plz mods don,t del or merge
یوگنڈا کے تپتےگرم موسم میں جہاں ھر ترف گرمی تھی ۔وھیں پہاڑوں میں گھری ایک چھوٹی سی وادی تھی جس کی آب و ھوا کافی مزاج کو بھا نے والی تھی۔ وھاں ستر کی دبآئ میں وادی کے حبشی گھرانے مین ایک نو مولود بچے کی پیداءش ھوتی ھے جس کی بعد خوبصورت وادی اجڑ جاتی ھے۔وادی والے بچے کے منحوس پن سے تنگ آ کر بچے اور گھر والوں کو وادی سے نکال دیتے ھیں۔ قسمت کا مارا یہ خاندان سفر کی صعوبتوں کو جھیلتا ہوا دارالحکومت پہنچ جاتا ھے۔۔۔۔
قارءین یہاں سے شروع ھوتی ہے اس منحوس بچے کی کہانی۔۔۔۔۔۔
ماں باپ روزی کمانے میں مشغول رہتے ھیں بچے کی تربیت پر دھیان نہیں دے سکتے ۔ وقت گزرتا گیا بچہ سنء بلوغت کو پہنچ جاتا ھے ایک دن سکول جاتے ھوے بچے کو ایک آدمی مل جاتا ھے وہ بہلا پھسلا کر بچے کو سنسان علاقے میں لے جاتا ھے ۔ بچہ پہلے گھبراتا ھے لیکن پھر وہ انجان آدمی بچے کو پیسوں کا لالچ دے کر منا لیتا ھے۔ آ گے کیا ھوتا ھے اس سے قطع نطر یہ بتانا چاھوں گا کہ اس نازک صورت حال کے بعد منحوس بچے کو حرام کے پیسے کھانے کی عادت پڑتی ھے۔ضمیر منحوس بچے کو ملامت کرتا لیکن پیسے کی چمک ضمیر کی آواز کو دبا دیتی۔۔۔
وقت کی بے رحم موجوں نے منحوس بچے کو حرامخور اور ضمیر فروش بنا دیا۔۔۔ منحوس بچہ اعلی تعلیم کے لیے پاکستان آ گیا ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ٹیچنگ کی اور صحافت سے منسلک ھو گیا۔اہل پاکستان کو ایمانداری خودداری اور نجانے کیا کیا سبق دیے۔ بھولی عوام منحوس حرامخور کی چکنی چپڑی باتوں میں آ گئ لیکن عوام کو کیا پتا تھا کہ چند پیسوں کی خاطر خود پر ظلم کروانے والا مسیحا نہیں ھو سکتا۔۔۔انہی دنوں ملک پاکستان میں ضمیروں کے سوداگر سے منحوس حرامخور کی ملاقات ھو گئ۔۔۔
اس سوداگر نے بچے پر ظلم تو نہیں کیا(کیونکہ سوداگر بزات خود بادشاہ آدمی تھا)لیکن منٹوں میں منحوس کے ضمیر کو ایسے خریدا جیسے طواءف کی عزت کو با آسانی خریدا جا سکتا ھےبچپن کی تلخ تجربوں اور حرام کے پیسے کی چمک نے صحافت کے افق پر ابھرتے ھوے ایک اور حرامخور کو ایکسپوز کردیا۔۔۔
قارئین کسی کو کیا پتا تھا کہ ایک منحوس بچہ جس کو اپنے ھی وطن سے نکالا گیا اور بچپن میں ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاے گے وہ بڑا کر ایک کامیاب صحافی بنے گا اور تھوڑے سے پیسوں کے لیے ظلم کی صعوبتوں کو جھیلنے والا ایک دن کروڑوں میں کھیلے گا۔۔۔۔۔
جی ھاں قارئین آپ نے صحیح پہچانا یہ کہانی کسی اور کی نہیں یہ میری ھی کہانی ھے ۔۔۔۔
۔میں ھوں جیب چوہدری
یوگنڈا کے تپتےگرم موسم میں جہاں ھر ترف گرمی تھی ۔وھیں پہاڑوں میں گھری ایک چھوٹی سی وادی تھی جس کی آب و ھوا کافی مزاج کو بھا نے والی تھی۔ وھاں ستر کی دبآئ میں وادی کے حبشی گھرانے مین ایک نو مولود بچے کی پیداءش ھوتی ھے جس کی بعد خوبصورت وادی اجڑ جاتی ھے۔وادی والے بچے کے منحوس پن سے تنگ آ کر بچے اور گھر والوں کو وادی سے نکال دیتے ھیں۔ قسمت کا مارا یہ خاندان سفر کی صعوبتوں کو جھیلتا ہوا دارالحکومت پہنچ جاتا ھے۔۔۔۔
قارءین یہاں سے شروع ھوتی ہے اس منحوس بچے کی کہانی۔۔۔۔۔۔
ماں باپ روزی کمانے میں مشغول رہتے ھیں بچے کی تربیت پر دھیان نہیں دے سکتے ۔ وقت گزرتا گیا بچہ سنء بلوغت کو پہنچ جاتا ھے ایک دن سکول جاتے ھوے بچے کو ایک آدمی مل جاتا ھے وہ بہلا پھسلا کر بچے کو سنسان علاقے میں لے جاتا ھے ۔ بچہ پہلے گھبراتا ھے لیکن پھر وہ انجان آدمی بچے کو پیسوں کا لالچ دے کر منا لیتا ھے۔ آ گے کیا ھوتا ھے اس سے قطع نطر یہ بتانا چاھوں گا کہ اس نازک صورت حال کے بعد منحوس بچے کو حرام کے پیسے کھانے کی عادت پڑتی ھے۔ضمیر منحوس بچے کو ملامت کرتا لیکن پیسے کی چمک ضمیر کی آواز کو دبا دیتی۔۔۔
وقت کی بے رحم موجوں نے منحوس بچے کو حرامخور اور ضمیر فروش بنا دیا۔۔۔ منحوس بچہ اعلی تعلیم کے لیے پاکستان آ گیا ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ٹیچنگ کی اور صحافت سے منسلک ھو گیا۔اہل پاکستان کو ایمانداری خودداری اور نجانے کیا کیا سبق دیے۔ بھولی عوام منحوس حرامخور کی چکنی چپڑی باتوں میں آ گئ لیکن عوام کو کیا پتا تھا کہ چند پیسوں کی خاطر خود پر ظلم کروانے والا مسیحا نہیں ھو سکتا۔۔۔انہی دنوں ملک پاکستان میں ضمیروں کے سوداگر سے منحوس حرامخور کی ملاقات ھو گئ۔۔۔
اس سوداگر نے بچے پر ظلم تو نہیں کیا(کیونکہ سوداگر بزات خود بادشاہ آدمی تھا)لیکن منٹوں میں منحوس کے ضمیر کو ایسے خریدا جیسے طواءف کی عزت کو با آسانی خریدا جا سکتا ھےبچپن کی تلخ تجربوں اور حرام کے پیسے کی چمک نے صحافت کے افق پر ابھرتے ھوے ایک اور حرامخور کو ایکسپوز کردیا۔۔۔
قارئین کسی کو کیا پتا تھا کہ ایک منحوس بچہ جس کو اپنے ھی وطن سے نکالا گیا اور بچپن میں ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاے گے وہ بڑا کر ایک کامیاب صحافی بنے گا اور تھوڑے سے پیسوں کے لیے ظلم کی صعوبتوں کو جھیلنے والا ایک دن کروڑوں میں کھیلے گا۔۔۔۔۔
جی ھاں قارئین آپ نے صحیح پہچانا یہ کہانی کسی اور کی نہیں یہ میری ھی کہانی ھے ۔۔۔۔
۔میں ھوں جیب چوہدری
Last edited by a moderator: