اور بلا چل گیا۔۔
ویسے چلا تو بلا ہے پر بلو کی چیخیں ہیں کہ اسمانوں تک اور بےبے (نانی) کی لندن کے مکانوں تک نکل رہی ہیں۔۔
گلگت میں گل خان کی ٹوپی پہننے سے ووٹ ملتا ہے، یہی سوچ کر بلو گئی تھی گلگت ٹوپی پہن کر، مگر کمبختوں نے ووٹ کی جگہ تشریف پر بوٹ دے مارا۔۔۔
دوسری طرف ٹوپی باز نانی سمجھ رہی تھی کہ شاید کپتان کی کاپی کرکے گلگتی ٹوپی پہن کر میدان مار لونگی، مگر وہاں کے لوگوں نے اسے ٹوپی پہنادی،اور اس کی پلاسٹکی خبصورتی کے جال میں نہ ائے۔
ویسے بھی بلے کا کام ہی چلنا ہوتا، اور نہ چلنے والے بلے کو ٹک ٹک کا نام دیا جاتا ہے،۔ تو تمہیں کس نے کہا تھا بلے کے اگے ناچنے کو ،ارام سے بیٹھے رہتے ایک طرف کو،۔ نہ تم دو نمبریوں کو ٹوپیاں پہننی پڑتیں ، نہ تمہارے ساتھ تمہارے بھگوڑے خلائی کھوتوں کو لوگوں سے ماں بہن کی گالیاں کھانی پڑتیں۔۔