چار اپریل انصاف کا ایک سیاہ دن

Syed Anwer Mahmood

MPA (400+ posts)
تاریخ:2 اپریل، 2017​
29vc5fl.jpg

چار اپریل انصاف کا ایک سیاہ دن
تحریر: سید انور محمود

نوٹ: یہ مضمون پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی یاد میں لکھا گیا ہے جنہیں چار اپریل 1979 کو پھانسی دی گئی تھی جو ایک عدالتی قتل تھا، اس مضمون کا موجودہ پاکستان پیپلز پارٹی کے کردار سے کوئی تعلق نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چار اپریل 1979 پاکستان اور دنیا بھرکے جمہوریت پسند عوام کے لیے ایک ایسا منحوس دن تھا ، جسے تاریخ میں ایک سیاہ ترین دن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اگر آپ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو لازمی آپ اس عدالتی فیصلے کی مذمت کرینگے جو لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس مولوی مشتاق اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس انوارالحق نے ایک آمر جنرل ضیاء الحق کے کہنے پراور کچھ اپنی ذاتی ناپسندیدگی کی وجہ سے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کرنے کےلیے پھانسی دینے کا غلط فیصلہ دیا تھا۔ چار اپریل 1979 کو بھٹو کو پھانسی دئے دی گئی، جو ایک عدالتی قتل تھا، جس کے ذمہ داروں میں آمر جنرل ضیاء الحق، مولوی مشتاق اور انوارالحق شامل تھے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کسی بزدل کا نام نہیں تھا، وہ مسلم اور تیسری دنیا کا ہیرو تھا اور یہ ہی اس کا قصور تھا، کیونکہ امریکی سامراج کو اس طرح کے اور خاص کر تیسری دنیا کے وہ رہنما بلکل پسند نہیں آتے جو سامراج کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرتے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ ایک موقعہ پر سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجرنے بھٹو کو کھلے عام سزا دینے کی دھمکی دی تھی۔ چار اپریل 1979کے سیاہ دن کےحوالے سے مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ذوالفقار علی بھٹوکو قتل کیا گیا تھا، اس میں امریکہ، پاکستان کا حکمراں فو جی ٹولہ ، اعلی عدالتوں کے جج اور جماعت اسلامی سب شامل تھے۔

پاکستان کی عدلیہ پر ہمیشہ سے یہ الزام لگا ہوا ہے کہ یہ کبھی بھی غیر جانبدار نہیں رہی، اس کے بہت زیادہ فیصلے اور خاص کر سیاسی فیصلے ہمیشہ نظریہ ضرورت کے تحت ہوئے ہیں، سب سے پہلےجسٹس منیر کا وہ بدنام زمانہ فیصلہ آیا جس میں گورنر جنرل غلام محمدکےغیر جمہوری فیصلےکو نظریہ ضرورت کی چھتری تلےجائز قرار دیا گیا تھا۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی عدالتی قتل کہلاتی ہے۔ 1977 میں جنرل ضیاء الحق نے بھٹو سے حکومت تو چھین لی لیکن بھٹو کی شہرت اور عوام کی اس سے محبت نہ چھین سکا، سدا کا بزدل تھااس لیے بھٹو کا وجود ہی ختم کرنے میں اپنی عافیت جانی۔ اقتدار پر قبضے کے بعد چیف جسٹس یعقوب علی خان کو گھر میں نظر بند کرکے جبری رخصت پر بھیج دیا اور اپنے سے بڑئے خوشامدی اور بزدل جسٹس انوارالحق کو ستمبر 1977 میں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنادیا۔جسٹس مولوی مشتاق کو بھٹو اس لیے ناپسند تھا کہ بھٹو نے اسے لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس نامزد نہیں کیا تھا۔ ضیاءالحق نے جسٹس مولوی مشتاق کو 12 جنوری 1978 کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقررکیا، جس نے 18 مارچ 1978 کو بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ سنایا جس میں اس نےآخری جملہ یہ کہا کہتمہیں گلے میں پھندا ڈال کر لٹکایا جائے گا تاوقتیکہ تم مر جاو۔

بعد میں چیف جسٹس انوارالحق کے سپریم کورٹ نےبھی بھٹو کی پھانسی کی سزا برقرار رکھی اور 4 اپریل 1979 کی صبح بھٹو کو سرکاری طور پر پھانسی دینے کا پی ٹی وی کے زریعے اعلان کیا گیا۔ سپریم کورٹ کی بھٹو کو پھانسی دینے والی بینچ میں جسٹس نسیم حسن شاہ بھی شامل تھے جو کسی وقت میں جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمیت طلبہ سے تعلق رکھتے تھے۔ 17 اگست 1988 کو جنرل ضیاءالحق ایک فضائی حادثے میں مارا گیا اور سوائے اس کی بتیسی کے کچھ نہ ملا۔ قدرت کا انصاف دیکھیے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد مولوی مشتاق کو ہر وقت موت کا خوف طاری رہتا تھا، مرنے سے قبل ایک پرُ اسرار بیماری میں مبتلا ہوگیا تھا، جس کے باعث اس کے جسم سے بدبو آنا شروع ہو گئی تھی، جس دن مولوی مشتاق زندگی کی قیدسے آزاد ہوا،اس کے جنازے پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کر دیا تھا۔اخبارات میں شائع ایک تصویر کے نیچے لکھا ہوا تھا کہ بھٹو شہید کو سزا دینے والے جج مولوی مشتاق کی میت سڑک پر لاوارث پڑی ہے۔ مولوی مشتاق کے جنازے پر شہد کی مکھیوں نے اتنا شدید حملہ کیا تھا کہ آخری رسومات میں شامل لوگ جنازہ چھوڑ کر بھاگ گئے تھے، اس واقعے میں چار افراد کی موت بھی واقع ہوگئی تھی۔

مورخہ 21 مارچ 1978 کو ذوالفقار علی بھٹو نے جیل سے عدالت کو کہا تھا میرا خدا جانتا ہے کہ میں نے اس آدمی کا خون نہیں کیا، اگر میں نے اس کا ارتکاب کیا ہوتا تو مجھ میں اتنا حوصلہ ہے کہ میں اس کا اقبال کر لیتا اور اقبال جرم اس وحشیانہ مقدمے کی کارروائی سے کم اذیت دہ اور بے عزتی کا باعث ہوتا۔ میں مسلمان ہوں اور ایک مسلمان کی تقدیر کا فیصلہ اس ذات مطلق کے ہاتھ میں ہوتا ہے، میں صاف ضمیر کے ساتھ اس کے حضور پیش ہو سکتا ہوں اور اس سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس کی مملکت اسلامیہ پاکستان کی راکھ کے ڈھیر سے دوبارہ ایک باعزت قوم کی صورت میں تعمیر کی ہے۔ میں آج کوٹ لکھپت کے اس بلیک ہول میں اپنے ضمیر کے ساتھ مطمئن ہوں ( بحوالہ کتاب: ذوالفقار علی بھٹو، عدالتی قتل)۔معروف صحافی اور دانشور وکٹوریہ شو فیلڈبھٹو کا مقدمہ اور عمل درآمد کے عنوان سے تحریر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے حوالے سے واقعات و حادثات اب پاکستان کی قومی تاریخ کا حصہ ہیں۔ انصاف کے قتل کے اس تاریخی مقدمے کے دیگر تمام کردار بھی دنیا سے رخصت ہو کر اس آخری عدالت میں پہنچ چکے ہیں جہاں انصاف کا قتل نہیں بلکہ انصاف ہو گا۔

جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد یہ بات تسلیم کی کہ بھٹو کوپھانسی دینے کا فیصلہ دباو کا نتیجہ تھا، نسیم حسن شاہ نے یہ بھی کہا تھا کہ سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مولوی مشتاق کو یہ مقدمہ نہیں سننا چاہیے تھا کیونکہ ان کی بھٹو سے ذاتی رنجش تھی۔ نسیم حسن شاہ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بھٹو کے مقدمہ میں شک کا فائدہ انھیں ملنا چاہیے تھا۔ نسیم حسن شاہ کے اس اعترافی بیان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کو قانونی تہذیب اور وجود کے قتل سے کم نہیں سمجھا جائے گا اور ہر جمہوریت پسند کے نزدیک یہ عدالتی نظام کے غلط استعمال کا ایک ناقابل تلافی واقعہ تھا۔ تاریخ کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ 23 مارچ 1931 کوکوئی مجسٹریٹ بھگت سنگھ کی پھانسی کے وقت وہاں کھڑا ہونے اور موت کے سرٹیفیکٹ پر دستخط کرنے کےلیے تیار نہیں تھا ۔ ایک آنریری مجسٹریٹ نے یہ کام کیا تھا اور وہ مجسٹریٹ نواب محمد احمد قصوری تھا اور یہ ہی نواب قصوری اپنے ہی قتل کے الزام میں اپنے عہد کے ایک اور بھگت سنگھ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا سبب بنا ۔

ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل میں جنرل ضیاء الحق کے ساتھ جماعت اسلامی بھی شامل تھی۔ جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد، ضیاءالحق اورانوارالحق تینوں کا تعلق جالندھر سے تھا مگر ایک تعلق اس بھی زیادہ مضبوط تھا اور وہ تھا بھٹو دشمنی کا، جس میں مولوی مشتاق اور نسیم حسن شاہ بھی شامل تھے۔ بھٹو پھانسی پاکرتاریخ میں شہید کہلایا جبکہ ضیاءالحق اور اس کے ساتھیوں کی پہچان قاتلوں کی ہے، آج نہ کوئی مولوی مشتاق کو جانتا ہے اور نہ ہی انوارالحق کو، اور نہ ہی میاں طفیل محمد کا تاریخ میں کوئی مقام ہے مگر ذوالفقار علی بھٹو عدالتی قتل کے بعد پاکستانی تاریخ کا ایک مضبوط کردار بن چکے ہیں۔
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
ہر کوئی عدالتوں کی جانبداری کا رونا روتا ہے لیکن عدالتوں سے اپنی مرضی کا فیصلہ کروانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے
 

Constable

MPA (400+ posts)

پاکستان کی 'اعلی*عدلیہ' سے ایسا انصاف صرف سندھ دھرتی کے سپوتوں کا مقدر ہے
(clap)[FONT=&amp]۔[/FONT]
پنجاب کے بٹ جوانوں کی نصیب میں معافی نامے لکھ کر جدہ فرار جیسے شرمناک طوق ڈال کر تاریخ کا کچرا بننے کیلئے چھوڑ دیے گئے ہیں۔

نوٹ: عدلیہ کو اعلیٰ لکھنے کی مجبوری ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کا لفظی ترجمہ ہے ورنہ پاکستانی عدلیہ کا کردار اسقدر طوائفانہ ہے کہ اسے کسی شریفانہ نام سے منسوب ہی نہیں کیا جا سکتا۔
 

HamzaK

Banned
The thread starter claims that
[FONT=&quot] ذوالفقار علی بھٹوکو قتل کیا گیا تھا، اس میں امریکہ، پاکستان کا حکمراں فو جی ٹولہ ، اعلی عدالتوں کے جج اور جماعت اسلامی سب شامل تھے۔[/FONT]
and by doing this, he's giving impression that Pakistan Army did so because Americans wanted Bhutto dead? Americans wanted Bhutto dead because he was making our nuclear bomb? Did Gen. Zia roll back our nuclear program or bomb making was actually finished during Zia's government?

If Mr Bhutto was anti-American because he was making our nuclear bomb, then Pakistan Army and Gen. Zia were also anti-American if nuclear technology is the standard of going against America.

Americans might also hate Bhutto because he was pro-Communism, but what about President Nixon? Wasn't he a good friend of Bhutto? So Nixon was also pro-Communism?

Zia was bad, an American agent; right. Who appointed him? Americans did?
 

HamzaK

Banned
Mr Anwar Mehmood says:

[FONT=&quot] اگر آپ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو لازمی آپ اس عدالتی فیصلے کی مذمت کرینگے جو لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس مولوی مشتاق اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس انوارالحق نے ایک آمر جنرل ضیاء الحق کے کہنے پراور کچھ اپنی ذاتی ناپسندیدگی کی وجہ سے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کرنے کےلیے پھانسی دینے کا غلط فیصلہ دیا تھا۔ [/FONT]

You think Mr Bhutto was very democratic? He was a staunch believer of democracy that's why he dismissed democracy in Balochistan and NWFP and threw political workers in jail?

Did Zia-ul-Haq set up Federal Security Forces to spank the politicians twice a day everyday? Or it was your democratic Bhutto who used FSF to intimidate, beat up, and control the opposition and control the army as well?
 

HamzaK

Banned
When I was reading Macbeth, I had one character in my mind of Zulfikar Ali Bhutto. Both Macbeth and Z.A Bhutto were over-ambitious. They could do anything for grabbing power. Mr Bhutto allowed the bloodbath of East Pakistan by conspiring with Sheikh Mujib and Gen. Tikka Khan. Remember, a couple of months after assuming power, Mr. Bhutto dismissed the Army Chief (who had replaced Yahya Khan) and appointed Tikka Khan as the Chief of Army Staff. The same Tikka Khan who led Operation Searchlight in East Pakistan. Here you can see Bhutto had a big hand in this operation; actually the next day of this operation, Bhutto returned to West Pakistan (from the East) and said, 'Pakistan has been saved'.

Circumstantial evidences prove that Bhutto, Indira Gandhi and Sheikh Mujib had their hands in glove to break Pakistan. If Pakistan wasn't broken in 1971, Bhutto could have become the Prime Minister of this country in his dreams only.
 

HamzaK

Banned
It's an irony that the Champion of Democracy, Shaheed Zulfikar Ali Bhutto denied the democratic right of Bengalis to form government following the 1970 election results. Our dear 'Shaheed' said Sheikh Mujib (who had simple majority to form the government on his own) must share power with Pakistan Peoples' Party. Amazing fact, isn't it?

When the assembly was going to meet for the first time after 1970 elections, our Champion of Democracy said like a Badmash Wadera 'PPP ka koi banda Dhaka gaya to main us ki tangein torr dunga'. How arrogant, and how badmash, wasn't he?

Because of this 'badmashi' of Bhutto, there came a deadlock between East and West halves of the country and hopes for any conciliation died down.
 
Last edited:

HamzaK

Banned
You call it 'judicial murder', I call it 'revenge of God'. Bhutto caused killings of hundreds of thousands of Pakistanis in 1971 in partnership with Sheikh Mujib and Indira Gandhi...Allah killed all the three villains of the Fall of East Pakistan. Sheikh Mujib and Indira were killed by their own people and Bhutto was hanged and humiliated by the country, its army and judiciary that he played games with.
 

HamzaK

Banned

پاکستان کی 'اعلی*عدلیہ' سے ایسا انصاف صرف سندھ دھرتی کے سپوتوں کا مقدر ہے
(clap)[FONT=&amp]۔[/FONT]
پنجاب کے بٹ جوانوں کی نصیب میں معافی نامے لکھ کر جدہ فرار جیسے شرمناک طوق ڈال کر تاریخ کا کچرا بننے کیلئے چھوڑ دیے گئے ہیں۔

نوٹ: عدلیہ کو اعلیٰ لکھنے کی مجبوری ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کا لفظی ترجمہ ہے ورنہ پاکستانی عدلیہ کا کردار اسقدر طوائفانہ ہے کہ اسے کسی شریفانہ نام سے منسوب ہی نہیں کیا جا سکتا۔


Aap ki Sindh dharti kay is sapoot Zulfikar Ali Bhutto ko kisi nay roka tha kay wo bhi koi muafi naama sign kartay aur Moscow tashreef lay jatay? Bahadur Sapoot ki bahadur sahibzadi to kei bar Europe aur Dubai tashreef lay gaeen, Musharraf kay saath NRO bhi kia. Aap ki Sindh dharti kay aik aur sapoot Asif Ali Zardari bhi kei bar farar ho kar Dubai tashreef lay gaye, aur bhi bohot baray baray sapoot hain Sharjeel Memon jesay jo ghareeb Sindhiyon ka paisa boat aur washing machine mein bhar kar farar huay.

 

HamzaK

Banned
Sindh dharti kay ye bahadur sapoot, Sindh dharti ko Karbala bana chukay hain, khud sharab peetay hain magar ghareeb Sindhiyon ko peenay ka pani bhi nahi detay. Raushniyon kay sheher Karachi ko Kachra-City mein tabdeel kar dia hai, aur Larkana ko Liyari-2 mein.

Aap say aajizana darkhwast hai, kay ab esay bahadur sapoot paida karna band kar dein. Kuchh achha nahi kar saktay to bura to na karein.
 

ahmedameen786

Politcal Worker (100+ posts)
533db004b0e44.jpg
533db004b0e44.jpg
533db004b0e44.jpg
533db004b0e44.jpg

[h=2]بھٹو کی پھانسی: انصاف یا عدالتی قتل؟[/h]عامر ریاض


سر شاہنواز بھٹو کے فرزند اور بے نظیر بھٹو کے والد ذوالفقار علی بھٹو کا شمار ملک پاکستان کے ہر دلعزیز اور متنازعہ ترین سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے۔ ان کی بنائی پیپلز پارٹی کا پاکستانی سیاست میں اس قدر زور رہا ہے کہ 1968 سے 2000 تک کے دور کو پیپلز پارٹی اور اینٹی پیپلز پارٹی میں تقسیم کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔

قائداعظم محمد علی جناح کی طرح ذوالفقار علی بھٹو بھی ایسے غیر پنجابی لیڈر تھے جنھوں نے پنجابیوں کو ازحد متاثر ہی نہ کیا بلکہ دسمبر 1970 کے انتخابات میں پنجاب سے حاصل کردہ واضح برتری ہی کی بدولت وہ پاکستان کی وزارت عظمیٰ تک پہنچے۔
آج ہی کے دن 4 اپریل 1979 کو، 35 برس قبل انھیں فوجی حکمران جنرل ضیاالحق کی ایما پر بظاہر عدالتی کارروائی کے ذریعے پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ ان کے عدالتی قتل کو اسی عدالت کے ایک جج جسٹس نسیم حسن شاہ غلط قرار دے چکے ہیں۔ مکافات عمل کو ماننے والے تو ضیاالحق کی موت کو اسی غلط فیصلہ کا منطقی انجام قرار دیتے ہیں۔
جنرل ضیاالحق ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت 5 جولائی 1977 کو فوجی طاقت کے زور پر اقتدار پر قابض ہوئے تھے۔ یہ درست ہے کہ اس وقت نظام مصطفی کے نام پر اپوزیشن والے انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف بھرپور تحریک چلا رہے تھے۔

اس تحریک میں سیکولر و قوم پرست عناصر اور مذہبی سیاسی جماعتیں خصوصاً مولانا مودودی کی جماعت اسلامی، مولانا شاہ احمد نورانی کی جمعیت علماء پاکستان اور مولانا مفتی محمود کی جمعیت علماء اسلام بھی شامل تھیں اور نیشنلائزیشن کے ڈسے ہوئے بھی مالی و عملی مدد بہم پہنچا رہے تھے۔
تاہم ضیاالحق کے مارشل لاء سے قبل حذب اختلاف اور حکومت میں مذاکرات کامیاب ہو چکے تھے جس کی گواہی بعد میں اپوزیشن کے دو اہم رہنماؤں نوابزادہ نصراللہ خان اور پروفیسر غفور احمد نے دی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے اے ڈی سی اور ایئرفورس کے افسر ایک مشہور نجی ٹی وی پر یہ بات ریکارڈ کروا چکے ہیں کہ بھٹو آخری مہینوں میں گرفتار سیکولر و قوم پرست عناصر کو بھی رہا کرنا چاہتے تھے مگر ایک میٹنگ میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاالحق نے اس کی سخت مخالفت کی تھی۔ مذاکرات کی کامیابی نظر آتے ہی ضیاالحق نے 5 جولائی کو مارشل لاء لگا دیا اور از خود سیکولر و قوم پرست عناصر کو بھی رہا کر دیا۔
1977 سے 1980 کے درمیان ہمارے خطے میں جس بین الاقوامی کھیل کا آغاز ہو رہا تھا اسے دیکھتے ہوے آج یہ سمجھنا آسان ہے کہ بھٹو کس کس کی آنکھ کو کھٹکتا تھا۔ اس کھیل کے لیے اک کمزور حکومت درکار تھی جو "یس مین" کا کردار بخوبی نبھاۓ۔
بھٹو حکومت کو غیرآئینی طریقہ سے برطرف کر کے ضیاالحق نے 90 دنوں میں انتخابات کا وعدہ کیا اور وزارتوں کے قلمدان بھٹو مخالفین میں تقسیم کر دیے۔ حیران نہ ہوں، جاوید ہاشمی بھی ضیاالحقی وزراء میں شامل تھے۔ یہ حضرت اس وقت جماعت اسلامی کے نوجوان رہنما تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب سیکولر و قوم پرست سیاستدانوں کی پارٹی "نیشنل عوامی پارٹی" ایک بار پھر ٹوٹ چکی تھی اور خصوصاً بلوچ رہنما سابقہ صوبہ سرحد کی پختون قیادت خصوصاً خان عبدالولی خان سے مکمل علیحدگی اختیار کر چکے تھے۔
بلوچستان کے پختون تو 1970 ہی میں خان عبدالصمد اچکزئی کی قیادت میں ولی خان سے نالاں ہو کر الگ سیاسی راہ اپنا چکے تھے، اب حیدرآباد ٹربیونل کیس کے دوران بلوچ بھی ان سے نالاں تھے۔
ذرا غور کریں، قومی اتحاد کی تمام تحریکوں کا بنیادی مطالبہ شفاف انتخابات کا دوبارہ انعقاد تھا۔ فوجی حکمران 90 دنوں میں انتخابات کا وعدہ کرنے پر مجبور تھا۔ مگر عین اس موقعہ پر خان عبدالولی خان نے اک ایسا نعرہ بلند کر دیا جسے سیاسی غلطی کی بجائے "سازش" اور سیاسی بصیرت کی بجائے "تعصب" کہنا درست ہوگا۔
"پہلے احتساب پھر انتخاب" کا نعرہ لگانے والے خاں صاحب نے یہ بھی نہ سوچا کہ وہ احتساب کی فریاد کس سے کر رہے ہیں۔ دوسری طرف عدلیہ تھی جسے فوجی صدر نے من مرضی استعمال کیا۔ 1947 میں سہارن پور سے ہجرت کر کے آئے مولوی مشتاق ایک مثال تھے جنھیں بھٹو اس لیے ناپسند تھا کہ اس نے مولوی صاحب کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس نامزد نہیں کیا تھا۔

پھر ضیاالحق نے مولوی صاحب کو 12 جنوری 1978 کو لاہور ہائی کورٹ کے تحت پر بٹھا کر من چاہے فیصلے کروائے۔ اسی طرح جسٹس انوارالحق تھے جنھیں جنرل ایوب خان نے اکتوبر 1962 کو مغربی پاکستان ہائی کورٹ کا مستقل جج اور جنرل یحییٰ خان نے 1970 میں لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنایا تھا۔ ان حضرت کو جنرل ضیاالحق نے ستمبر 1977 میں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنایا تھا۔ حیران نہ ہوں، انوارالحق، ضیاالحق اور جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل تینوں کا تعلق جالندھر سے تھا مگر ایک تعلق اس بھی زیادہ مضبوط تھا اور وہ تھا تعصب اور بھٹو دشمنی کا تعلق۔
1952 سے 1957 تک وزارت دفاع میں بطور ڈپٹی سیکرٹری و جوائنٹ سیکرٹری کام کرنے والے انوارالحق نے 1957 میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کراچی تعینات ہو کر عدلیہ کا جامہ اوڑھا تھا۔ محض 13 سال میں دو فوجی صدور کے کرم سے وہ ملک کے اہم ترین عدالتی مرکز لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنا دیے گئے، یہاں سے وہ جسٹس منیر کی طرح سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بننا چاہتے تھے۔ مگر 1972 میں انھیں ترقی دے کر سپریم کورٹ کا محض جج بنا دیا گیا۔ یوں انھیں دو غم ملے کہ وہ نہ تو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے اور نہ انھیں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا۔

ضیا نے حضرت کو چیف جسٹس بنایا اور جواب میں انھوں نے بھٹو کے عدالتی قتل کا تحفہ پیش کیا۔ ذرا غور کریں، آج نہ کوئی مولوی مشتاق کو جانتا ہے نہ انوارالحق کو اور نہ ہی میاں طفیل کا کوئی مقام ہے مگر ذوالفقار علی بھٹو کو ان کے مخالفین اور حمایتی برابر یاد رکھے ہوے ہیں۔ اس عدالتی قتل نے بھٹو اور پاکستان کو لازم و ملزوم کر دیا۔
آج سیاسی پختگی بھی نظر آتی ہے اور عدلیہ کا کردار بھی "پچھلگ" (Subservient) نہیں رہا۔ کم ازکم 2010 سے منتخب صوبائی حکومتیں بھی چل رہی ہیں اور جمہوری تسلسل بھی رواں دواں ہے۔ اس بدلے ہوے پس منظر میں ایک "وسیلہ" بھٹو کے عدالتی قتل کا بھی ہے کہ جسے یاد رکھنے کے لیے یہ تحریر لکھی جارہی ہے۔ اس جمہوری بندوبست کے لیے لاتعداد لوگ "تاریک راہوں" کے اسیر بنے کہ اس داستان کا قرض مستقبل کے مورخ پر ہے۔
http://www.dawnnews.tv/news/1003790

 

ahmedameen786

Politcal Worker (100+ posts)
421.jpg


بھٹو ٹرائل،انصاف کا خون

ارشاد امین


چار اپریل پاکستان کے عوام اور دنیا بھر کے جمہوریت پسندوں کے لیے ایک ایسی منحوس تاریخ ہے، جسے سیاہ ترین قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اسی دن ایک مطلق آمر نے جو اپنے آپ کو قادرِ مطلق قرار دیتا تھا، عوام کے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختۂ دار پر لٹکا دیا تھا۔ بھٹو تیسری دنیا کے مظلوم و مقہور عوام کے ہیرو تھے۔ وہ ایسے عظیم لیڈر تھے جنہوں نے 1971 میں پاکستان ٹوٹنے کے بعد ایسے وقت باقی ماندہ پاکستان کی قیادت سنبھالی تھی جب جنرل یحییٰ خان کی فوجی حکومت نہ صرف یہ کہ 1970ء کے اپنے ہی کرائے ہوئے عام انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والے عوامی نمائندوں کو پرامن طریقے سے انتقال اقتدار میں ناکام ہو چکی تھی بلکہ اپنی ہی غلطیوں کے باعث ملک کا آدھا حصہ بھی گنوا بیٹھی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے شکست خوردہ ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالا، بھارت سے نوے ہزار کے لگ بھگ جنگی قیدیوں کو رہائی دلائی جبکہ اس مملکت بے آئین کو 1973ء کا متفقہ آئین دینے کا تاریخی کارنامہ سرانجام دیا۔
زیر نظر کتاب ذوالفقار علی بھٹو، عدالتی قتل اس سال پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو کی 37 ویں برسی کے موقع پر شائع کر کے یہ باور کرایا گیا ہے کہ ایک بدترین فوجی ڈکٹیٹر کے اشارے پر کس طرح انصاف کے اعلیٰ ایوانوں میں انصاف کا خون کیا گیا۔ یہ کتاب بھٹو ٹرائل پر منعقد کیے جانے والے بین الاقوامی ماہرین قوانین کے کنونشن کی رپورٹ پر مبنی ہے جن میں نامور قانون دان جارج ٹی ڈیوس اور رمزے کلارک سمیت کئی ممتاز ترین لوگ شامل ہیں جنہوں نے بھٹو ٹرائل کو عدالتی قتل قرار دیا۔ کتاب کا پیش لفظ معروف صحافی اور دانشور وکٹوریہ شو فیلڈ نے بھٹو کا مقدمہ اور عمل درآمد کے عنوان سے تحریر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے حوالے سے واقعات و حادثات اب پاکستان کی قومی تاریخ کا حصہ ہیں۔ انصاف کے قتل کے اس تاریخی مقدمے کے دیگر تمام کردار بھی دنیا سے رخصت ہو کر اس آخری عدالت میں پہنچ چکے ہیں جہاں انصاف کا قتل نہیں بلکہ انصاف ہو گا، اس تناظر میں انٹرنیشنل جیورسٹ کنونشن کا اس مقدمے میں انصاف کے قتل کا ڈکلریشن وقت کی فیصلہ کن حقانیت کے طور پر سامنے آ چکا ہے، پنتیس برس کے دورانیے میں جو کچھ ہوا اس نے اس ڈکلریشن کی سچائی میں کوئی کمی کی اور نہ اس کی رائے وقوع پذیر واقعات کے سلسلے میں غیر متعلقہ ثابت ہوئی۔ اس ڈکلریشن نے پاکستانی عوام کے حساس ترین ادراک کی تصدیق کی کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے اس عدالتی قتل کو قانونی تہذیب اور وجود کے قتل سے کم نہیں سمجھا اور ان کے نزدیک یہ عدالتی نظام کے غلط استعمال کی ناقابل تلافی سطح اور واقعہ تھا۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو نے جیل سے عدالت کو کہا تھا میرا خدا جانتا ہے کہ میں نے اس آدمی کا خون نہیں کیا، اگر میں نے اس کا ارتکاب کیا ہوتا تو مجھ میں اتنا حوصلہ ہے کہ میں اس کا اقبال کر لیتا اور اقبال جرم اس وحشیانہ مقدمے کی کارروائی سے کم اذیت دہ اور بے عزتی کا باعث ہوتا۔ میں مسلمان ہوں اور ایک مسلمان کی تقدیر کا فیصلہ اس ذاتِ مطلق کے ہاتھ میں ہوتا ہے، میں صاف ضمیر کے ساتھ اس کے حضور پیش ہو سکتا ہوں اور اس سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس کی مملکت اسلامیہ پاکستان کی راکھ کے ڈھیر سے دوبارہ ایک باعزت قوم کی صورت میں تعمیر کی ہے۔ میں آج کوٹ لکھپت کے اس بلیک ہول میں اپنے ضمیر کے ساتھ مطمئن ہوں (ذوالفقار علی بھٹو ، مورخہ 21 مارچ 1978ء) اس کتاب کے آخر میں بیگم نصرت بھٹو کا تاریخی، مختصر مگر جامع وہ خط بھی شامل اشاعت ہے جو انہوں نے 31 دسمبر 1978ء کو جسٹس انوار الحق چیف جسٹس آف پاکستان کو تحریر کیا تھا، جس میں انہوں نے چیف جسٹس کے اس بیان پر سخت گرفت کی ہے جو ایک روز قبل روزنامہ پاکستان ٹائمز میں چھپا تھا، جس میں جسٹس انوار الحق نے قائد اعظمؒ سے لے کر قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کی حکومتوں پر شدید تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ یہ حکمران ملک میں اسلامی قوانین اور نظام نافذ کرنے میں ناکام رہی تھیں۔ بیگم بھٹو نے اسلامی کانفرنس کے انعقاد سے لے کر آئین کی اسلامی دفعات کے نفاذ اور دیگر عملی اقدامات کا ذکر کیا اور بھٹو کی طرف سے ایک متفقہ اسلامی آئین منظور کرانے کا کریڈٹ بھی دیا ہے۔ بیگم بھٹو اس خط میں سپریم کورٹ کی طرف سے بھٹو کے خلاف فیصلے کو بھی متعصبانہ قرار دیا ہے۔
زیر نظر کتاب ذوالفقار علی بھٹو، عدالتی قتل اس سال پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو کی 37 ویں برسی کے موقع پر شائع کر کے یہ باور کرایا گیا ہے کہ ایک بدترین فوجی ڈکٹیٹر کے اشارے پر کس طرح انصاف کے اعلیٰ ایوانوں میں انصاف کا خون کیا گیا

اگرچہ بیگم بھٹو نے چیف جسٹس کو ایک مدلل جواب دیا ہے تاہم اب وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ورنہ ان سے پوچھا جا سکتا تھا کہ وہ پاکستان کے ان حکمرانوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں جنہوں نے آئین میں قرارداد مقاصد کی صورت میں ایسا بریکر لگایا جو نہ آئین کو مکمل جمہوری بننے دیتا ہے اور نہ ہی ملک کو ترقی، خوشحالی اور روشن خیالی کی راہ پر چلنے دے رہا ہے۔
- See more at: http://humshehrionline.com/?p=17815#sthash.34aGuDY5.dpuf


 

Sohraab

Prime Minister (20k+ posts)
Mr Anwar Mehmood says:



You think Mr Bhutto was very democratic? He was a staunch believer of democracy that's why he dismissed democracy in Balochistan and NWFP and threw political workers in jail?

Did Zia-ul-Haq set up Federal Security Forces to spank the politicians twice a day everyday? Or it was your democratic Bhutto who used FSF to intimidate, beat up, and control the opposition and control the army as well?

chal oyee na paak fauj ke Tattooo
 

HamzaK

Banned


قائداعظم محمد علی جناح کی طرح ذوالفقار علی بھٹو بھی ایسے غیر پنجابی لیڈر تھے جنھوں نے پنجابیوں کو ازحد متاثر ہی نہ کیا بلکہ دسمبر 1970 کے انتخابات میں پنجاب سے حاصل کردہ واضح برتری ہی کی بدولت وہ پاکستان کی وزارت عظمیٰ تک پہنچے۔



Quaid-e-Azam was not only popular in Punjab but in Bengal and the rest of Indian subcontinent also. Mr Bhutto had Zero acceptance in East Pakistan (Bengal) and minute support in Balochistan and NWFP in the 1970 election. So basically he was a clever person who fooled the people of Punjab using his eloquence, rhetoric and empty promises of providing the poor with Roti, Kapra and Makaan.
 

ahmedameen786

Politcal Worker (100+ posts)
logo.jpg


ذوالفقار علی بھٹو

فیصل سمیع دہلوی




484437-zuilfiqaralibhuttoday-1459711087-631-640x480.jpg


[FONT=&amp]4 اپریل 1979کو نا صرف پاکستان بل کہ تمام عالم اسلام کے لیے بھی ایک سیاہ دن تھا، جب ملک کے منتخب وزیراعظم، اسلامی سربراہ کانفرنس کے چیئرمین اور تیسری دنیا کے عظیم قائد کا عدالتی قتل کردیا گیا۔[/FONT]

[FONT=&amp]بھٹو نے عالم اسلام کے اتحاد کے لیے جدوجہد کو اپنی زندگی کا مشن بنالیا تھا اور جب دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان کو ایک سازش کے تحت دولخت کردیا گیا، تو انھوں نے شکستہ پاکستان کی تعمیرنو اور ایٹمی طاقت بنانے کے لیے عملی اقدامات کرکے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کی جدوجہد میں جان سے گزر گئے۔[/FONT][FONT=&amp]
11.jpg

[/FONT]
[FONT=&amp]جنگ عظیم کے بعد فرانس کے حکم راں کو پھانسی کی سزا ہوئی، لیکن انھوں نے اس کے خلاف زبانی یا تحریری اپیل نہیں کی۔ ان کے دوستوں نے جب ان سے کہا کہ فیصلے کے خلاف آپ ایک لفظ بھی نہیں بولے تو انھوں نے جواب دیا کہ وقت کے حکم رانوں اور عدلیہ نے میری موت کا فیصلہ کرلیا ہے، اس لیے میری اپیل بے کار ہے، لیکن آنے والا مورخ جب اس واقعے کی درست تاریخ مرتب کرے گا تب لوگوں کو اصل حقیقت کا علم ہوگا۔[/FONT][FONT=&amp]ذوالفقارعلی بھٹو کو وقت کے حکم رانوں اور عدلیہ نے بے قصور دار پر چڑھا دیا، لیکن آج تک عوام کے دلوں سے بھٹو کی محبت ختم نہیں کی جاسکی اور تاریخ داں جب بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ لکھتا ہے تو اس میں بھٹو کو مظلوم اور ضیاء وعدلیہ کو آمر وظالم ہی لکھتا ہے۔[/FONT][FONT=&amp]بھٹو سے سیاسی اختلافات تو ہوسکتے ہیں لیکن ان پر کرپشن کے الزامات ان کے بدترین دشمن بھی نہیں لگاسکتے۔ بھٹو بہترین انتظامی صلاحیتوں سے مالا مال اور گڈ گورننس کی اعلیٰ مثال تھے۔[/FONT][FONT=&amp]بروقت فیصلہ سازی اور گڈ گورننس کی بہترین صلاحیتیں رکھنے والے بھٹو کو بھلا کون بھول سکتا ہے جس سے آج کے حکم راں انتہائی دور بل کہ نابلد ہیں۔ سندھ میں آج بھی ان کے پیروکاروں کی حکومت ہے، جن پر بدترین کرپشن کے الزامات لگتے ہیں جو کہ میرے نزدیک بنا ثبوت بالکل غلط ہے، مگر حکومت سندھ کا موثر انداز میں دفاع نہ کرنا بھی اس کی کم زوری ہے، جو بھٹو سے محبت رکھنے والوں کے لیے مایوسی کا سبب ہے۔[/FONT][FONT=&amp]نومبر 1967 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے ساتھ ہی مزاحمتی سیاست نے کھیتوں، کھلیانوں، کارخانوں، مزدوروں اور دہقانوں میں روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے نے نئی امید کے چراغ جلادیے۔ بھٹو انقلابی تھے اور انھوں نے آمریت کے پنجرے میں قید قوم کو جمہوریت کی راہ دکھائی، اس طرح وہ قوم کے پہلے معمار اور سیاسی رہبر ثابت ہوئے۔ ان کی ان تھک کوششوں سے ملک کے غریب عوام، مزدور، کسان اور پسے ہوئے طبقے نے جینے کا ڈھنگ سیکھا۔ انھوں نے ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر عوام کی دہلیز جھونپڑپٹی تک پہنچادیا۔[/FONT][FONT=&amp]
21.jpg
[/FONT]
[FONT=&amp]یہی وہ اسباب ہیں، جس سے جاگیردار، سرمایہ دار، وڈیرے، چوہدری، پیر اور میر غریب عوام کی دہلیز پر آنے پر مجبور ہوگئے اور رفتہ رفتہ سیاست میں عوام کی اہمیت اجاگر ہوئی۔ بھٹو پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ کرشمہ ساز شخصیت تھے، وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن اس ملک میں اپنے نام کی غیر متزلزل طاقت چھوڑ گئے، جو آمروں کی نیندیں حرام کرنے کے لیے کافی تھی۔[/FONT][FONT=&amp]1974 میں جب بھٹو فرانس کے دورے پر جارہے تھے تو میں اس وفد میں ان کے ہم راہ تھا۔ وہاں جب فرانس کے صدر سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ آپ نہ صر ف اپنے ملک بلکہ تمام اسلامی ملکوں کے بھی لیڈر ہیں، آپ کو جو کچھ بھی چاہیے میں فراہم کروں گا۔ بھٹو صاحب نے کہا کہ کوئی عام چیز ہوتی تو میں آپ کو ٹیلی فون پر کہہ دیتا لیکن اس وقت مجھے ایٹمی پلانٹ چاہیے، جس کا مجھے پتا ہے کہ امریکا برداشت نہیں کرے گا اور نہ مجھے معاف کرے گا۔ اس پر فرانس کے صدر نے کہا کہ ہم کسی بھی دباؤ میں آئے بغیر آپ کو پلانٹ دیں گے۔[/FONT][FONT=&amp]یوں فرانس سے ایٹمی پلانٹ درآمد کرنے کا معاہدہ ہوگیا لیکن امریکا نے اس کی منسوخی کے لیے شدید دباؤ ڈالا جس کی باعث فرانس چوںکہ پہلے ہی انکار کرچکا تھا اس لیے پاکستان پر دباؤ بڑھایا گیا۔ امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر خود پاکستان آکر براہ راست بھٹو کو دھمکی دے گئے تھے کہ معاہدہ منسوخ کرو ورنہ سنگین نتائج کے لیے تیار رہو۔[/FONT][FONT=&amp]بھٹو کو معلوم تھا کہ فرانس سے ایٹمی پلانٹ کا معاہدہ منسوخ ہوسکتا ہے، اس لیے انھوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو خاموشی سے ایٹمی پلانٹ پر کام جاری رکھنے کا کہا، اس دوران امریکی سام راج نے جنرل ضیاء کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹ دیا اور سب سے پہلے فرانس سے ایٹمی پلانٹ کا معاہدہ منسوخ کیا۔ بعدازاں بھٹو کو پھانسی پر چڑھا کر ان کے خدشات کو درست ثابت کیا۔ پاکستان کے پہلے ایٹمی دھماکے کے بعد ڈاکٹر قدیر خان نے ٹی وی پر آکر کہا کہ پلانٹ اور دھماکے کے بانی بھٹو ہیں جو ملک اور ان کے چاہنے والوں کے لیے اعزاز ہے۔[/FONT][FONT=&amp]1958 سے 5 جولائی 1977 تک بھٹو کی جدوجہد اور پاکستان کے لیے عظیم خدمات تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان کی شہادت کے بعد گذشتہ 37 برسوں میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور آئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا۔ بھٹو کا عروج و زوال دونوں بڑے پُرشکوہ رہے۔ 30 سال کی عمر میں وزیر بنے اور پاکستان کی تاریخ میں سب سے کم عمر وزیر تھے۔ 12 سال بعد وہ صدرمملکت اور وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے، ان عہدوں کے لیے وہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے کم عمر سیاست داں تھے۔[/FONT][FONT=&amp]1971 میں دولخت ہونے والے بقیہ پاکستان کا اقتدار سنبھالتے ہوئے ان کا مقصد ملک کو انتشار سے بچانا، اس کے شکستہ وقار کو بحال کرنا، اقوام کی برادری میں خاص طور پر اسلامی برادری میں اس کی پوزیشن کو مستحکم کرنا، ہندوستان سے تعلقات کو بحال بل کہ بہتر کرنا، ملک کے اندر پیچیدہ صورت حال ہونے کے باوجود بنگلادیش کو منظور کرنا، جو انتہائی قدامت پسندوں کے لیے موت کے برابر تھا اور ملک کو ایٹمی قوت بنانا تھا، جس میں وہ مکمل طور پر کام یاب ہوئے، لیکن سام راجی قوتوں اور ان کے گماشتوں نے اس کی سزا انھیں پھانسی کی صورت میں دی۔ دن کی روشنی میں سزا دینے کی ان میں ہمت نہیں تھی، اس لیے تمام دنیا کے جیل قوانین کو پس پشت رکھتے ہوئے انھیں علی الصبح کے بجائے رات 2 بجے پھانسی دی گئی۔
[/FONT]
[FONT=&amp]
31.jpg
[/FONT]
[FONT=&amp]اس گھناؤنی عجلت وخوف سے ظاہر ہوتا ہے کہ ضیاء آمر اور اس کے حواریوں نے رات کی تاریکی میں اپنا سیاہ کارنامہ اس لیے انجام دیا، کیوںکہ دن کی روشنی میں انھیں شدید مزاحمت کا ڈر تھا۔ آج بھٹو جسمانی طور زندہ نہیں ہیں لیکن ہر پاکستانی کے دل میں موجود ہیں، چاہے وہ ان کا حامی ہو یا مخالف، لیکن انھیں عظیم راہ نما اور قائد عوام تسلیم کرتے ہیں۔[/FONT][FONT=&amp]مصلحت آمیز سیاست اور موقع پرستی ایک ڈکٹیٹر کا فن تو ہوسکتا ہے لیکن وہ دیرپا نہیں ہوسکتا۔ وقت کے ساتھ وہ اپنی اصل شکل میں ظاہر ہوجاتا ہے۔ پاکستان کے آمر قومی دھارے میں شامل قومی جماعتوں میں پھوٹ ڈالنے کے لیے خفیہ اداروں کو بڑی بے رحمی سے استعمال کرتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو بتدریج کم زور کیا جائے۔ اس لیے وہ مذہبی انتہاپسندوں کی حوصلہ افزائی اور لسانیت کو فروغ دیتے ہیں، لیکن یہ ملکی وحدت اور سالمیت تک کے لیے انتہائی مضر ثابت ہوتی ہے، اس لیے آمروں کو مستقبل میں اس نکتہ پر غور کرنا چاہیے کہ حقیقی لیڈر ہی اصل لیڈر ہوتا ہے اور بھٹو اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔[/FONT][FONT=&amp]میں اتنا گونجوں گا کہ صدیوں تک سنائی دوں گا
مظلوموں کی طاقت ور آواز، ذوالفقار علی بھٹو
[/FONT]
[FONT=&amp]ایک آواز جسے ضیا نے مٹانا چاہا، اتنی طاقت ور بن گئی کہ ہر سو پھیل گئی۔ ان کو اس سے کتنا ڈر لگتا تھا کہ وہ اس کی جان کے درپے ہوئے اور نادان یہ سمجھے کہ وہ اس کو پھانسی دے کر سب ختم کر سکتے ہیں، مگر وہ بھول گئے کہ حق کو مٹانے والے خود مٹ جاتے ہیں، ان کی سماعتوں، بصارتوں اور قلوب پر سیاہ مہر ثبت کردی گئی۔ اس نے تو کہہ دیا تھا کہ میں آمرکے ہاتھوں مرنا پسند کروں گا مگر تاریخ کے ہاتھوں سے نہیں اور پھر ہر حربہ بھی آزمایا گیا، ظلم کا وہ کون سا نشتر نہ تھا جسے اس پر اوراس کے چاہنے والوں پر نہ چلایا گیا ہو؟[/FONT][FONT=&amp]
41.jpg
[/FONT]
[FONT=&amp]تاریخ کے اوراق پر وہ ساری داستانیں رقم ہوئیں اور سب نے دیکھا کہ ظلم وستم، تشدد، دہشت اور جبر کے سارے ہتھیار کتنے بیکار ثابت ہوئے۔ شاعروں نے، ادیبوں نے اس کی یاد میں لکھا، وہ وطن کے گوشے گوشے میں کسان کی، مزدور کی، مظلوم کی، عوام کی آواز بن گیا، ایسا کب دیکھا گیا کہ جسم کو پھانسی دے کر مٹانے کی کوشش کی اور جان دے کر کوئی ایسا زندہ ہوا کہ روشنی بن گیا، ہوا بن گیا۔ اب روشنی کو کیسے روکوگے اور ہوا کا راستہ کیسے بند کرو گے۔[/FONT][FONT=&amp]تم اس کی آواز کو قتل کرنا چاہتے تھے وہ تو گیتوں میں اور نغموں میں ڈھل کر امر ہوگیا۔
اس نے کہا تھا : میں اتنا گونجوں گا کہ صدیوں تک سنائی دوں گا۔
وہ اپریل ہی کا مہینہ تھا اور اسی طرح کے موسم تھے۔
[/FONT]
[FONT=&amp]کچھ لوگ اپنی طاقت اور حکم رانی کے نشے میں گم خود کو خدا سمجھ بیٹھے تھے۔ وہ ہر ایک آواز جو سوال کرتی تھی اس کو خاموش کرنے کا حکم صادر کردیا جاتا تھا، وہ ہر ایک نظر جو جھکتی نہیں تھی اس کو مٹانے کا حکم تھا، مگر وہ جو طاقت کے بل بوتے پر لوگوں کو تسخیر کرنا چاہتے تھے انہیں کیا پتہ تھا کہ دلوں کی حکومت اور طاقت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ وہ کہ جس کی نماز جنازہ میں شرکت کو روکنے کے لیے اندھیرے اور ظلم کا سہارا لے کر اس کے اپنوں کو دور رکھا گیا تھا، آج اس کے مزار پر اتنا مجمع کہ شمار نہ کیا جائے۔ وہ ایک شخص کہ جس کا نام لینا بھی جرم قرار دے دیا گیا، جس کے نام کا نعرہ لگانے والوں کو پابند سلاسل کردیا جاتا تھا، لیکن آج وہ نعرہ تو ہر سو ہے، تم نے آواز کو قتل کرنا چاہا، تم ناکام رہے، عشروں بعد بھی آواز تو زندہ ہے پر قاتل مٹ گئے، ایک وجد کے عالم میں نعرے لگتے ہیں:[/FONT][FONT=&amp]تم کتنے بھٹو مارو گے، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا[/FONT][FONT=&amp]تم نے اسے مارنا چاہا کہ جو ہمارے دلوں میں رہنے لگا تھا توکیا تم اسے مار پائے؟ وہ تو ایک نابغہ تھا کہ جس کے جسم کو سولی پر چڑھا کر ختم کرنے کا فیصلہ کرنے والے تاریخ میں سدا کے لیے سیاہ حرفوں سے پہچانے گئے اور وہ کہ جس نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سچ کہا وہ امر ہوگیا۔ وہ اک شخص کہ آج بھی سیاست میں سمت کو طے کرتا ہے اور دور دراز کے اک گاؤں لاڑکانہ کی سرزمین پر ملک کے ہر گوشے سے اس کے چاہنے والے آکر اس کا نعرہ لگاتے ہیں اور وہ اتنے ہوتے ہیں کہ آج بھی وہ جب اپنی آواز کو اٹھاتے ہیں، نعرہ لگاتے ہیں تو دھرتی گونج اٹھتی ہے۔۔۔تم کتنے بھٹو مارو گے، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔[/FONT][FONT=&amp]
51.jpg

[/FONT]
[FONT=&amp]اس نے کہا تھا میں اتنا گونجوں گا کہ صدیوں تک سنائی دوں گا۔
توکیا اس نے غلط کہا تھا؟
تم نے عدالت کو عداوت میں بدل کر، قانون کے سارے تقاضے پس پشت ڈال کر سچ کو قتل کیا، تم نے آواز کا گلا گھونٹا چاہا اور تم اس وقت کے فرعون تھے اور سمجھتے تھے کہ تم ہمیشہ رہو گے۔ سوال آج بھی زندہ ہے، آواز آج بھی زندہ ہے۔ اس نے کہا تھا: اتنا گونجوں گا کہ صدیوں تک سنائی دوں گا۔
دیکھو آکر دیکھو!
تم ہر سال دیکھتے ہو
اپریل میں!
[/FONT]
[FONT=&amp]ہاں اسی اپریل میں، جب تم نے اس کی آواز کو مٹانا چاہا تھا۔[/FONT][FONT=&amp]ہاں اسی اپریل میں جب تم نے ظلم و ستم کے، جبر و دہشت کے ہر اک حربے کو آزمایا تھا اور سمجھے تھے کہ تم کام یاب ہوئے، مگر کیا تم نے سوچا تھا کہ تم اتنی بری طرح ناکام ہوگے۔ اس نے کہا تھا : میں اتنا گونجوں گا کہ صدیوں تک سنائی دوں گا۔ تو اب سنو کہ اس کی آواز وقت کی آواز بن گئی ہے۔ سنوکہ اس کی آواز ہر اک محنت کش، مزدور، کسان، طالب علم، بچے اور مظلوم کی آواز بن گئی ہے۔[/FONT][FONT=&amp]ٹوٹا کہاں ہے اس کا جادو
نعرہ بن گیا لہو اس کا
[/FONT]
[FONT=&amp]سنو سنو وہ آواز جو آج بھی زندہ ہے، سنو سنو وہ اس کے نعرے[/FONT][FONT=&amp]زندہ ہے بھٹو زندہ ہے
[/FONT]
[FONT=&amp]آج بھی جبر کی سماعتوں کے لیے تازیانے کی طرح، اس کا نعرہ جب گونجتا ہے تو اس کے لفظ زندہ وجود کی طرح جگمگاتے ہیں
اس نے کہا تھا میں اتنا گونجوں گا کہ صدیوں تک سنائی دوں گا۔
[/FONT]

 

HamzaK

Banned

[FONT=&amp]4 اپریل 1979کو نا صرف پاکستان بل کہ تمام عالم اسلام کے لیے بھی ایک سیاہ دن تھا، جب ملک کے منتخب وزیراعظم، اسلامی سربراہ کانفرنس کے چیئرمین اور تیسری دنیا کے عظیم قائد کا عدالتی قتل کردیا گیا۔[/FONT]



This 'Azeem Quaid' of the Third World had become the Prime Minister after slaughtering the biggest Muslim nation of the Third World called 'Pakistan' in 1971. He and his daughter BB Shaheed could become Prime Minister in their dreams only if Mr Bhutto hadn't played an active role in the breakup of Pakistan.
 

HamzaK

Banned
Pakistan Peoples' Party and MQM both are evil gangs which have their hands red with the blood of innocent Pakistanis and are full of characterless corrupt leaders.
 

ahmedameen786

Politcal Worker (100+ posts)


ایک نعرہ بنا ہے اس کا لہو

zab5.jpg



[FONT=&amp]
%22
[/FONT]
قیادت انسانی زندگی کی ایک صفت ہوتی ہے اور اس کی شخصیت تمام اوصاف کا مجموعہ ہوتی ہے- میرے خیال کے مطابق کسی قائد کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کی شخصیت اور صفات کو جاننا چاہیے ہمیں اس کی نفسیات کا تجزیہ کرنا چاہیے، ان وجوہات کا جائزہ لینا چاہیے جنہوں نے اس کو کسی مقصد کے حصول کے لیے ترغیب دی- خاص طور پر ایسی صورت میں جب کہ وہ قائد انقلابی ہو- انقلاب زیادہ تر اونچے طبقے کے لوگ لاتے ہیں اور یہ ان کی خاصیت ہوتی ہے کہ وہ کسی پراسرار اور ذہین شخصیت سے متاثر ہوتے ہیں- انقلابی لوگ ان خاندانوں میں پیدا ہوتے ہیں جنہوں نے معاشی تکلیف کا سامنا نہ کیا ہو- ان کی محرومیاں معاشی نہیں بلکہ نفسیاتی ہوتی ہیں- وہ دراصل لاشعور میں انعام، عزت، سیاست میں شرکت اور شہرت چاہتے ہیں- جو ان کی با کمال شخصیت کو سماجی انصاف کے لیے جدوجہد میں معروف رکھنا چاہتی ہے چاہے اس میں مہم جوئی اور خطرات موجود ہوں.
[FONT=&amp]4 اپریل 1979ء پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن تھا- جب ملک کے منتخب وزیراعظم، اسلامی سربراہ کانفرنس کے چئیرمین اور تیسری دنیا کے عظیم قائد ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کر دیا گیا تھا- ذوالفقار علی بھٹو کو وقت کے سفاق حکمرانوں نے اور عدلیہ نے بے قصورتختہ دار پر چڑھا دیا لیکن آج تک عوام کے دلوں سے بھٹو کی محبت ختم نہی کی جا سکی اور تاریخ دان جب بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ لکھتا ہے تو اس میں بھٹو کو مظلوم اور ضیاء و عدلیہ کو آمرو ظالم ہی لکھتا ہے-
[/FONT]
[FONT=&amp]نومبر1967 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے ساتھ ہی مزاحمتی سیاست نے کھیتوں، کھلیانوں، کارخانوں، مزدوروں، اور دہقانوں میں روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے نے نئی امید کے چراغ جلا دیے-[/FONT][FONT=&amp]بھٹو انقلابی تھے اور انہوں نے آمریت کے پنجرے میں قید قوم کو جہموریت کی نئی راہ دکھائی- اسی طرح وہ قوم کے پہلے معمار اور سیاسی رہبر ثابت ہوے- ان کی ان تھک کوششوں سے ملک کے غریب عوام، مزدور کسان اور پسے ہوے طبقے نے جینے کا ڈھنگ سیکھا- انھوں نے ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر عوام کی دہلیز جھونپڑ پٹی تک پہنچا دیا-[/FONT][FONT=&amp]یہی وہ اسباب ہیں جس سے جاگیردار، سرمایادار،وڈیرے، چوہدری، پیر اور امیر طبقہ عوام کی دہلیز پر آنے پر مجبور ہو گئے اور رفتہ رفتہ سیاست میں عوام کی اہمیت اجا گر ہوئی- بھٹو پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ کرشمہ ساز شخصیت تھے- وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن اس ملک میں اپنے نام کی غیر متزنزل طاقت چھوڑ گئے جو آمروں کی نیدیں حرام کرنے کے لیے کافی تھی-[/FONT][FONT=&amp]کچھ لوگ اپنی طاقت اور حکمرانی کے نشے میں گم خود کو خدا سمجھ بیٹھے تھے۔ وہ ہر ایک آواز جو سوال کرتی تھی اس کو خاموش کرنے کا حکم صادر کردیا جاتا تھا[/FONT][FONT=&amp]حبیب جالب ذوالفقار علی بھٹو سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر یوں کرتے ہیں کہ \میں ان سے پہلی بار اس وقت ملا تھا جب انہوں نے ایوب حکومت سے استعفیٰ دے دیا تھا- اور دور دور تک یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ ایوب چاہتے تھے کہ وہ سیاست چھوڑ دیں ملک سے باہر چلے جائیں تو میں نے اس وقت یہ نظم لکھی؛[/FONT][FONT=&amp]دست خزاں میں اپنا چمن چھوڑ کے نہ جا[/FONT][FONT=&amp]آواز دے رہا ہے وطن چھوڑ کے نہ جا[/FONT][FONT=&amp]تیرے شریک حال ہیں منصور اور بھی[/FONT][FONT=&amp]سونی فضائیں دارو رسن چھوڑ کے نہ جا[/FONT][FONT=&amp]کچھ تیری ہمتوں پہ بھی الزام آے گا[/FONT][FONT=&amp]مانا کہ راستہ ہے کھٹن چھوڑ کے نہ جا
[/FONT]
[FONT=&amp]اے ذوالفقار تجھ کو قسم ہے حسین کی
[/FONT]
[FONT=&amp]کر احترامِ رسمِ کہن، چھوڑ کے نہ جا[/FONT][FONT=&amp]اسی دن روزنامہ \نواےَ وقت\ نے یہ نظم شائع کی اور اسی دن اخبار کالے بازار میں پانچ روپے فی کس کے حساب سے فروخت ہوا- بھٹو صاحب مہربانی فرماتے ہوے مجھ سے کافی ہاؤس میں ملنے آے- یہ ان کا وصف تھا کہ وہ لوگوں سے براہ راست ملتے تھے- اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک ہمہ وقتی شخصیت تھے\-[/FONT][FONT=&amp]تاریخ بھٹو کی دلیری اور حوصلہ مندی کی گواہ ہے- ڈاکٹر کامل راجپر بھٹو صاحب کا دلیرانہ واقع بیان کرتے ہیں کہ \ 1969 کے مارشل لاء دور میں جب سارے پاکستان کے تعلیمی اداروں کے حدود میں سیاست دانوں کا داخلہ ممنوع کر دیا گیا اس وقت میں لیاقت میڈیکل کالج، جام شورو کے طلباء و یونین کے جنرل سیکرٹری کی حثیت سے یونین کی جنرل باڈی اور کالج کی تعلیمی کونسل کی طرف سے یہ فیصلہ کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کو \یومِ لطیف\ کے موقع پر مہمان خصوصی کی حثیت سے مدعو کیا جائے- یہ خبر اخبارات میں شائع ہو گئی کہ بھٹو صاحب لیاقت میڈیکل کالج جام شورو میں مہمان خصوصی ہوں گے- اس خبر نے مارشل لاء حکام کو چوکنا کر دیا اور انہوں بے بھٹو صاحب پر ہر قسم کا دباؤ ڈالا کہ وہ لیاقت میڈیکل کالج نہ جائیں- لیکن بھٹو صاحب نے نے ان حکام کو جواب دیا جب تک دعوت نامہ موجود ہے وہ اس تقریب میں جائیں گے اور شرکت کریں گے- اس پر مارشل لاء حکام نے اپنی بندوقوں کا رخ میری اور کالج کے منتظم/ پرنسپل بریگیڈیئر ایس ایچ اے گردیزی محروم کی طرف موڑ دیا اور مجبور کیا کے دعوت نامہ منسوخ کر دیا جائے لیکن ہم نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا- پروگرام کے مطابق 13 اگست 1969ء کو بھٹو صاحب جام شورو کیمپس پہنچے اور لیاقت میڈیکل کالج کے علاوہ حیدر آباد کے تمام کالجوں کے ہزاروں طلباء نے ان کا شاندار استقبال کیا- مارشل لاء حکام نے بھٹو سے کہا کے وہ سیاست پر بات نہ کریں اور اپنی تقریر شاہ عبداللطیف پر محدود رکھیں-
[/FONT]
[FONT=&amp]بھٹو صاحب کا تقریر کی ابتداء کرنے کا اپنا ہی انداز تھا- انہوں نے اجتماع کو بتایا کہ انھیں سیاست پر بولنے سے منع کیا گیا ہے- اور پھر کہا \میں ایک سیاسی جانور ہوں- سیاست میرے خون میں رچی ہوئی ہے- وہ مجھے کس طرح سیاست پر بولنے سے روک سکتے ہیں- شاہ عبداللیطف اگر زندہ ہوتے تو وہ بھی ایک\وحدت یونٹ\ کی مخالفت کرتے اور مارشل لاء حکام ان کو بھی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیتے-[/FONT][FONT=&amp]شہید ذوالفقارعلی بھٹو ایک ایسا شخص تھا جس نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاست کی ایسی بے خوف سمت طے کی جس سے ہر سیاستدان اپنی سیاسی زندگی کی شروعات اسی سمت، بھٹو نظریات اور سوچ سے کرنے کی کوشش کرتا ہے-[/FONT][FONT=&amp]شہید ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ \میں اتنا گونجوں گا کہ صدیوں تک سنائی دوں گا\[/FONT][FONT=&amp]یقیناً انہوں نے غلط نہیں کہا تھا کیونکہ آج بھی بھٹو کی سیاسی، سوچ و نعرہ لوگوں کے دل و دماغ میں موجود ہے-[/FONT][FONT=&amp]کوٹ لکھپت کی جیل سے مورخہ 21 مارچ 1978 ء کو شہید ذوالفقار علی بھٹو نے عدالت کو کہا تھا کہ\ میرا خدا جانتا ہے کہ میں نے اس آدمی (نواب محمد احمد خان) کا خوں نہیں کیا، اگر میں نے اس کا ارتکاب کیا ہوتا تو مجھ میں اتنا حوصلہ ہے کہ میں اس کا اقبال جرم کر لیتا اور اقبال جرم اس وحشیانہ مقدمے کی کارروائی سے کم اذیت دہ اور بے عزتی کا باعث ہوتا-
[/FONT]
[FONT=&amp]مگر عدالت کو عداوت میں بدل کر، قانون کے سارے تقاضے پس پشت ڈال کر سچ کو قتل کیا گیا سفاک لوگوں نے بھٹو کی آواز کا گلا گھونٹا چاہا اور وہ اس وقت کے فرعون تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ ہمیشہ رہیں گے۔ مگر سوال آج بھی زندہ ہے، آواز آج بھی زندہ ہے-[/FONT][FONT=&amp]زندہ ہے بھٹو زندہ ہے[/FONT][FONT=&amp]بھٹو اپنی بے پناہ خوبیوں اور صلاحیتوں کے باوجود ایک انسان تھے- بلاشبہ اختیار و اقتدار کے اعلی مراتب پر ان سے بہت سی غلطیاں اور لغزشیں سرزد ہوئیں لیکن 4 اپریل 1979 ء کی اندھیری رات میں انہوں نے عوام کے عظیم ہیرو کی حثیت سے کمال جراءت و استقامت سے پھانسی کے پھندے کو گلے لگا کر وقت کے آمرو جابر کے سامنے گردن جھکانے سے انکار کر کے اپنے تمام گناہوں اور خطاؤں کی تلافی کر دی- ایک دلیر، جرّی اور بے باک قائد کے طور پر ملک و قوم کے لیے جان کا نذرانہ پیش کر کے وہ اس صداقت کی زندہ جاوید شہادت بن گئے کہ جالب نے کہا؛
[/FONT]
[FONT=&amp]ٹوٹا ہے کہاں اس کا جادو
ایک نعرہ بنا ہے اس کا لہو

[/FONT]
http://www.humsub.com.pk/14236/taqi-syed-2/