سوشل میڈیا کی خبریں

عمران خان کا جیل میں بھی جارحانہ رویہ۔۔ جیو کے صحافی اور ثاقب بشیر کے مطابق عمران خان لمبا عرصہ جیل میں رہنے کے موڈ میں ہیں اور انکے روئیے میں کوئی لچک نہیں جیو کے صحافی ارفع فیروز ذکی کے مطابق اتنا عرصہ جیل میں گزارنے کے بعد لگ رہا تھا کہ شاید عمران خان میں کوئی لچک آ جائے گی یا وہ جھک جائے گا لیکن ہمیں ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی بلکہ عمران خان جارحانہ انداز میں نظر آئے عمران خان نے جج کے ساتھ مکالمہ بھی انتہائی جارحانہ انداز میں کیا ! سائفر کیس جیل سماعت کی کوریج میں کیا بیتی ؟ثاقب بشیر صبح اٹھ بجے اڈیالہ جیل کے باہر پہنچے تو سب سے پہلا مرحلہ جیل کے بیرونی دروازے پر فوکل پرسن عمران ریاض کو وہاں موجود بین الاقوامی میڈیا سمیت تمام 16 کے قریب صحافیوں کی لسٹ فراہم کی فوکل پرسن نے یقین دہانی کرائی جیسے ہی اجازت ملے گی آپ کو سماعت کی کاروائی کور کرنے اندر بھیج دیا جائے گیا تقریبا ساڈھے نو بجے پتہ چلا کچھ صحافیوں کی لسٹ آئی ہے تین دوستوں کو گیٹ کے اندر انتظار کا کہا گیا ہمارے انتظار کے دوران فریقین کے وکلا ، اسپیشل پراسیکیوٹرز جیل کے اندر گئے پھر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی فیملی گئی پھر عام پبلک بھی اندر بھیج دی گئی ہم کو دھوپ میں کھڑے ہونے کا مشورہ دیا جاتا رہا اس دوران تین لوگ جو اپنے اپنے صحافی کہہ رہے تھے جن کو عمومی طور پر ایسی کوریج میں نا دیکھا جاتا نا ان کی ترجیحات میں ہوتی ہے (نا انہوں نے اندر جا کر کوریج کی) ان کو حیران کن طور ہم سے پہلے اندر بھیج دیا گیا پھر قریب سوا دس کے بعد سات صحافیوں کو اجازت دی گئی ۔ ایک پولیس اہلکار دس منٹ پیدل چلنے کے بعد اندر کے مرکزی دروازے پر چھوڑ کر آیا وہاں کھڑے اہلکار نے نام اداروں کے نام لکھے انٹری دی ہاتھوں پر مہر لگی سپریڈنٹ جیل کے کمرے میں بیٹھا دیا گیا جہاں ڈپٹی سپریڈنٹ موجود تھے کچھ قیدی باہر نکلنے تک چند منٹ انتظار کا کہا گیا پھر اندر جانے کے لیے دوبارہ سے مکمل تلاشی ہوئی موبائل فون اپنی اپنی گاڑیوں میں چھوڑ کر آگئے تھے ۔ وہاں سے آگے بڑھے پھر نام لکھے گئے وہاں ایک اور اہلکار کے حوالے کیا گیا تو ہم جیل میں باقاعدہ داخل ہو گئے سامنے کچھ قیدی بیٹھے دیکھائی دئیے لیکن جس رستے ہم نے جانا تھا اس رستے میں کوئی نہیں تھا اس رستے میں زبردست صفائی تھی اندر داخل ہوتے لیفٹ مڑے تھوڑا آگے جا کر رائٹ مڑے تھوڑا آگے جا کر پھر لیفٹ مڑے رستے میں ایک چھوٹی سی مسجد بھی آئی کمیونٹی ہال کے باہر پراسیکیوٹرز سائیڈ پر کھڑے تھے ہمیں سیدھا کمیونٹی ہال پہنچا دیا گیا جہاں عام پبلک تقریبا 15 کی تعداد موجود تھی جن ہم تو نہیں جانتے تھے ۔ پی ٹی آئی وکلا نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا عمران خان شاہ محمود قریشی اور جج صاحب ابھی وہاں نہیں آئے تھے سب سے پہلے باہر رہ جانے والے دوستوں کو اندر لانے کے لئے ترکیب لگانا شروع کی ڈاکٹر بابر اعوان اور پی ٹی آئی وکلا کو بین الاقوامی اور قومی میڈیا کے دوستوں کے نام لکھوائے کہا جب جج صاحب آئیں تو انہیں کہیں میڈیا والے بات کرنا چاہتے ہیں جج صاحب کی کرسی ہم سے کافی دور تھی صحافیوں فیملی کے لئے الگ الگ جگہ تھی وکلا اور عمران خان شاہ محمود قریشی ایک ہی جگہ پر تھے ۔ جب جج صاحب آئے تو عمران خان شاہ محمود قریشی کو بھی پہنچا دیا گیا شروع میں ہی میں نے عدالت کے سامنے پوائنٹ آؤٹ کیا باہر ابھی بھی بین الاقوامی اور قومی میڈیا کے صحافی موجود ہیں ان کو فوری طور پر اندر بلایا جائے ایک دو دفعہ جج صاحب نے کہا پھر بات آئی گئی ہو گی کیس کال ہوا دلائل ہوتے رہے دوران سماعت بشری بی بی عمران خان تسبیج کے ساتھ تھے کافی دیر شاہ محمود قریشی اپنی فیملی کے ساتھ عمران خان اپنے وکلا و فیملی کے ساتھ بات چیت میں مشغول رہے ہیں ۔ بشری بی بی نے دو تین دفعہ پرچی بھی عمران خان کو لکھ کردی عمران خان کی بہنوں کو اپنی کرسی پر بھی بیٹھایا بات چیت بھی کی ڈیڑھ گھنٹے کی سماعت میں ایک گھنٹہ بیس منٹ عمران خان شاہ محمود قریشی اپنی فیملیز وکلا کے ساتھ بات چیت مشاورت کرتے رہے ڈپٹی سپریڈنٹ جیل اور پولیس اہکار قریب قریب ہی ان کے کھڑے رہے دو دفعہ چائے بھی آئی جج صاحب نے کہا میڈیا والوں کو بھی چائے پلائیں تین سو کے کمیونٹی ہال میں 40 سے زائد لوگ تھے ۔ ایک منٹ روسٹرم 9 منٹ کے لئے میڈیا سے عمران خان نے بات کی فزیکلی مینٹلی مورال وائز عمران خان شاہ محمود فٹ نظر آرہے تھے گفتگو جارہانہ تھی صلح مزاکرات نرم رویہ کہیں نظر نہیں آیا ایسے لگ رہا ہے لمبی لڑائی کے لیے خود کو تیار رکھے ہوئے ہیں جیل میں بھی رہنے کے لیے تیار ہیں کوئی فکر نہیں تھی۔ ان کے خلاف جو کیس ہے اس میں عمر قید یا سزا موت کی سزا بھی ہو سکتے ہے جب عمران خان شاہ محمود قریشی گفتگو کر چکے تو پولیس نے فوری ہمیں کہا باہر نکلیں عمران خان شاہ محمود دوبارہ وکلا کے ہمراہ روسٹرم پر چلے گئے باقی دوست نکلے تو میں نے دور کھڑے بیرسٹر تیمور ملک سے پوچھا کہ کیس میں ہوا کیا ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ کاپیز تقسیم ہو گئیں 12 کو فرد جرم عائد ہو گی اس دوران پولیس والا بار بار مجھے وہاں سے نکلنے کا کہہ رہا تھا کنفرم ہونے بعد وہاں سے تیزی سے باہر کی رہ لی تاکہ فوری خبر اپنے اپنے چینلز تک پہنچائی جائے یوں جیل سماعت کا سفر اختتام ہوا لیکن جو صحافی دوست جیل کے باہر موجود ہونے کے باجود اندر نہیں جا سکے تھے ان کا مجھے دکھ تھا یہ کوشش کے باوجود ممکن نا ہو سکا
شہباز گل، عمر چیمہ اور اعزاز سید کے درمیان سخت ٹویٹس کا تبادلہ۔شہباز گل کے عمرچیمہ اور اعزازسید کیلئے شکاری کتی، سستے بھڑوے، قبر کا بچھو جیسے الفاظ اپنے ٹوئٹر پیغام میں عمرچیمہ نے لکھا کہ دوسروں سے اپنے لئے آواز اٹھانے کا مطالبہ کرنے سے پہلے پی ٹی آئی کو اعتراف کرنا ہوگا کہ یہ خود انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور مخالفین کیخلاف جھوٹے مقدمات بنانے میں ملوث رہی، مزید برآں اپنی سیاست کیلئے فوج کے جوتے چاٹے اور اب نوبت یہاں تک آ گئی کہ ہر پارٹی کو وہی کچھ کرنا پڑ رہا ہے۔ چ ی م ہ صاحب جن کے اندر انسانیت ہوتی ہے وہ مظلوم سے پہلے یہ نہیں کہتے کہ آپ میرے ساتھ بیٹھ کر پرانا حساب پورا کرو پھر آپ کے لئیے آواز اٹھاؤں گا۔ پی ٹی آئی کے کھاتے میں جو جرم آپ جیسے جعلی دانشور ڈالتے ہیں سبکو پتہ ہے وہ ظلم بھی اسٹبلشمنٹ کے تھے۔ آپ ایسی سپورٹ پاس رکھیں۔ نہیں چاہئیے۔ جواب میں عمر چیمہ نے ٹویٹ کی اور ساتھ میں شہباز گل کی گرفتاری کے وقت عدالت کے باہر وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے سانس اکھڑنے کی ویڈیو شیئر کردی اور کہا کہ مظلوم نہیں تم بدزبان اور بزدل انسان ہو اس پر شہباز گل نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور ماضی میں عمر چیمہ پر ہونے والے تشدد کی تصویر لگاتے ہوئے لکھا کہ عمر چیمہ جتنا بھی گھٹیا صحافی ہو جائے جس دن میں اس پر ہونے والے تشدد کا مزاق اڑاؤں یا اڑانے والے کا ساتھ دوں اللہ مجھے موت دے دے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس نے بھی چیمہ پر تشدد کیا تھا وہ گھٹیا حرکت تھی۔ اور میں اس پر چیمہ کے ساتھ کھڑا ہوں۔ لیکن چیمہ کتنا بڑا احمق ہے کہ آج بھی تشدد پر مزاق اڑاتا ہے۔ حالانکہ خود تشدد کا شکار ہو چکا۔ انہوں نے مزید کہا کہ رانا نثار صاحب میں اللہ کا حضر ناظر جان کر پورے دل سے آپکے اس ٹوئیٹ کی مزمت کرتا ہوں۔ آپ کو بہتر اخلاق دکھانا ہو گا۔ چیمہ پر تشدد ہوا اس پر مذاق نہیں اڑایا جا سکتا۔ ساتھ دیا جا سکتا ہے۔ احترام کیا جا سکتا ہے۔ چیمہ کتنا بھی گر جائے۔ بھلے یہ ہمارا مذاق اڑائے ہم نے اس بات پر مذاق نہیں اڑانا۔ اسکے بعد اعزازسید عمرچیمہ کے دفاع میں آگئے اور شہباز گل کی ٹویٹ کو کوٹ کرتے ہوئے اعزاز سید نے لکھا کہ شہباز گل وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے انٹیلی جینس اداروں کو اپنے رہنما عمران خان اور اسکی اہلیہ کی مخبریاں کیں اور اسی بنا پر ان سے بیرون ملک جانے کی اجازت لی۔ اعزاز سید نے مزید کہا کہ اب باہر بیٹھ کر بھگوڑا گھٹیا باتیں کرتا ہے، یہ ٹویٹ بتاتی ہے کہ اس شخص کے والدین اور اساتذہ نے اسکی ذرا برابر بھی تربیت نہیں کی ۔ ایسی تربیت کرنے والوں پر حیرت ہوتی ہے کیسی پراڈکٹ پیش کی ہے جو ہر وقت انکا نام روش کرتی رہتی یے اعزاز سید کی ٹویٹ پر شہباز گل نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اعزاز سید کا نام لئے بغیر ٹویٹ کیا کہ پتہ چلا ہے ایک شکاری کتی نما صحافتی مرادانی طوائف نے آج پھر مجھے کہا کہ میں ڈیل کر کے باہر آیا ہوں۔ جن کے دروازے پر یہ شکاری قبر کا بچھو سہکتا رہتا تھا۔ انہوں نے ڈیلیں کر کے پریس کانفرنس کیں اور پھنس گئے اور ابھی تک پاکستان میں پھنسے بیٹھے ہیں۔ پریس کانفرنس کے باوجود نام ای سی ایل میں شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں اللہ کے کرم اور عمران خان کی دعاؤں اور تعاون سے سے باہر آیا ہوں۔اور تیری طرح کے سستے بھڑوے جو ڈیلیں کر کے اپنی صحافت بیچتے ہیں وہ تو مرضی سے ایک لفظ نہیں لکھ سکتے۔ میں تو روز خان کے حق دن رات بول رہا ہوں۔ جواب میں اعزاز سید نے شہباز گل کی ایک ویڈیو شیئر کی اور ساتھ لکھا کہ مرحوم اسماعیل گل صاحب عالم ارواح میں پوتے کی زبان دیکھ کر پریشان ہوتے ہونگے کہ پوتا انکے خاندان کا نام کیسے مٹی میں ملا رہا ہے۔
بیرسٹر گوہر خان کو چئیرمین پی ٹی آئی بنانے پر خواجہ آصف کا طنز، سوشل میڈٰیا صارفین کا ردعمل۔۔ نوازشریف کی تحریک استقلال میں شمولیت اور سائیکل پر الیکشن لڑنے کو طنز کا نشانہ بناتے رہے اپنے ٹوئٹر پیغام میں خواجہ آصف نے کہا کہ تحریک انصاف کے نئے چئیرمین کے2008-2022تک 14 سال آصف زرداری قائد رہے ۔ 2022 میں پی ٹی آئی میں آۓ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک سال کے اندر عمران خان کو زرداری صاحب کا تراشہ ھیرا اتنا پسند آیا کہ اپنی کرسی اسکے حوالے کر دی۔ اور اپنے پرانے ساتھیوں کو کوڑا کرکٹ کر دیا۔ خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ اپنی غیر حاضری میں وہ اپنے پرانے ساتھیوں پہ اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ جس شخص نے ساری عمر لوگوں کو دھوکے دیے ھوں اسکے لئیے دوسروں پہ اعتبار مشکل ھو تا ھے۔ انکے مطابق یہ پی ٹی آئ کے لیڈروں اور ورکروں کے لئے کوئ شرم کوئ حیا کا مقام ھے۔ یا ڈوب مرنے کا مقام ھے -کوئ غیرت کھاؤ اس پر صحافی ماجد نظامی نے کہا کہ "تحریک استقلال کے نوجوان رہنما میاں نواز شریف لاہور سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لیں گے۔ تحریک استقلال کی طرف سے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرائے تھے، جو آج جانچ پڑتال کے بعد درست قرار دیئے گئے۔" دوستی اور دشمنی دونوں میں اعتدال اور انصاف سے کام لینا چاہیے۔ ڈاکٹر شہبازگل نے کہا کہ جس کا لیڈر خود بوٹ سے نکل کر تحریک استقلال اور پھر سائیکل بنا رہااس کا خاندانی غلام کسی کی پرانی پارٹی وابستگی دکھا کر غیرت کھانے کو کہہ سکتا ہےخود غیرت نہیں کر سکتا مدثر خان نے ردعمل دیا کہ قومی اسمبلی کی سیٹ خیرات میں مانگنے والا خواجہ آصف اب اس بات پر انگلی اٹھائے گا کہ کون چیئرمین ہو تحریک انصاف کا؟ بشارت راجہ کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف صاحب کے والد محترم سیاہ رو جرنیل ضیاءالحق کی مجلس شوری کے رکن تھے خواجہ صاحب کی جسمانی اور سیاسی پرورش جرنیل کے ٹکڑوں پر ہوئی جرنیل کے ٹکڑوں پر پلنے والا جمہوریت کی روح سے ہی نابلد ہوتا ہے اس لیے خواجہ صاحب کی باتوں کو سیریس نہ لیا کریں عثمان نے ردعمل دیا کہ خواجہ صاحب آپ کا کیا خیال ہے یہ قوم سب بھول چکی ہے۔۔۔؟ یہ اوقت ہے آپ کی اور آپ کے آقاوں کی۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے رانا ثناء اللہ کی تصویر شئیر کرتے ہوئے کہا کہ کہا کہ یہ ڈبل شفٹ والا انکشفاتی تمہارے پنجاب کا صدر ہے پہلے اپنا قبلہ درست کرلو یہ بیوقوفی پر تف کرلو۔ ایک اور سوشل میڈیا صارف نے کہ اکہ ابتداء ایک ائرمارشل کی جماعت سے پھر ضیاء الحق کے مارشل لاء میں ٹریننگ، پھر جنرل حمید گل کی نوازشات! اور یہ پھر اور پھر آج تک جاری! ارم زعیم نے خواجہ آصف کو جواب دیا کہ زرداری کی جوتیاں اُٹھا کر تحریک انصاف کی مُنتخب حکومت کے خلاف سازش کرنے والے زرداری کے تراشے ہیرے کو وزیر خارجہ بنانے والے زرداری کا خلف اُٹھائے ممبر پنجاب اسمبلیوں سے حمزہ شہباز کے لیے ووٹ مانگنے والے نواز شریف کو گالیاں نکالنے والی پیپلزپارٹی کے سندھ ہاؤس میں شہباز شریف کے لیے لوٹے جمع کرنے والے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ کیسز معاف کروانے کے لیے بیچنے والے نواز شریف کے واش روم صاف کرنے والے تک کو لیڈر کا درجہ دینے والے کس بےشرمی اور بےحیائی سے بریسٹر گوہر پر تنقید کر رہے ہیں راوی چین ہی چین کے بجائے زلالت ہی زلالت لکھ رہا ہے۔۔۔۔
قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے عمران خان کے خط پر جواب پر مختلف صحافیوں کے تبصرے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خط کے جواب میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سیکریٹری کی طرف سے یہ واضح کیا گیا ہے کہ انہیں اپنی آئینی ذمہ داریوں کا بخوبی ادراک ہے۔ ایک پریس ریلیز میں چیف جسٹس کے سیکریٹری ڈاکٹر مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر نہ دباؤ ڈالا جاسکتا ہے اور نہ ہی وہ جانبداری کریں گے، لہٰذا جستس فائز اپنے فرائض کی ادائیگی اور اپنے منصب کے حلف کی پاسداری کرتے رہیں گے۔ قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے عمران خان کے خط پر جواب پر مختلف صحافیوں کے تبصرے سامنے آگئے,عمیر جٹ نے لکھا دو گاڑیاں نیلام ہونے سے قبل خبر میڈیا سوشل میڈیا تک پہنچ جانا جائز ہے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے قاضی کو انصاف،قانون و آئین کی پاسداری یقینی بنانے کی درخواست میڈیا سوشل میڈیا تک جانے سے دباو کا تاثر؟؟؟؟؟؟؟ زبیر علی خان نے لکھا جج چیف جسٹس کو خط لکھنا اور پھر ایک سیاسی جماعت کے ترجمان اور ہم خیال صحافیوں کو بھیجنا جائز ہے لیکن خبردار کسی جے انسانی حقوق سے متعلق انصاف کا مطالبہ کیا۔۔۔ قاضی غصہ کرتا ہے ۔ احتسام کیانی نے لکھا سپریم کورٹ کے اعلامیے کا خلاصہ یہ ہے کہ جو طریقہ کار چیف جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب خود کامیابی سے استعمال کر چکے وہ اُن پر آزمانے کی بالکل کوشش نہ کی جائے. راجا محسن نے لکھا جب چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی صاحب خود خط لکھا کرتے تھے چیف جسٹس صاحبان یا دیگر کو تو تب بھئ موصول ہونے سے پہلے میڈیا کو جاری ہو جایا کرتے تھے ، ایک سیاسی جماعت کے سربراہ عمران خان کے خط پر اب یہ دہرے معیار کیوں ؟ عمر انعام نے لکھا پتا تو عمران خان صاحب کو بھی تھا کہ قاضی فائز عیسٰی کبھی اپنے مالکوں کے سامنے سر نہیں اٹھائے گا لیکن اسکے باوجود انہوں نے خط لکھا تاکہ قاضی کے آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق والا ماسک نوچ پھینکا جائے اور وہی ہوا. انور لودھی نے پتا تو عمران خان صاحب کو بھی تھا کہ قاضی فائز عیسٰی کبھی اپنے مالکوں کے سامنے سر نہیں اٹھائے گا لیکن اسکے باوجود انہوں نے خط لکھا تاکہ قاضی کے آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق والا ماسک نوچ پھینکا جائے اور وہی ہوا. انتظار حسین نے لکھاعمران خان کے خط کو سپریم کورٹ عملہ کے زریعیے چیف جسٹس تک پہنچانے کی کوشش کی گئی لیکن اسکو موصول کرنے سے انکار کے بعد یہی راستہ بتایا گیا کہ آپ بزریعہ ڈاک سے خط چیف جسٹس صاحب کو بھجوائیں، اور خط اسی طرح بھجوایا گیا، تمام حقائق چیف جسٹس کے گوش گزار کرنے کا مقصد بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کو روکوانا تھا لیکن پریس ریلیز کے زریعے دیے جانے والے جواب سے ایسی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رک نہیں گئیں. فیصل خان نے لکھا قاضی فائز عیسی نے عمران خان کے خط کا جواب دے کر اپنے حلف کی پاسداری سے انکار کر دیا ہے، قاضی فائز عیسی بہت غصہ ہے کہ عمران خان نے ان کو خط کیوں لکھا رضوان غزالی نے اس طور کی ویڈیو کلپ شیئر کرتے ہوئے کہا چیف جسٹس صاحب آپکے ریفرنس کی بہت ساری چیزیں ہم خود میڈیا میں رپورٹ کرتے رہے ہیں، اس میں اعتراض والی کیا بات ہے؟ پھر کہہ رہا ہوں کہ مورخ کیا لکھے گا کہ قاضی فائز عیسی چیف جسٹس تھے تو لوگ اغواء ہوتے رہے، پورا الیکشن انجنیئرڈ ہوا اور آپ خاموش رہے، اگر کوئی آپکے سامنے رویا تو آپ نے اس خط کا یہ جواب دیا” اظہر ماشوانی نے لکھا ‏ردی والا جب کتابیں لیتا ہے تو اسے بس اس چیز سے غرض ہوتی ہے کہ کتنے کاغذ ہیں، کتنی جلدیں ہیں، کیا رنگ ہے، اور بائنڈنگ کیسی ہے،وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کتاب یا کاغذات کےاندر کیا لکھا ہوا ہے انہوں نے لکھا جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے زیرسایہ چیف جسٹس کا دفتر بھی ردی کی دوکان ہی لگ رہاہے,جہاں درخواستوں کے رَنگ، بائنڈنگ اور تعداد پر تو دھیان ہے لیکن اس میں لکھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور آئین کی پامالیوں کی داستانوں کی کوئی اہمیت نہیں. اظہر مشوانی نے مزید لکھا عمران خان کے خط کے جواب میں جاری کیے گئے اعلامیے میں بھی کاغذات کے رنگ، سائز، بائنڈنگ پر ہی بات کی گئی اور ساتھ ایک دھمکئ کہ “مجھ پر دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا” اکبر نے لکھا ‏حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ پتہ نہیں کیوں قاضی فائز عیسیٰ کو بہت اصول پسند آئیں پسند اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھتے رہے,جبکہ سب کو پتہ تھا کہ بندہ ایک فراڈ ہے بظاہر فائز عیسیٰ نے اسد طور وغیرہ کو استعمال کرکے اپنے ریفرنس میں بچنے کے لئے استعمال کیا صدیق جان نے لکھا قاضی فائز عیسٰی صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ عمران خان نے جس کاغذ پر لیٹر بھیجا ، اس کا سائز کیا تھا؟؟؟
گزشتہ روز اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت ہوئی لیکن عدالتی حکم کے باوجود میڈیا نمائندوں کو سماعت کی کارروائی دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جیل میں کچھ نامعلوم افراد کو بھی بٹھایا گیا جنہیں یہ ظاہر کیا گیا کہ یہ عوام ہے اور کاروائی دیکھنے کو آئی ہے۔ عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھہ نے کہا کہ اوپن ٹرائل کا ڈرامہ کیا جا رہا ہے۔سائفر کیس میں دوران سماعت جب پوچھا گیا کہ یہ 8/10 نامعلوم لوگ کون ہیں تو کہا گیا کہ یہ پبلک ہے .ان میں سے کسی ایک بندے کو نہ عمران خان صاحب یا ان کی فیملی جانتی ہے اور نہ ہی لیگل ٹیم جانتی ہے تو یہ کون لوگ تھے ؟ یہ وہاں کیا کررہے تھے؟ انکا مزید کہنا تھا کہ سائفر کیس پہلے چھپا کے کیس درج کیا گیا،پھر چھپا کے گرفتاری ڈالی گئی،پھر چھپا کے ریمانڈ،پھر چھپا کے ٹرائل،پھر سائفر کے رولز مانگے گئے تو وہ سیکرٹ ،پھر عدالت میں خفیہ رپورٹ پیش کی گئی کہ یہ حساس اداروں کی خفیہ رپورٹ ہے۔کبھی آپ نے ایسے کیس چلتے دیکھا؟ انہوں نے مزید کہا کہ سائفر کیس میں عدالت نے حکم دیا کہ وکلاء،صحافیوں،اور عام پبلک کی رسائی ہو گی لیکن پہلے تو کافی دیر باہر کھڑا رکھا گیا پھر 14 وکلاء میں سے 7 کو اجازت دی گئی،عام پبلک کے نام پر نامعلوم افراد کو درمیان میں بیٹھایا گیا،صحافیوں کو اجازت نہیں دی گئی اور جب سماعت ختم ہوئی تو اس وقت تین صحافیوں کو اندر جانے دیا کیا یہ اوپن ٹرائل ہے ؟ ہم ایسے ٹرائل کو نہیں مانتے! ثاقب بشیر نے کہا کہ جیل کے باہر تو کوئی پبلک اندر نہیں گئی لیکن آج کی جیل سماعت میں موجود پی ٹی آئی وکیل کا دعویٰ ہے کہ آٹھ دس لوگ سماعت کے دوران موجود تھے جو جیل کے قیدی تھے اویس یوسفزئی نے اس پر تبصرہ کیا کہ سمجھ یہ نہیں آ رہی کہ میڈیا سے کیا ڈر ہے؟ میڈیا کو سماعت کی کوریج سے کیوں روکا جا رہا ہے؟ کیس پراسیکیوشن نے لڑنا ہے، عمران خان کے وکلا نے اپنا دفاع پیش کرنا ہے۔ میڈیا کا کام صرف دونوں کے دلائل اور عدالت کا فیصلہ عوام تک پہنچانا ہے صحافی فیاض محمود نے کہا کہ میڈیا کو مکمل رسائی نہ دیکر عدالتی فیصلے کی دھجیاں اڑائی گئیں زین قریشی نے اس پر دعویٰ کیا کہ جیل ٹرائل میں پبلک نہ ہونے پر عمران خان صاحب نے شور مچایا تو تین لوگ بیٹھادیئے گئے تو بظاہر ایجنسی کے لگ رہے تھے۔
اکبر ایس بابر کو گند ڈالنے اور تحریک انصاف کا انتخابی نشان واپس لینے کیلئے لانچ کیا گیا، تجزیہ کاروں کی رائے گزشتہ روز تحریک انصاف کے انٹراپارٹی الیکشن کے بعد اکبر ایس بابر کی انٹری ہوئی، تمام ٹی وی چینلز نے انہیں بھرپور کوریج دی، اکبر ایس بابر نے تحریک انصاف کے الیکشن کو پارٹی آئین کے خلاف قرار دیدیا اور الیکشن کمیشن میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا۔ اکبر ایس بابر کا دعویٰ تھا کہ وہ تحریک انصاف کا الیکشن لڑنا چاہتے تھے لیکن انہیں کاغذات نامزدگی نہیں دئیے گئے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اکبر ایس بابر کو گند ڈالنے اور تحریک انصاف کا انتخابی نشان چھیننے کیلئے لانچ کیا گیا ہے اور اسکے پیچھے وہی قوتیں ہیں جو نہیں چاہتیں کہ تحریک انصاف الیکشن میں حصہ لے۔تجزیہ کاروں کا اشارہ ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے اور الیکشن کمیشن کو بھی اس کھیل کا حصہ قراردیتے ہیں۔ صحافی ثاقب ورک نے تبصرہ کیا کہ اصل میں پی ٹی آئی امیدواروں کو الیکشن میں بلے کے نشان سے دور کرنے کا چیف الیکشن کمشنر کا سارا پلان ایسے وڑا کہ انھوں نے اپنے بڑوں کے ساتھ ساتھ پلان کچھ صحافیوں کو بھی بتا دیا جہاں سے پرچہ آؤٹ ہوگیا جس پر انکی ڈانٹ ڈپٹ بھی ہوئی، ایسے میں انھوں نے اپنے لاڈلے اکبر ایس بابر کو میدان میں لانے کی تجویز دی کہ وہ کوئی گند ڈال سکیں اور اسکو استعمال کرکے پی ٹی آئی امیدواروں کو بلے کے نشان سے دور رکھا جائے ۔ ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ "اکبر ایس بابر کے سامنے آنےکا مقصد ہے کہ پی ٹی آئی کو بلےکانشان نہ مل سکے اور تحریک انصاف بلے کے نیچے الیکشن نہ لڑسکے"۔ نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے اعتزازاحسن نے کہاکہ اکبر ایس بابر تو مچھر کی طرح پیچھے پڑ گیا ہے، اسے گھر بیٹھ جانا چاہئے، قوم بہت آگے جا چکی ہے صحافی رائے ثاقب کھرل نے تبصرہ کیا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی، اکبر ایس بابر کو اتنا ایئر ٹائم ایویں نہیں دیا گیا،الیکشن کمیشن بہت مستعدی سے کام کر رہا ہے۔ عمر انعام کا کہنا تھا کہ وہ اکبر ایس بابر جو پچھلے 18 ماہ میں پی ٹی آئی کارکنان پر ہونے والے مظالم پر چوہے کی طرح بل میں چھپا ہوا تھا وہ کل سے سامنے آ کر پی ٹی آئی کا ماما چاچا بننے کی کوشش کررہا ہے، ن لیگ صحافی ونگ والوں نے بھی اکبر ایس بابر کو آج سے اپنے ابووں کی لسٹ میں شامل کر لیا ہے ملیحہ ہاشمی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اکبر ایس بابر اس وقت پی ٹی آئی کی اس سوتیلی پھوپھی کا کردار ادا کر رہے ہیں جو ہر شادی کے موقع پر منہ پھلا کر بیٹھ جاتی ہیں اور اچھے بھلے رنگ میں بھنگ ڈالنے پہنچ جاتی ہیں۔ اور پھر ان کی خواہش ہوتی ہے کہ میری دیکھا دیکھی اور لوگ بھی اس پٹ سیاپے میں حسب توفیق حصہ ڈالیں۔ اظہرمشوانی نے تبصرہ کیا کہ تب سے یہ relevant بننے کے لیے ہر دوسرے مہینے کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑتا رہتا تھا اور ڈیڑھ سال سے بطور کٹھ پتلی ناچ رہا ہے ڈاکٹر شہبازگل نے تبصرہ کیا کہ ابھی تک مریم اورنگزیب، فیصل کریم کنڈی، پرویز خٹک، فیاض الحسن چوہان، اکبر ایس بابر میڈیا پر آ کر خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ ہم سب پارٹیوں کے بس کی بات نہیں اور عمران خان ہی نہیں ، انکی پارٹی کو بھی الیکشن سے باہر رکھا جائے عمران خان کا مقابلہ کرنے سے کیسے کانپیں ٹانگ رہی ہیں https://twitter.com/search?q=اکبر ایس بابر&src=typed_query
صحافی ثاقب بشیر کا سائفر کیس میں جج ابوالحسنات ذوالقرنین کے حکمنامے پر ردعمل۔۔ جج ابوالحسنات نے کہا تھا کہ پبلک ، میڈیا اور دوسرے لوگ" سماعت کی کاروائی کے دوران موجود تھے۔ صحافی ثاقب بشیر نے حکمنامہ شئیر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ سائفر کیس کی جیل سماعت کے حکم نامے کی ایک بات سمجھ نہیں آئی لکھا گیا "پبلک ، میڈیا اور دوسرے لوگ" سماعت کی کاروائی کے دوران موجود تھے پبلک اور دوسرے لوگ کون تھے ؟ یہ کسی کو نہیں پتہ ۔ انہوں نے مزید کہا کہ باقی رہی بات میڈیا کی تو ۔۔ ہمارے تین دوست اسلام آباد ہائیکورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر رضوان قاضی ، سما ٹی وی سے یاسر حکیم اور اے آر وائی سے بابر ملک کو جب اجازت دی گئی تب پونے گھنٹے کی سماعت ختم ہو چکی تھی آئندہ کی تاریخ پڑ چکی تھی پراسیکوٹرز جیل عدالت سے نکل کر جا رہے تھے انکا کہنا تھا کہ جو ان دوستوں کو رستے میں ملے جج صاحب بھی دوستوں کو دیکھ کر واپس عدالت میں آئے پھر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو بولنے کا کہا وہ بولے اور رپورٹ ہوا انکے مطابق دوسری جانب بین الاقوامی میڈیا بی بی سی ، وائس آف امریکہ ، انڈیپنڈنٹ اردو ، پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا کے باقی رپورٹرز کو چار گھنٹے انتظار کرا کے داخلے کی اجازت نہیں دی گئی
قومی کرکٹ ٹیم کے متعدد کھلاڑی اپنی بیگمات کے ساتھ لاہور سے آسٹریلیا روانہ ہوئے قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی لاہور سے آسٹریلیا روانہ ہونے کے بعد براستہ دبئی سڈنی سے کینبرا پہنچ گئےہیں۔ قومی ٹیم میں 18 کھلاڑی شامل ہیں اور 2 مینجمنٹ ارکان شاہد اسلم اور ڈاکٹر سہیل بعد میں سکواڈ کو جوائن کریں گے۔ قومی ٹیم کے ہائی پرفارمنس کوچ سائمن گرانٹ ہیلمٹ اور بیٹنگ کوچ ایڈم ہولیوک ٹیم کو آسٹریلیا میں جوائن کریں گے۔ پاکستان ٹیم میں 3 ٹیسٹ میچز کی سیریز کا پہلا میچ 14 دسمبر 2023ء سے پرتھ کرکٹ گرائونڈ میں شروع ہو رہا ہے۔ دوسری طرف قومی کرکٹ ٹیم کے متعدد کھلاڑی اپنی بیگمات کے ہمراہ آسٹریلیا پہنچے تھے جس کے باعث متعدد کرکٹ شائقین ان پر برس پڑے۔ قومی کرکٹ ٹیم کے متعدد کھلاڑیوں کی اپنی بیگمات کے ساتھ لاہور سے آسٹریلیا روانہ ہونے کی ویڈیوز کل سے سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں جس پر شائقین کرکٹ کی طرف سے تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ کرکٹ شائقین نے پاکستان کرکٹ بورڈ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے کھلاڑی آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز کھیلنے کے لیے جا رہے ہیں یا ہنی مون منانے جا رہے ہیں۔ ماریہ راجپوت نامی ایکس (ٹوئٹر) صارف نے قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کے اپنی بیگمات کے ہمراہ سڈنی پہنچنے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے پیغام میں لکھا کہ: ہنی مون گروپ سڈنی میں لینڈ کر چکا ہے! امینہ زبیر نامی سوشل میڈیا صارف نے قومی کرکٹ ٹیم کی لاہور سے روانگی کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ: بھائی یہ سیریز ہے کہ ہنی مون ہے!سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹیم کوچ محمد حفیظ، بلے باز امام الحق اپنی بیگم انمول محمود، شاہین شاہ آفریدی اپنی بیگم انشاء، کپتان شان مسعود اپنی اہلیہ نیشے اور کوچ محمد حفیظ بھی اپنی بیگم کے ہمراہ لاہور سے آسٹریلیا کے لیے روانہ ہو رہے ہیں۔ واضح رہے کہ قومی کرکٹ ٹیم نے 6 دسمبر سے 10 دسمبر تک ٹور میچ میں حصہ لینا ہے اور پھر دونوں ٹیمیں 3 ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا پہلا میچ 14 ستمبر کو پرتھ کرکٹ گرائونڈ میں کھیلیں گی۔ آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں قومی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کی ذمہ داریاں شان مسعود کو دی گئی ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں مقدمے سے بری کردیا، احتساب عدالت نے نواز شریف کو دس سال کی سزا سنائی تھی۔تجزیہ کاروں کے مطابق نوازشریف کی 10 سال کی سزا نیب کے ایک منٹ کے دلائل سے ختم ہوگئی۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مریم نواز کی بریت کے فیصلے کے خلاف نیب نے اس وقت اپیل نہیں کی تھی، اب وہ فیصلہ حتمی ہے اس پر ہم دلائل نہیں دے سکتے تو عدالت نے کہا کہ پھر اس کو منظور کرلیں؟ ھس پر نیب نے ہاں میں جواب دیا تو عدالت نے نوازشریف کو بری کردیا۔ بیرسٹر شہزاداکبر نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کو ججوں نے سزا دلوائی آج جرنیلوں نے بری کروا دیا…. پاکستان میں احتساب اور انصاف کی کہانی بھی صرف اتنی سی ہے! اوریا مقبول جان نے اس پر کہا کہ نواز شریف کا نیب کے مقدمات سے بری ہوکر یہ کہنا کہ مجھے اللہ نے سرخرو کیا ہے ، بالکل ویسا ہی ہے جیسے کوئی ڈاکو ، ڈکیتی کے مقدمے میں رشوت دے کر بچ نکلےاور اللہ کو بھی اپنے جرم میں حصے دار بنانے کے لئیے مسجد میں قالین ڈلوائے یا کسی دربار پر لنگر کا اہتمام کردے عمران بھٹی کا کہنا تھا کہ ظاہر عمران خان جس لندن پلان کا زکرکرتے تھے وہ اصلی حالت میں نافذ کیا جارہا ہے اور عمران خان کے موقف کو سچ ثابت کررہا ہے ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ اسلام آبادہائیکورٹ کےنوازشریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں بری کرنےکی حقیقیت بس اتنی سی ہےکہ ایون فیلڈفلیٹس موجود،نوازشریف خاندان ان فلیٹس میں موجود مگر نہ منی ٹریل موجود اور نہ کیس موجود ثاقب بشیر نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نواز شریف کی اپیل میں نیب نے دلائل کے لیے آدھ گھنٹہ مانگا تھا لیکن آدھے منٹ میں ہی سب کچھ بول دیا اور نواز شریف بری ہو گئے مبشرزیدی نے کہا کہ سو آئی ایس پی آر کی ایک لوہار کی محمد عمیر نے تبصرہ کیا کہ اللہ میاں نے کہا میاں صاحب جھوٹا سٹام دو اور چار سال بیماری کے بہانے باہر رہو،ساری دنیا میں جاو پاکستان میں نہ آنا،پھر اللہ نے اپنا حافظ بھیجا جس نے اللہ میاں کا پیغام میاں نواز شریف کو دیا پھر نواز شریف واپس آئے تو اللہ میاں نواز شریف کو سرخرو کیا۔ طارق متین کا کہنا تھا کہ یہ بریت پیچھے ہٹنے سے ہوئی ہے نواز شریف نے بے گناہی کا ثبوت اب بھی نہیں دیا اسداللہ خان کا کہنا تھا کہ نیب اور عدالت مل کر اس نتیجے پر پینچے ہیں کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس سے نواز شریف اور ان کے خاندان کا کوئی تعلق نہیں عدنان عادل نے تبصرہ کیا کہ لندن کے جن ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں نواز شریف چار سال رہ کر پاکستان آئے ہیں ان سے نواز شریف کا کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا۔ اسلیے انہیں بری کر دیا گیا۔ ملیکہ بخاری نے کہا کہ گاڈ فادر کا لفظ انکے لئے ہی لکھا گیا ہے۔ مریم نواز کا ترازو کے پلڑے برابر ہونا پاکستان کی عوام نے دیکھا اور ایک قومی مجرم کو پاکستان کی عدالت نے بری کر دیا۔ قومی مجرم اب ایوان کی زینت بننے کیلئے تیار ہے اور محب وطن، باوقار پاکستانی جیلوں میں اسیر اور قید ہیں۔ نظام عدل کی اس عمدہ کارکردگی پر انکو پاکستان کی عوام سلام پیش کرتی ہے۔ اکبر کا کہنا تھا کہ نیب نے جواب دیا میاں صاحب لاڈلے ہیں انکو بری کردیں
منیب فاروق کے مطابق ایک اور انٹرویو ہونے جارہا ہے اور یہ انٹرویو لاہور کی ایک جانی مانی شخصیت کی سابقہ اہلیہ کا ہے ۔اس خاتون کا انٹرویو کسی چینل کے ذریعے نہیں بلکہ بذریعہ سکائپ ہوگا۔ یہ جانی مانی شخصیت کون ہے؟ آئیے آپکو بتاتے ہیں۔ یہ خاتون اس وقت سامنے آئی جب 1996 اور 1997 میں عمران خان کے خلاف کرداکشی عروج پر تھی۔ عمران خان سیتاوائٹ اور یہودی لابی سکینڈلز کی زد میں تھے تو ایک خاتون انبساط یوسف کی انٹری ہوئی جو یوسف صلاح الدین کیس سابقہ اہلیہ تھیں یہ خاتون بعدازاں مسلم لیگ ق کی مخصوص نشستوں پر ممبرقومی اسمبلی بھی بنیں اور 5 سال رکن اسمبلی رہنے کے بعد اچانک ہی غائب ہوگئیں۔ اس وقت اس خاتون نے عمران خان پر الزامات لگائے اور کہا کہ "میں عمران خان کی نظریں پہچان گئی تھی۔ اس لیے جان بوجھ کر ان کو چاچو کہتی تھی۔ عمران خان مفت خورہ تھا۔ دوسروں کے پلے سے عیاشی کرنا اپنا حق سمجھتا تھا۔ گھر پر عملاً عمران خان کا قبضہ تھا۔ ہر رات نوکروں کے ساتھ حسین لڑکیاں لاتے اور کہتے 'بستر لگادو، بستر لگادو'۔عمران خان حویلی میں جو کچھ کر رہا تھا وہ ناقابل برداشت تھا۔"۔
تحریک انصاف کی چئیرمین شپ چھوڑنے کی خبروں پر مارکیٹ میں نیا بیانیہ لانچ کردیا گیا۔۔ عمران خان نے جیل سے باہر آئے بغیر ہی پریس کانفرنس کردی گزشتہ روز تحریک انصاف کے شیر افضل مروت نے کہا کہ عمران خان پارٹی الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے اور وہ چئیرمین شپ سے دستبردار ہوگئے ہیں جس پر سوشل میڈیا پر خوب شور شرابا ہوا اور طوفان مچ گیا جس پر تحریک انصاف آفیشل کو اسکی تردید کرنا پڑی۔ وقاص اعوان نے تبصرہ کیا کہ اگر عمران خان کے پارٹی چئیرمین شپ سے علحیدہ ہونے سے متعلق خبریں درست ثابت ہوئیں تو یہ جیل کے اندر سے ہی پریس کانفرس سمجھی جائے گی مطالبہ۔ ہی مائنس عمران تھا بشیر چوہدری نے کہا کہ عمران خان نے چیئرمین پی ٹی آئی کے عہدے سے سبکدوشی اختیار کرکے جیل سے باہر آئے بغیر ہی "پریس کانفرنس" کر دی ہے۔ فہیم اختر نے اس صورتحال پر کہا کہ عمران خان قانونی طور پر پی ٹی آئی چیرمین کا عہدہ رکھ سکتے ہیں،،الیکشنز ایکٹ 2017 اور رولز میں ایسی کوئی شق نہیں کہ نااہل شخص پارٹی کا عہدہ نہیں رکھ سکتا انہون نے مزید کہا کہ پہلے پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002 میں تھا کہ پارٹی عہدہ رکھنے کےلیے رکن پارلیمنٹ بننے کی اہلیت ضروری ہے جس کے تحت نواز شریف،مریم نواز اور جہانگیر ترین کو سزا دی گئی تھی،لیکن بعد میں الیکشن کمیشن نے مریم نواز کو پارٹی کا سینئر نائب صدر کا عہدہ رکھنے کی اجازت دی تھی، اسی لئے توشہ خانہ کیس میں نااہلی کے باوجود الیکشن کمیشن نے عمران خان کو پارٹی چیرمین شپ کے عہدے سے نہیں ہٹایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب اگر عمران خان پارٹی چیرمین کا الیکشن نہیں لڑنا چاہتے تو اس کے پیچھے دو وجوہات ہیں، ایک اخلاقی وجہ کہ کیسے جیسی بھی نااہلی ہوئی ہو وہ بندہ پارٹی چلائے ؟ دوسری وجہ الیکشن کمیشن کی جانبداری ہے کیونکہ اگر الیکشن کمیشن نے نواز شریف نااہلی کیس کو وجہ بنا کر عمران خان کے چیرمین بننے پر اعتراض کر دیا تو تحریک انصاف انتخابات سے باہر ہوسکتی ہے۔۔۔۔ ان حالات میں یہ فیصلہ کسی حد تک درست اور قابل فہم ہے
نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں نا صرف غیر مناسب جگت بازی کی گئی بلکہ اس جگت کو مزید ہائی لائٹ کرنے کیلئے ٹائٹل بھی بنایا گیا، سوشل میڈیا صارفین نے سخت ردعمل دیتے ہوئے چینل کے بائیکاٹ کا مطالبہ کردیا۔ تفصیلات کے مطابق پبلک نیوز کے ایک پروگرام میں عدت میں نکاح سے قبل نامناسب جگت بازی کی گئی، چینل کی جانب سے بجائےاس متنازعہ جگت بازی کو حذف کرنے کے اس کا کلپ سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا اور ٹائٹل بھی متنازعہ جگت کو بنایا گیا تاکہ اسے مزید ہائی لائٹ کیا جاسکے۔ پبلک نیوز کی جانب سے اس غلطی اور اس پر ڈٹے رہنے پر سوشل میڈیا صارفین شدید برہم ہوئے اور انہوں نے پروگرام کی پروڈکشن ٹیم اور چینل انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیا، صحافی واینکر مخدوم شہاب الدین نے اس جگت اور ٹائٹل کو قابل مذمت قرار دیا۔ گلفام چوہدری نامی صارف نے لکھا کہ پبلک نیوز کپڑے اتار کر ننگا ناچ کررہا ہے ، ایسی میڈیا انڈسٹری پر فٹے منہ۔ عزیز مغل نامی صارف نے کہا کہ یہ لوگ کس حد تک گریں گے۔ عمیر نامی صارف نے پروگرام کےمیزبان محسن عباس حیدر سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ سے یہ امید نہیں تھی، شرمناک حرکت ہے۔ حنا مختیار نے بھی محسن عباس حیدر کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ خود اس قسم کی صورتحال سے گزر چکے ہیں،آپ کی بہت عزت کرتی تھی مگر آپ کو ایسی گھٹیا مہم کا حصہ بننے سے پہلے تھوڑی شرم کرلینی چاہیے تھی۔
آج بشریٰ بی بی اڈیالہ جیل عمران خان سے ملاقات کرنے گئیں تو انتہائی سخت سیکیورٹی کےباوجود اڈیالہ جیل کے باہر چند نوجوانوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور بشریٰ بی بی کی گاڑی کا گھیراؤ کرلیا۔ ان مظاہرین نے بشریٰ بی بی کے خلاف "عدت میں نکاح نامنظور" اور "کالاجادو نامنظور" کے نعرے لگائے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر مظاہرین نے اپنے چہرے چھپائے ہوئے تھے۔ اس کلپ کے سامنے آتے ہی مختلف صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے اسے عمران خان کو عدالت پیشی سے روکنے کا حربہ قرار دیا اور کہا کہ اس کے بعد عدالت میں جواز پیش کیا جائے گا کہ سیکیورٹی صورتحال کی وجہ سے عمران خان کو عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ سوشل میڈیا صارفین نے اسے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف گھٹیا کمپین کا حصہ قرار دیا اور کہا کہ یہ عمران خان کوتوڑنے کی کوشش ہے لیکن اس قسم کے حربوں سے عمران خان نہیں ٹوٹے گا۔ تحریک انصاف آفیشل نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح کے جعلی کیسز بنائے جا رہے ہیں ویسے ہی جعلی مظاہرین بلائے گئے جو اپنا منہ تک چھپا رہے تھے کیمرے سے اگر کوئی سمجھتا ہے کہ عمران خان کی فیملی کو ہراس کر کے اسے توڑ لیں گے تو یہ ان کی بھول ہے، یہ جتنا بھی نیچے گر جائیں اور گھٹیا پن دکھائں نہ عمران خان ٹوٹے گا نہ اس کے ورکرز حماداظہر نے ردعمل دیا کہ بندہ پوچھے کے یہ حرکت کر کے حکام نے کیا حاصل کر لیا؟ عورت پر کمزور اور چھوٹا آدمی حملہ کرتا ہے۔ دیہاری پر مزدور لا کر ایسی کچھیں مارنا کوئی بہادری نہیں۔ عمران خان کا مقابلہ انتخابی میدان میں کریں۔ عمرجٹ نے تبصرہ کیا کہ اجرتی اینکروں سے اگر مقاصد حاصل نہیں ہوئے نا تو ان بیچارے اجرتی مزدور احتجاجیوں سے کیا ہو گا۔ان غریبوں سے ایسے گھٹیا احتجاج کروانے کی بجائے ان کو گرم کپڑے لے کر دیں دعائیں ملیں گی فیضان خان کا کہنا تھا کہ سائفر کیس میں کل عمران خان کی حاضری آن لائن ہونے کا امکان ہے کیونکہ چالان ابھی پیش نہیں ہوا اور اڈیالہ جیل کے باہر لگنے والا شو تو سب نے دیکھ ہی لیا ہے احتشام عباسی نے کہا کہ مقصد صرف اتنا ہے کہ کل عمران خان کو عدالت پیش نہ کرنے کا جواز پیدا کیا جائے اکبر نے کہا کہ اپنے فیصلہ سازوں کی دماغی حالت دیکھ کر اب تو رونا آتا ہے کہ کن جاہلوں کے ہاتھ ملک لگا ہوا ہے اور یہ کتنے نیچے گرے ہوئے عقل سے پیدل لوگ ہیں لیکن دوسری طرف خوف بھی آتا ہے کہ اس حد تک گرنے والے ہمارے ملک کا کیا کیا نقصان کر چکے ہونگے اور آگے کیا کچھ کرسکتے ہیں رضوان غلیزئی نے تبصرہ کیا کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 509 کے مطابق خاتون پر آوازیں کسنا اور ہراساں کرنے پر تین سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہے۔ کوئی مہذب ملک ہوتا تو کرایے کا یہ ہجوم جیل میں ہوتا۔ ارسلان بلوچ نے کہا کہہ کردار کشی کے بعد اج باضابطہ طور پر بشری بی بی کے اوپر حملہ کیا گیا۔نوٹ کر لو یہ بات مریم رائے نے کہا کہ اب جب عمران خان انکی تحویل میں ہیں تو کہتے ہیں آئن لائن حاضری لگوا لو۔باہر سیکورٹی خدشات ہیں۔۔ اور جب خان صاحب کو گولی لگی تھی وہ چل نہیں سکتے تھے تب کہتے تھے کہ ہر حال میں پیش ہوں۔۔۔ یہ چاہتے کیا ہیں؟؟؟ اور کتنا گرنا ہے؟ احمد وڑائچ نے کہا کہ عمران خان کی جان کو خطرہ ہے، عدالت نہیں پیش کر سکتے، جیل ٹرائل کیا جائے وغیرہ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ کسی نے روکنا ہوتا تو لاہور زمان پارک بھی روک لیتا، اڈیالہ جیل کے سامنے یہ دو نمبری کرانے کا مقصد کچھ اور ہے خرم کا کہنا تھا کہ آج جو کچھ اڈیالہ جیل کے باہر ہوا اُس کے بعد عمران خان کی کل عدالت پیشی مشکل لگ رہی ہے صبغت اللہ ورک نے اس پر ردعمل دیا کہ واضح طور پر گلی کوچوں میں تشدد و انتشار کا منصوبہ ہے تاکہ پرامن سیاسی سرگرمیوں کی راہ روک کر تشدد کو داخل کیا جائے اور اس انتخاب سے فرار کی راہ لی جائے جس کے نتائج کے تصور ہی سے کانپیں ٹانگتی اور جان نکلتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا ک یہ تازہ ترین بیہودگی اس خاک کے اثر سے نکلنے کی مایوس کن کوشش ہے جو دیر سے کرک تک پختونخوا کے عوام نے باہر نکل کر ان کے سروں میں ڈالی!حماقتوں میں تو ان کا روزِ اوّل سےکوئی ثانی نہ تھا، اب گندگی، غلاظت اور بیہودگی میں بھی اپنا سکّہ جماناچاہتےہیں۔ لعنت ہے اس سوچ اور ان کی شرارتوں پر!
بختاور بھٹو نے بھائی بلاول بھٹو اور والد آصف زرداری کے ساتھ اختلافات کی خبریں پھیلانے والوں کو جواب دے دیا, سوشل میڈیا پر خاندان کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا سرخیوں پر یقین نہ کریں - ہم صرف اور ہمیشہ خاندان کے بارے میں پہلے ہیں بختاور کے ٹویٹ پر صارفین نے شدید ردعمل دے دیا, فواد چوہدری کی اہلیہ حبا نے لکھایہ سب سے پہلے آپ کے خاندان کے بارے میں کیوں ہے؟ میری بیٹیوں کا کیا ہوگا جو والد سے دور ہیں اور جب چاہیں اسے دیکھ بھی نہیں سکتیں۔ سعد نجیب نے لکھابختاور بی بی پوری قوم جانتی ہے آپ لوگ ڈرامہ کر رہے ہو، آپ کے بابا، بھائی اور پھوپھو نے کچھ عرصہ شریفوں کے ساتھ ایک تھالی میں مل بیٹھ کر کھایا ہے,کہتے ہیں نا خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ بدلتا ہے,آپ کے بابا اور بھائی نے بھی شریفوں سے گڈ کاپ بیڈ کاپ کھیلنے کی پالیسی سیکھ لی ہے. اینکر ثمینہ پاشا نے لکھاوہ سب تو ٹھیک ہے پر یہ زرداری صاحب نے کپڑے کس کے پہن رکھے ہیںان کے سائز کے نہیں لگ رہے. ایک صارف نے لکھا ان کی اپنی کبھی خوشی کبھی غم فلم چل رہی ہے اوسامہ شفیق نےلکھا زرداری فیملی نے بھی شریف فیملی کی طرح گڈ کاپ بیڈ کاپ کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ یہ صرف ان کا عوام کو بیوقوف بنانے کا نیا ٹوپی ڈرامہ ہے ۔اس لیے گزارش ہے ان لوگوں کو زیادہ سیریس نہ لیں۔ محسن نے لکھاہاں ہم ہمیشہ جانتے تھے۔ آپ ہمیشہ خاندان میں پہلے ہوتے ہیں۔ یہ سب خاندان کے بارے میں ہے. ایک صارف نے روتے ہوئے عوام کی تصویر شیئر کرتے ہوئے طنز کردیا سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر بختاور نے بھی تصویر پوسٹ کی,پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے والد آصف علی زرداری کے ساتھ تصویر شیئر کردی,بلاول نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ سے والد، بہن اور پھپھو فریال تالپور کے ساتھ تصویر جاری کی اور لکھاکہ فیملی. جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے آصف زرداری نے کہا تھا کہ جو پیپلزپارٹی الیکشن لڑے گی اس کا ٹکٹ جاری کرنے کا اختیار بلاول نہیں ان کے پاس ہے، بلاول کو جو ٹکٹ جاری ہوگا اس پر بھی دستخط آصف زرداری کے ہوں گے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری دبئی روانہ ہو گئے تھے جس کے بعد باپ بیٹے میں اختلافات کی خبریں سامنے آئی تھیں تاہم پیپلزپارٹی نے اس کی تردید کی تھی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ آصف زرداری پاور پالیٹکس کے لیے مشہور ہیں جب کہ بلاول بھٹو عوامی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اس لیے دونوں کے درمیان سوچ کا فرق وقتاً فوقتاً مختلف مراحل پر دکھائی دیتا ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ایک جلسے کے دوران بزرگ سیاست دانوں کو گھر بیٹھنے کا مشورہ دیا تھا جب کہ ان کے والد آصف زرداری نے ایک انٹرویو میں کہا کہ بلاول ابھی نوجوان ہیں اور زیرِ تربیت ہیں۔
برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر ڈاکٹر فیصل نے اوورسیز پاکستانیوں کی حب الوطنی پر کڑی تنقید کردی, انہوں نے کہا کہ رہتے برطانیہ میں ذہن پاکستان میں ہیں, پاکستان جائیں وہاں سب فکس کریں, پاکستان میں جو ہورہا وہ اوورسیز کا مسئلہ نہیں. ڈاکٹر فیصل کے اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین نے ردعمل دے دیا, ایک صارف نے لکھا اب ہائی کمیشن کے زریعے ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ اپنے کام سے کام رکھیں، پاکستان میں جو ہو رہا ہے وہ آپ کا مسلہ نہیں ورنہ وہاں آ کے ٹھیک کریں، وہاں جو ہیں ٹھیک کرنے کی کوشش کرنے والے ان کے ساتھ کیا کر رہے ہو تم لوگ؟ انہوں نے مزید لکھا کہ کوئی ان کو بتائے ہمارے ملک کے حلات ہمارا مسلہ ہیں، لوگوں کے خاندان رہتے ہیں پاکستان میں، اور جب ملک کو چلانے کے لیے اوور سیز حصہ ڈالتے ہیں تو ان کو سوال کرنے کا حق بھی ہے اور ان کا مسلہ بھی! پاکستان کو دنیا میں ایک مذاق بنا دیا ہے ایسے لوگوں نے! سعد نے لکھا ایسے لوگ مسلط ھیں ۔۔۔اسی لئے تو بیڑہ غرق ھے اس کا پرائم منسٹر کاکڑ تو کہہ رھا ھے کے اوورسیز پاکستانی یہاں انویسٹ کریں مطلب پیسہ بھیج دیں وھاں کی فکر نا کریں ۔۔۔ کیسے مطمئن بھکاری ھیں یہ احمد وڑائچ نے کہااوورسیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد کی فیملیز پاکستان میں ہیں، پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اس سے انہیں concern رہے گا، یہ عجیب/واہیات logic ہے کہ جو وہاں ہو رہا ہے اسے چھوڑ دیں، ہائی کمشنر کی یہ بات/حرکت شرمناک ہے۔ صابر شاکر نے پوچھاکیا آپ ڈاکٹر صاحب کی رائے سے متفق ہیں ؟؟ انور لودھی نے کہا حکمرانوں کے ساتھ ساتھ سفارتکار بھی نااہل اور نالائق ترین عامر متین بولےڈاکٹر فیصل سے زیادہ بےوقوف یا چاپلوس سفارت کار نہی ہو سکتا۔ ان کو اپنی نوکری کی بنیادی زمہ داری سمجھ نہی آ رہی۔ ان کو کام برطانوی پاکستانیوں کو راغب کرنا ہے کہ وہ دھرتی سے جڑے رہیں اور اس کی مالی اور فکری مدد کریں۔ ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ وہ اپنی مصروف زندگی میں ابھی بھی وقت نکالتے ہیں۔ پاکستان کی بھلائی کے متعلق سوچتے ہیں۔ ہمارا ملک تو چلتا ہی ترسیلات پر ہے انہوں نے مزید لکھا دنیا کا ہر ملک کوشش کرتا ہے کہ اپنے تارکین وطن کو اپنے آبائی وطن سے جوڑے رکھنے کے لیے سوچ بچار کرے۔ یہ عجیب شخص ہے کہ چمچہ گیری کی خاطر شکر گزار ہونے کی بجائے برطانوی پاکستانیوں کی بے عزتی پر اتر آیا ہے۔ بھائ کشمیر کا مسلہ دنیا بھر میں انہی تارکین وطن کی وجہ سے زندہ ہے۔ آئرلینڈ کا مسلہ آئرش امریکیوں کی وجہ سے حل ہوا۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے ملک diversity یعنی آبائ قوم پرستی کو فروغ دیتے ہیں۔ عامرمتین کا کہنا تھا کہ ہم نے برطانوی پاکستانیوں کو دوہری شہریت اس لئے دی ہے۔ ہمارے ہائی کمشنر کو ان کی بے عزتی کرنے کا کوئ اختیار نہی۔ ان کو فلفور واپس بلانا چاہیے اور ان کے خلاف اپنے اختیار سے تجاوز کرنے اور پاکستان کے مفادات کی غلط ترجمانی کرنے پر کاروائی ہونی چاہیئے ایک اور ٹویٹ میں عامر متین نے کہا برطانیہ میں ہمارے کمشنر ڈاکٹر فیصل کا یہ کہنا کہ برطانوی پاکستانی فیصلہ کر لیں کہ وہ برطانوی ہیں یا پاکستانی اپنے عہدے کے غلط ترجمانی ہے۔ کیا یہ بھونڈا مزاق ہے۔ نالائقی ہے یا چاپلوسی۔ جو بھی ہے فیصل صاحب کو فوری پاکستان بلوا کر ان کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کیوں۔ برطانوی پاکستانی دوہری شہریت رکھتے ہیں۔ کیوں بلیک اینڈ وائٹ میں فیصلہ کریں۔ اور آپ کون ہیں یہ کہنے والے۔ اگر ریاست پاکستان اور برطانیہ کو اختلاف نہی تو آپ کو کیا تکلیف ہے۔ شکر کریں کے وہ اپنے آبائ ملک کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کون ہیں یہ فیصلہ کرنے والے کہ بس وہ پیسے بھیجیں اور پاکستان کے متعلق اپنا دماغ استعمال نہ کریں۔ عامر متین بولے اور یہ کیا ضروری ہے کہ پاکستان کے مسائل حل کرنے کے لئے وہاں ہجرت کرنا ضروری ہے۔ کہ اگر آپ کو پاکستان کا درد ہے تو پاکستان چلے جائیں۔ بھئ کیوں۔ آپ مامے لگتے ہیں بتانے والے کہ کب وہ پاکستان کا درد سمجھ سکتے ہیں اور اس کے لئے انہیں وہاں جانا ضروری ہے۔ شرم آتی ہے کہ یہ شخص وزارت خارجہ کا ترجمان تھا۔ اگر ہمارے ترجمان ایسے ہیں تو ہمارا خدا ہی حافظ ہے۔
گزشتہ دنوں حاجرہ خان نامی ایک اداکارہ جن کا نام بہت کم لوگوں نے سنا ہے، نے عمران خان کے حوالے سے ایک کتاب لانچ کی جس میں عمران خان پر سنگین جنسی الزامات عائد کئے گئے۔ اس کتاب کی رونمائی کیلئے سرینہ ہوٹل لاہور میں ایک تقریب منعقد کی گئی جس کے اخراجات معلوم نہیں کس نے اٹھائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تقریب میں طلعت حسین، عمرچیمہ جیسے صحافیوں نے شرکت کی جو ن لیگ کے انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں اور عمران خان کی ذاتی زندگی پر کیچڑ اچھالنے میں مشہور ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ عمران خان پر کتاب لکھی گئی اس سے قبل بھی الیکشن 2018 سے قبل ریحام خان کی ایک کتاب سامنے آئی تھی لیکن یہ کتاب کوئی ڈینٹ نہ ڈال سکی اور عمران خان الیکشن جیت گئے۔تحریک انصاف کے مطابق یہ کتاب ن لیگ نے چھپوائی تھی۔ اس بار بھی حاجرہ خان نے کتاب لانچ کی ، اس نے 2014 میں بھی یہ کتاب شائع کی تھی لیکن پذیرائی نہ مل سکی اور دوبارہ کتاب نئے سرورق اور چند صفحات کے اضافے سے جاری کی، اس کتاب کے بارے میں دعویٰ ہے کہ اسکے پیچھے ن لیگ ہے۔ ن لیگ کا ماضی کا ٹریک ریکارڈ اس کو تقویت دیتا ہے۔ کیونکہ ن لیگ 1988 میں بے نظیر کی کردارکشی کمپین چلاچکی ہےجس میں ہیلی کاپٹر سے بے نظیر کی قابل اعتراض تصاویر پھینکی گئیں، اخبارات اور جرائد میں قابل اعتراض مواد چھپوایا گیا۔ ایسی ہی کمپین 1997 میں عمران خان کے خلاف ن لیگ نے چلائی جس میں سیتاوائٹ اور عمران خان کی مبینہ بیٹی کے سکینڈل کو اچھالا گیا، جمائما خان پر الزامات عائد کئے گئے۔ عمران خان کو یہودی ایجنٹ ڈیکلئیر کیا گیا۔ اسکے بعد 2013 میں بھی عمران خان کی کردارکشی کمپین چلی اور ایک ویڈیو کا دعویٰ کیا گیا اور 2018 میں ریحام خان کی قابل اعتراض کتاب چھپوائی گئی۔ لیکن حاجرہ خان سے قبل ایک کردار ماضی میں بھی سامنے آچکا ہے جس کا نام میڈم طاہرہ ہے اور اس میڈم طاہرہ کو مولانا سمیع الحق کے خلاف استعمال کیا گیا کیونکہ مولانا سمیع الحق جو نوازشریف کے اتحادی تھے انہوں نے نوازشریف حکومت گرانے کی دھمکی دی تھی جس کے بعد یہ سکینڈل سامنے آیا۔ اس پر مولانا سمیع الحق نے تردید کی اور روتے ہوئے سینٹ کی رکینت سے مستعفی ہوکر علیحدہ ہوگئے۔بعدازاں میڈم طاہرہ نے وضاحت کی کہ وہ کسی مولانا سمیع الحق کو نہیں جانتی تھیں لیکن اس وقت تک پانی سر سے گزر چکا تھا، مولانا سمیع الحق سیاست سے علیحدہ ہوچکے تھے اور نوازشریف اپنی حکومت بچانے میں کامیاب ہوچکے تھے۔ صحافی محمد عمیر نے اخبار کا یہ پرانا صفحہ شئیر کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان سے قبل صرف بے نظیر نہیں نواز شریف نے مولانا سمیع الحق کی بھی کردار کشی کروائی۔آجکل سامنے آنے والی کاروباری خواتین کی طرح تب میڈم طاہرہ کو سامنے لایا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مولانا سمیع الحق نے تب نواز شریف کو حکومت گرانے کی دھمکی دی تھی اور اگلے روز ان کے خلاف جنسی سکینڈل سامنے آیا۔ اب بھی نواز شریف کی واپسی پر ایسی خبروں میں تیزی آئی ہے اور نواز شریف نے تحریک انصاف کی خواتین کی کردار کشی بھی اس وجہ سے کی۔ اظہر مشوانی نے اس پر کہا کہ نواز شریف کےخلاف تحریک چلانے والے مولانا سمیع الحق کے بارے میں جب کرائے کی طوائف سے مہم چلوائی گئی تو انہوں نے جواباً یہ کہا: “چاہے 50 ہزار فاحشہ عورتوں سے بکواس کرا لی جائے، اپنے راستے سے نہیں ہٹوں گا۔ اظہر مشوانی کے مطابق 33 سال بعد بھی نہ سکرپٹ بدلے نہ نوازشریف نہ ہدایتکار لیکن اب عوام کو ککھ فرق نہیں پڑتا ایسی بکواسیات سے
پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن، فیصلہ پر سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے شدید ردعمل الیکشن کمیشن آف پاکستان سے پاکستان تحریک انصاف کو انتخابات انتخابی نشان سے متعلق درخواست پر محفوظ تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے مطابق پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن متنازع اور قابل اعتراض ہیں جنہیں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ تحریک انصاف 20دنوں کے اندر انٹراپارٹی الیکشن کروا کر نتائج 7 دنوں کے اندر جمع کروائے، انتخابات کروانے میں ناکامی پر تحریک انصاف اپنے انتخابی نشان کے لیے نااہل قرار پائے گی۔ سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کسی نے کہا اچھا مذاق ہے تو کسی نے کہا تحریک انصاف کے رہنمائوں کو گرفتار کرنے کا منصوبہ ہے۔ سینئر صحافی وتجزیہ نگار ارشاد بھٹی نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ: الیکشن کمیشن جی، مسلم لیگ ن، پی پی اور مولانا کی جماعت کی طرف بھی نظر ڈالیں، ان پارٹیوں میں کبھی انتخابات ہوئے ہیں نہیں ہمیشہ سلیکشن ہوئی، انہیں بھی الیکشن کروانے کا کہا جائے۔ آپ کو یاد ہے کہ کچھ عرصہ پہلے مسلم لیگ ن سے الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ مذاقیہ الیکشن ہی کروا لیں! سینئر صحافی وتجزیہ کار عارف حمید بھٹی نے ارشاد بھٹی کے پیغام پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ : موجودہ الیکشن کمیشن کے ہوتے ہوئے آپ کو اس فیصلے پر حیرانگی کیوں ہو رہی ہے؟ پی ٹی آئی کو ہر ممکن طور پر الیکشن سے باہر رکھنے کی کوشش جاری رہے گی۔ (پلان) سینئر صحافی ثاقب بشیر نے لکھا کہ: اب یہ منصوبہ تو نہیں کہ سارے پارٹی الیکشن کے چکر میں اکٹھے ہوں اور انہیں وہیں سے گرفتار کر لیا جائے، پھر انتخابی عمل جیل میں ہو! عدنان عادل نے لکھا کہ: جو الیکشن کمیشن خود ملک میں آئین کے مطابق بروقت الیکشن نہیں کروا سکا وہ تحریک انصاف کو کہہ رہا ہے کہ 20دنوں میں پارٹی کے الیکشن کروائو، الیکشن کمیشن بڑا مخولیا ہے! ایک صارف نے لکھا کہ: الیکشن کمیشن نے آج ایک باریک واردات ڈال دی ہے ، اب انٹرا پارٹی الیکشن میں ووٹ ڈالنے آنے والے تمام امیدواران کو ایک ہی دن اٹھا لیا جائے گا! سینئر صحافی صابر شاکر نے لکھا کہ: سمیع ابراہیم اور صدیق جان کے قلم سے ! زرا سوچئے کہ کیوں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق صاحب نے 15نومبر کو سپیشل کورٹ کو حکم دیا کہ 13دسمبر تک عمران خان کے سائفر کیس کا فیصلہ سنایا جائے اور آج 23نومبر کو الیکشن کمیشن نے بھی 13دسمبر کی ہی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ: 13دسمبر بظاہر تو اس لیے اہم ہے کہ اگر الیکشن ہونے ہیں تو 13دسمبر کو الیکشن شیڈول کا اعلان ہونا ہے اور 18سے 20دسمبر کاغذات نامزدگی جمع ہونے ہیں،13دسمبر کی ڈیڈ لائن پر الیکشن کمیشن 20دسمبر کو ہی بلے کے نشان پر حتمی فیصلہ دے سکتا تھا! وہاب خان نے تحریک انصاف کراچی کے رہنما فردوس شمیم نقوی کی ویڈیو شیئر کر دی جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ آج الیکشن کمیشن نے عجیب ڈھونگ رچایا ہے، 60دن سے فیصلے پر بیٹھے تھے اور ہمیں کہتے ہیں 20دن میں الیکشن کروائو، برادر، سیدھا بولو آپ کے آقا نہیں چاہتے کہ ہم الیکشن لڑیں!قوم کے 54 ارب روپے بچائو!
مشہور اینکر اور ملک کی مایہ ناز قانون دان عاصمہ جہانگیر کی صاحبزادی منیزے جہانگیر کو اپنے پروگرام میں عمران خان کے نکاح سے متعلق سوال کرنا مہنگا پڑگیا، پروگرام میں شریک سینئر وکلاء نے منیزے جہانگیر کے سوال پر جواب دینے سے انکار کردیا۔ تفصیلات کے مطابق منیزے جہانگیر نے آج نیوز پر اپنے پروگرام"سپاٹ لائٹ" میں عمران خان کے مبینہ طور پر بشریٰ بی بی کی عدت پوری ہونے سے قبل نکاح کرنے سے متعلق سوال اٹھایا جس پر پروگرام میں شریک بیرسٹرجہانگیر جدون نے کہا کہ میں ایسے نجی معاملات سے متعلق سوال پر کوئی ردعمل نہیں دے سکتا۔ منیزے جہانگیر نے اس سوال کو دوبارہ اٹھاتے ہوئےحسن رضا پاشا سے پوچھا کہ اگر عمران خان اس معاملے میں نااہل ہوگئے تو کیا ایسا نہیں ہوگا کہ ایک اور وزیراعظم نااہلی کی بھینٹ چڑھ گیا؟ حسن رضا نے کہا کہ فیملی میٹرز کو سیاسی طور پر استعمال یا مس یوز نہیں کرنا چاہیے، میں جہانگیر جدون کی بات کی توثیق کرتا ہوں، میں نے آج تک کسی سیاستدان کی ذاتی زندگی کے بارے میں بات نہیں کی، اس معاملے پر ڈسکشن بھی نہیں ہونی چاہیے، یہ ان کا اپنی اہلیہ کے ساتھ معاملہ ہے۔ پروگرام میں شریک سینئر وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عمران خان کے خلاف یہ کیس ایک انتہائی کمزور مقدمہ ہے، اگر یہ کیس چلے گا تو اس کو کرنے والے اس کیس سے بھاگیں گے، اس کیس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ منیزے جہانگیر کی جانب سے بار بار اس سوال کو اٹھانےا وروکلاء کی جانب سے جواب نا دینے پر پاکستا ن تحریک انصاف کے رہنماؤں، صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے منیزے جہانگیر کو آڑے ہاتھوں لیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گل کا کہنا تھا کہ یقین نہیں آتا کہ عاصمہ جہانگیر کی بیٹی اتنی اخلاقی پستی میں گر سکتی ہے۔ مہمان بات کرنے سے انکاری ہیں لیکن عورتوں کے حقوق کی علمبردار منیزے جہانگیر کیچڑ اچھالنے پر اتنی بضد کیوں؟ ڈاکٹر شہباز گل نے مزید کہا کہ جہانگیر جدون ن لیگ کا حصہ رہ چکے ہیں مگر تربیت اچھی ہونے کی وجہ سے انہوں نے ایسے گھٹیا سوال کا جواب دینے سے انکار کردیا، پی ٹی آئی رہنما اظہر مشہوانی نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر خود کو بڑا لبرل کہتی تھیں، ان کی بیٹی کی حرکتیں چیک کریں، تین لوگوں سے سوال پوچھا مگر تینوں نے مل کر منیزے جہانگیر کو ذلیل کیا۔ مزمل اسلم نے کہا کہ اگر آج منیزے جہانگیر کی والدہ زندہ ہوتیں تو وہ اس کیس کی مخالفت میں آخری حد تک جاتیں، مگر منیزے جہانگیر کسی کی خوشودی کیلئے بار بار کوششیں کررہی ہیں۔ صحافی عمران افضل راجا نے کہا کہ منیزے جہانگیر خود بھی خواتین کے حقوق کی بہت بڑی علمبردار دکھائی دینے کی کوشش کرتی ہیں، تمام شرکاء کے غیر اخلاقی موضوع پر بات کرنے سے گریز کے باوجود منیزے جہانگیر اسی ٹاپک پر بحث کررہی ہیں۔ صحافی ارم زعیم نے کہا کہ تمام مہمانوں نے آئینہ دکھادیا مگر منیزے جہانگیر باز نہیں آئیں، وہ یہ سننا چاہتی تھیں کہ کوئی یہ کہہ دےکہ عمران خان اس کیس میں نااہل ہوجائیں گے، مگر انہیں مایوسی اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ساجد اکرام نے کہا کہ اگر عاصمہ جہانگیر زندہ ہوتیں تو بغض عمران میں اسی ٹولے کے ساتھ کھڑی ہوتیں۔ حمزہ خان نے کہا کہ تینوں مہمانوں نے منیزے جہانگیر کو انکار کردیا مگر وہ باز نہیں آئیں، یہ سو کالڈ لبرل اور عاصمہ جہانگیر کی بیٹی ہیں۔
سوشل میڈیا پر ملک ریاض کے انٹرویو کیساتھ ساتھ ایک اور انٹرویو کی افواہیں زیرگردش ہیں جس کی طرف بیرسٹر شہزاداکبر نے اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ایک ماضی کی چلی ہوئی کارتوس کا بھی انٹرویو کروا لیا ہے جو ایک سے دو روز میں پیش کر دیا جاے گا۔ یہ انٹرویو بظاہر کسی خاتون کا لگتا ہے، سوشل میڈیا صارفین کے مطابق یہ خاتون عائشہ گلالئی ہوسکتی ہے جس نے 2017 سے قبل عمران خان پر الزامات لگائے تھے کہ وہ انہیں گھٹیا میسیجز کرتے تھے لیکن یہ معاملہ زیادہ دیر تک نہ چل سکا اور عائشہ گلالئی اپنے حق میں کوئی ثبوت نہ دے سکیں۔ بعض سوشل میڈیا صارفین کے مطابق ریحام خان بھی کوئی ایسا انٹرویو دے سکتی ہیں۔ بیرسٹر شہزاداکبر نے کہا کہ شنید ہے کہ کمپنی بہادر نے جبری انٹرویو اور مانیکا انٹرویو مکمل طور پہ ”وڑ“ جانے کے بعد ایک ماضی کی چلی ہوئی کارتوس کا بھی انٹرویو کروا لیا ہے جو ایک سے دو روز میں پیش کر دیا جاے گا ۔ انہوں نے مزید کہا ک جو شاید محض لوگوں کو انٹرٹینمنٹ فراہم کرے گا کیونکہ خان دا تے تسی کجھ وی نہیں بگھاڑ سکھ رہے ہو!یہ والی خاتون پہلے بھی یہ سب کر چکی ہیں لیکن اب بھائیوں کی پریشانیاں کافی بڑھی ہوئی ہیں لہذا کسی بھی حد تک گرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کو خاور مانیکا کے انٹرویو پرردعمل دینا مہنگا پڑگیا، ٹویٹر پر صارفین نے طلال چوہدری کو "تنظیم سازی" یادکروادی۔ تفصیلات کے مطابق طلال چوہدری نے ایک پریس کانفرنس کے دوران خطاب کرتے ہوئے خاور مانیکا کی جانب سے عمران خان پر عائد الزامات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ خاور مانیکا کے انکشافات پہ کافی لوگوں کو دکھ ہوا ہے۔ یہ ہماری خاندانی روایات نہیں، ہمارے ہاں تو جن کے گھروں میں جایا جاتا ہے وہاں نظریں جھکا لی جاتی ہیں۔ طلال چوہدری کی جانب سے اس بیان پرسوشل میڈیا صارفین نے انہیں ماضی میں مبینہ طور پر تنظیم سازی کے بہانے ایک خاتون ن لیگی رہنما کے گھر جانے اور پکڑے جانے کا واقعہ یاددلاتے ہوئے آئینہ دکھادیا۔ ایاز امیر نے طلال چوہدری کی "تنظیم سازی" واقعہ کے بعد ہسپتال میں لی گئی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ اب راتوں کو تنظیم سازی کرنے والے خاندانی ہونے کا بتائیں گے۔ امجد خان نے کہا کہ ن لیگ نےخاندانی روایات سکھانے کیلئے طلال چوہدری سے پریس کانفرنس کروائی، یہ مسلم لیگ ن میں سب سے زیادہ باکردار رہنما ہیں۔ وہاب خان نے طلال چوہدری کی ہسپتال میں بنائی گئی ایک ویڈیو شیئر کی اور کہا کہ جب طلال چوہدری ایک سابقہ ایم این اے کے گھر سے آدھی رات کو جھکی نظروں کے ساتھ پکڑے گئے تو لڑکی کے بھائیوں نے ان کی تنظیم سازی کی تھی، ن لیگ اور اخلاقیات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ کامران واحد نے کہا کہ طلال چوہدری ماضی می تنظیم سازی بھی نظریں جھکا کرکررہے تھے۔ عاصم ارشاد نے لکھا کہ جاوید لطیف، طلال چوہدری اور پرویز رشید کو اخلاقیات پر بات کرتے دیکھا تو میرا تو اخلاق لفظ سے ہی اعتبار اٹھ گیا ہے۔ ارسلا ن بلوچ نے لکھا کہ اخلاق کی باتیں کرنے والے کا منہ دیکھو جو خود تنظیم سازی کرتے ہوئے پکڑا گیا فیاض شاہ نے کہا کہ یہ وہی طلال چوہدری ہے ناں جو ایک ن لیگی خاتون ممبر اسمبلی کے گھر رات کو تنظیم سازی کرنے گئے تھے اور مار کھا کر ہاسپٹل پہنچ گئے تھے؟ طاہر اعوان نے طلال چوہدری کی ایک مبینہ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ اس رات کی ویڈیو ہے جب طلال چوہدری آدھی رات کو تنظیم سازی کرنے عائشہ رجب کے گھر گئے اور غلط حرکات کرنے پر انکے بھائیوں نے دھلائی کرکے ہسپتال پہنچایا۔

Back
Top