[h=2]friday, december 23, 2011[/h][h=3]نواز شریف کے دشمن ۔ چوہدری نثار، مشاہداللہ اور عباسی [/h]
سعودی عرب سے واپسی کے بعد نواز شریف کے سیاست کا اگر جائزہ لیا جائے تو آپ کو کمپرومائیز کے سیاست کے سواکچھ نظر نہیں آئے گا۔ سب سے پہلے تو انھوں نے اے پی ڈی ایم کے ساتھ کیئے ہوئے وعدے کہ مشرف کے سائے تلے الیکشن میں حصہ نہیں لینگے پر کمپرومائیز کرکے مشرف کے زیر سایہ الیکشن میں حصہ لیا۔ اس کے بعد زرداری حکومت میں شامل ہوکر ان کے وزیروں نے مشرف سے حلف لیا۔ اس کے بعد ق لیگ کے پنجاب اسمبلی کے ممبران کو ساتھ ملا کر حکومت قائم رکھی اور اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کی۔
نواز شریف شاید یہ بھول گئے تھے کہ اس آزاد میڈیا کے ہوتے ہوئے کوئی دوغلی پالیسی نہیں چھپائی جاسکتی۔ نواز شریف کے اسی بھول بن کا نتیجہ ہے کہ آج جاوید ہاشمی جیسے انسان جو کہ مسلم لیگ ن کا روح رواں تھا کو بھی عمران خان کے پاس جانا پڑ رہا ہے۔ نواز شریف آج جن لوگوں کے نرغے میں ہے انھوں نے نواز شریف کو تقریباً انجام تک پہنچا دیا ہے۔
سب سے پہلے چوہدری نثار کو لے لیتے ہیں۔ چوہدری نثار وہی شخص ہے جس نے اس اسمبلی کے پہلے ہی اجلاس میں تقریباً سب اپوزیشن پارٹیوں کے خلاف اتنی سخت زبان استعمال کی کہ انھیں ہمیشہ کا دشمن بنا دیا۔ چوہدری نثارکے اسی تقریر کا نتیجہ تھا کہ جب مسلم لیگ ن اپوزیشن بینچوں پر منتقل ہوئی تو اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے لوگوں نے ان کا ساتھ دینے کےبجائے حکومت میں شمولیت کو ترجیح دی۔
لاہور جلسے کے بعد مسلم لیگ ن کو حقیقت کا ادراک کرکے عمران خان کے ساتھ بیٹھ کر اختلافات دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیئ تھی اور دونوں ملکر کرپٹ حکومت کو ہٹا کر پاکستان کو ترقی کے راہ پر گامزن کرنے کیلئے مشترکہ ایجنڈا لاتی۔ لیکن نواز شریف کے منہ زور گھوڑوں نے عمران خان کے خلاف نہایت نازیباں زبان استعمال کرکے نواز شریف کو عمران خان سے مزید دور کردیا۔ افسوس کہ مسلم لیگ کے راہنما ابھی تک یہ نہ سجھ سکی ہے کہ یہ وہ دور نہیں کہ کسی کے ذاتی کردار پر کیچڑ اچھال کر آپ عوام کو گمراہ نہیں کرسکتے ۔ اب عوام کو سب کچھ سمجھ میں آجاتا ہے کہ کون ایشو اور کون ذاتیات کی سیاست کررہا ہے۔
چوہدری نثار، مشاہد اللہ ، رانا ثناء اللہ اور عباسی جیسے لوگوں کے نرغے سے اگر نواز شریف نے اپنے آپ کو آزاد نہ کیا تو وہ دن دور نہیں جب مسلم لیگ ن قصہ ماضی بن جائیگی۔
سعودی عرب سے واپسی کے بعد نواز شریف کے سیاست کا اگر جائزہ لیا جائے تو آپ کو کمپرومائیز کے سیاست کے سواکچھ نظر نہیں آئے گا۔ سب سے پہلے تو انھوں نے اے پی ڈی ایم کے ساتھ کیئے ہوئے وعدے کہ مشرف کے سائے تلے الیکشن میں حصہ نہیں لینگے پر کمپرومائیز کرکے مشرف کے زیر سایہ الیکشن میں حصہ لیا۔ اس کے بعد زرداری حکومت میں شامل ہوکر ان کے وزیروں نے مشرف سے حلف لیا۔ اس کے بعد ق لیگ کے پنجاب اسمبلی کے ممبران کو ساتھ ملا کر حکومت قائم رکھی اور اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کی۔
نواز شریف شاید یہ بھول گئے تھے کہ اس آزاد میڈیا کے ہوتے ہوئے کوئی دوغلی پالیسی نہیں چھپائی جاسکتی۔ نواز شریف کے اسی بھول بن کا نتیجہ ہے کہ آج جاوید ہاشمی جیسے انسان جو کہ مسلم لیگ ن کا روح رواں تھا کو بھی عمران خان کے پاس جانا پڑ رہا ہے۔ نواز شریف آج جن لوگوں کے نرغے میں ہے انھوں نے نواز شریف کو تقریباً انجام تک پہنچا دیا ہے۔
سب سے پہلے چوہدری نثار کو لے لیتے ہیں۔ چوہدری نثار وہی شخص ہے جس نے اس اسمبلی کے پہلے ہی اجلاس میں تقریباً سب اپوزیشن پارٹیوں کے خلاف اتنی سخت زبان استعمال کی کہ انھیں ہمیشہ کا دشمن بنا دیا۔ چوہدری نثارکے اسی تقریر کا نتیجہ تھا کہ جب مسلم لیگ ن اپوزیشن بینچوں پر منتقل ہوئی تو اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے لوگوں نے ان کا ساتھ دینے کےبجائے حکومت میں شمولیت کو ترجیح دی۔
لاہور جلسے کے بعد مسلم لیگ ن کو حقیقت کا ادراک کرکے عمران خان کے ساتھ بیٹھ کر اختلافات دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیئ تھی اور دونوں ملکر کرپٹ حکومت کو ہٹا کر پاکستان کو ترقی کے راہ پر گامزن کرنے کیلئے مشترکہ ایجنڈا لاتی۔ لیکن نواز شریف کے منہ زور گھوڑوں نے عمران خان کے خلاف نہایت نازیباں زبان استعمال کرکے نواز شریف کو عمران خان سے مزید دور کردیا۔ افسوس کہ مسلم لیگ کے راہنما ابھی تک یہ نہ سجھ سکی ہے کہ یہ وہ دور نہیں کہ کسی کے ذاتی کردار پر کیچڑ اچھال کر آپ عوام کو گمراہ نہیں کرسکتے ۔ اب عوام کو سب کچھ سمجھ میں آجاتا ہے کہ کون ایشو اور کون ذاتیات کی سیاست کررہا ہے۔
چوہدری نثار، مشاہد اللہ ، رانا ثناء اللہ اور عباسی جیسے لوگوں کے نرغے سے اگر نواز شریف نے اپنے آپ کو آزاد نہ کیا تو وہ دن دور نہیں جب مسلم لیگ ن قصہ ماضی بن جائیگی۔