سوشل میڈیا کی خبریں

ن لیگ کے حمایتی جیو نیوز کے صحافی فخردرانی نے لکھا کہ آجکل سیاستدان تو سیاستدان، صحافی بھی پروٹوکول کے دلدادہ ہیں۔ مطلب سپریم کورٹ عمران ریاض کو سیکورٹی دے تو پھر وہ آکر حقائق بتائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس نے بالکل درست کہا کہ اس سے پہلے ابصار عالم نے میڈیا پر بات کی تو ہم نے کہا عدالت میں آکر بات کریں۔ وہ شاید اثر رسوخ والے نہیں تھے اس لیے وہ آئے۔ کیا عمران ریاض کے لیے ہم ریڈ کارپٹ بچھائیں؟ بھائی پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے یہ چند لوگ خود کو اتنا بڑا سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کنواں خود چل کر پیاسے کے پاس آئے۔ اس پر ثاقب بشیر نے جواب دیا کہ میں اس نکتے پر بھائی جان آپ سے اختلاف کروں گا بات یہاں تک ٹھیک ہے کہ عمران ریاض خود بھی اس کیس میں پارٹی بن سکتے تھے بن جاتے تب بھی کوئی حرج نہیں تھا اپنا پوائنٹ آف ویوو سپریم کورٹ کے سامنے رکھ دیتے لیکن ساڈھے چار ماہ جبری لاپتہ رہنے والے عمران ریاض پر کیا بیتی ان کے گھر والوں پر کیا بیتی ؟کیسے انہوں نے ایک ایک دن گزارا تکلیفیں مصیبتیں مشکلات اٹھائیں ؟ انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی سسٹم جس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بیٹھے ہیں وہ لاپتہ عمران ریاض کی تلاش میں مکمل ناکام ہوا پولیس نے لاہور ہائیکورٹ کو کہانیاں ڈالیں بلکہ عدلیہ نے ایکسپوز ہو کر ایسی مثال قائم کرا دی جس کے بعد ہر کوئی خور کو غیر محفوظ سمجھتا ہے اب اس صورت حال میں وہ سپریم کورٹ کے سامنے آجائے ہمت کرکے سب بتا دے تو اس کی حفاظت کون کرے گا ؟ انکے مطابق یہ وہ سوال تھا جو شعیب شاہین نے عمران ریاض کو بلانے کے معاملے کے ساتھ سپریم کورٹ کے سامنے رکھا اور ہمارے ناکارہ سسٹم میں یہ جینوئن سوال تھا لیکن چیف صاحب بجائے ایک متاثرہ شخص کی دلجوئی کے دوسری طرف لے گئے مرچ مصالحہ ڈالنا شروع کردیا جو بات چیف جسٹس نے کی وہی اس طریقے سے بھی ہو سکتی تھی کہ جو عمران ریاض کے ساتھ ہوا وہ درست نہیں ہوا لیکن ہم بلا نہیں رہے وہ خود آکر بتانا چاہییں پارٹی بننا چاہییں تو بن کر بات کر لیں ثاقب بشیر کا مزید کہنا تھا کہ چیف صاحب نے ایسے بات کی جیسے عمران ریاض کا ساڑھے چار لاپتہ رہنا کچھ وقعت نہیں رکھتا
مسلم لیگ ن کے رہنما محمد زبیر نے کہا ہے کہ مئی 2022 کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ ہوگیا تھا ، اس وقت تک ملک کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ ہوگیا تھا کہ23 مئی 2022 اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کردیا جائے گا، شہباز شریف کی تقریر تک تیار کرلی گئی تھی،تاہم 22 کی شام عمران خان نے احتجاج کا اعلان کیا تو ہمیں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ واپس لینا پڑا، اس وقت مئی 2022 میں ملک کے ڈیفالٹ کا خطرہ نہیں تھا۔ محمد زبیر کے اس بیان پر ردعمل کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ صحافی علینہ شگری نے کہا کہ محمد زبیر نے ایک اور پول کھول کر پی ٹی آئی کو سچا ثابت کردیا۔ پی ٹی آئی رہنما مزمل اسلم نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ محمد زبیر نے ایک اور جھوٹ کی گواہی دیدی اور کہا کہ حکومت لینے کے دو ماہ بعد تک ملک کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں تھا، یہ سازش پی ڈی ایم حکومت کے درمیان ہوئی تاکہ الیکشن کی طرف نا جاایا جائے۔ قراۃ العین نامی صارف نے کہا کہ عمران خان حکومت کے خلاف یہ پراپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے کہ اگر پی ڈی ایم حکومت نا آتی تو ملک ڈیفالٹ کرجاتا۔ وقاص احمد نے کہا کہ15 ارب ڈالرز کے ذخائر کو ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں تھا، پی ڈی ایم نے ایک سازش کے تحت وہ ختم کیے گئے۔ اجمیر آفریدی نے کہا کہ یہ گفتگو سن کر ن لیگ والوں میں ذرا شرم ہے تو قوم سے معافی مانگیں اورسمندر میں غرق ہوجائیں۔
پی ٹی آئی رہنما جمشید دستی جو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے ہیں، انکے گھر پولیس اور سی ٹی ڈی نے چھاپہ مارا اور جمشید دستی کی اہلیہ اور بچوں پر مظالم ڈھائے جس پر جمشید دستی کا بیان سامنے آگیا۔ اپنے ویڈیو پیغام میں جمشید دستی نے کہا کہ "میرے گھر پر سی ٹی ڈی پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کا حملہ پاکستان کے محافظوں نے میری فیملی پر ظلم ڈھائے 3 گھنٹے تک پوری فیملی کو یرغمال بنائے رکھا میری زوجہ کو گھسیٹا اور تشدد کیا موبائل فون چھینے کیمرے اور جو کچھ ہاتھ لگا ساتھ لے گئے " جمشید دستی نے مزید کہا کہ میری بیوی کو ننگا کیا میرا 10 ماہ کا بچہ زارو قطار روتا رہا ظلم کی انتہا ہو گئی ہے میں پاگل ہو چکا ہوں میں مرنا چاہتا ہوں احمد حسین بابک نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ جن لوگوں کی جانب سے جمشید دستی کے گھر قیامت سے پہلے قیامت ڈھائ گئ ہے، ان ظالموں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں لگتا،اور ایسے لوگوں کے خلاف جہاد اب قوم پر فرض ہو چکا ہے، سرمد حمید نے ردعمل دیا کہ ابھی جمشید دستی کی ویڈیو دیکھی۔ اگر تو انکے الزامات درست ہیں تو اس ملک اور ریاست کا جنازہ پڑھا جا چکا۔ اب تو میت بو مار رہی ہے عمران کا کہنا تھا کہ جمشید دستی کے گھر ریاستی غنڈہ گردی، خرم لطیف کھوسہ پر جھوٹی ایف آئی آر اور گرفتاری۔۔۔۔پی ٹی آئی کے تمام سٹال وارٹس کے کاغذات نامزدگی مسترد۔ کیلا ریپبلک میں آئین معطل ہے تمام غلاموں کو خبر ہو کہ انصاف کے اداروں سے امید رکھنے پر آپکو سزائے موت ہو سکتی ہے لیکن انصاف نہی مل سکتا فیض اللہ سواتی نے ردعمل دیا کہ جمشید دستی کے الزامات بہت تکلیف دہ ہیں کیا اس معاملے کی تحقیقات اور انصاف ہوسکے گا یا یہ معاملہ بھی جوں کا توں ہی رہے گا ؟ نوش گیلانی کا کہنا تھا کہ کیا یہ سب دیکھنے کے بعد بھی کسی دردِ دِل رکھنے والے پاکستانی کے لئے نئے سال کی خوشیوں کی کوئ اہمیت رہ جاتی ہے رضوان غلزئی نے تبصرہ کیا کہ نواز شریف کو وزیراعظم بنوانے کے لئے عورتوں کی عزتیں لوٹی جارہی ہیں۔ انصاف دینے والے چھٹیاں انجوائے کررہے ہیں۔ زبیر خان نے ردعمل دیا کہ عورتوں کی عزتیں تار تار کر رکے اگر نوازشریف وزیراعظم بننا پسند کریں گے تو کیا وزیراعظم ہوں گے؟؟؟ ان کو خود اپنی آنکھیں کھولنی چاہئیے اقتدار کی لالچ میں اپنے لوگوں پر ظلم مت کروائیں محمد عمیر نے تبصرہ کیا کہ اللہ کا عذاب آئے یہ سب کرنے اور کروانے والوں پر نیا سال مگر کام وہی 76 سال سے جاری حرامی پن کے عمران افضل راجہ نے کہا کہ نئے سال کا آغاز پہلے سے زیادہ ظلم و بربریت سے کیا گیا کہ انہیں عوام کے مقابل اپنی ہار صاف نظر آ رہی ہے۔۔جمشید احمد دستی کا پورا ویڈیو دیکھنے سننے کی ہمت نہیں مگراتنا ضرور جانتا ہوں کہ“ان حربوں سے کوئی نہیں ٹوٹے گا بلکہ ظلم کے خلاف مزاحمت بڑھے گی” ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ جمشید دستی کے ساتھ ہوئے ظلم کو ہمارا نائن الیون سمجھا جائے سادات یونس نے لکھا کہ انڈیا نے آج تک کسی حریت رہنما کے خاندان کے ساتھ ایسا نہیں کیا کسی کی ذوجہ کا ڈوپٹا نہیں اتارا۔اگر وہ یہ ظلم دیکھ رہے ہیں تو چپ چاپ جہاں ہیں وہاں رہیں ورنہ یہاں اپنی ماؤں بہنوں کو ننگا کرواؤ گئے! فلک جاوید خان کا کہنا تھا کہ کیا سبھی بے غیرت ہو گئے ہو کوئی ہے جس میں ذرا سی غیرت باقی ہو۔۔۔؟؟؟ وقاض امجد نے ردعمل دیا کہ ابھی جمشید دستی کی ویڈیو نظر سے گزری۔۔۔۔ سال کا پہلا دن ہی دل خون کے آنسو رو رہا۔۔۔اللہ ہمارے ملک پاکستان پر رحم فرما۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کے کاغذات مسترد ہونے پر سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے۔۔ جمہوریت کا قتل قراردیدیا گزشتہ روز پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے کاغذاتِ نامزدگی لاہور کے بعد میانوالی سے بھی مسترد ہونے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں اور سابق ارکان پارلیمان کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کیے گئے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے تاحال اس حوالے سے تفصیلی فہرست تو جاری نہیں کی گئی ہے لیکن انفرادی طور پر ریٹرننگ افسران کی جانب سے مختلف حلقوں میں امیدوار کو آگاہ کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کی جانب سے شائع کی گئی ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں میں سے تقریباً 90 فیصد کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں۔ اس دعوے کی حوالے سے الیکشن کمیشن سے رابطہ کیا گیا ہے تاہم کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا ساؤتھ کے ریجنل صدر اور سابق رکنِ پارلیمان شاہد خٹک کے مطابق ان کے کاغذاتِ نامزدگی ان پر موجود مقدمات کے باعث مسترد کیے گئے ہیں اور وہ اس کے خلاف اپیل کریں گے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کے کاغذات مسترد ہونے پر سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے۔۔ جمہوریت کا قتل قراردیدیا,سوشل میڈیا پر نیشنل ریجیکشن ڈے بھی کہا جارہاہے. عامر سعید نے مزاحیہ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا ریٹرننگ افسران پی ٹی آئی امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کرتے ہوئے. علی ممتاز نے لکھا کیا اب بھی پی ٹی آئی کو الیکشنز کا باہیکاٹ نہیں کرنا چاہیے؟اگلے فیز میں جن کے کاغزات منظور ہوئے ان کو اٹھایا جائے گا اور اس کے بعد الیکشنز سے دستبرداری کے اعلانات ہوں گے عمران بھٹی بولے جن کو نہیں پتہ تھا کہ میاں نواز شریف کس طرح وزیراعظم بنتا رہا ۔۔۔۔یہ سب ان کو سمجھایا جارہا ہے میاں نواز شریف 3 بار وزیراعظم کس طرح بنائے گئے تھے صحافی امتیاز عالم نے لکھا پھر بچا کیا ہے؟ یہ دھونس دھاندلی انتخابات کو لے ڈوبے گی۔ صحافی امتیاز عالم نے مزید لکھاتحریک انصاف کے امیدواروں کی بڑے پیمانے پہ نااہلی تمام جمہوری و آئینی تقاضوں کے منافی ہے۔ اس بدترین پری پول دھاندلی کے باعث آئندہ انتخابات پہ سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ نئ کنگز پارٹیوں کو واک اوور دلایا جائے۔ ایسے نتائج ناقابل قبول ہونگے۔ ملیحہ ہاشمی نے کہا قصہ مختصر یہ کہ جس جس نے رجیم چینج کی مخالفت کی، اس اس کے کاغذات نامزدگی "مسترد" کر دیے گئے۔ اور جس جس نے رجیم چینج سے فائدے اٹھائے، اقتدار کے مزے لوٹ کر معیشت کا جنازہ نکال دیا، اس کے کاغذات نامزدگی نہ صرف "منظور" ہو گئے، بلکہ ان کی باقاعدہ الیکشن مہم چلائی جا رہی ہے۔ اوریا مقبول جان نے کہا پاکستانی بیوروکریسی نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ ان میں قانون کی پاسداری تو دور کی بات ہے اس ملک سے وفاداری بھی نہیں۔ تقریباً ہر سرکاری افسر جانتا ہے کہ اس سے جو کچھ کروایا جا رہاہے یہ ملک کو برباد کر کے رکھ دے گا مگر کاغذات نامزدگی مسترد کرتے ہوئے کسی کے ہاتھ نہیں کانپے، اسے ملک کی بربادی کا خیال نہیں آیا۔ زبیر علی خان نے لکھا جن کے کاغذات نامزدگی منظور کروائے جارئے ہیں ان کو عوام مسترد کرچکی ہے۔۔۔ ان کا کھیل اب ختم ہے اب مقابلہ ان کے آقاؤں کے ساتھ ہے عادل نظامی نے کہامسترد، مسترد، مسترد، اس کے بعد تحریک انصاف کا انتخابات کا بائیکاٹ ہی کرنا بنتا ہے۔ یاسر چیمہ نے کہامجموعی طور پر بائیکاٹ بالکل بھی نہی کرنا چاہئے,البتہ جس حلقہ میں پی ٹی آئی کو امیدوار نا ملے اس حلقہ کے الیکشن کو واڑ دیں۔ اور الیکشن واڑ نے کا بہترین طریقہ حواتین کے ووٹ کو 10٪ سے کم رکھنے کا ہے جس سے دوبارہ الیکشن ہو گا۔ جبران ناصر نے کہان لیگ کو تخت پنجاب پر بٹھانے کے لئے نظام سے بہت بڑی قیمت ادا کروائی جا رہی ہے۔ پولیس ہو، بیوروکریسی ہو، الیکشن کمیشن ہو یا عدلیہ ہو ہر ادارے کو شدید متنازع بنا دیا گیا ہے اور تمام پر عوام کا اعتماد تہس نہس ہو رہا ہے۔ میاں صاحب کیا جمہوریت کے کھنڈرات پر راج کریں گے؟ سینیٹر مشتاق نے کہاریٹرننگ آفیسرز نے آج تھوک کے حساب سے پی ٹی آئی سے وابستہ امیدواران کی کاغذات نامزدگی جس طرح مسترد کردیے اس سے لیول پلینگ فیلڈ، صاف شفاف انتخابات اب ایک خواب ہیں۔ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن ‎ لیول پلینگ فیلڈ دینے، صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کا تاثر قائم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ حرکتیں کرنی ہیں تو بہتر ہے کہ قوم کا ارب ہا روہے متنازعہ الیکشن کے اوپر نہ خرچ کیا جائے۔ ایک متنازعہ الیکشن بہت بڑے سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا باعث بنے گا جس سے پاکستان کے مستقبل، سماجی تار و پو اور فیڈریشن کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ خدارا انتخابات، عوام کے حق رائے دہی کو اپنے ذاتی اناوں کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ راجا محسن نے کہابات ارشاد بھٹی والی ہی ہے ، نوازشریف ریس میں اکیلے دوڑ کر بھی دوسرے نمبر پر ہیں.
سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیو کے مطابق کیا لاٹھیاں اٹھائے افراد نے جاوید لطیف کو ان کے حلقے سے بھاگنے پر مجبور کیا سابق وفاقی وزیر ورہنما پاکستان مسلم لیگ ن میاں جاوید لطیف سے متعلق آج سوشل میڈیا ویب سائٹس پر چلنے والی ویڈیو کی حقیقت سامنے آگئی ہے۔ سوشل میڈیا ویب سائٹس پر ان کی ویڈیو شیئر کر کے دعوے کیے جا رہے تھے کہ وہ اپنی انتخابی مہم کے لیے جب اپنے حلقے پہنچے تو مقامی افراد مشتعل ہو گئے اور ان پر چڑھ دوڑے۔ متعدد سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے ایک ویڈیو شیئر کی جا رہی تھی جس میں ایک ہجوم کو میاں جاوید لطیف کے پیچھے لاٹھیاں اٹھائے بھاگتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو دیکھنے سے لگتا ہے کہ لاٹھیاں اٹھائے ہوئے بہت سے افراد نے میاں جاوید لطیف کو ان کے حلقے سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ مشتعل ہجوم سے بچنے کے لیے لیگی رہنما کو موٹرسائیکل پر سوار ہو کر جانے کی پیشکش کی گئی کیونکہ بدنظمی میں کچھ لوگ ہجوم کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ واقعے کی حقیقت جاننے کی کوشش کی گئی تو پتا چلا کہ یہ ویڈیو نومبر 2017ء میں ریکارڈ کی گئی پرانی ویڈیو ہے۔ صابر شاکر کے فین پیج سے ایک ویڈیو ایکس (ٹوئٹر) پر شیئر کرتے ہوئے لکھا گیا کہ: مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید لطیف کی پٹائی، وہ اپنے حلقے میں عوام سے ووٹ مانگنے کیلئے گئے تو عوام نے انکار کر دیا تو بدمعاشی پر اتر آئے۔ عوام نے جاوید لطیف کی مکوں، لاتوں اور ڈنڈوں سے تواضع کی جس کے بعد جاوید لطیف موٹرسائیکل پر بیٹھ کر بھاگ کر جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔ یاد رہے کہ 2017ء میں جب مسلم لیگ ن اقتدار میں تھی تو ملک بھر میں توہین مذہب کے قوانین میں تبدیلی کی افواہوں کے بعد پرتشدد مظاہر شروع ہو گئے تھے اور شیخوپورہ میں میاں جاوید لطیف پر ایک ہجوم کی طرف سے حملہ کیا گیا تھا ۔ جاوید لطیف کے علاوہ بھی بہت سے سیاستدانوں کو ایسے ہجوم کا سامنا کرنا پڑا تھا جن میں اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کی بھی شامل تھے جن کی رہائشگاہ پر حملہ ہوا تھا۔
شوکت خانم ہسپتال کراچی کی فنڈ ریزنگ تقریب کا اجازت نامہ منسوخ کردیا گیا ہے جس میں عالمی میالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی شرائط کو جواز بنایا گیا ہے۔ خط میں الزام لگایا گیا کہ شوکت خانم انتظامیہ نے ڈونرز کی تفصیلات نہیں دیں جس کی وجہ سے اجازت نامہ منسوخ کردیا گیا ہے اور اس حوالے سے شوکت خانم انتظامیہ کو بھی بتادیا گیا ہے۔ اس پر سوشل میڈیا پر سخت ردعمل دیکھنے کو ملا۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ یہ لوگ خود تو عوام کو علاج معالجے کی سہولت نہیں دے سکتے الٹا کینسر کے مریضوں سے ہی سہولت چھین لی گئی، انہوں نے مزید کہا کہ پہلے صحت کارڈ عوام سے چھینا اور اب شوکت خانم ہسپتال کے پیچھے پڑگئے۔ عمر شہزاد کا کہنا تھا کہ میں گارنٹی سے کہتا ہوں کہ ان کی شوکت خانم کینسر ہسپتال کی فنڈ ریزنگ ایونٹ کو روکنے جیسی گھٹیاحرکت کے بعد عوام اور ذیادہ فنڈ شوکت خانم کو دے گی ۔اور عوام کے دل میں انکے لئے نفرت میں مزید اضافہ ہوگا۔ سب اپنی اپنی استطاعت کے مطابق حصہ ڈالیں ۔ شہربانو نے کہا ک یہ ہسپتال پاکستانیوں کا اپنا ہے آئیں اپنے عطیات جمع کروا کر اسلام آباد انتظامیہ کی فنڈ ریزنگ گالا روکنے کی اس مزموم کوشش کو ناکام بنائیں شوکت ںانم کو 20 روپے عطیہ کرنے کے لیے 7770 پر ایک ایس ایم ایس بھیجیں یا مزید عطیہ کرنے کے لیے ان کی ویب سائٹ پر جائیں۔ شفاء یوسفزئی نے اسے گھٹیا حرکت قرار دیا۔ میڈی کا کہنا تھا کہ گورنمنٹ نے شوکت خانم ہسپتال کی فنڈ ریزنگ تقریب جو میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں ہونی تھی اس کا این او سی منسوخ کردیا.اور کس لیول پر گرنا ہے انکو؟ انتظار پنجوتھہ نے ردعمل دیا کہ شوکت خانم ہسپتال کے علاوہ القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کو بھی فنڈ ریزنگ سے روکا ہوا ہے ، یہ عمران دشمنی میں یہ بھول گئے کہ یہ ادارے عمران خان کی زات کے لیے نہیں ہیں یہان انکا علاج نہیں ہورہا یا ان کے بچے تعلیم حاصل نہیں کر رہے یہ قوم کے ادارے ہیں ، علی اعجاز بٹر نے ردعمل دیا کہ عمران خان کے خلاف کچھ نہیں ملا تو اس کو گرانے کے لیے شوکت خانم ہسپتال پہ آ گئے ،لیکن یہ لوگ شاید بھول رہے ہو اللہ پاک نے ہمارے دل میں اس انسان کے لیے ایسی محبت ڈالی ہے یہ چاہ کر بھی وہ محبت کم نہیں کرسکتے ،باقی دعا ہے کسی دشمن کو کبھی کینسر جیسی بیماری نہ ہو۔ وقاص امجد نے ردعمل دیا کہ صحت انصاف کارڈ تو چھین لیا،شوکت خانم ہسپتال کو تو بخش دیں۔۔ محمد عمران نے تبصرہ کیا کہ ہمارے ایک سینئر صحافی آج کل شوکت خانم ہسپتال لاہور سے اپنا کینسر کا علاج کرارہے ہیں ،ان کہ خیریت پوچھنے کیلئے کال کی تو وہ تقریباً سارا ٹائم ہی شوکت خانم ہسپتال کی تعریفیں کرتے اور عمران خان کو دعائیں دیتے رہے، حالانکہ سیاست میں وہ عمران خان کے بہت بڑے ناقد رہے ہیں۔ محمد عمران نے مزید کہا کہ زیر علاج سینئر صحافی بتارہے تھے کہ شوکت خانم ہسپتال میں دیکھ رہا ہوں کہ جو غریب مفت علاج کرارہے ہیں اور جو لوگ لاکھوں روپے ادا کرکے علاج کرارہے ہیں ،دونوں کا ٹریٹمنٹ ایک جیسا ہے اور عزت نفس کا بھی خیال رکھا جاتا ہے، جو rعزت فیس دینے والے کیلئے ہے وہی مفت علاج کرانے والے کی بھی عثمان فرحت نے تبصرہ کیا کہ پہلے عمران خان کے بغض میں کروڑوں غریبوں کا ہیلتھ کارڈ بند کروایا گیا اور اب شوکت خانم کیلئے فنڈنگ پر پابندی لگا دی گئی ہےکسی نے ٹھیک کہا تھا کہ کم از کم قائداعظم کو گوروں کی شکل میں دشمن تو خاندانی ملے تھے مخدوم شہاب الدین نے ردعمل دیا کہ بے شرمی کی انتہا کہ شوکت خانم جیسے غیر سیاسی اور فلاحی ادارے کے فنڈریزنگ ایونٹ کو کینسل کر دیا گیا۔۔۔اس کا جواب آپ 7770 پر مسیج کر کے شوکت خانم کو 20 روپے ڈونیٹ کر کے دے سکتے ہیں محمد عمیر کہناتھا کہ سات سال قبل آج کے دن شوکت خانم کراچی کا افتتاح ہوا تھا یہ پوسٹ تب کی ہے۔تیس سال ہوگئے جو رویہ شوکت خانم ہسپتال سے پہلے دن سے اپنایا گیا وہ آج بھی جاری ہے مگر ان رکاوٹوں سے شوکت خانم کا نہ سفر پہلے رکا تھا نہ اب رکے گا۔ کبھی نواز شریف نے ادویات رکوائیں،شوکت خانم ہسپتال کے اندر دھماکہ ہوا، اشتہارات پر پابندی لگی مگر عزم و ہمت کے باعث یہ سفر کامیابی سے جاری ہے۔ ملیحہ ہاشمی نے کہا ک اسلام آباد انتظامیہ نے عمران خان کی نفرت میں شوکت خانم کینسر ہسپتال کا ہونے والا Fundraising Event کینسل کر دیا۔اب یہ ظالم کینسر کے مریضوں سے بدلہ لینے پر اتر آئے ہیں۔آئیے 7770 پر خالی میسج بھیج کر 20 روپے عطیہ کریں۔آپ کا میسج کسی کی جان بچانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
سینئر صحافی وتجزیہ کار غریدہ فاروقی نے اپنے پروگرام میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ماہ رنگ بلوچ صاحبہ کی طرف سے جاری کی گئی ویڈیو انتہائی پروفیشنل طریقے سے تیار کی گئی ہے اور اس کے سامنے لکھا ہوا پرامپٹر کے علاوہ لائٹنگ بھی بہت اچھی کی گئی ہے۔ ماہ نور بلوچ اگر کوئی غریب، مظلوم، معصوم خاتون ہے تو اس کے پاس اتنے وسائل کہاں سے آئے؟ انہوں نے کہا کہ ماہ نور بلوچ کے ٹوئٹر اکائونٹ سے مسلسل انتہائی طویل دورانیے کی ویڈیوز اپ لوڈ کی جا رہی ہیں اور میرے خلاف ٹرینڈ چلایا جا رہا ہے، اگر یہ مظلوم اور معصوم ہیں تو اتنے ٹویٹ اور ٹرینڈ چلانے کے وسائل کہاں سے آئے؟ میرے خلاف بھی کمپین چلائی گئی لیکن مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا نہ ہی میں ڈرنے والی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں سوچنے پر مجبور ہو گئی ہوں کہ ایسی نہتی خواتین کے ٹوئٹر ٹرینڈز چلانے کے وسائل کہاں سے آئے، گالیوں سے بھرے ہوئے ٹویٹس کیے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ یہ حقوق کی جنگ ہے۔ ایسے حقوق اور احترام آپ کو مبارک! ایک اور سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا یہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ریاست کے وظیفے پر ڈاکٹر نہیں بنیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان جسے وفاق پیسہ دیتا ہے اسی پیسے سے ماہ رنگ بلوچ ڈاکٹر بننے کے بعد سرکاری نوکری کر کے کمائی بھی کرتی رہیں لیکن اس کے باوجود آپ کو ریاست سے شکوے ہیں تو یہ آپ کا جائز حق ہے۔ غریدہ فاروقی کے پروگرام میں سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے شدید تنقید کی گئی اور کہا کہ آپ نے اخلاقیات کی تمام حدیں پار کر دی ہیں۔ پردھان بلوچ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں ردعمل دیتے ہوئے لکھا: بات اب یہاں تک پہنچی ہے کہ ان کی وڈیوز کی کوالٹی اور لائٹنگ اتنی اچھی ہے تو ضرور کوئی سازش ہے! ماہ رنگ بلوچ پریس کلب کے سامنے سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں پرامپٹر دیکھ کر بیانات پڑھ رہی ہے ، کل تو کسی نے اس حد تک کہا تھا کہ ماہ رنگ اسرائیلی فانٹا پیتی ہے ! رضی طاہر نے لکھا: غریدہ فاروقی، اس سے زیادہ گھٹیا بات شاید ہی کوئی ذی شعور کرسکے کہ آپ ریاست کے وظیفے کا طعنہ دے رہی ہیں؟ بلوچستان کے وسائل شمار نہیں کرتیں؟ اپنے دو ٹکے کے ٹیکس کا طعنہ دے کر آپ نے اخلاقیات کی تمام حدیں پار کردی ہیں۔
بلے کے انتخابی نشان سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے اور فیصلے کو الیکشن کمیشن پر حملہ قرار دینے سے متعلق بیان شہباز شریف کو مہنگا پڑگیا، سوشل میڈیا صافین کا سخت ردعمل سامنے آگیا۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہبازشریف نے ایک بیان میں کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کا ’’بلے‘‘ کا نشان واپس دینے کا فیصلہ الیکشن کمیشن پر حملے کے مترادف ہے، پشاور ہائیکو رٹ ایک صوبے کی عدالت ہے پورے ملک کا فیصلہ کیسے دے سکتی ہے؟ شہباز شریف کے اس بیان پر پی ٹی آئی اور صحافیوں نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس بیان پر دلچسپ تبصرے شروع کردیئے ہیں، پی ٹی آئی اسلام آباد نے اس بیان کو شئر کرتے ہوئے کہا کہ بلے کی آمد ہے کہ مخالفین کانپ رہے ہیں۔ زلفی بخاری نے ردعمل دیا کہ جب آپکے پاس کردار، کارکردگی اور اخلاقیات نہ ہوں تو مخالف جماعت کو میدان سے آؤٹ کرنا ہی واحد آپشن بچتا ہے۔ بلّے کا اتنا خوف ہے کہ ن لیگ نے الیکشن مہم چھوڑ کر ساری توانائیاں تحریک انصاف کو الیکشن سے باہر کرنے پر مرکوز کر رکھی ہیں، ن لیگ کی بی ٹیم الیکشن کمیشن مکمل سہولتکاری کے بعد بھی ناکام ہوا تو اب سیسلین مافیا ایک بار پر آزاد عدالتوں پر حملہ آور ہے۔ وہ وقت چلا گیا جب عدالتیں ن لیگ کی دھمکیوں پر فیصلے تبدیل کرتی تھیں۔ بلّا تو ہوگا کیونکہ یہ پاکستان کے عوام کا حق ہے صحافی امتیازعالم نے شہبازشریف کو جواب دیا کہ ن لیگ کا تحریک انصاف کے انتخابی نشان بلے کی بحالی کے پشاور ھائیکورٹ کے جج کے فیصلے کے خلاف چیخناچلانا جمہورئیت اور آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے تمام اصولوں کے خلاف ہے۔کیا ن لیگ جنرل ضیا کی طرح کے نان پارٹی اور جعلی ریفرینڈم جیسے چناوُ چاہتی ہے۔ اور وہ سرپرستی چاہتی ہے جو اسے پیپلزپارٹی کو پنجاب سے نکالنے کے لیئے مسلسل دی جاتی رہی۔ تححریک انصاف کو بھی پورا پورا جمہوری حق ہے کہ وہ بلا رکاوٹ انتخابات میں حصہ لے۔ فیصلہ عوام کا! پی ٹی آئی پنجاب کے قائم مقام صدر اور سیکرٹری جنرل حماد اظہر نے کہا کہ جبر اور دھاندلی کے باوجود ن لیگ بلے سے خوفزدہ ہے، عوامی سطح پر ان کے پلے کچھ بھی نہیں ہے، یہ اقتدار کی ہوس اور غیر جمہوری سوچ اتنی شدید ہے کہ یہ کسی بدترین امر سے بھی زیادہ فسطائیت کے قابل ہیں، مگر اب عوام میں ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر شہباز گل نے کہا کہ بلے کے نشان سے کانپیں تھر تھر کانپ رہی ہیں۔ ایڈووکیٹ عبدالغفار نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کی تکلیف اور بلے کے خوف کی شدت ہر گزرتے لمحے بڑھتی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ وقاص امجد نے کہا کہ 50 روپے کے سٹامپ پپر پر پورے ملک و قوم کے مجرم کو لاہور ہائکو رٹ کے آرڈر پر ملک سے باہر جانے کی اجازت ملی تھی تب یہ آوازیں کہاں تھںم۔ صحافی سحرش مان نے کہا کہ صرف نورین نہیں رورہی ، شہباز شریف بھی رورہے ہیں۔ انہوں نے طنزیہ انداز اپناتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف نے مطالبہ کیا ہے کہ 8 فروری سے پہلے پی ٹی آئی سے بلا چھینا جائے ورنہ ہم بھیگی بلی بن جائیں گے۔ ایک جمیل فاروقی نے کہا کہ بلے نے مخالفین کی رات کی نیندیں اڑا کررکھ دی ہیں، سیاسی مخالفین کو سمجھ نہیں آرہا کہ الیکشن کے حق میں بیان دینا ہے یا اس کے خلاف۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار صابر شاکر نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور جاتی امراء ، یک جان دو قالب ہیں۔ صحافی خرم اقبال نے شہباز شریف کو ترجمان الیکشن کمیشن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ن لیگ کو بلے کا خوف کھائے جارہا ہے۔ احمد وڑائچ نے کہا کہ بلے کے نشان سے متعلق فیصلے کے بعد شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان کی پشاور ہائیکورٹ پر کھل کر تنقید، ایک ایسے شخص کو ملک کاوزیراعظم بنایا گیا جس کو یہی نہیں معلوم کہ دستور میں کیا لکھا ہے، دستور میں پشاور ہائی کورٹ کو وفاقی امور پر فیصلہ دینے کا اختیاردیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کامران واحد نے کہا کہ جسے9 اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی زندگی کی گارنٹی مانگ کر فصلہ دیا تھا جسےش لاہور ہائی کورٹ نے پچاس روپے کا اشٹام پپر5 لے کر فصلہی دیا تھا بلکل ایسے ہی پشاور ہائی کورٹ بھی فصلہ دے سکتی ہے۔ اکبر نامی صارف نے کہا کہ پہلی بار کسی جماعت کو مخالف پارٹی اور الیکشن سے اتنا خوفزدہ دیکھا ہے، ایک سیاسی جماعت اپنی مخالف جماعت پر پابندی لگواکر الیکشن لڑنا چاہتی ہے، اس سے بڑی جمہوریت سے دشمنی اور کیا ہوگی، یہ جمہوریت سے کھلی غداری ہے جس سے ملک کئی سال پیچھے چلا جائیگا۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر انوکھا ٹرینڈ چلا کہ نورین رو رہی ہے, اس ٹرینڈ کے بعد اب حاضر ہے ٹوئٹر گیلا ہوگیا, جس پر صارفین دلچسپ تبصرے کررہے ہیں. اے آروائی نیوز کے پروگرام دی رپورٹرز میں کچھ روز پہلے حسن ایوب خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نورین فاروق خان رورہی ہے کہ میں1999 سے پی ٹی آئی کا حصہ ہوں جو شخص 2020 میں پارٹی میں شامل ہورہا ہے اسے پارٹی کا چیئرمین بنانے کا عمران خان کا فیصلہ غلط تھا۔ اسکے بعد سوشل میڈیا پر ‎#نورین_رو_رہی_ہے ٹرینڈ گردش کرنےلگا۔اسکے ردعمل کے طور پر حسن ایوب نے کہا کہ جو کل نورین کے رونے کی خوشیاں منا رہے تھے ، ٹرینڈ چلا رہے تھے آج وہ خود ٹوئٹر پر رو رہے ہیں رو رو کر پورا ٹویٹر گیلا کر دیا۔ سوشل میڈیا صارفین نے اس پر بھی ٹویٹر_گیلا_ہو_گیا بنادیا اور حسن ایوب کا مذاق اڑاتے رہے۔طارق متین نے لکھا ‏کیجیے ‎#نورین_رو_رہی_ہے کے بعد پیش ہے ‎#ٹویٹر_گیلا_ہو_گیا اوسامہ نے لکھاراوی چین لکھ جتنا مرضی لے ، خون چین نہیں کر رہا ، پہلے ‎#نورین_رو_رہی_ہے اور اب ‎#ٹویٹر_گیلا_ہو_گیا,ویسے شرم بڑے کام کی چیز ہے اگر آجائے تو قمر نے لکھا کل سے ‎#نورین_رو_رہی_ہے اور ‎#ٹویٹر_گیلا_ہو_گیا۔ ایک صارف نے لکھاکائنات ‎#نورین_رو_رہی_ہے اور اتنا رو رہی ہے کہ ‎#ٹویٹر_گیلا_ہو_گیا ہے تم نورین اور اسکے بھائی حسن کو ایک ایک ٹوکری بھیک دو. واضح رہے کہ نورین رو رہی ہے ٹرینڈ کا آغاز وقت ہوا جب صحافی اور سیاسی تجزیہ کار حسن ایوب نے اے آر وائی نیوز پر نشر کیے جانے والے کرنٹ افیئر کے پروگرام ’دی رپورٹرز‘ میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن پر بات کی۔ مسلم لیگ (ن) کے حامی صحافی سمجھے جانے والے حسن ایوب نے کہا کہ پی ٹی آئی میں نئے آنے والوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا جبکہ پرانے کارکنوں کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ 2020 میں پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے بیرسٹر گوہر چیئرمین بنے جبکہ پرانی کارکن نورین فاروق خان پیچھے رہ گئیں,حسن ایوب کا مزید کہنا تھا کہ ، ”نورین اب رو رہی ہے,جب ان سے پوچھا گیا کہ نورین کون ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ نورین فاروق خان۔ حسن ایوب کے مطابق وہ کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے 1999 سے 2024 تک اپنی ساری زندگی پی ٹی آئی میں گزاری لیکن 2020 میں پارٹی میں شامل ہونے والا ایک شخص چیئرمین بن گیا۔ یہ عمران خان صاحب کا غلط فیصلہ ہے۔ حسن ایوب کا کہنا تھا کہ کم از کم منصفانہ انتخابات ہونے چاہیئے تھے، چاہے یہ عمران خان کا فیصلہ ہی کیوں نہ ہو,حسن ایوب نے کہا وہ چاہتی ہیں کہ انتخابات ہوں۔ نورین فاروق خان پنجاب میں پی ٹی آئی کی سابق سیکرٹری رہ چکی ہیں۔ انہوں نے مبینہ طور پر 12 مارچ 2023 کو پی ٹی آئی کو خیر باد کہتے ہوئے چوہدری شجاعت حسین کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیار کی۔ سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو کلپ میں چوہدری سرور یہ اعلان کر رہے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی سے مسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیار کرنے والے سیاسی کارکنوں میں سے ایک ہیں۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے متعدد حامیوں نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ ان کی وفاداری پربھی سوالات اٹھائے ہیں۔ نورین فاروق خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی پارٹی نہیں چھوڑی اور اب بھی وہ پی ٹی آئی کے لیبر ونگ کی انفارمیشن سیکریٹری تھیں,نورین پی ٹی آئی کے ان رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے رواں ماہ کے اوائل میں ہونے والے انٹرا پارٹی انتخابات کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سامنے چیلنج کیا ہے. انہوں نے الیکشن کمیشن کے باہر صحافیوں سے مختصر گفتگو میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کے سامنے ایک سادہ سی دو سطری درخواست دائر کی تھی کہ وہ بھی انتخابات میں حصہ لینا چاہتی ہیں کیونکہ وہ کئی سال سے پارٹی میں ہیں اور مختلف عہدوں پر فائز رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ’نورین رو رہی ہے‘ کا ٹرینڈ بڑھنے کے بعد نورین فاروق خان نے ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ حسن ایوب نے ٹی وی اسکرین پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے اور وہ اس بات کی مذمت نہیں کریں گی۔
گزشتہ روز شاہ محمودقریشی کو اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔۔ شاہ محمودقریشی کو گرفتار کرنے کا انداز ایسا تھا کہ اس پر سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہوگیا۔۔ شاہ محمودقریشی جیسے ہی اڈیالہ جیل سے رہا ہوئے تو انہیں گرفتار کرنے کیلئے پولیس پہلے سے ہی اڈیالہ جیل کے باہر موجود تھی۔پولیس اہلکاروں نے شاہ محمودقریشی کی ساتھ انتہائی بدسلوکی کا مظاہرہ کیا اور شاہ محمودقریشی کو گھسیٹتے ہوئے لے گئی۔ حماداظہر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دھکے صرف شاہ محمود قریشی کو نہیں دئیے گئے اور گرفتار بھی صرف شاہ صاحب نہیں ہوئے۔ یہ عدالتی نظام کو رولا جا رہا ہے اور ملک کے آئین، قانون اور جمہوریت کو زیر حراست رکھا ہوا ہے۔ لیکن عوام کی طاقت کو روکنا اب ناممکن ہے۔ اسامہ غازی کا اس پر کہنا تھا کہ اگر ضمیر مردہ نہیں تو یہ ویڈیو آپ کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گی۔ شاہ محمود قریشی کو بیٹی کے سامنے گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔بیٹی کہتی رہی میڈیا والو یہاں تک تو آؤ۔۔ پھر بیٹی نے خود ہی وڈیو بنائی نوشی گیلانی نے تبصرہ کیا کہ سابق وزیرِ خارجہ کے ساتھ وردی والوں کی حددرجہ بدسلوکی ۔۔ اکستان بدترین فسطائیت سے گزر رہا ہے احمد وڑائچ نے تبصرہ کیا کہ شاہ محمود قریشی پاکستان کے ان چند سیاستدانوں میں سے ایک ہیں جن پر مخالفین آج تک کرپشن کا الزام تک نہیں لگا سکے، شاہ محمود کو سیاست کرتے کم از کم 40 سال ہو گئے۔ پکڑ دھکڑ کرنے والوں نے اس ملک کے ساتھ کیا کیا، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ فہیم اختر نے کہا کہ یہ دیکھیں کیسے شاہ محمود قریشی کو گھسیٹ کر دھکے دیکر پولیس نے اٹھایا۔۔۔ پنجاب پولیس کو کون کنٹرول کررہا ہے؟ وقاص امجد نے کہا کہ آج وہ لوگ بہت شرمندہ ہوں گے جو کہتے تھے برا وقت انے پر مخدوم شاہ محمود قریشی عمران خان کو الوداع کہہ جائینگے۔ صدیق جان نے تبصرہ کیا کہ صاف اور شفاف نہیں شریف و خراب الیکشن.... رائے ثاقب کھرل نے حمزہ شہبازکی ویڈیو شئیر کی جس میں وہ پولیس اہلکار کو ڈانٹ کر سائیڈ پر کررہے ہیں،انکا کہنا تھا کہ ان صاحب کو ڈانٹ کر سائیڈ پہ کر دیا۔ اور دوسری طرف ایک ایس ایچ او دھکے مارتا رہ طاہر کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی کو دھکے دینے اور بد تہذیبی کرنے والا ایک پولیس کا انسپکٹر اور دوسرا سادہ کپڑوں میں نا معلوم شخص تھا جو کہ ساتھ کھڑے ایک افسر کے اشارہ کرنے پر شاہ محمود پر ٹوٹ پڑے اور بے عزت طریقے سے گرفتار کر کے اپنی گندی تربیت کا مظاہرہ کیا۔ عینی سحر نے لکھا کہ اس مللک میں اب قانون نام کی کوئی چیز نہیں. شاہ محمود قریشی کے ساتھ جو ہوا وہ کل اسوقت کے لاڈلوں کے ساتھ بھی ہوگا دنیا میں جگ ہنسائی بنا کر رکھ دی خرم اقبال کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد پھر گرفتار، بکتر بند گاڑی پر چڑھ کر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں نے قوم کی ترجمانی کی ہے، سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے حافظ فرحت عباس نے تبصرہ کیا کہ شاہ محمود قریشی کا قصور یہی ہے کہ انہوں نے بھی عمران خان کی طرح جھکنے سے انکار کیا اور ملک کے خلاف ہونے والی سازش کو بے نقاب کیا. آج اسی بات کی آنہیں سزا دی جا رہی. جس طرح آج انکی تضحیک کی گئی اور دھکے دئے گئے یہ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں اسے کبھی معاف نہیں کیا جائیگا سبی کاظمی کا کہنا تھا کہ وفادار شاہ محمود قریشی، یہ دھکے اب ساری زندگی ان کے لیے تمغے بن گیے ہیں نجم الحسن باجوہ نے تبصرہ کیا کہ شاہ محمود قریشی کو جب دھکے مارے گئے اس وقت انکی دو بیٹیاں تین بہنیں وہیں پہ موجود تھیں انکے سامنے بوڑھے باپ کے ساتھ درندگی اور ظلم کیا گیا ! پاکستان کی سیاست میں ایک اور گندہ اور کالا دن فیاض شاہ کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی کا قصور صرف اتنا ہے کہ اُس نے عمران خان سے وفا نبھائی، علیم خان اور جہانگیر ترین بننے سے انکار کیا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اس وقت "نورین رورہی ہے" کا ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے، نورین دراصل تحریک انصاف کی سابق رہنما نورین فاروق خان ہے جس نے اکبرایس بابر کیساتھ ملکر پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشنز کو چیلنج کیا تھا۔ ق اے آروائی نیوز کے پروگرام دی رپورٹرز میں حسن ایوب خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نورین فاروق خان رورہی ہے کہ میں1999 سے پی ٹی آئی کا حصہ ہوں جو شخص 2020 میں پارٹی میں شامل ہورہا ہے اسے پارٹی کا چیئرمین بنانے کا عمران خان کا فیصلہ غلط تھا۔ اسکے بعد نورین رو رہی ہے سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ درخواست گزار نورین فاروق خان نے الیکشن کمیشن میں پیش ہوکر دعویٰ کیا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کا حصہ ہیں ، وہ جنرل سیکرٹری کا الیکشن لڑنا چاہتی تھیں لیکن اسے لڑنے نہیں دیا گیا۔ لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے، نورین فاروق خان 9 مئی کے بعد تحریک انصاف چھوڑ کر سلم لیگ ق میں شامل ہوچکی تھیں ۔انہوں نے چوہدری سرور اور چوہدری شجاعت کی موجودگی میں مسلم لیگ ق میں شمولیت کااعلان کیا تھا۔ اسکے بعد وہ ق لیگ میں کچھ ماہ متحرک نظر آئیں اور مختلف تقریبات اور ایونٹس میں شریک ہوتی رہیں لیکن جب پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشنز ہوئے تو درخواست گزار اور تحریک انصاف کی دعویدار بن کر سامنے آئیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اس وقت "نورین رورہی ہے" کا ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے، اس کے پیچھے کی اصل کہانی کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اے آروائی نیوز کے پروگرام دی رپورٹرز میں حسن ایوب خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نورین فاروق خان رورہی ہے کہ میں1999 سے پی ٹی آئی کا حصہ ہوں جو شخص 2020 میں پارٹی میں شامل ہورہا ہے اسے پارٹی کا چیئرمین بنانے کا عمران خان کا فیصلہ غلط تھا۔ میزبان خاور گھمن نے سوال کیا کہ اب نورین کیا چاہتی ہیں؟ حسن ایوب خان نے کہا نورین پارٹی میں صاف و شفاف انتخابات چاہتی ہیں، وہ ہمیشہ سے انٹرپارٹی انتخابات کی حامی رہی ہیں، نورین نے بلے کا نشان نہیں مانگا، نورین تو آج بھی پی ٹی آئی اور عمران خان کیلئے روتی ہے۔ حسن ایوب خان کی اس گفتگو کے بعد ٹویٹر پر نورین رورہی ہے کا ہیش ٹیگ سامنے آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ٹاپ ٹرینڈ کرنے لگا۔ پی ٹی آئی کے رہنما اظہر مشہوانی نے مسلم لیگ ق کی قیادت کی ایک پریس کانفرنس کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ نورین تو ق لیگ میں شامل ہوگئی تھی، انہیں تو نورین بھی کام کی نہیں ملی۔ نوشین پیروانی نے کہا کہ نورین کا مذاق نا اڑیا جائے بلکہ اس سے ہمدردی کا اظہار کیا جائے کیونکہ نورین تو رورہی ہے۔ صحافی خرم اقبال نے کہا کہ نورین رورہی ہے، راوی بہہ رہا ہے، چین بے چین ہے، کیونکہ یہ سب بلے کی کارستانی ہے، بلے کی خیر ہو۔ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ حیدر علی نے کہا کہ جو نورین حسن ایوب کے بقول رورہی ہے اور اسے پی ٹی آئی اتنی ہی عزیز تھی تو یہ ق لیگ میں کیا کررہی ہے؟ نیک روح نے لکھا کہ نورین رورہی ہے، کچھ تو شرم کرلو۔ احمد وڑائچ نے شاعرانہ انداز اپناتے ہوئے کہا کہ نورین کی محبت میں ہم کرشمہ سازوں نے وہ فیصلے بھی سنائے ہیں جو مناسب نہیں تھے۔ فیصل بھٹی نے مسلم لیگ ق کی خواتین کی ایک تصویر شیئر کی جس میں نورین فاروق خان کو بھی واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ عمران عارف نے خاور گھمن کا پروگرام میں حسن ایوب خان سے پوچھے گئے سوال کا کلپ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ یہ مان لیا کہ نورین رورہی ہے مگرسوال یہ ہے کہ وہ بلا کیوں مانگ رہی تھی؟ خیال رہے کہ نورین فاروق خان نےپی ٹی آئی کے انٹرپارٹی انتخابات کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کیا تھا، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے چیلنج کرنے والوں کا پی ٹی آئی کا حصہ نا ہونے کا دعویٰ کیا، پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ نورین فاروق خان پی ٹی آئی چھوڑ کر مسلم لیگ ق میں شامل ہوگئی تھیں جس کی ویڈیو و تصاویری ثبوت بھی موجود ہیں۔ تاہم نورین فاروق خان نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہے کہ وہ 1999 سے 2024 تک پی ٹی آئی کا حصہ ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کالعدم اور ان کا پارٹی نشان واپس لینے کے فیصلے پر پشاور ہائیکورٹ نے حکم امتناع جاری کر دیا ہے۔ شاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق کیس کا فیصلہ ہونے تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل تصور ہو گا اور چھٹیاں ختم ہونے کے بعد 2 رکنی بینچ کیس کی سماعت سماعت کرے گا۔پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ وجیہہ ثانی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں لکھا کہ: اچھی خبریہ ہے کہ تحریک انصاف کوبلا کاانتخابی نشان واپس مل گیا ہے۔غیریقینی یہ ہے کہ پشاور ہائیکورٹ کادائرہ اختیار صرف خیرپختونخواہ تک لاگوہے جبکہ الیکشن کمیشن جس کی اپنی آئینی حیثیت ہائیکورٹ کےبرابرہےاس کادائرہ اختیارالیکشن معاملات میں پورے ملک پر نافذ ہوتا ہے۔ وجیہہ ثانی کے ایکس (ٹوئٹر) پیغام پر ردعمل میں سینئر صحافی بشیر چودھری نے لکھا:الیکشن کمیشن آف پاکستان کچھ دن پہلے ہی لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ریٹرننگ افسران (آر اوز) کی ٹریننگ کو روک کر ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار کو تسلیم کر چکا ہے۔ سینئر صحافی عامر سعید عباسی نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا: آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت کوئی بھی ہائیکورٹ ایسا حکم جاری کرسکتی ہے! سینئر صحافی فخر درانی نے اپنے ایکس (ٹوئٹر) پیغام میں لکھا کہ: پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد کل سٹاک مارکیٹ مزید نیچے جائے گی کیونکہ جب تک غیریقینی صورتحال رہے گی سٹاک مارکیٹ نیچے ہی جائے گا۔ بلے کے نشان کا جب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو جاتا مارکیٹ ایسے ہی غیریقینی صورتحال کا ہی شکار رہے گی۔ سینئر کورٹ رپورٹر حسنات ملک نے اپنے ایکس (ٹوئٹر) پیغام میں لکھا: الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کے خلاف بہت سے وجوہات ہوں گی لیکن یہ بہتر ہوتا اگر پشاور ہائیکورٹ کا واحد جج کیس کی سماعت میں دوسری طرف کا موقف سن کر 5 رکنی کمیشن کے حکم کو معطل کر دیتا۔ شمع جونیجو نے الیکشن کمیشن کو پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ اڑانے کا حکم دے دیا
رجیم چینج اپریشن کے بعد سے تحریک انصاف مسلسل عتاب کا شکار ہے لیکن تحریک انصاف کا براوقت اس وقت شروع ہوا جب 17 جولائی 2022 میں 20 حلقوں میں ضمنی الیکشن ہوئے جن میں تحریک انصاف نے 15 ، ن لیگ نے 2 جبکہ آزادامیدوار نے ایک سیٹ جیتی اور اسکے بعد عمران خان نے 9 حلقوں سے الیکشن لڑا اور 8 حلقوں سے کامیابی حاصل کی۔ اسکے بعد عمران خان پر روز کی بنیاد پرنئے مقدمات کی بوچھاڑ شروع ہوگئی لیکن تحریک انصاف پر مشکل وقت 9 مئی کے بعد شروع ہوا جب تحریک انصاف کو ایک سکرپٹ کے تحت توڑا گیا۔ کارکنوں کو گرفتار کرکے، اغوا کرکے پارٹی چھڑوائی گئی ۔ اس پر بھی اکتفا نہ ہوا تو 2 نئی جماعتیں استحکام پاکستان پارٹی اور پرویزخٹک کی تحریک انصاف پارلیمنٹیرین بنوائی گئی۔عمران خان کوجیل میں ڈالا گیا، نااہل کیا گیا۔ اب سائفر کیس میں بھی سزا دینے کی تیاری ہے۔ صحافی محمد عمیر نے تحریک انصاف کا راستہ روکنے کے لئے ریاستی اقدامات گنوائے کہ تحریک انصاف کو کمزور کرنے اور راستہ روکنے کیلے کیا کیا حربے استعمال کئے گئے؟ ڈیڑھ سال سے کریک ڈاؤن پنجاب اور کے پی میں انتخابات نہ کروا کر آئین اور سپریم کورٹ کی خلاف ورزی پندرہ ہزار کارکن گرفتار ملک بھر میں 400 سے زائد مقدمے تین سو سے زائد رہنماؤں سے زبردستی پریس کانفرنس کروائی گئی چیئرمین،وائس چیئرمین سمیت باقی لیڈر شپ جیل میں انتخابی مہم چلانے پر پابندی میڈیا پر بائیکاٹ تاحال انتخابی نشان نہیں دیا گیا من مرضی کی حلقہ بندیاں مخالف سیاسی جماعتوں کو مکمل سپورٹ عدالتوں کی جانب سے انصاف کا قتل اب ناکامی پر عمران خان کی ذاتی زندگی کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور بشریٰ بی بی کی کردارکشی کی کوشش ہورہی ہے۔سابق شوہر خاور مانیکا کا پہلے ایک گھٹیا انٹرویو کروایا گیا اور پھر اسی کے ذریعے عدت میں نکاح کا کیس فائل کیاگیا۔ حاجرہ خان کی کتاب لانچ کروائی گئی۔ممکن ہے کہ آگے چل کر مزید خواتین کو لانچ کیا جائے جیسے ماضی میں عائشہ گلالئی، ریحام خان کو لانچ کیا گیا تھا لیکن ان میں ناکامی یقینی ہے ۔ کاغذات نامزدگی جمع ہوتے ہی تحریک انصاف کے امیدواروں سے کاغذات نامزدگی چھینے گئے، بعض کو جمع ہونے سے روکنے کی کوشش کی اور بعض کے جمع ہونے ہی نہیں دئیے گئے جس کی وجہ سے مضبوط امیدوار الکشن میں حصہ لینے سے محروم ہوگئے۔ کچھ امیدواروں سے الیکشن میں حصہ نہ لینے کے اعلانات بھی کروائے گئے جن میں گجرات سے سید فیض الحسن شاہ شامل ہیں۔ اب عمران خان کے خلاف آخری حربہ کے طور پر تحریک انصاف سے انتخابی نشان چھین لیا گیا ہے جس کا مقصد مسلم لیگ ن کو اکیلے ہی الیکشن میں لیول پلینگ فیلڈ دینا ہے۔توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ تحریک انصاف کو بلا واپس مل جائے گا اسکے باوجود کوشش کی جائے گی کہ تحریک انصاف کو الیکشن میں ہاتھ پاؤں باندھ کر اتارا جائے، آٹھ فروری ابھی دور ہے اس وقت تک کیا کیا ہوتا ہے؟ روز نت نئے واقعات ہونگے، ممکن ہے کہ عمران خان کو سائفر کیس میں جلد ازجلد سزا سنادی جائے تاکہ پی ٹی آئی ووٹرز مایوس ہوکر گھر بیٹھ جائیں۔
پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کے سربراہ پرویز خٹک نے دعویٰ کیاہے کہ مجھے بلے کے نشان کی آفر ہوئی تھی لیکن میں نے انکار کردیا اس پر سوشل میڈیا پر طوفان مچ گیا جس کے بعد الیکشن کمیشن کو خود آکر اسکی تردید کرنا پڑی۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھاکہ الیکشن کمیشن نے تردید کردی ہے، اب تحقیقات ہونی چاہئے کہ اگر الیکشن کمیشن نے آفر نہیں کی تو کس نے پرویز خٹک کوبلے کی آفر کی؟ حامد میر نے تبصرہ کیا کہ پرویز خٹک بھائی کو بلے کے نشان کی پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے انکار کر دیا، کیا چیف الیکشن کمشنر صاحب بتا سکتے ہیں کہ پرویز بھائی کو یہ پیشکش کس قانون کے تحت کی گئی؟ کیا پرویز بھائی نے یہ بیان دیکر الیکشن کمیشن کے بارے میں کئی سوالات کھڑے نہیں کر دئیے؟ نعیم پنجوتھہ کا کہنا تھا کہ پرویز خٹک کو کس نے آفر کی اور کس قانون کے تحت بلا کے آفر کی گئی ؟کیا الیکشن کمیشن کاروائی کرے گا ؟ یا صرف بیان جاری کر کے تردید جو کی ہے اس کی حد تک رہے گا ؟ صحافی ناصر بیگ چغتائی نے کہ اکہ تکلف برطرف پرویز خٹک بتا ہی دیں کہ کس نے بلا تھمانے کی کوشش کی ۔۔۔اس تردید کے بعد یہ ضروری ہوگیا ہے رضوان غلزئی نے کہا کہ ہوسکتا ہے پرویز خٹک صاحب کو بیٹ کے نشان کی آفر ہوئی ہو، چمکادڑ کو بھی انگلش میں بیٹ کہتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ردعمل پر علینہ شگری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی داڑھی میں تنکا ثاقب بشیر نے سوال کیا کہ مسترد مطلب ؟ کیا الیکشن کمیشن نشان ایک سے لیکر دوسرے کو آفر بھی کرتا ہے ؟ یاسرچیمہ نے اس پر کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 واضع طور اس کی مخالفت کرتا ہے۔ جو نشان ایک پارٹی کو الاٹ ہو چکا ہو وہ سیکشن 215 کے تحت واپس لے کر کسی دوسری پارٹی یا آزاد امیدوار کو الاٹ کرنے کی ممانعت کرتا ہے۔ خرم کا کہنا تھا کہ پرویز خٹک نے آفر کے باوجود بلے کا نشان لیا کیوں نہیں، یہ آفر کرانے والا ہے کون جس نے کھلی جانبداری دکھائی، الیکشن کمیشن کو اس معاملے پر وضاحت کرنی چاہئے سحرش مان نے تبصرہ کیا کہ کس نے کی بلے کی آفر؟ انتخابی نشان تو صرف الیکشن کمیشن دیتا ہے۔ کیا چیف الیکشن کمشنر نے پرویز خٹک کو آفر کی؟ اگر ایسا ہے تو پھر چیف الیکشن کمشنر کا کنڈکٹ کیا ہے؟ مزمل اسلم نے کہا کہ کس بنیاد پر الیکشن کمیشن نے آفر کی، کب کی اور کیوں کی؟ اگر یہ حقیقت ہے تو یہ معاملہ الیکشن کمیشن کی جانبداری کی طرف جاتا ہے۰ اور اگر جھوٹ ہے تو الیکشن کمیشن کو فوری تردید کرنا ہوگی۰ صحافی فہیم اختر کا کہنا تھا کہ پرویز خٹک جھوٹ بول رہے ہیں پرویز خٹک نے بلا کا نشان مانگا تھا درخواست بھی دی تھی الیکشن کمیشن نے انکار کیا تھا تو پگڑی کا نشان حاصل کرنے کی درخواست دی۔۔ چار دن پہلے میں نے یہ خبر دی تھی ٹوئیٹ حاضر ہے
گوجرانوالہ، وزیر آباد میں درج 3 دلچسپ مقدمے، تینوں کا متن ایک ہی جس سے لگتا ہے کہ ان مقدمات کا متن ایک ہی شخص نے ٹائپ کیا ہے۔تینوں میں ایک لائن مشترک ہےکہ "بھاگ جاؤ پولیس آگئی ہے"۔ وزیرآباد میں محمد احمدچٹھہ کے والد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا جو محمداحمد چٹھہ کے والد حامدناصر چٹھہ کے خلاف درج کیا گیا اس میں لائن یہ ہے کہ شور مچانا شروع کردیا کہ بھاگ جاؤ پولیس آگئی ہے۔ اسی طرح سابق ایم این اے میاں طارق کی بیوی اور بیٹے کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا کہ شور مچانا شروع کریدا کہ طارق بھاگ جاؤ، پولیس آ گئی ہے۔ اسی طرح ناصر چیمہ کے کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا کہ شور مچانا شروع کردیا کہ جمال بھاگ جاؤ، پولیس آ گئی ہے سابق اسپیکر حامد ناصر چٹھہ، سابق ایم این اے میاں طارق فیملی، سابق ایم پی اے ناصر چیمہ فیملی ملزم ہیں
گجرات میں پولیس نے ظہور پیلس پر چھاپہ مار کر چوہدری پرویز الہیٰ اور ان کے بیٹے مونس الہیٰ کے وکلاء، تائید کنندہ اور تجویز کنندگان کو گرفتار کرلیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف گجرات کے ڈسٹرکٹ سیکرٹری انفارمیشن عبداللہ وڑائچ کی جانب سے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ گجرات میں پولیس نے ظہور الہیٰ پیلس پر چھاپہ مارا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس دوران پولیس نے صدر پاکستان تحریک انصاف چوہدری پرویز الہیٰ اور ان کے بیٹے مونس الہیٰ کے وکلاء، تجویز کنندگان اور تائید کنندگان کو گرفتار کرلیا ہے، گرفتار ہونے والوں میں ایڈووکیٹ عرفان بشیر کنگ بھی شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب میں الیکشن کے نام پر عالمی شرمندگی اور رسوائی کا تماشہ جاری ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما چوہدری مونس الہیٰ نے واقعہ پرردعمل دیتے ہوئے کہا کہ چوہدری شجاعت حسین صاحب کے بیٹوں نے اپنی پھوپھیوں کو گرفتار کروانے کیلئے اپنے ہی آبائی خاندانی گھر پولیس بھجوادی۔ چودھری شجاعت کے بیٹے سالک حسین نے جواب دیتے ہوئے کہا کیا آپ نے میڈیا رپورٹنگ کا پیشہ بھی اختیار کر لیا ہے؟ اگر نہیں تو خبر کی تصدیق کر لو۔ اس واقعے کے بارے میں مجھے تب معلوم ہوا جب کسی نے یہ ٹویٹ مجھے بھیجی۔ خاندان کی عزت پی ٹی آئی کے ووٹوں کے لیے مت رولو، عوام حقیقت جانتی ہے۔ مائیں بہنیں سب کی سانجھی ہیں۔ ان کی ویڈیوز دیکھ کر دل رنجیدہ ہے۔ کاغذات نامزدگی جمع کروانے امیدوار کا جانا ضروری نہیں۔آپ کے پاس وکلا کی فوج موجود ہے انہیں بھیج دیا ہوتا۔برائے مہربانی گجرات میں عورت کارڈ نہ چلایا جائے۔ چلو شکر ہے آپ نے یہ تو تسلیم کیا کہ یہ ہمارا بھی آبائی گھر ہے لہذا وہاں ہمارے آنے پر جو کمروں کو تالے لگ جاتے ہیں انہیں بھی کھلوا دو۔ پورا پاکستان یہ تماشا دیکھ رہا ہے۔ آپ خود کہتے تھے سیاست اپنی اپنی۔ سیاست کرو ذاتی عناد اور بے بنیاد الزامات مت لگاؤ۔دعا ہے اللہ آپ کو صبر دے اور چودھری پرویز الہی صاحب کی مشکلات میں کمی آئے۔ خیال رہے کہ چوہدری پرویز الہیٰ اور چوہدری مونس الہیٰ کی جانب سے شدید مشکلات کے باوجود آج کاغذات نامزدگی جمع کروائے گئے تھے، گزشتہ روز مونس الہیٰ کی والدہ جو چوہدری شجاعت حسین کی بہن ہیں ان کے ساتھ بھی بدتمیزی کا واقعہ پیش آیا تھا
شفقت محمود کا قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں سے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا اعلان، سوشل میڈیا صارفین نے اہم سوالات اٹھادیئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شفقت محمود نے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کروادیئے ہیں، شفقت محمود کی جانب اچانک منظر عام پر آکریہ اعلان کیا ہے جس پر سوشل میڈیا صارفین نے اہم سوالات اٹھادیئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق کافی عرصے سے خاموش پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شفقت محمود نے آج ایکس (ٹویٹر) پر ایک بیان جاری کیاجس میں ان کا کہنا تھا کہ میں نے این اے128 اور پی پی 170 سے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کروادیئے ہیں، میں اپنے حلقے کے عوام کا شکر گزار ہوں جنہوں نے دو بار مجھے منتخب کرکے قومی اسمبلی بھیجا۔ شفقت محمود کی اس ٹویٹ پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں سمیت سوشل میڈیا صارفین نے اہم سوالات اٹھائے، پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر شہباز گل نے شفقت محمود کی ٹویٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کئی ماہ سےآپ کا کوئی ٹویٹ نہیں آیا، پارٹی پر مظالم پر بھی آپ کا کوئی مذمتی بیان سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی پی 170 سے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا فیصلہ درست ہے، کیونکہ آپ کے ہوتے ہوئے کسی اور کو وزیراعلی بنانے کا حق نہیں بنتا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ارسلان بلوچ نے شفقت محمود کو بے شرم انسان قرار دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا ذکر بھول گئے جن کی بدولت انتخابات جیتے تھے۔ صحافی واینکر پرسن صبیح کاظمی نے کہا کہ یہ ووٹ صرف عمران خان کے تھے اور انہی کے رہیں گے، شفقت محمود تو اب فارغ ہی ہیں۔ عدیل اظہر نے کہا کہ شفقت محمود ان تمام مشکلات سے کیسے بچ گئے جن کا سامنا پنجاب میں پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کو ہے، کیا یہ بھی؟؟؟ سیٹھ عبداللہ نے کہا کہ شفقت محمود کو کوئی نہیں جانتا،این اے 128 کے عوام نے عمران خان کو ووٹ دیا تھا اور آئندہ بھی انہیں ہی ووٹ دیں گے، پی ٹی آئی کے ووٹرز امیدواروں کو ووٹ نہیں دیتے بلکہ صرف اور صرف عمران نیازی کو فون کرتے ہیں۔ صحافی عابد عندلیب نے کہا کہ شفقت محمود پی ٹی آئی کے واحد امیدوار ہیں جن کے نا کاغذ چھینے گئے اور نا ہی ان کے تجویز کنندہ گرفتار ہوئے، اس کو بھی لیول پلیئنگ فیلڈ کہتے ہیں۔
غریدہ فاروقی نے بلوچ لاپتہ افراد کا لانگ مارچ لیڈ کرنیوالی ماہ رنگ بلوچ سے سوال کیا کہ کیا آپ دہشت گردوں کی مذمت کرتی ہیں؟ اس پر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ پہلے یہ بتائیں کہ یہ مسئلہ کیسے شروع ہوا؟ قوت کا استعمال کس نے شروع کیا؟ عسکری تنظیمیں بنی کیسے؟ 71 میں کس نے بلوچستان پر چڑھائی کی؟ہمارے لوگوں کو کس نے اٹھایا؟ غریدہ نے پھر سوال کیا کہ آپ اگر مگر کے بغیر دہشت گردوں کی مذمت کرتی ہیں؟ اس پرماہ رنگ نے کہا کہ کیا ریاست ان مسائل میں سنجیدہ ہے؟ اگر سنجیدہ ہے تو میں مذمت کیلئے تیار ہوں۔ مطیع اللہ جان نے اس پر کہا کہ دہشت گردوں کی مذمت سیاستدانوں سے کرائی جاتی ہے نہ کہ اُن مظلوموں سے جنہیں ریاستی اور غیر ریاستی دونوں عناصر سے خطرہ ہوتا ہے اور انہیں اُن علاقوں میں لوٹنا ہوتا ہے جہاں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر ملل کر انکی جان کے در پہ ہوتے ہیں، انکا کہنا تھا کہ جن صحافیوں کو ماہرنگ بلوچ کے جواب پر اعتراض ہے وہ خود بلوچستان جا کر ماہرنگ بلوچ کے علاقے میں رہ کر اُن بلوچ تنظیموں کی مذمت کر کے دکھائیں، بے شرمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ویسے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاستدانوں اور طاقت ور ریاستی اہلکاروں سے کبھی لاپتہ افراد کے بارے میں جو سوال کرنے کی ہمت نہیں رکھتے وہ ان مظلوموں پر اپنی صحافت کا رعب ڈال کر فخر کرتے ہیں۔ شائستہ نے ویڈیو شئیر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ ایسے انٹرویوز کرنے والوں کو کیا صحافی کہا جانا چاہئے؟ ایک ہی سوال ایک ہی سوال ایک ہی سوال مہرنگ کے کسی سوال کا جواب نہیں نہ ہی کوئی اظہارہمدردی جاسم نے کہا کہ کیسے کیسے لوگ اس ملک میں صحافت کرتے ہیں۔ ماہ رنگ کے کسی سوال کے جواب میں بس ایک ہی بات ہاں ریاست سے غلطیاں ہوئیں۔ بی بی ریاست سے غلطیاں نہیں ریاست نے خود جان بوجھ کر جرائم کئے۔ امیر نے تبصرہ کیا کہ ماہ رنگ بلوچ کی جرات کو سلام ہے جو غریدہ جیسی ٹاوٹ سے وہ سوال پوچھی رہی ے جو دراصل اسکی صحافتی ذمےداری تھی مگر انصار عباسی جیسے اور غریدہ فاروقی جیسے ٹاوٹ ریاست کے پے رول پر ہونے کئ وجہ سے وہ سوال نہیں کرتے جو کرنا انکا فرض تھا۔۔کہ یہ خود کو ملک کی سب نمبر ون کہنے والی ایجنسی کیوں اب تک بلوچستان کو دہشت گردوں سے پاک نہیں کروا سکی ؟؟ انہوں نے مزید کہا کہ کیوں بلوچستان اب تک جل رہا ہے؟ وہ کون ہے جو بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کو پالتا ہے؟ یہ ایسی بدمعاش ریاست ہے جو پہلے اپنے ہی لوگوں پر حملہ آور ہوتی ہے پھر انھیں ہی اسکے لئیے موردِ الزام ٹھہراتی ہے اور الٹا ظلم و جبر سہنے والوں سے کہتی ہے اب مذمت بھی کرو ! شفیق احمد ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ غریدہ فاروقی کا انصاف مانگنے آئے جبری گمشدہ اور ماورائے عدالت قتل کے وارثان سے پنجابی مخبر مزدوروں بارے سوال پوچھنا ایسا ہے کہ جیسے غریدہ فاروقی اپنے باپ کے قتل کی FIR کروانے جائے تو کہا جائےکہ پہلے لشکر جھنگوی کے اورنگزیب فاروقی کے بارے اپنی صفائی دو ایڈوکیٹ شاہ فہد کا اس پر کہنا تھا کہ غریدہ فاروقی ایک فلسطینی سےکیا آپ حماس کی مذمت کرتی ہیں یا نہیں کرتیں؟نہیں آپ بتائیں آپ کرتی یا نہیں کرتیں؟نہیں۔ بس۔ آپ پہلے یہ بتائیں نا کہ آپ حماس کی مذمت کرتی ہیں یا نہیں کرتیں۔وہ تو ٹھیک ہے۔ جو بھی ہے۔ آپ پہلے یہ تو بتائیں آپ حماس کی مذمت کرتی ہے؟
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سائفر کیس میں بانیٔ پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کر لی,عدالتِ عظمینے بانیٔ پی ٹی آئی اور شاہ محمود کی 10-10 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی ہے صادق اور امین کے بعد عمران خان معصوم قرار دے دیئے گئے,,سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے کئے جانے لگے,صابر شاکر نے جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس لکھے عمران خان پر جرم ثابت نہیں ہوا وہ معصوم ہیں. شہباز گل نے مریم نواز کی روتی ہوئی تصویر شییر کرتے ہوئے لکھا وہ صادق تھا امین تھا اور اب معصوم بھی اور میرے ابو صرف چور, انور لودھی نے کہا‏اللہ جسے چاہے عزت دے... یہ اسے غدار ثابت کرنے کے لیے پورا زور لگا رہے تھے آج سپریم کورٹ نے اسے معصوم قرار دے دیا.. یہی سپریم کورٹ اسے صادق اور امین بھی قرار دے چکی ہے. ذیشان علی نے کہا عمران خان سپریم کورٹ سے صادق اور امین کے بعد معصوم بھی ثابت ہوگئے۔۔۔ علیزے ارشد شیریف نے لکھاپوری قوم کو مبارکباد ۔آپ کا لیڈر صادق اور امین کے بعد اب معصوم بھی ثابت ہوگیا ہے ۔ ایاز عامر نے لکھاوہ کون ہے جو صادق اور امین تو تھا ہی اب معصوم بھی ہے مریم ملک نے لکھاصادق اور امین کے بعد اب معصوم قرار !! خرم اقبال نےلکھااسی سپریم کورٹ سے پہلے عمران خان صادق اور امین ٹھہرے اور اب معصوم ، کہیں آگ لگ رہی ہو گی۔ عمران ریاض خان نے لکھااسی سپریم کورٹ سے پہلے عمران خان صادق اور امین ٹھہرے اور اب معصوم ، کہیں آگ لگ رہی ہو گی۔ جمی ورک نے لکھاقمر باجوہ نے پورا سال لگا کر اگر کوئی کیس عمران خان کے خلاف بنایا تھا جو خطرناک ثابت ہوسکتا تھا تو وہ نام نہاد سائفر کا کیس تھا۔ جس میں عمران خان بالآخر معصوم ثابت ہو چکا ہے,باقی جو عدت، بدعت، شادی، بیاہ، نکاح، زنا کے گھٹیا کیسز ہیں وہ نوازشریف کے منہ پر لگے ہوئے گندے پیمپر سے زیادہ نا پائیدار ہیں۔ جب ججز چاہیے گے اتار کر کوڑےدان میں پھینک دیں گے۔اور ججز پھینکنے جا رہے ہیں۔

Back
Top