پارٹی پریشرپراستعفیٰ دینے والا ملک کیلئےکیاسٹینڈ لےگا؟اسلام آباد ہائیکورٹ

11ihcparteleltinnsnsn.jpg

کراچی سے پاکستان تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی عبدالشکور شادکے استعفیٰ منظوری کیخلاف درخواست کی سماعت

اسلام آباد ہائیکورٹ میں آج کراچی سے پاکستان تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی عبدالشکور شادکے استعفیٰ منظوری کیخلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل پر برہم ہوئے اور پوچھا کہ کیا آپ نے استعفیٰ پر دستخط کیے تھے؟ وکیل نے بتایا پارٹی دبائو میں آکر استعفیٰ پر دستخط کیے تھے۔


چیف جسٹس کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ استعفیٰ دے کر مکر جانا کیا پاکستان کی عوام کے ساتھ مذاق نہیں ہے؟

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ دستخط بس ایسے ہی کر دیئے گئے؟ یہ کوئی مذاق ہے؟ آپ کو لوگوں نے اپنے ووٹوں سے منتخب کیا اور آپ کیا کر رہے ہیں؟ آج یہ کیا ہے، کل ملک کیلئے کیا کرینگے؟ آرٹیکل 6 پر کیسے پورا اتریں گے؟ 9 مارچ کا آرڈر تھا آپ نے استعفیٰ سے انکار کیا وہ لیٹر کہاں ہے؟ وکیل نے جواب دیا 29 جولائی کو استعفیٰ منظور ہوا اور ستمبر میں اس عدالت نے فیصلہ معطل کر دیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ دستخط اصلی تھے یا نہیں؟ وکیل نے کہا دستخط اصلی تھے لیکن استعفیٰ پارٹی پالیسی پر دیا تھا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے استعفیٰ پر پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی سے کچھ نہیں ہوتا وہ تو عدم اعتماد اور منی بجٹ بل پر ہوتا ہے۔

استعفیٰ دے کر مکر جانا کیا پاکستانی عوام کے ساتھ مذاق نہیں ہے؟ پارٹی پریشر پر استعفیٰ دیدیا تو ملک کیلئے کیسے سٹینڈ لیں گے؟ آپ نے سسٹم کو فن سمجھ رکھا ہے جس کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔ وکیل نے کہا ہم جانتے ہیں اصل سٹیک ہولڈرز عوام ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے مذاق تو پھر بھی عوام کے ساتھ ہی ہو رہا ہے۔

وکیل درخواست گزار نے کہا پارٹی پریشر میں آکر استعفیٰ دیدیا لیکن سپیکر قومی اسمبلی نے کہا جواب سے مطمئن نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ انہوں نے ایسا کوئی لیٹر جاری کیا؟ اور 3 مارچ 2023ء کے لیٹر کو ریکارڈ پر لانے کی ہدایت کر دی۔ چیف جسٹس کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ استعفیٰ کیلئے دبائو پر پارٹی لیڈرشپ کیخلاف دعویٰ دائر کریں، رٹ میں شہادتیں نہیں لے سکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ عوامی نمائندے ہیں جنہوں نے پورے ملک کی عوام کیلئے قانون سازی کرنی ہوتی ہے لیکن ہم نے ہرچیز کو مذاق بنا کر رکھا ہوا ہے۔ کیا اس پر سب کو شاباش دینی چاہیے؟ آپ قبول کریں آپ نے غلط کیا؟ عدالت نے استعفیٰ منظور کیلئے سپیکر قومی اسمبلی کا آرڈر طلب کرتے ہوئے سماعت 28 اپریل تک کیلئے ملتوی کر دی۔

چیف جسٹس کا دوران سماعت اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ قتل کی اپیلیں زیرالتوا ہیں لیکن ہمارے پاس ایسے کیسز آ جاتے ہیں جس سے عدالت کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ وکیل نے کہا ہم اس عدالت کے حکم پر عملدرآمد کیلئے آئے ہیں جو سپیکر قومی اسمبلی نے نہیں مانا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی پر تنقید کرنے سے پہلے آپ کو اپنا کنڈکٹ درست کرنا چاہیے۔