Halwa Puri & Daal Roti حلوہ پوری اور دال روٹی

AdamHawwa

New Member

جستجو
حکمت اور دانش سے بھرپور تحریریں

حلوہ پوری اور دال روٹی

از: محمد بن قاسم، جستجو


پاکستان کے ہردل عزیزادیب جناب ڈاکٹر محمد یونس بٹ کا دل چسپ مزاحیہ سیریل پروگرام” ہم سب اُمّید سے ہیں“ ایک عرصہ سے صرف اور صرف سیاسی مزاح سے ُمزیّن ہے۔ آپ اتّفاق کریں گے کہ اگر اس پروگرام کی روح’ سیاست‘ کو اس سے جدا کر دیا جائے تو وہ بے مزاح ہوکررہ جائے گا، اور تمام ترامیدیں مایوسی میں بدل جائیں گی۔ اس ضمن میں جو دل چسپ امر ہے وہ یہ ہے کہ یہ تمام مزاح حقیقت سے قریب حرکات، سکنات ، بات چیت، اور گپ شپ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کی ایک اور روشن مثال اس خبر سے ملتی ہے کہ 13 مئی 2011 کو منعقد ہونے والے خصوصی پارلیمانی سیشن کی طوالت کے سبب کئی ارکان پارلیمنٹ اس لیے بیمار پڑگئے کہ وہ نہ تو اتنا کام کاج کرسکتے ہیں، چاہے وہ صرف کچھ سننے پر ہی مشتمل ہو، اور ’ان کیمرہ‘ سیشن ہونے کی بناءپر نہ ہی اتنی طویل خفیہ نیند سے لطف اندوزہو سکے جس کے وہ آرام دہ اور شان دار ائیرکنڈیشنڈ ٹھنڈے ٹھار پارلیمانی ہال کے اندر عادی ہیں۔ اور پھر مرے پر سو دُرّے کے مصداق انہیں حلوہ پوری بھی کھانے کو نہیں ملا، جو دروغ بر گردنِ راوی، کباب کے ساتھ ساتھ انہیں عمومی پارلیمانی سیشن میں کھلایا جاتا ہے۔

خدا بھلا کرے اس ہنگامہ خیز پارلیمانی سیشن کا، کہ یہ خبر بھی دیگر خفیہ خبروں کی طرح، اور اس بند کمرے کی کارروائی کی طرح بھینی بھینی خوشبو بن کر پھیل گئی۔ ورنہ ہم یہی سمجھتے رہتے کہ شیر’مال‘ کھانے کا کام ہمارے قانون ساز، اپنی اپنی ذاتی کارسازی کے ہم راہ باہر باہر ہی کرتے ہیں، اور اس میں ہمہ وقت دل چسپی اور مصروفیت کے باعث قانون سازی کا وقت ہی نہیں بچتا۔ اگر کچھ وقت ملتا بھی ہے تو اسے ناقابل ہضم عدالتی فیصلوں کے خلاف زہر اگلنے میں خرچ کردیا جاتا ہے۔ اور ہماری آپ کی طرح ایک عام پاکستانی اپنی دال روٹی کے چکّر میں ایسا گھن چکر بنا رہتا ہے کہ وہ ان سیاسی تماشہ کاروں کی قلابازیوں کی جانب خاطر خواہ توجہ ہی نہیں دے پاتا، اورطلسم نظر بندی کا شکار ایک بچہ جمہورا ہی بنا رہتاہے۔ اور پیارے قارئین کرام، ہمیں بھی آپ کی طرح ہی یہ گمان ہورہا ہے کہ حلوہ، پوری اور کباب کی غیر موجودگی کی خبر کبابیوں نے پہلے ہی خادم اعلیٰ پنجاب کو لیک کردی ہوگی، اسی لیے تو انہوں نے اپنے گھر ہی میں لذیذ چٹنی ، پائے اورگرما گرم عوامی تندوری روٹی کھانے کو ترجیح دی، اور خالی پیٹ رہ کر پارلیمان میں دوسروں کی طرح اپنا خون ِ دل و جگرنہیں جلایا۔ حالانکہ کئی بااثر افراد کے بارے میں یہ خبر آئی کہ وہ ہال کے باہر جاجا کر ماچسیں جلا کر اپنی آگ ٹھنڈی کرتے رہے، اور آخر کار دیگر بھوکے پیاسے افراد کو اکیلا ہی چھوڑ کر گھر چلے گئے، تاکہ وہ یہ سوال بھی نہ پوچھ سکیں کہ ہمیں کچھ کھانے سے کیوں روکا جارہا ہے۔ اب کوئی ہی دن جاتا ہے کہ ہماری پارلیمان میں یہ تحریکِ استحقاق پیش ہونے کا امکان ہے، جس میں حلوہ پوری پیش نہ کیے جانے پر معدہ و شکم کے مجروح ہونے کی رپٹ درج کرادی جائے گی۔ بس ایک مسئلہ یہ عوامی رہا جاتا ہے، کہ پاکستانی اپنی عزّت کے مجروح ہونے کی رپٹ کہاں درج کرائیں!.

ابھی ہم ان قومی امور پر ہی غوروفکر کررہے تھے کہ اچانک اتوار 15 مئی 2011 کی صبح صبح یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے فرانسیسی سربراہ’ ڈومینیک اسٹراس کھان‘ نیویارک میں پکڑے گئے۔ حالانکہ انہیں تو پاکستانی قوم گھیرے میں لینا چاہتی ہے۔ موصوف باسٹھ برس کی عمر کے ہیں، اور سٹھیاچکے ہیں، اور شاید اسی امر کی بنیاد پر فرانسیسی صدارتی محل میں رہائش کے خواہش مند ہیں۔ وہ اپنی امیرہ بیوی اور آئی ایم ایف کے سرمایہ کے بل بوتہ پر ایک شاہی طرز زندگی گزارتے ہیں۔ جناب ہیں تو ایک سوشلسٹ اور بائیں بازو کے رہنما مگر تمام حرکتیں جاگیردارانہ، اور سرمایہ دارانہ ہیں۔ نیویارک کے ایک ہوٹل میں وہ ’شفّاف انداز‘ میں اپنے تمام ترجسمانی اور روحانی اثاثہ جات ایک 32برس کی جوان خادمہ کو دکھانے اور انہیں استعمال کرنے کی ناکام کوشش کی پاداش میں نیویارک ایئرپورٹ پر فرانسیسی ہوائی جہاز سے اس وقت اتار لیے گئے جب کہ وہ روانہ ہی ہونے والا تھا۔ بقول امریکی خادمہ کے انہوں نے اپنی سی تمام ترناکام کوششیں کرڈالی تھیں، تاہم 30 برس کا وقفہ کچھ کم نہیں ہوتا، اور اس جوان وقفہ کی بھرپور مزاحمت پر وہ اپنا موبائل فون اور دیگر ’ذاتی اشیا‘ گھبراہٹ میں چھوڑ چھاڑ کر ایئر پورٹ کی جانب ایسے سرپٹ دوڑپڑے کہ ان کی سیرت کے ساتھ ساتھ ان کی عمرءبزرگ کے بارے میں بھی شبہ ہونے لگا۔

اگر وہ جہاز اڑان بھرلیتا، تو پھر امریکی کمانڈوز کو ایک اور خفیہ آپریشن فرانس میں کرنا پڑتا ، تاکہ وہ اپنی ایک امریکن شہری کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے مجرم کو گرفتار کرکے اپنی جیلوں میں ڈال سکیں۔ لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کے سربراہ نے اسامہ کے خلاف ہونے والے آپریشن کی تفصیلات نہیں پڑھیں، ورنہ وہ یہ جان جاتے کہ حجاج بن یوسف کی طرح اپنے کسی بھی شہری کی جان و عزت کی خاطر امریکی کیا کچھ کرگزرنے کا عزم ِصمیم رکھتے ہیں، ا ور اسی لیے دنیا بھر کے تمام بدعنوان اور کمزور سیاسی و فوجی حکمرانوں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں اور بھوک اڑگئی ہے، کہ نہ جانے کس بات پر ناراض ہوکر امریکی کمانڈوز انہیں بھی اٹھالے جائیں، بہتر یہی ہے کہ ہر امریکی مطالبہ اور زیادتی پر آنکھیں اور زبان بند کیے پڑے رہو، اور جہاں تک ممکن ہو اپنا وقت بیرون ملک گزارلو، جہاں امریکیوں کے لیے کوئی کارروائی کرنا اتنا آسان نہیں، جتناکہ اپنے ہی ملک میں۔ حالانکہ اب پہلے کے مقابلہ میں ایک مضبوط اور توانا و سریع الحرکت میڈیا موجود ہے ، مگر اب حجاج بن یوسف بھی زندہ نہیں اور نہ ہی اب محمد بن قاسم جیسے سپہ سالار ہیں کہ وہ ان کی مدد کے لیے چیخ و پکار پر کان دھریں اوربحر و بر میں گھوڑے دوڑادیں ۔

حالانکہ کھان صاحب اپنے اس مبیّنہ جرم سے انکاری ہیں، مگر ہمارا خیال ہے کہ اس خبر سے کھان صاحب کی بیگم این سنکلیئر کے بعد جان و آن بچنے پر سب سے زیادہ جرمن خاتون چانسلر انجیلا مرکیل خوش ہوئی ہوں گی، جن سے ملاقات کے پروگرام سے کھان صاحب جرمنی کا عزم کیے ہوئے تھے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ چند برس پیشتر جناب جارج بش جونیئر، اس وقت کے صدر امریکہ، بھی سرعام انجیلا مرکیل کے کندھے پر پیچھے سے ہاتھ رکھے شوخیوں کے مُرتکب ہورہے تھے، جس پر انہیں فوری طور پر انجیلا مرکیل کی ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا پڑا تھا، تاہم وہ ایک صدر ہونے کے باعث ہمارے پاکستانی صدر کی طرح اس وقت استثنیٰ پاگئے ۔ کھان صاحب ایک عادی مجرم ہیں اور اس سے پہلے بھی اپنے ادارہ کی ایک اور حسینہ کے ساتھ اٹھ کھیلیوں پر بدنام ہوچکے ہیں۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ اٹلی کے صدر برلسکونی بھی اپنی اسی قسم کی عیّاشیوں کے لیے مشہور ہیں، چنانچہ شاید ڈومینیک اسٹراس کھان یہی منصوبہ بندی اور مشقءعشوہ طرازی کررہے ہوں، کیونکہ وہ جلد ہی فرانسیسی صدر کا انتخاب لڑنے کی تیاریوں میں بھی مصروف ہیں۔ اور قیاس یہ کہتا ہے کہ وہ اپنے سابق جنسی ومالی امور کے تجربات کا فائدہ اٹھا کراس امریکن خادمہ کو ایک موٹی رقم لے دے کر معاملہ طے کرنے کی ترغیب دیں گے، جیسا کہ وہ آئی ایم ایف کے خزانہ کی مدد سے کیا کرتے ہیں۔

یہاں یہ نکتہ ابھرتا ہے کہ 2007 سے آئی ایم ایف کے اس سربراہ نے جس رویہ کو رواج دیا، اس سے ان کے ادارہ کے دیگر افسران بھی مبرّاءنہ ہوں گے۔ چنانچہ اب یہ بھی سمجھ آرہا ہے کہ ہمارے محترم وزیر خزانہ کیوں آئی ایم ایف سے مذاکرات میں ناکامی کا سامنا کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ مشرقی حیا، پاکستانی اور اسلامی اقدار تو انہیں ان بدمعاش حضرات کی خاطرداری کرنے کی اجازت ہی نہیں دیتیں، اور ہماری معاشیات کا بیڑہ غرق ہوا جاتا ہے۔ امریکیوں نے تو کھان صاحب کو اس لیے بلا جھجک جیل کی سیر کرادی کہ خود انہیں آئی ایم ایف سے کچھ قرضہ لینا دینا نہیں ہوتا۔ اگر کھان صاحب ایسی ہی ناقابل بیان حرکتیں کسی غریب و فقیر ملک میں کرتے جو ان کے سامنے کشکول پھیلائے ہوئے رہتا ہو، تو کیا وہ انہیں اسی طرح پکڑ لیتا! پاکستان میں تو ہم اپنے ہاں کھلے عام جاسوسی، اور قتل عام کرنے والوں تک کو نہایت ہی عزّت و احترام سے خدا حافظ کہہ دیتے ہیں، کیونکہ ہم ان کے ملک کے سامنے اپنے لباس، ہتھیار، اور دال روٹی، اور حلوہ پوری، ہر چیز، حتیٰ کہ ’عزت‘ کے لیے بھی ہاتھ پھیلائے رہتے ہیں۔

تو کیا ہم عوام ،یہ قرارداد پیش کرسکتے ہیں کہ تمام پاکستانی سیاست دانوں کو حلوہ پوری کے بجائے صبح شام پاکستانی جیلوں میں پکنے والی جیسی عوامی دال روٹی کھلائی جائے، تاکہ ہم سب آئی ایم ایف، سی آئی اے، اور امریکی کمانڈوز جیسے بدمعاشوں سے اپنی عزّتیں بچا سکیں!! اس قرارداد پر آپ اپنا ووٹ دینے کے لیے ہمارا ’رائے فارم‘ استعمال کرنا نہ بھولیں۔ شکریہ۔
٭
جستجو: حکمت و دانش سے بھرپور تحریریں
جملہ حقوق مصنف اور جستجو میڈیا کے نام محفوظ
” حلوہ پوری اوردال روٹی“: اتوار، 15 مئی 2011
[email protected] - Justuju 002-2011
All Rights Reserved - (C) 2011 -- Justuju Publishers / Justuju Media
 
Last edited: