Geo removed Story About Bol TV from Internet Edition, But Print Edition Exposed

TONIC

Chief Minister (5k+ posts)
Re: جیو کی استادیاں ۔ اصل خبرغائب

Geo/Jang should be investigated by ISI/Army to check if this is true or not and if true they should take lethal action.

Jo Pakistan ka ghadar hai wooh maut ka huqdaar hai.
 

Sirphira

Minister (2k+ posts)
Re: جیو کی استادیاں ۔ اصل خبرغائب

جیو کی سٹوری جو جیو والو ں نے اخبار سے غائب کی۔

عدالت نے کاغذی میڈیا کمپنی کیخلاف تحقیقات کا حکم دیدیا
109173_l.jpg
اسلام آباد (صالح ظافر) عدالت نے حال ہی میں شروع کیے گئے ٹی وی چینل سے وابستہ ممکن سازشوں اور مبینہ بے ضابطگیوں اور اس کے مقامی اور غیر ملکی مفادات اور مالی معاملات کے حوالے سے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ مذکورہ ٹی وی چینل کے پاس اپنا پروجیکٹ شروع کرنے کیلئے دستیاب مالی وسائل کی کوئی وضاحت موجود نہیں ہے اور اس حصص میں زیادہ تر حصہ غیر ملکیوں کا ہے۔ عدالت نے یہ فیصلہ ایک پٹیشن کی سماعت کے بعد سنایا ہے ۔ اس پٹیشن میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ یہ کمپنی ایک با اثر تاجر سے حاصل کی گئی ہے جس کے راولپنڈی اور اسلام آباد میں وسیع تر مفادات موجود ہیں اور اس تاجر کے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے افراد سے قریبی تعلقات ہیں۔ اخبارات میں شایع کیے گئے اشتہارات اور سوشل میڈیا میں اس کمپنی نے بتایا ہے کہ اس کے 99/ فیصد شیئرز غیر ملکیوں کے پاس ہیں جبکہ لائسنس کیلئے دی جانے والی درخواست میں ایک دوسری کمپنی کا نام بھی دیا گیا ہے۔

یہ اس لئے کیا گیا ہے کیونکہ قانون کے مطابق غیر ملکی شیئر ہولڈرز کو پاکستان میں لائسنس نہیں مل سکتا اور یہ باتیں میڈیا پر بھی ہو رہی ہیں کہ لگتا ہے کہ انہیں بہت جلدی ہے اور اسی جلد بازی میں ان سے غلطی ہوگئی اور ان کی اس غلطی کے باعث کوئی بھی عدالت ان کے حق میں فیصلہ نہیں دے سکتی۔ سوشل میڈیا پر اس بات کا بھی ذکر سامنے آ رہا ہے کہ ان لوگوں نے طاقت کے مراکز کو استعمال کرکے لائسنس حاصل کرنے کی کوششیں بھی کی ہیں۔ پٹیشن میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ یہ نئی میڈیا کمپنی کاغذی حیثیت رکھتی ہے جس کے انتظامات اور معاملات پاکستانی ڈائریکٹرز چلا رہے ہیں جن میں ہر ایک کے پاس صرف ایک فیصد شیئرز ہیں جبکہ باقی شیئرز کے مالکان نامعلوم غیر ملکی افراد ہیں جن کا کوئی اتا پتہ موجود نہیں ہے۔ اس نئے ٹی وی چینل کی مرکزی اسپانسر آئی ٹی کمپنی کے مالی معاونین کا بھی علم نہیں، نہ کوئی بزنس ہے اور نہ کلائنٹ؛ جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اس معاملے میں کئی الزامات لگائے گئے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی بھی چیز عوام کے سامنے نہیں لائی گئی۔ یہ اپنے طرز کی منفرد کمپنی ہے جسے چلانے والے لوگ پاکستانی ہیں لیکن کمپنی کا منافع زیادہ شیئرز ہونے کی وجہ سے غیر ملکی لے جا تے ہیں۔ پٹیشن میں سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جن کا جائزہ نیب، وزارت داخلہ، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، سیکورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور پیمرا نے بھی نہیں لیا۔ فاضل عدالت نے متعلقہ اداروں سے کہا ہے کہ وہ پٹیشن میں بتائی گئی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کریں اور دو ہفتوں کے اندر مناسب کارروائی کریں۔ پٹیشن میں بتایا گیا ہے کہ پیمرا قوانین کے مطابق براڈکاسٹ لائسنس کے حصول کی خواہشمند کمپنی کے اسپانسرز اور شیئر ہولڈرز کی تفصیلی اسکروٹنی کی جاتی ہے تاکہ ان کی ساکھ اور ٹریک ریکارڈ کا پتہ چلایا جا سکے لیکن راولپنڈی سے حاصل کی گئی کمپنی کے نئے مالکان کے معاملے میں مبینہ طور پر کوئی اسکروٹنی نہیں کی گئی۔ قواعد کے مطابق یہ بھی لازمی امر ہے کہ مکمل بزنس پلان اور مالی تفصیلات بھی پیش کرنا ہوتی ہیں تاکہ پروجیکٹ کے حوالے سے کمپنی کی سنجیدگی کا اندازہ لگیا جا سکے لیکن یہاں بھی یہ تفصیلات جمع نہیں کرائی گئیں۔ نئے مالکان کے ٹریک ریکارڈ کا عالم یہ ہے کہ وہ ایک نام نہاد سافٹ ویئر کمپنی کے ڈائریکٹر ہیں جس میں ان کا شیئر صرف ایک فیصد ہے جبکہ باقی حصص نامعلوم غیر ملکیوں کے ہیں۔


یہ حقیقت اس دعوے سے بھی جڑی ہے کہ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے مقاصد انتہائی حب الوطنی پر مبنی ہیں اور وہ پاکستان کے عوام کی بہتری کیلئے اربوں ڈالرز کا سرمایہ پاکستان میں لگانا چاہتی ہے لیکن جو بات غیر واضح ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ سیٹ اپ، شیئرز اور منافع پاکستان سے باہر جا رہا ہے کیونکہ شیئرہولڈرز غیر ملکی ہیں۔ پیمرا قوانین کے مطابق کوئی بھی لائسنس ہولڈر کمپنی اتھارٹی کی اجازت کے بغیر اپنے شیئرز منتقل نہیں کرسکتی لیکن راولپنڈی کے تاجر کی جانب سے نئی آئی ٹی کمپنی کو دیئے گئے شیئرز میں پیمرا سے اجازت نہیں لی گئی۔ پٹیشن کے مطابق، راولپنڈی / اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تاجر کی اصل کمپنی نے پیمرا میں لائسنس پر نام کی تبدیلی کی درخواست دی اور بیک وقت خریداروں کے ڈائریکٹرز نے اصل مالک سے تمام شیئرز اور ٹی وی لائسنس خرید لیا۔ پیمرا نے متعلقہ پہلوؤں کی تحقیقات کیے بغیر چند ہی دنوں میں ان دونوں معاملات کی اجازت دیدی۔ بظاہر ٹی وی لائسنس خریدنے کیلئے فنڈز غیر ملکی شیئر ہولڈرز نے فراہم کیے لیکن دیگر ممالک کے قوانین کی طرح پیمرا کے قوانین کے مطابق غیر ملکی کمپنیاں پاکستان میں براڈ کاسٹ لائسنس حاصل نہیں کرسکتیں۔ کمپنی کے نئے مالکان نے وسیع تر رقبے (ایکڑوں پر) عمارت تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے، یہ دنیا کا سب سے بڑا شیشے کا اسٹرکچر ہوگا، اس اسٹرکچر کیلئے ہیلی پیڈ، سوئمنگ پول، ریستوراں، مساج پارلر ہوں گے جبکہ کمپنی اپنے ملازمین کو رولس رائس، بینٹلی اور مرسڈیز بینز جیسی گاڑیاں بھی فراہم کرے گی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کمپنی کا ابتدائی سرمایہ محض 50/ لاکھ روپے ہے۔ سوال یہ ہے کہ اربوں ڈالرز مالیت کی ان سہولیات کیلئے پیسے کہاں سے آئیں گے۔ اس کے علاوہ درخواست گزار نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ راولپنڈی / اسلام آباد کے اس تاجر کو لائسنس ملا لیکن اس کے پانچ سال کے بعد بھی اس کا ٹی وی چینل نشریات آن ایئر نہ کرسکتا تو ایسی صورت میں اس کا لائسنس منسوخ کیوں نہیں کیا گیا۔


یہ لائسنس اپنی معیاد کھو چکا ہے لہٰذا اسے فروخت کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی دوسری کمپنی، چاہے وہ پاکستانی ہو یا غیر ملکی، کو نیلام کیا جا سکتا ہے۔ اس حیران کن صورتحال میں جب پیمرا سے دو ہفتوں کے اندر ان الزامات کے حوالے سے جواب پیش کرنے کو کہا گیا ہے، وزارت داخلہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس نے نئے مالکان / شیئرہولڈرز کو سیکورٹی کلیئرنس جاری نہیں کیا اور پیمرا کی جانب سے بھی کلیئرنس دیئے جانے کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا لہٰذا اس کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔ وزارت داخلہ کے مطابق نئے مالکان نشریات نشر نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے پاس سیکورٹی کلیئرنس نہیں ہے۔ اس پورے معاملے میں سوشل میڈیا، سافٹ ویئر اور آئی ٹی کی صنعت کے اندرونی ذرائع اور صحافی برادری اپنی تشویش کے اظہار کیلئے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر کافی مواد سامنے آچکا ہے لیکن کئی جواب طلب سوالات بھی سامنے آچکے ہیں۔ کئی صحافی اور مبصرین سرمایہ کاروں کی نوعیت پر تبصرہ کر رہے ہیں اور سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا پاکستان میں حکومتی ڈھانچہ، سویلین اور نان سویلین، اس پورے معاملے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اس قصے میں ممبئی سے تعلق رکھنے والا ایک بدنام زمانہ بھارتی شہری اور پاکستان کا ایک طاقتور حلقے، جس نے کمپنی کی جانب سے میڈیا کی صنعت میں داخل ہونے کا اعلان کرنے سے قبل اس کمپنی کو کئی برسوں تک پریشان کیے رکھا، کا لنک بھی شامل ہے۔ الزامات یہ ہیں کہ کمپنی جس طرح کے لین دین میں ملوث ہے اس میں منی لانڈرنگ اور منی ٹرانسفرز بھی شامل ہیں۔

یہ بھی سوال پوچھا جا رہا ہے کہ اگر کمپنی اور اس کے ڈائریکٹرز کے ریٹرنز ناکافی ہیں تو یہ اپنے ملازمین کو پرتعیش سہولیات کیسے فراہم کرے گی۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وہ آئی ٹی اور سافٹ ویئر مینوفیکچرنگ کے شعبے میں دنیا کی صف اول کی کمپنی ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ ریونیو کماتی ہے۔ کمپنی نے تین شہداء کے ورثاء کو بلایا اور انہیں خراج عقیدت (ٹریبیوٹ) پیش کیا ہے۔ یہ بھی سوالات پوچھے جا رہے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کمپنی کے مالکان دعویٰ کرر ہے ہیں کہ انہیں وفاقی انٹیلی جنس ادارے سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر عہدیدار کی آشیرباد حاصل ہے؟ یہ عہدیدار کراچی میں بھی تعینات رہ چکا ہے۔ اسی دوران، اسلام آباد کے سفارتی حلقے بھی میڈیا کی صنعت سے جڑے اس مباحثے میں دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ امریکا، برطانیہ، بھارت، جرمنی اور فرانس سے تعلق رکھنے والے سفارتی حکام اس صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ دنیا کی بڑی آئی ٹی کمپنیاں جس میں کچھ معروف پاکستانی کمپنیاں بھی شامل ہیں، دنیا کے مشہور اسٹاک ایکسچینجوں، نیویارک اور ڈاؤ جانز وغیرہ، میں رجسٹرڈ ہیں اور یہ پبلک لمیٹڈ کمپنیاں ہیں تاہم مذکورہ نئی کمپنی کسی اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ نہیں ہے۔ کمپنی نے اپنی ویب سائٹ پر کئی ایوارڈ کے حصول کا دعویٰ کیا ہے لیکن ایوارڈ دینے والے کسی بھی ادارے کی جانب سے اس کمپنی کو ایوارڈ دینے کی نشاندہی نہیں کی۔ معروف ٹی وی اینکر حامد میر کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ ”ہمارے شعبے سے وابستہ کئی افراد کہتے ہیں کہ اس انٹرپرائز کے کئی لوگوں کا تعلق ایسے لوگوں سے ہے جنہوں نے ماضی میں اقتدار کے کھیل میں کردار ادا کیا ہے۔ یہ دیکھنا چاہئے کہ ان الزامات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ نہیں کہ اسپانسرز کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے ڈی ایچ اے اور دیگر اداروں کے ساتھ بھی خصوصی تعلقات ہیں، جہاں یہ الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے کہ زمین اور جائیداد بھی مکمل طور پر قانونی نہیں ہیں یا پھر بے مثال انداز سے غیر معمولی مراعات دی گئی ہیں۔“ قومی روزنامے کے ایک سابق مدیر اور زیرک صحافی اور میزبان ابصار عالم کا کہنا ہے کہ ”کئی صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ اقتدار کے ان نئے اور پرانے کھلاڑی شاید نئے میڈیا ادارے میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق اگر نو منتخب حکومت نے چند حلقوں کی خواہشات کو نظرانداز کیا اور ایسی پالیسیاں اختیار کیں جو ان کھلاڑیوں کی خواہشات کے مطابق نہیں جن میں دفاع اور خارجہ امور شامل ہیں، تو یہ نیا ادارہ عوامی جذبات اور خبروں کی کوریج کے معاملے میں ”توازن“ لا سکتا ہے۔ ایک اور نامور مبصر اور اینکر سلیم صافی کی رائے ہے کہ جنرل پرویز مشرف اور آرٹیکل نمبر 6/ کے حوالے سے آنے والی خبروں کے متعلق کچھ اسٹیک ہولڈرز میں شاید بے چینی پائی جاتی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ وقت ضروری ہے کہ اب پاکستان کو نیا ویژن دیا جائے کیونکہ ان کی رائے کے مطابق پاکستان کی سیاست کمزور ہوچکی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے معاملات صاف ستھرے رہیں اور اس طرح نیا میڈیا ادارہ قائم کرکے انہیں اپنی رائے سامنے لانے کا موقع ملے گا۔

نامور کالم نگار عرفان صدیقی، جو ملک کے سابق صدر کے پریس سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ ” کچھ لوگوں نے مجھ سے رابطہ کیا تھا کہ نئے آپشنز پر غور کروں لیکن کچھ سوالات کے بعد مجھے یہ پیشکش عجیب لگی اور میں نے انکار کردیا۔“ پاکستان کی سرکردی آئی ٹی کمپنیوں میں سے ایک ٹی آر جی کے سینئر مینیجر سے جب نئے پروجیکٹ کے مالکان کے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا، ”آئی ٹی کے شعبے میں اگر سارے نہیں تو بیشتر کھلاڑی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ لوگ جعلی ڈگریوں، فحش ویب سائٹس اور ٹرم پیپرز یا پھر ایسے کاروبار سے وابستہ ہیں جو دنیا کے دیگر حصوں میں غیر قانونی تصور کیے جاتے ہیں۔ ان سافٹ ویئر ہاؤسز کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے لوکل مارکیٹ میں نئے مالکان کو کسی بھی مسابقت میں نہیں دیکھا اور عجیب بات یہ ہے کہ انہوں نے بین الاقوامی سطح پر بھی کسی آئی ٹی پروجیکٹ کی بولی میں حصہ نہیں لیا۔“ نئے پروجیکٹ کے مالکان، جو تقریباً سارے غیر ملکی ہیں، کا دعویٰ ہے کہ ان کا مشن دنیا کی اول نمبر کی کمپنی بننا ہے۔ سوشل میڈیا پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ ایسا کیسے ممکن ہے لیکن بلند بانگ دعووں کے سوائے کوئی منطقی جواب موجود نہیں ہے۔ ٹی وی چینلوں کی ریٹنگ کا جائزہ لینے والی تھرڈ پارٹی ریٹنگ ایجنسی میڈیا لاجک کے سینئر انتظامیہ کی نمائندگی کرنے والے ایک شخص کا کہنا ہے کہ ” مارکیٹ میں آمدنی اور منافع کے حوالے سے جب سوال پوچھا گیا تو نئی کمپنی کے ترجمان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ جب یہ سوال پوچھا گیا کہ کمپنی کے کسی بڑے کلائنٹ کا نام بتائیں تو ترجمان کے پاس اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں تھا۔“ ایک بڑی سافٹ ویئر کمپنی کے مالک کا کہنا ہے کہ ”ہمیں نہیں معلوم یہ لوگ کیا کرتے ہیں، ان کے پاس پیشہ ورانہ صلاحیت کتنی ہے اور آیا یہ عمومی نوعیت کے کام کے حوالے سے قابل انتقال ہے یا نہیں۔“ ایک معروف تنظیم کار (انٹرپرینئر) اور ایم آئی ٹی کے پی ایچ ڈی مسٹر سیف کہتے ہیں، ”مجھے اس صنعت کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ پاکستان میں کوئی خاص سافٹ ویئر یا پھر آئی ٹی سے وابستہ خدمات نہیں بیچتے۔ کسی نے بھی انہیں بین الاقوامی سطح کے پروجیکٹس میں بولی لگائے جانے کے عمل میں شرکت کرتے بھی نہیں دیکھا۔“ پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن برائے آئی ٹی اور آئی ٹی ای ایس (پاشا) پر مذکورہ کمپنی کی جانب سے کئی مرتبہ ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا ہے کیونکہ مبینہ طور پر پاشا کی جانب سے مذکورہ کمپنی کی سرگرمیوں کے متعلق تحقیقات کرائی گئی اور آئی ٹی کمپنیوں کے بڑے تجارتی ادارے سے رکنیت ختم کرانے کی کوشش کی گئی۔ جب کچھ سوالوں کا جواب حاصل کرنے کیلئے رابطہ کیا گیا تو صدر نے شائستگی کے ساتھ تبصرے سے انکار کردیا۔ تحقیقاتی اداروں کی ابتدائی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ کمپنی نے جن کمپنیوں کی جانب سے دیئے جانے والے ایوارڈز کا ذکر کیا ہے ان کمپنیوں کی ویب سائٹس پر ان دعووں کی کوئی تصدیق نہیں ہوسکی۔ نئے ٹی وی پروجیکٹ کے غیر ملکی مالکان بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں کہ پاکستان کے آئی ٹی کے شعبے کی برآمدات میں زبردست اضافہ کریں گے اور تجارت میں اربوں ڈالرز کا اضافہ کریں گے اور چند ہی برسوں میں پاکستان میں ہر ایک کیلئے ”مفت“ تعلیم اور ”سب کیلئے“ انصاف فراہم کریں گے۔ لیکن کیسے! اس کا بات کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے۔ یہ سب دعوے ان کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ مختلف ملکوں میں افرادی قوت کو کھپائیں گے، گلاس بلڈنگ بنائیں گے، جہاں بڑا ہیلی پیڈ ہوگا، اسکائی واک ویز، ورلڈ کلاس اسپا، مونو ریل سسٹم، ویلیٹ کار پارکنگ سروس، مساج پارلر، ہیئر کٹنگ سلون، سینیما گھر، باؤلنگ ایلی، کئی ریستوراں اور دیگر سہولتیں شامل ہوں گی۔ کمپنی نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اولمپک سائز کے پول اور اپنے ملازمین کیلئے رولس رائس، بینٹلی اومرسڈیز جیسی لگژری کاریں فراہم کرے گی جبکہ ان کے اہل خانہ کیلئے گریجوئٹی، پراویڈنٹ فنڈ اور والدین اور رشتہ داروں کو مفت طبی کی سہولت دی جائے گی۔ اس طرح کی سہولتوں کا پاکستان میں پہلے کبھی ذکر نہیں سنا گیا اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسی سہولتیں نہیں دیتیں۔

خطے کے کسی دوسرے ملک میں بھی اس طرح کی سہولتوں کا ذکر نہیں سنا گیا۔ جب اس نمائندے نے پاکستان بزنس کونسل سے رابطہ کیا تو ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہمارے ممبران کو اس طرح کی سہولتیں نہیں دی گئیں، انٹرنیشنل مارکیٹس میں اس طرح کی کوئی فزیبلٹی بھی نہیں ہے؛ پاکستان کی بات تو رہنے دیں۔ جب بھرتی کے عمل کے دوران ممکنہ امیدوار ان سے پوچھتے ہیں کہ وہ ان سہولتوں کے اخراجات کس طرح برداشت کرسکتے ہیں جبکہ صورتحال یہ ہے کہ میڈیا کی صنعت میں اشتہارات کے شعبے کو جی ڈی پی کی وجہ سے نقصانات کا سامنا ہے؛ تو ترجمان یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم یہ سب کچھ ملک کیلئے کر رہے ہیں، اپنے فائدے کیلئے نہیں۔ لیکن جب اس دعوے کا تقابلی جائزہ لیا جاتا ہے کہ کمپنی کے زیادہ تر شیئرز غیر ملکیوں کے پاس ہیں اور سارا منافع پاکستان سے باہر جائے گا تو اس معاملے پر کوئی جواب نہیں دیا جاتا۔

وزارت اطلاعات، وزارت خزانہ اور وزارت داخلہ نے اس سلسلے میں کمپنی کے متعلق تحقیقات شروع کردی ہیں تاکہ یہ پتہ لگایا جا سکے کہ کمپنی کی نوعیت کیا ہے اور اس کے اسپانسرز اور ٹیکس کی صورتحال کیا ہے۔ عدالت کی جانب سے پٹیشن کی ایک نقل پیمرا کو بھی بھجوائی گئی ہے۔ ہیومن رائٹس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے نامور وکیل اظہر صدیق نے اس پٹیشن میں دلائل دیئے ہیں۔ کمپنی کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کمپنی کے بارے میں دیا جانے والا تاثر لغو اور بے بنیاد ہے۔ ہم یہاں بزنس کرنا چاہتے ہیں اور ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر کیا جانے والا پروپیگنڈہ بے بنیاد ہے۔​

http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=109173
 

Khansaber

Senator (1k+ posts)
Re: جیو کی استادیاں ۔ اصل خبرغائب

I never thought this way , but they are ....

PRO WAR CHANNEL and frightening Pakis about How invincible america is.No one wants war with`em.Agenda is Peace with`em.

Nam hai GEO AUR JEENAY DO but
in Real does propaganda to Kill People -ASAD Umar exposed them like no one in kamran show .


Army wants peace ,APC which `d all Elected political parties want peace then WHO THE HELL GEO IS .
 

Back
Top