BuTurabi
Chief Minister (5k+ posts)
ویسے بُو ترابی پاہی اتنی اعلی ظرفی کی آپ سے ہر گز امید نا تھی
خدا را اپنی توانائیوں کو تابع نفس کرتے ہوئے[HI] لفظ سلگانے[/HI] کے بجائے محبت اور خشبو مہکانے میں صرف کیجیے چیلنج وہی ہوتا ہے جو مشکل ہو
بندہ تو درخواست کر سکتا ہے وہ کردی
پینڈو بھائی! آپ میرے الفاظ کی لو میں چھُپے اُس کرب کو سمجھیں جب ہمارے شہروں، گلیوں، بازاروں، امام بارگاہوں، مسجدوں میں دھماکے کیئے جاتے ہیں اور کھُلم کھُلا یہ کہہ کر اُسکی ذمہ داری قبول کی جاتی ہے کہ ڈرون حملوں کا بدلہ لیا جارہا ہے۔ میرا بہت سیدھا سا سوال ہے کیا ڈرونز سخی سرور کے مزار سے اُڑتے تھے،امام بارگاہ سے، داتا دربار سے، پشاور کی کِسی مسجد سے اُڑتے تھے یا لاہور کی مارکیٹ سے۔
نجانے اِن مسجدوں، بازاروں میں اِن ڈرونز حملوں کو غلط کہنے والے اِن مجاہدین کے کِتنے ہمنوا بھی مارے گئے اور ہزاروں بے گُناہ اِنسان بِلا تفریقِ مذہب و نسل و فِرقہ، موت کا نشانہ بنے، جو کھربوں کا نُقصان ہوا اِسکے علاوہ ہے۔ نتیجتاً مُشرفوں اور زرداریوں کو بھُگتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کِس جُرم میں؟
یہ لوگ اگر امریکہ اور برطانیہ جا کر دہشت گردی کر سکتے ہیں تو اپنے مُلکوں میں کیوں واپس نہیں گئے جہاں اِنکی مرغوب غذا بکثرت دستیاب ہے، اڈے ہیں اور بیڑے بھی۔ یہ کیسی مہمان نوازی ہے جو ہمارے بچوں کو چاٹ رہی ہے؟
ہم ہمیشہ کیوں اِن دہشت گردوں کو گلوریفائی کرتے ہیں ؟
کبھی اُس ماں کا کیوں نہیں سوچتے جِسکا ہنستا بھاگتا پھول سا بچہ خون میں غلطاں بازار سے ایک پلاسٹک بیگ میں واپس لایا گیا، چہرہ سلامت نہ ہاتھ ۔ اُس بہن کا کیوں خیال نہیں آتا ہمیں جِس کا کڑیل جوان بھائی بے وجہ اِس وحشت کی نظر ہوا اور بوسہ دینے کو اُسکی پیشانی تھی نہ آنکھیں، لاش کی جگہ گوشت کا ڈھیر تھا۔ اُس بیوہ کا درد کیوں ہمارے سینے میں نہیں اُٹھتا جو چار بچے اُٹھائے تنگدستی اور شدتِ غُربت کے باعث گلیوں میں آن کھڑی ہوئی اور پہاڑ ایسی زِندگی سامنے ہے۔
پینڈو بھائی! دو نسلیں اِس آگ کی بھینٹ چڑھ چُکی حاصل وصول کیا؟
امریکہ جو کبھی اِس خطے میں آیا تک نہ تھا ہماری شہہ رگ پر بیٹھا ہے۔ مُلک کے طوُل و عرض میں بھوک ننگا کھیلتی ہے۔ اِسقدر بدنام ہیں کہ ائیپورٹس پر ہماری عورتوں کی شرمگاہوں کی تلاشیاں لی جاتی ہیں مردوں کو الگ کھڑا کر کے کُتے چھوڑے جاتے ہیں۔ یورپ میں باپردہ عورتوں کے چہروں سے نقاب نوچے جا چُکے باقیوں کی باری ہے۔
خُدارا اِن لوگوں کو ہیرو بنا کر نہ پیش کریں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مُجھے نہیں معلوم آپ حالیہ تاریخ سے کِسقدر واقف ہیں لیکن یاد کیلجئے جِنہوں نے ہمارے جوانوں کو تربیت دے کر دوسرے مُلکوں بھیجا اُنکے اپنے بچے، ہارون اختر، اعجازالحق اور عبدللہ گُل بنے ۔ ۔ ۔ ۔
ہم کِسقدر دوغلے ہیں کہ اپنے لیئے یورپ پسند کریں اور اپنے بھائیوں کیلئے افغانستان کی گھاٹیاں۔ اپنے لیئے آکسفورڈ کا پڑھا عمران خان اور اُنکے لیئے مُلا عُمر۔ اپنے بیٹے بیٹیوں کیلئے کالجز یونیورسٹیاں اور اُنکے لیئے برباد سکول۔ اپنے شہر آراستہ پیراستہ اور اُنکے لیئے بارودی سرنگوں سے اٹی گلیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کاش ہم انٹر نیٹ والے قلمی مُجاہد اپنے بیٹے بیٹیوں کو بھی اُن حالوں میں دیکھنا پسند کریں جِن میں نادار افغانیوں کے سُرخ سفید نگینے رُلتے ہیں۔
لللہ پرایا گھر جلا کر آگ تاپنے کی روایت کا اِنکار کریں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک طوفان ہے خیالات کا جو تھمنے کا نام نہیں لیتا مگر اِنہی گُذارشات کو کافی جانیں۔ تشکر
نجانے اِن مسجدوں، بازاروں میں اِن ڈرونز حملوں کو غلط کہنے والے اِن مجاہدین کے کِتنے ہمنوا بھی مارے گئے اور ہزاروں بے گُناہ اِنسان بِلا تفریقِ مذہب و نسل و فِرقہ، موت کا نشانہ بنے، جو کھربوں کا نُقصان ہوا اِسکے علاوہ ہے۔ نتیجتاً مُشرفوں اور زرداریوں کو بھُگتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کِس جُرم میں؟
یہ لوگ اگر امریکہ اور برطانیہ جا کر دہشت گردی کر سکتے ہیں تو اپنے مُلکوں میں کیوں واپس نہیں گئے جہاں اِنکی مرغوب غذا بکثرت دستیاب ہے، اڈے ہیں اور بیڑے بھی۔ یہ کیسی مہمان نوازی ہے جو ہمارے بچوں کو چاٹ رہی ہے؟
ہم ہمیشہ کیوں اِن دہشت گردوں کو گلوریفائی کرتے ہیں ؟
کبھی اُس ماں کا کیوں نہیں سوچتے جِسکا ہنستا بھاگتا پھول سا بچہ خون میں غلطاں بازار سے ایک پلاسٹک بیگ میں واپس لایا گیا، چہرہ سلامت نہ ہاتھ ۔ اُس بہن کا کیوں خیال نہیں آتا ہمیں جِس کا کڑیل جوان بھائی بے وجہ اِس وحشت کی نظر ہوا اور بوسہ دینے کو اُسکی پیشانی تھی نہ آنکھیں، لاش کی جگہ گوشت کا ڈھیر تھا۔ اُس بیوہ کا درد کیوں ہمارے سینے میں نہیں اُٹھتا جو چار بچے اُٹھائے تنگدستی اور شدتِ غُربت کے باعث گلیوں میں آن کھڑی ہوئی اور پہاڑ ایسی زِندگی سامنے ہے۔
پینڈو بھائی! دو نسلیں اِس آگ کی بھینٹ چڑھ چُکی حاصل وصول کیا؟
امریکہ جو کبھی اِس خطے میں آیا تک نہ تھا ہماری شہہ رگ پر بیٹھا ہے۔ مُلک کے طوُل و عرض میں بھوک ننگا کھیلتی ہے۔ اِسقدر بدنام ہیں کہ ائیپورٹس پر ہماری عورتوں کی شرمگاہوں کی تلاشیاں لی جاتی ہیں مردوں کو الگ کھڑا کر کے کُتے چھوڑے جاتے ہیں۔ یورپ میں باپردہ عورتوں کے چہروں سے نقاب نوچے جا چُکے باقیوں کی باری ہے۔
خُدارا اِن لوگوں کو ہیرو بنا کر نہ پیش کریں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مُجھے نہیں معلوم آپ حالیہ تاریخ سے کِسقدر واقف ہیں لیکن یاد کیلجئے جِنہوں نے ہمارے جوانوں کو تربیت دے کر دوسرے مُلکوں بھیجا اُنکے اپنے بچے، ہارون اختر، اعجازالحق اور عبدللہ گُل بنے ۔ ۔ ۔ ۔
ہم کِسقدر دوغلے ہیں کہ اپنے لیئے یورپ پسند کریں اور اپنے بھائیوں کیلئے افغانستان کی گھاٹیاں۔ اپنے لیئے آکسفورڈ کا پڑھا عمران خان اور اُنکے لیئے مُلا عُمر۔ اپنے بیٹے بیٹیوں کیلئے کالجز یونیورسٹیاں اور اُنکے لیئے برباد سکول۔ اپنے شہر آراستہ پیراستہ اور اُنکے لیئے بارودی سرنگوں سے اٹی گلیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کاش ہم انٹر نیٹ والے قلمی مُجاہد اپنے بیٹے بیٹیوں کو بھی اُن حالوں میں دیکھنا پسند کریں جِن میں نادار افغانیوں کے سُرخ سفید نگینے رُلتے ہیں۔
لللہ پرایا گھر جلا کر آگ تاپنے کی روایت کا اِنکار کریں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک طوفان ہے خیالات کا جو تھمنے کا نام نہیں لیتا مگر اِنہی گُذارشات کو کافی جانیں۔ تشکر
Last edited: