پاکستان میں لوگوں کی اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کوئی گھریلو خاتون تھی جس کو گھر میں سالن پکاتے ہوئے مشرف نے اٹھایا اور امریکہ کے حوالے کردیا۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ عافیہ صدیقی شروع ہی سےجہادی مائنڈ سیٹ رکھتی تھی۔ اس کے اندر جذبہ جہاد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ نیچے میں اس کی 1991 کی ایک تقریر کی ویڈیو لگا رہا ہوں، ذرا سنیں اس کو، پوری تقریر میں یہ جہاد جہاد کرتی رہی اور مختلف صحابیات کے واقعات سناتی رہی کہ فلاں صحابیہ نے اتنے کافروں کو مارا، اور فلاں نے اتنے کافروں کو مارا، تقریر سن کر ایسے لگتا ہے کہ یہ جہادن عورت ابھی جاکر کسی کافر پر پھٹ جائے گی۔ اسی جہادی سوچ سے مغلوب ہوکر اس نے القاعدہ میں شمولیت اختیار کرلی اور امریکہ میں بم دھماکوں کی پلاننگ میں بھی شریک رہی۔ پھر وہ افغانستان چلی گئی طالبان کے ساتھ مل کر امریکی فوج کے خلاف جہاد کرنے اور وہاں امریکی فوج نے غزنی میں اسے دھر لیا۔
خبروں کے مطابق عافیہ صدیقی امریکی شہری بھی تھی۔ عافیہ صدیقی ڈاکٹر تھی، پڑھی لکھی تھی اس کے باوجود اس کے ذہن کی پراگندگی نہ گئی اور اس نے خود کو دہشتگردانہ سرگرمیوں میں ملوث کرلیا۔ جب عافیہ صدیقی پکڑی گئی تو پاکستان میں اس کو ایک معصوم اور مظلوم عورت کے طور پر پیش کیا گیا اور پاکستانی عوام اس کیلئے آنسو بہاتے نہ تھکتی۔ جبکہ انٹرنیشنل میڈیا پر عافیہ صدیقی لیڈی القاعدہ کے نام سے مشہور تھی۔ آج بھی دنیا بھر میں جہاں بھی عافیہ صدیقی کا نام آتا ہے اس کے ساتھ پاکستان بھی لازماً آتا ہے، کیونکہ بہرحال وہ پراڈکٹ تو پاکستان کی ہی ہے۔ میرے خیال میں اب حکومت کو عقل کے ناخن لینے چاہئیں اور عافیہ صدیقی کے ساتھ اعلان لاتعلقی کرنا چاہئے۔ وہ امریکی شہری تھی اور اپنے ہی ملک کے خلاف دہشتگردانہ سرگرمیوں میں ملوث پائی گئی اور اس کو امریکی عدالت میں ٹرائل کے بعد سزا دے دی گئی۔ اب وہ جانے اور امریکہ جانے۔۔ ہمیں اس سے کیا لینا دینا۔
ذرا ہماری قوم کا معیار اور سوچ ملاحظہ کیجئے کہ ہم ڈاکٹر عبدالسلام جیسے نوبل انعام یافتہ سائنسدان کو تو ڈس اون کرتے ہیں جو کہ پاکستان کیلئے قابلِ فخر اثاثہ ہے اور عافیہ صدیقی جیسی سزا یافتہ دہشتگرد کو ہم اون کرتے ہیں اور اس کے نام کے جھنڈے لہراتے ہیں جو کہ دنیا بھر میں پاکستان کیلئے شرمندگی کا باعث بنی۔۔ اسی سے اندازہ لگالیں کہ ہمارے معاشرے میں دورِ جدید سے کس قدر مختلف مخلوق رہتی ہے۔۔