چیف جسٹس نے آئینی بینچ کی مخالفت کیوں کی؟اختر حسین نے بتادیا

hj7805DQ.jpg

جوڈیشل کمیشن کے رکن اور پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین نے کہا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں چیف جسٹس نے آئینی بینچ کے قیام کے حوالے سے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ کے تمام ججز کو آئینی بینچ کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔

جوڈیشل کمیشن کے ممبر اور پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین نے ایک ٹی وی پروگرام "اسپاٹ لائٹ" میں گفتگو کرتے ہوئ کہا کہ چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی اور دیگر سینئر ججز منصور علی شاہ اور منیب اختر نے آئینی بینچ کے متعلق ایک اہم موقف اپنایا تھا کہ سپریم کورٹ کے تمام ججز کو اس کا حصہ بنایا جانا چاہیے اور اس کی سربراہی چیف جسٹس پاکستان کو کرنی چاہیے۔ اختر حسین کا کہنا تھا کہ یہ موقف نہ صرف ججز کا تھا بلکہ شبلی فراز اور عمر ایوب نے بھی اس موقف کی حمایت کی تھی۔

اختر حسین نے بتایا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے تحت چیف جسٹس کی نامزدگی کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں سینئر ججز یحییٰ آفریدی، منصور علی شاہ اور منیب اختر کے نام زیر غور آئے۔ ان میں سے تیسرے نمبر پر موجود جج کو چیف جسٹس پاکستان کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ نکتہ نظر بھی تھا کہ تین سینئر ججز کے بعد جو جج سب سے سینئر ہو گا، اسے آئینی بینچ کی سربراہی سونپی جائے۔ اس میں سنیارٹی کو اہمیت دی گئی اور مختلف صوبوں کے ججز کو بھی اس میں شامل کیا گیا۔

اختر حسین نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے بارے میں بتایا کہ اجلاس بہت اچھے ماحول میں ہوا اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بہترین انداز میں معاملات کو بیلنس کیا۔ تاہم، وفاقی وزراء شبلی فراز اور عمر ایوب نے اجلاس کو غیر مؤثر قرار دیتے ہوئے اعتراض کیا کہ آئینی بینچ کا تیرہواں جج، جو اس بینچ کی سربراہی کرے گا، ابھی تک نامزد نہیں کیا گیا۔ اس پر جواب دیتے ہوئے اختر حسین نے کہا کہ آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ اگر کسی جج کی غیر موجودگی ہو یا وہ انکار کرے، تو اس کی وجہ سے اجلاس غیر مؤثر نہیں ہوتا۔ اس بات پر جسٹس منیب اختر نے بھی تائید کی۔

جوڈیشل کمیشن کے اعلامیے میں اس بات کا ذکر کیا گیا کہ عمر ایوب نے ایک رکن کی غیر موجودگی میں کمیشن کے کورم پر اعتراض کیا تھا۔ تاہم، اس اعتراض پر ووٹنگ کے ذریعے اکثریتی رائے سے فیصلہ کیا گیا کہ اجلاس آئین کے مطابق ہے اور ایک رکن کی غیر موجودگی میں بھی اجلاس کو جاری رکھا جا سکتا ہے۔ اس فیصلے نے جوڈیشل کمیشن کی قانونی حیثیت کو مزید مستحکم کیا۔

اس تمام صورتحال کے بعد، جوڈیشل کمیشن نے آئینی بینچ کی تشکیل اور ججز کی سنیارٹی کے حوالے سے اہم فیصلے کیے ہیں، جو آئندہ عدالتی نظام میں اہم کردار ادا کریں گے۔