begubaba

Voter (50+ posts)
Re: مُنافع کا سودا

Subhan Allah, Masha Allah,
Allah Taala ham sab ko bhi Akhirat ki fikar ki tofeeq naseeb farmae. Amin
 

babadeena

Minister (2k+ posts)
Re: مُنافع کا سودا

Mr. Baig, apply this story in present day life. Suppose the same problem is now,
do you guarantee that one who will leave his tree for the one who is persistent
to straight his wall, will get what you say. What your objective and vision to
narrate the olden stories then give it applicability. The one with tree in this
age if leaves tree will get reward in Hereafter. Your cut n paste without any
logic?
 

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
Re: مُنافع کا سودا

Mr. Baig, apply this story in present day life. Suppose the same problem is now,
do you guarantee that one who will leave his tree for the one who is persistent
to straight his wall, will get what you say. What your objective and vision to
narrate the olden stories then give it applicability. The one with tree in this
age if leaves tree will get reward in Hereafter. Your cut n paste without any
logic?

بھائی دین کبھی پرانا نہیں ہوتا
جو بات کل صحیح اور اچھی تھیں وہ آج بھی صحیح اور اچھی ہیں
آج ہم نے اپنی ترجیحات تبدیل کرلی ہیں
ہم نے دین کو پیچھے ڈال دیا ہے اور دنیا میں گم ہو گئے ہیں
حرص دنیا میں اب دین کی باتیں بری اور ناممکن لگتی ہیں
مگر اصل کامیابی اور نجات دین کو اپنانے میں ہی ہے
یہ دنیا تو عارضی ہے جو کسی وقت بھی ختم ہو جائے گی
انسان کے لیے سیکھنے کی عمر کبھی ختم نہیں ہوتی
جب بھی اچھی بات پڑھیں اسے ضرور اپنا لیں
خود بھی عمل کریں اور دوسروں کو بھی نصیحت کریں
الله تعالی ہم سب کو صحیح دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
 

lotaa

Minister (2k+ posts)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مد&#1

عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : فَسَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُولُ لِحَسَّانَ : إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ لَا يَزَالُ يُؤَيِدُکَ مَا نَافَحْتَ عَنِ اﷲِ وَرَسُوْلِهِ، وَقَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، يَقُوْلُ : هَجَاهُمْ حَسَّانُ فَشَفَي وَاشْتَفَي. قَالَ حَسَّانُ :

هَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ عَنْهُ
وَعِنْدَ اﷲِ فِي ذَاکَ الْجَزَاءُ

هَجَوْتَ مُحمَّدً بَرًّا حَنِيْفًا
رَسُوْلَ اﷲِ شِيْمَتُهُ الْوَفَاءُ

فَإِنَّ أَبِي وَ وَالِدَة وَعِرْضِي
لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ وَاللَّفْظُ لَهُ.
الحديث رقم 56 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : من أحب أن لا يسب نسبه، 3 / 1299، الرقم : 3338، وفي کتاب : المغازي، باب : حديث الإفک، 4 / 1523، الرقم : 3914، وفي کتاب : الأدب، باب : هجاء المشرکين، 5 / 2278، الرقم : 5798، ومسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل حسان بن ثابت رضي الله عنه، 4 / 1934 - 1935، الرقم : 2489 - 2490، وابن حبان في الصحيح، 13 / 103، الرقم : 5787، وأبويعلي في المسند، 7 / 341، الرقم : 4377، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 273، الرقم : 26021، والحاکم في المستدرک، 3 / 555، الرقم : 6063، والبيهقي في السنن الکبري، 10 / 238، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 38، الرقم : 3582، والبغوي في شرح السنة، 12 / 377، الرقم : 3408.
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا : (اے حسان) جب تک تم اﷲ عزوجل اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ان کا دفاع کرتے رہو گے روح القدس (جبرائیل علیہ السلام) تمہاری تائید کرتے رہیں گے، نیز حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ حسان نے کفارِ قریش کی ہجو کرکے مسلمانوں کو شفا دی (یعنی ان کا دل ٹھنڈا کر دیا) اور اپنے آپ کو شفا دی (یعنی اپنا دل ٹھنڈا کیا) حضرت حسان نے (کفار کی ہجو میں) کہا :
تم نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجو کی، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے جواب دیا ہے اور اس کی اصل جزا اﷲ عزوجل ہی کے پاس ہے۔
تم نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجو کی، جو نیک اور ادیانِ باطلہ سے اعراض کرنے والے ہیں، وہ اﷲ عزوجل کے (سچے) رسول ہیں اور ان کی خصلت وفا کرنا ہے۔ بلا شبہ میرا باپ، میرے اجداد اور میری عزت (ہمارا سب کچھ)، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و ناموس کے دفاع کے لئے تمہارے خلاف ڈھال ہیں۔ عَنْ عُرْوَةَ رضي الله عنه قَالَ : کَانَتْ عَائِشَةُ رضي اﷲ عنها تَکْرَهُ أَنْ يُّسَبَّ عِنْدَهَا حَسَّانُ وَتَقُوْلُ : فَإِنَّهُ قَالَ :

فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَة وَعِرْضِي
لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاءُ

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 57 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : حديث الإفک، 4 / 1518، الرقم : 3910، ومسلم في الصحيح، کتاب : التوبة، باب : في حديث الإفک وقبول توبة القاذف، 4 / 2137، الرقم : 2770، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 296، الرقم : 8931، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 197، وأبويعلي في المسند، 8 / 341، الرقم : 4933، والحاکم في المستدرک، 3 / 555، الرقم : 6060.
حضرت عروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا اس بات کو (سخت) ناپسند فرماتی تھیں کہ ان کے سامنے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا جائے (حضرت حسان بھی ان پر تہمت لگانے والوں میں شامل تھے) فرماتی تھیں (انہیں برا بھلا مت کہو) انہوں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں) یہ نعت پڑھی ہے : بلاشبہ میرا باپ، میرے اجداد اور میری عزت (ہمارا سب کچھ)، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و ناموس کے دفاع کے لئے تمہارے خلاف ڈھال ہیں۔
عَنِ الْبَرَاءِ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم لِحَسَّانَ : اهْجُهُمْ أَوْهَاجِهِمْ وَجِبْرِيْلُ مَعَکَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

وفي رواية البخاري : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : يَوْمَ قُرَيْظَةَ لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضي الله عنه : اهْجُ الْمُشْرِکِيْنَ فَإِنَّ جِبْرِيْلَ مَعَکَ.
الحديث رقم 59 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : بدء الخلق، باب : ذکر الملائکة، 3 / 1176، الرقم : 3041، وفي کتاب : المغازي، باب : مرجع النبي صلي الله عليه وآله وسلم من الأحزاب ومخرجه إلي بني قريظة، 4 / 1512، الرقم : 3897، وفي کتاب : الأدب، باب : هجاء المشرکين، 5 / 2279، الرقم : 5801، ومسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة رضي الله عنهم، باب : فضائل حسان بن ثابت رضي الله عنه، 4 / 1933، الرقم : 2486، والنسائي في السنن الکبري، 3 / 493، الرقم : 6024، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 302، والبيهقي في السنن الکبري، 10 / 237، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 298، والطبراني في المعجم الصغير، 1 / 90، الرقم : 119 وفي المعجم الأوسط، 2 / 49، الرقم : 1209، 3 / 268، الرقم : 3108، وفي المعجم الکبير، 4 / 41، الرقم : 3588. 3589، وابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 214.
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے فرمایا : مشرکین کی ہجو کرو (یعنی ان کی مذمت میں اشعار پڑھو) اور حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی (اس کام میں) تمہارے ساتھ ہیں۔ بخاری کی ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریظہ کے روز حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا : مشرکین کی ہجو (یعنی مذمت) کرو یقینا جبرائیل علیہ السلام بھی (میری ناموس کے دفاع میں) تمہارے ساتھ شریک ہیں۔ عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم دَخَلَ مَکَّةَ فِي عُمْرَةِ الْقَضَاءِ وَعَبْدُ اﷲِ بْنُ رَوَاحَةَ رضي الله عنه بَيْنَ يَدَيْهِ يَمْشِي وَهُوَ يَقُوْلُ :

خَلُّوا بَنِي الْکُفَّارِ عَنْ سَبِيْلِهِ
الْيَومَ نَضْرِبْکُمْ عَلَي تَنْزِيْلِهِ

ضَرْبًا يَزِيْلُ الْهَامَ عَنْ مَقِيْلِهِ
وَيُذْهِلُ الْخَلِيْلَ عَنْ خَلِيْلِهِ

فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : يَا ابْنَ رَوَاحَةَ، بَيْنَ يَدَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَفِي حَرَمِ اﷲِ تَقُوْلُ الشِّعْرَ؟ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : خَلِّ عَنْهُ يَا عُمَرُ، فَلَهِيَ أَسْرَعُ فِيْهِمْ مِنْ نَضْحِ النَّبْلِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَالْبَغَوِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 66 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الأدب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في إنشاد الشعر، 5 / 139، الرقم : 2847، والنسائي في السنن، کتاب : مناسک الحج، باب : إنشاد الشعر في الحرم والمشي بين يدي الإمام، 5 / 202، الرقم : 2873، وفي السنن، الکبري، 2 / 383، الرقم : 3856، والبغوي في شرح السنة، 12 / 374.375، الرقم : 3404 - 3405، وقال : إسناده صحيح، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 502، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 1 / 235، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 13 / 151، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 1 / 297.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عمرہ قضاء کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ میں اس شان سے داخل ہوئے کہ حضرت عبداﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے آگے چل رہے تھے اور یہ اشعار پڑھ رہے تھے :
کافروں کے بیٹو! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستہ سے ہٹ جاؤ۔ آج ان کے آنے پر ہم تمہاری گردنیں ماریں گے۔ ایسی ضرب جو کھوپڑیوں کو گردن سے جدا کردے اور دوست کو دوست سے الگ کردے۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے عبداللہ بن رواحہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اور اللہ تعالیٰ کے حرم میں شعر کہتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمر! اسے چھوڑ دو! یہ اشعار اِن (دشمنوں) کے حق میں تیروں سے تیز تر اثر کرتے ہیں۔
 

samar

Minister (2k+ posts)
Re: مُنافع کا سودا

مُنافع کا سودا
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سرکارِ دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہما کے درمیان تشریف فرما تھے کہ ایک یتیم جوان شکایت لیئے حاضر خدمت ہوا۔ کہنے لگا یا رسول اللہ؛ میں اپنی کھجوروں کے باغ کے ارد گرد دیوار تعمیر کرا رہا تھا کہ میرے ...ہمسائے کی کھجور کا ایک درخت دیوار کے درمیان میں آ گیا۔ میں نے اپنے ہمسائے سے درخواست کی کہ وہ اپنی کھجور کا درخت میرے لیئے چھوڑ دے تاکہ میں اپنی دیوار سیدھی بنوا سکوں، اُس نے دینے سے انکار کیا تو میں نے اُس کھجور کے درخت کو خریدنے کی پیشکس کر ڈالی، میرے ہمسائے نے مجھے کھجور کا درخت بیچنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔

سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس نوجوان کے ہمسائے کو بلا بھیجا۔ ہمسایہ حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے نوجوان کی شکایت سُنائی جسے اُس نے تسلیم کیا کہ واقعتا ایسا ہی ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے فرمایا کہ تم اپنی کھجور کا درخت اِس نوجوان کیلئے چھوڑ دو یا اُس درخت کو نوجوان کے ہاتھوں فروخت کر دو اور قیمت لے لو۔ اُس آدمی نے دونوں حالتوں میں انکار کیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو ایک بار پھر دہرایا؛ کھجور کا درخت اِس نوجوان کو فروخت کر کے پیسے بھی وصول کر لو اور تمہیں جنت میں بھی ایک عظیم الشان کھجور کا درخت ملے گا جِس کے سائے کی طوالت میں سوار سو سال تک چلتا رہے گا۔

دُنیا کےایک درخت کے بدلے میں جنت میں ایک درخت کی پیشکش ایسی عظیم تھی جسکو سُن کر مجلس میں موجود سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہما دنگ رہ گئے۔ سب یہی سوچ رہے تھے کہ ایسا شخص جو جنت میں ایسے عظیم الشان درخت کا مالک ہو کیسے جنت سے محروم ہو کر دوزخ میں جائے گا۔ مگر وائے قسمت کہ دنیاوی مال و متاع کی لالچ اور طمع آڑے آ گئی اور اُس شخص نے اپنا کھجور کا درخت بیچنے سے انکار کردیا۔

مجلس میں موجود ایک صحابی (ابا الدحداح) آگے بڑھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اگر میں کسی طرح وہ درخت خرید کر اِس نوجوان کو دیدوں تو کیا مجھے جنت کا وہ درخت ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہاں تمہیں وہ درخت ملے گا۔

ابا الدحداح اُس آدمی کی طرف پلٹے اور اُس سے پوچھا میرے کھجوروں کے باغ کو جانتے ہو؟ اُس آدمی نے فورا جواب دیا؛ جی کیوں نہیں، مدینے کا کونسا ایسا شخص ہے جو اباالدحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کو نہ جانتا ہو، ایسا باغ جس کے اندر ہی ایک محل تعمیر کیا گیا ہے، باغ میں میٹھے پانی کا ایک کنواں اور باغ کے ارد گرد تعمیر خوبصورت اور نمایاں دیوار دور سے ہی نظر آتی ہے۔ مدینہ کے سارے تاجر تیرے باغ کی اعلٰی اقسام کی کھجوروں کو کھانے اور خریدنے کے انتطار میں رہتے ہیں۔

ابالداحداح نے اُس شخص کی بات کو مکمل ہونے پر کہا، تو پھر کیا تم اپنے اُس کھجور کے ایک درخت کو میرے سارے باغ، محل، کنویں اور اُس خوبصورت دیوار کے بدلے میں فروخت کرتے ہو؟

اُس شخص نے غیر یقینی سے سرکارِ دوعالم کی طرف دیکھا کہ کیا عقل مانتی ہے کہ ایک کھجور کے بدلے میں اُسے ابالداحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کا قبضہ بھی مِل پائے گا کہ نہیں؟ معاملہ تو ہر لحاظ سے فائدہ مند نظر آ رہا تھا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور مجلس میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے گواہی دی اور معاملہ طے پا گیا۔

ابالداحداح نے خوشی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور سوال کیا؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، جنت میں میرا ایک کھجور کا درخت پکا ہو گیا ناں؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ ابالدحداح سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے حیرت زدہ سے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا اُس کا مفہوم یوں بنتا ہے کہ؛ اللہ رب العزت نے تو جنت میں ایک درخت محض ایک درخت کے بدلے میں دینا تھا۔ تم نے تو اپنا پورا باغ ہی دیدیا۔ اللہ رب العزت جود و کرم میں بے مثال ہیں اُنہوں نے تجھے جنت میں کھجوروں کے اتنے باغات عطاء کیئے ہیں کثرت کی بنا پر جنکے درختوں کی گنتی بھی نہیں کی جا سکتی۔ ابالدحداح، میں تجھے پھل سے لدے ہوئے اُن درختوں کی کسقدر تعریف بیان کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اِس بات کو اسقدر دہراتے رہے کہ محفل میں موجود ہر شخص یہ حسرت کرنے لگا اے کاش وہ ابالداحداح ہوتا۔

ابالداحداح وہاں سے اُٹھ کر جب اپنے گھر کو لوٹے تو خوشی کو چُھپا نہ پا رہے تھے۔ گھر کے باہر سے ہی اپنی بیوی کو آواز دی کہ میں نے چار دیواری سمیت یہ باغ، محل اور کنواں بیچ دیا ہے۔

بیوی اپنے خاوند کی کاروباری خوبیوں اور صلاحیتوں کو اچھی طرح جانتی تھی، اُس نے اپنے خاوند سے پوچھا؛ ابالداحداح کتنے میں بیچا ہے یہ سب کُچھ؟

ابالداحداح نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے یہاں کا ایک درخت جنت میں لگے ایسے ایک درخت کے بدلے میں بیچا ہے جِس کے سایہ میں سوار سو سال تک چلتا رہے۔

ابالداحداح کی بیوی نے خوشی سے چلاتے ہوئے کہا؛ ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔ ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔

دنیا کی قُربانی کے بدلے میں آخرت کی بھلائی یا دُنیا میں اُٹھائی گئی تھوڑی سی مشقت کے بدلے کی آخرت کی راحت۔۔۔۔ کون تیار ہے ایسے سودے کیلئے؟؟؟ زندگی کی سمت متعین کرنے کیلئے آپ سوچیئے گا ضرور۔۔۔

صححه العلامة الألباني في السلسلة الصحيحة المجلد السادس , حديث رقم(2964),,,,,

Plz give reference of this hadyt from sihah e sitta book. thanks in advance
 

Muslimpower

MPA (400+ posts)
Re: مُنافع کا سودا

I don't think thats the name of any of the sihah e sitta books................

Yes this is not sihah e sitta book's reference but as a Muslim I have strong belief that all Shaba :razi: are in Heaven. And as I told you I have heard the almost same from very famous scholar.
 

samar

Minister (2k+ posts)
Re: مُنافع کا سودا

Yes this is not sihah e sitta book's reference but as a Muslim I have strong belief that all Shaba :razi: are in Heaven. And as I told you I have heard the almost same from very famous scholar.

I am not challenging the authenticity of hadyt, I am asking this person why he has quoted a hdyt out of sihah e sitta????????

where are his supporters who always call a hdyt zaif if its not according to their thoughts, who focus on only Muslim and Bukhari sharif ????

lakin apni marzi ho to phir kisi kitab se b utha k de detey hain why this double standard???????????????

What about his these Ahadyt yahan kion munafikat ki jatee he..........plz have a look i can upload more.



عن شعبة، عن سلمة بن کهيل، قال : سمعتُ أبا الطفيل يحدّث عن أبي سريحة. . . أو زيد بن أرقم، (شک شعبة). . . عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم، قال : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.

(قال : ) و قد روي شعبة هذا الحديث عن ميمون أبي عبد اﷲ عن زيد بن أرقم عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم.

شعبہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ۔ ۔ ۔ یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما۔ ۔ ۔ سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔

شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے۔

1. ترمذی، الجامع الصحيح، 6 : 79، ابواب المناقب، رقم : 3713
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 569، رقم : 959
3. محاملي، امالي : 85
4. ابن ابي عاصم، السنه : 603، 604، رقم : 1361، 1363، 1364، 1367، 1370
5. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 195، 204، رقم : 5071، 5096
6. نووي، تهذيب الاسماء و اللغات، 1 : 347
7. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 163، 164
8. ابن اثير، اسد الغابه، 6 : 132
9. ابن اثير، النهايه في غريب الحديث والاثر، 5 : 228
10. ابن کثير، البدايه و النهايه، 5 : 463
11. ابن حجر عسقلاني، تعجيل المنفعه : 464، رقم : 1222

ترمذی نے اسے حسن صحیح غریب کہا ہے، اور شعبہ نے یہ حدیث میمون ابوعبد اللہ کے طریق سے زید بن ارقم سے بھی روایت کی ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے یہ حدیث اِن کتب میں مروی ہے :

1. حاکم، المستدرک، 3 : 134، رقم : 4652
2. طبراني، المعجم الکبير، 12 : 78، رقم : 12593
3. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 12 : 343
4. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 77، 144
5. ابن کثير، البدايه و النهايه، 5 : 451
6. هيثمی، مجمع الزوائد، 9 : 108

یہ حدیث حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنہما سے مندرجہ ذیل کتب میں مروی ہے :

1. ابن ابي عاصم، السنه : 602، رقم : 1355
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 366، رقم : 32072

یہ حدیث حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے بھی درج ذیل کتب میں منقول ہے :

1. ابن ابی عاصم، السنه : 602، رقم : 1354
2. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 173، رقم : 4052
3. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 229، رقم : 348

حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مندرجہ ذیل کتب میں روایت کی گئی ہے :

1. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 88، رقم : 80
2. ابن ابي عاصم، السنه : 602، 605، رقم : 1358، 1375
3. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 3 : 139، رقم : 937
4. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 20 : 114

یہ حدیث حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مندرجہ ذیل کتب میں روایت کی گئی ہے :

1. عبدالرزاق، المصنف، 11 : 225، رقم : 20388
2. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 71
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 143

4۔ ابن عساکر نے تاریخ دمشق الکبیر (45 : 143) میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ بھی روایت کی ہے۔

یہ حدیث ابن بریدہ رضی اللہ عنہ سے مندرجہ ذیل کتب میں منقول ہے :

1. ابن ابي عاصم، السنه : 601، رقم : 1353
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 146
3. ابن کثير، البدايه و النهايه، 5 : 457
4. حسام الدين هندي، کنز العمال، 11 : 602، رقم : 32904

یہ حدیث حُبشیٰ بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے اِن کتب میں مروی ہے :

1. ابن ابی عاصم، السنه : 602، رقم : 1359
2. حسام الدبن هندی، کنزالعمال، 11 : 608، رقم : 32946

یہ حدیث حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے اِن کتب میں مروی ہے :

1. طبرانی، المعجم الکبير، 19 : 252، رقم : 646
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177
3. هيثمی، مجمع الزوائد، 9 : 106

طبرانی نے یہ حدیث المعجم الکبیر (3 : 179، رقم : 3049) میں حذیفہ بن اُسید غفاری رضی اللہ عنہ سے بھی نقل کی ہے۔

ابن عساکر نے تاریخ دمشق الکبیر (45 : 176، 177، 178) میں یہ حدیث حضرت ابوہریرہ، حضرت عمر بن خطاب، حضرت انس بن مالک اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم سے بالترتیب روایت کی ہے۔

ابن عساکر نے یہ حدیث حسن بن حسن رضی اللہ عنہما سے بھی تاریخ دمشق الکبیر (15 : 60، 61) میں روایت کی ہے۔

ابن اثیر نے اسد الغابہ (3 : 412) میں عبداللہ بن یامیل سے یہ روایت نقل کی ہے۔

ہیثمی نے موارد الظمآن (ص : 544، رقم : 2204) میں ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کی ہے۔

ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری (7 : 74) میں کہا ہے : ترمذی اور نسائی نے یہ حدیث روایت کی ہے اور اس کی اسانید کثیر ہیں۔

البانی نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ (4 : 331، رقم : 1750) میں اس حدیث کوامام بخاری اور امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے۔

حدیث نمبر : 2

عن عمران بن حصين رضي الله عنه، قال، قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ما تريدون مِن علي؟ ما تريدون مِن علي؟ ما تريدون مِن علي؟ إنّ علياً مِني و أنا منه، و هو ولي کل مؤمن من بعدي.

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو؟ پھر فرمایا : بیشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مؤمن کا ولی ہے۔

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 78، ابواب المناقب، رقم : 3712
2. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 77، 92، رقم : 65، 86
3. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 132، رقم : 8484

4۔ احمد بن حنبل کی المسند (4 : 437، 438) میں بیان کردہ روایت کے آخری الفاظ یہ ہیں : و قد تغیر وجہہ، فقال : دعوا علیا، دعوا علیا، ان علی منی و انا منہ، وھو ولی کل مؤمن بعدی (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ مبارک متغیر ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی (کی مخالفت کرنا) چھوڑ دو، علی (کی مخالفت کرنا) چھوڑ دو، بیشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کا ولی ہے)۔

5۔ ابن کثیر نے امام احمد کی روایت البدایہ والنہایہ (5 : 458) میں نقل کی ہے۔

6. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 620، رقم : 1060
7. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 80، رقم : 12170

8۔ حاکم نے المستدرک (3 : 110، 111، رقم : 4579) میں اس روایت کو مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے، جبکہ ذہبی نے اس پر خاموشی اختیار کی ہے۔

9۔ ابن حبان نے الصحیح (15 : 373، 374، رقم : 6929) میں یہ حدیث قوی سند سے روایت کی ہے۔

10۔ ابو یعلی نے المسند (1 : 293، رقم : 355) میں اسے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے رجال صحیح ہیں، جبکہ ابن حبان نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔

11۔ طیالسی کی المسند (ص : 111، رقم : 829) میں بیان کردہ روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ما لھم و لعلیّ (اُنہیں علی کے بارے میں اِتنی تشویش کیوں ہے)؟

12. ابو نعيم، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 6 : 294
13. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 129
14. هيثمي، موارد الظمآن، 543، رقم : 2203
15. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 13 : 142، رقم : 36444

نسائی کی بیان کردہ دونوں روایات کی اسناد صحیح ہیں۔

حدیث نمبر : 3

عن سعد بن أبي وقاص، قال : سمعتُ رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه، و سمعتُه يقول : أنت مني بمنزلة هارون من موسي، إلا أنه لا نبي بعدي، و سمعتُه يقول : لأعطينّ الرأية اليوم رجلا يحب اﷲ و رسوله.

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے۔ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (حضرت علی رضی اللہ عنہ کو) یہ فرماتے ہوئے سنا : تم میری جگہ پر اسی طرح ہو جیسے ہارون، موسیٰ کی جگہ پر تھے، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (غزوۂ خیبر کے موقع پر) یہ بھی فرماتے ہوئے سنا : میں آج اس شخص کو علم عطا کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔

1۔ ابن ماجہ نے يہ صحيح حديث السنن (1 : 90، المقدمہ، رقم : 121) ميں روايت کي ہے۔
2۔ نسائي نے يہ حديث خصائص اميرالمؤمنين علي بن ابي طالب رضي اللہ عنہ (ص : 32، 33، رقم : 91) میں ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے۔

3. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 608، رقم : 1386
4. مزي، تحفة الاشراف بمعرفة الأطراف، 3 : 302، رقم : 3901

حديث نمبر : 4

4. عن البراء بن عازب، قال : أقبلنا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في حجته التي حج، فنزل في بعض الطريق، فأمر الصلاة جامعة، فأخذ بيد علي رضي الله عنه، فقال : ألستُ أولي بالمؤمنين من أنفسهم؟ قالوا : بلي، قال : ألستُ أولي بکل مؤمن من نفسه؟ قالوا : بلي، قال : فهذا ولي من أنا مولاه، اللهم! والِ من والاه، اللهم! عاد من عاداه.

براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حج ادا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راستے میں ایک جگہ قیام فرمایا اور نماز باجماعت (قائم کرنے) کا حکم دیا، اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا میں مؤمنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟ اُنہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں ہر مومن کی جان سے قریب تر نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس یہ اُس کا ولی ہے جس کا میں مولا ہوں۔ اے اللہ! جو اسے دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ (اور) جو اس سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ۔

1. ابن ماجه، السنن، 1 : 88، المقدمه، رقم : 116

2۔ ابن ابی عاصم نے کتاب السنہ (ص : 603، رقم : 1362) میں مختصراً ذکر کی ہے۔

3. ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 168
4. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 11 : 602، رقم : 32904
5. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 167، 168

يہ حدیث صحیح ہے۔

حدیث نمبر : 5

عن البراء بن عازب رضي الله عنه، قال : کنا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في سفر، فنزلنا بغدير خم فنودي فينا الصلاة جامعة و کسح لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم تحت شجرتين فصلي الظهر و أخذ بيد علیّ، فقال : ألستم تعلمون أني أولي بالمؤمنين من أنفسهم؟ قالوا : بلي، قال : ألستم تعلمون أني أولي بکل مؤمن من نفسه؟ قالوا : بلي، قال : فأخذ بيد علیّ، فقال : من کنتُ مولاه فعلیّ مولاه، اللّٰهم! والِ من والاه و عادِ من عاداه. قال : فلقيه عمر رضی الله عنه بعد ذٰلک، فقال له : هنيئاً يا ابن أبي طالب! أصبحتَ و أمسيتَ مولي کل مؤمنٍ و مُؤمنة.

براء بن عازب سے روایت ہے ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے، (راستے میں) ہم نے غدیر خم میں قیام کیا۔ وہاں ندا دی گئی کہ نماز کھڑی ہو گئی ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے دو درختوں کے نیچے صفائی کی گئی، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ ظہر ادا کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں مومنوں کی جانوں سے بھی قریب تر ہوں؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں ہر مومن کی جان سے بھی قریب تر ہوں؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں! راوی کہتا ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اے اللہ! اُسے تو دوست رکھ جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اور اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔ راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور اُن سے کہا : اے ابن ابی طالب! مبارک ہو، آپ صبح و شام (یعنی ہمیشہ کے لئے) ہر مومن و مومنہ کے مولا بن گئے۔

1۔ احمد بن حنبل نے المسند (4 : 281) ميں حضرت براء بن عازب رضي اللہ عنہ سے يہ حديث دو مختلف اسناد سے بيان کي ہے۔

2. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 78، رقم : 12167
3. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي : 125
4. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 126، 127

5۔ مناوی نے فیض القدیر (6 : 217) میں لکھا ہے کہ جب حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ سنا تو (حضرت علی رضی اللہ عنہ سے) کہا : اے ابوطالب کے بیٹے! آپ صبح و شام (یعنی ہمیشہ کے لئے) ہر مؤمن اور مؤمنہ کے مولا قرار پائے۔

6. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 133، 134، رقم : 36420
7. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 167، 168

8۔ امام احمد بن حنبل نے اپنی کتاب فضائل الصحابہ (2 : 610، رقم : 1042) میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : و عاد من عاداہ و انصر من نصرہ، و احب من احبہ۔ قال شعبۃ : او قال : و ابغض من ابغضہ ( (اے اللہ!) جو (علی) سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ جو (علی) کی مدد کرے اُس کی تو مدد فرما، جو اِس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر۔ شعبہ کا کہنا ہے کہ اِس کی جگہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو (علی) سے بغض رکھے تو (بھی) اُس سے بغض رکھ)۔

9. ابن اثير، اسد الغابه، 4 : 103

10۔ ذہبی نے سیر اعلام النبلاء (2 : 623، 624) میں کہا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ھنیئاً لک یا علیّ (اے علی! آپ کو مبارک ہو) کے الفاظ کہے۔

11. ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 169
12. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 464

حدیث نمبر : 6

عن ابن بريدة عن أبيه، قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : مَن کنتُ وليه فعلیّ وليه.

حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں ولی ہوں، اُس کا علی ولی ہے۔

1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 361
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 563، رقم : 947
3. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 601، 603، رقم : 1351، 1366
4. حاکم، المستدرک، 2 : 131، رقم : 2589
5. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 57، رقم : 12114
6. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 166، رقم : 4968
7. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 100، 101، رقم : 2204
8. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 108
9. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 143

10۔ ابن عساکر نے یہ حدیث تاریخ دمشق الکبیر (45 : 142) میں سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہما سے بھی روایت کی ہے۔

11. حسام الدين هندي، کنز العمال، 11 : 602، رقم : 32905

12۔ یہی حدیث ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ حسام الدین ہندی نے کنز العمال (15 : 168، 169، رقم : 36511) میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے اور کہا ہے کہ اسے ابن راہویہ اور ابن جریر نے روایت کیا ہے۔

حدیث نمبر : 7

عن زيد بن أرقم رضی الله عنه قال : لمّا رجع رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم مِن حجة الوداع و نزل غدير خم، أمر بدوحات، فقمن، فقال : کأنّي قد دعيتُ فأجبتُ، إني قد ترکتُ فيکم الثقلين، أحدهما أکبر من الآخر : کتاب اﷲ تعالٰي، و عترتي، فانظروا کيف تخلفوني فيهما، فإنّهما لن يتفرقا حتي يردا علي الحوض. ثم قال : إن اﷲ عزوجل مولاي و أنا مولي کلِ مؤمن. ثم أخذ بيد علیّ، فقال : مَن کنتُ مولاه فهذا وليه، اللّٰهم! والِ من والاه و عادِ من عاداه.

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے تو غدیر خم پر قیام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا اور وہ لگا دیئے گئے پھر فرمایا : مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے، جسے میں قبول کر لوں گا۔ تحقیق میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، جو ایک دوسرے سے بڑھ کر اہمیت کی حامل ہیں : ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری آل۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرے بعد تم ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو اور وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ حوضِ (کوثر) پر میرے سامنے آئیں گی۔ پھر فرمایا : بے شک اللہ میرا مولا ہے اور میں ہر مؤمن کا مولا ہوں۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا یہ ولی ہے، اے اللہ! جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ۔

1. حاکم، المستدرک، 3 : 109، رقم : 4576
2. نسائي، السنن الکبري، 5 : 45، 130، رقم : 8148، 8464

3۔ ابن ابی عاصم نے السنہ (ص : 644، رقم : 1555) میں اسے مختصراً ذکر کیا ہے۔

4. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 166، رقم : 4969

5۔ نسائی نے خصائص امیر المؤمنین علی بن ابی طالب (ص : 84، 85، رقم : 76) میں یہ حدیث صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے۔
6۔ ابومحاسن نے المعتصر من المختصر من مشکل الآثار (2 : 301) میں نقل کی ہے۔

حدیث نمبر : 8

عن ابن واثلة أنه سمع زيد بن أرقم، يقول : نزل رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بين مکة و المدينة عند شجرات خمس دوحات عظام، فکنس الناسُ ما تحت الشجرات، ثم راح رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عيشة، فصلي، ثم قام خطيباً فحمد اﷲ و أثني عليه و ذکر و وعظ، فقال ما شاء اﷲ أن يقول : ثم قال : أيها الناس! إني تارکٌ فيکم أمرين، لن تضلوا إن اتبعتموهما، و هما کتابَ اﷲ و أهلَ بيتي عترتي، ثم قال : أتعلمون إني أولي بالمؤمنين مِن أنفسهم؟ ثلاث مرّاتٍ، قالوا : نعم، فقال رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.

ابن واثلہ سے روایت کہ اُنہوں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ اور مدینہ کے درمیان پانچ بڑے گھنے درختوں کے قریب پڑاؤ کیا اور لوگوں نے درختوں کے نیچے صفائی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ دیر آرام فرمایا۔ نماز ادا فرمائی، پھر خطاب فرمانے کیلئے کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور وعظ و نصیحت فرمائی، پھر جو اللہ تعالیٰ نے چاہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو! میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جب تک تم ان کی پیروی کرو گے کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ (دو چیزیں) اللہ کی کتاب اور میرے اہلِ بیت / اولاد ہیں۔ اس کے بعد فرمایا : کیا تمہیں علم نہیں کہ میں مؤمنین کی جانوں سے قریب تر ہوں؟ ایسا تین مرتبہ فرمایا۔ سب نے کہا : ہاں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔

1. حاکم، المستدرک، 3 : 109، 110، رقم : 4577
2. ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 168
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 164
4. حسام الدين هندي، کنز العمال، 1 : 381، رقم : 1657

حدیث نمبر : 9

عن زيد بن أرقم رضي الله عنه، قال : خرجنا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حتي انتهينا إلي غدير خم، فأمر بروحٍ فکسح في يوم ما أتي علينا يوم کان أشدّ حراً منه، فحمد اﷲ و أثني عليه، و قال : يا أيها الناس! أنّه لم يبعث نبیٌ قط إلا ما عاش نصف ما عاش الذي کان قبله و إني أوشک أن أدعي فأجيب، و إني تارک فيکم ما لن تضلوا بعده کتاب اﷲ عزوجل. ثم قام و أخذ بيد علي رضي الله عنه، فقال : يا أيها الناس! مَن أولي بکم من أنفسکم؟ قالوا : اﷲ و رسوله أعلم، ألستُ أولي بکم من أنفسکم؟ قالوا : بلي، قال : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ غدیر خم پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دن تھکاوٹ محسوس کر رہے تھے اور وہ دن بہت گرم تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا : اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے جتنے نبی بھیجے ہر نبی نے اپنے سے پہلے نبی سے نصف زندگی پائی، اور مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے جسے میں قبول کر لوں گا۔ میں تمہارے اندر وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اُس کے ہوتے ہوئے تم ہرگز گمراہ نہیں ہو گے، وہ کتاب اﷲ ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھام لیا اور فرمایا : اے لوگو! کون ہے جو تمہاری جانوں سے زیادہ قریب ہے؟ سب نے کہا : اللہ اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ (پھر) فرمایا : کیا میں تمہاری جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے


1. حاکم، المستدرک، 3 : 533، رقم : 6272
2. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 171، 172، رقم : 4986
3. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 11 : 602، رقم : 32904

یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے اور اِمام ذہبی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔

حدیث نمبر : 10

عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه، قال : لقد سمعتُ رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول في علیّ ثلاث خصال، لأن يکون لي واحدة منهن أحبّ إلیّ من حمر النعم. سمعتُه يقول : إنه بمنزلة هارون من موسي، إلا أنه لا نبي بعدي، و سمعته يقول : لأ عطينّ الرأية غداً رجلاً يحبّ اﷲ و رسوله، و يحبّه اﷲ و رسوله و سمعتُه يقول : مَن کنتُ مولاه، فعلیّ مولاه.

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تین خصلتیں ایسی بتائی ہیں کہ اگر میں اُن میں سے ایک کا بھی حامل ہوتا تو وہ مجھے سُرخ اُونٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ایک موقع پر) ارشاد فرمایا : علی میری جگہ پر اسی طرح ہیں جیسے ہارون موسیٰ کی جگہ پر تھے، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اور فرمایا : میں آج اس شخص کو علم عطا کروں گا جو اللہ اور اُس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ (راوی کہتے ہیں کہ) میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (اس موقع پر) یہ فرماتے ہوئے بھی سنا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔


1. نسائي، خصائص امير المومنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 33، 34، 88، رقم : 10، 80

2۔ شاشی نے المسند (1 : 165، 166، رقم : 106) میں یہ روایت عامر بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے لی ہے۔
3۔ ابن عساکر نے تاریخ دمشق الکبیر (45 : 88) میں عامر بن سعد اور سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہما سے مروی احادیث بیان کی ہیں۔
4۔ حسام الدین ہندی نے کنز العمال (15 : 163، رقم : 36496) میں عامر بن سعد رضی اللہ عنہ سے یہ روایت چند الفاظ کے اضافے کے ساتھ ذکر کی۔

اِس حدیث کی اسناد صحیح ہیں۔

حدیث نمبر : 11

أخرج سفيان بن عيينة عن سعد بن أبي وقاص (في مناقب علیّ) رضي الله عنهم، إن له لمناقب أربع : لأن يکون لي واحدة منهن أحب إلیّ مِن کذا و کذا، ذکر حمر النعم قولها : لأعطينّ الراية، و قولها : بمنزلة هارون من موسیٰ، و قولها : من کنتُ مولاه، و نسي سفيان الرابعة.

سفیان بن عیینہ (مناقبِ علی رضی اللہ عنہ کے ضمن میں) سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چار خوبیاں ایسی ہیں کہ اگر میں ان میں سے کسی ایک کا بھی حامل ہوتا تو اسے فلاں فلاں چیز حتی کہ سرخ اُونٹوں سے زیادہ محبوب رکھتا۔ وہ چار خوبیاں یہ تھیں : (پہلی خوبی اُنہیں غزوۂ خیبر کے موقع پر) جھنڈے کا عطا ہونا ہے۔ (دُوسری خوبی) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُن کے متعلق یہ فرمانا کہ (تیرا اور میرا تعلق ایسے ہے) جیسے ہارون اور موسیٰ کا (تعلق ہے)۔ (تیسری خوبی) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُن کے متعلق یہ فرمانا کہ جس کا میں مولا ہوں (اُس کا علی مولا ہے)۔ (راویء حدیث) سفیان بن عیینہ کو چوتھی خوبی بھول گئی۔

1. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 607، رقم : 1385
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 643، رقم : 1093
3. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 3 : 151، رقم : 948

4۔ ابن عساکر نے تاریخ دمشق الکبیر (45 : 89۔ 91) میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں چاروں خوبیاں بالتفصیل لکھی ہیں۔

احمد بن حنبل کی بیان کردہ روایت کی اِسناد حسن ہیں۔

حدیث نمبر : 12

عن عبد الرحمن بن سابط (في مناقب علیّ)، قال : قال سعد : سمعتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول في علیّ ثلاث خصال، لأن يکون لي واحدة منهنّ أحب إلیّ مِن الدنیا و ما فیها، سمعتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه، و أنت منّي بمنزلة هارون مِن موسیٰ، و لأعطينّ الرأية.

عبدالرحمن بن سابط (مناقبِ علی کے ضمن میں) روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تین ایسی خصلتیں بیان فرماتے ہوئے سنا کہ اگر اُن میں سے ایک بھی مجھے عطا ہو تو وہ مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہوتی۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں (اُس کا علی مولا ہے)، اور علی میری جگہ ایسا ہے جیسے موسیٰ کی جگہ ہارون، اور میں اُسے علم عطا کروں گا (جو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حبیب ہے اور اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے حبیب ہیں)۔

1. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 608، رقم : 1386
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 61، رقم : 12127
3. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 3 : 207، رقم : 1008
4. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 88، 89

ضیاء مقدسی نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔

حدیث نمبر : 13

عن رفاعة بن إياس الضبي، عن أبيه، عن جده، قال : کنّا مع علیّ رضي الله عنه يوم الجمل، فبعث إلي طلحة بن عبيد اﷲ أن القني، فأتاه طلحة، فقال : نشدک اﷲ، هل سمعتَ رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه، اللّٰهم والِ من والاه و عادِ من عاداه؟ قال : نعم، قال : فَلِمَ تقاتلنی؟ قال : لم أذکرْ، قال : فانصرف طلحةُ.

رفاعہ بن ایاس ضبی اپنے والد سے اور وہ اس کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ہم جمل کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے طلحہ بن عبید اللہ رضی اﷲ عنہما کی طرف ملاقات کا پیغام بھیجا۔ پس طلحہ اُن کے پاس آئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کہا : میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جواُس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ؟ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : ہاں! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : تو پھر میرے ساتھ کیوں جنگ کرتے ہو؟ طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : مجھے یہ بات یاد نہیں تھی۔ راوی نے کہا : (اُس کے بعد) طلحہ رضی اللہ عنہ واپس لوٹ گئے۔

1. حاکم، المستدرک، 3 : 371، رقم : 5594
2. بيهقي، الاعتقاد : 373
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 27 : 76

4۔ ہیثمی نے مجمع الزوائد (9 : 107) میں لکھا ہے کہ یہ حدیث بزار نے نذیر سے روایت کی ہے۔
5۔ حسام الدین ہندي، کنز العمال، 11 : 332، رقم : 31662

حدیث نمبر : 14

عن بريدة، قال : غزوتُ مع علیّ اليمن فرأيتُ منه جفوة، فلما قدمتُ علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ذکرتُ عليا، فتنقصته، فرأيتُ وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يتغيّر، فقال : يا بريدة! ألستُ أولي بالمؤمنين مِن أنفسهم؟ قلتُ : بلي، يا رسولَ اﷲ! قال : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کے غزوہ میں شرکت کی جس میں مجھے آپ سے کچھ شکوہ ہوا۔ جب میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس (جنگ سے) واپس آیا تو میں نے اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر نامناسب انداز سے کیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ مبارک متغیر ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے بریدہ! کیا میں مومنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟ تو میں نے کہا : کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔

1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 347
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 584، 585، رقم : 989
3. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 130، رقم : 8465
4. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 86، رقم : 78
5. حاکم، المستدرک، 3 : 110، رقم : 4578
6. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 84، رقم : 12181
7. ابن ابي عاصم، الآحاد والمثاني، 4 : 325، 326
8. شاشي، المسند، 1 : 127
9. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 229، رقم : 348
10. مبارکپوري، تحفة الاحوذي، 10 : 147
11. ابو نعيم، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 4 : 23
12. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 142، 146. 148
13. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 128

14۔ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ (4 : 168؛ 5 : 457) میں کہا ہے کہ نسائی کی بیان کردہ روایت کی اسناد جید قوی ہیں اور اس کے تمام رجال ثقہ ہیں۔

15. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 134، رقم : 36422

حدیث نمبر : 15

عن ميمون أبي عبد اﷲ، قال : قال زيد بن أرقم رضی الله عنه و أنا أسمع : نزلنا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بواد يقال له وادي خم، فأمر بالصلاة، فصلاها بهجير، قال : فخطبنا و ظلل لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بثوب علي شجرة سمرة من الشمس، فقال : ألستم تعلمون أو لستم تشهدون أني أولٰي بکل مؤمن من نفسه؟ قالوا : بلي، قال : فمن کنتُ مولاه فإن عليا مولاه، اللّٰهم! عادِ من عاداه و والِ من والاه.

حضرت میمون ابو عبد اﷲ بیان کرتے ہیں کہ میں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا : ہم رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک وادی۔ ۔ ۔ جسے وادئ خم کہا جاتا تھا۔ ۔ ۔ میں اُترے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کا حکم دیا اور سخت گرمی میں جماعت کروائی۔ پھر ہمیں خطبہ دیا درآنحالیکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سورج کی گرمی سے بچانے کے لئے درخت پر کپڑا لٹکا کر سایہ کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم نہیں جانتے یا (اس بات کی) گواہی نہیں دیتے کہ میں ہر مؤمن کی جان سے قریب تر ہوں؟ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ ! تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے اور اُسے دوست رکھ جواِسے دوست رکھے۔

1. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 372
2. بيهقي، السنن الکبریٰ، 5 : 131

3۔ طبرانی نے یہ حدیث المعجم الکبیر (5 : 195، رقم : 5068) میں ایک اور سند سے روایت کی ہے۔

4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 104
5. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 157، رقم : 36485
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 166

7۔ ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ، (4 : 172) میں اِس روایت کی سند کو جید اور رِجال کو ثقہ قرار دیا ہے۔

حدیث نمبر : 16

عن عطية العوفي، قال : سألت زيد بن أرقم، فقلتُ له : أنّ ختناً لي حدثني عنک بحديث في شأن علي رضي الله عنه يوم غدير خم، فأنا أحب أن أسمعه منک، فقال : إنکم معشر أهل العراق فيکم ما فيکم، فقلت له : ليس عليک مني بأس، فقال : نعم، کنا بالجحفة، فخرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إلينا ظهراً و هو أخذ بعضدِ علي رضي الله عنه فقال : يا أيها الناس! ألستم تعلمون أني أولي بالمؤمنين من أنفسم؟ قالوا : بلٰي، قال : فمن کنتُ مولاه فعلي مولاه، قال : فقلتُ له : هل قال : اللهم! وال من والاه و عاد من عاداه؟ فقال : إنما أخبرک کما سمعتُ.

عطیہ عوفی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے زید بن ارقم سے پوچھا : میرا ایک داماد ہے جو غدیر خم کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں آپ کی روایت سے حدیث بیان کرتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اسے آپ سے (براہِ راست) سنوں۔ زید بن ارقم نے کہا : آپ اہلِ عراق ہیں تمہاری عادتیں تمہیں سلامت رہیں۔ پس میں نے کہا کہ میری طرف سے تمہیں کوئی اذیت نہیں پہنچے گی۔ (اس پر) انہوں نے کہا : ہم جحفہ کے مقام پر تھے کہ ظہر کے وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بازو تھامے ہوئے باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو! کیا تمہیں علم نہیں کہ میں مؤمنین کی جانوں سے بھی قریب تر ہوں؟ تو انہوں نے کہا : کیوں نہیں! تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔ عطیہ نے کہا : میں نے مزید پوچھا : کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا : اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس (علی) سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ؟ زید بن ارقم نے کہا : میں نے جو کچھ سنا تھا وہ تمہیں بیان کر دیا ہے۔

1. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 368
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 586، رقم : 992

3۔ نسائی نے یہ حدیث حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے خصائص امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (ص : 97، رقم : 92) میں الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ روایت کی ہے۔ اس کے بارے میں ہیثمی نے مجمع الزوائد (9 : 107) میں کہا ہے کہ اسے بزار نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔

4. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 195، رقم : 5070
5. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 165
6. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 105، رقم : 36343

7۔ میمون ابو عبد اﷲ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے یہ حدیث مبارکہ بیان کی۔ حسام الدین ہندی نے یہ حدیث کنزالعمال (13 : 104، 105، رقم : 36342) میں بیان کی ہے۔

حدیث نمبر : 17

عن جابر بن عبد اﷲ رضي اﷲ عنهما قال : کنا بالجحفة بغدير خم إذ خرج علينا رسول اﷲا، فأخذ بيد علي رضي الله عنه فقال : من کنت مولاه فعلیّ مولاه.

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ ہم حجفہ میں غدیر خم کے مقام پر تھے، جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔

1. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 59، رقم : 12121
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 169، 170، 172

3۔ ذہبی نے سیر اعلام النبلاء (7 : 570، 571) میں اسے عبداﷲ بن محمد بن عاقل سے روایت کرتے ہوئے متن حدیث کو متواتر قرار دیا ہے۔ روایت میں ہے کہ علی بن حسین، محمد بن حنیفہ، ابوجعفر اور عبداﷲ بن محمد بن عاقل رضی اللہ عنھم حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے گھر پر تھے۔
4۔ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ (4 : 173) میں لکھا ہے کہ ہمارے شیخ ذہبی نے اِس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔

5. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 13 : 137، رقم : 32433

حدیث نمبر : 18

عن علي رضي الله عنه، أن النبيا قام بحفرة الشجرة بخم، و هو آخذ بيد علي رضي الله عنه فقال : أيها الناس! ألستم تشهدون أن اﷲ ربکم؟ قالوا : بلی، قال : ألستم تشهدون أن اﷲ و رسوله أولي بکم من أنفسکم. قالوا : بلي، و أن اﷲ و رسوله مولاکم؟ قالوا : بلي، قال : فمن کنتُ مولاه فإن هذا مولاه.

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ خم پر ایک درخت کے نیچے کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کاہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے لوگو! کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ اللہ تمہارا رب ہے؟ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ اللہ اور اس کا رسول تمہاری جانوں سے بھی قریب تر ہیں؟ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا یہ (علی) مولا ہے۔

1. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 603، رقم : 1360
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 161، 162

3۔ حسام الدین ہندی نے یہ حدیث کنزالعمال (13 : 140، رقم : 36441) میں نقل کی ہے اور کہا ہے کہ اسے ابن راہویہ، ابن جریر، ابن ابی عاصم اور محاملی نے امالی میں روایت کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔

حدیث نمبر : 19

عن حذيفة بن أسيد الغفاري . . . فقال : يا أيها الناس إني قد نبأني اللطيف الخبير أنه لن يعمر نبي إلا نصف عمر الذي يليه من قبله، و إني لأظن أني يوشک أن أدعي فأجيب، و إني مسؤول، و إنکم مسؤولون، فماذا أنتم قائلون؟ قالوا : نشهد أنک قد بلغتَ و جهدتَ و نصحتَ، فجزاک اﷲ خيراً، فقال : أليس تشهدون أن لا إله إلا اﷲ، و أن محمداً عبده و رسوله، و أن جنته حقٌ و ناره حقٌ، و أن الموت حقٌ، و أن البعث بعد الموت حقٌ، و أن الساعة آتية لا ريب فيها و أن اﷲ يبعث من في القبور؟ قالوا : بلي، نشهد بذالک، قال : اللهم! اشهد، ثم قال : يا أيها الناس! إن اﷲ مولاي و أنا مولي المؤمنين و أنا أولي بهم من أنفسهم، فمن کنتُ مولاه فهذا مولاه يعني علياً رضي الله عنه . . . اللهم! وال من والاه، و عاد من عاداه. ثم قال : يا أيها الناس إني فرطکم و إنکم واردون علي الحوض، حوضٌ أعرض ما بين بصري و صنعاء، فيه عدد النجوم قد حانٌ من فضة، و إني سائلکم حين تردون عليّ عن الثقلين، فانظروا کيف تخلفوني فيهما، الثقل الأکبر کتاب اﷲ عزوجل سببٌ طرفه بيد اﷲ و طرفه بأيديکم فاستمسکوا به لا تضلوا و لا تبدلوا، و عترتي أهل بيتي، فإنه قد نبأني اللطيف الخبير أنما لن ينقضيا حتي يردا عليّ الحوض.

حضرت حذیفہ بن اُسید غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو! مجھے لطیف و خبیر ذات نے خبر دی ہے کہ اللہ نے ہر نبی کو اپنے سے پہلے نبی کی نصف عمر عطا فرمائی اور مجھے گمان ہے مجھے (عنقریب) بلاوا آئے گا اور میں اُسے قبول کر لوں گا، اور مجھ سے (میری ذمہ داریوں کے متعلق) پوچھا جائے گا اور تم سے بھی (میرے متعلق) پوچھا جائے گا، (اس بابت) تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے ہمیں انتہائی جدوجہد کے ساتھ دین پہنچایا اور بھلائی کی باتیں ارشاد فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، جنت و دوزخ حق ہیں اور موت اور موت کے بعد کی زندگی حق ہے، اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں، اور اللہ تعالیٰ اہل قبور کو دوبارہ اٹھائے گا؟ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں! ہم ان سب کی گواہی دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! تو گواہ بن جا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! بیشک اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں تمام مؤمنین کا مولا ہوں اور میں ان کی جانوں سے قریب تر ہوں۔ جس کا میں مولا ہوں یہ اُس کا یہ (علی) مولا ہے۔ اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔ اے لوگو! میں تم سے پہلے جانے والا ہوں اور تم مجھے حوض پر ملو گے، یہ حوض بصرہ اور صنعاء کے درمیانی فاصلے سے بھی زیادہ چوڑا ہے۔ اس میں ستاروں کے برابر چاندی کے پیالے ہیں، جب تم میرے پاس آؤ گے میں تم سے دو انتہائی اہم چیزوں کے متعلق پوچھوں گا، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ تم میرے پیچھے ان دونوں سے کیا سلوک کرتے ہو! پہلی اہم چیز اللہ کی کتاب ہے، جو ایک حیثیت سے اللہ سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری حیثیت سے بندوں سے تعلق رکھتی ہے۔ تم اسے مضبوطی سے تھام لو تو گمراہ ہو گے نہ (حق سے) منحرف، اور (دوسری اہم چیز) میری عترت یعنی اہلِ بیت ہیں (اُن کا دامن تھام لینا)۔ مجھے لطیف و خبیر ذات نے خبر دی ہے کہ بیشک یہ دونوں حق سے نہیں ہٹیں گی یہاں تک کہ مجھے حوض پر ملیں گی۔

1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 180، 181، رقم : 3052
2. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 67، رقم : 2683
3. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 166، 167، رقم : 4971
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 164، 165
5. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 1 : 188، 189، رقم : 957، 958
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 166، 167

7۔ ابن عساکر نے تاریخ دمشق الکبیر (45 : 169) میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے بھی روایت لی ہے۔

8. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 463

حدیث نمبر : 20

عن جرير قال : شهدنا الموسم في حجة مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، و هي حجة الوداع، فبلغنا مکاناً يقال له غدير خم، فنادي : الصلاة جامعة، فاجتمعنا المهاجرون والأنصار، فقام رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وسطنا، فقال : أيها الناس! بم تشهدون؟ قالوا : نشهد أن لا إله إلا اﷲ؟ قال : ثم مه؟ قالوا : و أن محمداً عبده و رسوله، قال : فمَن وليکم؟ قالوا : اﷲ و رسوله مولانا، قال : من وليکم؟ ثم ضرب بيده إلي عضد علي رضي الله عنه، فأقامه فنزع عضده فأخذ بذراعيه، فقال : من يکن اﷲ و رسوله مولياه فإن هذا مولاه، اللهم! والِ من والاه، و عادِ من عاداه، اللهم! من أحبه من الناس فکن له حبيباً، ومن أبغضه فکن له مُبغضا.

حضرت جریر سے روایت ہے کہ ہم حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جسے غدیر خم کہتے ہیں۔ نماز باجماعت ہونے کی ندا آئی تو سارے مہاجرین و انصار جمع ہو گئے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور خطاب فرمایا : اے لوگو! تم کس چیز کی گواہی دیتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر کس کی؟ انہوں نے کہا : بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا ولی کون ہے؟ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ پھر فرمایا : تمہارا ولی اور کون ہے؟ تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا اور (حضرت علی رضی اللہ عنہ کے) دونوں بازو تھام کر فرمایا : اللہ اور اُس کا رسول جس کے مولا ہیں اُس کا یہ (علی) مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ (اور) جو اِس (علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، اے اللہ! جو اِسے محبوب رکھے تو اُسے محبوب رکھ اور جو اِس سے بغض رکھے تو اُس سے بغض رکھ۔

1. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 357، رقم : 2505
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 106
3. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 13 : 138، 139، رقم : 36437
4. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 179

حدیث نمبر : 21

عن عمرو ذي مر و زيد بن أرقم قالا : خطب رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم غدير خم، فقال : من کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه و عادِ من عاداه، و انصرْ من نصره و أعِنْ من أعانه.

عمرو ذی مر اور زید بن ارقم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر خطاب فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، اور جو اِس کی نصرت کرے اُس کی تو نصرت فرما، اور جو اِس کی اِعانت کرے تو اُس کی اِعانت فرما۔

1. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 192، رقم : 5059

2۔ نسائی نے خصائص امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (ص : 100، 101، رقم : 96) میں عمرو ذی مر سے روایت لی ہے۔

3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 104، 106
4. ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 170
5. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 11 : 609، رقم : 32946

حدیث نمبر : 22

آيتِ کريمه اَلْيوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمَْ

(القرآن، المائده، 5 : 3)

۔ ۔ ۔ (آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا) ۔ ۔ ۔ کے شانِ نزول میں محدثین و مفسرین نے یہ حدیثِ مبارکہ بیان کی ہے :

عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال : مَن صام يوم ثمان عشرة مِن ذي الحجة کتب له صيام ستين شهراً، و هو يوم غدير خم لما أخذ النبيا بيد عليّ بن أبی طالب رضي الله عنه، فقال : ألست ولي المؤمنين؟ قالوا : بلي، يا رسول اﷲ! قال : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، فقال عمر بن الخطاب : بخ بخ لک يا ابن أبي طالب! أصبحتَ مولاي و مولي کل مسلم، فأنزل اﷲ (اَلْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ).

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے اٹھارہ ذی الحج کو روزہ رکھا اس کے لئے ساٹھ (60) مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھا جائے گا، اور یہ غدیر خم کا دن تھا جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا میں مؤمنین کا والی نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مبارک ہو! اے ابنِ ابی طالب! آپ میرے اور ہر مسلمان کے مولا ٹھہرے۔ (اس موقع پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا۔

1. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 8 : 290
2. طبراني، المعجم الأوسط، 3 : 324
3. واحدي، اسباب النزول : 108
4. رازي، التفسير الکبير، 11 : 139
5. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 176، 177

6۔ ابن عساکر نے تاریخ دمشق الکبیر (45 : 179) میں یہ راویت حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی لی ہے۔

7. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 464

8۔ سیوطی نے الدر المنثور فی التفسیر بالماثور (2 : 259) میں آیت مذکورہ کی شان نزول کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے روز من کنت مولاہ فعليّ مولاہ کے الفاظ فرمائے تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔

حدیث نمبر : 23

امام فخر الدين رازي يَا أيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَآ أنْزِلَ إِلَبْکَ مِن رَّبِّکَ،

(القرآن، المائده، 5 : 67)

۔ ۔ ۔ (اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارا لوگوں کو) پہنچا دیجئے) ۔ ۔ ۔ کا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

نزلت الآية في فضل عليّ بن أبي طالب عليه السلام، و لما نزلت هذه الآيةُ أخذ بيده و قال : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم والِ من والاه و عادِ من عاداه. فلقيه عمر رضي الله عنه، فقال : هنيئاً لک يا ابن أبي طالب، أصبحتَ مولاي و مولي کلِ مؤمنٍ و مؤمنة. و هو قول ابن عباس و البراء بن عازب و محمد بن علي.

یہ آیتِ مبارکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہے، جب یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : جس کا میں مولاہوں، اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے، اور اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔ اُس کے (فوراً ) بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور فرمایا : اے ابن ابی طالب! آپ کو مبارک ہو، اب آپ میرے اور ہر مؤمن اور مؤمنہ کے مولا قرار پائے ہیں۔

اِسے عبداللہ بن عباس، براء بن عازب اور محمد بن علی رضی اللہ عنھم نے روایت کیا ہے۔

1. رازي، التفسير الکبير، 12 : 49، 50

2. ابن ابی حاتم رازی نے تفسیر القرآن العظیم (4 : 1172، رقم : 6609) میں عطیہ عوفی سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی کہ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر67 حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی۔

علاوہ ازیں درج ذیل نے بھی یہ روایت نقل کی ہے :

3. واحدي، اسباب النزول : 115
4. سيوطي، الدرالمنثور في التفسير بالماثور، 2 : 298
5. آلوسي، روح المعاني، 6 : 193
6. شوکاني، فتح القدير، 2 : 60

حدیث نمبر : 24

آيتِ کريمه إِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اﷲُ وَ رَسُوْلُه وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّکَاةَ وَ هُمْ رَاکِعُوْنَO

(القرآن، المائده، 5 : 55)

۔ ۔ ۔ (بے شک تمہارا (مدد گار) دوست اللہ اور اُس کا رسول ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اللہ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیںo) ۔ ۔ ۔ کے شانِ نزول میں بیشتر محدثین نے یہ حدیثِ مبارکہ بیان کی ہے :

عن عمار بن ياسر رضي الله عنه، يقول : وقف علي عليّ بن أبي طالب رضي الله عنه سائل و هو راکع في تطوّع فنزع خاتمه فأعطاه السائل، فأتي رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فأعلمه ذلک، فنزلتْ علي النبي صلی الله عليه وآله وسلم هذا الآية : (إِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اﷲُ وَ رَسُوْلُه وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّکَاةَ وَ هُمْ رَاکِعُوْنَ) فقرأها رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ثم قال : من کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه و عادِ من عاداه.

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سائل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کھڑا ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ نماز میں حالتِ رکوع میں تھے۔ اُس نے آپ رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی کھینچی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے انگوٹھی سائل کو عطا فرما دی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُس کی خبر دی۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی : (بے شک تمہارا (مدد گار) دوست اللہ اور اُس کا رسول ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اللہ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کو پڑھا اور فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔

1. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 129، 130، رقم : 6228
2. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 119
3. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 372
4. حاکم، المستدرک، 3 : 119، 371، رقم حديث : 4576، 5594
5. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 174، رقم : 4053
6. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 195، 203، 204، رقم : 5068، 5069، 5092، 5097
7. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 65
8. هيثمي، مجمع الزوائد، 7 : 17
9. هيثمي، موارد الظمآن : 544، رقم : 2205
10. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 7 : 377

11۔ خطیب بغدادی نے یہ حدیثِ مبارکہ تاریخِ بغداد (12 : 343) میں مَن کنتُ مولاہ فعليّ مولاہ کے الفاظ کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے بھی نقل کی ہے۔

12. ابن اثير، اسد الغابه، 2 : 362
13. ابن اثير، اسد الغابه، 3 : 487
14. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 2 : 106، 174، رقم : 480، 553
15. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 11 : 332، 333، رقم : 31662
16. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 13 : 104، 169، رقم : 36340،

17۔ حسام الدین ہندی نے کنز العمال(11 : 609، رقم : 32950) میں لکھا ہے : طبرانی نے اس حدیث کو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور بارہ (12) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے روایت کیا ہے۔ اور امام احمد بن حنبل نے اسے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور کثیر صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے روایت کیا ہے۔ حاکم نے المستدرک میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کی ہے۔ امام احمد بن حنبل اور طبرانی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ اور تیس (30) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ ابونعیم نے کتاب فضائل الصحابہ میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے اور خطیب بغدادی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔

حدیث نمبر : 25

عن عمار بن ياسر رضي الله عنه، قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : أوصي من آمن بي و صدقني بولاية عليّ بن أبي طالب، مَن تولاه فقد تولاني و مَن تولاني فقد تولي اﷲ عزوجل و مَن أحبه فقد أحبني، و من أحبني فقد أحب اﷲ عزوجل و من أبغضه فقد أبغضني و من أبغضني فقد أبغض اﷲ عزوجل.

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو مجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق کی اُسے میں ولایتِ علی کی وصیت کرتا ہوں، جس نے اُسے ولی جانا اُس نے مجھے ولی جانا اور جس نے مجھے ولی جانا اُس نے اللہ کو ولی جانا، اور جس نے علی رضی اللہ عنہ سے محبت کی اُس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی اُس نے اللہ سے محبت کی، اور جس نے علی سے بغض رکھا اُس نے مجھ سے بغض رکھا، اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اُس نے اللہ سے بغض رکھا۔

1. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 108، 109
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 181، 182
3. حسام الدين هندي، کنز العمال، 11 : 611، رقم : 32958

ہيثمی نے اس حدیث کو طبرانی سے روایت کیا ہے اور اس کے رواۃ کو ثقہ قرار دیا ہے۔

حدیث نمبر : 26

عن علي عليه السلام أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال يوم غدير خم : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه.

(خود) حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔

1۔ احمد بن حنبل نے المسند (1 : 152) میں یہ روایت صحیح اسناد کے ساتھ نقل کی ہے۔

2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 705، رقم : 1206
3. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 604، رقم : 1369
4. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 448، رقم : 6878

5۔ ہیثمی نے اسے مجمع الزوائد (9 : 107) میں نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے رجال ثقہ ہیں۔

6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 161، 162، 163
7. ابن کثير، البدايه و النهايه، 4 : 171
8. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 77، 168، رقم : 32950، 36511

حدیث نمبر : 27

عن عبد اﷲ بن بريدة الأسلمي، قال : قال النبيا : مَن کنتُ وليه فإنّ علياً وليه. و في رواية عنه : مَن کنتُ وليّه فعليّ وليّه.

عبد اﷲ بن بریدہ اسلمی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں ولی ہوں تحقیق اُس کا علی ولی ہے۔ اُنہی سے ایک اور روایت میں ہے (کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ) جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے۔

1. حاکم، المستدرک، 2 : 129، رقم : 2589
2. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 350، 358، 361
3. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 85، 86، رقم : 77
4. عبدالرزاق، المصنف، 11 : 225، رقم : 20388
5. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 84، رقم : 12181

6۔ ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء (4 : 23) میں اسے مختصراً مَن کنتُ مولاہ فعليّ مولاہ کے الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے۔

7. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 76

8۔ ہیثمی نے مجمع الزوائد (9 : 108) میں اسے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ بزار کی بیان کردہ روایت کے رجال صحیح ہیں۔
9۔حسام الدین ہندی نے کنزالعمال (11 : 602، رقم : 32905) میں مختصراً مَن کنتُ مولاہ فعليّ مولاہ کے الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے۔

10. مناوي، فيض القدير، 6 : 218

امام حاکم نے اس روایت کو شرطِ شیخین کے مطابق صحیح قرار دیا ہے، اور اس حدیث کو ابو عوانہ سے ایک دوسرے طریق سے سعد بن عبیدہ سے بھی بیان کیا ہے۔ اُنہوں نے المستدرک میں بریدہ اسلمی سے ایک اور جگہ (3 : 110، رقم : 4578) بھی اِسی حدیث کو مختصراً بیان کیا ہے۔

حدیث نمبر : 28

متذکرہ بالا حدیث کو دوسرے مقام پر ابن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے الفاظ کے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

ما بال أقوام ينتقصون عليًّا، من ينتقص عليّاً فقد تنقصني، ومن فارق علياً فقد فارقني، إن عليّاً مني، وأنا منه، خُلق من طينتي و خُلقت من طينة إبراهيم، وأنا أفضل من إبراهيم، ذرية بعضها من بعض واﷲ سميع عليم، . . . و إنه وليکم من بعدي، فقلت : يا رسول اﷲ! بالصحبة ألا بسطت يدک حتي أبايعک علي الإسلام جديداً؟ قال : فما فارقته حتي بايعته علي الإسلام.

ان لوگوں کا کیا ہو گا جو علی کی شان میں گستاخی کرتے ہیں! (جان لو) جو علی کی گستاخی کرتا ہے وہ میری گستاخی کرتا ہے اور جو علی سے جدا ہوا وہ مجھ سے جدا ہوگیا۔ بیشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں، اُس کی تخلیق میری مٹی سے ہوئی ہے اور میری تخلیق ابراہیم کی مٹی سے، اور میں ابراہیم سے افضل ہوں۔ ہم میں سے بعض بعض کی اولاد ہیں، اللہ تعالیٰ یہ ساری باتیں سننے اور جاننے والا ہے۔۔ ۔ ۔ وہ میرے بعد تم سب کا ولی ہے۔ (بریدہ بیان کرتے ہیں کہ) میں نے کہا : یا رسول اللہ! کچھ وقت عنایت فرمائیں اور اپنا ہاتھ بڑھائیں، میں تجدیدِ اسلام کی بیعت کرنا چاہتا ہوں، (اور) میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا نہ ہوا یہاں تک کہ میں نے اسلام پر (دوبارہ) بیعت کر لی۔

1. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 49، 50، رقم : 6081
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 128

 

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)
Prophet Muhammad (pbuh) has forbidden crying out loud and wailing over the dead person

Narrated Abu Burda: That his father said, "When Umar was stabbed, Suhaib started crying: O my brother! 'Umar said, 'Don't you know that the Prophet said: The deceased is tortured for the weeping of the living'?" (Sahih Bukhari, Book #23, Hadith #377)

Narrated Jabir bin 'Abdullah : On the day of the Battle of Uhud, my father was brought and he had been mayhemed and was placed in front of Allah's Apostle and a sheet was over him. I went intending to uncover my father but my people forbade me; again I wanted to uncover him but my people forbade me. Allah's Apostle gave his order and he was shifted away. At that time he heard the voice of a crying woman and asked, "Who is this?" They said, "It is the daughter or the sister of Amr." He said, "Why does she weep? (or let her stop weeping), for the angels had been shading him with their wings till he (i.e. the body of the martyr) was shifted away." (Sahih Bukhari,Book #23, Hadith #381)

Narrated 'Aisha: When the Prophet got the news of the death of Ibn Haritha, Ja'far and Ibn Rawaha he sat down and looked sad and I was looking at him through the chink of the door. A man came and told him about the crying of the women of Ja'far. The Prophet ordered him to forbid them. The man went and came back saying that he had told them but they did not listen to him. The Prophet (p.b.u.h) said, "Forbid them." So again he went and came back for the third time and said, "O Allah's Apostle! By Allah, they did not listen to us at all." ('Aisha added): Allah's Apostle ordered him to go and put dust in their mouths. I said, (to that man) "May Allah stick your nose in the dust (i.e. humiliate you)! You could neither (persuade the women to) fulfill the order of Allah's Apostle nor did you relieve Allah's Apostle from fatigue. "
(Sahih Bukhari, Book #23, Hadith #386)

Anas b. Malik reported that Allah's Messenger (may peace be upon him) came to a woman who had been weeping for her (dead) child, and said to her: Fear Allah and show endurance. She (not recognising him) said: You have not been afflicted as I have been. When he (the Holy Prophet) had departed, it was said to her that he was the Messenger of Allah (may peace be upon him), she was mortally shocked. She came to his door and she did not find doorkeepers at his door. She said: Messenger of Allah. I did not recognise you. He said: Endurance is to be shown at first blow, or at the first blow.
(Sahih Muslim, Book #004, Hadith #2013)

'Abdullah b. 'Umar reported that Hafsa wept for 'Umar (when he was about to due). He ('Umar) said: Be quiet, my daughter. Don't you know that the Messenger of Allah (may peace be upon him) had said:" The dead is punished because of his family's weeping over it"? (Sahih Muslim, Book #004, Hadith #2015)

Ibn 'Umar reported: When 'Umar was wounded he fainted, and there was a loud lamentation over him. When he regained consciousness he said: Didn't you know that the Messenger of Allah (may peace be upon him) said:" The dead is punished because of the weeping of the living"? (Sahih Muslim, Book #004, Hadith #2018)
 
Last edited:

mrbaig

Senator (1k+ posts)
Re: Prophet Muhammad (pbuh) has forbidden crying out loud and wailing over the dead person

Islam is "Deen of Nature". Crying over the death of one's beloved is quite natural,no one can control the emotions at that time.How it is possible?This all story narrated above seems un-natural.
It is product of "Rivayat" which damaged Islam badly.
 

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)
The Ruling of crying and wailing over a Dead Person

Islam is "Deen of Nature". Crying over the death of one's beloved is quite natural,no one can control the emotions at that time.How it is possible?This all story narrated above seems un-natural.
It is product of "Rivayat" which damaged Islam badly.

The death of the Prophet's son, Ibrahim, born of Miriyah (May Allah be pleased with her) had occurred in the tenth year of Hijra. The Ahadith clearly prove that weeping over a loved one's death is permissible. But it should be void of wailing.

Wailing (
واویلا۔ ماتم۔ نوحہ) is unanimously forbidden (Haram) as will be mentioned later on. There are some Ahadith which forbid us from crying over somebody's death, and which inform us that the dead will be tormented in their graves as a result of their relatives crying over their death. This prohibition applies only to those cases where crying is accompanied with lamenting and wailing. Weeping without these two is, permissible; and the Ahadith in support of this are many, including the following:

925. Ibn `Umar (May Allah be pleased with them) reported: The Messenger of Allah (PBUH) visited Sa`d bin `Ubadah during his illness. He was accompanied by `Abdur-Rahman bin `Auf, Sa`d bin Abu Waqqas and `Abdullah bin Mas`ud (May Allah be pleased with them). The Messenger of Allah (PBUH) began to weep. When his Companions saw this, their tears also started flowing. He (PBUH) said,
"Do you not hear, Allah does not punish for the shedding of tears or the grief of the heart, but punishes or bestows mercy for the utterances of this (and he pointed to his tongue).''
[Al-Bukhari and Muslim].

Commentary
: Under the stress of grief, man becomes heavy-hearted and tears flow out from his eyes. This is something natural and beyond human control. Rather the outflow of tears results from Divine compassion. This is neither forbidden nor subject to accountability. It is only wailing which is Haram, and is punishable. Yet, man is blessed with Divine mercy if he gives expression to patience and gratefulness by his tongue. Moreover, to mention the merits and excellence of a departed soul is in itself a good thing because others may be stimulated to adopt them. But to recount them by way of wailing is disliked. A Hadith says that a dead person is tormented because of the weeping of his household. Here weeping means lamenting and wailing. Otherwise, to weep is human instinct and no curbs can be put over it. Besides, this warning is meant for such a person who might have been accustomed to wailing during his lifetime. Or he might have left a will to his family for wailing over his death. May be he consciously avoided giving a predeath warning to his kith and kin against wailing. In all the three situations, he will be equally held accountable with his soul being tormented for the wailing of his relatives. In case, he is uninvolved in any of the situations, he will remain free from hellish torments. Instead the wailers will have to bear the brunt of their sin. As the Qur'an says, "No one laden with burdens can bear another's burden.'' (17:15).

926. Usamah bin Zaid (May Allah be pleased with him) reported: A grandson (child of the daughter) of the Messenger of Allah (PBUH) was presented to him while the child was at his last breath. Tears began to flow from the eyes of the Messenger of Allah (PBUH). Sa`d said to him: "What is this, O Messenger of Allah?'' He (PBUH) said,
"It is mercy which Allah has placed in the hearts of his salves. Allah bestows His Mercy on the merciful among His slaves.''
[Al-Bukhari and Muslim].

927. Anas (May Allah be pleased with him) reported: The Messenger of Allah (PBUH) came to his son Ibrahim (May Allah be pleased with him) when he was breathing his last. The eyes of the Messenger of Allah (PBUH) began shedding tears. `Abdur-Rahman bin `Auf (May Allah be pleased with him) said, "O Messenger of Allah, you too weep?'' He (PBUH) said, "O Ibn `Auf! It is mercy.'' Then he began to weep and said,
"The eyes are shedding tears and the heart is grieved, and we will not say except what pleases our Rubb. O Ibrahim! Indeed we are grieved by your departure.''
[Al-Bukhari].

Commentary
: The death of the Prophet's son, Ibrahim, born of Miriyah (May Allah be pleased with her) had occurred in the tenth year of Hijra. The Ahadith clearly prove that weeping over a loved one's death is permissible. But it should be void of wailing.

Source
 
Last edited:

miarif

Politcal Worker (100+ posts)
Re: Prophet Muhammad (pbuh) has forbidden crying over the dead person

Jazak Allah dear brother you gave us pearals
 

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
Re: Prophet Muhammad (pbuh) has forbidden crying out loud and wailing over the dead person

Islam is "Deen of Nature". Crying over the death of one's beloved is quite natural,no one can control the emotions at that time.How it is possible?This all story narrated above seems un-natural.
It is product of "Rivayat" which damaged Islam badly.

جو شخص نبی کی سنت کو جھٹلانے اور اس سے انکار کرنا اپنا عقیدہ بناے
وہ کس طرح اپنے آپ کو مسلمان کہ سکتا ہے
قرآن اور سنت کو ماننا اور اس پر عمل کرنا ہی ہر مسلمان پر فرض ہے




غم اور خوشی کا اظھار فطرت میں ہے
لیکن ان جذبات پر قابو رکھنا اور نبی کے احکامات پر عمل کرنا ہر مسلمان پر لازمی ہے
جو اپنے نفس پر قابو نہ رکھے تو اس میں اور جانور میں کوئی فرق نہیں


صحیح احادیث کی روشنی میں غم کے موقعے پر بلند آواز رونا، چہرہ اور سینہ کوبی کرنا اور اپنے آپ کو اذیت دینا حرام ہے


الله تعالی ہمیں قرآن اور سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
 

hans

Banned
Re: Prophet Muhammad (pbuh) has forbidden crying out loud and wailing over the dead person

Musab ibn Umair was a sahabi (companion) of Muhammad
He was from the Banū Abd al-Dār branch of the tribe of Quraish. He embraced Islam in 614 and, on the advice of the Prophet,
went to Abyssinia for safety with other Shabas. He martyred in the Battle of Uhud in 625. He is said to be the first envoy of Islam.

When the battle came to an end the Prophet stood by the dead body of Musab ibn Umair and recited the verse: (Minal momeneena rejalun sadqu ma ahadullaha alaihe) Meaning: There are some persons among the devoted Muslims (momeneen) who kept the promise made to Allah.
When he died, the non-believers falsely claimed the prophet was dead, because the face of Mus'ab bin umair was similar to that of the prophet.
While returning from Uhud after burying the martyrs, the Prophet Muhammad(صلی الله علیھ وآلہ وسلم) met Hammanah bint Jahsh, the wife of Mus'ab. He told her about the killing of her brother, Abdullah ibn Jahsh. She patiently listened and prayed for the martyr. Then the Prophet informed her of the Killing of her maternal uncle Hamza Bin Abdul Muttalib. She remained calm and prayed for her uncle. Then the Prophet broke the news of the martyrdom of her husband upon which she could not control herself and broke into tears and started crying loudly.


<><><><><><><><><>
Battle of Badr, Friday morning the 17th of Ramadan

Habban ibn Wasi ibn Habban (raa) told me on the Authority of some elders of his tribe that on the day of Badr the apostle dressed the ranks of his companion wth an arrow which he held in his hand.

As he passed by Sawad ibn Ghaziya (raa), an ally of IbnAdiy ibn al-Najjar (raa), who was mustansil (standing out of line) he pricked him in his belly with the arrow, saying, Stand in line, O Sawad!

You have hurt me, O apostle of Allah, he cried, and Allah has sent you with right and justice so let me retaliate.

The apostle uncovered his belly and said Take your retaliation.

Sawad (raa) embraced him and kissed his belly. He asked what had made him do this and he replied, O apostle of Allah, you see what is before us and I may not survive the battle and as this is my last time with you I want my skin to touch yours.

The apostle blessed him.
Lessons to be learnt:

Humility of Prophet (saws): He did not tell other soldiers to take him away and got tortured for what he said like leaders of our times would
Justice of Prophet (saws) when he allowed the companion to retaliate
The love the Sahaba (Companions) (raa) for Prophet (saws)

<><><><><><><><><><>


Anas bin Malik (raa) reported: After the death of Messenger of Allah (saws), Abu Bakr said to Umar (raa) : Let us visit Umm Aiman (raa) as Messenger of Allah (saws) used to visit her.

As we came to her, she wept. They (Abu Bakr and Umar (raa)) said to her, What makes you weep? Do you not know that what Allah has in store for His Messenger (saws) is better than (this worldly life)?

She said, I weep not because I am ignorant of the fact that what is in store for Messenger of Allah (saws) (in the Hereafter) is better than this world, but I weep because the Revelation has ceased to come.

This moved both of them to tears and they began to weep along with her.

The Book Pertaining to the Merits of the Companions (raa) of the Holy Prophet (saws) (Kitab Al-Fadail Al-Sahabah) Muslim: Book 31, Hadith 6009


Visiting The Pious Person Loving Them And Adoption Of Their Company
Riyadh as-Saaliheen (The Gardens of the Righteous), by Imam an-Nawawi

Umm Aiman (raa) belonged to Abyssinia (Ethiopia) and was a slave-girl of the Prophets father (Abdullah bin Abdul-Muttalib). After the death of Abdullah, Umm Aiman (raa) remained with the Prophets mother, Aminah, and took great care in his upbringing. Subsequently, the Prophet (saws) set her free and she was married to Zaid bin Harithah (raa)

This Hadith holds justification for weeping over the death of the pious and also shows that it is desirable to visit such persons to whom ones friends go to pay respect.

The incident mentioned in this Hadith also shows the love that the Companions (raa) of the Prophet (saws) had for him.
 

Truth_Hurts

Politcal Worker (100+ posts)
Re: Prophet Muhammad (pbuh) has forbidden crying out loud and wailing over the dead person

crying is not forbidden.. so basically fabricating lies in the name of hazrat Muhammad pbuh is even worst. What is forbidden that when people start saying or acting that the have lost everything.. the ayat.. "ina lilahi wa ina ilahiye rajion " is the perfect example of it that we came from Allah and its him whom to we return basically tells us that we are not property of our mother, father, brother, sister, wife, husband but we are property of Allah.. Yes we are sad but we are fine with what Allah has chosen for us..

I have heard in pakistan people blaming Allah for taking life of their young boy.. that mother was saying the words that i can't even describe .. that is forbiden.. but Hazrat Muhammad pbuh cried at the death of his son Ibrahim . so we cannot say that crying is forbidden and people who make up stories in the name of hazrat Muhammad pbuh are the ones who are destroying islam.. and most pakistan mullahs are like that


جو شخص نبی کی سنت کو جھٹلانے اور اس سے انکار کرنا اپنا عقیدہ بناے
وہ کس طرح اپنے آپ کو مسلمان کہ سکتا ہے
قرآن اور سنت کو ماننا اور اس پر عمل کرنا ہی ہر مسلمان پر فرض ہے




غم اور خوشی کا اظھار فطرت میں ہے
لیکن ان جذبات پر قابو رکھنا اور نبی کے احکامات پر عمل کرنا ہر مسلمان پر لازمی ہے
جو اپنے نفس پر قابو نہ رکھے تو اس میں اور جانور میں کوئی فرق نہیں


صحیح احادیث کی روشنی میں غم کے موقعے پر بلند آواز رونا، چہرہ اور سینہ کوبی کرنا اور اپنے آپ کو اذیت دینا حرام ہے


الله تعالی ہمیں قرآن اور سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
 

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)
Re: Prophet Muhammad (pbuh) has forbidden crying out loud and wailing over the dead person

Mus‘ab ibn ‘Umair was a sahabi (companion) of Muhammad
He was from the Banū ‘Abd al-Dār branch of the tribe of Quraish. He embraced Islam in 614 and, on the advice of the Prophet,
went to Abyssinia for safety with other Shabas. He martyred in the Battle of Uhud in 625. He is said to be the first envoy of Islam.

When the battle came to an end the Prophet stood by the dead body of Mus‘ab ibn ‘Umair and recited the verse: (Minal momeneena rejalun sadqu ma ‘ahadullaha ‘ alaihe) Meaning: “There are some persons among the devoted Muslims (momeneen) who kept the promise made to Allah.”
When he died, the non-believers falsely claimed the prophet was dead, because the face of Mus'ab bin umair was similar to that of the prophet.
While returning from Uhud after burying the martyrs, the Prophet Muhammad(صلی الله علیھ وآلہ وسلم) met Hammanah bint Jahsh, the wife of Mus'ab. He told her about the killing of her brother, Abdullah ibn Jahsh. She patiently listened and prayed for the martyr. Then the Prophet informed her of the Killing of her maternal uncle Hamza Bin Abdul Muttalib. She remained calm and prayed for her uncle. Then the Prophet broke the news of the martyrdom of her husband upon which she could not control herself and broke into tears and started crying loudly.

The women mentioned in the above narration was not the only one who broke into tears and started crying loudly after seeing a dead one. The point is that our beloved Prophet Muhammad forbid this practice:

Narrated 'Aisha: When the Prophet got the news of the death of Ibn Haritha, Ja'far and Ibn Rawaha he sat down and looked sad and I was looking at him through the chink of the door. A man came and told him about the crying of the women of Ja'far. The Prophet ordered him to forbid them. The man went and came back saying that he had told them but they did not listen to him. The Prophet (p.b.u.h) said, "Forbid them." So again he went and came back for the third time and said, "O Allah's Apostle! By Allah, they did not listen to us at all." ('Aisha added): Allah's Apostle ordered him to go and put dust in their mouths. I said, (to that man) "May Allah stick your nose in the dust (i.e. humiliate you)! You could neither (persuade the women to) fulfill the order of Allah's Apostle nor did you relieve Allah's Apostle from fatigue. " (Sahih Bukhari, Book #23, Hadith #386)
 

mrbaig

Senator (1k+ posts)
Re: Prophet Muhammad (pbuh) has forbidden crying out loud and wailing over the dead person

Discussing such matters is waste of time,nothing else !
 

Back
Top