Now Army needs Rehman Malik & Wajid Shamsul Hassan's heads.

Kahlown

Senator (1k+ posts)
[h=2]فوج کو چاہیں اب ملک اور واجد کے سر[/h]Published on 21. Dec, 2011
فوج کو چاہیں اب رحمان ملک اور واجد شمس الحسن کے سر
اسلام آباد ( شہزاد رضا) حسین حقانی کے بعد پاکستان کی فوجی قیادت نے اب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے کہا ہے کہ وزیرداخلہ رحمن ملک اور برطانیہ میں پاکستانی سفیر واجد شمس الحسن کو بھی چلتا کر یں کیونکہ یہ دونوں بھی فوج کے مفاد کے خلاف کام کر رہے ہیں جس کی وجہ سے فوج میں ان کے خلاف خاصی ناپسندیدگی پائی جاتی ہے۔
عسکری ذرائع کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے وزیراعظم کو بتایا ہے کہ ان پر اپنے ادارے کی طرف سے رحمان ملک اور واجد شمس الحسن کو فارغ کرانے کے لیے شدید دباؤ ہے۔
باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے ذاتی طور پر چوہدری شجاعت حسین سے درخواست کی ہے کہ وہ اس معاملے کے حل میں فوج اور حکومت کے درمیان کردار ادا کریں۔ چوہدری شجاعت بھی بڑے پر امید ہیں کہ یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے پاجائے گا۔ فوج میں ابھی بھی چوہدری شجاعت کو قابل بھروسہ سمجھا جاتا ہے۔
فوج اور حکومت کے درمیان موجودہ رسہ کشی میں یہ سمجھا جارہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل احمد شجاع پاشا خاصا سخت گیر رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں ا ور وہ اعجاز منصور سے ملنے کے لیے لندن تک گئے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اس سارے معاملے کو کتنا سنجیدہ لیا اور پھر وہ سویلین حکومت پر دباؤ بڑھانے میں بھی پیش پیش تھے۔ تاہم یہ دباؤ اس وقت کم ہونا شروع ہوا جب اسی اعجاز منصور نے انکشاف کیا کہ جنرل پاشا صدر زرداری کی حکومت گرانے کی منظوری لینے کے لیے سعودی عرب گئے تھے۔ جنرل کیانی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان کا رویہ اتنا سخت نہیں ہے جتنا کہ جنرل پاشا کا ہے۔ ایک مبصر کے بقول دونوں Good Cop Bad Cop کی جوڑی بنے ہوئے ہیں۔ جنرل کیانی اچھے افسر کا رول ادا کر رہے ہیں اور سیاسی حکومت پر جنرل پاشا کا دباؤ استعمال کرکے اپنی مرضی کے فیصلے کرارہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جنرل کیانی حکومت سے باتیں منوانے کے لیے کہہ رہے ہیں کہ مطلوبہ اقدامات کرنے سے ان پر اپنے ہی ساتھیوں کی طرف سے آنے والا دباؤ بڑی حد تک کم ہوجائے گا جو دو مئی کو اسامہ اپریشن کو لے کر میمو سکینڈل تک ہونے والی حکومتی کارروائی سے مطمئن نہیں ہیں۔ جنرل کیانی چاہتے ہیں کہ رحمن ملک اور واجد شمس الحسن کی چھٹی کرانے سے وہ اس قابل ہو جائیں گے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا کر سکیں اور انہیں مطمئن کر سکیں کہ وہ حکومت کے سامنے جھکے نہیں اور اب فوج کی مرضی کے فیصلے ہونے لگے ہیں۔ اس سلسے میں بڑی کامیابی اس وقت حاصل ہوئی تھی جب انہوں نے دباؤ ڈال کر حکومت کو حسین حقانی سے استعفا لینے پر مجبور کردیا تھا۔
وزیراعظم کے ساتھ ہونے والی حالیہ میٹنگ میں ذرائع کے مطابق باقاعدہ طور پر یہ کہہ دیا گیا ہے کہ فوج کو اس بات سے فرق نہیں پڑے گا کہ رحمان ملک اور واجد شمس الحسن کو دوبارہ کہاں ایڈجسٹ کیا جاتا ہے لیکن ان کا موجودہ اہم عہدوں سے ہٹایا جانا ضروری ہے کیونکہ دونوں فوج کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کون سی سرگرمیاں ہیں جن کا الزام ان دونوں پر لگا کر انہیں برطرف کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ فوج اس وقت سے رحمان ملک کے خلاف ہو چکی ہے جب انہوں نے آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کرایا تھا اور پھر میڈیا میں ایک طرح کا کہرام مچ گیا تھا جو اس وقت ختم ہوا جب امریکہ کے دورے پر محو سفر وزیراعظم گیلانی نے لندن سے فون کرکے اس نوٹیفیکشن کو واپس لینے کے احکامات جاری کیے۔
تاہم رحمان ملک کو Great Survivor سمھجا جاتا ہے کیونکہ ماضی میں بھی ان کو ہٹانے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں جو بعد میں محض میڈیا قیاس آرائیاں بن کے رہ گئیں کہ فوجی قیادت ان کو پسند نہیں کرتی، کیونکہ وہ باتونی اور بڑبولے سمجھے جاتے ہیں جن کا وزیرداخلہ کے طور پر اور کوئی کام نہیں سوائے اس کے کہ وہ سارا دن کسی اہم خبر کا انتظار کریں اور پھر فوراً ٹی وی کیمروں کے سامنے پہنچ جائیں اور اپنی پروجیکشن میں لگے رہیں۔ رحمان ملک کے بارے میں مشہور ہے کہ جس دن وہ یہ بیان دیتے تھے کہ انہوں نے طالبان کی کمر توڑ دی تھی تو اگلے ہی روز وہ درجنوں معصوم لوگوں کو نشانہ بنا دیتے ہیں۔
رحمان ملک کو پاکستان میں امریکی اور برطانوی مفادات کا نگہبان بھی سمجھا جاتا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ کبھی فوج کے حلقوں میں مقبول نہیں ہو سکے حالانکہ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے سے طاقتور کو خوش کرنے اور اس کا دل جیتنے کے لیے کسی بھی حد تک جاتے کو تیار رہتے ہیں اور ان کی یہی خوبی انہیں ایک عام کسٹم کلرک سے وزیرداخلہ کے عہدے تک لے آئی ہے۔
صحافت چھوڑ کر سیاستدان بننے کے شوقین واجد شمس الحسن سے فوج کی ناراضگی اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نے بھارتی نیوز چینل NDTV کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا کہ پاکستانی حکومت کو دو ہفتے پہلے ہی اسامہ کے گھر پر امریکہ کے حملے کا علم تھا۔ واجد شمس الحسن نے بھارتی ٹی وی سے بغیر سوچے سمجھے بات ایسے کی جیسے امریکیوں نے انہیں یہ بتایا تھا کہ وہ اپنی سیاسی لیڈرشپ کو بتائیں کہ وہ دو ہفتے بعد اسامہ پر حملے کریں گے لہذا مشتری ہوشیار باش۔ واجد شمس الحسن کے بارے میں مشہور ہے کہ بعض لوگ تو رات کو بہکتے ہیں لیکن یہ دن میں بھی اسی کیفیت میں پائے جاتے ہیں، چنانچہ ان کا کہا سنا معاف ہونا چاہیے۔
لیکن NDTV کو دیئے ان کے انٹرویو نے پاکستان میں ایک شور مچا دیا ہے کہ ایک سفیر کیسے کہہ سکتا ہے کہ پاکستانی حکومت کو دو ہفتے پہلے ہی اس حملے کا علم تھا۔ اب سوال یہ پوچھا جارہا ہے کہ اگر علم تھا تو پھر اسامہ کو خود پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیوں نہیں کیا گیا اور اس کی بجائے ملک کی بدنامی کیوں کرائی گئی۔ واجد شمس الحسن کو ایبٹ اباد کمیشن نے بھی بلایا تھا کہ تاکہ ان سے پوچھا جائے کہ آخر انہوں نے کن معلومات کی بنیاد پر یہ کہا تھا کہ حکومت پاکستان کو امریکی حملے کا پہلے سے علم تھا۔ تاہم واجد شمس الحسن نے غالباً حسین حقانی کے انجام سے سبق حاصل کرتے ہوئے پاکستان آنے سے انکار کر دیا۔
پرنٹ کریں




 

pardese

Minister (2k+ posts)
Re: فوج کو چاہیں اب ملک اور واجد کے سر

Is memo gate me hamid meer b mila hoa ta.ye sab bakwas in corrupt logon ne mil ke tayar ki ti.sab dako or chor hen seway pti or imran khan ke
 

barca

Prime Minister (20k+ posts)
Re: فوج کو چاہیں اب ملک اور واجد کے سر

jana chahay yea sab mulik k dushman hai
 

naeemk

MPA (400+ posts)
Re: فوج کو چاہیں اب ملک اور واجد کے سر

kiun kutton ki qurbani kab se jaiz ho gai........ agar haram janwaron ki hi qurbani karni hai then kh@nzir zardari should be first.
 

ranaji

(50k+ posts) بابائے فورم
Re: فوج کو چاہیں اب ملک اور واجد کے سر

kiun kutton ki qurbani kab se jaiz ho gai........ agar haram janwaron ki hi qurbani karni hai then kh@nzir zardari should be first.
*khan .zeer******* ney ahtjaaj kia hai keh ussay zardari say compare kar ke uss ki(*khan zeer*******)ki be izzti ki gai hai
 
Last edited:

Back
Top