سوشل میڈیا کی خبریں

گزشتہ رز شہبازشریف نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہماری قطعاً خواہش تھی نہ ہے کہ الیکشن میں بلا نہ ہو، بلے کو چلا کر اپنے مخالفین کو زخمی کیا۔خواہش تھی بلے کو ملکی ترقی اور خوشحالی کے لئے بھی چلاتے تو آج ملک کے حالات بالکل مختلف ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ میری خواہش تھی "بلا" 2024 کے انتخابات میں ہوتا۔بلا میدان میں ہوتا تو خوشی ہوتی۔بلا پی ٹی آئی کی اپنی حرکتوں کی وجہ سے گیا ہے۔اس میں میرا یا نواز شریف کا کوئی ہاتھ نہیں کچھ روز قبل شہبازشریف تحریک انصاف کو بلا ملنے پر سیخ پا تھے اور پشاور ہائیکورٹ کےججز کے خلاف پریس کانفرنس رکے کہا تھا کہ یہ الیکشن کمیشن کے اختیارات پر حملہ ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ الیکشن کمیشن کے اختیار پر حملے کے مترادف ہے‘ ایک صوبے کی ہائی کورٹ کس طرح پاکستان بھر کے معاملے پر فیصلہ دے سکتی ہے؟ انصاف کا تقاضا تھا کہ جج صاحب بینچ سے الگ ہوجاتے مزمل اسلم نے اس پر کہا کہ شبانہ جی ایک ہفتے پہلے بلا بحال کرنے پر پشاور ہائ کورٹ پر زاتی حملے کر رہے تھے علی رضا نے اس پر کہا کہ جب پی ٹی آئی کو پشاور ہائیکورٹ نے بلا انتخابی نشان دیا تو شہباز شریف نے پشاور ہائیکورٹ پر تنقید کی تھی اور اب خود کو جمہوری دکھانے کے لیے کہہ رہا ہے کہ اچھا ہوتا اگر پی ٹی آئی انتخابات میں ہوتی۔ن لیگ منافقت اور دوغلاپن کا الیکشن پہلے ہی جیت چکی ہے۔ دیگر سوشل میڈیا صارفین نے بھی شہبازشریف کے اس بیان کو منافقت سے تعبیر کیا۔
گزشتہ روز تحریک انصاف سے انتخابی نشان بلا چھین لیا گیا، اس پر ن لیگی رہنما خوشی سے پھولے نہیں سمارہے۔ سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی سے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا۔ لیگی رہنما احسن اقبال نے ٹویٹ کیا سوال ہوتا تھا کہ ہم کوئی غلام ہیں؟جواب آیا ہے,نہیں آپ سب "آزاد" ہیں. احسن اقبال کے ٹویٹ پر سوشل میڈیا صارفین کے دلچسپ تبصرے جاری ہیں.عمران ریاض خان نے ٹویٹ کیااحسن اقبال صاحب نے گواہی دے دی کہ اصل مسئلہ ہی غلامی کا تھا اور یہی سوال بنیاد بنا۔ تیمور ملک نے لکھا چلیں جناب ہم تو الحمدللہ "آزاد" ہیں، آپ کیا ہیں؟ فلک جاوید خان نے لکھا ہم تو آذاد ہیں پر آپ آج بھی غلام ہیں انشاء اللہ 8 فروری کو آپ کو بھی آذاد کروائیں گے. نادر بلوچ جمہوریت کے دعویدار ضیایی پیدوار انتخابی میدان میں کب مقابلہ کر سکتے ہیں, بشیر چوہدری نے لکھاجمہوری کی دعویدار سیاسی جماعت کے جمہوریت پسند سیکرٹری جنرل کو دوسری سیاسی جماعت کے خلاف ایک غیر سیاسی اور غیر جمہوری فیصلے پر جملے کستے وقت یہ خیال کرنا چاہیے کہ 'یہ بوٹ کسی کے نہیں سائرہ بانو نے لکھاافسوس صد افسوس۔۔بڑے عارضی سہارے ہیں دنیا کے فخر سمتھ نےلکھا آج بے شرم آدمی نے گواہی دے دی کہ پی ٹی آئی والوں نے غلامی سے انکار کیا اس لے ان پر ظلم ڈھاے جا رہے ہیں. مجید مہر نے لکھاشیر کو قید کرکے کتے سمجھتے ہیں کہ اب وہ جنگل کے بادشاہ ہیں تو ایسا کبھی نہیں ہوگا ,غلام ہمیشہ غلام ہی رہتے ہیں سعادت یونس نےلکھایہ بندہ سب سے بڑا فراڈ ہے کہ ن لیگ کا تھنک ٹینک ہے!سات فُٹ کا قد اور حرکتیں بونوں والیں! بلے نے پھینٹا لگانا تھا جسکا خوف تھا!
وزارت خارجہ کو سینیٹر ثانیہ نشتر کو اہم بین الاقوامی عہدہ ملنے پر مبارکباد دینا مہنگا پڑگیا، مبینہ طو رپر شدید دباؤ کی وجہ سے وزارت خارجہ نے اپنی ٹویٹ ڈیلیٹ کردی۔ تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں بچوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ویکسینز کے حوالے سے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے "گاوی" نے پاکستانی سینیٹر ثانیہ نشتر کو سی ای او تعینات کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے ٹویٹر پر جاری اپنے بیان میں اس عہدے کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ صحت کے شعبے میں دنیا بھر کے اہم ترین اداروں میں سے ایک ادارے کی سربراہی کرنا ایک اہم ذمہ داری ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں پاکستان کے سب سے بڑے سوشل سیکیورٹی پروگرام"احساس" کی سربراہی کرنے والی ڈاکٹر ثانیہ نشتر کو بین الاقوامی سطح پر اتنا اہم عہدہ ملنے پر مبارکبادوں کا سلسلہ شروع ہوا تو پاکستان کے وزارت خارجہ نے بھی اپنے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ سے ایک بیان جاری کیا جس میں ڈاکٹر ثانیہ مرزا کو مبارکباد دی اور ماضی میں پاکستان کیلئے کی گئی خدمات کو بھی سراہا۔ تاہم وزارت خارجہ کو یہ بیان دینا اتنا مہنگا پڑا کہ مبینہ طور پر شدید دباؤکی وجہ سے انہیں یہ ٹویٹ تھوڑی دیر میں ہی ڈیلیٹ کرنی پڑگئی، تاہم تب تک سوشل میڈیا صارفین اس ٹویٹ کا سکرین شاٹ سیو کرچکے تھے جو ٹویٹ ڈیلیٹ ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئے۔ سابق وزیر صحت خیبر پختونخوا تیمو ر سلیم جھگڑا نے اس معاملے پرردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی ادارے کا سی ای او مقرر ہونا ایک بڑی کامیابی ہے، اپنی ٹویٹ ڈیلیٹ کرکے نیچ نظر آنا بھی اتنی ہی بڑی کامیابی ہے۔ علی گوہر درانی نے کہا کہ یہ ٹویٹ اس لیے ڈیلیٹ کردی گئی کیونکہ ثانیہ نشتر بظاہر لاڈلے اے ٹی ایمز سے وابستہ نہیں تھیں مگر پھر بھی انہوں نے مل کا نام روشن کیا، ہم خود کو کن فضولیات میں الجھا چکے ہیں کیا ہم ذاتی پسند ناپسند سے بالاتر نہیں ہوسکتے۔
تحریک انصاف کے پنجاب میں ٹکٹوں پر سوالات اٹھنے لگے۔۔ پی ٹی آئی کارکنوں اور صحافیوں کا الزام ہے کہ ماریں کھانیوالوں کو ٹکٹ نہیں دئیے گئے جبکہ انکی جگہ غیر معروف امیدواروں کو ٹکٹس دیدئیے گئے، پی ٹی آئی کارکن اسکی مثال ایسے دیتے ہیں کہ شخوپورہ میں خرم شہزاد ورک جو پرویزالٰہی حکومت میں سابق وزیرقانون تھے انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا، اسی طرح چوہدری غلام عباس جو 2018 میں جیتا ہوا الیکشن اچانک ہارگئے تھے انہیں ٹکٹ نہیں ملا۔ محمد خان بھٹی جو جیل میں ہیں انکے بھائی کو بھی ٹکٹ نہیں ملا۔ احمد وڑائچ کے مطابق اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف نے پنجاب میں ٹکٹ کے معاملات پر بلنڈرز مارے ہیں۔ منڈی بہاوالدین سے محمد خان بھٹی فیملی آؤٹ، پسرور میں چودھری غلام عباس، شیخوپورہ میں خرم شہزاد ورک کو ٹکٹ نہ دے کر علم نہیں کس کی خدمت کی گئی ہے۔ لوگ 370 دن سے جیلوں میں ہیں، سابق ایم پی اے ہے اور ٹکٹ وکیلوں کو، کمال نہیں ہو گیا۔ سینٹرل پنجاب تو لگتا ھے ن لیگ کو گفٹ کردیا گیا ہے۔ تقریبا ہر پینل میں گڑ بڑ کردی گئی ھے۔ خان بچارا جیل بیٹھا ہے اور یہاں ایسے لوگوں کو ٹکٹس دے دئے گئے ہیں جن کی پارٹی کےلیے کوئی خدمات نہی ۔ جو جیلوں میں گئے گھر بار برباد ھو گئے جن کے وہ منہ دیکھتے رہ گئے۔ احمد وڑائچ نے مزید کہا کہ تحریک انصاف خیبر پختون خوا کی قیادت (علی امین گنڈا پور، عاطف خان، ارباب شیر علی) نے اپنے سیاسی رہنماؤں اور ورکرز کو ٹکٹ دلوائے۔تحریک انصاف پنجاب میں مہینوں سے ماریں کھانے والے سابق ارکان اسمبلی کی جگہ غیرمعروف وکلا کو ٹکٹ مل گئے، یاری دوستی زندہ باد، بار سیاست پائندہ باد رانا عمران نے کہا کہ تحریک انصاف کے ٹکٹس کا ایک ہی معیار لگتا ھے جو عمیر نیازی گروپ کے جتنا قریب ھے اس کو ٹکٹس جاری کردی گئی ہیں۔ نا کسی بندے کی پارٹی کے ساتھ وابستگی دیکھی گئی ھے نا ہی کسی بندے کی پارٹی کے لیے قرنیاں۔ میں ان ٹکٹس تو مسترد کرتا ھوں ۔ ہر ضلع میں گند مچایا گیا ھے رانا عمران نے مزید کہا کہ سینٹرل پنجاب تو لگتا ھے ن لیگ کو گفٹ کردیا گیا ہے۔ تقریبا ہر پینل میں گڑ بڑ کردی گئی ھے۔ خان بچارا جیل بیٹھا ہے اور یہاں ایسے لوگوں کو ٹکٹس دے دئے گئے ہیں جن کی پارٹی کےلیے کوئی خدمات نہی ۔ جو جیلوں میں گئے گھر بار برباد ھو گئے جن کے وہ منہ دیکھتے رہ گئے۔ عمران لالیکا نے کہا کہ جناب قائم مقام چیئرمین بیرسٹر گوہر خان! ٹکٹس دینے کے اس اہم مرحلے پر ذاتی پسند و ناپسند کے تحت اس سارے عمل کو خراب مت کریں۔ آپ سے توقع ہے کہ جیسا چیئرمین عمران خان کا حکم ہے ویسے ہی من و عن عملدرآمد کریں وگرنہ تحریک انصاف سوشل میڈیا اس عمل کو نہ بھولے گا نہ بھولنے دیگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ نے خان صاحب کو غلط معلومات دیکر غلط لوگوں کو ٹکٹس کے لئے نامزد کروایا ہے جس کی ائک مثال منڈی بہاؤالدین پی پی 42 میں کسی شیراز رانجھا کو ٹکٹ دیا جا رہا ہے دوسری مثال اوکاڑہ سے چوہدری طارق ارشاد کی بجائے علی رضا شاہ کو دیا جا رہا ہے جہاں مضبوط امیدوار سابق ٹکٹ ہولڈر موجود ہیں وہاں کھمبوں کو ٹکٹ دینا کسی صورت قابل قبول نہ ہوگا باز آ جائیں جنید نے تبصرہ کیا کہ مارچ میں دئ گئی 297 نشستوں کے ٹکٹ ہولڈرز میں سے 214 نے ایک دن بھی جماعت نہیں چھوڑی اور جنہوں نے چھوڑی، انکی اکٽریت بھی واپسی کی متمنئ ہے۔ لے دے کر پنجاب میں 5-10 جگہوں پر “کھمبے” کی گنجائش بنتی تھی لیکن پنجاب کے وکلا تو ایسے نشستیں کھا رہے جیسے بھائی ، بہنوں کا حصہ کھا جاتے ہیں
مسلم لیگ ن کی جانب سے استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما غلام سرور خان کیلئے حلقہ خالی چھوڑنے پر سوشل میڈیا صارفین کا ردعمل سامنے آگیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن اور استحکام پاکستان پارٹی کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نتیجے میں ن لیگ نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 54 میں کسی کو ٹکٹ جاری نہیں کیا ہے اور اس حلقے میں آئی پی پی کے غلام سرور خان کے مقابلے میں کسی امیدوار کو کھڑا نہیں کیا گیا۔ آئی پی پی کے رہنما کی جانب سے ماضی میں ن لیگ کے خلاف دیئے گئے بیانات کو شیئر کرتے ہوئے سوشل میڈیا صارفین نے ن لیگی قیادت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور موقف اپنایا ہے کہ ماضی میں شدید الفاظ میں تنقید کرنے والے غلام سرور کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا غلط فیصلہ ہے۔ سینئر صحافی رائے ثاقب کھرل نے غلام سرور خان کی جانب سے18 اکتوبر2020 کو نواز شریف کے خلاف دیئے گئے بیان کو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نے غلام سرور خان کی زبان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے کھینچ لی۔ صحافی حسین احمد چوہدری نے کہا کہ میاں صاحب کا تابوت واپس آئے گا کا بیان دینے والے غلام سرور خان کے مقابلے میں کوئی ن لیگی امیدوار کھڑا نہیں کیا گیا۔ نیک روح نے غلام سرور خان کی جانب سے ماضی میں کی جانے والی تنقیدی گفتگو کی ویڈیو شیئر کی اور دوسری جانب ن لیگی قیادت کے ساتھ غلام سرور کی تصویر کا بینر شیئر کیا اور کہا کہ حنا پرویز بٹ کیمرے کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلادیں۔ صحافی طاہر عمران میاں نے کہا کہ اگر ن لیگ پاکستان میں ایوی ایشن انڈسٹری، پی آئی اے کو تباہ کرنے والے غلام سرور خان کے دوبارہ قومی اسمبلی جانے کا راستہ ہموار کرتی ہے تو یہ ایک بہت بڑا جرم ہوگا، یہ شخص سزا کا حقدار ہے نا کہ دوبارہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کا۔ ن لیگ کے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ صابر محمود ہاشمی نے کہا کہ جتنا گند اور زہر اس شخص نے میاں نواز شریف کے خلاف اگلا، لندن سے تابوت میں واپسی کی باتیں کی، اس شخص سے ن لیگ نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلی، نواز شریف کے ووٹرز اس کو ووٹ نہیں دیں گے۔ ن لیگی ایکٹوسٹ عامر قریشی نے کہا کہ اگر میری پارٹی نے غلام سرور خان کے مقابلے میں کسی امیدوار کا اعلان نا کیا تو میں ن لیگ کی سپورٹ سے دستبردار ہوجاؤں گا، میں اکیلا نہیں ہوں، ہر ن لیگی یہی سوچ رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئی پی پی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا وعدہ ہوا بھی ہے تو غلام سرور کیلئے انتظار کیا جاسکتا ہے، ہمیں یہ شخص نہیں چاہئے، نہیں چاہیے۔ ن لیگی کارکن کا کہنا تھا کہ اول تو غلام سرور کے جیتنے کے چانسز نہیں ہیں، اگر وہ جیت جائے تو سابقہ تجربے کی روشنی میں انہیں شہری ہوابازی کی وزارت دیدی جائے، بس یہی کسر باقی رہ گئی ہے۔
توہین الیکشن کمیشن میں فردجرم عائد ہونے کے کیس میں عمران خان اور فوادچوہدری کے درمیان کیا مکالمہ ہوا؟ سینئر صحافی کا انکشاف صحافی اظہر فاروق کے مطابق خبر ہے بانی پی ٹی آئئ عمران خان اور فواد چودھری کی جیل میں ملاقات ہوئی فواد چودھری نے عمران خان کو بتایا کہ میں بھی آپ کی طرع قرآن پاک ترجمے کے ساتھ پڑھ رہا ہوں اس پر عمران خان نے کہا ،، چودھری صاحب ! قرآن پاک صرف پڑھنا کافی نہیں عمل بھی کرنا ہوتا ہے واضح رہے کہ گزشتہ روز جیو نیوز کے دعوے پر ردعمل دیتے ہوئے فوادچوہدری نے کہا تھا کہ میں وہاں موجود تھا وہاں عمران خان نے دھمکی نہیں دی تھی نا کہا تھا آپ کی شکلیں اور نام پہچانتا ہوں عمران خان نے کہا تھا 90 دن میں الیکشن نا کرانے پر سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے نوٹ لکھا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ جنہوں نے آئین توڑا ان پر آرٹیکل چھ لگنا چاہیے فوادچوہدری کے مطابق انہوں نے ممبر الیکشن کمیشن سندھ سے کہا آپ کے خلاف جوڈیشل کونسل میں ریفرنس زیرالتواء پڑا ہے ، عمران خان نے کہا کہ اس سے متعصب اور بے ایمان الیکشن کمیشن کبھی نہیں دیکھا
ذرائع کے مطابق توشہ خانہ کیس نیب کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری کی درخواست پر جج محمد بشیر نے فیصلہ سنانے سے ہی ٹرائل شروع کرتے ہوئے فرد جرم عائد کر دی۔ صدیق جان کے مطابق توشہ خانہ کیس میں انتظار حسین پنجھوتہ اور نعیم حیدر پنجھوتہ جج محمد بشیر کو ٹف ٹائم دے رہے تھے،آج بھی انہوں نے اہم درخواستیں دائر کرنا تھیں لیکن اڈیالہ جیل انتظامیہ کو کہہ کر ان دونوں کو باہر روک دیا گیا اور اندر فرد جرم عائد کر دی گئی۔ صدیق جان کےمطابق یہ دونوں وکیل جج بشیر کو واردات ڈالنے سے روک رہے تھے تو حل یہ نکالا گیا کہ ان دونوں کو باہر ہی روک دو، جب فرد جرم عائد کر دی تو کال کرکے کہا کہ اب آ جائیں خان سے ملاقات کرنے، حیران کن ہے کہ جج بشیر ضمانتوں پر فیصلہ کرنے کے بجائے ٹرائل پر فوکس کیے ہوئے ہے، اس پر عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھہ نے کہا کہ کل اور آج یہ جان بوجھ کر کیا گیا،اس سے پہلے جج ہمایوں کے شٹ اپ والا معاملہ ہوا جب انتظار نے بھی اگے سے کہا تھا کہ یو شٹ اپ اس وقت بھی ایسا ہی ہوا ، جج ہمایوں کے حوالے سے میں قوم کو وڈیو پیغام کے ذریعے کیس کے اور دلاور صاحب کی فیس بک آئی ڈی اور جو وہ کر رہے تھے حقائق بتاۓ،مجھے 8 گھنٹے ایف آئی اے میں اسی وجہ سے بیٹھایا گیا اور دھمکیاں دی گئی کہا گیا کہ ویڈیو کیوں بناتے ہو ہم آپ کے خلاف کاروائی کریں گے انہوں نےمزید کہا کہ میں نے کہا کپتان میرا لیڈر ہے اور یہ ڈیوٹی مجھے میرے کپتان نے لگائی ہے میں ان کا سپوک پرسن ہو لیگل افئیر کا،پھر جب انہوں نے دیکھا کہ پاکستان بار کونسل اور وکلاء اور دیکر سوشل میڈیا کے دوستوں نے آواز اٹھائی تو مجھے چھوڑا گیا اور کہا گیا باہر پریس کانفرنس نہیں کرنی میں نے کہا میں نے کرنی ہے پھر باہر سے میڈیا والوں کو ہٹا دیا گیا اور پھر میں نے خود ویڈیو پیغام جاری کر دیا۔ نعیم پنجوتھہ کا کہنا تھا کہ اس سے ایک دن پہلے خان صاحب کی گرفتاری کے بعد خان صاحب سے پہلی ملاقات تھی اور میں نے باہر آکر لوگوں کو حقائق بتاۓ کہ اندر خان کیسا ہے اور خان کیا کہہ رہاہے ،جس پر انہوں نے دلاور کیس کا بہانہ بنا کر مجھے نوٹس بھیجا تھا اس وقت میں اے آر وائی پر بیٹھا تھا نعیم پنجوتھہ کے مطابق اب سائفر کیس مین بھی,سائفر کیس میں فرد جرم والے دن جج صاحب نے خان صاحب کو بات کرنے سے روکنے کی کوشش کی اور میں نے سخت لیجے میں کہا کہ یہ ان کا حق ہے وہ جو مرضی ہیں بات کریں آپ کو سننا ہو گی جس پر خان صاحب نے سائفر سازش سے لے کر ڈونلڈ لو اور سابق چیف کے بارے میں سب حقائق کھول کے رکھ دیے۔ عمران خان کے لیگل ترجمان کے مطابق ابھی مجھے کالز آرہی ہیں کہ آپ کو اندر جیل میں بلا رہے ہیں جب فرد جرم کی کاروائی ڈال دی گئی اس کے بعد آپ آجاو،یہ باریک واردات پہلی دفعہ نہیں اس کے علاوہ بہت دفعہ ہو چکا ہے.
سپریم کورٹ آف پاکستان میں آج سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ ذوالفقار بھٹو صدارتی ریفرنس میں عدالت نے کمرہ عدالت میں فاروق نائیک کی یو ایس بی سے ویڈیو چلانے کی اجازت دے دی۔ عدالت کی طرف سے پیپلزپارٹی کے ذوالفقار بھٹو کیس میں یو ایس بی چلانے کی اجازت دیئے جانے اور تحریک انصاف کے لیول پلیئنگ فیلڈ کیس میں یو ایس بی نہ چلانے پر سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ سینئر صحافی وتجزیہ کار جمیل فاروقی نے لکھا: مسئلہ وکیل کا نہیں مسئلہ دلیل کا ہے کیونکہ طاقت اور جہالت نہ تو کسی وکیل کو مانتے ہیں اور نہ ہی کسی دلیل کو ، اس لئے آپس میں لڑنے سے کچھ نہیں ہوگا! سینئر صحافی سعید بلوچ نے لکھا: ذوالفقار بھٹو کیس اور لیول پلیئنگ فیلڈ کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی وکلاء سے رویہ بالکل مختلف ہے، چیف جسٹس صاحب اتنا واضح تضاد کیوں؟ سوشل میڈیا انفلوئنسر شہربانو نے ردعمل میں لکھا: تخت طاؤس پر آبیٹھے ہیں دربان یہاں! سینئر صحافی محمد عمیر نے لکھا: چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے تضادات! جو موجود نہیں اس کے خلاف بات نہیں سنوں گا پھر آر اوز کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ پٹیشنر کو نوٹس دئیے بغیر اڑا دیا۔ لیول پلینگ فیلڈ کے حوالے سے لطیف کھوسہ کو بطور ثبوت ویڈیو چلانے کی اجازت نہ دی مگر ذوالفقار بھٹو صدارتی ریفرنس میں اجازت دیدی۔ مزید کہا کہ آئین سپریم ہے مگر سادہ اکثریت سے آئینی ترامیم کو جائز قرار دیدیا! اسد طور اور مطیع اللہ جان کا اٹھایا جانا یاد ہے مگر عمران ریاض بارے کہا وہ کون ہے؟ اور تحریک انصاف نے زیادتیوں کی بات کی تو ازالہ کرنے کے بجائے کہا جب گرمی برداشت نہیں کرسکتے تو کچن میں کیوں کھڑے ہو؟ دھرنا کیس اور صدارتی ریفرنس کیس میں انصاف دینا یاد ہے مگر ارشد شریف کو انصاف بارے بات سننے سے انکاری ہیں۔ احمد وڑائچ نے اپنے ایکس (ٹوئٹر) میں لکھا: سپریم کورٹ میں دلچسپ صورتحال! بھٹو کیس میں فاروق نائیک نے USB دی، سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کا غیر متعلقہ حصہ چل گیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فاروق نائیک کو کہا جیو سے آئے انٹرویو کی کاپی دیتے ہیں، انٹرویو سن کر اگلی سماعت پر متعلقہ حصے کی نشاندہی کریں۔پی ٹی آئی کے لیول پلیئنگ فیلڈ کیس میں وکیل لطیف کھوسہ نے کہا عدالت میں ویڈیو چلانا چاہتے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے منع کر دیا۔ سینئر صحافی عمران ریاض نے احمد وڑائچ کے پیغام پر ردعمل میں لکھا: انصاف کی فراہمی کے بلند معیارات! سجاد علی چیمہ نے لکھا: کھوسہ کو چاہیے 40انچ کا ٹی وی بھی اپنے ساتھ لے جائےتاکہ USBچلاسکے! سینئر صحافی ظہیر احمد کاہلوں نے لکھا: لیول پلئینگ چل رہی۔۔ پھر کہتے صحیح سے بیٹھا نہیں جاتا! نیہا ملک نے لکھا: عدالت میں بھی لیول پلینگ فلیڈ نہیں دے رہے اگلے! ایک صارف نے لکھا: ان کو کورٹ میں لیول پلینگ فیلڈ نہیں مل رہی باہر کیا خاک ملے گی!۔۔؟
بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے کپتان شکیب الحسن نے عام انتخابات میں بھاری مارجن سے فتح حاصل کرلی ہے، تاہم الیکشن میں فتح کے بعد ایک شہری کو تھپڑ مارنے کی شکیب الحسن کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم کے کپتان شکیب الحسن نے بنگلہ دیش کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور بھاری مارجن سے فتح حاصل کی،انتخابات نتائج کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہےجس میں شکیب الحسن کو ایک شخص کو تھپڑ مارتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، ویڈیو وائرل ہونے کے بعد شکیب الحسن شدید تنقید کی زد میں آگئے ہیں۔ بنگلہ دیشی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ ویڈیو کب اور کہاں کی ہے ؟ اس حوالے سے تاحال کوئی تفصیل سامنے نہیں آسکی ہے۔ میڈیا رپورٹس میں امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ ویڈیو انتخابات کے دوران شکیب الحسن کی جانب سے ایک بوتھ وزٹ کے موقع پر اس وقت بنائی گئی جب بوتھ پر کرکٹ سٹار کی آمد کی خبر پھیلنے سے لوگوں کا ایک بڑا ہجوم اکھٹا ہوگیا۔ شکیب الحسن کے فینز اور ووٹرز نے ان کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے ان کے گرد رش لگادیا اور انہیں گھیرے میں لے لیا جس سے ایک افراتفری کی کیفیت پیدا ہوگئی، اس دوران کئی لوگوں نے شکیب الحسن کو چھونے اور ان سے ہاتھ ملانے ، گلے ملنے کی کوشش کی، ایسے میں ایک شخص نےشکیب الحسن کا کندھا پیچھے سے پکڑ کر ان سے ملنے کی کوشش کی۔ لوگوں کے ہجوم میں گھرے شکیب الحسن نے پیچھے سے ملنے کی کوشش کرنے والے شخص کو پلٹ کر ایک تھپڑ رسید کردیا، اس پورے واقعہ کو اردگرد موجود افراد کے کیمروں کی آنکھوں نے قید کرلیا اور یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ۔ خیال رہے کہ بنگلہ دیشی کرکٹر شکیب الحسن نے شیخ حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ کے ٹکٹ پر بنگلہ دیش کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور بھاری اکثریت سے جیت کر بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوگئے ہیں۔
گزشتہ دنوں پاک فوج سے عقیدت رکھنے والا شہری ننگے پاؤں کورکمانڈر ہاؤس پہنچ گیا تھا اور کورکمانڈر ہاؤس کی دیواروں اور ٹوٹی ٹائلوں کو فرط جذبات میں بوسے دئیے اس شخص نے اپنے ہونے والے بیٹے کا نام عاصم منیر رکھنے کا بھی اعلان کر دیا یہ مولانا کافی عرصے سے سوشل میڈیا پر متحرک تھے اور کبھی ن لیگ کے اور کبھی مولانا فضل الرحمان کے سپورٹربن کر سامنے آتھے اور مریم نواز کے جلسوں میں شرکت کو جنت کا ٹکٹ قرار دیتے تھےا ور کہتے تھے کہ جس نے اسلام قبول کرنا ہے وہ بی بی مریم کے جلسے میں جائے اسی طرح وہ یہ بھی کہتے تھے کہ مولانا فضل الرحمان کی چوری میں بھی برکت ہے یہ شہری مریم نواز کے جلسے کو جنت کا ٹکٹ قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ کسی نے اسلام قبول کرنا ہے تو بی بی مریم کے جلسے میں جائے ، جو جائے گا وہ جنت میں جائے گا یہ مولانا کچھ عرصہ پہلے مولانا فضل الرحمان کی کرپشن کے فضائل گنواتے تھے اور کہتے تھے مولانا فضل الرحمان کی چوری میں بھی برکت ہے، مولانا فضل الرحمان کیساتھ جڑے ہوئ جو لوگ ہیں انکی جوتیوں کی خاک میری آنکھوں کا سرمہ ہے
ناظم جوکھیو کا قتل کرنے والے جام عبدالکریم کو پیپلز پارٹی نے ایم این اے کے ٹکٹ دے دیا,ہیومن رائٹس کی تنقید پاکستان پیپلزپارٹی نے انتخابات2024کیلئےکراچی سمیت سندھ بھرکے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ جاری کردیے ہیں,پرندوں کے شکار سے روکنے پر ناظم جوکھیو کا قتل کرنے والا جام عبدالکریم کو پیپلز پارٹی نے ایم این اے کے ٹکٹ سے نواز دیا. ہیومن رائٹس کونسل پاکستان نے لکھا اس طرح کے شخص کو ٹکٹ دینے سے پیپلز پارٹی قاتل کیساتھ کھڑی ہوگی نا کہ مظلوم کیساتھ اس طرح کے شخص کو پارٹی ٹکٹ دیکر نظیر بھٹو شہید اور زولفقار علی بھٹو شہید کے خون کیساتھ انصاف ہوگا ؟ ملیر سے ناظم جوکھیو قتل کیس کے مرکزی کردار جام عبدالکریم جس کے خلاف ناظم نے اپنے قتل سے پہلے خود ویڈیو اور آڈیو گواہی دی تھی اس کو پھر ایک بار قومی اسمبلی کے لئے پارٹی کا ٹکٹ دے دیا گیا۔ ناظم جوکھیو پی پی پی کا مخالف نہیں تھا بلکہ پارٹی کا ایک ورکر تھا۔ اگر ملیر اور کراچی کا نہیں تو کم سے کم اپنے شہید کارکن کا ہی کچھ احترام کر لیتی #پی_پی_پی۔ کیا پارٹی میں ایسے ورکرز کی کمی تھی جن کے ہاتھ مظلوم کے خون سے نا رنگیں ہوں؟ اشرافیہ کے خلاف تقریر کرنا آسان ہے مگر غریب کے ساتھ کھڑے ہونا مشکل۔ جبران ناصر نے لکھا پی پی پی کا کراچی کو ایک اور تحفہ۔ ملیر سے ‎#ناظم_جوکھیو قتل کیس کے مرکزی کردار جام عبدالکریم جس کے خلاف ناظم نے اپنے قتل سے پہلے خود ویڈیو اور آڈیو گواہی دی تھی اس کو پھر ایک بار قومی اسمبلی کے لئے پارٹی کا ٹکٹ دے دیا گیا۔ انہوں نے کہا ناظم جوکھیو پی پی پی کا مخالف نہیں تھا بلکہ پارٹی کا ایک ورکر تھا۔ اگر ملیر اور کراچی کا نہیں تو کم سے کم اپنے شہید کارکن کا ہی کچھ احترام کر لیتی ‎#پی_پی_پی۔ کیا پارٹی میں ایسے ورکرز کی کمی تھی جن کے ہاتھ مظلوم کے خون سے نا رنگیں ہوں؟ اشرافیہ کے خلاف تقریر کرنا آسان ہے مگر غریب کے ساتھ کھڑے ہونا مشکل۔
گزشتہ دنوں عمران خان کا غیر ملکی جریدے اکانومسٹ میں مضمون چھپا جو ساری دنیا میں وائرل ہوا، وائرل ہونے کے بعد حکومت حرکت میں آگئی اور اس آرٹیکل پر سخت ردعمل دیا۔ نگران وزیرطلاعات نے کہا کہ یہ حیران کن اور پریشان کن ہے، معزز ادارے نے ایسے فرد کے نام سے مضمون شائع کیا جو جیل میں ہے، اسے سزا ہو چکی ہے، اخلاقی معیارات برقرار رکھنا اور ذمہ دارانہ صحافت کو فروغ دینا انتہائی ضروری ہے۔ مرتضٰی سولنگی نے نے کہا کہ جاننا چاہیں گے مضمون کی اشاعت کے حوالے سے ادارتی فیصلہ کیسے کیا گیا؟، مواد کی قانونی حیثیت اور اعتبار کے حوالے سے کن باتوں کو مدنظر رکھا؟ مرتضیٰ سولنگی نے مزید کہا کہ کیا جریدے نے دنیا کے کسی اور حصے سے جیل میں بند سیاستدانوں کے گھوسٹ آرٹیکل شائع کیے ہیں؟ اگر جیل میں بند مجرم میڈیا کو لکھنے کیلئے آزاد ہوتے تو وہ اپنی یکطرفہ شکایات کو نشر کرنے کیلئے ہمیشہ اس موقع کا استعمال کرتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نگران وزیراطلاعات مرتضیٰ سولنگی ماضی میں سزایافتہ کے انٹرویو کی حمایت کیا کرتے تھے ، وہ سزایافتہ لیکن ملک سے مفرور نوازشریف کی ٹی وی کوریج کے بھی حامی تھے اور آصف زرداری کے جیل سے پروڈکشن آرڈر پر ریلیز ہونے پر بھی انٹرویو کی حمایت کیا کرتے تھے۔ انہوں نے 2019 میں کہاتھا کہ سزا یافتہ شخص کو اسکے بنیادی حقوق سےمحروم نہیں کیا جاسکتا، کا انٹرویو ہونا قوم کے مفاد میں ہے اور یہ کسی طور پر بھی غلط نہیں ہے۔ احمد وڑائچ نے اس پر کہا کہ مرتضیٰ سولنگی 2019 میں کہتے تھے سزا یافتہ کا انٹرویو ہونا بنیادی حق ہی سمجھیں، 2024 میں کہا سزایافتہ کا مضمون لکھنا غلط ہے۔ ہمارے لیفٹ کے دانشوروں کی کل اوقات "ایک سرکاری نوکری" ہے اور بس نوٹ: عمران خان اس وقت کسی کیس میں سزا نہیں کاٹ رہے، سزا معطل ہو چکی ہے پی ٹی آئی کے ایک اکاؤنٹ نے کہا کہ نگران وزیر کی منافقت بے نقاب دیکھیے۔ ایک ٹوئٹ 2019 کی ہے جس میں وہ مفرور نواز شریف کو ٹی وی پر لانے کے خواہشمند تھے، جبکہ دوسری ٹویٹ کل کی ہے جس میں وہ دی اکانومسٹ پر عمران خان کی جیل سے تحریر شائع کرنے پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ معیز جعفری کی طنز یہ ٹویٹ پر ثاقب بشیر نے تبصرہ کیا کہ یکم جولائی 2019 کی نگران وزیر اطلاعات کی ٹویٹ سے مکمل اتفاق ہے یہی میں لکھنے لگا تھا اچھا ہوا لکھا ہوا مل گیا
عمر ڈار کی بیٹی کا کہنا ہے کہ کیفے الانتو کا بائیکاٹ کریں سب کیونکہ وہ میرے بابا کے اغواہ میں ملوث ہیں, ویڈیو پیغام میں عثمان ڈار کی بیٹی کو کیفے کے حوالے سے بات کرتا دیکھا جاسکتا ہے, جس پر سوشل میڈیا صارفین تبصرے کررہے ہیں,ایکس پر بائیکاٹ کیفے الانتو ٹاپ ٹرینڈ بن گیا. عمر ڈار کی بیٹی نے اسی ٹیبل پرپیغام ریکارڈ کروایا جہاں سے عمر ڈار کو اغوا کیا گیا، انکے مطابق کیفے کے پاس 5 کیمرے ہیں لیکن یہ کہتے ہیں کہ انکے پاس فوٹیج ہی نہیں ہے اور ڈیلیٹ ہوگئی ہے ارسلان بلوچ نے لکھا ‏عمر ڈار کی بیٹی کا کہنا ہے کہ کیفے الانتو کا بائیکاٹ کریں سب کیونکہ وہ میرے بابا کے اغواہ میں ملوث ہیں,میں تو نہیں جانتا اس کیفے کو اگر کوئی جانتا ہے تو تفصیلات اس ٹویٹ کے کمنٹ میں شئیر کریں،تاکہ اس کیفے کو اسکی اوقات بتائی جائے۔ ارسلان بلوچ نے مزید لکھااجاو سب،سب سے پہلے کیفے الانتو کو گوگل پر سرچ کرو اور وہاں اسکی ریٹنگ میں ایک سٹار دو اور کچھ نا کچھ لکھ کر او۔یہ کر کے سب ڈن کرو نیچے پھر کمنٹ میں بتاؤ اسکے بعد کیا کرنا ہے وہ بعد میں بتاتا ہوں۔ پی ٹی آئی آفیشل اکاونٹ سے بھی تفصیلات شییر کی گئیں, لکھا کیفے ڈی ایچ اے فیز 3 زیڈ بلاک عمر ڈار کے اغواء میں ملوث افراد کی سہولتکاری کیلئے اپنے تمام سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیجز ضائع کر رہے ہیں۔ ریسٹورنٹ میں جس جگہ سے عمر ڈار کو اغواء کیا گیا اس کے چاروں اطراف کیمرے موجود ہیں اور ان کیمروں میں صرف رات ساڑھے 10سے لے کر رات 12 بجے تک کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود نہیں ہے۔ صرف یہی نہیں آس پاس موجود تمام گھروں دفاتر اور سیف سٹی کیمروں میں سے بھی صرف اس مخصوص وقت کی فوٹیجز دستیاب نہیں۔ کیا تمام کیمروں نے اغواء کے وقت کام کرنا چھوڑ دیا تھا؟ پوری پنجاب پولیس اس گھناؤنے جرم میں ملوث ہے اور انشااللہ جلد بے نقاب ہو گی۔ شہباز گل نے لکھا عمر ڈار کی بیٹی نے اپنے والد کے اغواء میں سہولت کاری کرنے پر کیفے الانتو ڈی ایچ اے فیز 3 زیڈ بلاک کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ہے,سوشل بائیکاٹ کسی بھی مہذب معاشرے میں مظلوم کاساتھ دینے،ظالم اور ظالم کا ساتھ دینے والوں پر دباؤ ڈالنے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے. سبی کاظمی نے لکھا عمر ڈار کے اغوا کے ہولت کار ریسٹورنٹ میں پاکستانیوں کو نہیں جانا چاہیے. نسیم کھیڑا نے کیفے کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کردیا. شہر بانو نے لکھا انصافینز ۔۔۔۔طاقت دکھائیں ۔۔۔اور ان لوگوں کو صفر پر لے کر آئیں ہانیہ نے کہا جہاں ایک پاکستانی عمر ڈار اغوا ہواجس کا کوئی پتا نہیں ایسی جگہ جاکر خودکو کسی مشکل میں نہ ڈالے بائے کاٹ کرے دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ نے تحریک انصاف کے عمر ڈار کی بازیابی اْن کے بھائی کو تمام سی سی ٹی وی ڈیٹا دکھا کر مطمئن کرنے کی ہدایت کر دی اور ساتھ ہی سیف سٹی اور دیگر ڈیٹا اکھٹا کرنے کا حکم دے دیا. لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے عمر ڈار کی والدہ ریحانہ امتیاز کی درخواست پر سماعت کی تو درخواست گزار خاتون کے وکیل نے بتایا کہ یہ کہا گیا تھا کہ بازیابی کیلئے ہائی لیول کمیٹی بنائی گئی ہے لیکن وہاں تو ایس ایچ او سے ملاقات کرائی گئی. درخواست گزار نے نشاندہی کی کہ بعض سی سی ٹی وی فوٹیج ڈیلیٹ کر دی گئی ہیں. ایس ایس پی علی رضا نے بتایا کہ ہارڈ ڈیسک سے کوئی چیز ڈیلیٹ نہیں کرائی. پنجاب حکومت کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ پولیس افسران نے دیگر بھی کام کرنے ہوتے ہیں. اس پر عدالت نے باور کرایا کہ پولیس افسر اپنا کام کریں لیکن یہ اہم معاملہ ہے اس کو دیکھیں. عدالت نے سماعت نو جنوری تک ملتوی کردی. تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار اور عمر ڈار کی والدہ نے کہا تھا کہ اگر میرا بیٹا عمر ڈار نہ ملا تو آئی جی کے خلاف ایف آئی آر درج کراؤں گی اور عدالت جاؤں گی۔ لاہور ہائکیورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پولیس نے سب کے سامنے میرے بیٹے کو اٹھایا، آئی جی پنجاب نے نوٹس کیوں نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ میں کچھ نہیں کہوں گی، فیصلے اللّٰہ پر چھوڑتی ہوں، اگر میرے بیٹے پر کوئی مقدمات تھے تو عدالت لاتے اور سامنا کرتے,گزشتہ ہفتے ترجمان تحریک انصاف نے دعویٰ کیا تھا کہ عثمان ڈار کے بھائی عمر ڈار کو لاہور سے گرفتار کرلیا گیا ہے۔
عمران خان کا برطانوی جریدے دی اکنامسٹ میں لکھا جانیوالا آرٹیکل 2007 کے بعد سب سے زیادہ پڑھا جانیوالا آرٹیکل بن گیا ہے اور دی اکنامسٹ یہ آرٹیکل 4 سے 5 بار پوسٹ کررہا ہے جس کی ریچ اور ویوز ملینز میں ویوز ہیں۔ جمعرات کی دوپہر 4 جنوری کو یہ آرٹیکل شائع ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا، سوشل میڈیا صارفین نے اسے دھڑا دھڑ شئیر کیا اور یہ آرٹیکل مقبول ہوگیا۔ آرٹیکل کی مقبولیت دیکھ کر نگران حکومت کے کان کھڑے ہوگئے اور نگران وزیراطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے سخت ردعمل دیا۔انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ عمران خان سزا یافتہ ہیں اور انکا آرٹیکل شائع ہونا صحافتی اصولوں کے خلاف ہے۔ مرتضی سولنگی کے ردعمل کے بعد دی اکنامسٹ کے اس آٹیکل کو مزید 3 سے 4 بار شئیر کیا اور مزید کئی ملین ویوز حاصل کئے۔ عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ پر اس آرٹیکل کا لنک شئیر کیا گیا تو دی اکنامسٹ نے اسے بھی ری ٹویٹ کردیا۔ عاشر باجوہ کے مطابق اکانومسٹ نے عمران خان کے آرٹیکل کی ٹویٹ کوئی5 مرتبہ کی . ان ٹویٹس کو کل ملا کر اب تک 8 ملین سے زیادہ امپریشنز، 2 لاکھ سے زیادہ لائیکس مل چکے ہیں .. ویسے اکانومسٹ کو اوسطا 100 سے 120 لائیکس اور 90 ہزار سے 1 لاکھ امپریشنز ملتے ہیں. صحافی ثاقب بشیر نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ نگران حکومت کی جانب سے عمران خان کے مضمون کی اشاعت پر سوال اٹھائے جانے کے بعد کل شام سے اب تک دی اکانومسٹ دو دفعہ وہی مضمون ٹویٹ کر چکا ہے بار بار ٹویٹ کرنے سے ایسے محسوس ہوتا حکومت کی انہوں نے چھیڑ بنالی ہے انہوں نے مزید کہا کہ نگران وزیر اطلاعات کے ٹوئٹ ردعمل نے عمران خان کے دی اکانومسٹ میں لکھے کالم کو اور بوسٹ دینے کے علاوہ کچھ نہیں کیا نا ان کے خلاف کچھ ہو سکتا ہے نا ہی گراؤنڈز ہیں یہ ردعمل کس کا مشورہ تھا ؟ الٹا ایکس نے درمیان میں اپنی کہانی ڈال دی ہے صحافی عدنان عادل نے کہا کہ عمران خان کے انٹرویو والی پوسٹ اکانومسٹ کے اکاؤنٹ سے 12 لاکھ لوگ دیکھ چکے۔ پیج ٹرنر کا کہنا ہے کہ اکانومسٹ کی کوئی دوسری پوسٹ کبھی ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں نے نہیں دیکھی۔ نجم الحسن باجوہ نے کہا کہ عمران خان کا ایک آرٹیکل ن لیگ کی پوری 10 ارب روپے کی میڈیا مینجمنٹ پر بھاری پڑ گیا ۔۔ اسی لئیے تو بیچارے رو رہے ہیں۔ محمد فہیم نے کہاکہ "نگران حکومت نے جتنی تشہیری مہم عمران خان کے آرٹیکل کی مفت میں کردی ہے شائد ادائیگیاں کرکے بھی پی ٹی آئی اتنی تشہیر نہ کرسکتی ۔نگران حکومت کی بدولت عمران خان کا آرٹیکل ملک سے باہر بھی توجہ حاصل کر گیا ۔نہ جانے کون مشورے دیتا ہے انہیں"۔ مغیث علی کا کہنا تھا کہ "دی اکانومسٹ" نے سب کا بھیجا فرائی کردیا، سوال تو یہ ہونا چاہیے تھا پیمرا نے عدالت میں جا کر کہا کہ نام لینے اور تصویر پر پابندی نہیں لگائی، عمران خان کا پاکستانی میڈیا نام کیوں نہیں لیتا، تصویر کیوں نہیں دکھاتا ؟
سینئر صحافی واینکر پرسن عاصمہ شیرازی کو عمران خان کالم کو دی اکانومسٹ میں شائع ہونے پراعتراض کرنا مہنگا پڑگیا، صحافی و پی ٹی آئی رہنما کی شدید تنقید۔ تفصیلات کے مطابق عاصمہ شیرازی نے اپنے تازہ ترین وی لاگ میں عمران خان کے دی اکانومسٹ میں شائع آرٹیکل کے معاملے پردعمل دیتے ہوئے اس میں اسٹیبلشمنٹ کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ اگر یہ آرٹیکل نواز شریف، آصف علی زرداری یا مریم نواز جیل سے شائع کرواتے تو کیا ہوتا،پورا میڈیا اس پر تنقید کررہا ہوتا۔ عاصمہ شیرازی کی جانب سے اس تنقید کے جواب میں انہیں سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، مشہور مصنف اور تجزیہ کار عائشہ صدیقہ نے ردعمل دیا اور کہا کہ مرتضیٰ سولنگی اور عاصمہ شیرازی کا یہ پست صحافتی معیار ہے کہ جس میں ان کا خیال ہے کہ کوئی اپنا نقطہ نظر پیش نہیں کرسکتا چاہے وہ ہمارے خلاف ہی کیوں نا ہو۔ عاصمہ شیرازی نے اس ٹویٹ کے جواب میں عائشہ صدیقہ کو جواب دیا اور کہا کہ اب صحافت ہم آ پ سے سیکھیں گے۔ پی ٹی آئی رہنما اور سابق وزیراعظم کے مشیر مرزا شہزاد اکبر نے کہا کہ آپ کو کالم سمجھ نہیں آتا تو اتنا ماتم کیوں؟ ایک کالم نےا تنی آگ لگادی، جب سالم بندا باہر آئے گا تو قیامت ہی ہوجائے گی۔ سینئر صحافی صدیق جان نے کہا کہ جیل تو پنجاب حکومت کے کنٹرول میں ہے تو عاصمہ شیرازی اسٹیبلشمنٹ سے سوال کیوں کررہی ہیں۔ صحافی ارم زعیم نے کہا کہ سزا یافتہ اشتہاریوں کی پیمرا بندش ختم کروانے والی عاصمہ شیرازی کو کوئی خبر دے کہ عمران خان سزا یافتہ نہیں ہیں بلکہ انہیں ریاستی بدمعاشی کے زور پر جیل میں رکھا گیا ہے۔ اینکر طارق متین نے کہا کہ ایک شخص چار ہفتوں کا کہہ کر علاج کروانے گیا، چار سال بعد واپس آیا، پیمرا پابندی کے باوجود وہاں سے تمام چینلز پر آتا رہا، اس پر عاصمہ شیرازی نے کوئی اعتراض اٹھایا؟ صحافی جمی ورک نے کہا کہ قرب قیامت کی نشانی ہے کہ عاصمہ شیرازی دی اکانومسٹ کو صحافتی آداب سکھارہی ہیں۔ احمد جواد نے کہا کہ پاکستان کا کوئ صحافی یا سیاست دان اکانومسٹ میں ایک لفظ لکھنے کا اہل نہیں، اگر یقین نہیں تو آپ کوشش کرکے دیکھ لیں، اور پھر بھی نا یقین آۓ، تو جیل سے باہر آصف زرداری یا نواز شریف یا ککڑ کو کہیں کہ اکانومسٹ میں آرٹیکل لکھ کر دکھائیں۔ فیاض شاہ نے نواز شریف کے حق میں لکھےعاصمہ شیرازی کے ایک کالم کا تراشہ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ عاصمہ شر ازی خود بی بی سی میں سزا یافتہ مجرم نوازشریف کی شان مںئ قصیدے لکھا کرتی تھیں، ان قلم فروشوں کو شرم تو چھو کر بھی نہیں گزری۔ راشد بنگش نے ردعمل دیا کہ عاصمہ شیرازی نے 3 نام لئیے نواز شریف ، آصف زرداری ، مریم۔نواز کہ اگر ان تینوں نے دی اکانومسٹ میں کالم لکھا ہوتا تو ۔۔۔۔۔۔۔پی ٹی آئی اعتراض کرتی ہمارا چیلینج ہے یہ تینوں شخصیات بغیر کسی اور کی مدد اور نقل کے صرف 10 لائنیں لکھ دیں دی اکانومسٹ میں ہم خان صاحب کو کہ دیں گے ان کو میدان دے دو قبول ہے چیلینج ؟
نگراں وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی سے عمران خان کا آرٹیکل شائع کرنے کو چیلنج کرنے پر نواز شریف سے متعلق سوال، مرتضیٰ سولنگی سے جواب نا بن سکا۔ تفصیلات کے مطابق سینئر تجزیہ کار شہزاد اقبال نے مرتضیٰ سولنگی سے سوال کیا کہ اگر جیل میں موجود عمران خان کا لکھا آرٹیکل شائع نہیں ہوسکتا تو 21 اکتوبر کو نواز شریف کی واپسی پر سرکاری ٹی وی چینل کی جانب بھرپور میڈیا کوریج کیوں دی گئی؟ مرتضیٰ سولنگی نے جواب دیا کہ نواز شریف کی سزا معطل ہوچکی تھی،شہزاد اقبال نے جوابا سوال کیا کہ سزا تو عمران خان کی بھی معطل ہوچکی ہے،مرتضی سولنگی نے کہا کہ بہت سی باتیں دیکھی جاتی ہیں، کہ الزام کیا ہے، سزا کس کیس میں ہوئی ہے، نواز شریف سے متعلق عدالتوں نے فیصلہ کرلیا ہے جو آپ نےبھی دیکھ لیا ہے۔ شہزاد اقبال نے کہا کہ وہ فیصلہ بعد میں آیا ، 21 اکتوبر کی کوریج اس سے پہلے کی ہے، مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ 21 اکتوبر کو ان کی سزا معطل تھی، عمران خان کی بھی سزا معطل تھی مگر ان پر بہت سے دیگر الزامات تھے اور وہ آزاد شہری نہیں ہے، عدالت نے عمران خان کو ایسی کوئی سہولت نہیں دی ہےجو نواز شریف کو دی گئی ہے۔ پی ٹی آئی رہنما اظہر مشہوانی نے اس مکالمےپر ردعمل دیتےہوئے کہا کہ مرتضیٰ سولنگی پر ریڈیو پاکستان کی خواتنت نے ہراساں کرنے والا جنسی درندہ ہونے کے الزامات لگائے ہوئے ہںو، اور وزیر اطلاعات بن کر بٹھاا ہوا ہے۔ عمیر خان نے کہا کہ جیسا میں نے کہا کہ یہ سسٹم اس وقت ننگا ناچ کررہا ہے، یہ نظام ایکسپوز ہوچکا ہےجس میں چھوٹے لوگ صرف اپنے پے چیک کیلئے کام کررہے ہیں۔ ایک صارف نے کہا کہ شہزاد اقبال نے آخر میں ترس کھا کر بات بدل دی تھی۔ فہیم سجاد نے کہا کہ سوجوتے اور پیاز کھانا اسے کہتے ہیں۔ وقار عباسی نے کہا کہ بڑھاپے میں جب کسی کو اختیار مل جائےتو پھر وہ ایسے اول فول ہی شروع کردیتا ہے۔
کاش میں محترمہ سے رابطہ کر سکتا تو ان سے کفایت شعاری ہی سیکھ لیتا!: سوشل میڈیا صارف قائد مسلم لیگ ن لیگ میاں نوازشریف کی صاحبزادی اور پارٹی کی چیف آرگنائزر مریم نوازشریف کی طرف سے کاغذات نامزدگی کے ساتھ بیرون ملک دوروں کے سفری اخراجات کی الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کروائی گئی تفصیلات منظرعام پر آگئی ہیں جس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ مریم نوازشریف نے 1 سال کے دوران مختلف ممالک کا 17 بار دورہ کیا اور 18 دن سوئٹزر لینڈ میں سرجری کیلئے رہیں جس کا خرچ 53 ہزار آیا۔ سینئر صحافی وتجزیہ کار شاکر محمود اعوان نے مریم نوازشریف کے سفری اخراجات کی تفصیلات اپنے ایکس (ٹوئٹر) پیغام میں شیئر کرتے ہوئے لکھا: یہ مریم نوازشریف کے بیرون ملک دوروں کی تفصیلات ہیں! محترمہ سرجری کے سلسلہ میں 18 دن تک سوئزرلینڈ رہیں اور خرچ صرف 53 ہزار روپے 550 روپے آیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ: ہمارے ہاں تو اتنا پیسے مری کا سفر کرتے ہوئے ایک دن میں خرچ ہو جاتے ہیں! محترمہ 1 سال کے دوران 17 دفعہ مختلف ممالک کی سیر کرنے کے لیے گئیں۔ مریم نوازشریف کی طرف سے یہ تفصیلات این اے 117 میں کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے دوران جمع کروائی گئی ہیں! سینئر صحافی محمد عمیر نے اپنے ایکس (ٹوئٹر) پیغام میں لکھا: مریم نوازشریف کے خرچ کی تفصیلات! 18 دن سوئٹرز لینڈ رہنے کا خرچہ 53000 روپے، 25 دن یوکے اور سوئٹرز لینڈ رہنے کا خرچہ دو لاکھ 18 ہزار روپے اور یوکے میں 36 دن رہنے کا خرچہ ایک لاکھ پچاس ہزار روپے آیا ہے۔ پانامہ حساب کتاب کے دوران پتہ لگا تھا کہ جاتی عمرہ کی زمین 80 روپے فی مرلہ کی خریدی گئی تھی! سینئر صحافی عاصم ارشاد نے لکھا: مریم نوازشریف سرجری کے سلسلہ میں 18 دن سوئزرلینڈ رہیں اور خرچ صرف 53 ہزار روپے آیا، یہ کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت اثاثوں کی تفصیلات ہیں! ایک سوشل میڈیا صارف نے طنزیہ پوسٹ کرتے ہوئے لکھا: بھائی پلیز مجھے بھی 2 لوگوں کا 30 دن تک سوئٹزرلینڈ میں رہنے کا حساب کتاب لگوا دیں، اسی ریٹ پر! میں بھی اسی بہانے سوئٹزرلینڈ دیکھ لوں گا، نہیں تو 80 روپے فی مرلہ کے حساب سے 4 کنال، میرا مطلب ہے 80 مرلے زمین ہی دلوا دیں! شہباز ماہی نامی صارف نے لکھا: کیا بات ہے، میرا پچھلے دنوں لاہور جانے کا اتفاق ہوا جہاں میں 7 دن رہا اور 8 سے 9 ہزار روپے لگ گئے، کاش میں محترمہ سے رابطہ کر سکتا تو ان سے کفایت شعاری ہی سیکھ لیتا! سید ذیشان عزیز نے لکھا: انہوں نے اپنا خرچہ بتایا ہے جو اپنی جیب سے ادا کیا ہے! اقرا افضل نے لکھا: سوئٹزرلینڈ اتنا سستا ہے؟ مطلب ٹکٹ وغیرہ کے پیسے اور وہاں رہائش کے اخراجات اور پھر سرجری کے پیسے کل ملا کر صرف 53 ہزار 550 روپے !
پاکستان تحریک انصاف کے خلاف سرکاری و نجی ٹی وی چینل پر ایک مہم زور وشور سے جاری ہےجس میں پی ٹی آئی کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ کے مطالبے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی اور نجی خبررساں اداروں پر ایک مہم چلائی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو جانتے بوجھتے آگ لگانے والے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے پر شکوہ کیسے کرسکتے ہیں؟ 9 مئی کی ذمہ دار سیاسی شرپسند پارٹی کس منہ سے لیول پلیئنگ فیلڈ مانگ رہی ہے۔ اس مہم میں مزید کہا گیا ہے کہ غنڈہ گردی،دہشت گردی،بدامنی، جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار میں ملوث افراد، شہداء کی یادگاروں کو سرعام نذر آتش کرنے والے انتشاریوں کو کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملنی چاہیے؟ سرکاری و نجی ٹی وی چینل پر ایک سیاسی جماعت کے خلاف اس مہم پر سوشل میڈیا صارفین پھٹ پڑے ہیں، پی ٹی آئی رہنما اور صحافیوں نے اس اقدام کو صحافتی اقدار کے منافی قرار دیا۔ پی ٹی آئی رہنما فلک جاوید خان نے کہا کہ قوم کا پیسہ لگاکر جھوٹا بیانیہ بنایا جاتا ہے اور اگلا ایک آرٹیکل لکھتا ہے اور سارا بیانیہ وڑ جاتا ہے اور پھر ان کی چیخیں مریخ تک سنائی دیتی ہیں۔ صحافی عمر انعام نے کہا کہ گزشتہ 20 ماہ میں ملک کو سب سے زیادہ آگ بکاؤ میڈیا نے لگائی ہے۔ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ وقار ملک نے کہا کہ نگراں حکومت کے ہوتے ہوئے ٹیکس کے پیسوں سے سرکاری ٹی وی پر ایک سیاسی جماعت کے خلاف ایسی جھوٹی مہم کیسے چلائی جاسکتی ہے؟ یہ تو عمران خان کے آرٹیکل نے تصدیق کردی ہے کہ پی ٹی آئی کو الیکشن میں فیلڈ نہیں دی جارہی۔ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ارسلان بلوچ نے اس پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے بہت سے سوالات اٹھائے اور کہا کہ سانحہ 9 مئی کی ایک انکوائری ہونی چاہیے جس میں دونوں جانب کا موقف سنا جائے اور شواہد پیش کیے جائیں۔ ایک صارف نے کہا کہ قوم کے پیسوں سے پی ٹی آئی کیخلاف ریاستی چینل پر منفی مہم چلائی جارہی ہے اور ہمیں کہاجارہا ہے کہ تم سوشل میڈیا بھی نا چلاؤ۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے آئندہ عام انتخابات کے لیے 8 فروری 2024ء کا اعلان ہو چکا ہے لیکن اب تک مختلف حلقوں سے انتخابات ملتوی ہونے کی چہ مگوئیاں کی جا رہی ہیں تو دوسری طرف آج ایوان بالا میں آئندہ عام انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لی گئی ہے۔ سینئر صحافی وتجزیہ کار کامران خان نے انتخابات ملتوی کرنے کی حمایت میں ٹویٹ کر دیا تو دوسری طرف سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے کامران خان کو ٹائوٹ کہہ دیا اور کہا یہ سب کچھ الیکشن کے عمل کی ساکھ تباہ کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے۔ کامران خان نے اپنے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر پیغام میں لکھا: سینٹ آف پاکستان زندہ باد! پاکستان کو 8 فروری کی افراتفری ایک اور دھاندلی زدہ الیکشن سے بچاؤ! معاشی استحکام کے تسلسل، خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی)کے تسلسل اور پاکستان سٹاک ایکسچینج میں بہتری کے تسلسل کا صرف یہی ایک راستہ ہے کہ پہلے اندرونی اتحاد پیدا کریں۔ صاف شفاف الیکشن کا ماحول بن جائے تو پھر ہوجائیں گے الیکشن! ابھی صرف معیشت بحالی مشن جاری رکھیں، پاکستان زندہ باد! ایک اور ٹویٹ میں لکھا: 8 فروری 2024ء کے انتخابات جس ماحول میں ہو رہے ہیں میں صدق دل سے اس بات پر قائم ہوں کہ وہ انتخابات کیلئے تباہ کن ہے اور شدید دھاندلی کے بدترین الزامات میں شفافیت کے تمام امکانات نگل چکے ہیں۔ آئندہ عام انتخابات پاکستان میں اندرونی تقسیم کو مزید ہوا دیں گے اور معاشی استحکام کا جو ماحول موجودہ دور حکومت میں ہے جلد ہی زائد ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بہترین کارکردگی دکھانے والی معاشی ٹیم انتخابات کے نتیجے میں گھر چلی جائے گی اور SIFC کا Momentum ٹوٹ جائیگا، اس پس منظر میں Managed انتخابات کے نتیجے میں پہلے 4 سے 5 بار اقتدار کے مزے لوٹنے والے سیاستدان ایک بار پھر سے منتظر ہیں کہ مقتدر حلقے سونے کی تشتری سجا کر اقتدار ان کے حوالے کر دیں۔ انہوں نے لکھا کہ: مقتدر حلقوں کی مخصوص لاڈلی حکومتیں اقتدار کے روز سے ہی عوامی پذیرائی سے محروم ہو جاتی ہیں اس لیے یہ ماحول نہ تو معاشی ترقی کے لیے معاون ثابت ہو سکتا ہے نہ ہی ملک میں سیاسی استحکام کے لیے یہ ماحول معاون ثابت ہو گا۔ صاف شفاف اقدامات کے لیے نظام بنانا اگر اس وقت ممکن نہیں ہے تو انتخابات نہیں ہونے چاہئیں۔ سینئر صحافی وتجزیہ کار مطیع اللہ جان نے کامران خان کے ٹوئٹر پر شدید ردعمل دیتے ہوئے لکھا: صوبیدار ریٹائرڈ اور اعزازی کپتان کامران خان کی ٹویٹ دیکھ کر واضح ہوتا جا رہا ہے کہ ملک کو بغیر انتخابات کے چنتخب ٹاؤٹ سیاستدانوں کے ذریعے چلانے کی پلاننگ کی جا رہی ہے! ایسا لگتا ہے امریکہ نے بھی آئی ایم ایف کی امداد کو الیکشن سے مشروط کرنے پر نظر ثانی کا وعدہ کر لیا ہے۔ انہوں نے لکھا: لگتا ہے کہ سینٹر حضرات کو اگلی سینٹ کے انتخاب تک رکنیت جاری رکھنے کی لالچ دی جا رہی ہے۔ سیاست اور جمہوریت کے بدحالی اور معیشت کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کے علاوہ دیگر مالیاتی ادارے اور کچھ عرب ممالک بھی متحرک ہو سکتے ہیں۔ سینیٹر افنان اللہ کا کورم کی نشاندھی کرنے کی بجائے قرارداد کی ووٹنگ میں شامل رہ کر اور محض مخالفت کرنا مسلم لیگ ن کی دوغلی پالیسی بھی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے لکھا: الیکشن کمیشن اور اس کے آر اوز کے چند فیصلوں نے بھی غیر اعلانیہ طور پر آئندہ عام انتخابات میں تاخیر اور سپریم کورٹ کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی ہے! کاغذات چھینا جانا، بڑی تعداد میں مسترد ہونا یہ سب کچھ جان بوجھ کر الیکشن کے عمل کی ساکھ تباہ کرنے کے لیے کیا گیا تاکہ کامران خان جیسے ٹاؤٹ یہ کہہ سکیں کے ایسے الیکشن نہ ہی کرائے جائیں تو بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ سٹاک مارکیٹ کے لالچی سرمایہ داروں کو بھی ایسے میں سٹاک اوپر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایسے میں اِس ملک کو بچانے کا واحد سہارا سپریم کورٹ ہے، ایسی سازشوں کا سپریم کورٹ کے پاس واحد حل پنجرہ کھول کر اُس بلا کو باہر نکالنا ہو گا اور پھر یہ نہیں سوچنا ہو گا کہ مارشل لاء لگ گیا تو کیا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ کیا ایسے بزدل اور دوغلے سیاستدانوں کی نا اہلی کی مدت پر ٹائم ضائع کرنے والی عدالت عظمیٰ آئین میں درج سیاسی سرگرمیوں کے لیے مستقل طور پر نا اہل قرار دئیے گئے اداروں کی مداخلت کو نظر انداز کرے گی؟ This is a now or never kind of situation for the apex court and the lawyers bodies
عاصم اپنی کتاب کا تحفہ عمران خان کو اپنے ہاتھ سے پیش کرنے کی خواہش دل میں لیے دارِفانی سے کوچ کر گئے: سوشل میڈیا صارف سابق وزیراعظم و بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے عوامی جلسوں کے لیے متعدد گیت لکھنے والے شاعر کو قتل کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے عوامی جلسوں کے لیے معروف گیت "ہم کوئی غلام نہیں" سمیت متعدد گیت لکھ کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والا معروف شاعر عاصم تنہا کو قتل کر دیا گیا ہے ۔ عاصم تنہا کے بہت سے اشعار اور غزلوں نے دنیا بھر میں مقبولیت کی سند حاصل کی، ان کی وفات پر سوشل میڈیا پر صارفین کی طرف سے شدید دکھ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ احمد وڑائچ نے عاصم منیر کی تصویر شیئر کرتے ہوئے اپنے ایکس (ٹوئٹر) پیغام سے میں لکھا: انتہائی افسوناک خبر ہے کہ کبر کے نوجوان شاعر عاصم تنہا اور ان کے بھائی کو خاندانی جھگڑے کی بنیاد پر قتل کر دیا گیا ہے۔ عاصم تنہا نے چلو چلو عمران کے ساتھ اور ہم کوئی غلام تو نہیں سمیت پاکستان تحریک انصاف کے متعدد نغمے تحریر کیے۔ سوشل میڈیا انفلوئنسر شہربانو نے اپنے پیغام میں لکھا:میں بھائی عاصم تنہا کو خوشاب کے جلسے کے موقع پر ملی تھی، میرا ان سے تعارف کرایا گیا اور بتایا گیا کہ یہ ترانے انہوں نے لکھے ہیں۔ عاصم تنہا کے قتل کی خبر نے انتہائی افسردہ کر دیا ہے۔ کیوں بہت ذہین لوگوں کو بہت قابل لوگوں کو زندہ رہنے نہیں دیا جاتا؟ کیوں ہمارا معاشرہ ان کے خلاف ہو جاتا ہے ؟ فرید ملک نے لکھا:ضلع بھکر کے چاندنی چوک سے تعلق رکھنے والے "ہم کوئی غلام تو نہیں کتاب اور تحریک انصاف کے ترانے کے شاعر" ہمارے دوست عاصم تنہا کو قتل کر دیا گیا۔ مرحوم عاصم عمران خان کے بہت بڑے فین تھے اور اپنی کتاب کا تحفہ انہیں اپنے ہاتھ سے پیش کرنے کی خواہش دل میں لیے دارِفانی سے کوچ کر گئے، دعائے مغفرت کی اپیل ہے۔ رانا نثار احمد نے عاصم تنہا کی ایک محفل مشاعرہ میں شعر پڑھتے ہوئے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا: پاکستان تحریک انصاف کیلئے بے شمار ترانے لکھنے والے بھکر(وسیب )کے سرائیکی شاعر عاصم تنہا اپنے آبائی گاؤں ڈیلی کراس (چاندنی چوک بھکر) میں کزن سمیت قتل !مبینہ طور پر عاصم تنہا کے عزیز نے انہیں قتل کیا۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون! "ہم کوئی غلام تو نہیں"" یہ ترانہ بھی عاصم تنہا نے لکھا تھا۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے عاصم تنہا کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا:انتہائی افسوس ناک خبر! ظلم،جاہلیت کی انتہا! بھکر کے علاقہ چاندنی چوک ڈیلی کراس، سمیع اللہ خان اخروٹا اور عاصم تنہا چراغ خیل معمولی تلخ کلامی پر قتل۔ عاصم تنہا نے ’ہم کوئی غلام تو نہیں، چلو چلو عمران کے ساتھ‘ سمیت پاکستان تحریک انصاف کیلئے متعدد نغمے لکھے۔

Back
Top