عقیدہ اگر قرآن و حدیث کے مطابق ہو تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے اگر کسی نا پسندیدہ شخصیت کا وہی عقیدہ ہو
اس طرح تو میں کہونگا کے تم بھی وہی عقیدہ رکھتے ہو جو میرا، ریما اور زرداری کا ہے
تو کیا تمہارا عقیدہ اس بنیاد پر غلط ہوگیا؟؟
جی ہاں یہ پوسٹ کئی دفعہ کاپی پیسٹ ہو چکی ہے
اور پہلے بھی اس پر گفتگو ہوچکی ہے
بار بار پڑھنے کا کوئی مقصد نہیں
آپ نے کہا میں تین سوال کرونگا مگر یہ دوسرے نمبر پر سوال ہے یا کمنٹس ..میں سمجھا نہیں
آپ بات کریں انشاءللہ اچھے انداز میں ہی بات کرونگا
اور فکر نا کریں بھاگنا کیوں ہے؟؟ قرآن و حدیث میری دلیل ہے ... بھاگے وہ جسے اپنے فقہ یا مسلک کا دفاع کرنا ہو
قرآن و حدیث کے دفاع میں بھاگا نہیں جاتا
قبر کے بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کا عمومی حکم ہے کے اسے پکا کرنا جائز نہیں
اور قبر زمین سے ایک بالشت بلند ہو جیسا کے میں پہلے ہی صحیح احادیث نقل کرچکا ہوں
صحابی اپنا عمل بھی بتا رہے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کا قول بھی
مسلم شریف میں حضرت ثمامہ بن شفی ؓ کی روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت فضالہ ابن عبید کے ساتھ ملک روم میں
بردوس نامی جگہ میں تھے تو ہمارا ایک ساتھی فوت ہو گیا (تو ہم نے جنازہ پڑھکر اسے دفنا دیا ) تو حضرت فضالہ ؓ نے
اسکی قبر کو زمین کے ساتھ برابرکرنے کا حکم دیا ۔ پھر فرمایا کہ
سمعت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یامر بتسویتھا
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبر کو زمین کے ساتھ برابر کرنے کا حکم سنا ۔
(مسلم فی الجنائز)
اب رہی یہ بات کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں کیوں دفن کیا گیا؟؟؟
تو اس کی دلیل بھی احادیث میں موجود ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے
جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کی وفات ہوئی تو آپ کو دفن کرنے کے بارے میں صحابہ کرام میں اختلاف پیدا ہوا
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ
ہ"میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم سے یہ بات سنی ہے
جو مجھے آج تک یاد ہے کہ أَنَّ الْاَنْبِيَاءَ يَقْبُرُونَ حَيْثُ يُقْبَضُوْنَ
اللہ تعالیٰ جس نبی کو جہاں دفن کرنا پسند فرماتے ہیں
وہیں اس کی روح قبض فرماتے ہیں"ہ
لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کو آپ کے بستر والی جگہ پر دفن کیا گیا
ترمذی کتاب الجنائز باب ٣٣ حدیث ١٠١٨ابن ماجہ ٤٩٨/١ابن سعد ٧١/٢موطا ٢٣٠/١
اوپر کی تفصیل سے واضح ہے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے دور میں کوئی ایسا کام نا ہوا جو خلاف شرع ہو مگر
افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ٦٧٨ ہجری میں پہلی دفعہ سلطان منصور بن قلاوون صالحی نے اسکی بنیاد رکھی
اب جس چیز کا صحابہ کے دور سے کوئی تعلق نہیں اسکی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟؟
جو گنبد صحابہ کے دور کے سینکڑوں سال بعد تعمیر ہوا اسکو مقدس ماننے کے لئے ہمارے پاس کیا دلیل ہے؟؟
اب اس گنبد کو مسمار کرنا کیسا ہوگا؟؟
تو اسکا جواب یہ ہے کہ ایسے کسی بھی فعل سے انتہائی فتنے کا ڈر ہے اس لئے اس نازک معاملے پر سکوت اختیار کرلیا گیا ہے
اور الحمدللہ یہ موقف بلکل درست ہے