پاکستان فوج نے امریکی انتظامیہ کی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے جس میں امریکی انتظامیہ نے کہا ہے کہ حکومتِ پاکستان کے پاس دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے۔
پاکستان فوج کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے دہشت گردوں کے خلاف بڑی مؤثر کارروائیاں کی ہیں۔
اس ضمن میں پاکستان فوج کے اعلیٰ اہلکار نے سوات اور قبائلی علاقوں میں کئی مقامات کا حوالہ دیا جہاں پاکستان فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں نے دہشت گردوں کے خلاف بڑے کامیاب آپریشن کیے ہیں۔
صدر اوباما کی طرف سے کانگریس کو پیش کی جانے والی اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ قبائلی علاقوں میں ڈیڑھ لاکھ فوج تعینات کیے جانے کے باوجود پاکستان فوج کے پاس دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے۔
اس سال جنوری میں دہشت گردی کے خلاف جنگ پر امریکی سٹریٹیجک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
یہ سالانہ رپورٹ صدر براک اوباما کے قومی سلامتی امور کے مشیر تیار کرتے ہیں جو امریکی کانگریس کو پیش کی جاتی ہے۔ یہ رپورٹ ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب تین ماہ بعد صدر اوباما افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا اعلان کریں گے۔
وائٹ ہاؤس کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی جانی قربانیاں دی ہیں اور امریکہ اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کے باوجود دہشت گردی کے خلاف نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی جانی قربانیاں دی ہیں اور امریکہ اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کے باوجود دہشت گردی کے خلاف نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی ہے
رپورٹ میں پاکستان کے قبائلی علاقے مہمند اور باجوڑ میں رواں سال شروع کیے گئے آپریشن کا ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ آپریشن گزشتہ دو برس میں تیسری بار کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس آپریشن میں جنگجوؤں کی مزاحمت، خراب موسم اور بے گھر ہونے والے افراد جیسے مسائل کے باعث کامیابی نہیں ہو رہی ہے۔
پاکستان کی جانب سے کیے جانے والے آپریشن میں بظاہر علاقے پر قبضہ اور اس کے بعد کی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ اگرچہ پاکستان کی ایک لاکھ سینتالیس ہزار فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لے رہی ہے لیکن پاکستان کے پاس دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے واضح حکمتِ عملی نہیں ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کو تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ سرحد کے دونوں جانب شدت پسندوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔
رپورٹ میں افغانستان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ خودکش حملوں میں حالیہ اضافے سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ رواں سال کی جنگ کا آغاز ہو گیا ہے۔
حالیہ خودکش حملوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ طالبان نے اپی حکمتِ عملی تبدیل کر لی ہے اور اب وہ آسان اہداف کو نشانہ بناتے ہیں جیسے کہ عام شہری اور سرکاری دفاتر۔
وائٹ ہاؤس کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے طالبان کی حکمتِ عملی میں تبدیلی سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ طالبان دباؤ میں ہیں اور اسی لیے وہ شہریوں میں خوف و ہراس پیدا کر رہے ہیں۔
دوس
پاکستان فوج کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے دہشت گردوں کے خلاف بڑی مؤثر کارروائیاں کی ہیں۔
اس ضمن میں پاکستان فوج کے اعلیٰ اہلکار نے سوات اور قبائلی علاقوں میں کئی مقامات کا حوالہ دیا جہاں پاکستان فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں نے دہشت گردوں کے خلاف بڑے کامیاب آپریشن کیے ہیں۔
صدر اوباما کی طرف سے کانگریس کو پیش کی جانے والی اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ قبائلی علاقوں میں ڈیڑھ لاکھ فوج تعینات کیے جانے کے باوجود پاکستان فوج کے پاس دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے۔
اس سال جنوری میں دہشت گردی کے خلاف جنگ پر امریکی سٹریٹیجک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
یہ سالانہ رپورٹ صدر براک اوباما کے قومی سلامتی امور کے مشیر تیار کرتے ہیں جو امریکی کانگریس کو پیش کی جاتی ہے۔ یہ رپورٹ ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب تین ماہ بعد صدر اوباما افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا اعلان کریں گے۔
وائٹ ہاؤس کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی جانی قربانیاں دی ہیں اور امریکہ اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کے باوجود دہشت گردی کے خلاف نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی جانی قربانیاں دی ہیں اور امریکہ اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کے باوجود دہشت گردی کے خلاف نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی ہے
رپورٹ میں پاکستان کے قبائلی علاقے مہمند اور باجوڑ میں رواں سال شروع کیے گئے آپریشن کا ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ آپریشن گزشتہ دو برس میں تیسری بار کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس آپریشن میں جنگجوؤں کی مزاحمت، خراب موسم اور بے گھر ہونے والے افراد جیسے مسائل کے باعث کامیابی نہیں ہو رہی ہے۔
پاکستان کی جانب سے کیے جانے والے آپریشن میں بظاہر علاقے پر قبضہ اور اس کے بعد کی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ اگرچہ پاکستان کی ایک لاکھ سینتالیس ہزار فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لے رہی ہے لیکن پاکستان کے پاس دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے واضح حکمتِ عملی نہیں ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کو تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ سرحد کے دونوں جانب شدت پسندوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔
رپورٹ میں افغانستان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ خودکش حملوں میں حالیہ اضافے سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ رواں سال کی جنگ کا آغاز ہو گیا ہے۔
حالیہ خودکش حملوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ طالبان نے اپی حکمتِ عملی تبدیل کر لی ہے اور اب وہ آسان اہداف کو نشانہ بناتے ہیں جیسے کہ عام شہری اور سرکاری دفاتر۔
وائٹ ہاؤس کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے طالبان کی حکمتِ عملی میں تبدیلی سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ طالبان دباؤ میں ہیں اور اسی لیے وہ شہریوں میں خوف و ہراس پیدا کر رہے ہیں۔
دوس