کسی شہری کی خفیہ کال ریکارڈ کتنا بڑا جرم؟ عدالت کے سوالات

1phnecalalreord.jpg

غیرقانونی ریکارڈ کی گئی کالز کو ریلیز کرنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہو گی؟: عدالت

سینئر صحافی واینکرپرسن امیر عباس نے نجی ٹی وی چینل سچ نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں کسی بھی شہری کی رضامندی کے بغیر فون لائن کو ٹیپ کرنا یا کالز ریکارڈ کرنے کو جرم سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں اس حوالے سے فون کرنے اور سننے والے دونوں یا کسی ایک فریق کی اجازت کے بغیر کال ریکارڈ کرنا غیرقانونی ہے۔

شہریوں کی پرائیویسی کے بارے میں دنیا بھر کے ممالک بہت زیادہ حساس اور محتاط ہوتے ہیں ۔


انہوں نے ایڈورڈ سنوڈن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکی قومی سلامتی کمیٹی (این ایس اے) کے کال ریکارڈنگ پروگرام کا انکشاف کیا تھا جس کے بعد ایک امریکی عدالت نے اس ادارے کے اس پروگرام کو غیرقانونی قرار دے دیا تھا۔ سوشل میڈیا کا سب سے بڑا پلیٹ فارم فیس بک بھی اس حوالے سے عدالت میں کیس ہار چکا ہے۔

انہوں نے دیگر ممالک کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ نیوزی لینڈ میں کسی کی نجی گفتگو کو ریکارڈ کرنا پرائیویسی قوانین کی خلاف ورزی کے تحت جرم قرار دیا گیا ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت میں دہلی ہائیکورٹ نے بھی واضح کیا ہے کہ متعلقہ فرد کی اجازت کے بغیر فون کال ریکارڈ کرنا بھارتی آئین کے آرٹیکل 21 کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں سوشل میڈیا پر کچھ شہریوں اور چند اہم شخصیات کی نجی گفتگو کی کال ریکارڈنگ منظر عام پر آنے کا سلسلہ شروع ہوا، جن افراد کی گفتگو لیک ہوئی ان میں حاضر وسابق ججز کے رشتہ دار، سیاسی رہنما، وکیل اور صحافی بھی شامل تھے۔ 20 مئی کو مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا۔

آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئیں جس پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے 5 رکنی بنچ تشکیل دے دیا اور کمیشن کو آئندہ سماعت تک کارروائی سے روکتے ہوئی نوٹیفکیشن معطل کر دیا تھا۔ دوسری طرف پارلیمنٹ نے آڈیو لیکس تحقیقات کیلئے خصوصی کمیٹی قائم کر دی جس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کو نجم الثاقب سمیت 3 افراد کو طلب کیا تھا۔

30 مئی کو نجم الثاقب نے سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے آڈیو لیکس تحقیقات کیلئے تشکیل دی گئی خصوصی کمیٹی کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔ نجم ثاقب نے موقف اختیار کیا کہ سپیکر قومی اسمبلی نے مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کیلئے کمیٹی بنا کر پٹیشنر کی پرائیویسی میں مداخلت کی ہے اور پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی غیرقانونی ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے نجم الثاقب کو پارلیمانی کمیٹی طلب کرنے کا ثمن معطل کرتے ہوئے 7 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔ عدالتی حکم نامے میں وفاقی وزارت داخلہ،وزارت دفاع اور پی ٹی اے کو بھی فریق بنانے کی ہدایت کی گئی۔ عدالت نے 5 رکنی عدالتی معاونین بھی مقرر کیے جن میں اٹارنی جنرل سمیت اعتزاز احسن، مخدوم علی خان، رضا ربانی اور محسن شاہنواز رانجھا شامل ہیں۔

عدالت کی طرف سے معاملے پر مختلف سوالات اٹھائے گئے جن میں پوچھا گیا ہے کہ کیا آئین وقانون شہریوں کی کالز کی خفیہ ریکارڈنگ کی اجازت دیتا ہے؟ اگر اجازت دیتا ہے تو کون سی اتھارٹی کس میکنزم کے تحت ایسا کر سکتی ہے۔ ایسی آڈیو ریکارڈنگز خفیہ رکھنے اور غلط استعمال روکنے کیلئے حفاظتی انتظامات کیا ہیں؟ اگر اجازت نہیں ہے تو پرائیویسی کی خلاف ورزی پر کون سی اتھارٹی ذمہ داری ہے؟

عدالت نے سوال اٹھایا کہ غیرقانونی ریکارڈ کی گئی کالز کو ریلیز کرنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہو گی؟ کیا پارلیمنٹ کسی پرائیویٹ شخص کے معاملے پر انکوائری کر سکتی ہے؟ کی قواعد وضوابط سپیکر قومی اسمبلی کو اجازت دیتے ہیں کہ آڈیو لیکس پر کمیٹی قائم کریں؟ جسٹس بابر ستار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پارلیمنٹ کے احترام میں تحمل دکھاتے ہوئے کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن معطل نہیں کر رہے تاہم خصوصی کمیٹی کی طرف سے درخواست گزار نجم الثاقب کو طلب کرنے کا ثمن معطل رہے گا۔