اللہ کا شکر، کم ازکم مرد بنیں اور کمنٹ سیکشن کو کھولیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کیلئے نرم گوشہ رکھنے اور تحریک انصاف پر تنقید کرنے والے صحافیوں کی ایک بار پھر سے رائے بدل گئی ہے، صحافیوں نے عدم اعتماد کو بھی ایک غلطی قرار دیدیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق عمران خان کو گھر بھیجنے کے بعد اتحادی جماعتوں کی حکومت کو ایک ماہ گزرنے کے بعد عدم اعتماد کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر بولنے والے صحافیوں کی رائے بھی بدل گئی ہے اور انہوں نے اس حوالے سے پی ڈی ایم جماعتوں پرطنز کرنا شروع کردیئے ہیں۔ سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے اس حوالے سے ٹویٹر پر اپنے بیان میں سرائیکی زبان استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اور لیں مزے عدم اعتمادیوں کے۔ تحریک انصاف کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنانے والے صحافی و تجزیہ کار سلیم صافی نے موجودہ صورتحال میں ریاستی اداروں کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے مقتدر حلقوں نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا، اگر عمرانی بلیک میلنگ کا شکار ہوکر حکومت کو اسمبلی توڑنے پر مجبور کیا گیا تو مقتدر حلقوں کی وہ پوزیشن ہوجائے گی کہ نا خدا ہی ملا نا وصال صنم۔ انہوں نے کہا کہ انہیں پھر نا عمران خان اپنائیں گے اور دوسری طرف باقی تمام سیاسی جماعتیں بھی بھپر جائیں گی۔ نصرت جاوید نے بھی اس سے ملتا جلتا بیانیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان ملٹری اور عدلیہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں، ملٹری و عدلیہ حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں جبکہ حکومت خود اپنے اوپر دباؤ ڈال رہی ہے، لاڈلا اقتدار میں ہو یا باہر لاڈلا ہی ہوتا ہے۔ سینئر تجزیہ کار نجم سیٹھی بولے کیا اس حکومت کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ میں آکر اسمبلیاں توڑ کر انتخابات کا اعلان کردینا چاہیے؟ یا یہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ڈکٹیشن لینےسے انکار کرنے کی جرات کرسکتی ہے؟ سینئر اینکر و تجزیہ کار محمد مالک نے کہا کہ وزیراعظم آفس میں ہلچل کا سماں ہے، وزیراعظم کی تمام مصروفیات منسوخ کردی گئی ہیں اور اس وقت بحث یہ چل رہی ہے کہ وزیراعظم کو کب قوم سے خطاب کرنا چاہیے، "ایک پیج" اب مزید ایک نہیں رہا۔ سرل المیڈا نے کہا کہ ن لیگ اس وقت کسی ڈیل کی تلاش میں ہے جبکہ عمران خان لڑکوں کو اپنے تابع کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش میں ہیں۔ سینئر تجزیہ کار نصرت جاوید بولے کیا میں نے پہلے بار بار یہ نہیں بتایا تھا کہ شہباز شریف اور ان کے اتحادی دھوکہ کھا گئے ہیں، عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے نکالنا ایک غلط فیصلہ تھا، اس میں کامیابی کے باوجود ان کے پاس قبل از وقت انتخابات ہی واحد آپشن بچتا ہے۔ عمر چیمہ نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو عمران خان سے یہ سیکھنا چاہیے کہ اداروں سےکیسے پیش آیا جائے تو وہ نہ صرف بات سنتے ہیں بلکہ آپ کے موقف کے ترجمان بھی بن جاتے ہیں۔ کامران یوسف بولےایک طرف پی ڈی ایم کہتی ہے کہ اسٹیبلمشنٹ نیوٹرل ہوگئی ہے تو دوسری طرف اسی اسٹیبلشمنٹ سے ضمانت مانگی جارہی ہے کہ ہم مشکل فیصلے تب کریں گے جب ہمیں بقیہ مدت تک حکومت میں رہنے دیا جائے گا۔ یادرہے کہ سینئر صحافی و تجزیہ کار سینئر صحافی و تجزیہ کار سید طلعت حسین نے چند روز قبل اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ نواز شریف نے عمران خان کی تباہ کن پالیسیوں کی سیاسی قیمت چکانے سے انکار کردیا ہے،اب بے سمت و بے اثر نظر آنے والے وزیراعظم شہباز شریف کے پاس اسمبلیاں تحلیل کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ۔
معروف صحافی غریدہ فاروقی نے دعویٰ کیا ہے کہ اوورسیز پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت سے بہت خوش ہیں اور دھڑا دھڑ پیسہ بھیج رہے ہیں۔ اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ ڈالر 200 روپے پر پہنچ گیا !!! جس پر ایک صحافی شہزادنوید نے جواب دیا کہ امریکا میں مقیم پاکستانیوں کے لیے خوشخبری ہے اب انکو ایک ڈالر کے بدلے میں 200 روپے ملیں گے صحافی کے اس ٹویٹ کے جواب میں غریدہ فاروقی کا کہنا تھا کہ اوورسیز پاکستانی تو وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت سے بہت خوش ہیں۔ کہتے ہیں ووٹ کا حق ملے نہ ملے، نوٹ مل رہے ہیں ڈالر کے بدلے۔ انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ اسی لئیے شہباز حکومت کے ایک ماہ میں عمران خان دور سے بھی زیادہ، تاریخی زرِمبادلہ پاکستان بھیجا ہے۔ یادرہے کہ اپریل میں پاکستان کا ماہانہ غیر ملکی زرمبادلہ تاریخ میں پہلی بار 3 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ ماہ اپریل 2022ء میں بیرون ممالک مقیم کارکنوں کی طرف سے3.1 ارب ڈالرکی ترسیلات پاکستان آئیں۔ 3 ارب ڈالر سے زائد کی ترسیلات اب تک پہلی مرتبہ ملک میں آئی ہیں۔ عمران خان کے اقتدار کا خاتمہ 9 اپریل کو ہوگیا تھا جس کے بعد شہبازشریف وزیراعظم بنے لیکن غریدہ فاروقی نے اس کا کریڈٹ بھی شہبازشریف کو دینے کی کوشش کی
سینئر تجزیہ کار کامران خان نے اپنے ایک اہم بیان میں کہا ہے کہ معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے غلطیاں سدھاری جائیں یا پھر منصوبہ بنانے والے ماسٹر مائنڈ کو گھر بھیجا جائے۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار نےمائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹو یٹر پر رواں سال معاشی ترقی کی شرح کے حوالے سے اعدادوشمار شیئر کیے اور کہا کہ اس ٹیبل کو دیکھیں ، عمران خان کی قیادت میں جو پاکستان تیزی سے ترقی کی طرف گامزن تھا اب معاشی بحران کا شکار ہوگیا ہے۔ کامران خان نے معاشی بحران کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ طاقتور حلقوں نے عمران خان کی حکومت کو اچانک ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور اب قوم کو اس غلطی کی سزا بھگتنا پڑرہی ہے انہوں نے مزید کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ غلطیوں کو سدھارا جائے یا پھر اس پورے منصوبے کے "چیف آرکیٹیکٹ" کو گھر بھیجا جائے۔ مگر بعد نے کامران خان اپنی ٹویٹ کو ڈیلیٹ کر دیا۔ کامران خان نے اس پیغام میں جس چیف آرکیٹکٹ کا ذکر کیا ہے سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے، صارفین نے اپنی طرف سے اس چیف آرکیٹیکٹ کے حوالے سے قیاس آرائیاں بھی شروع کردی ہیں۔ عبیر خان نامی صارف نے کہا کہ کامران خان کا یہ بیان بہت اہم ہے، اس سے بہت سے مطلب نکلتے ہیں، چیف آرکیٹیکٹ سے ان کا اشارہ کس کی جانب ہے؟ ایک صارف نے کہا کہ کامران خان کی یہ ٹویٹ، اس کے الفاظ اور اس ٹویٹ کا لہجہ بہت اہم ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ اس حکومت کے دن گنےجاچکے ہیں۔ صحافی و تجزیہ کار مرتضیٰ سولنگی نے کامران خان کے اس بیان کوواضح طور پر بغاوت پر اکسانے کی ایک کوشش قرار دیا۔ عمار بخاری نے لکھا کہ چیف آرکیٹیکٹ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ اپنی منصوبہ بندی کے ناکام ہونے کا اعتراف کرلیں،ادارے کیلئے یہ ایک مشکل فیصلہ ہوگا،یا تو وہ سب اپنے ڈسپلن کی پاسداری کریں اور ملک کو جلتا ہوا دیکھیں یا سب مل کر چیف آرکیٹیکٹ کو گھر بھیجنے کا مطالبہ کریں ۔ ایک صارف نے طنزیہ انداز اپناتے ہوئے کہا کہ یہ چیف آرکیٹیکٹ کیا ہوتا ہے؟ اتنی عزت دینے کی کیا ضرورت ہے، زیادہ سے زیادہ ٹھیکیدار یا مستری ان لوگوں کیلئے استعمال ہونے والا لفظ ہے۔ ایک صارف نے مطالبہ کیا کہ چیف آرکیٹیکٹ کو گھر نہیں بلکہ جیل بھیجا جائے۔
سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے مریم نواز شریف کی جانب سے اےآروائی نیوز کو تنقید کا نشانہ بنانے پر آڑے ہاتھوں لے لیا۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف نے اپنے ٹویٹر بیان میں اے آروائی نیوز کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اے آروائی نیوز نے زرد صحافت کے بجائے گٹر صحافت کی بھی ساری حدیں پار کرلی ہیں، اس ادارے کو صحافت چھوڑ کر باقاعدہ طور پر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلینی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کو اے آروائی نیوز کے اسمگلرز کا بائیکاٹ کرکے ان کا گھناؤنا چہرہ عوام کے سامنے لانا چاہیے۔ سابق وزیراطلاعات اور رہنما تحریک انصاف فواد چوہدری نے مریم نواز شریف کے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے ردعمل دیا اور اس بیان کو بیہودہ قرار دیا۔ فواد چوہدری نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ جو میڈیا ہاؤس ن لیگ والوں کی خواہشات کا غلام نہ بنے یہ اس کو سبق سکھانےکی فکر میں پڑجاتے ہیں،ن لیگ گونگا اور بہرا میڈیا چاہتی ہے جو ان کے اپنے اشاروں پر چلے، تاہم ان کی یہ خواہش اب پوری نہیں ہوسکے گی۔ سینئر صحافی ارشاد بھٹی نے مریم نواز کے بیان کی مذمت کر دی۔
غریدہ فاروقی نے پروگرام کے دوران حنا پرویز بٹ سے مسلم لیگ ن کی کارکردگی اور ڈالر کی قیمت میں ہوشربا اضافے سے متعلق سوال کیا جس پر حناپرویز بٹ آئیں بائیں شائیں کرتی رہیں۔ غریدہ فاروقی نے کہا کہ انہوں نے جس سوال کا جواب مانگا تھا لیگی رہنما نے صرف اس سوال کا جواب نہیں دیا باقی تو سب جواب دے دیئے اس پر بھی لیگی ایم پی اے نے سابق حکومت کو الزام دیا اور سیاسی بیانات دیتی رہیں۔ پروگرام کے بعد حنا پرویز بٹ نے ٹوئٹ کیا کہ غریدہ صاحبہ ایک اینکر کو صرف سوال پوچھنے کا حق ہے، جواب دینے کا نہیں،جو لوگ غریدہ کے شو کے کلپس ایڈٹ کر کے سوشل میڈیا پر ڈال کر خوش ہو رہے ہیں انکو بتاتی چلوں کہ دلیری کے ساتھ منافق پی ٹی آئی اور اسکے منافق لیڈر کو بے نقاب کروں گی۔ اس کے جواب میں غریدہ فاروقی نے کہا کہ سوال پوچھنا بطور صحافی میرا حق ہے۔ ہم ہمیشہ حکومت سے سوال کرتے رہینگے، چاہے حکومت میں جو بھی ہو۔ پی ٹی آئی کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کی حنا پرویز بٹ نے تحمل سے سوالات سُنے اور اپنی جانب سے جواب دیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہی سوال جب تحریک انصاف حکومت سے کیے جاتے تھے تو ہمیں گالیاں دی جاتیں، غلیظ کیمپینز چلائی جاتیں۔ اینکر نے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ دھمکیاں دی جاتیں،لفافہ کہا جاتا،غدار، کافرکے فتوے لگائےجاتے،کردارکی دھجیاں اڑائی جاتیں، نوکریوں سے نکلوایا جاتا، پروگرام اور کالمز بند کروائے جاتے، صحافی اغوا کروائے جاتے، گولیاں مروائی جاتیں۔ یہ فرق ہے تحریک انصاف کے رویے کا۔ انہوں نے بہرحال تعریفی الفاظ میں کہا کہ حنا پرویز بٹ نے یہ سب نہیں کیا صرف جواب دیے، کیونکہ وہ پاکستان مسلم لیگ نواز سے ہیں۔
مسلم لیگ ن 19 مئی کو سرگودھا میں جلسہ کرنے جا رہی ہے جس کو کامیاب بنانے کیلئے ضلعی انتظامیہ ایڑھی چوٹی کو زور لگا رہی ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے فٹبال گراؤنڈ میں شائقین کے بیٹھنے کیلئے لاکھوں روپے سے حال ہی میں بنے پویلین کو مسمار کر دیا تاکہ مسلم لیگ ن کے جلسے یا کارکنوں کو کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہ ہو۔ گراؤنڈ میں کی جانے والی توڑ پھوڑ کی تصاویر سامنے آگئیں جس پر سابق وزیر مملکت فرخ حبیب نے سوال اٹھایا ہے کہ آخر کون ہے یہ مریم نواز؟ جس کیلئے سرکاری جگہوں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن جہاں بھی گئی وہاں تباہی کے اثرات آنا شروع ہو گئے۔ صحافی اسد کھرل نے کہا کہ کمپنی باغ میں موجودعوام کے بیٹھنے کے لیے لاکھوں روپے مالیت سے بنائے گئے پویلین کو توڑا جا رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان لوگوں نے آج تک ملک کا بیڑہ غرق ہی کیا ہے بنایا کچھ نہیں اور جو بنا ہوا ہے اسے بھی تباہ کر رہے ہیں۔ ایک اور صارف نے لکھا کہ مریم نواز اور حمزہ شہباز کے جلسے کے لیے سرگودھا کے واحد ہاکی گراؤنڈ کے پویلین کو کرین کی مدد سے توڑ دیا گیا، کروڑوں کی لاگت سے بنےہوئے گراؤنڈ کی تباہی کس کے کہنے پر ہوئی اور عوام کے ٹیکس کے پیسے کو حرام کا پیسہ سمجھ کر کیوں خرچ کیا جا رہا ہے ؟ راحیل خان نامی صارف نے سوال کیا کہ کیا انصاف ادارے یہاں ایکشن لیں گے؟ جواب دو میر جعفرو اس ظلم کا تم نے انہیں مسلط کیا۔
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف نے کہا ہےکہ فیصلہ تو ابھی ہوسکتا ہے مگر نواز شریف اور شہباز شریف عوام کی تکلیف کے بارے میں فکر مند ہیں۔ مریم نواز شریف نے یہ بیان مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں دیا اور کہا کہ ‏فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ فیصلہ ابھی اسی وقت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ عمران خان ملکی معیشت کو وینٹی لیٹر پر پھینک گیا ہے ، ملک کو تباہ کر گیا ہے اور پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت بڑھائے بغیر معیشت دم توڑ جائے گی، نواز شریف اور شہباز شریف عوام کی تکلیف کے بارے میں فکر مند ہیں۔ واضح رہے کہ اس وقت حکومت معاشی صورتحال کے حوالے سے مشکل فیصلوں سے متعلق کشمکش کا شکار ہے، آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کیلئے حکومت کو پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔ تاہم مسلم لیگ ن پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں گزشتہ حکومت میں دی گئی سبسڈی کو واپس لینے کیلئے اتحادی جماعتوں سے مشاورت جاری رکھے ہوئے ہیں کہ آیا قیمتوں میں اضافہ کیا جائے یا فوری طور پر انتخابات کی طرف جایا جائے۔ یادرہے کہ مریم نواز نے کچھ روز قبل کہا تھا کہ حکومت کو عمران کے گناہوں کا ٹوکرا اپنے سر پر نہیں اٹھانا چاہئے۔ میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ عمران کو عوام میں جانے دیں عوام بتائیں گے کہ مہنگائی تمھاری وجہ سے ہے، اب یہ الٹے بھی لٹک جائیں انکا سیاسی مستقبل ختم ہوچکا، عوام فتنوں میں الجھنے کے بجائے نوازشریف کو دوتہائی اکثریت دلائیں۔
صحافی خاور گھمن کا کہنا ہے کہ نیشنل اسمبلی اپوزیشن لیڈر کے بغیر، پنجاب حکومت کابینہ کے بغیر، وفاقی حکومت فیصلہ کرنے کی قوت کے بغیر ہے۔ الیکشن کمیشن انتخابی انتظامات کے بغیر، انصاف کا نظام انصاف کے بغیر اگر چل سکتا ہے تو ایک ہی ملک ہے اور وہ ہے پیارا پاکستان۔ انہوں نے سلسلہ وار ٹوئٹس مین کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ اختیارات کے بغیر۔ اگر وقت پر سخت فیصلے نہ کیے گئے تو قومی خزانہ بھی ڈالروں کے بغیر۔ پی ڈی ایم کسی سیاسی لائحہ عمل کے بغیر۔ تحریک انصاف جہانگیر ترین اور علیم خان کے جہازوں کے بغیر۔ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ گورنر کے بغیر چل رہا ہے۔ خاور گھمن کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم شہبازشریف قوت فیصلہ سازی کے بغیر۔ ہمارے کچھ صحافی بھائی آجکل غصے کے عالم میں مناسب الفاظ کے چناؤ کے بغیر اور فی الحال پاکستان آئی ایم ایف کی ڈیل کے بغیر چل رہا ہے۔
نجی چینل سے منسلک معروف صحافی و تجزیہ کار صابر شاکر چند روز سے اے آر وائی یا سوشل میڈیا پر نظر نہیں آ رہے جس کے بعد سوشل میڈیا پر سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا انہیں آف ایئر کر دیا گیا ہے اگر ایسا ہے تو کس کے دباؤ پر یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ اسی حوالے سے سمیع ابراہیم نے ٹوئٹ کیا جس میں کہا کہ صابر شاکر کہاں ہیں؟ ان کو آف ایئر کرنے کیلئے دباؤ کہاں کی جمہوریت اور آزادیِ صحافت ہے؟ ایسے اقدامات نام نہاد جمہوریت پسند حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ دیگر صارفین نے کہا کہ صابر شاکر کل سے ٹویٹر پر ایکٹیو نظر نہیں آ رہے خیریت آپ کدھر ہیں اللہ آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ان فسادیوں کے شر سے بچائے، آمین وسیم عباسی نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق اے آر وائی کے صابر شاکر کو بھی آف ائیر کر دیا گیا ہے۔ کسی بھی صحافی کو کام سے روکنا قابل مذمت ہے۔ ثاقب تنویر نے دعویٰ کیا کہ یہ بھی سنا ہے کہ وہ کسی اور ملک شفٹ ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر حسن بھٹی نے کہا کہ اے آر وئی کے صحافی صابر شاکر کو کس جرم کی پاداش میں آف ائیر کیا گیا ہے؟ آواز دبا دینے سے بات کرنے والے ختم ہو جائیں گے؟ بشیر چوہدری نے سوال اٹھایا کیا صحافتی تنظیمیں صابر شاکر صاحب کو آف ایئر کرنے پر بھی ویسا ہی احتجاج کریں گی جیسا حامد میر صاحب کے لیے کیا گیا تھا؟ ساغر نے کہا کہ صبر شاکر صاحب کو آن ائیر کرو اس حکومت نے ان کو آف ا یئر کیا ہم اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔
ماضی میں عمران خان کی حکومت پر تنقید کرنےاور اپوزیشن کی حمایت کرنے والے صحافی بھی شہباز شریف کی اس نئی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ نئی حکومت کے 1 ماہ مکمل ہونے کے بعد اس نظام کے گن گانے والے اور ملک سے مہنگائی کے خاتمے کیلئے عمران خان کی حکومت کو گھر بھیجنے کو ناگزیر قرار دینے والے صحافیوں نے بھی شہباز شریف حکومت پر تنقید کرنا شروع کردی ہے۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار سید طلعت حسین نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر جاری بیان میں کہا کہ نواز شریف نے عمران خان کی تباہ کن پالیسیوں کی سیاسی قیمت چکانے سے انکار کردیا ہے،اب بے سمت و بے اثر نظر آنے والے وزیراعظم شہباز شریف کے پاس اسمبلیاں تحلیل کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت جو صورتحال ہے اس میں پنجاب بھی نئے انتخابات کی طرف جاتا نظر آرہا ہے۔ صحافی و نجی ٹی وی چینل کی اینکر نادیہ مرزا نے بھی اس حوالے سے ٹویٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ مجھے کیوں نکالا سے مجھے کیوں پھنسایا تک کا سفر طے ہوگیا، مقبول ترین بیانیہ کو خاک میں ملادیا گیا ہے یہ مداخلت نہیں بلکہ کھلی سازش ہے۔ انہوں نے اپنی دوسری ٹویٹ میں کہا کہ پوری کی پوری ماضی کی اپوزیشن اور موجودہ حکومت استعمال ہوگئی ہے، ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، یہ مداخلت کا سازش کا فیصلہ خود کریں۔ سینئر تجزیہ کار نصرت جاوید نے موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی میں اضافے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا کسی کو ابھی بھی شک ہے کہ اصل پلان عمران خان کو 2 تہائی اکثریت کے ساتھ وزیراعظم آفس میں واپس لانا تھا؟
بلوچستان کے علاقے ڈیر ہ بگٹی میں پانی کی شدید قلت کے باعث عوام ایک ایک بوند کیلئے ترس رہے ہیں،صورتحال اس قدر مخدوش ہے کہ انسان و حیوان ایک ہی گھاٹ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔ سوشل میڈیا پر ڈیرہ بگٹی کی تحصیل پیر کوہ میں پانی کی شدید قلت کا معاملہ اٹھایا گیا ہے تاہم اس حوالے سے ایف سی کے علاوہ ابھی تک کسی بھی حکومتی ادارے کی جانب سے کوئی خاطر خواہ اقدام نظر نہیں آیا۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز، تصاویر اور معلومات کو دیکھ کر 21ویں صدی کے اس جدید دور میں رہنے والے انسان بھی حیران ہیں کہ آج کے اس دور میں بھی انسان ایسی زندگی جینے پر مجبور ہیں کہ اسے اپنی پیاس بھجانے کیلئے اتنے جتن کرنے پڑتے ہیں۔ اور یہی نہیں صورتحال اس قدر شدید ہوگئی ہے پانی کی قلت کے باعث علاقے میں انسانوں اور جانوروں کی بڑی تعداد موت کے منہ میں جانا شروع ہوگئی ہے۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے پیر کوہ کی ایک ویڈیو شیئر کی جس میں لوگوں کو ایک ٹینک سے پانی بھرتے دیکھا جاسکتا ہے،انہوں نے لکھا کہ اس وقت پیر کوہ میں کربلا کا سماء ہے، بلوچستان حکومت عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ دے۔ سپریم کورٹ کی پریس ایسوسی ایشن کے سابق صدر طیب بلوچ نے ایک معصوم بچی کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ منرل واٹر پینے والے حکمران غریب کی بچی کو پینے کیلئے پانی ایک قطرہ نہیں دے سکتے، پیر کوہ میں جنم لینے والے انسانی المیہ میں یہ ثابت ہوگیا کہ بلوچستان حکومت حق حکمرانی کھو چکی ہے۔ ایک صارف نے ایسی تصویر پوسٹ کی جسے دیکھ کر انسانیت کو ضرور شرما جانا چاہیے،اس تصویر میں چند لوگ گندے پانی کے جوہڑ سے بوتلوں میں پانی بھرتے دکھائی دے رہے ہیں، اسی تالاب کے اردگرد مویشی بھی موجود ہیں جو اپنی پیاس بھجانے کیلئے تالاب کا گندا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ جہانزیب بلوچ نےلکھا کہ پانی کی قلت کے سبب پیرکوہ میں بے شمار امراض جنم لے رہے ہیں اور اموات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، حکومت اس مسئلے کے حل کیلئے جلد از جلد اقدامات کرے اور عوام کو پانی کے ساتھ ساتھ صحت کی سہولیات بھی فراہم کرے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافی اورنگزیب کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان کو کون چلار ہا ہے کیونکہ وزیراعلی بزنجو تو منظر سے غائب ہیں، ایم پی ایزوزیراعلی کو ڈھونڈ رہے ہیں، ڈیرہ بگٹی میں ہیضہ کی وباء اور امن و امان کی صورتحال ابتر ہوچکی ہے ، یہ کس کے ہاتھ میں حکمرانی دیدی گئی ہے؟ چند صارفین نے پیر کوہ کی اس صورتحال میں ایف سی کے جوانوں کی جانب سے ملنے والی مدد کی تفصیلات بھی شیئر کیں۔
مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اس وقت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے پرانے اور تازہ بیانات گردش کررہے ہیں، جس میں نظر آنے والے واضح تضاد پر سوشل میڈیا صارفین بھی دلچسپ تبصرے کررہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا پر ایک صارف نے مفتاح اسماعیل کے بطور اپوزیشن لیڈر اور وزیر خزانہ پیٹرول کی قیمت میں اضافے سے متعلق دو بیانات پر مبنی ویڈیو شیئر کی۔ تحریک انصاف کی حکومت میں بطور اپوزیشن لیڈر مفتاح اسماعیل پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی مخالفت کرتے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ 160 روپے لیٹر پیٹرول خریدنے کیلئے غریب عوام کے پاس پیسے نہیں ہیں، آئی ایم ایف کو راضی کرنے کیلئے قیمتوں میں اضافہ کوئی کامیابی نہیں ہے۔ تاہم یہی مفتاح اسماعیل جب حکومت کا حصہ بنتے اور وفاقی وزیر خزانہ تعینات ہوتے ہیں تو پیٹرول کی قیمتوں کو بڑھانے کیلئے وہی توجیہات پیش کرتے نظر آتے ہیں جو ماضی میں تحریک انصا ف کی حکومت پیش کیا کرتی تھی کہ اس وقت پیٹرول کی قیمت 245 روپے ہونی چاہیے مگر حکومت 30 روپے فی لیٹر پیٹرول پر نقصان کرکے اپنی آمدنی صفر کرکے عوام کو پیٹرول فراہم کررہی ہے۔ آج پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا کہ حکومت پٹرول کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں کرنے جا رہی۔ اپنے اس بیان کے حوالے سے مفتاح اسماعیل نے ٹویٹر پر ایک وضاحتی بیان بھی جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت آج پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کررہی تاہم موجودہ معاشی صورتحال اور بین الاقومی منڈیوں میں تیل کی قیمت کو دیکھتے ہوئے ہمیں جلد اپنے فیصلے کو واپس لینا ہوگا۔ مفتاح اسماعیل کے بیانات میں واضح تضاد اور ان کی وضاحت پر سوشل میڈیا صارفین نے دلچسپ تبصرے کیے اور انہیں بیانات سے زیادہ ملکی معیشت کو بہتر کرنے پر توجہ دینے کی تجویز دی۔ ایک صارف نے کہا کہ آپ آج نہیں تو دوچار دنوں میں قیمتیں بڑھائیں گے، ویسے یاددہانی کیلئے یہ وہ لوگ ہیں جومہنگائی مارچ کیا کرتے تھے اور رات کی تاریکی میں مہنگائی ختم کرنے کیلئے ایک سازش کے ذریعے خان کی حکومت گرائی تھی۔ ایک اور صارف نے کہا کہ اس وضاحت کا مطلب ہے کہ آپ جلد اس معاملے پر یوٹرن لینے والے ہیں۔ مرزا عمر سلیم نے اپنا ردعمل دیتے ہوئےشاعرانہ انداز اپنایا اور کہا کہ امپورٹڈ حکومت تیری شامت آئی آگے کنواں، پیچھے کھائی۔ کوکو نے لکھا کہ پہلے بین الاقوامی منڈیوں کی قیمتوں کا اندازہ نہیں تھا یا پہلے پیٹرول آسمان سے ٹپک رہا تھا؟ اشعر سید نے کہا کہ خلاصہ یہ ہے کہ ان کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں اور توانائی کیلئے دوا کی کمی ہے جس کیلئے یہ دنیا گھوم آئے ہیں۔
ن لیگ سے اپنے خلاف عمران خان کا ایک جلسہ برداشت نہ ہو سکا ، وزیردفاع خواجہ آصف کے علاقے سیالکوٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے جلسے کو روکنے کیلیے ن لیگ نے مذہبی کارڈ کھیلا اور رکاوٹیں ڈالیں، عوام ایک بار پھر سابق وزیراعظم عمران خان کے گرویدہ ہوگئے، سوشل میڈیا صارفین بطور وزیراعظم اپوزیشن کے دھرنے کیلئے کئے گئے انتظامات کا موازنہ کرنے لگے۔ اسما خان نے لکھا کہ ظرف ظرف کی بات ہے ! یہ ہے میرا لیڈر میرا وزیراعظم عمران خان، جس نے فضل الرحمان کو دھرنے کیلیے ریلیف دیا،تعاون کیا، ہم کبھی بھول نہیں سکتے۔ غلام نواز نے لکھا کہ یہ عمران ہی تھا جس نے اپوزیشن کے دھرنے کے لیے خود انتظامات کئے تھے کہ دیکھنا کسی کو تکلیف نہ ہو یہ ان کا جمہوری حق ہے، آج فاشسٹ یزیدی ماڈل ٹاؤن کی قاتل حکومت نے اظہار رائے پر پابندی لگا دی۔ عاشور نے لکھا کہ یہ ہے جمہوریت ،جو عوام کی طاقت سے آتے ہیں وہ احتجاجوں سے نہیں ڈرتے ۔ اعتصام الحق نے پرانی نیوز شیئر کی اور لکھا کہ یہ ہی فرق ہےعمران خان بطور وزیراعظم اور موجودہ حکمران میں۔ عاقب نے لکھا کہ یہ میرے رہنما کا ظرف ہے۔ راؤ زاہد نے لکھا کہ رات کے 11 بجے دھرنے میں عمران خان کو ننگی گالیاں دی جارہی تھی،شدید ترین بارش شروع ہوگئی،وزیراعظم عمران خان نے سی ڈی اے چئیرمین کو کہا ابھی پہنچو دھرنے میں اور دھرنے والوں کی مدد کرو کھانا دو شیلٹر دو،یہ ہوتی ہے جمہوریت اور آج جو سیالکوٹ میں ہوا وہ فاشزم ہے۔ گزشتہ روز سیالکوٹ میں پاکستان تحریکِ انصاف کے جلسے کی جگہ پر تنازع جلسہ گاہ کا مقام تبدیل کر دیا گیا تھا،جلسہ سی ٹی آئی گراؤنڈ میں نہیں بلکہ وی آئی پی گراؤنڈ میں کیاگیا تھا، سیالکوٹ میں تحریک انصاف کے جلسے کی جگہ کے تنازعہ پر ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے جلسے کے انتظامات رکوا دیے تھے۔ ضلعی انتظامیہ نے چرچ کی ملکیتی جگہ پر جلسے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے نہ صرف سٹیج اکھاڑ دیا بلکہ پی ٹی آئی کے رہنما عثمان ڈار سمیت متعدد کارکنوں کو بھی حراست میں لے لیا تھا۔

Back
Top