Amal
Chief Minister (5k+ posts)
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
وَالْعَصْرِ ,إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ, إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
زمانے کی قسم انسان درحقیقت میں بڑے خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔
سورة العصر
اگر لوگ اس سورۃ پر غور کریں تو وہ اسی میں پوری رہنمائی اور کامل ہدایت پالیں گے ۔ (تفسیرابن کثیر)
حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگر لوگ اس سورۃ کو غور و تدبر سے پڑھیں ، سمجھیں اور عمل کریں تو صرف یہی ایک سورۃ کافی ہے انکی دنیا اور آخرت سنوارنے کیلئے ۔
اصحاب فلاح و نجات
عصر سے مراد زمانہ ہے ۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے زمانے کی قسم کھائی ہے جس میں انسان نیکی بدی کے کام کرتا ہے ۔ انسان نقصان میں اور ہلاکت میں ہے اگر اس نے یہ کام نہیں کئے ۔وہ کام ہیں ، ایمان لانا ، نیک اعمال کرنا ، حق بات کرنا اور صبر کی تلقین کرنا ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے قسم کھا کر ان احکام کی تاکید کی ہے اور نہ کرنےوالوں کو قسم کے زریعے وعید دی گئی ہے ۔
اس کے بعد اللہ سبحانہ وتعالی بیان فرماتے ہیں
اس نقصان سے بچنے والے وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان ہو ، اعمال میں نیکیاں ہوں ، حق کی وصیتیں کرنے والے ہوں یعنی انصاف کرتے ہوں اور اس کی تاکید کرتے ہوں ، نیکی کے کام کرنے اور حرام کاموں سے رکنے کی ایک دوسرے کو تاکید کرتے ہوں ۔ حدیث نبوی ﷺ ہے
تم میں سے جو شخص خلاف شریعت کام دیکھے تو اپنے ہاتھوں سے اس کی اصلاح کرے اور اگر طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اس کا رد کرے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے اس کو برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
قسمت کے لکھے پر مصیبتوں پر برداشت اور صبر کرتے ہوں اور دوسروں کو بھی اسکی تلقین کرتے ہوں ۔ ساتھ ہی بھلی باتیں کرنے والے اور ان کا حکم کرنے والے ہوں ، بری باتوں اور حرام کاموں سے بچتے ہوں اور بچنے کی ایک دوسرے کو تاکید کرتے ہوں ، قسمت کے لکھے پر، مصیبتوں پر برداشت اور صبر کرتے ہوں اور دوسروں کو بھی اسی کی تلقین کرتے ہوں ۔ یہ ہیں وہ لوگ جو اس صریح نقصان سے مستثنیٰ ہیں اور دنیا وآخرت میں فلاح پانے والے ہیں ۔