سوشل میڈیا کی خبریں

الیکشن کمیشن آف نے پاکستان نے پاکستان تحریکِ انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو مسترد کرتے ہوئے اسے بلے کے انتخابی نشان سے محروم کردیا ، بین الاقوامی تجزیہ کاروں نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو پی ٹی آئی کیلئے جھٹکا قرار دیا ہے، لیکن یہ بھی کہا ہے کہ پی ٹی آئی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں پانچ رُکنی بینچ نے جمعے کی شب پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن پر جمعرات کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔ تحریکِ انصاف کے بانی رُکن اکبر ایس بابر نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا,الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی الیکشن ایکٹ کے تحت انٹراپارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی۔ بلے کا نشان چھینے جانے کے بعد مختلف صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کا ردعمل سامنے آگیا۔ جنہوں نے اسے الیکشن کی ڈکیتی قرار دیا اور کہا کہ ن لیگ پی ٹی آئی کا مقابلہ نہیں کرسکتی اسلئے ایسے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔ اطہر کاظمی نے کہا پی ٹی آئی نے اپنے آئین کے مطابق انتخابات نہیں کروائے ، اس لئے بلے کا نشان واپس لے لیا گیا، الیکشن کمیشن کا فیصلہ,اب جنھوں نے دو صوبوں اور وفاق میں آئین پاکستان کے مطابق وقت پر الیکشن نہیں کروائے، کیا ان کو بھی کوئی پوچھے گا؟؟ فہیم اختر ملک نے لکھاپولیس نے آر اوز سے مل کر امیدواروں کے کاغذات نامزدگی چھینےالیکشن کمیشن نے بلا چھین کر جماعت ہی ختم کردی,ماشاء اللہ ایسی ہے لیول پلئینگ فیلڈ اور ایسی ہے پاکستانی جمہوریت کیا یہ سب 2018 کے عام انتخابات میں بھی ہوا تھا ؟ سید منیر مان نے لکھا یوں لگتا ہے بلا چھین کرضمانت دینے کا اور لیول پلئنگ ریمارکس کا غصہ نکالا گیا ہے سہیل راشد نے لکھابیلٹ پیپر پر بلا نہیں ہو گا یہ بحث عوامی سطح پر چھ ماہ سے کیوں موجود تھی؟ جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ پر شام سے سو سوال اٹھانے والے حضرات یہ والا سوال بھی پوچھیں گے؟ ثاقب بشیر نے لکھاایک بڑی سیاسی جماعت کے نشان سے متعلق الیکشن سے 46 دن پہلے ٹیکنیکل گراؤنڈز پر ہونے والا فیصلہ برقرار رہنا بظاہر مشکل ہے اب ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی. ملیحہ ہاشمی نے کہاعمران خان سے بلے کا نشان چھین لیا گیا۔ پی ٹی آئی کے امیدواروں سے کاغذات نامزدگی چھین لیے گئے,پورے نظام کو ساتھ ملا کر یہ تمام حرکتیں کر کے وکٹیں اٹھا کر بھاگنے والوں کا انتخابی نشان کیا ہونا چاہئے؟ ‏سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمشن انتخابی نشان تو دُور کی بات کسی سے ٹِچ بٹن بھی واپس نہیں لے سکتا. رحیق عباسی نے لکھا لندن پلان کے مطابق الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان الاٹ نہ کرنے کا فیصلہ تب سنانا تھا جب اپیل کا وقت بھی نہ بچے,پشاور ہائی کورٹ کے جرات مندانہ فیصلے کی وجہ سے بے چاروں کا فیصلہ آج سنانا پڑا۔ اب یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہوگا اور دو سماعتوں میں اڑ کر رہ جائے گا۔ فلک جاوید خان نے لکھاخان کو جیتنے کے لیے بلے کی نشان کی ضرورت نہیں ہے ,مایوس نہیں ہونا نہ ہی دل چھوڑنا ہے انتخابی نشان جو بھی ہوگا وزیراعظم عمران خان ہی ہوگا. عمار علی جان نے لکھا الیکشن کمیشن پاکستان کی جمہوریت اور انتخابی عمل کے لیے ڈیتھ وارنٹ لکھنے میں مصروف ہے۔ محمد جبرسن ناصر نے لکھااربابِ اختیار سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ پی_ٹی_آئی اور باقی تمام سیاسی جماعتوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ کشمیر سے لے کر کراچی تک پی ٹی آئی کا ووٹر خود پہل کرکے پارٹی کے اپڈیٹ لیتا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے تازہ ترین صورتحال سے خود کا باخبر رکھتا ہے، انہوں نے مزید کہا وہ پہلے سے "charged" ہے اور شدت سے 8 فروری کا انتظار کررہا ہے، اسے نا کارنر میٹنگ کی ضرورت ہے اور نا بڑے جلسوں کی اور نا اشتہاری کمپین کی، مختصر یہ کہ اگر الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو بلے کی جگہ ڈبل روٹی کا نشان بھی دے دے تو 48 گھنٹے بھی پی ٹی آئی کے لئے بہت ہیں اور ملک کے ہر کونے میں ووٹر آگاہ ہو جائیں گے کہ ووٹ ڈبل روٹی کو دینا ہے۔ انہوں نے کہا اس لیے فکر پی ٹی آئی کی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کی ہے جس کے یہ بددیانتی اور بدنیتی پر مبنی فیصلے اس ادراے کو ہمیشہ کے لیے تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ جو پی ٹی آئی کو کھیلنے ہی نہیں دینا چاہتے وہ لیول پلیئنگ فیلڈ کیا خاک دینگے۔ بشارت راجہ نے کہازرخرید غلاموں کے نزدیک یہ عین جمہوری فیصلہ ہے کیونکہ اس کا فائدہ جعلی نیلسن منڈیلا المعروف باؤ جی کو جاتا ہے مغیز علی نے لکھا بلے کے نشان کے بغیر پی ٹی آئی کا پلان A اور B کیا ہے؟ اطلاعات کے مطابق 2 سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی الیکشن کمیشن میں پہلے سے ہی رجسٹرڈ کروا چکی ہے، اگر بلا نہیں ملتا تو نئے نشان پر انتخاب لڑا جائے گا۔ اسد اللہ خان نے لکھا سپریم کورٹ نے آج پی ٹی آئی کو بطور جماعت برابر کے حقوق دینے کا کہا، الیکشن کمیشن نے جماعت ہی فارغ کر دی.
ماضی کی نظیروں کے مطابق ضمانت ان حالات میں دی جا سکتی ہے جہاں اس کی تصدیق ہو: ابوذر سلمان نیازی سائفر کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے 3 رکنی بینچ نے قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی زیرسربراہی بانی چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت 10,10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض منظورکر لی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر غریدہ فاروقی نے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ ضمانت کے باوجود عمران خان کو سائفر کیس میں رہائی نہیں ملے گی جس پر سوشل میڈیا صارفین نے غریدہ فاروقی کی کلاس لے لی اور کہا کہ غریدہ فاروقی کو تھوڑا بہت قانون پڑھ لینا چاہیے۔ سینئر صحافی وتجزیہ کار غریدہ فاروقی نے اپنے ایکس (ٹوئٹر) پیغام میں لکھا کہ: سپریم کورٹ سے ضمانت ملنے کے باوجود سائفر کیس میں عمران خان کو رہائی نہیں ملے گی کیونکہ اس کیس کا ٹرائل جیل میں چل رہا ہے اور ضمانت سے ٹرائل ختم نہیں ہو سکتا۔ عمران خان اس کے علاوہ توشہ خانہ نیب کیس میں جوڈیشل پر ہیں اور 190 ملین پائونڈ کیس میں گرفتار اور زیرتفتیش ہیں۔ غریدہ فاروقی نے لکھا کہ: سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں قوانین سے آگے جا کر اور عمران خان / تحریک انصاف کو انتہائی موافق فیصلہ دیا ہے حالانکہ ایسے کیسز جن میں عمر قید یا سزائے موت ہو سکتی ہو وہاں ضمانت نہیں ہوتی، یہ لاڈلے پن کی ایک اور مثال ہے۔ سپریم کورٹ کو کیس میں قوانین کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا، فیصلہ کیس دیکھ کر کرنا چاہیے تھا نہ کہ فیس دیکھ کر! غریدہ فاروقی کے ٹویٹ پر ردعمل میں سینئر صحافی عمران بھٹی نے لکھا کہ: کیا کہنے کیا کہنے۔ اللہ انکی حالت پر رحم فرمائے! سینئر صحافی عمر انعام نے طنزیہ انداز میں لکھا:سپریم کورٹ نے کیس نہیں فیس دیکھ کر فیصلہ دیا ہے، ترجمان غریدہ فاروقی! احمد وڑائچ نے لکھا: یار کیا لوگ ہیں، کیونکہ حکومت جیل ٹرائل کر رہی ہے اس لیے ضمانت نہیں ہو گی، بندہ باہر نہیں آئے گا، کچھ پڑھتے بھی نہیں، ایسے تو جس کو جیل میں رکھنا ہو اس کا جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن نکال دو، ضمانت ہو بھی تو بندہ اندر، کم از کم تھوڑا بہت قانون تو پڑھ لیں ! ثمرینہ ہاشمی نے لکھا: اب بی بی غریدہ فاروقی سپریم کورٹ کو بتائیں گی کہ فیصلے کیسے کرنے ہیں! سینئر صحافی علی سلمان علوی نے لکھا کہ: غریدہ فاروقی کو بالکل ویسی ہی ڈوز کی ضرورت ہے جو سپریم کورٹ نے اسے لگ بھگ 4 سال قبل دی تھی۔ ان ٹویٹس کی پاداش میں ادارے کو کیا کچھ بھگتنا پڑا تھا، وہ ایک الگ داستان ہے۔ معروف قانون دان ابوذر سلمان نیازی نے غریدہ فاروقی کے پیغام پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ: غریدہ فاروقی کا یہ ٹویٹ قانونی طور پر گمراہ کن اور بہت غلط ہے، خاتون اینکر کے قانون کا علم من گھڑت ہے! انہوں نے کہا ضمانت ٹرائل کو کمزور نہیں کر سکتی کیونکہ یہ جیل ٹرائل ہے (بالکل غلط کیونکہ ضمانت ایک سادہ رہائی ہے، یہ کبھی بھی مقدمے کی سماعت ختم نہیں کرتی) جیل ٹرائل کا ملزم کی رہائی سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے لکھا کہ: جہاں کسی جرم کی سزا عمرقید یا سزائے موت ہو، ضمانت نہیں دی جا سکتی (یہ بھی غلط ہے کیونکہ ایسے حالات میں ضمانت دینا جج کی صوابدید پر ہے، یہ کیس کے بنیادی حقائق اور حالات کی بنیاد پر دی جا سکتی ہے) سپریم کورٹ کی سابقہ نظیریں عمر قید اور موت کی سزا والے مقدمات میں ضمانت پر پابندی لگاتی ہیں (یہ بھی غلط ہے، ماضی کی نظیروں کے مطابق ضمانت ان حالات میں دی جا سکتی ہے جہاں اس کی تصدیق ہو)
عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سپریم کورٹ سے ضمانت کیوں ملی ؟ صحافی ثاقب بشیر نے اہم وجوہات بتادیں ثاقب بشیر کے مطابق آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی سیکشن 5 (3) اے ہے جس کے مطابق سزا یا تو عمر قید ہے یا سزا موت ہے اس نکتے پر ایف آئی اے کے پراسیکوٹرز سے سپریم کورٹ بار بار پوچھتی رہی اگر آپ کے پاس کو کوئی Solid میٹریل ہے تو بتائیں ایف آئی اے پراسیکوٹرز مطمئن نہیں کر سکے جس کی بنیاد پر ضمانتیں منظور ہو گئیں ۔۔ سپریم کورٹ کور کرنیوالے صحافی کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی اے پراسیکوٹر نے 5 (3) اے کا قانون پڑھا جس کے مطابق ان کا کہنا تھا سائفر کے متن کو ڈسکلوز کرنے کی وجہ سے " غیر ملکی طاقتوں نے فائدہ اٹھایا " سپریم کورٹ نے پوچھا یہ بتائیں کہاں غیر ملکی طاقتوں نے فائدہ اٹھایا ایف آئی اے نے کہا امریکہ نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا بھارت میں ہیڈ لائنز لگیں ثاقب بشیر کے مطابق سپریم کورٹ نے کہا " غیر ملکی طاقتوں کے فائدہ اٹھانے والی " بات بتائیں وہ کہاں ہے ایف آئی اے اوپن کورٹ نا ہی کوئی سیکریٹ دستاویز سپریم کورٹ کو دیکھا سکی جس کے بعد سپریم کورٹ نے ضمانت اس بنیاد پر دے دی کہ بادی النظر میں یہ کیس دو سال سزا کا ہے 14 سال یا عمر قید کا نہیں انکا مزید کہنا تھا کہ پہلے دن سے سائفر کیس میں کور کررہا ہوں پوری فائل پڑھنے کے بعد مختلف وی لاگز مختلف جگہوں پر میں نے لکھا بھی کہ سائفر کیس آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی سیکشن 5 (3) اے کا نہیں بنتا جس کے تحت عمر قید یا سزائے موت ہے آج سپریم کورٹ نے اسی نقطعے پر ایف آئی اے کو پکڑ لیا ہے سائفر کیس ضمانت منظوری کا نچوڑ کرتے ہوئے ثاقب بشیر نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے فیصلے میں لکھا سائفر کیس میں 14 سال سزا یا سزائے موت کی سزا کے ثبوت بادی النظر میں موجود ہیں اس لئے ضمانت نہیں بنتی ۔۔۔۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے بادی النظر میں یہ 14 سال سزا یا سزائے موت کی سزا کا کیس نہیں بنتا یہ صرف دو سال سزا کا کیس ہے اس لیے ضمانت منظور کی جاتی ہے انکے مطابق کوڈڈ فارم میں آنے والا میسج سائفر ہے تو کیا ڈی کوڈ ہونے والے میسج کو بھی سائفر کہیں گے ؟ یہ وہ سوال تھا جو سپریم کورٹ بنچ کے سربراہ جسٹس طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ نے بار بار ایف آئی اے پراسیکوٹرز سے پوچھا اور کہا متعلقہ قانون پڑھ کر بتائیں جہاں یہ لکھا ہوا ہو اس کا جواب ایف آئی اے کے پراسیکوٹرز کے پاس یہ تھا کہ گواہوں کے بیانات میں یہ لکھا ہوا ہے عدالت نے پوچھا قانون کی کتاب سے پڑھ کر بتائیں لیکن ایف آئی اے پراسیکوٹرز اس کا جواب نہیں دے سکے جو ضمانت دینے کی بھی وجہ بنا آج جس طرح مختلف سوالات کے جواب ایف آئی اے پراسیکیوٹرز کے پاس نہیں تھے اس سے لگتا ہے کیس کو ٹرائل کورٹ میں بھی ثابت کرنا آسان نہیں ہو گا
چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کا جینا محال ہو جائے گا۔۔۔ چیف جسٹس کی بدقسمتی ہے کہ اس کی مدت ملازمت میں چند ماہ رہ گئے ہیں: صدر اے این پی ایمل ولی خان عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صدر ایمل ولی خان ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کو دھمکیاں دیتے رہے۔ ایمل ولی خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسے ہی آپ نے لڑنا ہے تو ٹھیک ہے۔ ہم جمہوریت پسند لوگ ہیں اور آخری وقت تک آئین پاکستان اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی جمہوری روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا عمل جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی اپنے آپ کو بدمعاش کہتا ہے تو ہلکی پھلکی بدمعاشی ہمیں بھی آتی ہے، پھر اس چیف جسٹس کا جینا محال ہو جائے گا اور اس کی بدقسمتی ہے کہ اس کی مدت ملازمت میں چند ماہ رہ گئے ہیں۔ ہمیں پتا ہے کہ اس کے بعد کچھ ریٹائرڈ چیف جسٹس وکلاء کے کپڑے پہن کر وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔ https://x.com/ahmadwaraichh/status/1737870142984396984?t=_GuMtZThzeY_VfkiRBlZ7g&s=08 انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کے لیے یہاں پر زندگی گزارنا مشکل ہو جائے گا اور بطور صدر عوامی نیشنل پارٹی اور صوبے کا ایک ذمہ دار شخص ہونے کے ناطے میں ایک ہی دفعہ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کو آخری دفعہ پیغام دے رہا ہوں کہ اگر اس کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ آپ کی عدالت کچھ لوگوں کی طرفداری کر رہی ہیں تو پھر اس عدالت میں آپ کا بیٹھنا مشکل ہو جائے گا۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں ایمل ولی خان نے کہا کہ میں یہ بات ریکارڈ پر اپنی قوم کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں کہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے میرا سیاسی کیریئر ختم کرنے کی دھمکی دی۔ ذمہ داری کی حیثیت سے یہ سلوک ناقابل قبول ہے۔ میں عوامی نیشنل پارٹی اور ہماری قوم کی جانب سے عوامی معافی یا استعفیٰ کا مطالبہ کرتا ہوں۔ انصاف غیر جانبدارانہ ہونا چاہیے، انتخابی نہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر ایک سوشل میڈیا صارف نے اپنے پیغام میں لکھا کہ:ایمل ولی کہتے ہیں کہ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کی ریٹائرمنٹ میں چند ماہ رہ گئے ہیں، پھر انکے لیے یہاں رہنا مُشکل ہو جائے گا، ججوں کو یہ دھمکیاں مقتدرہ کی ہلہ شیری پر دی جا رہیں! عمران خان نے ایڈشنل سیشن جج زیبا کوصرف اتنا کہا تھا کہ ایکشن لیں گے، اس پر آج تک مقدمات بھگت رہا ہے۔ ویڈیو پر ردعمل دیتے ہوئے ارسلان وڑائچ نے لکھا کہ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں! ایک سوشل میڈیا صارف نے ردعمل میں لکھا کہ:قاضی فائز عیسیٰ صاحب تو لندن ہیں اور جب تک عدالت و انصاف ملک سے مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتا وہ وہیں رہیں گے! ملک جل رہا ہے اور قاضی صاحب چھٹیاں گزار رہے ہیں!
الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد توقع ظاہر کی جارہی تھی کہ تحریک انصاف کو لیول پلینگ فیلڈ ملے گی اور انہیں الیکشن لڑنے سے نہیں روکا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ تحریک انصاف کے خلاف مزید سختی دیکھنے میں آرہی ہے کہیں پولیس پی ٹی آئی رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے ماررہی ہے، کہیں پی ٹی آئی رہنماؤں سے زبردستی الیکشن سے دستبرداری کے اعلانات کروائے جارہے ہیں۔ کہیں پی ٹی آئی رہنماؤں کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا جارہا ہے تاکہ وہ الیکشن نہ لڑسکیں لیکن اس الیکشن میں سب سے دلچسپ کام یہ ہورہا ہے کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے خواہشمندوں سے کاغذات نامزدگی چھینے جارہے ہیں۔ پولیس اہلکاروں نے ریٹرننگ افسروں کے دفاتر کے باہر فیلڈنگ سیٹ کررکھی ہے جس بندے پر بھی شک ہو یہ پی ٹی آئی کا بندہ ہے اس سے کاغذات نامزدگی چھین لئے جاتے ہیں۔ اب تک پولیس عمیر نیازی کے والد، شاہ محمود قریشی کے سیکرٹری، شوکت بسراکے وکیل ،خوشاب سے سابق ایم این اے ملک عمر اسلم اور سابق ایم پی اے ملک خالق بندیال سے کاغذات نامزدگی چھین چکی ہے۔ اسداللہ خان نے تبصرہ کیا کہ میانوالی میں بیرسٹر عمیر نیازی کے والد سے آر او آفس کے باہر پولیس کاغذاتِ نامزدگی چھین کر بھاگ گئی، ایسا الیکشن پہلے دیکھا نہ سنا مونس الٰہی نے ردعمل دیا کہ پنجاب پولیس نے پی ٹی آئی کے امیدوار بیرسٹر عمیر نیازی کے والد سے کاغذات نامزدگی چھین لیے ۔ پولیس میں اور لٹیروں میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔ ایسے پولیس والوں کے لیے کوئی معافی نہیں۔ ڈاکٹر شہبازگل کا اس پر کہنا تھا کہ اگر یہ کسی قابل ہوتے تو آج پی ٹی آئی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی چھین رہے ہوتے؟؟ ذرا سوچئے انہوں نے مزید کہا کہ اور وقت نے دیکھا کہ عمران خان انہیں وہاں لے آیا جہاں قربانی کی کھالیں چھیننے والے، چندہ چھیننے والے اور آج عمران خان کے امیدواروں سے کاغذات نامزدگی چھیننے والے واہ مولا واہ نسیم کھیڑا نے کہا کہ فرعون بہت بڑا خچر تھا۔ لیکن کاغذات نامزدگی چھیننے والی حرامزادگی اس نے بھی کبھی نہی کی وقار کا کہنا تھا کہ اگر الیکشن جِتوانے کی امید ہوتی تو "شکست خوردہ" کو امیدواروں سے کاغذاتِ نامزدگی نہ چِھیننے پڑتے ناکامی کا %100 یقین ہے ایگل نامی سوشل میڈیا صارف کا کہنا تھا کہ یہ کیسا الیکشن ہے کہ تحریک انصاف کو اب کاغذات نامزدگی حاصل کرنے کے لیے ہائیکورٹ جانا پڑے گا؟ کیا پاکستان کی تاریخ میں کبھی کسی پارٹی پر اتنا جبر ہوا ہے؟ احمد وڑائچ کا کہنا تھا کہ دھاندلی کے درجنوں طریقے سنے تھے لیکن یہ کاغذاتِ نامزدگی چھیننے والی واردات پہلی بات دیکھی اور سنی ہے احمد وڑائچ نے مزید تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی سے کاغذاتِ نامزدگی چھینے جا رہے ہیں، کسی کے تائید کنندہ تجویز کنندہ کو اٹھا لیا، کوئی گرفتار ہو گیا، کسی نے سیاست تو کسی نے تحریک انصاف چھوڑ دی، ملک میں صاف شفاف الیکشن ہو رہے ہیں، اس پر بلاشبہ الیکشن کمیشن مبارکباد کا مستحق ہے۔ کامران نے ردعمل دیا کہ قصائی کے پھٹے کے نیچے سے ہڈی چھین کر بھاگنے والی خصلت تو کتے کی تھی یہ کاغذات نامزدگی چھیننے والا منصوبہ کس کا ہے محمد عمیر نے کہا کہ میرے اپنے شہر حاصل پور میں تحریک انصاف کے صوبائی حلقوں کے دونوں ٹکٹ ہولڈرز روپوش تھے کل کاغذات نامزدگی حاصل کئے ان سمیت جن افراد پر شک ہے کہ یہ تحریک انصاف کے امیدوار ہوسکتے رات سے ان سب کے گھروں پر چھاپے جاری ہیں۔ محمد عمیر کا مزید کہنا تھا کہ زمینی حالات یہ ہیں کہ کاغذات نامزدگی لینا ایک جرم بن گیا اہم رہنما ایک طرف کوئی عام شہری بھی کاغذات نامزدگی لے رہا تو پولیس فوری گھر پہنچ رہی ہے۔ پنجاب پولیس ذرائع کے مطابق چھاپوں کا ٹاسک سرکل سطح پر ڈی ایس پیز کو دیا گیا ہے نگرانی متعلقہ ڈی پی اوز کررہے ہیں۔ عاصم ارشاد نے تبصرہ کیا کہ تحریک انصاف کے لیڈران گرفتار، زبردستی پارٹی چھڑوائی جا رہی ہے،کاغذات نامزدگی چھینے جا رہے ہیں ان حالات میں نگران حکومت کی غیر جانبداری تو وڑ گئی قمرمکین کا کہنا تھا کہ کاغذاتِ نامزدگی چھیننے سے ثابت ہوا کہ میدان میں مقابلہ کر کے جیتنا ممکن نہیں رہا۔ مبشرزیدی نے ردعمل دیا کہ کاغذات نامزدگی چھیننے اور ووٹ چوری کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے احمد کھوکھر نے تبصرہ کیا کہ اے "اقبال" تیرے شاہین کاغذات نامزدگی چھینتے پھر رہے ہیں۔ ناصر علی خان نے کہا کہ کاغذات نامزدگی چھین کر بھاگ جانے سے یاد آیا کسی نے کہا تھا کہ یہ شکست کو قریب دیکھ کر وکٹیں اکھاڑ کر بھاگ جانے والے لوگ ہیں شمائلہ نے کہا کہ وہ چاہتے تو کشمیر بھی چھین سکتے تھے لیکن انہوں نے کاغذات نامزدگی چھیننا مناسب سمجھا۔ عمرانعام نے تبصرہ کیا کہ پکے کے ڈاکوؤں نے کچے کے ڈاکوؤں والی حرکتیں شروع کر دی ہیں۔ کچے والے پیسے چھینتے ہیں جبکہ پکے والے کاغذات نامزدگی چھین رہے ہیں
پاکستان تحریک انصاف نے ملک میں سیاسی کلچر تبدیل کردیا,ایسے گر دکھائے کہ عوام میں مقبول ہونے کے لیے دیگر سیاسی جماعتیں بھی اسی کلچر کو اپنانے پر مجبور ہوگئیں. اس نئی تبدیلی کا آغاز اس وقت ہوا جب پاکستان تحریک انصاف نے 30 اکتوبر 2011 کو لاہور میں مینار پاکستان پر اپنی تاریخ کا کامیاب ترین جلسہ کیا۔ معروف آن لائن جریدے اردو نیوز کے مطابق اس جلسے میں جہاں عوام کے جم غفیر نے اسے کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا وہیں دیگر بہت سے عوامل نے بھی فیصلہ کن کردار ادا کیا جو اس سے پہلے سیاسی میدان میں اس قدر بڑے پیمانے پر نہیں دیکھے گئے تھے۔ تحریک انصاف کے اس پہلے کامیاب ترین جلسے میں پارٹی ترانوں اور ان ترانوں میں استعمال ہونے والا ہیجان خیز میوزک اور پارٹی پرچموں کی بہتات کے ساتھ ساتھ پہننے کے لیے ٹوپیوں، بیجز اور مفلرز کا جو استعمال ہوا انہوں نے پاکستان کے آئندہ سیاسی جلسوں کے لیے ایک نیا ٹرینڈ سیٹ کیا۔ فوری طور پر دیگر سیاسی جماعتیں شاید اس بات کا ادراک نہیں کر سکی تھیں اور انہوں نے اپنے جلسوں کو تبدیل کرنے سے گریز کیا۔ تحریک انصاف کے نئے سیاسی کلچر کو دوام اس وقت ملا جب 2014 میں عمران خان نے پارلیمنٹ کے باہر دھرنا دیا جو 126 دن تک جاری رہا۔ اسی دھرنے کے باعث ملک میں فیسٹیول نما سیاسی کلچر نے فروغ پایا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کو جب سپریم کورٹ نے نااہل کیا تو ن لیگ نے پہلی بار ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بول کے ساتھ اپنا پارٹی نغمہ تیز دھنوں پر ترتیب دیا اور نوجوانوں کو متوجہ کرنے کے لیے تحریک انصاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے جلسوں میں جِدت لانا شروع کی۔ عمران خان نے جب پارٹی میں نئے آنے والوں کے گلوں میں پارٹی پرچم کو بطور مفلر ڈال کر انہیں خوش آمدید کرنا شروع کیا تو تقریباً ہر سیاسی جماعت بشمول ن لیگ، پیپلز پارٹی اور استحکام پاکستان پارٹی اب اس عمل کو لازم و ملزوم تصور کرتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر پارٹی کو کیسے منظم رکھنا ہے اور اس نئے میڈیم کو اپنے بیانیے کے لیے کیسے استعمال کرنا ہے یہ سہرا بھی عمران خان کے سر جاتا ہے۔ باقی پارٹیوں نے اس ٹرینڈ کو بہت تاخیر کے ساتھ فالو کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھی تحریک انصاف کی سب سے بڑی طاقت سوشل میڈیا ہے۔ باقی جماعتوں نے سوشل میڈیا کے استعمال میں وہی ’راہداری‘ استعمال کی جو تحریک انصاف ایک دہائی قبل اختیار کر چکی تھی۔ ٹوئٹر ٹرینڈ ہوں، جذباتی ویڈیوز یا ٹرولنگ، ہر چیز ویسے ہی کی جا رہی ہے جس کی بنیاد تحریک انصاف نے رکھی۔ حال ہی میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اپنی سوشل میڈیا کی ٹیموں کو منظم کیا ہے اور پروفیشنلز کی خدمات حاصل کی ہیں تاکہ ڈیجیٹل سپیس پر پی ٹی آئی کا مقابلہ کیا جا سکے۔ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے رواں ہفتے پہلی مرتبہ بغیر کسی جلسے اور پارٹی میٹنگ کے ’قوم سے خطاب‘ کیا تو ان کے ایک طرف پاکستان اور دوسری طرف پارٹی پرچم تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسے خطاب صرف صدور یا وزرائے اعظم کرتے رہے ہیں، تاہم 2017 میں عمران خان نے بنی گالہ میں اپوزیشن میں ہوتے ہوئے اپنے گھر کے لان میں اپنے دونوں طرف قومی پرچم لگا کر کیمروں کے ذریعے ’قوم سے خطاب‘ کیا۔ عمران خان نے گذشتہ برس اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد تواتر سے اسی طرح کے سیٹ پر اسی حکمت عملی سے اپنے خطابات کا سلسلہ جاری رکھا۔ نواز شریف نے بھی اب اسی ریت پر عمل کیا ہے۔ انہوں نے اس سے قبل اپنی سیاسی زندگی میں ہمیشہ پریس کانفرنسز اور جلسوں کا ہی سہارا لیا تھا۔ سوشل سائنٹسٹ ڈاکٹر عامر حیات اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’معاشروں میں علامات کے ذریعے گروہوں کو چلانا ایک تاریخی حقیقت ہے جیسے جھنڈا ایک علامت ہے اور کئی ہزار سال سے یہ گروہوں کی شناخت کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔‘ ’سماجی نظریات میں بھی علامتوں کے استعمال پر یقین رکھا جاتا ہے۔ یہ فلسفہ پہلے سے ہی موجود ہے۔ تحریک انصاف نے محض حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس پر عمل کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باقی سیاسی جماعتوں کو بھی اسی کی پیروی کرنا پڑ رہی ہے۔‘ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’پاکستان میں سیاسی جماعتیں علامتوں کا بہت زیادہ استعمال نہیں کر رہی تھیں، تاہم جیسے ہی ٹیکنالوجی نے معاشرے پر اثرات مرتب کرنا شروع کیے تو علامت نگاری کے آگے بڑھنے کے امکانات بھی بڑھے ہیں۔ اب باقی جماعتیں بھی اس طرف آگئی ہیں تو بہت جلد یہ فرق ختم ہو جائے گا۔ گزشتہ دنوں تحریک انصاف نے ورچوئل جلسہ کیا اور اسکے لئے یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر اسپیس کو استعمال کیا، تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف نے یہ نئی روایت ڈال دی ہے اور کچھ عرصہ بعد باقی جماعتیں بھی فالو کرتی نظر آئیں گی۔۔ تجزیہ کاروں کے مطابق آن لائن جلسہ ایک پرامن اور آسان طریقہ ہے جس کے لئے نہ کرسیوں کی ضرورت ہوتی ہے نہ کارکنوں کو دور دراز سے لانے کیلئے بسیں اور گاڑیوں کا بندوبست کرنا پڑتا ہے اور کارکن رضائی میں لیٹے اپنے ہی گھر میں آن لائن جلسہ میں شرکت کرسکتے ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما عثمان ڈار کی والدہ نے الزام عائد کیا ہے کہ خواجہ آصف نے ایک بار پھر میرے گھر پر حملہ کرایا ہے۔ عثمان ڈار کی والدہ نے ایک ویڈیو بیان میں مسلم لیگ ن کے رہنما، سابق وفاقی وزیر خواجہ آصف پر یہ الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس واقعے کا نوٹس لیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کا سن کر 20 لوگ میرے گھر بھیجے گئے مجھے زد و کوب کیا گیا۔حملہ آوروں نے گھر کا مین دروازہ توڑ دیا، میری قمیض کو پھاڑ ڈالا۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ الیکشن کے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے ضرور جاؤں گی، کوئی مجھے زد و کوب کر کے من مانی نہیں کرا سکتا۔میں جیل میں بھی جا کر الیکشن لڑوں گی۔ عثمان ڈار کی والدہ کے بیان پر مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی انتقامی سیاست سے میرا کوئی تعلق نہیں۔میں نے ہمیشہ اپنے سیاسی مخالفین اور ان کے خاندان کا احترام کیا ہے، میری بیوی 3 درجن بار عدالتوں کی پیشیاں بھگت چکی ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ میرا بیٹا جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اس کے خلاف بھی جھوٹے مقدمے بنائے گئے۔میرے ان سیاسی مخالفین نے مشرف اور پی ٹی آئی حکومتوں میں میرے خلاف درخواست بازی کی۔ خواجہ آصف نے یہ بھی کہا ہے کہ میں نے دونوں ادوار میں 6، 6 ماہ قید کاٹی لیکن کچھ ثابت نہ ہو سکا، میری ذات کی سیاست عوام سے کمٹمنٹ، اصولوں اور وفاداری پر ہے۔ اپنے ایک اور ٹوئٹر پیغام میں خواجہ آصف نے کہا کہ جو شخص ٹی وی بیٹھ اس لیڈر کے خلاف گواہ بن جاۓ جس کی خوشامد میں کفر کی حدود کو چھو جا تا تھا۔ اسکے شر سے میں کیسے محفوظ رہ سکتا ھوں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے محترمہ کو پریس کانفرنس میں بہن کہا ھے اور مجھے اس رشتے کے تقدس کا پورا احترام ھے۔ نسلوں کے خاندانی تعلق اور رشتہ دار یاں ھیں۔ میں ایسی گھٹیا سیاست پہ لعنت بھیجتا ھوں جس پہ مجھے اپنی خاندانی روایات اور تربیت کو قربان کرنا پڑے ۔ سیالکوٹ پولیس کے ڈی پی او بھی خواجہ آصف کے دفاع میں سامنے آگئے اور کہا کہ افسوس عمر ڈار جو کے ایک اشتہاری ملزم ہے اور مختلف مقدمات میں پولیس کو مطلوب ہے، اس شخص نے گرفتاری سے بچنے کے لیے اپنی والدہ کو گھٹیا طریقہ سے استعمال کیا اور الزام خواجہ محمد آصف صاحب پر لگادیا۔ ڈی پی او سیالکوٹ بار بار عمرڈار کو اشتہاری ملزم کہتے رہے اور عثمان ڈار کے گھر کی خواتین پر الزامات لگاتے رہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے گزشتہ شب ورچوئل جلسے کا انعقاد کیا جس میں کئی عرصے سے روپوش رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ تاہم، اس ورچوئل ایونٹ کے آغاز سے قبل ہی پاکستان بھر میں صارفین کی سوشل میڈیا تک رسائی اچانک بند ہوگئی۔ سوشل میڈیا سروسز کی اس اچانک بندش کے باعث پی ٹی آئی کا ورچوئل ایونٹ دیکھنے کے خواہش مند افراد کے ساتھ ساتھ دیگر پاکستانیوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسامہ غازی نے تبصرہ کیا کہ جس نے ورچوئل جلسے کا آیڈیا دیا سب اس کو جینئیس کہہ رہے ہیں افسوس کی بات ہے ، اس سے بڑے جینئیس جس نے انٹرنیٹ بند کرنے کا مشورہ دیا اس کی تعریف نہیں کر رہے جس نے چار چاند لگا دئیے پوری دنیا میں نام ہو گیا پاکستان میں پھر انٹرنیٹ بند، اور جلسہ بھی زیادہ ٹرینڈ کرنے لگا، احتشام نے طنز کیا کہ ایلن مسک اور مارک زگربرگ کی صبح سپریم کورٹ میں پیشی ہوگی۔ جنید سلیم نے تبصرہ کیا کہ میں شرط ہار گیا ۔ دوست کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا آن لائن جلسہ روکنے کیلئے انٹر نیٹ بند کر دیا جائے گا ، میرا کہنا تھا کہ عالمی سطح پہ بدنامی کا ڈر ہے اسلئے اتنی کم ظرفی کا مظاہرہ نہیں کیا جائےگا۔ حالانکہ ثوب کے جلسہ گاہ میں پانی چھوڑے جانے کے بعد مجھے شرط سے خود ہی دستبردار ہو جانا چاہیے تھا عمران لالیکا کا کہنا تھا کہ خبر پوری دنیا میں ہے کہ عمران خان کی پارٹی کا جلسہ خراب کرنے کے لئے انٹرنیٹ بند کر دیا گیا ہے عدیل حبیب نے کہا کہ تحریک انصاف کا جلسہ ہونے سے پہلے ہی کامیاب ! سب پوچھ رہے ہیں کہ پاکستان میں انٹرنیٹ بند/سلو کیوں کیا گیا ہے؟ جواب مل رہا ہے، تحریک انصاف کے آن لائن جلسے کے خوف کی وجہ سے کسی کی کانمپیں ٹانگ رہی ہیں! مقصد پورا ہو گیا! جس کو جلسے کے بارے میں نہیں بھی پتہ تھا، یہ کر کے سب کو بتا دیا گیا ہے،پی ٹی آئی والوں کو شکریہ ادا کرنا چاہیے- عدیل حبیب صدیق جان نے کہا کہ انٹرنیٹ سلو کرکے جلسہ روکنے کی حکمت عملی پر جھاڑو پھر گیا فیاض شاہ نے تبصرہ کیا کہ ورچوئل جلسے میں کون سا سٹیج بنانا ہوتا یا کُرسیاں لگانا پڑتی ہیں۔ آج انٹرنیٹ بند کیا ہے تو کل دوبارہ جلسہ کریں گے۔ کل بند ہوا تو پرسوں کریں گے۔ ہم ایسے ہی انہیں ڈرا ڈرا کر اور دوڑا دوڑا کر شکست دیں گے۔ میر محمد علی خان نے کہا کہ یہ کیا بیوقُوفی ہے یار۔ ورچوئل جلسہ ہورہا ہے تو ہونے دیں۔ انٹرنیٹ کیوں سلو کردیا ہے یار۔ ورچوئل جلسے سے کونسا امن خراب ہوگا۔ ایسی چیزیں کر کر کے خواہ مخواہ لوگوں کی ضد بڑھا رہے ہیں۔ جلسہ ختم ہونے کے بعد علی محمدخان نے طنز کیا کہ جلسہ ختم ہوگیا ہے اب کوئی خطرے کی بات نہیں انٹرنیٹ کھول دیں۔ محمد عمیر نے کہا کہ بطور قوم ہمیں جس کام سے روکا جائے وہ ہم ضرور کرتے ہیں۔انٹرنیٹ سلو کرنے کا مشورہ بحر حال جس کا بھی تھا اس نے ورچوئل جلسہ نہ دیکھنے والوں کو بھی دیکھنے پر مجبور کیا۔ وقار نے تبصرہ کیا کہ تحریک انصاف جلسے جلوس، دھرنے کرتی تومخالفین سے یہ جملہ ضرور سننے کو ملتا کہ سڑکیں بند کر کے تحریک انصاف معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔آج تحریک انصاف نے virtual جلسہ کر کے پاکستان کا انٹرنیٹ بند کرایا،لاکھوں افراد کا روزگار متاثر کیا لالہ مرتضیٰ نے کہا کہ پہلے جلسہ گاہ میں پانی چھوڑنا پڑتا تھا ، کارکنوں کو پکڑنا پڑتا تھا ،گھروں پر چھاپے مارنے پڑتے تھے ،گاڑیاں توڑنی پڑتی تھی،اب انٹرنیٹ پر غصّہ نکالا جاتا ہے آصف نے کہا کہ آن لائن جلسہ کی اجازت نہ لینے ٹیوٹر پہ دفعہ 144 کی خلاف کرنے اور لاوڈ اسپیکر کے استمال پہ ایلون مسک پہ تھانہ گجومتہ میں مقدمہ درج ۔۔پنجاب پولیس کے گرفتاری کے لیے چھاپے ۔۔ڈی سی لاہور کا تھری ایم پی او کے تحت ایک ماہ نظر بندی کا حکم ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ انٹرنیٹ پر سے 144 اور 3 ایم پی او اب ختم کر دیں جلسہ ختم ہو گیا اور لوگوں کو آ پکی اوقات بھی پتہ چل گئی ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے گزشتہ شب ورچوئل جلسے کا انعقاد کیا جس میں کئی عرصے سے روپوش رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ تاہم، اس ورچوئل ایونٹ کے آغاز سے قبل ہی پاکستان بھر میں صارفین کی سوشل میڈیا تک رسائی اچانک بند ہوگئی۔ سوشل میڈیا سروسز کی اس اچانک بندش کے باعث پی ٹی آئی کا ورچوئل ایونٹ دیکھنے کے خواہش مند افراد کے ساتھ ساتھ دیگر پاکستانیوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس پر سب سے زیادہ لے دے عمر سیف پر ہوئی جو وزیربرائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ہیں، عمر سیف کے خلاف سماجی ورکر جبران ناصر نے سخت ردعمل دیا جن کا کہنا تھا کہ بتایا کہ صرف پی ٹی آئی کی ریلی کی مخالفت کیلئے انٹرنیٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی جس کے نتیجے میں لاکھوں سبسکرائبرز اور ہزاروں کاروباروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ عمر سیف کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر 8 فروری 2024 تک پی ٹی آئی روز ورچوئل جلسے کرنے کا ارادہ کرلے تو کیا پی ٹی اے روز انٹرنیٹ سلو یا بند کروائے گی؟ کیا یہی ترجیحات ہیں ارباب اختیار کی کہ اپنی ضد اور آنا کی خاطر 22 کروڑ پاکستانیوں کے حقوق اور ملک کی معیشت سب داؤ پر لگا دیں چاہے اس مد میں ہمیں اربوں کا نقصان ہو جائے اور انٹرنیشنل انویسٹرز یہ تماشا دیکھ کر یہاں سے دوڑ لگا جائیں؟ انکا مزید کہنا تھا کہ بطور آئ ٹی منسٹر اور ہر پاکستانی تک ٹیکنولوجی کی رسائی کے ہامی ہونے کے آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں کہ کیا آپ ایسے اقدامات کی مخالفت کرتے ہیں؟ احمد وڑائچ نے تبصرہ کیا کہ سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے پہلا قدم انٹرنیٹ بند کرنا ہے، تاکہ سرمایہ کار ٹک ٹاک پر اسکرولنگ کے بجائے کام پر توجہ دیں احمد وڑائچ نےمزید کہا کہ ڈاکٹر عمر سیف نے پہلے ہی بتا دیا تھا اگلی جنگ سائبر ہو گی، اس لیے انہوں نے انٹرنیٹ بند کرا دیا تاکہ جنگ کی نوبت ہی نہ آئے ، جینئس مغیث علی کا کہنا تھا کہ یہ ہیں نگران وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی عمر سیف، آج پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کو مشکلات کا سامنا تھا (جس کو رپورٹ نیشنل/انٹرنیشنل میڈیا نے کیا) کیا اس معاملے پر ان کا کوئی بیان آپ کی نظروں سے گزرا ؟ عدیل راجہ نے عمر سیف سے سوال کیا کہ جناب، تمام ڈگریاں لے کر آپ نے انٹرنیٹ کو بند کرنا ہی سیکھا ہے ؟ عمر انعام نے کہا کہ عمر سیف صاحب قبر میں بھی یہی ایچی سن، لمز، کیمبرج اور ایم آئی ٹی کے کف لنکس دکھا کر جنت پکی کر لیں گے؟؟ کوئی با ضمیر شخص ایک ایسی حکومت کا حصہ کیسے رہ سکتا ہے جو ظلم اور نا انصافی کر رہی ہو آزادمنش نامی سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ پی ٹی اے نے سوشل میڈیا کی بندش کی تصدیق کر دی، اب ان دانشوڑوں کا کیا ہوگا جو کل رات چِلا رہے تھے کہ کچھ بند نہیں ہوا [/FONT]
تحریک انصاف نے گزشتہ روز آن لائن جلسہ کا انعقاد کیا ،تحریک انصاف کے آن لائن جلسے سے تحریک انصاف کے متعدد روپوش رہنماؤں نے بھی خطاب کیا سوشل میڈیا پر آزاد حلقوں کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ تحریک انصاف کا جلسہ 60 لاکھ لوگوں نے دیکھا۔ یہ تعداد تحریک انصاف آفیشل سے لی گئی ہے جبکہ دیگر میڈیم نے جو جلسہ دکھایا وہ علیحدہ سے ہیں۔ تحریک انصاف کے آفیشل فیس بک پیج پر جلسہ 1.4 ملین (14 لاکھ) لوگوں نے دیکھا جبکہ ٹوئٹر لائیوسٹریمنگ پر ایک ملین (10 لاکھ) لوگوں نے دیکھا، ٹوئٹر اسپیس پر 1.5ملین یعنی 15 لاکھ لوگوں نے دیکھا۔ یوٹیوب پر جلسہ دیکھنے والوں کی تعداد 1.8ملین یعنی 18 لاکھ تعداد تھی۔ تحریک انصاف کا ورچوئل جلسہ عمران خان کے ٹوئٹر، فیس بک اور یوٹیوب پر بھی دکھایا گیا جسے کئی ملین لوگوں نے دیکھا۔ پی ٹی آئی جلسہ کئی یوٹیوب اکاؤنٹس نے بھی دکھایا جن کا تحریک انصاف سے آفیشل کوئی تعلق نہیں تھا، کئی ڈیجیٹیل اور الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں نے بھی پی ٹی آئی کی لائیو سٹریمنگ استعمال کی۔ مثال کے طور پر یہ جلسہ سمیع ابراہیم اور مخدوم شہاب الدین نے بھی دکھایا اور مجموعی طور پر 1 ملین لوگوں نے انکے یوٹیوب اکاؤنٹ پر دیکھا۔ یہ ذکر بھی کرنا ضروری ہے کہ یہ جلسہ بیشتر مقامات کسی اکیلے بندے نے نہیں دیکھا بلکہ بیرون ملک پاکستانیوں نے کسی ہال میں دیکھا جہاں سینکڑوں لوگ موجود تھے اور پاکستان میں گھروں میں فیملیوں نے ٹی وی پر آن لائن سٹریمنگ کرکے بھی دیکھا جس سے یہ تاثر جارہا ہے کہ یہ جلسہ دیکھنے والے لوگ کروڑوں میں تھے۔ اس جلسے پر تبصرہ کرتے ہوئے کچھ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ یہ واحد جلسہ ہے جس پر تحریک انصاف کا ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا بلکہ الٹا یوٹیوب، ٹوئٹڑ اور فیس بک سے آمدن ہوئی ہے جسے تحریک انصاف الیکشن کمپین میں استعمال کریگی۔
چارسدہ میں صحت کارڈ بند ہونے کے باعث علاج کی سہولت نا ہونے پر 15 سالہ بچی جاں بحق ہوگئی ہے، بچی کا علاج پہلے صحت کارڈ پر ہورہا تھا۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر صحافی محمد فہیم نے بتایا کہ چارسدہ کے علاقے کلا ڈھیر میں 15 سالہ بچی کا نماز جنازہ ادا کردیا گیا ہے، بچی کے والد کے مطابق بچی کئی بیماریوں میں مبتلا تھی اور صحت کارڈ پر اس کا علاج ہورہا تھا، تاہم صحت کارڈ بند ہونے کیوجہ سے علاج بند ہوا اور نوبت یہاں تک آگئی کہ انتقال سے 10 دن پہلے تک دوا خریدنے کی سکت بھی ختم ہوگئی تھی ، علاج اور ادویات نا ہونے کے باعث بچی کی موت واقع ہوگئی۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹرپر اس واقعہ کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد سیاسی و صحافی برادری کے علاوہ سول سوسائٹی نے بھی شدید احتجاج کیا اور واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا۔ پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخوا کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل سے جاری بیان میں کہا گیا کہ صحت کارڈ عمران خان کا عوام کیلئے ایک فلاحی پروگرام تھا جس سے لاکھوں افراد نے اپنا مفت علاج کروایا، مگر پی ڈی ایم کی حکومت نے عوام سے اپنی دشمنی نبھاتے ہوئےاس پروگرام کو ختم کرکے مفت علاج کی امید چھین لی۔ سینئر صحافی صدیق جان نے کہا کہ ان نگرانوں کو اللہ تباہ و برباد کرے جنہوں نے صحت کارڈ بند کیا، اذیت کی موت مریں وہ کردار جنہوں نے صحت کارڈ صرف اس لیے بند کروایا کہ یہ عمران خان کا منصوبہ تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جن نگراں وزیراعلیٰ کے پی کے کا انتقال ہوا وہ صحت کارڈ بند کروانے والے کرداروں میں شامل تھے، جو زندہ ہیں وہ ذہن میں رکھیں کہ یہ کرسیاں زندگی کی ضمانت نہیں ہیں۔ عمران افضل راجا نے لکھا کہ صحت کارڈ کے پیچھے یہی سوچ تھی کہ کوئی غریب بغیر علاج ہی رخصت نا ہوجائے، مسلط کیے گئے دوسرے ٹولے نے فوری طور پر غریب کوملنے والا ریلیف بند کیا، ان کی پالیسی سب کے منہ سے نوالہ چھیننے کی ہے۔ ایک صارف نے کہا کہ ایک شخص پکا منہ بنا کر پوچھ رہا تھا کہ عوام سے دوائی کس نے چھینی، اس شخص کا بھائی اور بیٹی اس حکومت کے کرتا دھرتا تھنے جنہوں نے صحت کارڈ بند کیا۔ احتشام الحق نے کہا کہ اس بچی کے قتل کے قاتل پی ڈی ایم اور باقی سازشی ٹولہ ہے۔ ایک صارف نے غریب سے علاج اور دوا کی سہولت چھیننے والے کرداروں کیلئے اذیت ناک موت کی دعا کی۔ خالد خان سپاری نے کہا کہ شاہی خزانے وزراء، ججوں، جرنیلوں اور افسران کیلئے بھرے پڑے ہیں، لیکن حکومت کے پاس غریب عوام کیلئے پیسے نہیں ہیں۔ اکرام کھٹانہ نے لکھا کہ کچھ منصوبے فلاحی ہوتے ہیں جنہیں چھیڑنا غریب کو چھیڑنے کے مترادف ہوتا ہے، صحت کارڈ اور لنگر خانے اس کے واضح ثبوت ہیں۔ ڈاکٹر عاقب جاوید ملغانی نے کہا کہ میں ایک ڈاکٹر ہوں، صحت کارڈ جس نے بھی بند کیا وہ انسان دشمن ہے۔
ائیرپورٹس پر ججز اور انکی بیگمات کی تلاش نہیں لے جائیگی۔۔ سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہوگیا, صارفین کی جانب سے شدید تنقید کی جارہی ہے. ججز اور ان کی بیگمات کو ہوائی اڈوں پر تلاشی سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا,سیکرٹری ایوی ایشن کی ہدایت پر ائیرپورٹ سکیورٹی فورس کے حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر کے ہوائی اڈوں پر چیف جسٹس اوران کی اہلیہ جبکہ ملک بھر کے حاضر سروس ججوں اور ان کی بیگمات کی بھی تلاشی نہیں ہو گی۔ اے ایس ایف کی جانب سے سیکرٹری ایوی ایشن کی ہدایت پر ججز کی تلاشی سے استثنیٰ سے متعلق حکم نامہ 12 اکتوبر کو جاری کیا گیا تھا۔ سیکرٹری ایوی ایشن نے تلاشی سے استثنیٰ کا حکم سپریم کورٹ کی ہدایت پرجاری کیا۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے لکھاچیف جسٹس صاحب یہ درست نہیں ہے، اگر جرنیل،ججز، سیاستدان، پارلیمنٹیرینز اور بیوروکریٹس قانون اور قواعد و ضوابط سے مستثنٰی ہوں گے تو کیا قانون اور قواعد و ضوابط عام شہری کے لیے ہیں؟ کیا دستور کے آرٹیکل 25 کے مطابق سب شہری برابر نہیں ہیں؟ انکا کہنا تھا کہ میں نے ہمیشہ پارلیمنٹ میں ججز، جرنیل، پارلیمنٹیرینز/سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور اشرافیہ کی مراعات، استثناء، پروٹوکول کلچر اور خصوصی سلوک کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔یہ نوآبادیاتی دور کی بری یادگاریں ہیں۔جب تک ہماری اشرافیہ عوام کی سطح پر نہیں آئے گی پاکستان کی حالت نہیں بدل سکتی۔ شفا یوسفزئی بولیں اکاونٹبلٹی ہونی ہو تو یہ لوگ اپنے بیوی بچوں اور انکے کاروباروں، منافعوں اور اثاثوں سے لاتعلقی کر دینگے لیکن اسی کرسی کا ناجائز فائدہ اٹھوانا ہو تو پورا ٹبر انکے ساتھ اس چھوٹی سے کُرسی پر براجمان نظر آئےگا,جہاں ناجائز فائدہ اٹھانا ہو وہاں عہدہ پورے خاندان کا، جہاں فائدہ نہ ہو رہا ہو وہاں عہدہ صرف باپ کا۔ اانکے مطابق اگلا آرڈر آئےگا کہ انکے خاندانوں کو گھر سے سیدھا جہاز کی سیٹ پر رکھ آئیں درمیان میں سارا پراسس معاف تاکہ انکو تھکاوٹ نہ ہو اور زیادہ چلنا نہ پڑے,یہاں یہ بات بھی زہن میں رہے کہ بڑے جج صاحب کے احکامات ہیں کہ بیوروکریٹ کو صاحب نہیں کہنا، سپریم کورٹ کو عظمی نہیں کہنا۔ شفاعت نے لکھا اصطلاح میں اسے بے شرمی کہتے ہیں احمد وڑائچ بولے سپریم کورٹ نے 21 ستمبر کو خط میں سول ایوی ایشن کو ہدایت دی ، 21 ستمبر کو چیف جسٹس کون تھے ؟ زبیر علی خان نے لکھا قاضی صاحب نے سارا انصاف اپنی بیگم کو ہی دینا ہے احمد ابوبکر نے لکھا ججز خصو صا چیف جسٹس کو یہ پرو ٹو کول کیوں چاہیے کہ ان کی بیگمات کی ایئر پورٹس پر جسمانی تلاشی نہ لی جا ئے؟ ایسا پروٹو کول تو سمگلنگ میں دلچسپی رکھنے والے سمگلرز حضرات کو ہو تی ہے، یہ تو صاحبان عدل و انصاف ہیں! عون علی کھوسہ نے کہا اب جج کی زوجہ محترمہ کو جج سے تعلق کی بنا پر ائیرپورٹ پر تلاشی نہیں دینی پڑے گی. البتہ ان کے اثاثے ناقابل یقین حد تک بڑھ جائیں تو جج کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہو گا اسد طور بولے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے حلف اٹھانے کے 4 دن بعد، ان کے آقا سپریم کورٹ نے ہوا بازی کے حکام کو ہدایت کی کہ وہ حاضر سروس ججز اور چیف جسٹس آف پاکستان کی شریک حیات (بیوی) کو تمام ہوائی اڈوں پر جسم کی تلاشی سے مستثنیٰ قرار دیں۔ چھوٹ دی گئی! اوریا مقبول جان لکھتے ہیں عزت مآب عالی جناب جسٹس قاضی فائز عیسی چیف جسٹس پاکستان کے حلف اٹھانے کے تین دن بعد وزارت ایوی ایشن نے یہ حکم نامہ جاری کیا کہ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ججوں کی بیویوں کی ائیرپورٹس پر باڈی سرچ نہیں کی جائے گی ۔ یہ حکم نامہ ابھی منظرعام پر آیا ہے ۔ اوریا کا مزید کہنا تھا کہ اگر یہ سچ ہے تو فائز عیسی صاحب ! بلائیں اس سیکرٹری کو عدالت کے روبرو اور پوچھیں کہ میں تو صاحب کا لفظ نہیںُ بولنے دیتا اور تم مجھے بدنام کر رہے ہو ۔ اگر یہ جھوٹ ہے تو پی ٹی اے کو اس کی سرکولیشن روکنے کا کہیں جیسے آپ الیکشن پر بات کرنے پر پابندی لگاتے ہو. سعید بلوچ نے لکھا جس جج صاحب پر ماضی میں یہ الزامات لگے ہوں کہ انہوں نے بیوی بچوں کے نام بیرون ملک جائیدادیں بنائیں اور پھر انہیں چھپایا اسی جج صاحب کے چیف جسٹس پاکستان بننے کے بعد ایئرپورٹس پر ان کی اہلیہ اور سپریم کورٹ کے دیگر جج صاحبان کی بیویوں کو تلاشی سے استثنیٰ دینا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے، ایئرپورٹ پر تلاشی سے استثنیٰ سمگلنگ/منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے، سپریم کورٹ کو اس پر وضاحت جاری کرنی چاہیے ریاض الحق نے لکھامیرا خیال ہے فائز عیسیٰ صاحب کو اس بات کا علم نہیں ہوگا۔ اور اگر ہوا تو وہ یہ نوٹیفیکیشن فورآ معطل کروادیں گے۔ عیسیٰ صاحب جب چیف جسٹس نہیں تھے تو بغیر پروٹوکول پیدل سپریم کورٹ آتے تھے۔
عاصمہ شیرازی کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت صرف شہروں اور سوشل میڈیا پر نظرآرہی ہے جبکہ دیہی علاقوں میں صورتحال مختلف ہے، زمینی حقائق نہیں کہہ سکتے کہ کلین سویپ ہوگا، کیا واقعی ایسی ہی صورتحال ہے؟ اس پر مختلف سوشل میڈیا صارفین نے رائے دی،کسی نے عاصمہ شیرازی کی بات سے اتفاق کیا لیکن پوری طرح نہیں ، سوشل میڈیا صارفین کے مطابق یہ سچ ہے کہ دیہاتوں میں برادریاں اہمیت رکھتی ہیں لیکن یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ اس وقت شہروں سے زیادہ مہنگائی دیہاتوں میں ہے اور دوسرا دیہات والوں کو بھی پتہ ہے کہ پچھلے سولہ ماہ میں ن لیگی حکومت نے عوام کیساتھ کیا کیا۔ سوشل میڈیا صارفین کے مطابق انٹرنیٹ اب دیہاتوں میں بھی آگیا ہے، الیکشن 2013 میں صرف فیس بک تھا جس کی وجہ سے تحریک انصاف کو شہروں میں مقبولیت ملی لیکن اب ٹک ٹاک سب سے زیادہ دیہاتوں میں استعمال ہورہا ہے جس کی وجہ سے عمران خان کو مقبولیت ملی انکے مطابق بڑی عمر کے لوگوں کی مجبوری ہے برادریوں کو سپورٹ کرنا لیکن دیہات کے کسی نوجوان سے پوچھیں تو وہ عمران خان کو سپورٹ کرتا نظر آئے گا، اسی طرح خواتین کی بھی بڑی تعداد پی ٹی آئی کی سپورٹر ہے۔ صحافی محمد عمران نے اس پر کہا کہ 2013میں فیس بک صرف پر شہری آبادی کی نمائندگی تھی ،2018میں ٹوئٹر بھی کسی حد تک شہری اور پڑھے لکھے افراد کے زیر استعمال ایپ تھی تاہم اب ٹک ٹاک ایسی ایپ ہے جو ریڑھی والا،مزدور ، ان پڑھ اور خاتون خانہ بھی استعمال کرتے ہیں۔یہاں شہری دیہاتی والا رولا ہی نہیں،وہاں سروے کرالیں لگ پتہ جائے گا احمد وڑائچ نے 17 جولائی کے الیکشن کا حوالہ دیکر اس پر تفصیلی تجزیہ کیا کہ کیسے دیہاتوں میں تحریک انصاف کی مقبولیت بڑھی، انہوں نے عاصمہ شیرازی کو مشورہ دیا کہ ذرا سٹوڈیو سے نکل کر دیہاتوں میں تو دیکھیں۔ صحافی اسداللہ خان نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ دیہات میں تگڑا ٹکٹ بہت اہمیت رکھتا ہے اسکے علاوہ برادری اور دھڑے بندیاں بھی اہمیت رکھتی ہیں جبکہ سب سے زیادہ یہ چیز دیکھی جاتی ہے کہ ہوا کس کی چل رہی ہے۔ہر حلقے کی صورتحال مختلف ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سمجھا یہ جاتا ہے کہ دیہاتوں میں برادری اہمیت رکھتی ہے ،اگر برادری ن لیگ کے پاس ہے تو کیا اسکے مخالفوں کی برادری نہیں؟ مثال کے طور پر اگر ن لیگ کسی بھٹی یا آرائیں کو ٹکٹ دیتی تو کیا تحریک انصاف بھٹی یا آرائیں کو نہیں دے سکتی؟ انکے مطابق عام طور پر ایک حلقے میں ایک سے زیادہ برادریاں ہوتی ہیں، اسکے علاوہ ذاتی ووٹ بنک بھی اہمیت رکھتا ہے وہ جیت کے قریب تو لاسکتا ہے لیکن جتوا نہیں سکتا۔ اسد اللہ خان کا کہنا تھا کہ دیہاتوں میں ہوا بہت اہمیت رکھتی ہے ، دیہات کے لوگ ہوا دیکھ کر فیصلے کرتے ہیں، ہوا ہی الیکشن کا اصل فیصلہ کرتی ہے۔
اپنے گانوں سے خبروں کی زینت بننے والے چاہت فتح علی خان بنے آئی جی پنجاب کے مہمان,700 سے زیادہ وی آئی پی تھانے کو آئی جی پنجاب نے عوام تک اپنا پیغام پہنچانے کیلئے چاہت فتح علی خان کا سہارا ڈھونڈ لیا,چاہت فتح علی خان نے اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ کردیا,ٹویٹ ڈیلیٹ ہونے پر سوالات اٹھنے لگے, سوشل میڈیا صارفین کے تبصرے کرنے لگے. اظہر مشوانی نے چاہت فتح علی کے الفاظ دہرائے اور لکھاجس طرح میں نے گانے میں محنت کی اور میری پرفارمنس ہے ویسی ہی آئی جی پنجاب کی بھی پرفارمنس ہے, جوکر آئی جی پولیس نے بڑے فخر سے یہ ویڈیو خود بنوائی اور ریلیز کروائی ہے. عمر انعام نے بھی چاہت فتح علی خان کے الفاظ طنزیہ انداز میں دہرائے. مغیث علی نے طنزیہ لکھااسلام علیکم,استاد چاہت فتح علی خان نے پوسٹ ڈیلیٹ کردی، پنجاب پولیس سے محبت کا اظہار ہی تو کیا تھا، پوسٹ ڈیلیٹ کیوں ہوگئی؟ احتشام الحق نےلکھا آئی جی کے کہنے پر چاہت فتح علی خان نے ویڈیوں تو ڈیلیٹ کردی لیکن چاہت صاحب تو ہمارے دلوں میں بستے ہیں اور ُان کی ویڈیوز تو ہم اپنے ساتھ سنبھال کررکھتے ہیں. عبید کیانی نے لکھا آئی جی صاحب نے سب سے بڑی چول ماری ہے, ویڈیو ڈلیٹ کروا کے، چاہت فتح علی خان نے تو ڈلیٹ کر دی لیکن اب باقیوں سب سے کون ڈلیٹ کرواۓ ،اصل مزہ تو اب آۓ گا اس ویڈیو کا۔ رحیق عباسی نے لکھا جیسا آئی جی ۔۔ ویسا مہمان. مقدس فاروق اعوان نے لکھا آئی جی پنجاب کو بھی اپنی تعریف کروانے کے لیے چاہت بھائی کا سہارا لینا پڑ گیا، کیا بات ہے چاہت فتح خان کی . رائے ثاقب کھرل نے کہا سر بڑے بڑے فنکار دیکھے، لیکن آپ کا کیول ہی اور ہے۔
جمعہ کے روز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لاہور ہائیکورٹ کا ریٹرننگ افسران سے متعلق نوٹیفکیشن معطل کرکے 8 فروری کو ہرصورت الیکشن کروانے کا حکم دیا۔۔ قاضی فائز عیسیٰ نے لاہور ہائیکورٹ پر برہمی کا اظہار کیا اور تحریک انصاف کوبھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کو آج ہی شیڈول جاری کرنیکا حکم دیا جس کے بعد شیڈول جاری کیا گیا۔ اس پر سوشل میڈیا صارفین نے الیکشن کی شفافیت پر سوالات اٹھائے ۔ صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ جو ڈپٹی کمشنرز اور بیوروکریسی ایک جماعت کو کسی ضلع میں جلسے کرنے کی اجازت نہیں دے رہے وہ 8 فروری صاف شفاف الیکشن کروائیں گ رائے ثاقب کھرل نے ردعمل دیا کہ قاضی صاحب نے الیکشن کروانے کا دعویٰ کیا تھا، فری اینڈ فیئر کا نہیں کہا تھا۔ بات ختم ۔ رائے ثاقب کھرل وقاص اعوان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اور ڈپٹی کمشنر میں کوئی فرق نہیں رہا ،سپریم کورٹ سوال اٹھانے پر توہین عدالت کا نوٹس دیتی ہے ڈپٹی کمشنر بولنے پر نظر بند کر دیتے ہیں صحافی فہیم اختر نے کہا کہ 8 فروری کو عام انتخابات بھی ایسے ہی صاف شفاف ہونگے جیسے سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ہے فیاض شاہ نے ردعمل دیا کہ الیکشن کے تکلف کی ضرورت کیا ہے؟قاضی صاحب سیدھا فیصلہ لکھوا دیں کہ نوازشریف بغیر الیکشن پاکستان کا وزیراعظم ہے۔ عوام کا وقت بھی بچے گا اور ٹیکس کے پیسے بھی۔ احتشام کیانی کا کہنا تھا کہ قاضی صاحب نے یہ نتیجہ تو فورا نکال لیا کہ تحریکِ انصاف الیکشن ہی نہیں چاہتی لیکن حیران کُن طور پر اُس جماعت کو کچلنے کیلئے جو کاروائیاں کی جا رہی ہیں وہ بہت واضح ہو کر بھی اُنہیں نظر ہی نہیں آتیں نعیم پنجوتھہ نے کہا کہ جو ڈی سی ایک جماعت کو کسی ضلع میں جلسے کرنے کی اجازت نہیں دے رہے وہ 8 فروری صاف شفاف الیکشن کروائیں گے ؟ کیا یہ بات کرنا بھی توہین عدالت ہے ؟ عارف حمید بھٹی کا کہنا تھا کہ عوام کی شرکت کے بغیر نہ تو شفاف الیکشن ہو سکتے نہ ہی الیکشن کا ماحول بن سکتا۔ انصاف مانگنے پر نوٹس ؟ رضوان غلیزئی نے کہ اکہ جو ڈپٹی کمشنرز ایک جماعت کو کسی ضلع میں جلسے کرنے کی اجازت نہیں دے رہے وہ 8 فروری صاف شفاف الیکشن کروائیں گے۔ ایک اور تاریخی فیصلہ صحافی ماجد نظامی نے کہا کہ جنرل ایوب خان کو تجویز پیش کی گئی تھی کہ ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر ہی انکی پسندیدہ جماعت کنونشن مسلم لیگ کا ضلعی سیکرٹری ہونا چاہیے۔ کیا موجودہ حالات میں بہترین کارکردگی دیکھانے والے ڈپٹی کمشنرز کو ریٹرننگ آفیسر کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کا ضلعی صدر یا سیکرٹری نامزد کرنا چاہیے۔۔۔؟؟ سعید بلوچ نے ردعمل دیا کہ وہ چاہتا تو آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنا سکتا تھا لیکن اس نے دھاندلی زدہ الیکشن کی بنیاد رکھتے ہوئے چھٹیوں پر جانے کو ترجیح دی!!
آج پشین میں پاکستان تحریک انصاف کے ورکرز کنونشن کا اسٹیج اکھاڑ کر پھینک دیا گیا، بنا اسٹیج کے ہونے والے ورکر کنونشن میں کارکنان کی بڑی تعداد شریک رہی۔ پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل سے جاری کردہ بیان کے مطابق ڈپٹی کمشنر پشین نے پاکستان تحریک انصاف کے ورکر کنونشن کا اسٹیج اکھاڑ کر پھینک دیا، مگر اس کے باوجود عوام کی بڑی تعداد پنڈال میں موجود رہی۔ پی ٹی آئی کی جانب سے ورکر کنونشن کے پنڈال کی تصاویر بھی شیئر کی گئی جس میں کارکنان کی بڑی تعداد کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے، پی ٹی آئی ترجمان کے مطابق ان افسران کے ذریعے الیکشن کروایا جارہا ہے جو پی ٹی آئی کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت بھی نہیں دے رہے، ایسے افسران سے شفاف انتخابات کی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے۔ واقعہ پر پاکستان تحریک انصاف کے مقامی رہنماؤں، صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے شدید مذمت کی اور سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ پی ٹی آئی رہنما اظہر مشہوانی نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کا پہلا نتیجہ آگیا،ریٹرننگ افسران مقرر کیے گئے ڈی سی کے حکم پر پی ٹی آئی کے ورکر کنونشن کیلئے لگایا گیا اسٹیج اکھاڑ دیا گیا، کرسیاں اٹھا لی گئیں، تاہم ورکرز اور صوبائی قیادت نے زمین پر بیٹھ کر ہی کنونشن شروع کردیا گیا۔ پی ٹی آئی ژوب ڈویژن کے صدر نور کاکڑ نے ورکرز کنونشن کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ورکرز کنونشن کا اسٹیج اکھاڑ دیا گیا، ٹینٹ اکھاڑ دیئے گئے اور کرسیاں اٹھا لی گئیں، سالار خان کاکڑ گراؤنڈ کی زمین پر بیٹھ گئے، سوزوکی گاڑی میں لاؤڈ اسپیکر لگا کر پروگرام شروع کیا گیا۔ عمران لالیکا نے کہا کہ کوئی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بتائے کہ تحریک انصاف نے اسی لیے انتظامی افسران کو بطور آر او تقرری کے خلاف پٹیشن دائر کی تھی۔ صحافی عمران افضل راجا نے کہا کہ جن ڈی سی کو آر او کی ڈیوٹی دی جارہی ہے وہ پی ٹی آئی کے خلاف بدترین کریک ڈاؤن کے سہولت کار ہیں، جلسہ گاہیں خراب کرنا، ایم پی او آرڈرز، چھاپے و گرفتاریوں کے پیچھے یہی ڈی سی ہیں، پشین میں ورکرز نے کرسیاں اٹھائے جانے کے بعد زمین پر بیٹھ کر کام چلا لیا۔ صحافی کاشف بلوچ نے جلسہ گاہ اور پی ٹی آئی کی ریلی کی ویڈیو ز شیئر کرتے ہوئے کہا کہ یہ پشین کے مناظر ہیں، بغیر کسی قیادت کے اتنی گاڑیاں، اتنے لوگ ورکرز کنونشن میں شریک، مان لو تم ہار چکے ہو، نیازی جیل میں ہونے کے باوجود ہمیشہ کی طرح جیت رہا ہے۔ پی ٹی آئی رہنما فلک جاوید خان نے بھی ورکرز کنونشن کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ہاررہا ہے نظام، جیت رہی ہے عوام۔
آج چیف الیکشن کمشنر کی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات ہوئی، جس میں الیکشن امور اور لاہور ہائیکورٹ کے ریٹرننگ افسران کے خلاف فیصلے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔اسکے بعد یہ خبریں چلنا شروع ہوئیں کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف ازخودنوٹس لینے والے ہیں۔ اسکے بعد یکایک استحکام پاکستان پارٹی کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف فریق بننے کی خبر چلی، اسکے بعد پیپلزپارٹی، ق لیگ، ن لیگ اور باپ (بلوچستان عوامی پارٹی) کے بھی لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف فریق بننے کے فیصلے کی خبر چلی۔ صحافیوں نے اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھی جانیوالی جماعتوں کے اس اقدام پر حیرت کا اظہار کیا اور انہیں فرمائشی پٹیشنز قرار دیا۔ انکا ہنا تھا کہ یہ لگتا ہے کہ الیکشن التواء کا شکار کرنیکی سازش ہوں۔ صحافی مغیث علی کا اس پر کہنا تھا کہ سُپریم کورٹ میں اچانک چیف الیکشن کمشنر کا پہنچنا، ملاقاتوں کا ہونا اور پھر انتخابات کا کیس سنے جانے کا امکان کی خبریں، اس کے بعد سیاسی جماعتوں کا لاہور ہائیکورٹ کے کیس میں تیزی کیساتھ فریق بننا، دال میں کچھ کالا نظر آرہا ہے، اُمید کرتے ہیں الیکشن وقت پر ہوں، لیکن کالے بادل دکھائی دے رہے ہیں، جیسا نظر آرہا ہے ویسا ہے نہیں۔۔۔!!! فہیم اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن سے لاہور ہائیکورٹ کے ڈی ار اوز، آر اوز معطلی کے فیصلے کو زبردستی چیلنج کرایا جارہا ہے صحافی صابر شاکر کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی ق لیگ اور مسلم لیگ ن نے میسیج دیدیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کو معاملہ دیکھنے دیں آپ جناب مداخلت نہ کریں صحافی محمد عمیر کا کہنا تھا کہ انتخابات کے حوالے سے معاملات اس وقت لاہور ہائی کورٹ،پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ تقریبا 10 قومی اور صوبائی حلقوں کی حلقہ بندیاں کالعدم ہوچکی ہیں۔چیف جسٹس اس اہم موڑ پر آج بیرون ملک روانہ ہوجائیں گے۔انتخابات واضح طور پر 8 فروری سے آگے جائیں گے۔
چیئرمین جوڈیشل کونسل قاضی فائز عیسیٰ کا جسٹس مظاہر عل نقوی کے وکیل خواجہ حارث پر اظہار برہمی کیا آپ آپ کر کے بات کر رہے ہیں یہ طریقہ ہے بات کرنے کا،آپ لوگ 22 خطوط لکھ چکے، سپریم جوڈیشل کونسل آپ کے خطوط کا جواب دینے کیلئے نہیں بیٹھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ۔ گزشتہ روز جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف شکایات پر اوپن کورٹ میں سماعت ہوئی جس میں چیف جسٹس قاضی فائز عسییٰ کافی برہم نظر آئے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے جسٹس مظاہر نقوی کے وکیل خواجہ حارث پر اظہار برہمی کرتے ہوئ کہا کہ مجھے سپریم جوڈیشل کونسل نہ کہا جائے نہ مجھے کوئی خط لکھا جائے،میں کونسل کا صرف ایک ممبر ہوں، غریدہ فاروقی کے مطابق کمرہ عدالت میں بیٹھے جسٹس مظاہر نقوی چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی طرف اشارہ کر کے بولے یہ پاگل ہے ایک اور صحافی امانت گشکوری نے بھی ایسی ہی بات کی۔ سپریم کورٹ کو کور کرنیوالے ررپورٹر حسنات ملک نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزاج بتاتے ہوئے کہا کہ انہیں جو بھی کہا جائے وہ مائنڈ نہیں کرتے بلکہ آگے سے بھی وہ ایسا کہہ دیتے ہیں۔
آفیشل سیکریٹ ایکٹ خصوصی عدالت نے بانی پی ٹی آئی کے خلاف سائفر کیس کی کارروائی پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی۔ عدالتی حکم میں ہدایت کی گئی پیمرا اور پی ٹی اے عدالتی حکم کی پابندی یقینی بنائیں، حکم کی خلاف ورزی ہونے پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی ہوگی۔ حکم میں کہا گیا کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی فیملی مشروط طور پر موجود ہوگی۔شرط ہوگی عدالتی کارروائی کو فیملی ممبران کسی جگہ بیان نہیں کریں گے، سائفر کیس کے ٹرائل کے دوران عام پبلک بھی موجود نہیں ہوگی۔ صحافی عمران میر نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ میرا خیال ہے گورے کو ہی واپس بلالیں کہ وہ ہمیں غلامی میں لے لے۔ کالوں کی غلامی میں تو منہ ہی کالا کروانا ہم نے۔ آپ نے سائفر لکھا، ٹی وی نے سائفر چلایا، میں نے سائفر کا ذکر کیا، سب نے سائفر کا نام لیا۔ کیا سب کے خلاف انگریز دور 1923 کے ایکٹ کے تحت کارروائی ہوگی اب ؟ شاہین صہبائی نے اس پر کہا کہ باتیں بڑی بڑی، کام چھپ چھپا کے : عمران خان کے خلاف سایفر کیس اتنا کمزوراور بے وقوفی بد نیتی پر قائم ہوا ہے عدالت خود نہیں چاہتی اس کیس کو کوئی سنے اور دنیا میں انکی ہنسی نہ اڑائ جائے چور سب کام ایسے ہی کرتے ہیں - سب جانتے ہیں یہ سب دھاندھلی اور بے ایمانی ہے - صرف خان کو الیکشن سے روکنا ہے اور سب جج اورعدالتیں فوجی بوٹوں سے ڈر کے دم ہلا رہے ہیں - یہ دو چار بوٹوں والے جب گزر جایئں گے تو ان دم ہلانے والوں کو کوئی جگہ نہیں ملے گی مغیث علی نے کہا کہ پاکستان سے باہر موجود صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے تو مزے ہوگئے وہ تو آرام سے کوریج کریں گے،لیکن پاکستان میں رہنے والوں کا کیا بنے گا؟ خاموشی ہی اختیار کرنا پڑے گی ملیحہ ہاشمی نے سوال اٹھایا کہ آخر ایسی کیا کارروائی کرنی ہے جو سائفر کیس کی سماعت کا احوال TV , اخبار اور سوشل میڈیا پر نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے؟ صابرشاکر نے تبصرہ کیا کہ سائفر کورٹ نے پوری دنیا پر سائفر کیس کی رپورٹنگ پر پابندی عائد کردی اس حکم کا اطلاق ارض کائنات پر موجود ہر طرح کے ذرائع ابلاغ پر ہوگا اکبر نے تبصرہ کیا کہ ایک سرکاری ملازم کے امریکہ جانے کے بعد اچانک سائفر ٹرائل کو مکمل خفیہ کردیا گیا نام لینے پر بھی پابندی عائد ۔۔ صرف اتنا کہنا کہ آج عمران خان نے جج کو غصے سے دیکھا اتنا کہنے پر بھی غداری کا مقدمہ بنے گا ۔۔ امریکہ میں آخر ایسا کیا ہوا ہوگا جو یہ حکم آیا ہے؟ ایک سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ ایک طرف سائفر کیس کی کارروائی کی خبر دینے پر بھی پابندی اور دوسری طرف بھٹو کے مقدمے کو لائیو نشر کیا جارہا ہے۔ رجب ضیاء نے لکھا کہ پہلے کہتے تھے کوئی سائفر تھا ہی نہیں یہ ایک ڈرامہ ہے، اج اسی سائفر کیس میں ایک سابقہ وزیراعظم جیل میں بند ہے، اور تو اور عوام کو مزید اندھیرے میں رکھنے کیلئے کیس کی نشریات پر تمام میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی ۔۔۔ عمر سعید نے طنز کی کیا کہ وطن عزیز میں مردہ شخص کا لائیو ٹرائل کیا جارہا ہے اور زندہ شخص کا خفیہ ٹرائل کیا جارہا ہے ۔
نگراں وزیراعظم کے اسرائیل سے متعلق متنازعہ بیان پر سوشل میڈیا صارفین پھٹ پڑے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی جانب اسرائیل سے متعلق متنازعہ بیان پر سوشل میڈیا صارفین پھٹ پڑے ہیں، صارفین کا کہنا ہے کہ رجیم چینج آپریشن کا اصل مقصد سامنے آگیا ۔ تفصیلات کے مطابق نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ قائد اعظم کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا بیان تبدیل ہوسکتا ہے، قائداعظم کا قول تبدیل کرنا کفر نہیں ہے، قائداعظم کا قول نبی پر اترا الہام نہیں ہے، فلسطین کے 2 ریاستی حل کا میں نہیں پوری دنیا کہہ رہی ہے۔ نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کا اشارہ دینے پر سوشل میڈیا صارفین نےشدید مذمت کی اور کہا کہ یہ عمران خان کو ہٹانے کا اصل ایجنڈا تھا جو اب سامنے آرہا ہے۔ سینئر وکیل ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے اس معاملے پرردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے،عمران خان کو ہٹانے کی وجہ اور نگراں حکومت کا اصل ایجنڈا سامنے آگیا ہے۔ محمد امین شہیدی نے کہا کہ یہ امریکہ اور اسرائیل کے غلام حکمران موقع ملنے پر اپنا ملک، دین ، قوم اور قائداعظم سب بیچ کر کھاجائیں، اور بہت ہی سستا بیچ دیں۔ احمد کھوکھر نے کہا کہ نگراں وزیراعظم کے پاس پالیسی بیان دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے مگر اس کے باوجود یہ صاحب نا صرف قائداعظم کو بھی غلط ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں بلکہ اسرائیل کے وجود و حیثیت کو تسلیم کرنے کی بات کررہے ہیں،نواز شریف کی واپسی، عدلیہ کی سہولت کاری سب کچھ پلاننگ کا حصہ ہے۔ جان عالم صافی نے کہا کہ نگراں وزیراعظم کے اس بیان کا مطلب ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرسکتے ہیں، اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مشن پر کام شروع ہوگیا ہے، جنرل عاصم منیر ویسے بھی امریکہ میں ہی موجود ہیں۔ ایک صارف نے کہا کہ رجیم چینج آپریشن کے اصل مقاصد سامنے آگئے، نگراں وزیراعظم نے قائداعظم کے قول "اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا" کو حالات و اقعات کے مطابق تبدیل کرنے اور اس کے برعکس فیصلہ کرنے کا اعلان کردیا۔ ارشد چوہدری نے کہا کہ جو بیان نگراں وزیراعظم دے رہے ہیں، عمران خان کو ہٹانے کا بنیادی اور کلیدی مقصد یہ بھی تھا کیونکہ عمران خان اس کام میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ خضر سہی نے کہا کہ اس بیان کو اتنا ہلکا نا لیں، پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے گا یہ ایک حقیقت ہے، اور اس کیلئے گراؤنڈ بنایا جارہا ہے۔ عمران خان نامی صارف نے کہا کہ انوارالحق کاکڑ نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعتراف جرم کرلیا اور قائداعظم کے فرامین کو فرسودہ قرار دیدیا۔

Back
Top