Turkey Is Major Transit Route For Islamic State Fighters
Militant fighters are crossing into Syria through Turkey and public criticism of Turkey is growing louder. NPR's Linda Wertheimer talks to the Financial Times' Istanbul correspondent, Daniel Dombey.
دولتِ اسلامیہ شام میں حکومت کے خلاف برس پیکار تمام گروہوں کو پیچھے چھوڑ چکی ہے
کئی خلیجی ریاستوں پر الزام ہے کہ وہ عراق اور شام میں پرتشدد کارروائیوں میں مصروف شدت پسند گروہ دولتِ اسلامیہہ کو مالی مدد فراہم کرتی رہی ہیں اور اس بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ دیگر دنیا کے علاوہ دولت سے مالامال خلیجی ریاستوں میں دولتِ اسلامیہ کو کئی ایک امرا کی ہمدردیاں حاصل ہیں جو اس شدت پسند گروہ کی مالی معاونت کرتے رہے ہیں، لیکن قطر کے رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل سٹیونز کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں یہ اتنا واضح بھی نہیں کون کیا کر رہا ہے۔ درج ذیل مضمون مائیکل سٹیونز کی تحریر ہے۔ جہاں تک میری تحقیق کا تعلق ہے تو عراق اور شام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف برسرِ پیکار قوتوں کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو بنانے اور قائم رکھنے کی تمام ذمہ داری قطر، ترکی اور سعودی عرب پر عائد ہوتی ہے۔ تاہم حقیقت اس الزام سے زیادہ پیچیدہ ہے اور وقت آ گیا ہے کہ اس کی وضاحت کی جائے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شام میں برسِرپیکار شدت پسند گروہوں کی مالی معاونت خلیجی ریاستوں کے کچھ امرا کرتے رہے ہیں جو بھاری رقوم سے بھرے ہوئے تھیلے ترکی لے جا کر لاکھوں ڈالر اس گروہ کے حوالے کرتے رہے ہیں۔ سنہ 2012 اور 2013 میں یہ عمل معمول بن چکا تھا لیکن اب اس کی مثالیں خام خام ہی ملتی ہیں اور سنہ 2014 میں دولتِ اسلامیہ کو پہنچائی جانے والی بھاری رقوم کا بہت چھوٹا حصہ اس راستے سے گروہ تک پہنچایا جا رہا ہے۔
قطر کے نئے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی فرانس کے صدر کے ساتھ
گذشتہ دو تین برسوں میں لوا التوحید، احرار الشام اور جیش الاسلام نامی گروہ یہ کام کرتے رہے ہیں اور ان تینوں گروہوں کے اپنے وقت کے بُرے لوگوں یعنی النصرۃ فرنٹ اور شام میں موجود القاعدہ سے کسی نہ کسی قسم کے روابط رہے ہیں۔ سعودی عرب پر الزام ہے کہ وہ اس سارے عرصے میں دولتِ اسلامیہ کے نام کے تحت کام کرنے والے اسلام پسند گروہوں کو مالی مدد فراہم کرتا رہا ہے، لیکن سعودی عرب اس الزام کی شدت سے تردید کرتا ہے۔ جہاں تک خلیجی ریاستوں سے دولت اسلامیہ کی مدد کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بشار الاسد کے خلاف جاری شورش کے ابتدائی دنوں سے ہی یہاں سے باغی گروہوں کی رقوم فراہم کی جاتی رہی ہیں۔ قطر پر خاص طور پر یہ الزام ہے کہ دولتِ اسلامیہ کے ساتھ اس کے خفیہ روابط رہے ہیں۔ اسی طرح ترکی کے کردار پر بھی بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں کہ اس نے سعودی عرب اور قطر کی پشت پناہی کو راستہ دیا اور اس کی سرحد کے راستے دولت اسلامیہ تک اسلحہ اور بھاری رقوم پہنچائی جاتی رہی ہیں۔ تمام لوگوں کا خیال تھا کہ ترکی کی اس حکمت عملی کی بدولت بشارالاسد کے دور کا خاتمہ ہو جائے گا اور شام میں سنی طاقت کو غلبہ حاصل ہو جائے گا جس کے بعد شیعہ ایران اور بحیرۂ روم کے درمیان رابطے کٹ جائیں گے۔ لیکن جب سنہ 2013 میں دولت اسلامیہ کا زور بڑھ گیا تو شام میں برسر پیکار چھوٹے چھوٹے گروہ یا تو دولتِ اسلامیہ کے زور تلے دب گئے اور یا انھوں نے اپنے اسلحے اور دولت سمیت اس تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی۔
قطر کی طرح سعودی عرب پر بھی الزام ہے کہ اس نے دولت اسلامیہ کی پشت پناہی کی
ان گروہوں میں سے النصرۃ ہی وہ واحد گروہ تھا جو اپنے پاؤں پر کھڑا رہا، تاہم یہ مضبوط تنظیم بھی دولتِ اسلامیہ کے سامنے زیادہ دیر نہ ٹھہر سکی اور گذشتہ دو برسوں میں اس کے کم از کم تین ہزار جنگجو اسے چھوڑ کر دولت اسلامیہ سے مل چکے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کیا قطر نے واقعی دولت اسلامیہ کی مالی مدد کی؟ جہاں تک قطر کی براہ راست مدد کا تعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ الزام غلط ہے۔ لیکن جہاں تک قطر کی بالواسطہ مدد کا تعلق ہے تو یہ بات درست ہے کہ قطر کی غیر واضح پالیسی اور کم عقلی کا یہ نتیجہ ضرور نکلا ہے کہ وہ اسلحہ اور رقوم جو قطر نے فراہم کی تھیں وہ دونوں دولتِ اسلامیہ کے ہاتھ لگ چکے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ یہ کہیں کہ دولت اسلامیہ کی مالی مدد کرنا سعودی عرب کی باقاعدہ حکومتی پالیسی رہی ہے تو یہ بھی درست نہیں ہوگا۔ قطر کی طرح سعودی عرب نے بھی تہیہ کیا ہوا تھا کہ وہ بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹا کر رہے گا اور اپنے اس ہدف کے حصول میں سعودی عرب نے بھی فاش غطلیاں کیں۔ اگرچہ اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ یہ دونوں ممالک کھلے عام اپنی حماقتوں کا اعتراف کریں، تاہم وقت آگیا ہے کہ قطر اور سعودی عرب دونوں اپنے گریبانوں میں ضرور جھانکیں۔