Muslimonly
Senator (1k+ posts)

پاکستانی میڈیا کا رنگ زرد ہے
مصنف: ڈاکٹر جواد احمد خان
Link:
http://www.qalamkarwan.com/2012/11/yellow-journalism-of-pakistani-media.html
ابھی میڈیا پر عوامی لعن طعن کا سلسلہ تھما ہی تھا کہ ایک اور واردات ہوگئی جب ایکسپریس ٹی وی کے صف اول کے میڈیا شاہ سوار اور پروگرام ٹو دی پوائنٹ کے میزبان شاہ زیب خانزادہ نے اپنے پروگرام میں امیر جماعت اسلامی سید منور حسن صاحب کو رگڑنے کی کوشش کی۔ میں نے پورا انٹرویو دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ انٹرویو ایک صحافتی بدمعاشی اور لفنگے پن کے سوا کچھ نہیں تھا اور امیر جماعت اسلامی نے بر وقت اور صائب فیصلہ کیا کہ انٹرویو کا سلسلہ ختم کردیا جائے۔
پاکستانی میڈیا پرسنز کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تقریباً تمام میڈیا پرسنز کسی نا کسی ایجنڈا کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں کسی کو امریکی این جی اوز کے لیے دی جانے والی امداد میں سے حصہ مل رہا ہے تو وہ بڑی ذہانت سے امریکہ کے لیے کی جانے والی مذمتوں کا رخ موڑنے میں لگا ہوا ہے۔ کسی کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی باربرداری کا شرف حاصل ہے تو کوئی آرمی کے لیے کمانڈو بنا ہوا ہے۔اس پروگرام میں نزاع طالبان ،حکیم اللہ محسود ، پاکستان آرمی پر حملوں اور شمالی وزیرستان پر پیدا ہوا جب شاہ زیب خانزادہ نے امیر جماعت کا موقف سننے اور تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے مسلسل یہ کوشش کی کسی طرح سید منور حسن صاحب کی کوئی تضاد بیانی یا غلط بیانی کو پکڑا جائےیا انہیں کسی طرح تحریک طالبان پاکستان کا ہمدرد ثابت کردیا جائے۔
جماعت اسلامی کی قیادت بشمول سابق امیر اس معاملے میں دوٹوک موقف رکھتے ہیں اور یہ موقف اس طرح سے ہے کہ؛
٭ وار آن ٹیرر ہماری جنگ نہیں ہے۔ اس جنگ میں سابق ڈکٹیٹر اور غدار پاکستان نے پوری قوم کو محض اپنے اقتدار کو طول دینے اور فوج کے لیے مالی فوائد حاصل کرنے کے لیے جھونکا ہے۔
٭ افغانستان کے طالبان حقیقی جہاد کر رہے ہیں اور کسی کے لیے بھی نہایت مشکل ہے کہ انکی جدوجہد کو فساد قرار دے سکے۔
٭ پاکستانی طالبان کوئی ایک گروپ نہیں ہے بلکہ یہ افغانستان ، بھارت، امریکہ اور خود پاکستان کے لیے پراکسی وار لڑنے والوں کے گروپ کا ایک مشترکہ نام ہے۔ جو اگرچہ نام تو تحریک طالبان کا استعمال کرتے ہیں لیکن انکے ایجنڈے الگ الگ ہیں۔
٭ تحریک طالبان پاکستان کا نام پاکستان آرمی کے حمایت یافتہ گروپ بھی ایک خاص قسم کا منظر نامہ قائم رکھنے کے لیےاستعمال کر رہے ہیں تاکہ اندرون ملک اور بیرون ملک پاکستان آرمی کی اہمیت ختم نا ہوسکےاور ڈالرز کی آمد کے سلسلے نا رک سکیں۔
٭ ایک اسٹیج ڈرامہ سجا کر تحریک طالبان پاکستان کو ایک خون آشام درندے کے رول دیا گیا ہے اور بڑی شدومد سے انہیں دین پر پوری طرح عمل کرنے کا لازمی نتیجہ بتایا جا رہا ہے تاکہ عوام الناس کے دلوں میں اس گروہ کے حوالے موجود خوف سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ اسکے مخالف بھانت بھانت کے نظریے اور بین الاقوامی ایجنڈے رکھنے والے خود کو گڈمین ثابت کرکے اور لوگوں کے اعصابی ہیجان سے فائدہ اٹھا کر اس ملک میں جہاد اور دین کی بات کرنے والوں کو مسجدوں اور مدرسوں تک محدودکرسکیں۔اور دین کی بات کرنے والوں کو طالبان کے ساتھ بریکٹ کرکے بڑی آسانی سے اپنے اپنے ایجنڈوں پر عمل کرسکیں۔
٭ چنانچہ جب بھی میڈیا پر طالبان کے حوالے سے بات ہوتی ہے تو وہ درحقیقت صرف طالبان کی بات نہیں ہوتی بلکہ ایک طرح کی بدمعاشی ، دباؤ میں لانے والی حکمت عملی اور ایک شٹ اپ کال ہوتی ہے۔جسے جماعت اسلامی خوب اچھی طرح سمجھتی ہے اور اسی مناسبت سے اپنا ردعمل ظاہر کرتی ہے۔
خواتین و حضرات یہ موقف کوئی انوکھا یا نرالا موقف نہیں ہے ۔ جماعت اسلامی سے باہر بہت سے لوگ اور خاص طور پر پشتون عوام کا موقف اس سے ملتا جلتا ہے۔ اس سے اختلاف کرنے والوں کی کمی نہیں ہے تو اس سے اتفاق کرنے والے بھی کم نہیں ہیں۔یہ کوئی ایسا موقف نہیں تھا کہ شاہ زیب خانزادہ کی سمجھ میں نا آتا۔ لیکن اسکے باوجود جس طرح اس انٹرویو میں صحافتی اخلاقیات کی دھجیاں اڑائی گئیں وہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔
اب کچھ باتیں شاہ زیب خانزادہ کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا۔
٭ آپ نے جب بھی طالبان کے حوالے سے سوال کیا تو وہ سوال کم اور دھمکی زیادہ محسوس ہوا۔ اور یہ ایک صحافی اور میڈیا پرسن کے لیے سب سے زیادہ لو پوائنٹ ہوتا ہے کہ اس کے سامنے بیٹھا ہوا شخص اسے لفنگا اور بلیک میلر سمجھنے لگے۔
٭ وار آن ٹیرر کو لبرل فاشسٹوں کے یہاں تو تقدیس حاصل ہوسکتی ہے سب پاکستانیوں کے نزدیک نہیں۔اس وار آن ٹیرر نے پچھلے دس سالوں میں پاکستان کے ساتھ کیا ہے اس پر کوئی بھی دین اور وطن سے محبت کرنے والا اطمینان کا اظہار نہیں کرسکتا
٭ وار آن ٹیرر پر پاکستانی سیاستدانوں کو رگڑنے سے بہتر ہے کہ ان لوگوں سے سوال کیے جائیں کہ جن کے ہاتھوں میں اصل طاقت اور اختیار ہے۔کیا شاہ زیب خانزادہ یا کسی اور میڈیا کے چیمپیئن نے کبھی پاکستان کے بگ باسز کو رگڑنے کی ہمت یا کوشش کی ہے؟ پاکستانی میڈیا نے بگ باسز کو کیوں کلین چٹ دی ہوئی ہے؟
٭ رٹو طوطے کی طرح سرکاری کہانیوں کو رٹنے کی بجائے کیا شاہ زیب یا انکے کسی بھائی بند نے تحقیقاتی رپورٹنگ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ کیا شاہ زیب یا میڈیا سے تعلق رکھنے والے کسی بھی دوسرے شخص نے آئی ایس پی آر کی پریس ریلیزوں اور نام نہاد طالبان کی ویڈیوز سے ہٹ کر قبائلی علاقے میں جا کر خود سے حقائق معلوم کرنے کی کوشش کی ہے؟
٭ پاکستان کے صحافی خاص طور پر سلیم صافی آئے دن یہ بتلاتے رہتے ہیں کہ شدت پسندوں اور القائدہ کے انتہا پسندوں کی بڑی تعداد ڈرون حملوں میں ماری گئی ہے۔ کیا آپ نے کبھی یہ بتلانے کی کوشش کی ہے کہ ان حملوں میں معصوم جانوں کا کتنا اتلاف ہوا ہے؟ اور ان ڈرون حملوں نے قبائلی عوام کی معاشرت، روز مرہ زندگی اور انکی روز مرہ کی زندگیوں پر کس طرح کے اثرات چھوڑے ہیں؟
٭ آپ کیوں یہ چاہتے ہیں کہ جو چیز میڈیا کے ذریعے سامنے لائی جا رہی ہے اسے ہر شخص تسلیم کرلے اور کسی بھی قسم کے فاؤل پلے کے امکانات کو یکسرنظر انداز کردیا جائے۔
٭ کیا شاہ زیب خانزادہ مروجہ صحافتی اخلاقیات سے بالکل لاعلم ہیں؟ وہ ایک انٹرویو کو ٹرائل اور خود کو وکیل استغاثہ اور جج کیوں سمجھتے ہیں؟ کیوں وہ صحیح اور غلط کا فیصلہ عوام اور ناظرین پر نہیں چھوڑ دیتے جو کہ مروجہ طریقہ کار ہے۔
٭ ایک حقیقی صحافی مشکل سوالات کرتا ہے ۔ نا ہی وہ جرح کرتا ہے اور نا ہی سامنے والے کے منہ میں بات ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ڈھٹائی کے ساتھ بار بار ایک سوال کو دہرانا زرد صحافت کے زمرے میں آتا ہے۔
٭آپ کے کاندھوں پر سچ کو سامنے لانے کی بھاری ذمہ داری ہے اور آپ کا حال اس کھلاڑی کی طرح ہے جو مخالف کھلاڑی سے بال چھیننے کی بجائے تماشائیوں سے الجھنا شروع کردے۔ جو اس جنگ میں فریق ہیں ان سے تو آپ کوئی سوال کر ہی نہیں پاتے اور جن لوگوں کا اس جنگ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ان پر آپ خوب جرح کرتے ہیں۔ کیا یہی آپ کی صحافت ہے؟
امیر جماعت اسلامی نے بروقت اور صائب فیصلہ کیا اور اس انٹرویو کو ختم کردیا ۔ میرے نزدیک یہ سب سے بہتر کاؤنٹر اسٹریٹیجی ہے۔ اس صحافیانہ لفنگے پن کا اس سے بہتر کوئی علاج ہو ہی نہیں سکتا کہ ایسے لوگوں کو جو کسی ایجنڈا کو لے کر میڈیا پر آرہے ہیں انہیں ان تمام سہولتوں اور رعایتوں سے محروم کردیا جائے کہ جو ایک حقیقی صحافی کے لیے مخصوص ہیں۔