سوشل میڈیا کی خبریں

سوشل میڈیا صارفین عرب شکاریوں کی لائیو ویڈیو سوشل میڈیا پر چلانے والے نوجوان ناظم جوکھیو کے قتل پر بول پڑے۔۔ "جسٹس فار ناظم جوکھیو" ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر عرب شکاریوں کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرنے والے نوجوان کے قتل کے خلاف ٹویٹر پر ٹرینڈ چل گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے ضلع ٹھٹہ میں عرب شکاریوں کی لائیو ویڈیو سوشل میڈیا پر چلانے والے نوجوان کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پیپلزپارٹی کے مقامی رہنما جام اویس نے لائیو ویڈیو چلانے والے نوجوان کو اغوا کیا اور کراچی کے علاقے ملیر میں واقع اپنے ڈیرے پر لے جا کر گولیاں مار کر قتل کردیا، نوجوان کو قتل کی دھمکیاں بھی دی گئی تھیں، پولیس کو بھی اطلاع کی مگر تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔ نوجوان کے قتل کے بعد اس کی لاش ملنے پر ورثاء اور دیگر لوگوں نے نیشنل ہائی وے پر مظاہرہ کیا اور لاش سڑک پر رکھ کر نیشنل ہائی وے کے دونوں ٹریکس بند کردیئے۔ مظاہرین نے سڑک پر ٹائروں کو آگ لگائی، کراچی سے ٹھٹھہ جانے والی تمام ٹریفک کو بلاک کیا اور سندھ حکومت و پولیس کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور ٹویٹر پر نوجوان کو انصاف کیلئے "جسٹس فار ناظم جوکھیو" کا ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ کرنے لگا۔ نجی ٹی وی چینل کے صحافی سمیر مندھرو نے اپنی ٹویٹ میں نیشنل ہائی پر ہونے والے احتجاج کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے 8 گھنٹوں سے یہ احتجاج جاری ہے مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر نامزد ملزم کو گرفتار کیا جائے۔ ایک اور صارف نے نامزد ملزمان کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ان دو بھائیوں نے ناظم جوکھیو کو قتل کیا مگر پولیس ورثاء کی مرضی کے مطابق ایف آئی آر درج کرنے میں ہچکچاہٹ دکھا رہی ہے۔ ایک صارف نے کہا کہ تاریخ میں لکھا جائے گا کہ ان خوبصورت پرندوں کی خاطر قانون پسند سندھ کی دھرتی کے ایک بیٹے نے اپنی جان کا نذارانہ دیدیا۔ یادرہے کہ ناظم جوکھیو نے سندھ کے علاقے میں پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما کے غیر ملکی مہمانوں کے شکار کرتے ہوئے کی لائیو ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی تھی جس کے بعد اسے اغوا کیا گیا اور بعد ازاں اس کی لاش کراچی کے علاقے ملیر میمن گوٹھ سے ایک فارم ہاؤس کے باہر سے برآمد ہوئی۔
کچھ روز قبل مفتی منیب الرحمان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ لبرلز حکومت کو اشتعال دلارہے ہیں، جب حکومتی کشتی ڈولنے لگے گی تو سب سے پہلے چھلانگ لگانیوالے یہ لوگ ہوں گے، یہ پہلے کسی کشتی میں پھر دوسری کشتی ہیں ۔۔ مفتی منیب الرحمان نے مزید کہا کہ لال مسجد آپریشن پر یہ حکومت کو بھڑکاتے رہے، جب لال مسجد آپریشن ہوا تو صبح یہ مخالف ہوگئے اس پر مخصوص طبقے کی نمائندگی کرنیوالی ریما عمر نے سخت ردعمل دیا اور کہا کہ مفتی منیب کھلے عام حکومت میں اور حکومت سے باہر "لبرلز" کا مذاق آڑارہے ہیں - تکبر، خوشامد، کم ظرفی سب کچھ واضح ہے۔ ریما عمر نے مزید کہا کہ ایسے لوگوں اور ان کے نفرت انگیز نظریے کی بار بار حوصلہ افزائی کرنے پر حکومت کو شرم آنی چاہیے۔ مفتی منیب الرحمان نے یہ کیوں کہا کہ جب حکومتی کشتی ڈولنے لگے گی تو سب سے پہلے چھلانگ لگانیوالے یہ لوگ ہوں گے اور لال مسجد آپریشن کا حوالہ کیوں دیا؟ دراصل جب لال مسجد آپریشن ہوا تو مختلف صحافیوں کی جانب سے دعوے کئے گئے کہ لال مسجد آپریشن پرویز مشرف نے کچھ لوگوں کے ایماء پر کیا تھا، جب آپریشن ہوگیا تو یہ لوگ مشرف کے خلاف ہوگئے۔ اس پر جاوید چوہدری نے "سرخ بن مانس " کے عنوان سے ایک کالم بھی لکھا جس میں انہوں نے نجم سیٹھی پر الزام لگایا،ا پنے کالم میں جاوید چوہدری نے نجم سیٹھی کو این جی اوز کا مافیا لارڈ قرار دیا اور انکشاف کیا کہ پرویز مشرف نے میرے ساتھ ملاقات میں اعتراف کیا تھا کہ مجھے نجم سیٹھی جیسے لوگوں نے مجھے لال مسجد آپریشن کیلئے اکسایا جب آپریشن ہوگیا تو یہ لوگ بھاگ گئے۔ جاوید چوہدری نے اپنے کالم میں نجم سیٹھی اور اسکے ساتھیوں کو سرخ بن مانس سے تشبیہہ دی اور کہا کہ سرخ بن مانس دنیا کے بیوقوف ترین لیکن وفادار بن مانس ہیں،انکے بارے میں مشہور ہے کہ یہ اپنے مالک کے ماتھے پر سے مکھی اڑانے کیلئے اسکا سرکچل دیتے ہیں۔ اسی طرح مبشرلقمان نے بھی کئی سال پہلے دعویٰ کیا تھا کہ لال مسجد آپریشن میں جیو نیوز کا ہاتھ تھا۔ ایک تقریب میں جیو کے ایک سینئر اہلکار نے ہاتھ کھڑا کرکے کہا کہ لال مسجد والوں کے خلاف آپریشن کریں، ہم آپکو سپورٹ کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان بھی ماضی میں انہیں نشانے پر رکھ سکتے ہیں اور انہیں خونی لبرلز قراردیتے ہیں کچھ سال قبل عمران خان نے کہا تھا کہ مجھے یہ بتائیں کہ ہمارا یہ لبرل کیسا ہے؟ اس سے زیادہ خونی لبرل میں نے نہیں دیکھا۔ ان کو خون چاہیے۔ وزیرستان میں بمباری کرکے گاؤں میں بچے عورتیں مار رہے ہیں لیکن لبرل ہمارا چپ بیٹھا ہے۔ عمران خان نے لبرل کی تعریف کرتے ہوئے کاہ تھا کہ لبرل وہ ہوتا ہے جس میں انسانیت ہوتی ہے، جس میں انسانی قدریں ہوتی ہیں، جو انسانوں کو انسان سمجھتا ہے، جو انصاف کرنے والا ہوتا ہے چاہے اپنے خلاف بھی ہو۔ اور لبرل ہمیشہ اینٹی وار ہوتا ہے۔ وہ جنگوں کے خلاف ہوتے ہیں۔ عمران خان کے اس بیان پر کافی لے دے ہوئی ، مخصوص طبقے اور میڈیا نے عمران خان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا لیکن عمران خان کی متعارف کردہ ٹرم " خونی لبرلز" بہت مقبول ہوئی اور آج بھی تحریک انصاف کے لوگ اور لبرل مخالف لوگ اس ٹرم کو انکے خلاف استعمال کرتے ہیں۔
عالمی سطح پر ہونیوالی مہنگائی کے پاکستان پر بھی بہت برے اثرات مرتب ہوئے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پٹرول 137 روپے لیٹر ہوگیا، خوردنی تیل کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا جبکہ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ابھی پٹرول اور تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ مہنگائی کے پیش نظر گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے عوامی ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ملک کے 13 کروڑ افراد کے لئے آٹا، دال اور گھی پر 30 فیصد سبسڈی کا حامل 120 ارب روپے مالیت کا تاریخی ریلیف پیکج پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ سبسڈی آئندہ 6 ماہ تک ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ 60 لاکھ تعلیمی وظائف کے لئے 47 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں جبکہ کسانوں کو سستے قرضے دینے کا بھی اعلان کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے کورونا وبا کے دوران زراعت، تعمیرات، برآمدات کو خاص طور پر بچایا جس کی وجہ سے چاول کی پیداوار میں 13.6 فیصد، مکئی 8 فیصد، گنا 22 فیصد، گندم 8 فیصد اور کاٹن کی پیداوار میں 81 فیصد اضافہ ہوا جس سے زراعت کے کاشتکاروں کو 1100 ارب روپے اضافی ملے‘ کسانوں کے حالات اچھے ہوئے۔ اس پر عاصمہ شیرازی نے ردعمل دیتے ہوئے سوال کیا کہ امریکہ ، یورپ کی مثالیں دیتے ہوئے وزیراعظم قوم کو بتائیں کہ وہاں فی کس آمدنی کتنی ہے ؟ اسکے بعد عاصمہ شیرازی نے ایک پول بھی شروع کیا جس میں انہوں نے سوال کیا کہ کیا آپ وزیراعظم کے ریلیف پیکج سے مطمئن ہیں؟ عاصمہ شیرازی کے اس پول پر عوام نے رائے دی اور 64,4فیصد کا کہنا تھا کہ وہ مطمئن ہیں جبکہ 35.6فیصد کا کہنا تھا کہ وہ غیر مطمئن ہیں۔ عاصمہ شیرازی کے پول پر شہبازگل نے ردعمل دیا کہ کپتان بھاری اکثریت سے آگے۔ عاصمہ شیرازی جواب دیتے ہوئے شہباز گل نے لکھا کہ جی محترمہ 73 سال سے فی کس آمدنی کم رہنے کا ذمہ دار عمران خان ہے اور ساری دنیا میں مہنگائی کا ذمہ دار بھی ٹیکس ٹو جی ڈی پی کتنا ہے ان ممالک کا؟ اور انٹرنیشنل مارکیٹ میں چیزیں ملکوں کی فی کس آمدنی کے حساب سے نہیں ملتیں کم اور زیادہ آمدنی سب کو ایک ہی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اپنے ایک اور ٹویٹ میں شہبازگل نے عاصمہ شیرازی کو جواب دیا کہ میری بہن جب آپ اتحاد ایئرلائن جہاز کی بزنس کلاس کی ٹکٹ خریدتی ہیں تو کیا وہ ٹکٹ آپ کی فی کس آمدن دیکھ کر جاری ہوتی ہے یا سارے ملکوں کے لئے ایک ہی ریٹ ہوتا ہے ؟ میری بہن تیل بھی انہی ملکوں سے خریدا جاتا ہے
آئی سی سی ٹی20 ورلڈ کپ کے دوران آج بھارت اور افغانستان کے درمیان میچ جاری ہے، میچ میں پہلے اننگز کے دوران ہی سوشل میڈیا پر اس میچ کے فکس ہونے کے تبصرے شروع ہوگئے ہیں۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق آج کے اہم میچ بھارت کیلئے ڈو اور ڈائی کی کیفیت ہے، اور آج جیت کے بھی بھارت کیلئے آسانی نہیں بلکہ آگے کے میچز بھی جیتنا لازمی ہوجائے گا۔ بھارت کی ایونٹ کے پہلے دو میچز میں ہار کے بعد گروپ میں پوزیشن اس قدر کمزور ہوگئی ہے کہ اسے اگلے تمام میچز بڑے مارجن سے جیتنے ہوں گے اس کے بعد بھی آگے جانے کیلئے دیگر ٹیموں کی ہار جیت پر بات جاکر رکے گی۔ آج کے میچ میں افغانستان نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا اور بھارت کو بیٹنگ کی دعوت دی ، بھارتی بیٹسمینوں نے کریز پر آتے ساتھ ہی مار دھاڑ شروع کردی اور افغانستان کے باؤلرز کی وہ دھلائی کرنا شروع کی کہ ٹویٹر صارفین نے اس میچ کو فکسڈ ہی قرار دیدیا اور ٹویٹر پر اس حوالے سے فکسڈ کا ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈنگ کرنے لگا ہے۔ ایک صارف نے کہا کہ یہ میچ 100 فیصد نہیں بلکہ دوسو فیصد فکسڈ ہے، افغانستان کے باؤلرز اسی لائن اور لینتھ پر باؤلنگ کررہے ہیں جس پر انہیں چوکے اور چھکے پڑرہے ہیں۔ ایک صارف نے میچ میں بھارتی بلے بازوں کی شاٹوں کی ویڈیوشیئر کرتے ہوئے کہا اس ویڈیو کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ آج کا میچ فکسڈ ہے۔ ایک صارف نے افغانی فیلڈر کی جانب سے کیچ چھوڑنے کی ویڈیو شیئر کی اور کہا کہ پھر کیسے یہ فکسڈ نہیں ہے۔ ایک صارف نے بھارتی فلم کا ہی ایک منظر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ میچ فکسڈ ہے، فلم کا منظر 2 دوستوں کا ہے جس میں سے ایک کہتا ہے کہ اوور ایکٹنگ مت کر سارا کھیل بگڑ جائے گا۔ ایک صارف افغانستان کے کھلاڑیوں کو ایکٹنگ کا بادشاہ قرار دیدیا۔
گولیاں ، ٹافیاں بسکٹ بیچنے والے بچے کی ویڈیو وائرل۔۔ دیکھنے والے بچے کی تعریفیں کئے بغیر نہ رہ سکے۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں ایک کاسرسوار شخص بچے سے بسکٹ خرید رہا ہے لیکن بچہ زیادہ پیسے لینے کی مقررہ قیمت لینے پر اصرار کررہا ہے۔ تفصیلات کےمطابق گاڑی میں سوار آدمی نے بچے سے بسکٹ خریدا جس کی قیمت 20 روپے تھی اس نے بدلے میں 100 روپیہ دیا، بچے نے لینے سے انکار کردیا کہ میں 20 روپے ہی لوں گا۔ گاڑی کا مالک اصرار کرتا رہا لیکن اس نے کہا کہ اسکے 20 روپے بنتے ہیں وہ 20 روپے ہی لے گا۔ اس پر گاڑی میں سوار شخص نے کہا کہ آپکے پاس جو سامان ہے وہ کتنے کا ہے؟ بچے نے کہا کہ 140 روپے کا، کارسوار نے بچے سے اسکا سارا سامان خریدلیا اور اسے 150 روپیہ دیا لیکن بچے نے گاڑی میں سوار شخص کو 10 روپے واپس کردئیے کہ میں سامان کی قیمت 140 روپے ہے۔ یہ ویڈیو کہاں کی ہے اور کتنی پرانی ہے اسکے بارے میں معلوم نہیں ہوسکا لیکن یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہورہی ہے اور لوگ بچے کی خوب تعریفیں کررہے ہیں۔ اس ویڈیوپر سوشل میڈیا صارفین بھی بچے کی تعریفیں کئے بغیر نہ رہ سکے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اس بچے پر اپنی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور کے والدین پر بھی سلامتی ھو جنھوں نے اپنے بچے کی ایسی بہترین تربیت کی ھے
گزشتہ روز مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف نے ٹویٹر پر بھارتی لابی کی جانب سے کیے گے سٹنٹ "جسٹس فار بلوچستان" کے بینر کی ویڈیو شیئر کردی ۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر مریم نواز نےایک ٹویٹ کی جس میں انہوں نے ایک ویڈیو شیئر کی، ویڈیو 2019 ورلڈ کپ کے دوران ہوا میں ایک بینر کے لہرائے جانے کی تھی جس پر "جسٹس فار بلوچستان" تحریر تھا۔ مریم نواز کو اپنے اس ٹویٹ پر شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑا ، سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ ریم نواز نے آج یہ ٹوئیٹ کرکے آفیشل اعلان کردیا کہ وہ پاکستان میں اسی بھارتی لابی کا حصہ ہیں جو پاکستان میں علیحدگی پسند تحاریک سپانسر کرتی ہیں۔ بعض نے کہا کہ مریم نواز بغض پاکستان میں پاگل ہوچکی ہیں، یہی وہ ملک ہے جس پر ان کےوالد نے دہائیوں حکومت کی ہے۔ شدید تنقید کے بعد ماضی کی طرح مریم نواز نے ایک بار پھر اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ کر دیا۔ اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ کرنے کے بعد مریم نواز نے لکھا کہ میں نے ٹویٹ ڈیلیٹ کردیا کیونکہ کچھ معلوم عناصر اس کی غلط تشریح کر رہے تھے۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ میں اپنے پیارے پاکستان کے تمام پسماندہ لوگوں کے حقوق کے لیے کھڑی ہوں اور کھڑٰ رہوں گا۔ بلوچستان میرے دل کے قریب ہے۔ کوئی بھی پروپیگنڈہ اسے بدل نہیں سکتا۔ بلوچستان کو انصاف دو مریم نواز نے ٹویٹ کیوں دیلیٹ کیا؟ اسکی مختلف وجوہات پیش کی جارہی ہیں، بعض کا کہنا ہے کہ مریم نواز نے شدید تنقید کے بعد ٹویٹ ڈیلیٹ کیا، بعض نے کہا کہ مریم نواز کی ن لیگی سپورٹرز منتیں ترلے کررہے تھے کہ میم پلیز ٹویٹ ڈیلیٹ کردیں۔ بعض کا یہ کہنا تھا کہ شہبازشریف نے مریم نواز سے ٹویٹ ڈیلیٹ کروایا
ویرات کوہلی کے خلاف بھارت میں گالیوں سے بھرا ٹرینڈ ٹاپ پر۔۔ ویرات کوہلی نےگزشتہ روز نہ صرف محمد شامی کے حق میں بولے تھے بلکہ انہوں نے دیوالی پر بھی عوام سے پٹاخے نہ چلانے کی اپیل کی تھی۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز سے ویرات کوہلی کے خلاف ایک نازیبا ٹرینڈ ٹاپ پر ہے جس کی وجہ ویرات کوہلی کا محمد شامی سے متعلق بیان دینا اور عوام سے دیوالی پر پٹاخے چلانے کی بجائے صرف دیا جلانے کی اپیل کرنا ہے۔ گزشتہ روز ویرات کوہلی نے محمد شامی کے حق میں بیان دیا کہ کہ مذہب کی بنیاد پر کسی پر حملہ کرنا ایک گھٹیا عمل ہے، وہ ایسے فضول لوگوں پر ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرنا چاہیں گے۔ بھارتی ٹیم کے کپتان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر بزدل لوگ بیٹھے ہیں جو جس کو چاہتے ہیں ہدف بنا دیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں گزشتہ روز ہی ویرات کوہلی نے دیوالی کے موقع پر عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ دیوالی پر کریکر مت چلائیں، آتشبازی نہ کریں بلکہ صرف چراغاں کریں اور ماحول کو محفوظ کریں۔ ویرات کوہلی کے اس بیان پر بھارتی غصہ میں آگئے اور ویرات کوہلی کے خلاف ایک گالیوں سے بھرا ٹرینڈ چلادیا جو دیکھتے ہی دیکھتے ٹاپ پرپہنچ گیا۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ کہ ویرات کوہلی منافق ہے، ہمیں کہہ رہا ہے کہ آتشبازی نہ کریں ، اسے تب ماحول کا خیال نہیں آیا جب انوشکا شرما کی سالگرہ پر آتشبازی کررہا تھا۔ ایک بھارتی نے ویرات کوہلی کو کپتانی سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ایک نے کہا کہ ویرات کوہلی ہیلووین، گڈفرائیڈے، کرسمس ، تھینکس گیونگ سمیت سب تہوار منانا چاہتا ہے لیکن ہولی اور دیوالی نہیں منانا چاہتا کیونکہ وہ اس کلچر کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ دیگر سوشل میڈیا صارفین نے بھی ویرات کوہلی کوکڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ بعض بھارتیوں نے اس ٹرینڈ کی مخالفت بھی کی اور کہا کہ ہمیں اپنے ہیروز کی قدر کرنی چاہئے، ہم اتنی جلدی یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ویرات کوہلی کی بھارت کیلئے بہت خدمات ہیں اور انہوں نے اپنی پرفارمنس سے بھارت کو کئی میچز جتوائے ہیں۔ اس بھارتی گالیوں بھرے ٹرینڈ پر ایک پاکستانی نے ردعمل دیا کہ ویسے انڈیا ہو یا پاکستان اپنے پلییرز اور اسٹارز کو اسمان سے زمین پر لانے اور زمین سے آسمان پر پہنچانے میں وقت نہی لگاتے۔ یہ پورا خطہ ہی انتہائی جذباتی ہے ابھی ویرات کوہلی کےحوالےسےخبریں آنے کی دیر تھی کہ پورےانڈیامیں ویرات کوہلی کے خلاف گالیوں بھرےٹرینڈز کا آغاز ہوگیاہے
غریدہ فاروقی کے پروگرام کا پینل سوشل میڈیا پر زیربحث۔۔ پاکستان کے امیج پر بحث کیلئے ان کھلاڑیوں کو بلایا جو پاکستان کی بدنامی کا باعث بن چکے ہیں۔ کچھ روز قبل غریدہ فاروقی نے ایک پروگرام کیا جس کا موضوع وقار یونس کا متنازعہ بیان، محمد عامر کا ہربھجن سنگھ سے جھگڑا، شعیب اختر کیساتھ سرکاری ٹی وی پر سلوک، کیا پاکستانی ٹیم فائنل میں پہنچ چکی ہے ؟، تھا اس پروگرام کی دلچسپ بات یہ تھی کہ اس پروگرام میں سلمان بٹ اور دانش کنیریا کو مدعو کیا گیا تھا جو ماضی میں سپاٹ فکسنگ میں ملوث رہے ہیں جن کھلاڑیوں کی وجہ سے ماضی میں پاکستان کی بدنامی ہوئی ان سے غریدہ فاروقی یہ سوال کرتی نظرآتی ہیں کہ شعیب اختر کیساتھ جو ہوا اس سے پاکستان کا امیج کس حد تک متاثر ہوا؟ اس پروگرام میں غریدہ فاروقی نے کامران اکمل سے بھی ماہرانہ تجزیہ لیا، کامران اکمل قومی ٹیم میں طویل عرصے تک وکٹ کیپر کے فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں اور وہ اکثر وبیشتر آسان ترین کیچ ڈراپ کرکے یا مس فیلڈنگ کرکے مخالف ٹیم کا فائدہ کروادیتے تھے اور پاکستان کی شکست کا باعث بن جاتے تھے۔ اس پروگرام میں سپاٹ فکسنگ کی وجہ سے پاکستان کی بدنامی کا باعث بننے والے سلمان بٹ اور دانش کنیریا نے شعیب اخترکیساتھ ہونیوالے سلوک کی خوب مذمت کی اور اسے پاکستان کی بدنامی قرار دیدیا۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ قیامت کی نشانیاں کہ سلمان بٹ، دانش کنیریا اور کامران اکمل غریدہ فاروقی کے ساتھ پاکستان کے تشخص پر پروگرام کر رہے ہیں۔ان حضرات سے میچ فکسنگ بارے ایکسپرٹ مشورہ لیا جانا چاہیے۔ ایک اور سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ ویسے حد ہے بھئی غریدہ فاروقی، دنیش کنیریا اور سلمان بٹ پاکستان کے امیج پر گفتگو کر رہے ہیں۔ یہ کوئی مذاق ہے کیا؟ سوشل میڈیا صارفین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسے کھلاڑی جو پاکستان کی بدنامی کا باعث بنیں انہیں ٹی وی پر موقع نہیں ملنا چاہئے بلکہ انکا بائیکاٹ ہونا چاہئے۔
بھارتی جنتا پارٹی کے رکن راجیہ سبھا سبرامنین سوامی نے پاکستان سے شکست کے بڑھک مارتے ہوئے پاکستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے اپنے ناپاک عزائم کا اظہار کردیا ہے۔ بھارت کی حکمران ہندو انتہا پسند جماعت بھارتی جنتا پارٹی کے رہنما سبرامنین سوامی نے بھارت کی پاکستان کے ہاتھوں بدترین شکست کے اگلے روز ایک بڑھک مارتے ہوئے میچ کی مخالفت کی اور نفرت پھیلانے کا ذریعہ بن گئے ۔ اپنے بیان میں سبرامنین سوامی نے کہا کہ "دہشت گرد پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلنا منظور نہیں ہے، مغل حکمران بھی پاکستان کی طرح ہی تھے مگر ہم نے ان کا نام و نشان مٹادیا"۔ انہوں نے کہا کہ" آج ہم کسی مائیکروسکوپ اور ٹیلی سکوپ کی مدد سے بھی مغلوں کا نام و نشان نہیں ڈھونڈ پاتے۔ سبرامنین سوامی نے پاکستان کے ٹکڑے کرنے کے اپنے ناپاک عزائم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان کے چار ٹکڑے ہونے کے بعد چاروں کے ساتھ کرکٹ کھیل سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ سبرامنین سوامی نریندر مودی کی انتہا پسند جماعت بھارتی جنتا پارٹی کے اہم رہنما ہیں جو اکثر پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے دکھائی دیتے ہیں، ماضی میں انہوں نے اپنی ہی حکومت کو پاکستان اور چین کے ساتھ بیک وقت جنگ لڑنے کا مشورہ بھی دے ڈالا تھا ۔
دبئی: ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ میں بھارتی ٹیم کی شکست کو براہ راست دیکھ کر اداکار اکشے کمار کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ پاکستان اور بھارت کے میچ کے دوران بالی وڈ اداکار اکشے کمار، پریٹی زنٹا، ویویک اوبرائے، ارواشی روٹیلا سمیت کئی دبئی کرکٹ اسٹیڈیم موجود تھے۔ لیکن اداکار اکشے کمار کی پاک بھارت میچ دیکھنے کی تصویر خوب وائرل ہوئی ہے جس میں وہ بھارتی کرکٹ ٹیم کی شکست کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ پاکستانی اداکار اکشے کمار کی تصویر کو لے کر مزاحیہ میمز بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کر رہے ہیں۔ اکشے کمار کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جس کو لیکر شائقین کرکٹ اکشے کمار کو ٹرول کررہے ہیں کہ نہ جاؤ چھوڑ کے کہ دل ابھی بھرا نہیں۔خیال رہے کہ یہ ویڈیو کسی اور میچ کی ہے۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے طنز کیا کہ اکشے کماراب فلم بنائیں گے اور اس میں پاکستان کو 10 وکٹوں سے ہرائیں گے ڈاکٹر فاطمہ کا کہنا تھا کہ پہلے پاکستان کی طرف سے دی گئی اوور تھروز پر اکشے کمار دانت نکال رہا تھا اور میچ کے بعد رورہا ہے۔ اکشے کمار کے ری ایکشن پر جنید نامی سوشل میڈیا صارف نے بھی ویڈیو بناکر شئیر کی۔ دیگر سوشل میڈیا صارفین نے بھی اکشے کمار کے ری ایکشن پر دلچسپ تبصرے کئے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کو جیت کے لیے 152 رنز کا ہدف دیا گیا تھا جسے قومی ٹیم نے جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے 17 اوورز میں ہی مکمل کر لیا اور بھارت کو 10 وکٹوں سے عبرتناک شکست دیدی۔
کرکٹ میچ دیکھنے پر مریم نواز کی وزیراعظم عمران خان پر تنقید۔۔ فوادچوہدری، فرخ حبیب سمیت تحریک انصاف کے رہنماؤں اور سوشل میڈیا صارفین کا مریم نواز کو جواب گزشتہ روز پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹی 20 ورلڈکپ میچ میں پاکستان نے بھارت کو 10 وکٹوں سے شکست دی جس پر پورا پاکستان خوشی سے جھوم اٹھا۔لوگ ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیتے اور دلچسپ تبصرے کرتے ہوئے۔ اس پر صدر مملکت عارف علوی، وزیراعظم عمران خان ، شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت سیاسی رہنماؤں نے بھی بھارت کو شکست دینے پر قومی ٹیم کو مبارک باد دی اور صدر پاکستان اور وزیراعظم پاکستان نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر میچ دیکھتے ہوئے تصویر شیئر کی اور قومی ٹیم کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ٹیم کو مبارکباد اور بابر اعظم کو جنہوں نے ٹیم کو فرنٹ سے لیڈ کیا، رضوان اور شاہین آفریدی نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا، پوری قوم کو آپ پر فخر ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے کرکٹ میچ دیکھنے کی تصویر منظرعام پر آنے پر مریم نواز نے وزیراعظم عمران خان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا، مریم نواز نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ ملک میں خلقِ خدا بھوک، مہنگائی اور نااہلی سے مر رہی ہے اور ان کو دیکھو! بے ضمیری اور بے حسی کا اگر چہرہ ہوتا تو ایسا ہوتا ! مریم نواز کو تحریک انصاف کے رہنماؤں اور حامیوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آج کا دن جشن منانے اور خوشی کا ہے۔ آپ کو آج کیوں تکلیف ہورہی ہے ؟ کہیں اسکی وجہ یہ تو نہیں کہ آپکے انکل مودی کی ٹیم ہارگئی ہے؟ فرخ حبیب نے مریم نواز نے ٹویٹ کو قوٹ کرکے جواب دیا کہ میڈم برنول لگایئے جلن تو محسوس ہوگی کیونکہ آپکے انکل مودی کی ٹیم ہار گئی۔ سینیٹر عون عباس بپی نے جواب دیا کہ آج تک کوئی ایسا ٹویٹ میری نظر سے نہیں گزرا جب پاکستان کے حوالے سے اندرونی یا بیرونی سطح پر کوئی مثبت خبر ہو اور یہ بی بی خوش دکھائی دی ہوں۔ بے حسی و بے ضمیری تو دراصل ان میں پائی جاتی ہے؛ عوام کی اتنی فکر ہے تو باؤ جی سب جائیدادیں بیچ کر بمع اہل و عیال پاکستان کیوں نہیں آجاتے؟ فوادچوہدری نے بھی مریم نواز کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایااور کہا کہ یہ وقت جشن منانے اور ایسے لوگوں کو نظرانداز کرنے کا ہے۔ تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات پنجاب عثمان بسرا نے ٹویٹ کیا کہ اس عورت نے سوچا سارا ملک ہی خوش ہے کوئی آج کسی کو گالی نہیں دے رہا لہذا سونے سے پہلے میں اپنے حصہ کی سوغات سمیٹوں اور سکون سے سو جاؤں حسنین نے مریم نواز کے ٹویٹ کو قوٹ کرتے ہوئے طنز کیا کہ بھارت میں صورتحال شفقت چوہدری نے جواب دیا کہ اصل تکلیف انڈیا کے ہارنے کی ہے اس بی بی کا کچھ نہیں ہو سکتا اس پر آج غصہ نا کریں آج اسکی ٹیم کو پاکستان نے بدترین شکست دی ہے۔ اس لیئے اسکو معاف کریں آج کا دن۔
وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل کو شیریں مزاری کی بیٹی کو بھانجی کہنا مہنگا پڑگیا ہے، ایمان مزاری نے شہباز گل کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ تفصیلات کے مطابق شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان مزاری کی جانب سے حکومت پر شدید تنقید پر ردعمل دیتے ہوئے ڈاکٹر شہباز گل نے کہا کہ آپ سے رشتہ ایسا ہے کہ آپ کو کیا جواب دیں۔ ڈاکٹر شہباز گل کی جانب سے اس ردعمل پر ایمان مزاری نے انہیں کرار جواب دیتے ہوئے کہا کہ میری والدہ کے اردگر جو لو گ موجود ہیں وہ ان کا انتخاب ہے اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ آپ کی بھانجی نہیں ہوں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ آگر میری بات کا آپ کے پاس جواب ہے تو ضرور دیں اپنے ٹرولز کی طرح "ماما ماما" والا منجن مت بیچیں۔ واضح رہے کہ ایمان مزاری ٹویٹر پر اکثر حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتی نظر آتی ہیں، انہوں نے اپنے حالیہ بیان میں شہباز گل کو تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر حکومت چلانے کے قابل ہوتے تو عوام کو ہر وقت مذہب کا درس نہ دے رہے ہوتے بلکہ اپنی کارکردگی دکھا رہے ھوتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جن لوگوں نے ملک کی معیشت تباہ کر دی، میڈیا پر بے شمار قدغنیں لگائیں اور اپوزیشن کو ہراساں کیا ان کے پاس مذہب کے پیچھے چھپنے کے سوا اور کیا راستہ رہ گیا ہے۔ ان کے اس بیان پر جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر شہباز گل نے ٹویٹ کیا اور کہا کہ آپ ہیں تو ہماری بھانجی لیکن آپکا منجن بکتا ہے اپنی والدہ کے ارد گرد موجود لوگوں کو برا بھلا کہنے ہیں۔ آپ سے رشتہ ایسا ہے کہ آپکو کیا جواب دیا جائے۔ بیٹا دبا کے رکھیں۔
نجی ٹی وی چینل کی تجزیہ کار محمل سرفراز کو عاصمہ شیرازی کے معاملے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانا مہنگا پڑگیا، سوشل میڈیا پر صارفین نے انہیں ان کا اپنا ماضی یاد کروادیا۔ تفصیلات کے مطابق اینکر پرسن عاصمہ شیرازی کے خلاف ٹویٹر پر ٹرینڈز چلائے گئے جس کے حوالے سے متعدد صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا، حکومت پر تنقید کرنے والے ان صحافیوں میں نجی ٹی وی چینل کی تجزیہ کار محمل سرفراز نے بھی شامل تھیں۔ محمل نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ عاصمہ شیرازی کے خلاف حکومت نے بھارت کارڈ، مذہب کارڈ اور لفافہ کارڈ استعمال کیا، ان کو ہراساں کیا اور ٹویٹر پر ان کی کردار کشی کی باقاعدہ مہم چلوائی۔ تاہم سوشل میڈیا صارفین نے محمل سرفراز کی 2010 سے 2013 کے درمیان کی گئی ٹویٹس کو شیئر کرتے ہوئے محمل کو یاد دلایا کہ ماضی میں محمل جن اداروں ، صحافیوں اور شخصیات کو شدید تنقید کا نشانہ بناتی آئی ہیں آج وہ اسی ادارے میں ان صحافیوں کی حمایت کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ 2013 میں کی گئی ٹویٹس میں محمل سرفراز جیونیوز اور اس کے رپورٹر احمد نورانی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام عائد کرتی ہیں کہ ان کی جھوٹی خبروں کی وجہ سے انہیں زندگی کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ محمل سرفراز نے پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کے خلاف خبریں نشر کرنے پر جنگ اور جیو نیوز کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ صحافتی ادارے اور صحافی نوازشریف کی جانب سے لفافے پکڑ کر ایک منظم پراپیگنڈہ کررہے ہیں ۔ انہوں نے جنگ اور جیو نواز شریف کے خلاف خبریں نہیں چلاسکتا کیونکہ وہ پیسوں سے ادارے کو خوش رکھتے ہیں صحافیوں کو اپنی جیبوں میں رکھتے ہیں۔ محمل سرفراز نے نہ صرف نواز شریف ، جنگ ، جیو یا رپورٹرز کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا بلکہ انہوں نے ایک ٹویٹ میں سینئر صحافی حامد میر کو بھی رگڑا لگایا اور کہا کہ کیا حامد میر کی کبھی اچھی شہرت تھی؟ یہ ایک مذاق ہے، ہر کسی کو ان کی اصلیت کا علم ہے بس لوگ بولنے سے ڈرتے ہیں۔ واضح رہے کہ آج محمل سرفراز اسی جنگ اور جیو گروپ کا حصہ ہیں اور ان کے ایک پروگرام میں بطور تجزیہ کار پینلسٹ شریک بھی ہوتی ہیں۔
نامور خاتون صحافی عاصمہ شیرازی نے برطانوی نشریاتی ادارے کے اردو پلیٹ فارم پر ایک کالم لکھا جس میں وزیراعظم اور ان کے اہلخانہ کا نام لیے بغیر ذاتی نوعیت کے حملے کیے۔ انہوں نے یہ کالم اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے شیئر بھی کیا۔ خاتون صحافی نے اس کے کیپش میں لکھا کہ اب کالے بکرے سرِ دار چڑھیں یا کبوتروں کا خون بہایا جائے، پُتلیاں لٹکائی جائیں یا سوئیاں چبھوئی جائیں، معیشت یوں سنبھلنے والی نہیں جبکہ معیشت کے تقاضے تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ عاصمہ شیرازی کے اس کالم پر تحریک انصاف کے مختلف رہنماؤں اور حامی سوشل میڈیا صارفین نے سخت مؤقف اپنایا اور عاصمہ شیرازی کے کالم میں کیے گئے دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس طرح ذاتی نوعیت کے حملے نہیں کرنے چاہییں۔ وہ خاتون ہیں انہیں زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسری خاتون پر ذاتی حملے کریں۔ رہنما تحریک انصاف مسرت چیمہ ، علی زیدی، علی محمد خان، میاں محمود الرشید، عالیہ حمزہ اور معاون خصوصی شہباز گل نے کہا کہ وہ سابق حکومت سے مالی فوائد حاصل کرتی رہی ہیں جو اس حکومت سے انہیں میسر نہیں۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے آئندہ عاصمہ شیرازی کے پروگرام میں شرکت نہ کرنے کا بھی اعلان کیا۔ تحریک انصاف کی تنقید کے بعد مخصوص صحافی عاصمہ شیرازی کی حمایت میں بھی سامنے آئے ہیں۔ جن میں اویس توحید، بینظیر شاہ، ریما عمر، محمل سرفراز، زیب النساء برکی، عمار علی جان و دیگر شامل ہیں۔ان صحافیوں نے عاصمہ شیرازی کو اپنے تعاون کا بھرپور یقین دلایا۔ ان صحافیوں کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے رہنما ایک خاتون کو ہراساں کررہے ہیں، اس طرح سے حملوں سے عاصمہ شیرازی کو سچ بولنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ کیونکہ وہ بہادر اور نرم دل شخصیت کی حامل ہیں۔ ان مخصوص صحافیوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ یا انہیں سمجھ نہیں آتی کہ حکومت پر تنقید کرنا اور سوال پوچھنا ہی صحافی کا کام ہے۔ اس میں کسی کی اطاعت کرنے کا تاثر پھیلانا غلط ہے۔ بعض صحافیوں نے تحریک انصاف کے رہنماؤں اور سپورٹرز پر عاصمہ شیرازی کو آن لائن ہراساں کرنے اور کردارکشی کا بھی الزام لگایا ۔ صحافیوں کے اس دفاع پر بعض صحافیوں نے سوالات بھی اٹھائے اور کہا کہ ان صحافیوں کا دفاع بالکل نہیں کرنا چاہئے جو دوسروں پر ذاتی حملے کریں، میڈیا کو حق سچ کی بات کرنی چاہئے ناں کہ ذاتی تعلقات نبھانے چائیں۔ صدیق جان نے تبصرہ کیا کہ اگرننگی ویڈیوزمحمدزبیرکا ذاتی ایشوتھاتو وزیراعظم کی اہلیہ کی روحانیت انکا ذاتی ایشو کیوں نہیں ہے؟ اس بات کا کوئی ایک ثبوت ہےکہ عمران خان نےکوئی تقرری اپنی اہلیہ کےکہنے پر کی ہے؟؟؟ اگرکسی خاتون اینکر کے بارےمیں بغیرثبوت کے کوئی گھٹیا الزام لگائےتواس پران صحافیوں کارد عمل کیاہوگا؟؟ صدیق جان کا مزید کہنا تھا کہ اوردوسری بات یہ ہےکہ روحانیت کوجادواورٹونوں کا نام کیوں دیاجارہاہے؟؟؟ روحانیت اور جادو ٹونے میں زمین آسمان کا فرق ہے، لیکن عمران خان کی نفرت میں پستی کی تمام حدوں کو چھورہے ہیں کچھ لوگ.. کسی کی اسلام سے عقیدت اور محبت کا مذاق اڑانا آزادی صحافت میں آتا ہے؟؟؟ کچھ تو شرم کر لیں. بول ٹی وی کے صحافی امیر عباس نے تبصرہ کیا کہ میں آزادی رائے اور صحافت کا حامی ہوں اور اس پرکسی سمجھوتے کا قائل نہیں۔ اسی لئے حکومتی قانون PMDA کا بھی مخالف ہوں لیکن اگر ہمارے چند صحافی صحافت کے نام پر نامناسب انداز سے ایجنڈے کا بیوپار کریں تو کیا انہیں سات خون معاف ہیں؟ وہ سب اول فُول بَکیں لیکن اگر انہیں جواب دو تو وہ جرم؟ امیر عباس کا مزید کہنا تھا کہ ہم صحافی ساری دنیا کو سبق پڑھاتے ہیں، سوال کرتے ہیں لیکن اگر کوئی ہمیں سبق پڑھائے یا سوال کرے تو ہم چھوئی موئی کیوں بن جاتے ہیں۔ صحافی کا کام کسی ایک جماعت کی ٹاؤٹ گیری یا چاکری کرنا نہیں ہے۔ جب صحافت سے Objectivity ختم ہو جائے تو وہ بدبودار ہو جاتی ہے سماء ٹی وی کی نیوزکاسٹر ارم زعیم نے تبصرہ کیا کہ پاکستان شاید وہ واحد مُلک ہے جدھر جس بھی بھی ڈیپارٹمنٹ کا بندہ اپنی حد پار کرے یا غلطی کرے اور اُس پر عوامی تنقید کا سامنا ہو تو متعلقہ پیٹی بھائی بجائے اصلاح کرنے کے ٹویٹ کرتے ہیں Stay Strong Najma we are with you ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ بشری بی بی بھی ایک خاتون ہے عاصمہ شیرازی بھی ایک عورت ہی ہے مجرمہ مریم نواز بھی کہنے کو ایک عورت ہی ہے اب عاصمہ شیرازی نے مریم کے کہنے پہ بشری بی بی کیخلاف بیہودہ کالم لکھا کسی نے مذمت نہیں کی مگر جب ردعمل آیا تو مریم کے ملازم صحافی عاصمہ شیرازی کا دفاع کر رہے ہیں بلاول واز رائٹ وقار ملک کا کہنا تھا کہ جس طرح چند صحافیوں کے روپ میں سیاسی ورکر آصمہ شیرازی کا دفاع کر رہے ہیں وہ یہاں سے اندازہ لگا لیں کہ کتنی گھٹیا باتیں کی ہیں عاصمہ نے کہ شیریں مزاری نے انہی باتوں پہ اپنی بیٹی کو بھی نہیں بخشا۔ خدا کا واسطہ ہے سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے صحافت کو اور تعفن زدہ مت کرو۔۔
گورنر اسٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالر مہنگا ہونے کو خوش آئند قرار دیئے جانے سے متعلق بیان پر سوشل میڈیا تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ تفصیلات کے مطابق گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے گزشتہ روز ایک تقریب کے دوران یہ بیان دیا کہ اگر ڈالر مہنگا ہوتا ہے تو اس سے اوور سیز پاکستانیوں کے پاس زیادہ پیسہ آتا ہے۔ رضا باقر کی اس نرالی منطق نے سوشل میڈیا صارفین اور اپوزیشن رہنماؤں کو ایک نیا موضوع بحث دے دیدیا جس پر سوشل میڈیا صارفین نے خوب تبصرے بھی کیے اور گورنر اسٹیٹ بینک کو آڑے ہاتھوں بھی لیا۔ مسرت احمد نامی صارف نے کہا کہ ملک کو تباہ کرنے کیلئے اہم عہدوں پر نااہل لوگوں کو بٹھادیں، یہی تو میرے ملک کا المیہ ہے۔ سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ رضا باقر کے ٹرینڈ کے تحت لاتعداد ٹویٹس ہوچکی ہیں، بلال خان نے کہا کہ رضا باقر کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا صدر بنادینا چاہیے، ان کی پالیسیوں کی بدولت جلد پاکستان جاپان کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا۔ ایک اورصارف نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو آپ تمام پاکستانیوں کو ملک سے باہر بھیج دیں تاکہ وہ زیادہ پیسہ کماسکیں۔ نعمان خان نے اس اعلی منطق کو پیش کرنے پر رضا باقر کو ستارہ جرات یا ستارہ حسن کارکردگی سے نوازنے کی درخواست کردی۔ ایک صارف نے پنجابی میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ رضا باقر کا کہنا ہے میرے تمام رشتہ دار بیرون ملک کمانے کیلئے گئے ہیں ہمیں تو فائدہ ہی فائدہ ہے، باقی 22 کروڑ عوام بھاڑ میں جائے۔ ضیغم نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ آٹے اور چینی کی قیمتیں بڑھنے سے پاکستانی کو تکلیف ہوتی ہوگی وہیں کچھ لوگوں کو اربوں کا فائدہ بھی پہنچتا ہے۔ ایک صارف نے ہارورڈ یونیورسٹی کو کوس ڈالا۔ پرویز نامی صارف نے ایک شعر کا سہارا لیا اور اس صورتحال پر تبصرہ کیا۔
تحریک انصاف کی رہنما اور وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری اور ان کے بیٹی ایمان زینب مزاری کے مابین سیاسی نقطہ نظر کا اختلاف کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کیونکہ دونوں ماں بیٹی کے درمیان اکثر سوشل میڈیا پر نوک جھونک دکھائی دیتی ہے۔ وفاقی وزیر کی صاحبزادی ایمان زینب مزاری اکثر اپنی ٹویٹس کے باعث خبروں کی زینت بنی رہتی ہیں۔ حالیہ ٹویٹ میں انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ اگرملک کو جادو ٹونے سے ہی چلانا تھا تو پھراس قوم کا پیسہ اتنی بڑی کابینہ پر کیوں ضائع ہو رہا ہے؟ انہوں نے مزید کہا ملک کا مذاق جادو ٹونے سے اڑایا جا رہا ہےاورآپ چاہتے ہیں کہ جادو کرنے والوں پر بات بھی نہ ہو، ایسا تو ہرگزنہیں ہوگا۔ ان کی یہ ٹویٹ بی بی سی میں پاکستانی خاتون صحافی عاصمہ شیرازی کے لکھے گئے کالم کے بعد ان کیخلاف سوشل میڈیا پرچلائےجانے والے ٹرینڈز کے تناظرمیں ہی تھا۔ جس کے جواب میں شیریں مزاری نے ٹوئٹر پر ہی بیٹی کو جواب دیتے ہوئے لکھا "مجھے شرمندگی ہے کہ آپ اس حد تک جا کر ذاتی حملے کر رہی ہیں، جب کہ بطورایک وکیل آپ کو علم ہونا چاہیے کہ بغیرکسی ثبوت کے ایسے الزامات عائد کرنا ہتک عزت ہے۔ مگر ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ وہ موجودہ حکومت یا اپنی والدہ کے سیاسی نظریے سے اختلاف رکھتی ہیں وہ حکومت کے علاوہ پاک فوج کے حوالے سے بھی متنازع بیان دے چکی ہیں جس پر خاصی بحث ہو چکی ہے۔ دسمبر 2017 میں ایمان مزاری نے تحریک لبیک کا دھرنا ختم کرانے میں فوج کے کردار اور گرفتار دھرنا شرکا کی رہائی پران میں پیسے تقسیم کرنے سے متعلق معاملے پر بھی ایک بیان دیا تھا جس میں نہایت سخت الفاظ استعمال کیے تھے۔ ایمان مزاری نے کہا تھا کہ اگر آپ کو تھوڑی سی بھی امید ہے کہ پاکستان ایک دن پروگریسو اور جمہوری ملک بن سکے گا جہاں لوگوں کی زندگی اور ان کےحقوق کو تحفظ ہو گا توآپ کو بولنا چاہیے، ڈرنے کا وقت ختم ہو گیا۔ اس پر بھی جواب میں شیریں مزاری نے کہا تھا کہ ایمان کے بیان سے متفق نہیں ہوں۔ پاک فوج کیخلاف بیان بیٹی کی اپنی رائے ہے، جس سے کوئی بھی اختلاف کرسکتا ہے۔ وفاقی وزیر نے مزید کہا تھا ایمان بالغ ہے اور یہ اس کا اپنا نکتہ نظرہے، ہمیں زندگی کے تجربات سے سیکھنا چاہیے۔ 2018 میں بھی ایمان نے ایک بار پھر پاک فوج کی مخالفت کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کو بھی تسلی دے دی تھی۔ ایمان زینب نے لکھا تھا، سویلینز پر بہت ترس آنے لگا ہے، کرپشن پر بھی صرف انہیں نکالا اورغداری کا لیبل بھی صرف انہی پر لگایا گیا۔ انہوں نے نوازشریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ نوازشریف جتنا میں آپ کو اورآپ کی سیاست کو ناپسند کرتی ہوں ، میں آپ کے سوال کا جواب دے سکتی ہوں ، آپ کو اس لیے نکالا کیونکہ آپ سویلین ہیں اور فوجی نہیں۔ وہ پی ٹی آئی رہنما فیصل واوڈا کو بھی تنقید کا نشانہ بنا چکی ہیں، جنوری 2019 میں فیصل واوڈا نے پریس کانفرنس کے دوران مہمند ڈیم کے کنٹریکٹ سے متعلق سوال پرتلخی بھرے لہجے میں صحافی سے کہا تھا کہ ایسے سوال کی صرف آپ سے توقع تھی۔ آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اس کا مائیک پھینک دیتا۔ فیصل واوڈا کے اس جواب پر صحافیوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے بائیکاٹ کردیا تھا۔ ان کے اس رویے کوتوہین آمیز قرار دیتے ہوئے ایمان زینب مزاری نے ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ فیصل واوڈا میں ساکھ اور وقار کے فقدان کے حوالے سے بحث کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔ ایسے وقت میں جب صحافت پہلے ہی گھٹن کا شکار ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ فیصل واوڈا کی جانب سے صحافی پر اس قسم کا حملہ آزادی صحافت کے ساتھ حکومت کے توہین آمیز رویے کی مثال ہے۔
معروف تجزیہ کار اور اینکرپرسن ثنا بُچہ نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ پنجابیوں کا مسئلہ ہے، میں بھی پنجابی ہوں۔ اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ جو پنجابی ہوتے ہیں نہ ان کو آپ مولڈ نہیں کر سکتے۔ ان کو روکا نہیں جا سکتا کیونکہ وہ جوابی کارروائی کے طور پر لڑتے ضرور ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف کا مسئلہ یہی رہا ہے اور اسی لیے وہ آج لندن میں بیٹھے ہیں کہ انہوں نے ان سے پوچھا جن سے پوچھا نہیں جا سکتا۔ سندھی، پختون اور بلوچ ایسا نہیں کرتے انہوں نے بلوچوں کے بارے میں کہا کہ وہ نہ تین میں نہ تیرا میں۔ ان کو تو کچھ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ پنجابی لیڈر سوال کرنا جانتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ نواز شریف کو کچھ بھی کرنا پڑے چاہے جو بھی ان کے راہ میں رکاوٹ حائل ہو وہ لازمی واپس آئیں گے۔ ان کی پروگرام میں اس گفتگو سے سوشل میڈیا صارفین بالخصوص کئی صحافی ناخوش ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے صوبائی تعصب کا تاثر مل رہا ہے۔ اس پر اینکر پرسن ملیحہ ہاشمی نے کہا کہ ہمارے غیور پشتون، سندھی اور بلوچستان والوں کو پنجاب سےالگ دکھانے کی سازش بھارت تو سالوں سے کرتا آیا، اب نوازشریف صاحب کی عقیدت میں ن لیگی صحافیوں نے بھی شروع کر دی۔ عدیل راجہ نے کہا کہ ثنا بُچہ کا کہنا ہے کہ صرف پنجابی لیڈر ہی لڑنا جانتا ہے جبکہ سندھی، پشتون اور بلوچی کسی کھاتے میں نہیں آتے۔کمال معاون خصوصی شہباز گل نے کہا کہ اب کچھ صحافی اس صحافت کے ساتھ بھی کھڑے ہو جائیں گے جس میں پشتونوں، سندھیوں، بلوچوں کو کم تر کہا جا رہا ہے اور پنجابیوں کو افضل۔ اگر یہ بھی صحافت ہے تو پھر بلاول درست ہی کہتا ہے۔ مہر بخاری صاحبہ، مظہر عباس صاحب، فہد حسین صاحب اس صحافت کے بھی آپ ساتھ ہی کھڑے ہوں گے یقیناً؟ اکرم راعی نامی صحافی اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے کہا کہ زمانۂ جاہلیت میں ابولہب اور زمانۂ جدید میں ہٹلر نسلی تفاخر کا شکار تھا۔ کروڑوں انسان ہٹلر کے نسلی تفاخر کی بھینٹ چڑھے۔ اب ثناء بُچہ پنجابی تفاخر کے اظہار کے ساتھ سندھی پشتون بلوچ کی تحقیر و تذلیل بھی کر رہی ہیں۔ کیا صحافی کو نسلی تعصبات پھیلانے کی مادر پدر آزادی ہے؟ ندیم زیدی نے کہا ثنا بچہ کہتی ہیں کہ سندھی، پختون اور بلوچ کسی گنتی میں نہیں لیکن پنجابی لڑتا ہے، سوال اٹھاتا ہے اور نوازشریف بھی آج اسی لیے لندن میں بیٹھے ہیں کہ انہوں نے سوال اٹھائے ہیں، نوازشریف واپس بھی آئیں گے اور ان کی نااہلی بھی ختم ہو گی۔ او بی بی اکھاں کھول لاہور آ گیا ای! فاروق خان نیازی نے لکھا ثناء بچہ نے اپنے ایک پروگرام میں کہا ہے کہ بیچارے بلوچوں کو نہ تین میں نہ تیرا میں سمجھا جاتا ہے بلوچ بھائیوں کا ثنا بچہ کے اس خیال کے بارے میں کیا کہنا ہے؟ ریحانہ آنسہ نے لکھا محترمہ ثنا بُچہ ایسے فرما رہی ہیں جیسے نواز شریف کے 40 بکسے لے کر سعودی عرب معافی نامہ لکھ کر دس سالوں والی بات کوئی نہیں جانتا۔ عبدالمتین نے ثنابُچہ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اعلان کر دیا۔ متوکلی خان نے کہا ثناء بچہ کو پنجاب میں ہی پالا جاسکتا ہے پٹھانوں سے نفرت تو سمجھ آرہی ہے کہ انھوں نے ایک نااہل پرچی سرکار سے جان چھڑائی جس سے لفافے سیاسی طورپر بے روزگار ہوگئے۔ صحافی عمر انعام بولے کہ یہ گفتگو بتا رہی ہے کہ پیسوں اور عہدوں کی صحافت کا چراغ بس بجھنے ہی والا ہے۔ انشا اللہ جلد پاکستانی صحافت ان جیسوں سے پاک ہوگی۔
نجی ٹی وی چینل کی اینکر پرسن اور صحافی عاصمہ شیرازی کے بی بی سی میں لکھے گئے کالم کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے، ٹویٹر پر صارفین نے عاصمہ شیرازی کے حق اور مخالفت میں ٹرینڈز چلادیئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق عاصمہ شیرازی نے بی بی سی اردو کیلئے ایک کالم لکھا جس میں وزیراعظم عمران خان اور انکی اہلیہ کا نام لئے بغیر ان پر ذاتی حملے کئے۔ عاصمہ شیرازی نے یہ کالم اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بھی شئیر کیا اور لکھا کہ اب کالے بکرے سرِ دار چڑھیں یا کبوتروں کا خون بہایا جائے، پُتلیاں لٹکائی جائیں یا سوئیاں چبھوئی جائیں، معیشت یوں سنبھلنے والی نہیں جبکہ معیشت کے تقاضے تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ عاصمہ شیرازی کی ٹویٹ کے بعد تحریک انصاف کے رہنماؤں نے انہیں ٹویٹر پر آڑے ہاتھوں لیا، وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل اور عاصمہ شیرازی کے درمیان ٹویٹرآمنے سامنے آگئے اور ایک دوسرے سخت الفاظ میں تنقید کرتے رہے۔ اسی دوران ٹویٹرپر 2 ہیش ٹیگز " بائیکاٹ سرکار ہاجن" اور "عاصمہ شیرازی" ٹرینڈنگ لسٹ میں آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ٹاپ ٹرینڈ بن گئے۔ صارفین نے عاصمہ شیرازی کی جانب سے کالم میں عمران خان اور ان کی اہلیہ کی ذاتی زندگی پر کیے گئے طنز کو شدید ناپسند کیا اور اس حرکت کی مذمت کی۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما میاں محمود الرشید نے کہا کہ پارٹی چئیرمین اور وزیراعظم عمران خان اور خاندان پر ذاتی حملے اور الزامات کی جانبدار صحافت کرنے پر آئندہ سے عاصمہ شیرازی کے شو کا حصہ نہیں بنوں گا۔ سوشل میڈیا صارفین عاصمہ شیرازی کے بائیکاٹ کا ٹرینڈ چلا رہے ہیں۔کامران نے لکھا زاتی حملوں کے بعد جو پی ٹی آئی رہنما عاصمہ شیرازی کے پروگرام میں جائے گا اس کے خلاف بھی مہم چلائی جائے گی۔ یاسر اقبال خان نے عاصمہ شیرازی کی 2 تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ اگر ہمارے پیسوں سے لوٹی رقم کو مسلم لیگ ن کی حکومت کی جانب سے صحافت میں خرچ کیے جانے کا چہرہ ہوتا تو ایسا ہوتا۔ ایک اور صارف نے کہا کہ اگر پیسے کیلئے کسی کی کردار کشی کرنے کا عمل ایک انسان ہوتا تو ایسا ہوتا۔ ایک صارف نے عاصمہ شیرازی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی زبان پاکستان کی حقیقی صحافت کی عکاسی نہیں کرتی آپ پاکستانی صحافت پر ایک کالا دھبہ ہیں۔ رانا غزہ علی خان نے ایک تصویر شیئر کی جس میں پاکستان کے نامور صحافیوں کی تصاویر شامل تھیں، انہوں نے کہا یہ سب پاکستان کے دشمن ہیں۔ وقاص اختر نے کہا کہ عاصمہ شیرازی نے ہمیشہ پارٹی کی صحافت کی ہے، وہ ہمیشہ مسلم لیگ کیلئے اپنی وفاداریاں ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں، اگر انہیں مسلم لیگ ن اتنی پسند ہے تو انہیں صحافت چھوڑ کر ان کا ترجمان بن جانا چاہیے۔ دوسری جانب عاصمہ شیرازی کے حمایتی ٹویٹر صارفین نے بھی ان کے حق میں ٹرینڈ چلایا اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا، ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے والوں میں سینئر صحافی بھی شامل ہیں۔ صحافی و تجزیہ کار عمار مسعود نے کہا میں عاصمہ شیرازی کے ساتھ ہوں۔ نجی ٹی وی چینل کے صحافی عمر چیمہ نے کہا کہ عاصمہ شیرازی کے خلاف کابینہ ارکان کی جانب سے مہم شروع کرنا اور فیک اکاؤنٹس سے ٹرینڈ چلانا مسترد کرتے ہیں۔ شاہد قریشی نے عاصمہ شیرازی کی تصویر شیئر کرتے ہوئے انہیں پاکستانی صحافت کا اصل چہرہ قرار دیا۔ منیزہ جہانگیر نے بھی عاصمہ شیرازی سے یکجہتی کا اظہار کیا اور کہا کہ جمہوریت میں اظہار رائے کی آزادی ہونی چاہیے۔
پاکستان کی نامور خاتون صحافی عاصمہ شیرازی نے برطانوی نشریاتی ادارے کے اردو پلیٹ فارم پر ایک کالم لکھا جس میں وزیراعظم اور ان کے اہلخانہ کا نام لیے بغیر ذاتی نوعیت کے حملے کیے۔ انہوں نے یہ کالم اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے شیئر بھی کیا۔ خاتون صحافی نے اس کے کیپش میں لکھا کہ اب کالے بکرے سرِ دار چڑھیں یا کبوتروں کا خون بہایا جائے، پُتلیاں لٹکائی جائیں یا سوئیاں چبھوئی جائیں، معیشت یوں سنبھلنے والی نہیں جبکہ معیشت کے تقاضے تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کے جواب میں تحریک انصاف کے مختلف رہنماؤں نے سخت مؤقف اپنایا اور عاصمہ شیرازی کے کالم میں کیے گئے دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس طرح ذاتی نوعیت کے حملے نہیں کرنے چاہییں۔ رہنما تحریک انصاف مسرت چیمہ اور معاون خصوصی شہباز گل نے کہا کہ وہ سابق حکومت سے مالی فوائد حاصل کرتی رہی ہیں جو اس حکومت سے انہیں میسر نہیں۔ اس کالم کے چھپنے پر تنقید کے بعد مخصوص صحافی عاصمہ شیرازی کی حمایت میں بھی سامنے آئے ہیں۔ جن میں اویس توحید، بینظیر شاہ، ریما عمر، محمل سرفراز، زیب النساء برکی، عمار علی جان و دیگر شامل ہیں۔ ٹوئٹر پر ہی صحافی اویس توحید نے لکھا کہ درست اخلاقیات جمہوریت کا اہم جزو ہے۔ انہوں نے مزید کہا لیکن اس طرح کے اقوال زریں اپنے مشیران کو روزانہ یاد کرائیں اور عمل کی ہدایت دیں۔ آج ہی ہماری ساتھی عاصمہ شیرازی کی صحافتی کردار کشی کی کوشش کی گئی ہے جو بد تہذیبی ہے اور قابل مذمت بھی۔ فہد حسین نے کہا کہ پی ٹی آئی کے مختلف پارٹی عہدیداروں کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے بڑے پیمانے پر معزز ایوارڈ یافتہ صحافی عاصمہ شیرازی کو آن لائن ہراساں کرنا قابل مذمت ہے۔ پارٹی قیادت کو اسے فوری طور پر روکنا چاہئے۔ بینظیر شاہ نے تحریک انصاف کے آفیشل اکاؤنٹ سے عاصمہ شیرازی کے متعلق ٹوئٹ کا حوال دیتے ہوئے کہا کہ حکمران سیاسی پارٹی کی جانب سے ہماری نڈر خاتون صحافی کو چپ کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ریما عمر نے کہا کہ یہ ثبوت ہے کہ کس طرح ان کی قابل دوست اور خاتون صحافی پر الزام تراشی اور کردار کشی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے ایک اور پیغام میں کہا کہ کیا انہیں سمجھ نہیں آتی کہ حکومت پر تنقید کرنا اور سوال پوچھنا ہی صحافی کا کام ہے۔ اس میں کسی کی اطاعت کرنے کا تاثر پھیلانا غلط ہے۔ محمل سرفراز نے کہا کہ حکمران جماعت کی جانب سے اس طرح خاتون صحافی کو ہراساں کیا جا رہا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرول کہاں بیٹھے ہیں۔ انہوں نے عاصمہ شیرازی کو اپنے بھرپور ساتھ کا یقین دلایا۔ زیب النسا برکی نے کہا کہ اس طرح کے حملے کر کے عاصمہ شیرازی کو چپ نہیں کرایا جا سکتا، کیونکہ وہ بہادر اور نرم دل شخصیت کی حامل ہیں۔ یہی نہیں کچھ صحافیوں نے ان کے اس کالم کی کھل کر تعریف بھی کی، عمار علی جان نے کہا کہ عاصمہ شیرازی نے نہایت باکمال کالم لکھا ہے۔ جس سے ان کی بہادری اور بے باکی عیاں ہے حکومت اس سے خوفزدہ نظر آ رہی ہے۔ اس کے ترجمان بھی پریشان ہیں۔ ابصار عالم نے کہا کہ بہت اعلیٰ آپ کی بات اور تجاویز اچھی اور میانہ روی والی ہیں۔ کاش کہ لوگ چند الفاظ کی بجائے پورا کالم پڑھ کر تبصرہ کریں۔ صحافی مظہر عباس نے عاصمہ شیرازی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ہمیشہ عاصمہ شیرازی کو ایک اینکر بننے سے پہلے ہی محنتی صحافی کے طور پر پایا۔ ان کے خیالات سے اختلاف ہوسکتا ہے اور کسی دوسرے صحافی کی طرح وہ اپنے خیالات پر تنقید کا نشانہ بھی بن سکتی ہے لیکن دھمکی اور ہراساں کرنا صرف ناقابل قبول ہے۔ میں عاصمہ شیرازی کے ساتھ کھڑا ہوں۔ افتخاراحمد کا کہنا تھا کہ لفظوں کا جو استعمال عاصمہ شیرازی نے کیا ہے یہ پچھلے دو سال سے چھپنے والے استعاروں اور تشبیہوں پر مبنی تحریروں کے حوالہ سے بہترین کالم قرار دیا جا سکتا ہے۔اس کی مخالفت کرنے والے لفظوں کے استعمال کو سمجھنے سے عاری ہیں۔۔اس کی مخالفت کرکے وہ خود ہی اس کی تشہیر کر رہے ہیں منصور علی خان نے بھی عاصمہ شیرازی کی حمایت کی۔ طاہر عمران میاں نے بھی عاصمہ شیرازی کے کالم کی اپنے الفاظ میں تعریف کی۔ ماجد نظامی نے لکھا کہ صحافی عاصمہ شیرازی کی تحریر پر 60 منٹ گزرنے سے پہلے ہی حکومتی جواب آنا ظاہر کرتا ہے کہ تحریر کی کاٹ تلوار کی دھار سے کہیں زیادہ کاری ثابت ہوئی۔
عاصمہ شیرازی کے وزیراعظم عمران خان اور انکی اہلیہ پر ذاتی حملے۔۔ شہباز گل اور عاصمہ شیرازی آمنے سامنے عاصمہ شیرازی نے بی بی سی اردو کیلئے ایک کالم لکھا جس میں وزیراعظم عمران خان اور انکی اہلیہ کا نام لئے بغیر ان پر ذاتی حملے کئے۔ عاصمہ شیرازی نے یہ کالم اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بھی شئیر کیا اور لکھا کہ اب کالے بکرے سرِ دار چڑھیں یا کبوتروں کا خون بہایا جائے، پُتلیاں لٹکائی جائیں یا سوئیاں چبھوئی جائیں، معیشت یوں سنبھلنے والی نہیں جبکہ معیشت کے تقاضے تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی رہنما مسرت چیمہ نے عاصمہ شیرازی کو جواب دیا کہ آپ کی بددیانتی آپ کی ٹویٹس اور زبان سے واضح ہو جاتی ہے. آج تک آپ نے خود سے متعلق سرکاری حاجن کے خطاب کا جواب نہیں دیا لیکن گھٹیا جملے بازی کر کے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں. آپ آج تک تیسرے درجے کی لفافہ ہیں اور شاید آگے بھی وہی رہیں گی۔ شہباز گل نے عاصمہ شیرازی کو جواب دیا کہ آپ کے کالم کا عنوان ہونا چاہئے مریم کی کہانی عاصمہ کی زبانی۔ آپ کے اس طرح کے ذاتی حملوں پر کوئی حیرت نہیں ہوئی کیوں کہ دو ہی تو مہارتیں ہیں ن لیگ کی۔سرکاری مال کھانا اور ذاتی کردار کشی کرنا۔ اس پر عاصمہ شیرازی نے ردعمل دیا کہ لمبی زبانوں اور چھوٹے دماغوں والے سرکاری مال پر پلنے والے صرف الزام ہی لگا سکتے ہیں کارکردگی کیا دیکھائیں گے۔۔۔ شہباز گل نے عاصمہ شیرازی کو جواب دیا کہ دماغ تو اللہ کی دین ہے۔ چھوٹا دے یا بڑا دے۔ لیکن اس دماغ کو چند ٹکوں پر بیچ دینا ہمارے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ مریم کے کہنے پر ایسے الفاظ لکھنا اور چھپنا آذادی صحافت کے پیچھے۔سرکاری مال پر کون پلتا ہے وہ یہ قوم دیکھ چکی۔میں نے آج تک دو عمرے کئے دونوں اپنے پیسوں سے کئیےاور آپ نے ؟ عاصمہ شیرازی کے اس کالم پر سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے سخت ردعمل دیکھنے کو آیا، سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ آپ صحافت کریں، حکومت جہاں غلط ہے تنقید کریں لیکن اس قسم کی کردارکشی سے پرہیز کریں، ایک عورت کو یہ زیب نہیں دیتا۔کچھ نے عاصمہ شیرازی کو ن لیگ کی وابستگی سے بالاتر ہوکر صحافت کا مشورہ دیا۔ سوشل میڈیا صارفین نے عاصمہ شیرازی کو یاددلایا کہ آپ تو سرکاری خرچے پر حج کرنے اور نوازشریف کیساتھ مفت سفر کرتی رہی ہیں۔ کچھ سوشل میڈیا صارفین نے کہاکہ اس کالم کے بعد کیا بلاول کی بات صحیح ہے کہ میڈیا بھونکتا ہے؟